جن بنیادی آداب کو پوری طرح زیبائش ِزندگی بنانے کے لئے صوفیاءکرام کوشاں رہے ان میں احترام اور توجّہ سے تلاوت اور سماعتِ قرآن ہیں جو کہ تفہیمِ قرآن کی عمیق گہرائیوں کے سفر کے بہترین معاون ہیں- ابو نصر السراجؒ فرماتے ہیں:
’’اہلِ علم میں صاحبِ فہم یہ جانتے ہیں کہ وہ راستہ جس کے حصول کے لئے قرآن مجید ہماری رہنمائی فرماتا ہے اس سے صحیح طرح منسلک ہونے کیلئے راہ صرف تدبّر، تفکر، تیقظ، تذکّر اور تلاوت قرآن کے وقت حضوری قلب سے کھلتی ہے- ان کی یہ تفہیم الله پاک کے اس فرمان سے ہے : ’’یہ کتاب برکت والی ہے-جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں‘‘-[1] تدبّر، تفکر اور جمعیت صرف قلب کی حضوری سے ہی ممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:’’بے شک اس میں یقیناً انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہے(یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے) یا کان لگا کرسُنتا ہے (یعنی توجہ کو یکسو اور غیر سے منقطع رکھتا ہے)‘‘[2]- یعنی کہ جس وقت کوئی حضوری قلب کے ساتھ حاضر ہو‘‘- [3]
حضوری قلب کے ساتھ سماعت کے حصول کیلئے صوفیاء کرام نے بہت سارے متفرق طریقوں سے کوشش کی- ایک طریقہ انہوں نے اس امر کی مسلسل یاد دہانی میں پایا کہ وحی الٰہی کی اصل نہایت عظیم اور ہماری عقلی حسّوں کے جہان سے ماورا ہے-امام جعفر صادقؒ سے منسوب ایک حوالہ کثرت سے بیان کیا گیا ہے جس میں آپؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ کی قسم! الله پاک نے اپنے کلام میں اپنی تجلیات ظاہر فرما دیں ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں‘‘-[4]
سلف صالحین میں سے ایک شخصیّت کے بارے میں اپنی تصنیف ’’قوت القلوب‘‘ میں حضرت ابو طالب المکّیؒ رقم طرازہیں کہ :
’’وہ ایک سورت کی تلاوت کرتے اگر ان کا دل اس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ دوبارہ تلاوت کرتے‘‘-[5]
حضرت ابو سعید الخرّاز(رضی اللہ عنہ) (المتوفی:899) سے منسوب ایک اور طریقہ حضرت ابو نصر السراجؒ نے اپنی تصنیف ’’کتاب اللمع‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:
’’(عام )سننے کے اور حضوری کے ساتھ سننے کے تین طریقے ہیں:پہلاطریقہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو اس طرح سنا جائے جیسے آقا پاک (ﷺ) تمہارے لئے تلاوت فرما رہے ہیں- پھر اس سے آگے بڑھ کر اس طرح سنا جائے جیسے حضرت جبرائیلؑ آقا پاک(ﷺ) کے لئے تلاوت کر رہے ہوں کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور بے شک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے-اسے روح الامین (جبرائیل (علیہ السلام) لے کر اترا ہے-آپ (ﷺ)کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں‘‘[6]- پھر آپ کو اس سے اگلے مقام پر جانا چاہیے اور پھر اس طرح ہو کہ جیسے آپ اللہ عزوجل سے سن رہے ہوں- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے‘‘-[7]مزید اللہ پاک کا فرمانِ ذیشان ہے:’’اس کتاب کا اتارا جانا اﷲ کی طرف سے ہے جو بڑی عزت والا، بڑی حکمت والا ہے‘‘ [8] اور یہ اس طرح ہو کہ گویا آپ اللہ رب العزت سے سن رہے ہوں- جیسا کہ (اللہ پاک کافرمان مبارک ہے ):’’حٰم-اِس کتاب کا اتارا جانا اللہ کی طرف سے ہے جو غالب ہے، خوب جاننے والا ہے‘‘-[9]فہم حضوری قلب سے حاصل ہوتا ہے جب آپ اس طرح سنیں گے کہ جیسے آپ الله پاک سے سن رہے ہیں اور آپ کے وجود پر دنیا کا قبضہ نہ ہو اور اپنی مشاہدے کی قوّت، پاکیزگیِ ذکر، جم الھم ، حسنِ آداب، پاکیزگیِ سرّ اور صدق التحقیق سےسماعت کررہے ہوں‘‘-[10]
اس ترکیب کے نتائج کو انتہائی پُر لطف اور شاندار بیان کیا گیا ہے- ابو طالب المکّیؒ ایک محقق کے الفاظ کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’مَیں تلاوت قرآن کرتا تھا لیکن لطفِ خاص حاصل نہ ہوتا تھا پھر میں نے اس گمان سے تلاوت کرنا شروع کیا کہ جیسے رسول الله (ﷺ) اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے لئے تلاوت فرما رہے ہیں اور میں بھی سن رہا ہوں پھر میں نے اس سے اگلا مقام حاصل کیا اور تلاوت میں اس طرح مشغول ہوا جیسے میں اسے اس طرح سن رہا ہوں کہ جبرائیلؑ سیدنا رسول الله (ﷺ) کو پیش فرما رہے ہوں- پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ایک اور مقام عطا فرمایا اور اب میں ایسے سنتا ہوں جیسے کلام کرنے والے سے براہِ راست سن رہا ہوں- یہاں میں نے وہ لطف و عنایات پائیں کہ جن کے بغیر میں رہ نہیں سکتا‘‘-[11]
پھر حضرت ابو طالب المکّی (رضی اللہ عنہ) حضرت جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دورانِ نماز آپ(رضی اللہ عنہ) پر ایک کیفیّت طاری ہوئی اور آپ (رضی اللہ عنہ)بے ہوش ہو گئے- آپؓ کے ہوش میں آنے پر جب آپؓ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؓ نےارشاد فرمایا:
’’میں ایک آیت اپنے دل میں بار بار دوہراتا رہا جب تک کہ اسے صاحبِ کلام ذات سے نہ سن لیا اور جب میں نے اس کی طاقت دیکھی تو میرا وجود اس کی تاب نہ لا سکا‘‘-[12]
حضرت جعفر الصادق(رضی اللہ عنہ) کے اس واقعہ کو الکاشانیؒ بھی بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنے تجربات کو اس طرح جوڑتے ہیں:
’’میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کرتا اور اپنے ایمان کی روشنی سے اس کے معانی پر تدبّر کرتا، انتہائی ذوق اور توجّہ کے باوجود میرا سینہ سخت اور قلب بے چین رہتا-نہ میرا دل اس کے معانی سے کھلتا اور نہ ہی میرا رب مجھے ان معانی سے دور کرتا؛ اور پھر آخر کار مجھے ان معانی سے آشنائی نصیب ہوئی- مجھے ان مطالب کے پیالے اور جام کو چکھنے کا لطف نصیب ہوا- پھر میری روح بیدار ہوئی، میرا سینہ کھل گیا، میری عقل کو کشادگی نصیب ہوئی، قلب کو وسعت ملی، میرے اندر کے انتہائی راز کو جلا ملی، میرے وقت اور حال کو تازگی ملی اور میری روح ان (مطالب) کے کھُلنے سے پُر نور ہو گئی- ایسے لگتا تھا جیسے شام و سحر ایک تسلسل کے ساتھ ہر آیت کے مطالب سے پردے ہٹائےجا رہے ہوں، اتنے زیادہ کے جن کو بیان کرتے کرتے میری زبان تھک جائے- کوئی طاقت ان مطالب کا احاطہ اور شمار نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی طاقت ان مطالب کو سرِ عام کھولنے اور عیاں کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے‘‘-[13]
اپنی تصنیف ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں امام غزالیؒ نے بہت سے دوسرے صوفی آداب کے ساتھ حضورئ قلب سے مطالعہ کے بہت سے طریقوں کو ایک منظم انداز میں تحریر فرمایا ہے- ان کے اصل نکات آپؒ نے حضرت ابو طالب مکیؒ کی تصنیف’’قوت القلوب‘‘[14] سے اخذ کئے ہیں اور انہیں مزید وسعت دیتے ہوئے تلاوت قرآن کے دس ظاہری آداب اور دس اعمال باطن(اعمال الباطن فی تلاوت القرآن)[15] میں منظم فرمایا - ظاہر کے آداب،جنہیں یہاں بیان نہیں کیا جائے گا، ان کا تعلق قاری کے وجودِ ظاہر سے ادا ہونے والے امور سے ہے،مثلاً کہاں اور کب اس نے تلاوت کرنی ہے، مقدار، رفتار، تلاوت کی آواز اور خوبصورتی؛ اور دورانِ تلاوت اشک باری کی تجویز ، تلاوت میں دعا و سجود اور قرآن کریم کو کیسے لکھا جائے -[16] اعمالِ باطن کو آپؒ یوں بیان فرماتے ہیں:
- قرآن کریم کی گفتگو کی عظمت اور شان و شوکت کو سمجھنا اور اللہ پاک کے اس فضل اور مہربانی کو سمجھنا کہ وہ اپنے عرش سے اپنی مخلوق کے ادراک کی سطح پر نزول فرمائے- اس کی وضاحت کیلیے ایک دانا آدمی کی مثال دی جاتی ہے جو ایک بادشاہ کو تبلیغ کرتا ہے - بادشاہ اس سے سوال کرتا ہے کہ ایک آدمی اللہ کا کلام کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟ دانا آدمی اسے بتاتا ہے کہ اللہ کا انسان سے کلام کرنا انسان کا جانوروں سے کلام کرنے کی مثل ہے جہاں انسان ان کی سطح پر جا کر آوازوں اور سیٹیوں کا استعمال کرتا ہے - یہ سورج کی مثل بھی ہے ، جس کی پوری آب و تاب انسان برداشت نہیں کر سکتا، پھر بھی اس سے اپنی ضروریات حاصل کر لیتا ہے - [17]
- گفتگو کرنے والے کا اعلیٰ مقام : قاری کے لیے لازم ہے کہ اس کے دل میں کلام کرنے والے کی عظمت کا احساس [18]ہو یہ سمجھتے ہوئے کہ جو وہ پڑھ رہا ہے وہ انسان کا کلام نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت انتہائی خطرے والا مقام بھی ہے- بالکل جس طرح جسمانی پاکیزگی سے قرآن کو چھوا جاتا ہے، ایسے ہی صرف وہ دل جو کہ پاک اور اللہ پاک کی عظمت کے نور سے روشن اور ادب والا ہوگا (وہی)باطنی مطالب کو سمجھنے کے قابل ہو گا- کلیم کی عظمت کا ادراک تبھی آئے گا جب قاری کا دل اللہ پاک کی صفات، جلال اور امور کا مراقبہ کرے گا -[19]
- حضورئ قلب اور ترکِ حدیثِ نفس: یہاں امام غزالیؒ کا محورِ گفتگو توجہ ہٹانے والے خیالات ہیں- آپؒ لکھتے ہیں کہ ایک عارف سے پوچھا گیا کہ قرآن پڑھتے ہوئے کیا آپ کا نفس کوئی بات کرتا ہے؟ انہوں نے کہا:’’قرآن کے علاوہ میرا محبوب کیا ہو گا کہ میرا نفس اس کی بات کرے “ - اوپر بیان کیا گیااللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس اس طرح کی قلبی توجہ کا باعث بنتا ہے جس سے وہ قربت نصیب ہوتی ہے جس میں غفلت نہ ہو اور قاری کو نہ ختم ہونے والا لطف نصیب ہو-[20]
- تدبر : تدبر حضورئ قلب سے آگے حاصل ہوتا ہے - ہو سکتا ہے کسی کا قلب صرف قرآن ہی کا مراقبہ کر رہا ہو لیکن پھر بھی تدبر کے بغیر ہی سماعت کر رہا ہو - امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت کا یہی مقصد ہے اور اسی لئے نصیحت کی گئی ہے کہ اسے آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے- آپ حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کے قول مبارک کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’فہم کے بغیر کسی عبادت سے کچھ نہیں ملتا اور نہ ہی تدبر کے بغیر تلاوت سے‘‘- [21]امام غزالیؒ کا یہاں حضورئ قلب اور تدبر کو بالکل الگ الگ لینا دوسرے صوفیاءکرام سے مختلف ہے جو کہ عام طور پر حضورئ قلب کی اصطلاح من جملہ توجہ سے سماعت کے تمام طریقوں کے لئے استعمال کرتے ہیں - جیسے القشیری لکھتے ہیں: ’’اشارہ اور فہم والے لوگوں کا راستہ( سبیل) حضورئ قلب سے سماعت ہے “ - [22]
- تفہیم کے لیے سعی: اللہ تعالیٰ کے امور، صفاتِ الہیہ کے مطالب اور انبیاءکرام (علیھم السلام) اور امتوں کے وہ حالات جن میں وہ آیات نازل ہوئیں ان کے مراقبہ کے ذریعے مناسب انداز سے آیات کی وضاحت کی جستجو کرنا ہے - [23]
- فہم میں حائل رکاوٹوں کو ترک کرنا: امام غزالیؒ نے فہم میں حائل ہونے والے چار پردوں کی نشاندہی کی ہے: حروف کے جوڑ توڑ پر بہت زیادہ دھیان دینا ؛ بصیرت اور مشاہدے کی بجائے شدت اور جوش سے کسی ایک مذہب (مکتبہ فکر) کی تقلید؛ متکبر ہو کر گناہ پر بضد رہنا یا عمومی طور پر اپنی ہی دنیا سے جنون کی حد تک وابستگی کا شکار ہونا- اس طرح کا عقیدہ بنا لینا کہ قرآن کریم کے اس کے علاوہ کوئی اور معانی نہیں ہیں جوحضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ)،[24] حضرت مجاہدؒ[25] اور دوسروں نے روایت کئے ہیں اور یہ کہ باقی سب تفاسیر ممنوعہ تفسیر با لرائے ہیں - [26]
- تخصیص : پڑھنے والے کو سمجھنا چاہیے کہ قرآن کریم کا ہر پیغام اس کی اپنی ذات کے لئے ہے - چونکہ خدا کا پیغام سب لوگوں کیلئے ہے تو پھر یہ ہر فرد کیلئے ہے- امام غزالیؒ یہاں لوگوں کو قرآنی عبارت کا اپنے تجربات کے ساتھ سیاق و سباق بنانے کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ جب پڑھنے والا یہ سمجھے گا کہ اللہ پاک اس سے ہی مخاطب ہے تو پھر وہ مطالعہ قرآن کو صرف ایک فرض کے طور پر نہیں لے گا بلکہ اس پر تدبر کرے گا اور اس کے احکامات کے مطابق عمل کرے گا - [27]
- تاثر : آیات کے صوتی اتار چڑھاؤ کا ا س کے دل پر اثر ہونا چاہیے تاکہ جو کچھ بھی اس کے فہم میں آئے اس کا دل ایک وجدانی اور حال کی کیفیت سے جڑا ہوا ہو جیساکہ غم(حزن)، خوف، امید (رجاء) اور اس طرح کی کیفیات- جب اس کا علم کامل ہوتا ہے تو اس کے قلب کی غالب کیفیت خشیت ہوتی ہے کیونکہ تضییق قرآنی آیات میں غالب ہے -چنانچہ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ بخشش اور رحم کیلئے کچھ شرائط ہیں جو اس نے ابھی پوری کرنی ہیں - قرآن کریم کا مقصد پڑھنے والے میں اس طرح کی کیفیات پیدا کرنا ہے اور پھر اس کو اس پر عمل کی طرف لانا ہے وگرنہ اس کے حروف کے ساتھ محض زبان ہلانے کا کوئی مقصد نہیں بنتا - [28]
- ترقی: امام غزالیؒ ابو طالب المکیؒ کی تصنیف ’’قوت القلوب‘‘ میں بیان کئے گئے تلاوتِ قرآن کے تین مقامات تحریر کرتے ہیں اور ان کی وضاحت کرتے ہیں - پہلا مقام اس بندے کا جو یہ سمجھ کر پڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اور اُس کے سامنے پڑھ رہا ہے اور اللہ عزوجل اسے دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے - اس کا مقام ایک عرض گزار ، حمد گزار، منت گزار اور عاجز کا ہے - دوسرا مقام جب وہ اپنے دل سے مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور اپنی مہربانی سے کلام فرما رہا ہے اور رحمت اور عنایات سے سرگوشی فرما رہا ہے- لہذا اس کا مقام پاکیزگی، عظمت، توجہ سے سننے اور فہم والا ہے- تیسرا مقام وہ ہے جب وہ مخاطب کو خطاب میں اور صفات کو الفاظ میں دیکھ لیتا ہے - چنانچہ وہ اپنے آپ کی طرف نہیں دیکھتا اورنہ ہی اپنے پڑھنے کو ، نہ اپنی نیکیوں کو، بلکہ کلام کرنے والا اس کی توجہ کا محور بن جاتا ہے اور اس کی کُلی فکر ہر طرف سے ہٹ کے کلام کرنے والے کے مشاہدے پر مرکوز ہو جاتی ہے- [29]
- اس کا تعلق اپنی قابلیت اور طاقت اور اپنے آپ کو منظور اور اپنے آپ کو صحیح قرار دینے کے انکار سے ہے - قاری اپنا شمار پرہیز گاروں میں نہیں کرتا بلکہ ان کے ساتھ شامل ہونے کی آرزو رکھتا ہے بلکہ وہ اپنا شمار نافرمانوں اور غافلین میں کرتا ہے-[30]
٭٭٭
[1](سورۃ ص:29)
[2](سورۃ ق:37)
[3]Abu Nasr al-Sarraj, Kitab al-luma', p. 73.
[4]Abu Talib al-Makki, Qut al-qulub, Cairo: Dar al-Rashad, 1991, p. 97; Abu Hamid Muhammad Al-Ghazali, Ihya1 2ulum al-din, Beirut: Al-Dar al-Kutub al-2llmiyya, 1989, vol. 5, p. 122; Abd al Razzaq Al-Kashani Ta1wilat (Ta1wil al-Qur1an), published as Tafsir al-Qur1an al-karim and attributed incorrectly to lbn 2Arabi, Beirut: Dar al-Yaqzatal-2Arabiyya, 1968, p. 4.
[5]( ابو طالب المکی، قوت القلوب، ص: 95، الغزالی، احیاء ،ج: 5، ص :85-86)
[6](الشعراء:192-194)
[7](بنی اسرائیل/ الاسراء:82)
[8](الزمر:1)
[9](الموْمن: 1-2)
[10]( ابو نصر السراج، کتاب اللمع، ص :80)
[11]( ابو طالب المکی، قوت القلوب، ص :100؛ الغزالی احیاء، جلد :5، ص :123)
[12]( ابو طالب المکی، قوت القلوب، ص :97؛ الغزالی، احیاء، جلد :5، ص :122-123)
[13]( الکاشانی، تلاوت، جلد:1، ص:4)
[14]( قوت القلوب کا آر گراملیچ کا جرمن ترجمہ " Die Nahrung der Herzen" ہر پیراگراف کی تفصیل بیان کرتا ہے جو الغزالی نے احیاء میں بیان کیا ہے)
[15]( ابو القاسم نے احیاء کا ایک حصہ کا ترجمہ " The Recitation and Interpretation of the Quran" میں کیا ہے، لندن، کیگن پال انٹرنیشنل، 1982)
[16]( الغزالی، احیاء، جلد :5، ص :25-79)
[17]( ایضاً، ص: 80-83؛ ابو طالب المکی، قوت القلوب، ص: 97-98)
[18]( لفظی طور پر ’’یحضیر فی قلبی‘‘)
[19]( الغزالی، احیاء، جلد 5، ص :84-5)
[20]( ایضاً، ص: 85-87)
[21]( ایضاً، ص :87-92)
[22]( القشیری، لطائف الاشارات، قائرہ، دار الکتب العربی، 1968-71، جلد :1، ص :232)
[23]( الغزالی، احیاء، جلد: 5، ص :92-100)
[24]( عبداللہ بن العباس (المتوفی :687) حضور(ﷺ) کے صحابی تھے اور قرآن کریم کی تفاسیر میں ان کے حوالہ جات اکثر دیئے جاتےہیں-)
[25](مجاہد بن زبیر المکی (متوفی 722) ابن عباس کے شاگرد تھے اور مکہ مکتبہ فکر کے سب سے بہترین جانے جانے والے مفسر تھے)
[26]( الغزالی، احیاء، جلد :5، ص: 100-107)
[27]( ایضاً، ص 107-10)
[28]( ایضاً، ص 110-121)
[29]( ایضاً، ص: 121-124؛ ابو طالب المکی قوت القلوب، ص: 96-7)
[30]( الغزالی، احیاء، جلد 5، ص :124-127)
یہ کام امام غزالیؒ نے احیاءالعلوم کے اس حصہ کیلئے ابو طالب المکی کی قوت القلوب پر دوبارہ کام کیا ہے- اس پر ایک بار پھر کام کیا گیا تھا اور حسین وائظِ کاشفی (متوفی 1504-5) کی فارسی جواہر التفسیر میں شامل کیا گیا- الغزالی کا نام لئے بغیر کاشفی نے انتخاب، تبدیلی اور شاعری کے اضافہ سے الغزالی کی دس ظاہری اور دس باطنی طریقہ کار کو اپنے ترجمہ میں شامل کیا (کے سینڈز، " On the Popularity of Husayn Vaiz-i Kashifi’s Mavahib-i ‘aliyya: A Persian Commentary on the Qur’an"، ایرانی سٹڈیز، 36، 2003- ص 474-5)