قرآن مجید کو ابواب اور فصلوں کی صورت میں متون کے طرز پر نہیں بنایا گیا کہ اس کے ہر ایک مطلب کو اس کے باب یا فصل میں ذکر کر دیا جائے بلکہ قرآن کریم کو مکتوبات کے مجموعہ کی طرح فرض کر لینا چاہیےکہ جس طرح بادشاہ اپنے رعایا کی طرف احوال کے تقاضوں کے مطابق کوئی فرمان بھیجتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ بہت سے فرامین جمع ہوجاتے ہیں تو اس کو ایک شخص مدوّن کردے اور اس کو ایک ترتیب شدہ مجموعہ بنادے-
اسی طرح بادشاہ مطلق جل شانہ نے اپنے نبی کریم (ﷺ) پر اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے احوال کے تقاضا کے مطابق یکے بعد دیگرے سورتیں نازل فرمائیں-آقا کریم (ﷺ) کے زمانہ میں ہر ایک سورت علیحدہ طور پر محفوظ اور ضبط شدہ تھی پھر تمام سورتوں کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ میں ایک خاص ترتیب کے ساتھ ایک جلد میں مدون کیا گیا اور اس مجموعے کا نام مصحف رکھا گیا-
سورتوں کی تقسیم :
تمام سورتیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے نزدیک چار قسموں میں تقسیم تھیں:
- سبع طول: یہ وہ سورتیں ہیں جو سب سے لمبی ہیں
- مؤون: یہ وہ سورتیں ہیں جن میں سے ہر ایک سو آیات پر مشتمل ہیں یا اس سے کچھ زیادہ ہیں-
- المثانی: یہ وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کم ہیں
- مفصل: اس میں دو یا تین سورتیں مثانی کی تعداد میں سے مؤون میں داخل کی گئی ہیں-ان کے مضمون اور مؤون کے مضمون کی مناسبت کی وجہ سے اور بعض دوسری اقسام میں بھی اسی طرح تصرف ہوا ہے-
القرآن فی عہد عثمان (رضی اللہ عنہ):
حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) نے اس مصحف صدیقی سے کئی نسخے نقل کروائے اور ان کو اطراف و اکناف میں بھجوا دیا تاکہ مسلمان انہیں سے مستفید ہوں اور کسی دوسری ترتیب کی طرف مائل نہ ہوں -
سورتوں کا آغاز اور اختتام شاہی فرامین کی طرز پر ہونا:
سورتوں کا آغاز اور ان کا اختتام شاہی فرامین کے طرز پر ہے جبکہ سورتوں کے اسلوب اور بادشاہوں کے فرامین کے اسلوب کے درمیان مناسبت تامہ تھی- لہٰذا سورتوں کا آغاز کرنے اور اختتام کرنے میں مکاتیب کے انداز کی رعایت کی گئی-پس جس طرح وہ بعض مکاتیب کی ابتداء اللہ کی حمد سے کرتے ہیں اور بعض کی تحریر کی غرض کو بیان کرنے کے ساتھ اور بعض کی ابتدا مرسل اور مُرسل الیہ کے نام کو بیان کرنے کے ساتھ کرتے ہیں اور بعض مکتوب بغیر کسی عنوان کے پرچیاں اور چٹھیاں ہوتے ہیں اور بعض تحریریں لمبی اور دوسری مختصرہوتی ہیں تو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی بعض سورتوں کوبھی حمد اور تسبیح کے ساتھ شروع فرمایا اور بعض کی ابتداء تنزیل کی غرض کو بیان کرنے کے ساتھ کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَج فِیْہِج ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘[1]
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا:
’’سُورَۃٌ اَنْزَلْنٰـہَا وَفَرَضْنٰـہَا‘‘[2]
’’(یہ) ایک (عظیم) سورت ہے جسے ہم نے اتارا ہے اور ہم نے اس (کے احکام) کو فرض کر دیا ہے‘‘-
سورتوں کی یہ قسم ان تحریرات کے مشابہ ہے کہ جن کے آغاز میں لوگ لکھتے ہیں یہ عہد نامہ ہے جس پر فلاں فلاں نے مصالحت کی ہے اور یہ فلاں صاحب کا وصیت نامہ ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے صلح حدیبیہ میں بھی لکھا تھا کہ یہ معاہدہ ہے جس پر محمد (ﷺ) نے صلح کی ہے-
مزید بعض سورتوں کا آغاز مرسل اور مرسل الیہ کے ذکر کے ساتھ کیا ہے-جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اﷲِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ‘‘[3]
’’اس کتاب کا اتارا جانا اﷲ کی طرف سے ہے جو بڑی عزت والا، بڑی حکمت والا ہے‘‘-
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْر‘‘[4]
’’یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم بنا دی گئی ہیں، پھر حکمت والے باخبر (رب) کی جانب سے وہ مفصل بیان کر دی گئی ہیں‘‘-
یہ قسم ان فرامین کے مشابہ ہے جن کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں کہ بارگاہ عالی کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا ہے یا وہ لکھتے ہیں کہ بارگاہ خلافت سے فلاں شہر کے باشندوں کے لئے یہ اعلان ہے اور نبی کریم (ﷺ) نے بھی لکھا تھا کہ یہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی طرف سے شاہِ روم ہر قل کے نام ہےاور بعض سورتوں کو بلا عنوان پرچیوں اور چٹھیوں کے انداز پر شروع فرمایا ہے-جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰـفِقُوْنَ‘‘[5]
’’(اے حبیبِ مکرّم!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا
قَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا‘‘[6]
’’بے شک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا
’’یٰٓـاَ یُّہَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ‘‘[7]
’’اے نبئ (مکرّم!) آپ خود کو اس چیز (یعنی شہد کے نوش کرنے) سے کیوں منع فرماتے ہیں‘‘-
بعض سورتوں کی ابتداء میں قصائد کا انداز :
بعض سورتوں کی ابتداء میں قصائد کا انداز ہ جبکہ عربوں کی فصاحت قصیدوں میں جھلکتی تھی تو قصیدوں کے آغاز میں عجیب و غریب مقامات اور ہولناک لڑائیوں کا ذکر کرنا ان کی عادت قدیمہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے بھی بعض سورتوں میں یہی انداز اختیار فرمایا؛جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَالصّٰفّٰتِ صَفًّاo فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا‘‘[8]
’’قسم ہے قطار در قطار صف بستہ جماعتوں کی-پھر بادلوں کو کھینچ کرلے جانے والی یا برائیوں پر سختی سے جھڑکنے والی جماعتوں کی‘‘-
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاo فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًاo‘‘[9]
’’اُڑا کر بکھیر دینے والی ہوائوں کی قَسم-اور (پانی کا) بارِ گراں اٹھانے والی بدلیوں کی قَسم‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا
’’اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْo وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ‘‘[10]
’’جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا-اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گر پڑیں گے‘‘-
سورتوں کا اختتام شاہی فرامین کے انداز پر ہونا:
جس طرح بادشاہ اپنے فرمودات کو جامع کلمات، نادر وصیتوں اور احکام مذکورہ کو مضبوط تھامنے کی انتہائی تاکید اور ہر اس شخص کے لیے جو ان احکامات کی مخالفت کرے سخت دھمکی پر ختم کرتے تھے تو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی سورتوں کے آخر کو جامع کلمات پُر حکمت کلام، انتہائی تاکید اور بھاری دھمکی پر ختم کیا ہے-
سورتوں کے درمیان کلام بلیغ کا لے آنا:
سورتوں کے درمیان میں انتہائی مفید اور انوکھے انداز کا کلام بلیغ لایا گیا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کی کسی نوع یا نعمتوں اور احسان کی کسی قسم پر مشتمل ہے جیسے خالق اور مخلوق کے مرتبے کے درمیان فرق کو بیان کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے اس کی ابتداء اپنے اس قول کے ساتھ فرمائی:
قُلِ الْحَمْدُ للہَ وَسَلٰـمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰیط اَللہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَo[11]
’’فرما دیجیے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے منتخب (برگزیدہ) بندوں پر سلامتی ہو، کیا اللہ ہی بہتر ہے یا وہ (معبودانِ باطلہ) جنہیں یہ لوگ (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں‘‘-
پھر اس مضمون کو پانچ آیتوں میں نہایت بلیغ طریقے اور انوکھے اسلوب کے ساتھ بیان فرمایا-
پھر سورۃ البقرۃ کے درمیان میں بنی اسرائیل کے مخاصمہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ فرمایا:
’’یَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اذْکُرُوْا‘‘[12]
’’اے اولاد یعقوب! (میرے وہ انعام )یاد کرو‘‘-
پھر اس مخاصمہ کا اختتام بعینہ اسی کلام پرفرمایا پس مباحثہ کو کسی بات سے شروع کرنا اور اسی پر ختم کرنا یہ بلاغت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے او ر سورہ آل عمران میں اہل کتاب کے ساتھ مخاصمہ کی ابتداء اپنے اس قول کے ساتھ فرمائی :
’’ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘[13]
’’بے شک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے‘‘-
تاکہ محل نزاع و اضح ہو جائے اور بحث اسی مدعیٰ پر گھومتی رہے-
اللہ تعالیٰ حقیقت حال کو زیادہ جاننے والا ہے-
٭٭٭
[1](البقرۃ:2)
[2](النور:1)
[3](الزمر:1)
[4](ھود:1)
[5](المنافقون:1)
[6](المجادلہ:1)
[7](التحریم:1)
[8](الصافات:1-2)
[9](الذاریات:1-2)
[10](التکویر:1-2)
[11](النمل:59)
[12](االبقرۃ:40)
[13](آلِ عمران:19)