نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ o اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ oوَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ o[1] صَدَقَ اللہُ العَظِیْم oوَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمo اِنَّ اللہَ وَ مَلاَئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبیْ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَلُّوا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمَا o
واجب الاحترام معزز و محترم مہمانِ گرامی،بھائیو،بزرگوں اور ساتھیوں بالخصوص عکس سلطان الفقر حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب،تمام علماء کرام،مشائخ عظام اسلام ُعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ!
مَیں ، سب سے پہلے آپ تمام معزز و محترم بھائیوں،بزرگوں،دوستوں،ساتھیوں اور اندرونِ خانہ نشست میں ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو تشریف لانے والے پر، مرشد ما،قائد ما جانشین سلطان الفقرسر پرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضور حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ اقدس،سجادہ نشین آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عزیز (قدس اللہ سرہٗ)کی جانب سے تہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ تمام ساتھیوں کا خیر مقدم کرتا ہوں اور دعا گوں ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس نیک،پاکیزہ،مبارک،بابرکت،مقدس،مؤتر اور منور محفل میں آپ تمام کا تشریف لانا اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے-
(۱) عُرس کی شرعی حیثیت اور معاشرتی اثرات:
جہاں اہلِ ذکر تمام دنیاوی اغراض و مقاصد اور خواہشاتِ نفس کو ترک کرکے صرف و صرف اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کے ذکر،محبت اور اطاعت کے جذبہ کو مزید تقویت اور دوام بخشنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اُس مقام و جگہ اور اُس جگہ پر بیٹھے ہوئے تمام جملہ مخلوقات پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا نزول ہوتا ہے-
آقائے دوجہان (ﷺ) نے اس چیز کی بشارت عطا فرمائی ہے، جیسا کہ حضرت ابو مالک اشعری()روایت فرماتے ہیں:
’’یَاْتِیْ مِنْ اَفْنَاءِ النَّاسِ وَ نَوَازِعِ الْقَبَائِلِ قَوْمٌ لَمْ تَصِلْ بَیْنَھُمْ اَرْحَامٌ مُتَقَارِبَۃٌ تَحَابُّوْا فِی اللہِ وَ تَصَافُوْا فِی اللہِ یَضَعُ اللہُ لَھُمْ یُوْمَ القِیٰمَۃِ مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ فَیُجْلِسُھُمْ عَلَیْھَا یَفْزَعُ النَّاسُ وَ لاَ یَفْزَعُوْنَ وَ ھُمْ اَوْلِیَاءَ اللہِ الَّذِیْنَ لاَ خُوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ-‘‘[2]
’’کہ مختلف لوگوں اور متفرق قبیلوں میں سے لوگ آیا کریں گے یعنی ایک جگہ جمع ہوا کریں گے اور اُن میں باہمی کوئی قریبی رشتہ داری بھی نہ ہوا کرے گی اور وہ اللہ تعالی کی رضا میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں باہمی باطنی صفائی یعنی تزکیہ روحانی رکھتے ہوں گےقیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے لئے نو ر کے منبر رکھے گا پھر انہیں ان پر بٹھائے گا (قیامت کے دن ) لوگ تو گھبرائے ہوں گے اور یہ (لوگ)نہیں گھبرائے ہوں گےاور یہی وہ اولیاء اللہ ہیں جنہیں نہ کوئی غم اور نہ کوئی خوف ہوگا‘‘-
اِس لئے ہمارا اس محفل میں حاضر ہونا باعثِ برکت ،باعثِ ثواب، باعثِ خیراور باعثِ بھلائی بھی ہے کیونکہ ہم میں کچھ لوگ آپس میں رشتہ داری رکھتے ہیں لیکن بکثرت آپ میں سے ایک دوسرے کے چہروں،علاقوں اور قبیلوں کو بھی نہیں جانتے اور آپ کا یہاں جمع ہونا یا تشریف لانا صرف و صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت کے لئے ہے اور یہ محفل اسی غرض سے انعقاد پذیر ہے- یہ محفل پاک جہاں آپ معزز و محترم بزرگ،بھائی اور نوجوان اکٹھے ہیں، یہ سلطان الفقربانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہ) کے ’’عرس‘‘ پاک کی محفل ہے اور آپ کی ذاتِ پاک اس زمانہ میں ایک آفتابِ نیم روز کی حیثیت رکھتی ہے کہ جب اس دنیاسے تصنع یعنی بناوٹ اور اس طرح کی دیگر وجوہات کی بناء پر اس معاشرے کے لوگوں کے دلوں سے اللہ کی طلب مکمل طور پر اُٹھ گئی تھی-لوگ اپنی خواہشاتِ نفسانی کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور عبادت،ریاضت اور ذکر اپنے نفسانی تمناؤں سے مشروط ہوکر رہ گئے تھے تو اس عالم میں بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہ) کی ذات پاک نے طلبِ الہٰی اور دعوتِ الی اللہ کے اُس علم کو بلند کیا جو انبیاء کرام()اور دروازہِ نبوت بند ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے انتہائی مقربین مرشدِ کاملین کا وطیرہ رہا-ایسی شخصیات ، جو لوگوں کے دلوں میں اللہ کی محبت کو اُجاگر کریں، لوگوں کو ظلمت سے نکال کر نورکی جانب،بناوٹ سے نکال کر حقیقی تقویٰ اور توکل کی طرف ، اورمخلوق کے جنجال سے نکال کر براہِ راست خالق کے ذکرِ اور خالق کی بارگاہ کی جانب لے کر جائیں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں وہ درجہ و مقام رکھتی ہیں کہ جن کا احاطہ انسانی عقل کے لئے ممکن ہی نہیں ہے -
جو شخصیات اس طرح اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلیں تو اُن سے منسوب جو تقریبات اور ایام ہوتے ہیں اُن کو خوشی سے منانا عین سنتِ الٰہیہ اور سنتِ رسول (ﷺ) ہے- آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق حضرت عقبۃ بن عامر () سے روایت ہے کہ:
’’اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ صَلَّی عَلٰی قَتْلٰی اُحُدٍ، ثُمَّ اِنْصَرَفَ وَ قَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللہَ، وَ اَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ:اَیُّھَا النَّاسَ اِنِّیْ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ فَرَطٌ وَ اَنَا عَلَیْکُمْ شَھِیْدٌ وَ اِنِّیْ وَ اللہِ لَاَنْظُرُ اِلیٰ حَوْضِیْ وَ اِنِّیْ فِیْ مَقَامِیْ، وَ اِنَّ سَعَتَہٗ لِمَا بَیْنَ الْجُحْفَۃِ اِلٰی اَیْلَۃَ، وَ اِنِّیْ وَاللہِ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِیْ، وَلٰکِنْ قَدْ اُعْطِیْتُ مَفَاتِیْحَ خَزَائِنِ الدُّنْیَا، وَ خَزَائِنَ الْاَرْضِ وَ اِنَّمَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنَا فَسُوْا فِیْھَا، ثُمَّ دَخَلَ فَلَمْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ حَتَّی قَبَضَہُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ‘‘[3]
’’(بے شک )رسول اللہ (ﷺ) نے ‘’اُحد‘‘ کے شہداء پر نمازِ جنازہ پڑھی،پھر آپ (ﷺ) منبر پر تشریف فرما ہو گئے اور آپ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی-(یعنی خطبہ پڑھنے کے بعد آپ (ﷺ) نےخطاب شروع فرمایا )پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا اے لوگوں!بے شک مَیں تمہارا پیش رو ہوں اور مَیں تم پر گواہ ہوں اور بے شک اللہ کی قسم مَیں اپنے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں اور حالانکہ میں اپنے مقام پر کھڑا ہوں اور بےشک اس کی وسعت ’’جُحفہ‘‘ سے ’’ایلہ‘‘ تک ہے اور بے شک اللہ کی قسم مجھے تم پر اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعدشرک کرو گے اور لیکن تحقیق مجھے دنیا کے خزائن کی چابیاں دی گئی ہیں اور زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئ ہیں اور مجھے تم پر اس بات کا خوف ہے کہ تم دنیا کی طرف راغب ہو جاؤ گے پھر آپ (ﷺ) (اپنے کاشانہء اقدس)تشریف لے گئے پس آپ (ﷺ) گھر مبارک سے تشریف نہ لائے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بلالیا(یعنی آپ کا وصال مبارک ہوگیا)‘‘-
اس حدیث پاک کا مفہوم و تشریح دیکھیئے کہ غزوہ ’’اُحد‘‘تیسری ہجری(۳ھ) میں ہوا اور اس حدیث میں حضرت عقبۃ بن عامر () فرماتے ہیں کہ شہداءِ ’’اُحد‘‘ کی شہادت کو سات،آٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مَیں نے آقا (ﷺ) کو یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا (یہ اُس سال کا واقع ہے جس سال آقا (ﷺ) نے وصال فرمایا)کہ آقا علیہ الصلوۃ و السلام خود شہداءِ ’’اُحد‘‘ کے مزار پر تشریف لے کر گئے - آقا علیہ الصلوۃ و السلام کے اس عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن کی زندگی اور وفات اللہ کے نام سے منسوب ہوجائے تو چاہے ان کی وفات کو جتنا عرصہ یا زمانہ گزر جائے ، اُن کی قبور پر جانا سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے -پھر یہ حدیثِ پاک بیان کرتی ہے کہ آقا (ﷺ) جب تشریف لے کر گئے تو آقا علیہ الصلوۃ السلام نے شہداء ’’اُحد ‘‘کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی اور اُن کو سلام بھیجا- اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسی شخصیات یا ایسی روحِ قدسیہ جن کا درجہ اللہ تعالیٰ کے قریب مقرب اور شہید کا ہو ، ان کی قبورپر جا کر اُن کے لئےدعا پڑھنا ،کلام کرنا اور سلام بھیجنا آقا (ﷺ) کی سنت ہے –اس روایت میں غور فرمائیں:
’’ثُمَّ اِنْصَرَفَ وَ قَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ‘‘
’’پھر (آقا ﷺ ) منبر پر تشریف فرما ہوئے ‘‘-
گویا اُن شخصیات کے مزارات کے قریب اُن سے منسوب تقریب کا اہتمام کرنا، اُس پر منبر سجانا اور اُس منبر پر بیٹھ کر اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنا بھی آقا (ﷺ) کی سنت ہے- ’’عرس‘‘ کی تقریب اور اس کے علاوہ جہاں بھی با اعتبارِ شرعی ایسی تقریب کا انعقاد کیا جائے وہ عین سنتِ مصطفیٰ (ﷺ) ہوتی ہے - پھر آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے ایک اور عمل دہرایا کہ:
’’اِنِّیْ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ فَرَطٌ وَ اَنَا عَلَیْکُمْ شَھِیْدٌ وَ اِنِّیْ وَاللہِ لَاَنْظُرُ اِلیٰ حَوْضِیْ وَ اِنِّیْ فِیْ مَقَامِیْ‘‘
’’بے شک مَیں تمہارا پیش رو ہوں اور مَیں تم پر گواہ ہوں اور بے شک اللہ کی قسم مَیں اپنے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں اور حالانکہ میں اپنے مقام پر کھڑا ہوں‘‘-
آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی امامت کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انسانوں کا امام بنا کر بھیجا ہے اور تم میں سے جو مجھ پر ایمان لائے ہیں اللہ نے مجھے تم پر گواہی دینے والا بناکر بھیجا ہے اور اللہ نے مجھے یہ وسعتِ بینائی عطا فرمائی ہے کہ جو حوضِ کوثر محشر کے دن سجے گا وہ مَیں آج بھی دیکھ رہا ہوں -گویا اعراس کی تقریبات میں آقا (ﷺ) کے کمالاتِ روحانی،نعتِ پاک ، صفات کا بیان کرنا،مخلوق کو نصیحت کرنا ، مخلوق کو حق کی جانب بلانا ،خود کو شرک سے باز رکھنا اور مخلوق کو دنیا سے بے رغبتی دلا کر اللہ کی جانب رغبت دلانا بھی سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے- مجھے اُمید ہے کہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا یومِ عروس پہ تقریبِ عُرس کا آغاز شہداءِ ‘’اُحد‘‘ کی قبور سے آقا (ﷺ) نے خود فرمایا ہے –اِس تقریب کی ، اس محفل کی ترتیب بھی خود اپنے عمل سے سمجھا دی ، اس ترتیب سے دیکھا جائے تو عرس کو میلے ٹھیلے کی شکل دے دینا نا مناسب حرکت ہے البتّہ اس تقریب کو سُنت کے مطابق اللہ کی حمد و ثنا ، حضور کی نعت اور مخلوق کو پیغامِ ہدایت دینے کی ترتیب کے مطابق منعقد کرنا درست ہے ۔ اِس لئے یہ تقریبات معاشرتی اعتبار سے پیغام کی وسیع تر ترسیل و ترویج کا ذریعہ ہیں ۔
جیسا کہ آپ تمام بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جماعت اور یہ تحریک (اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین) فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتی لیکن بعض سوال ایسے ہوتے ہیں جو عوام میں ایک الجھن کو پیدا کرتے ہیں اور لوگ اُس تصعب کی بھینٹ چڑھتے ہوئے دین کےاساسی (بنیادی)عقا ئد سے دور چلے جاتے ہیں اور غلط فہمیوں کو اپنے اندر پیدا کر بیٹھتے ہیں-اس لئے بغرضِ ہدایت،بغرضِ نصیحت اور بغرضِ اصلاح مَیں اس حدیث پاک کی روشنی میں مزید وضاحت کرنا چاہوں گا کہ آقا (ﷺ) شہداءِ ‘’اُحد‘‘ کی قبور پر موجود تھے - شہداءِ ‘’اُحد‘‘ کی شہادت کو سات، آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا- آقا (ﷺ) وہاں دعا بھی فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اپنی نعت پاک کو بھی خود بیان فرماتے ہیں اور مزید فرماتے ہیں کہ :
’’وَ اِنِّیْ وَاللہِ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِیْ،‘‘
’’اور بے شک اللہ کی قسم مجھے تم پر اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعدشرک کرو گے‘‘-
ذرا غور کیجیئے!یہ کس نے قسم اٹھائی؟ خود آقا پاک(ﷺ) نے- اگر آقا پاک(ﷺ) اللہ کی قسم اٹھائے بغیربھی یہ بات کہتے تو کیا اُن کی صداقت میں کوئی شک و شبہ ہوتا؟ لیکن آقا علیہ الصلوۃ و السلام جہاں اللہ پاک کی ذات کی عظمت و جلال کو اپنا گواہ بنالیں تو اُس بات کی صداقت میں کوئی شک و شبہ رہتا ہی نہیں -اس لئے اگر مزارات پر جانا یا ہر سال بعد مزارات پر جا کر حاضری دینا،مزارات پر جاکر اللہ کی حمد و ثناء اور اس کےرسول (ﷺ) کی نعت پڑھنا اور مزارات پر جا کر مخلوق کو اللہ کی راہ کی طرف نصیحت کرنا شرک ہوتا تو آقا (ﷺ) شہداءِ ’’اُحد‘‘کی قبروں پر اللہ کی قسم اٹھا کر یہ نہ کہتے کہ تم میرے بعد شرک نہیں کرو گے - یہ سنت تو خود حضور پاک(ﷺ) نے قائم کردی لہٰذا اعراس کی محافل پر جانا،مزارات پر جا کر اللہ کی حمدو ثناء،حضور (ﷺ)کی نعت پڑھنا اور مخلوق کو نصیحت کرنا شرک نہیں ہے - جو اسے شرک کہے اِس حدیثِ پاک کی روشنی میں وہ سنت ِ مصطفےٰ (ﷺ) کا انکار کرتا ہے-
جن کی زندگی اور موت اللہ کے نام لکھ دی گئی ان برگزیدہ ہستیوں کے ’’عرس‘‘ اور ان کے مزار پر جا کر سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) ادا کرنےسے جو بھی منع کرے تو وہ اس حدیث پاک کی رو سے سنتِ مصطفےٰ (ﷺ)کے انکار کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ یہ بات حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے عمل سے ثابت ہے-اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ یہ حدیث حضرت عقبہ بن عامر () کی روایت سے آقا (ﷺ) کے زمانہ آخر کی حدیث پاک ہے اور اس فعل کو متروک اور عدم نہیں کیا گیا ، نہ ہی اسے چھوڑا گیا اور نہ ہی اِسے چھوڑنے کا کوئی حکم کیا گیا -اگر اس فعل کو کالعدم کیا جاتا تو صحابہ کرام اس فعل کو نہیں دہراتے- چونکہ اب اس ترتیب کو انہوں نے خود آقا(ﷺ) کو ادا کرتے ہوئے دیکھا تھا تو صحابہ کرام نے اس چیز کو اپنا وطیرہ اور اپنے عمل کا اعلیٰ نمونہ بنا لیا تھا-
ایک حدیث پاک جسے روایت کیا ہے امام أبو بكر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی () نے جو امام بخاری کے شیوخ کےشیوخ ہیں جن سے امام احمد بن حنبل ()،امام یحیٰ بن نعیم ()، امام علی بن المدینی () اور ان جیسے کئی شیوخِ حدیث و آئمۂ حدیث نے روایت لی ہے، اِسی طرح امام قرطبی()،امام بدر الدین عینی() اور کئی محدثین نے بھی اس حدیث پاک کو اپنی کتب میں نقل کیاہے-حضرت محمد بن ابراہیم التیمی سے روایت ہے کہ:
’’عن النبي(ﷺ) يَأتِيْ قُبُوْرَ الشُّھَدَاءِ عِنْدَ رَأسَ الحَوْلِ فَيَقُوْلُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ قَالَ وكَان أبو بكر وعمر وعثمان يفعلون ذلك‘‘[4]
’’بے شک آپ ﷺ ہر سال پورا ہونے پرشہداء ’’اُحد‘‘ کی قبورمبارک پر تشریف لے جاتے
اور خلفاء راشدین حضرت ابو بکرصدیق ()،حضرت عمر()، حضرت عثمان غنی()بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے‘‘-
اس کے علاوہ دیگر کتب اور تفسیر کتب کے الفاظ یہ ہیں:
’’وَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ(ﷺ)أَنَّه كَانَ يَأتِي قُبُوْرَ الشُّھَدَاءِ رَأسَ كُلِّ حَوْل فَيَقُوْلُ : « السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ » وَ الْخُلَفَاءُ الْأَرْبَعَةُ هٰكَذَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ‘‘[5]
’’بے شک آپ (ﷺ) ہر سال پورا ہونے پر شہداءِ ’’اُحد‘‘ کی قبورمبارک پر تشریف لے جاتے اور پڑھتے « السَّلَامُ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ» (تم پر سلامتی ہو اس بنا پر کہ تم نے صبر کیا اور آخرت کا گھر اچھا ٹھکانہ ہے) چاروں خلفاء راشدین بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے‘‘-
پہلی روایت تو ایک سال کی تھی اور یہ روایت ہر سال مکمل ہونے پر مزارات پر جانا ثابت کرتی ہے کہ آقا (ﷺ) کے وصال کے بعد چاروں خلفاء راشدین،حضرت ابوبکر صدیق ()، حضرت عمر فاروق ()، حضرت عثمانِ غنی () اور حضرت علی المرتضیٰ () ہر سال اُن شہداءِ ’’اُحد‘‘ کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے-کیونکہ خلفاء راشدین کا اس بات پر اجماع تھا کہ ہر سال مکمل ہونے پر شہداءِ ’’اُحد‘‘ کی قبور پر جانا سنتِ رسول (ﷺ) ہے لہٰذا اس کا انکار قطعاً نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ ہم شدت،تعصب،بغض اور فرقہ وارانہ ضد بازی کا چشمہ لگا کر دین کا مطالعہ کریں-
ہم ’’عرس‘‘ کو ’’عرس‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟اور اس کا ایک عمومی سا ترجمہ آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ’’عرس‘‘، عروس سے نکلا ہے اور جمال الدین ابی الفضل ()(م:711ھ)’’عرس‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’وَ تُسَمّٰی الْوَلِیْمَۃُ عُرْساً، وَفِی الْحَدِیْثِ:اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ(ﷺ) قَالَ اِذَا دُعِیَ اَحَدُکُمْ اِلَی وَلِیْمَۃِ عُرْسٍ فَلْیُجِبْ‘‘[6]
’’ولیمہ کو ’’عرس‘‘ کہتے ہیں، اور حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ )نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو شادی کے ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ ضرور قبول کرے ‘‘-
لسان العرب اور تاج العروس میں ’’ولیمۃ‘‘ کا معنی یوں بیان ہوا ہے کہ:
’’وَ الْوَلِیْمَۃُ:طَعَامُ الْعُرْسِ وَ قِیْلَ ھِیَ کُلُّ طَعَامٍ صُنِعَ لِعُرْسٍ قَالَ اَبُوْ عُبَیْدٍ سَمِعْتُ اَبَا زَیْدٍ یَقُوْلُ: یُسَمّٰی اَلطَّعَامُ الَّذِیْ یُصْنَعُ عِنْدَ الْعُرْسِ اَلْوَلِیْمَۃُ‘‘-
اور ولیمہ شادی کا کھانا ہےاور کہا گیا ہے کہ ہر وہ کھانا جو شادی کے لئے بنایا جاتا ہے-ابو عبید () نے کہا کہ مَیں نے ابوزید () سے سنا وہ فرماتے ہیں ہر اس کھانے کو ولیمہ کا نام دیا جاتا ہے جو شادی کے لئے تیار کیا جاتا ہے-
مزیدجمال الدین ابی الفضل ()’’معجم الوسیط‘‘میں ’’عرس ‘‘ کا معنی یوں بیان کیا ہےکہ:
’’اَلْعُرْسُ:اَلزُّفَافُ وَ التَّزْوِیْجُ وَ وَلِیْمَتُھَا اَلزُّفَافُ: لَیْلَۃُ الْعُرْسِ‘‘[7]
’’عرس : سہاگ رات اورشادی اور اس کا ولیمہ ہےاور سہاگ رات ، شادی کی رات کو کہتے ہیں‘‘-
اب سوال یہ ہے کہ ہم جس دن ’’عرس‘‘ کی محفل کا اہتمام کرتے ہیں وہ صاحبِ عُرس کا یوم ولادت تو نہیں ہے کہ ان کے آنے کی خوشی منائی جائے؟بلکہ وہ تو اُن کا یوم وصال ہوتا ہے یعنی فوت ہوجانا-یہاں ایک بات اُلجھن پیدا کرتی ہے کہ جس دن ان بزرگوں نے اپنے اہلِ خانہ،احباب ،رشتہ داروں اور تمام دنیا سے جدائی اختیار کی ہم اُس دن کو ’’عرس‘‘ کہتے ہیں-
میرے بھائیو اور دوستو!یہ طوطا مینا کی وہ کہانی ہے جو عموماً آپ کے گلی محلوں میں رٹی جاتی ہے اور یہ رٹی رٹائی کہانی آپ کو سنائی جاتی ہے کہ جس دن باپ کا بیٹے یا بیٹی سے ہجر ہو،جس دن شوہر کا اپنی زوجہ سے ہجر ہو، جس دن بھائی کا اپنے بہنوں اور بھائیوں سے ہجر ہو،جس دن استاد کا اپنے شاگردوں سے اور شاگردوں کا اپنے استاد سے ہجر ہو،جس دن اپنے حلقہ احباب سے ایک مخلص محبت کرنے والا بچھڑ جائے اُس بچھڑنے کو تم ’’عرس‘‘ کہتے ہو- میرے ساتھیو!یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو طوطا مینا کی اس داستان میں نہیں بیان کیا جاتا جس کو خود آقا (ﷺ )کی اس حدیث پاک نے واضح فرمایاہےکہ:
’’وَلٰکِنَّ الْمُوْمِنُ اِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللہِ وَ کَرَامَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْئٌ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا اَمَامَہُ فَاَحَبَّ لِقَآءَ اللہِ وَ اَحَبَّ اللہُ لِقَآءَہُ‘‘[8]-
’’اور جب بندۂ مومن کو موت آتی ہےتو اسے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی کرامت (عزت وتکریم) کی بشارتیں دی جاتی ہیں تو اسے اپنے آگے حاصل ہونے والی نعمتوں سے بڑھ کر اور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی پس وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے‘‘-
یعنی مخلوق سے تو وہ جدائی اختیار کرتا ہے لیکن درحقیقت اُسے اپنے خالق سے وصل نصیب ہوتا ہے-اس لئے اس کی وہ شبِ وصل ہوتی ہے شبِ فراق نہیں ہوتی کیونکہ اس دن وہ مخلوق سے وصل دائمی کو پا لیتاہے جس کے بعد ہجر کا شبہ بھی ختم ہوجاتا ہے- میری اور آپ کی آنکھوں میں تو وہ بظاہر ہجر ہوتا ہے لیکن اس کی اور اللہ کی نظر میں وہ عین شبِ وصال ہوتی ہے-اس لئے اس کو اہل نظر ’’عرس‘‘ کہتے ہیں-اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’ صحیح بخاری کتاب الرقاق‘‘ کی اس حدیثِ پاک میں تو ’’عرس‘‘ کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور محبت کی بات ہے؟پہلے تو ’’عرس‘‘ کی تعریف ناچیز نے واضح کی کہ وہ اپنے اصول سے طے پا گیاکہ ’’عرس‘‘ سہاگ کو کہتے ہیں اور سہاگ قربت و ملاقات کو کہتے ہیں- لہٰذا جب ملاقات اور وصل کی بات ہو اور ایسا وصل جس وصل سے آپ کو خوشی کی انتہاء نصیب ہوجائے اسے عروس کہتے ہیں- لوگ کہیں گے کہ اس روایت میں عروس کا ذکر نہیں آیا؟ تو اب عروس کے ذکر پر بھی ذرا غور فرمائیں کہ:
سیدنا حضرت ابو ہریرہ ()فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ جب فوت شدہ کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کےپاس منکر نکیر آتے ہیں -ویسے تو تین سوال ہیں لیکن یہاں ایک سوال کا ذکر ہے اور منکر نکیر اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ:
’’مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُلِ‘‘
’’یعنی تو اپنی زندگی میں اس ہستی پاک (حضورنبی کریم ﷺ ) کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟‘‘
پس وہ جواب دے گاکہ :
’’ھُوَ عَبْدُ اللہِ وَ رَسُوْلُہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّاللّٰہ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ‘‘
’’کلمہ شہادت پڑھے گا اور کہے گا کہ آپ (ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول (ﷺ) ہیں اور بے شک مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور(حضرت)محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘-
اب اس فوت شدہ کی بات سن کروہ منکر نکیر کیا جواب دیتے ہیں ؟
’’قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ھٰذَا‘‘
’’ہمیں یقیناً معلوم تھا کہ تم یہی جواب دو گے‘‘-
انہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ یہ بندہ یہی جواب دے گا؟اس لئے کہ جو اپنی زندگی میں آقا(ﷺ)کی ذات کی معرفت، محبت،عشق و تکریم، ادب، اطاعت و اتباع کو حاصل کر لیتا ہے تو جب وہ جنت کے اندر جاتا ہے تو اس کے چہرہ پر انوار و تجلیات کی برسات ہو رہی ہوتی ہے جس طرح ایک دلہن کو تیار کر کے اس کے حجرہِ عروسی میں پہنچایا جاتا ہے- اسی طرح جب اہل اللہ،اللہ کے ولی،آقا (ﷺ) سے محبت اور ادب کرنے والے جب قبر میں جاتے ہیں تو ان کے چہرے پر انوار و تجلیات کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ منکر نکیر کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ تم اہل ادب میں سے ہو اور یہی جواب دوگے-
پھر آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’ثُمَّ یُفْسَحُ لَہٗ فِیْ قَبْرِہ سَبْعُوْنَ ذِرَاعاً ثُمَّ یُنَوَّرُلَہٗ فِیْہِ‘‘
’’پھر تمام اطرف سے اس کی قبر کو ستر ستر گز وسیع کر دیا جاتا ہے پھر اس کی قبر میں نور بھر دیا جاتا ہے‘‘-
یعنی اس کی قبر کو منور کر دیا جاتا ہے اور جب قبر کو نور سے بھر دیا جاتا ہے ، جب فرشتوں کی بات چیت مکمل ہوجا تی ہے تو پھر منکر نکیر اس فوت شدہ کو کیا کہتے ہیں؟
’’فَیَقُوْلَانِ: نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعُرُوْسِ‘‘[9]
’’پس وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: جناب( اے اللہ کے ولی) سوجائیے جیسےسہاگ رات کودلہن اپنے حجلۂ عروسی میں سوتی ہے ‘‘-
اس لئے اب دیکھیں کے قبر میں کون آیا؟ منکر نکیر-تو وہ برگزیدہ ہستیاں جنہوں نے اس دنیا کی نفسانیت اور گرد و غبار کی وجہ سے جو ہجر مصطفےٰ (ﷺ)برداشت کیا سو کیا لیکن جب وہ قبر میں جاتے ہیں تو چونکہ قبر میں شبِ اسراء کے دولہا ،حضور نبی کریم (ﷺ)تشریف لاتے ہیں اس لئے کہا گیا کہ آج عروسہ کی طرح آپ بھی سوجا ئیے - اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی ()فرماتے ہیں کہ :
شبِ اسراء کے دولہا پہ دائم درود |
قبر میں چونکہ شبِ اسراء کے دولہا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) تشریف لاتے ہیں تو فرمایا کہ یہ مومن کے لئے سہاگ یعنی عروس کی رات ہوتی ہے کہ جب اس کے حجلہ مزار میں شبِ اسراء کے دولہا آگئے تو وہ ہجر اور جدائی کی رات نہ رہی بلکہ یہ محبوب پاک(ﷺ) کی ذات سے قربت اور واصل ہو جانے کی رات ہوگئی- اس لئے ’’نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعُرُوْسِ‘‘ فرمایا ہے اور جہاں بھی اللہ کے ایسے ولی موجود ہیں تو ان کی قبور پر اس شبِ عروس کو منانے (celebrate)، اللہ کی حمدو ثناء،محبوب پاک(ﷺ )کی نعت پڑھنے اور اللہ کی مخلوق کو نصیحت کرنے جانا سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) بن جاتا ہے-
یہ وہ بنیادی فلسفہ ہے جس پرمتکلمین اور آئمہ فقہ نے متواتر یعنی مسلسل روایات کے ساتھ بحث کی ہے اور اس پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں-ناچیز نے یہ صرف اس فلسفہ کی وضاحت کے لئے اس لئے بیان کردیا ہے کہ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بھی سورہ الحجرات کی ابتدائی آیات میں فرمایا کہ ’’جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لائےتو خبر کی تصدیق کر لیا کرو‘‘- تو آج کل فرقہ واریت کے جن اقوال کی بناء پر جو اُلجھن پھیلائی جاتی ہے اُن کو خود از روئے قرآن و سنت تصدیق کر لیا جائے کہ کیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہیں یا قرآن و سنت کے مخالف ہیں-کیونکہ یہ ایک طے شدہ بحث ہے جس میں کسی قسم کے دو رائے ہی نہیں ہیں لیکن جب ایسے طے شدہ امور میں جو سُنّت سے ثابت شُدہ ہوں، جب اُن معصوم اور فضیلتِ علمی میں نسبتاً کم درجہ کے لوگوں کو جو دین کا ایک معمولی علم تو رکھتے ہیں لیکن وہ قرآن و سنت کا گہرائی سے وسیع مطالعہ نہیں رکھتے، اُن میں اس طرح کا التباس یا الجھن (confusion)پیدا کی جاتی ہے تو وہ اس طرح کے تعصب کا نرم شکار ہوجاتے ہیں-اس لئے ہمیں شکاری کے اس فریب و مکر کے جال سے بچنا چاہیے تا کہ ہمارےایمان کا پرندہ محفوظ رہے-
ناچیز نے احادیثِ مصطفےٰ (ﷺ) سے اس تقریب کے حوالہ سے جو اصول بیان کیا ہے،وہ اکابرینِ اُمّت کے نزدیک طے شُدہ ایک بنیادی اصول ہے-اب اس سے اگلی منزل کی طرف آئیے کہ از روئے کتاب و سنت(ﷺ) اورطریقِ اسلاف سے راہِ فقر میں راہبر و مُرشد کی ضرورت کیا ہے؟ وہ شخصیات جنہوں نے اپنی زندگی مُشاہداتِ راہِ باطن میں گزاری اور بیتائی ہو ایسی شخصیات کی معاشروں کو کیا ضرورت ہے؟کیا ایسی شخصیات بِلا ضرورت اس معاشرے میں ہیں؟ان شخصیات کا ہمارے درمیان موجود ہونا ہمارے لئے کس خیر و برکت کا باعث ہے؟اور ان شخصیات کا موجود نہ ہونا معاشرے میں کیا خلل واقع کرتا ہے؟
(۲)راہِ فقر میں ضرورتِ راہبر:
بنیادی طور پر جو انسان کی زندگی کا مقصد ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب سید الانبیاء ،خاتم النبین (ﷺ) کی مکمل اطاعت و غلامی کرکے امانت الٰہی(یعنی یوم الست والے واقع کی طرف اشارہ ہے کہ)اللہ تعالیٰ نے بندے کو عطا کی تھی،اُس امانت کو صحیح سلامت پوری دیانتداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹانا اور بروزِ حشر اپنے اس اعمال نامہ کو صحیح سلامت رکھ کر اپنے خالق کے ترازو میں پیش کرنا ہے-جیسے علامہ اقبال()فرماتے ہیں کہ:
یہ ہے خلاصۂ علمِ قلندری کہ حیات |
|
خدنگِ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں |
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جو علم قلندری مَیں نے پڑھا اور سیکھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تو تیر ہے جسے کھینچ کر پھینک دیا گیا لیکن اس پھینکے جانے کے باوجودتو اپنی کمان سے دور نہیں ہے اگر تو لوٹ کے اپنی کمان کی جانب دیکھے تو وہ کمان تیرے قریب ہے اور اس سے پہلے کہتے ہیں کہ ’’اےا سیرِ مکاں! ‘‘ جو اس دنیا کی رنگ و بو میں کھو گیا ’’لا مکاں سے دور نہیں‘‘ تو اس کے لا مکان سےآج بھی دور نہیں ہے-اللہ پاک نے بھی انسان کی اس شکستہ حالت کے بارے میں فرمایا کہ:
’’ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَ‘‘[11]
’’پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا‘‘-
پھر علامہ اقبال()انسان میں ایک عزم کرتے ہوئے مزیدفرماتے ہیں کہ :
اِسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا |
تیرے مکان اور بھی ہیں اور تیرا مکان کونسا ہے؟تیرا مکان تو لا مکان (عالمِ لاہوت)ہے اور جس جلوہ گاہ (اللہ پاک کی ذات کے انوار و تجلیات)کی تجھے تلاش ہے وہ جلوہ گاہ تیرے اس خاکی پیکر سے دورنہیں ہے- اگر آج بھی تو اپنے اس وجود میں گہرائی سےجھانکے،سوچے اور گہرائی سے اترے تو وہ جلوہ گاہ آج بھی تیرے انتظار میں ہے-کیونکہ وہ جلوہ گاہ تیرے خاک دار پیکرکی دسترس (انسان کے دل)میں رکھ دی گئی ہے،ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ تو طلب کی شدت کے ساتھ اس جلوہ کی تلاش اور تمنا کر اوراس جلوہ گاہ کی طرف متوجہ ہوکر چل پڑ-لیکن جب ہمارا معاشرہ کرامت کے تاج پہنے ہوئے نو نہال بچے کو،اس ’’احسن تقویم‘‘ کو اپنی آغوشِ مادر میں اس پاک جلوہ گاہ کی طرف درس دینے کی بجائے اپنے انتقام، بُغض اور اَنا کا درس دیں،جب وہ اس بچے کی تربیت اورمستقبل کو ’’بالی ووڈ‘‘ اور ’’ہالی ووڈ‘‘ کے میوزک کی سکرین کے مناظر کے سپرد کر دیں اور جب والدین اپنے بچوں کی تربیت کا انحصار اپنی محبت اورشفقت کی جگہ ’’سمارٹ فونز،ٹیب،آئی پیڈز،کمپیوٹرز،کیبل نیٹ ورکنگ، ڈش انٹینا ‘‘،اس دنیا کے ظلم بربریت ہتھیاروں کے بندوقوں کی نالیوں اور اس سے نکلنے والی آتش پر کردیں تو یہ ’’احسن تقویم‘‘ کی بجائے ’’اسفل سفلین‘‘ کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے- کیونکہ یہ اپنی اس روحانی اقدار کو چھوڑ کر اس شیطانی اقدار میں پھنس جاتا ہے جس کا ابلیس نے اللہ کی بارگاہ میں قسم اٹھا کر عہد کیا تھا کہ :
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ[13]
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قٔسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ ط وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ[14]
’’پھر میں یقیناً ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا، اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘-
یعنی وہ تیری رحمت،عطا،شفقت،انعام اور تیری دی ہوئی نعمتوں کا کفرانہ کریں گے اور یہی ان کا کفرانٔہ نعمت اور یہی ان کی شکر سے دوری تیری مخلوق کو تجھ سے دور کر دے گی اور مَیں ان کو اپنے چُنگل،دانۂ فریب میں گرفتار کرلوں گا-جہاں یہ جہانِ رنگِ و بو سے ان کی آزادی کی گنجائش ختم کردی جائے گی اور ان کے سوچنے سمجھنے کی بصیرت اور صلاحیت ختم کردی جائے گی-تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا جنگ کا مَیں ہر راستہ،ہر مرحلہ ، ہر سیڑھی ،ہر زینہ اور ہر قدم پر ان کے سامنے فریب کی ایسی دنیا بچھادوں گا کہ اوّل وہ تیری جانب آ ہی نہیں سکیں گے اور اگر وہ تیری جانب راغب ہوئے بھی تو مَیں ان کو حورو قصور،غِلمان سے آگے تیرے قرب، محبت، وصل اور تیری خوشنودی کی طرف ان کو نہ جانے دوں گا اور ان حوروں ،غِلمان کی تڑپ ان کے لئے ایسی حشیش کا نشہ بنادوں گا کہ وہ انسانیت کو اس بنا پر قتل کریں گے کہ مجھے یہاں اس قتل عام کے بدلہ میں وہاں ستر ستر حوریں عطا کی جائیں گی-
یہ آپ کے اس نام نہاد،فکری ،اصلاحی اور تبلیغی نظام کا وہ سانحہ ہے جو مخلوق کو خالق کی جانب متوجہ ہی نہیں ہونے دیتا- جن کے نزدیک عبادت کی غرض خالق نہیں بلکہ مخلوق اور اس کے انعام و اکرام اور نعمتیں ہوتی ہیں جبکہ یہ نعمتیں بندہ کی عبادت کی منزلیں نہیں ہیں-اس تبلیغی ڈھانچے اور اس فکری نام نہاد اصلاح کا یہ سانحہ آج کے دور کا نہیں بلکہ اڑھائی (2.5)صدیوں کا ہے کہ ہمیں منزل کی بجائے انعام پر اکتفا کرنے کا درس ملتاہے- امت کا سانحہ یہ ہے کہ یہ انعام پر اکتفا کرگئی ہے اور یہ منزل کی جانب لوٹنا چاہتی ہی نہیں ہے-اس لئے کہ کوئی انہیں منزل کی جانب بُلانےکے لئے درس و تلقین نہیں کرتا-جنت،حور وقصور، غِلمان،نعمتیں،انعامات،دودھ کی نہریں اور جنّت کے میوے یہ سب کے سب مومن کی عبادت کا اجر اور انعام و اکرام ہیں لیکن مومن کی عبادت کی منزل نہیں ہیں کیونکہ مومن کی عبادت کی منزل اللہ کی بارگاہ کا قرب اور انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہے -
تو اس راستہ کوجب انسان طے کرنا شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا ایک دشمن بھی ہے:
’’وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشِّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عُدُوُّ مُّبِیْنٌ‘‘[15]
’’ اور شیطان کی پیروی مت کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘-
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا[16]
’’شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو‘‘-
یہ ایک مقام پر نہیں بلکہ بار ہا مقام پر اللہ تعالیٰ نے بندے کوتلقین و نصیحت فرمائی اور اس راستے کی جانب بلایا ہےکہ شیطان تو انسان کے لئے کھلا دشمن ہے-شیطان کا حملہ یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے انسان کے باطن کو اپنے شکنجے میں لیتا ہے کیونکہ ظاہر باطن کے تابع ہے-جب باطن پر کسی چیز کی گرفت مضبوط ہو جائے تواس کی مثال ایسے ہے کہ جب ایک گھوڑ سوار گھوڑے کی لگام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے توجس طرح سوار چاہے گا گھوڑا ویسے ہی حرکت کرے گا-اسی طرح جب شیطان انسان کے باطن کو اپنے دستِ تصرف میں لے لیتا ہے تو پھر وہ جدھر بولے گا انسان ویسا کرتا چلے جائے گا-کیونکہ یہ جو وجود ہے اس کی لگام انسان کے باطن میں ہے،جب یہ وجود اپنی لگام نفس و شیطان کے ہاتھ میں دے دےتو اس کی اپنی زندگی اور اپنے ارادے پر اختیار ختم ہوجاتا ہےکیونکہ اس کی لگام جب نفسانی خواہشات کے ہاتھ میں ہے تو وہ جدھر کو چاہے گا یہ ادھر کو مڑے گا –اب شیطان کی مرضی کہ اس کو ان تمام خصائل’’ جھوٹ، حسد ، بغض ، کینہ ،عناد، منافقت،کبر،ہوا، ریا ،سود،قتل ،زنا،وعدہ خلافی، مکر و فریب،کفر و شرک،شراب اور بدکاری‘‘ کی جانب موڑتا ہے،تو جس جانب شیطان اس کو موڑے گا یہ اسی جانب مڑتا چلے جائے گا-
کیونکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ باطن کی خرابی ہی معاشرے کی خرابی کا موجب ہے- اس لئے شیطان باطن میں نقب لگاتا ہے اور باطن سے انسان کو مکمل طور پر کنٹرول کرتا ہے- آپ اس موجودہ تعلیم کے سانحہ کو دیکھیئے جس میں علامہ اقبال ()نے اس کی وضاحت کی ہے کہ:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو |
جب انسان کی خودی ، اس کا ارادہ،تقویٰ ، روحانی اسلامی سرمایہ تیزاب میں پگھل کر ملائم ہوجائے گا تو جدھر چاہے اس کو موڑ دو-آج جو تعلیم کی بڑی بڑی فرنچائزز اور بڑے بڑے برینڈز نکلے ہوئے ہیں یہ بنیادی طور پر غُلام ساز ادارے ہیں یہ ہماری نسلوں کی خودی کو تیزاب میں ڈال کر ملائم کرنے کے کارخانے لگے ہوئے ہیں-یہ ہماری آئندہ نسل کی خودی،ملی قومی حمیت، ملی قومی نظریات، ہماری اسلامی ثقافت،ہمارے روحانی ورثے کو تیزاب میں ڈال کر ملائم کرکے ہندی اور مغربی تہذیب کے تحت اس کے اعضاء کو پھیرنا چاہتے ہیں- اس کو ریت کی طرح بکھیر کے از سرِ نو اپنی مرضی کے گھڑوندے بنانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی مرضی کا معاشرہ تشکیل دے سکیں-
جب شیطان انسان کے باطن پر اختیار حاصل کرلیتا ہے تو پھر شیطان معاشرے پر اختیار حاصل کر لیتا ہے کیونکہ شیطان کا ذریعہ انسان کا باطن ہے اور انسان کا باطن انسان کے ظاہر سے آشکارا ہوتا ہے اور انسان کا ظاہر انسان کی معاشرت کہلاتا ہے-لہٰذا انسانی معاشرہ کو خراب کرنے، بگاڑنے اور انتشار پیدا کرنے کے لئے شیطان کا بنیادی ہتھیار انسان کا باطن ہے- لہٰذا انسان کو جس طرح اپنی معاشرت کے لئے عمرانیات(Sociology) کے استاذ کی ضرورت ہے تا کہ وہ اس ظاہری معاشرت کی اصلاح کر سکے-اسی طرح انسان کو انسان کے روحانی (Spiritual) استاذ (مرشدکامل)کی ضرورت ہے جو اس کے وجودِ باطن میں اُتر کر اس کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دے سکے-
دشمن کے متعلق چند چیزیں آدمی کو پتا ہونا لازم ہیں کہ:
دشمن کی طاقت کیا ہے؟
دشمن کا ہتھیار کیا ہے؟
دشمن کی ذہنیت ( mentality)کیا ہے؟
دشمن کے دوست کون ہیں؟
دشمن کے وار کرنے کے پسندیدہ مشاغل کونسے ہیں؟
یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو قرآن کریم نے کہیں واضح و بیّن اور کہیں بین السطور ان کو بیان کیا ہے جن کی مکمل وضاحت آقا (ﷺ) نے اپنے قول و اپنے عمل سے فرما دی-دشمن شیطان ہے،تو جب آدمی اس کی طاقت،اس کا ہتھیار و حربہ اور اس کی ذہنیت کو سمجھنے نکلتا ہے تو اس کو ایک ایسے استاذ،شیخ یا مرشد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو قدم بہ قدم،زینہ بہ زینہ رہنمائی عطا کرتا جائے کہ اس قدم پر تونے یوں کرنا ہے،اس زینے پر تونے اس طرح کرنا ہے اور اس چیز سے اجتناب کرو اور اس چیز کو اختیار کرو-یہ تمام راستہ ایک ایسی نگرانی میں طے ہونا چاہیے جو خود اس راستے کی مشکلات،نشیب و فرازاور اس راستے کی شاہراؤں سے واقف ہو یعنی اس راہ کو جانتا ہو اس لئے کہ یہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ:
’’اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰانٌ طوَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً‘‘[18]
’’بے شک جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا تسلط نہیں ہو سکے گا‘‘-
٭٭٭
[1](ابراہیم:5)
[2](امام طبری(224ھ-310ھ)، ’’تفسیر طَبَرِی‘‘ جلد 6، ص: 576 )، (امام أحمد بن حنبل ،م:241ھ مسند أحمد بن حنبل)، (ابو بكر الہيثمي، م: 807ھ ، مجمع الزوائد)
[3](امام طبرانی(260ھ-360ھ)’’المعجم الکبیر‘‘ ج:7، ص: 138)
[4](امام أبو بكر عبد الرزاق ،(126ھ-211ھ)،مصنف عبد الرزاق) (امام طبری(224ھ-310ھ)،تفسیرطبری)(امام قرطبی(600ھ-671ھ)، تفسير القرطبی)(امام ابن التیمی(661ھ-728ھ)، تفسیر کبیر)( امام بدر الدين عينی(762ھ-855ھ) عمدة القاری شرح صحيح البخاری)
[5] (امام طبری(224ھ-310ھ)، تفسیر الطبری)
[6](جمال الدین ابی فضلؒلسان العرب، جلد:6، ص :163)
[7] (جمال الدین ابی فضلؒ(م:711ھ)،معجم الوسیط)
[8] (امام بخاری(194ھ-256ھ)، صحیح بخاری، کتاب الرقاق)
[9] (ابو عیسیٰ محمد ترمذی(209-279ھ)جامع ترمذی، کتاب الجنائز)
[10] (بالِ جبریل)
[11] (التین:5)
[12] (بالِ جبریل)
[13] (الاعراف:16)
[14](الاعراف:17)
[15] (البقرہ : 208)
[16] (فاطر: 6)
[17](ضربِ کلیم)
[18](بنی اسرائیل:65)