شبِ معراج کے نوافل

شبِ معراج کے نوافل

اللہ رب العزت نے سال کے بارہ (۱۲)مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کر کے ان کی خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 ’’إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘[1]

’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کےنزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں‘‘-

ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ رجب ہے جس کے بارے میں امام محمد غزالی ؒ ’’مکاشفۃ القلوب‘‘میں فرماتے ہیں  کہ’’رجب‘‘دراصل ترجیب سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہے تعظیم کرنا-اسے ’’الاحسب‘‘بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں  تیز بہاؤ، اس لیے کہ اس ماہ مبارک میں توبہ کرنے والوں پر رحمت کا بہاؤتیز ہو جاتا ہے اور عبادت گزاروں  پرانوار  قبولیت کا   فیضان ہوتا ہے-اس بنا پر  اسے  ’’اصم ‘‘ بھی کہتے ہیں چونکہ اس  مہینہ میں جنگ وقتال   کی آواز  نہیں  سنی جاتی-اس لئے اس مہینہ کو ’’اصب‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و مغفرت اُنڈیلتا ہے اس میں عبادتیں مقبول اور دعائیں مستجاب ہوتیں ہیں اسے رجب کہتے ہیں- رجب جنت میں ایک نہر کا نام ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید،شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا،اس کا پانی اُس کا مقدر ہوگا جو رجب میں روزے رکھے گا-

اسی مہینہ کی یکم تاریخ کو سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے،اسی ماہ کی چار(۴)تاریخ کو جنگِ صفین کا واقعہ پیش آیا،اسی ماہ کی ستائیسویں(۲۷) کی رات کو محبوب کبریا(ﷺ)نے معراج شریف کی ہے جس میں آسمانی سیر اور جنت و دوزخ کا ملاحظہ کرنا اور دیدار الٰہی سے مشرف ہونا تھا-

صوفیائے کرام کا فرمان ہے کہ رجب میں تین(۳) حروف ہیں:’’ر‘‘،’’ج‘‘ اور ’’ب‘‘-

’’ر‘‘ سے مراد اللہ کی رحمت ہے-

’’ج‘‘ سے مراد بندے کا جرم ہے-

’’ب‘‘ سے مراد اللہ کی بَر یعنی بھلائی مراد ہے-

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے جرم کو میری رحمت اور بھلائی یعنی بخشش کے درمیان کردو[2]-

اس لیے کہ اس ماہ کی نسبت بھی  اللہ پاک کی طرف ہے جیساکہ آقا پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’رجب شھر اللہ وشعبان شھری و رمضان شھر امتی ‘‘[3]

’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے‘‘-

ایک اور حدیث پاک میں آقا پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’فضل شهر رجب على الشهور كفضل القرآن على سائر الكلام‘‘[4]

’’رجب کی فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی قرآن پاک کی فضیلت باقی تمام کلاموں(صحیفوں) پر ہے‘‘-

رجب شریف کے روزے:

رجب المرجب کے مہینے میں روزے رکھنا بہت بڑا ثواب ہے، جیسا کہ اس بارے میں فرمانِ مصطفےٰ  (ﷺ)ہےکہ:

’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا اس نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کو واجب کر لیا-[5]

اِسی طرح ایک اور مقام پہ آقا پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ :

’’ رجب شهرعظيم يضاعف الله فيه الحسنات فمن صام يوما من رجب فكانما صام سنة ومن صام منه سبعة أيام غلقت عنه سبعة أبواب جهنم ومن صام منه ثمانية أيام فتحت له ثمانية أبواب الجنة ومن صام منه عشرة أيام لم يسال الله شيئا إلا أعطاه إياه ومن صام منه خمسة عشريوما نادى مناد في السماء قد غفر لك ما مضى فاستانف العمل ومن زاد زاده الله عزوجل ‘‘[6]

’’رجب ایک عظیم الشان مہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کو دگنا کرتا ہے جو آدمی رجب کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے اور جو شخص رجب کے سات (۷)دن کے روزے رکھے تو اس پر دوزخ کے سات دروازے بند کیے جائیں گے جو اس کے آٹھ (۸)دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت کےآٹھ (۸)دروازے کھل جائیں گے اور جو آدمی رجب کے دس دن کے روزے رکھے تواللہ تبارک و تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے گا وہ اسے دے گا اور جو رجب کے پندرہ دن روزے رکھےتو آسمان سے ایک منادی پکارے گا کہ تیرے گزشتہ گناہ معاف ہو گئے پس نئے سرے سے عمل کر   اور جو آدمی زیادہ روزے رکھے گا اسے اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ دے گا ‘‘-

مزید حضرت ابو ہریرہ ؒ فرماتےہیں کہ آقاپاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایاکہ:

’’من صام يوم سبع وعشرين من رجب كتب الله له صيام ستين شهرا‘‘[7]

’’جو شخص رجب کی ستائیسویں (۲۷)تاریخ کو روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ساٹھ (۶۰)مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائےگا ‘‘-

نوافل کی اہمیت:

رجب المرجب شریف کی ستائیسویں (۲۷)شب کو ہمارے آقا ومولیٰ(ﷺ)علِم بیداری میں اور جسم انور کے ساتھ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آسمانوں پرآسمانوں سے بھی اوپر سدرۃ المنتہی تک اور پھر سدرۃ المنتہی سے بھی آگے وہاں تشریف لے گئے جہاں کسی کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا توایسی رات جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ اس میں سرور کائنات (ﷺ)کو معراج ہوئی ہو اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک (ﷺ) کو خصائص نعم (نعمتوں)سے نوازا ہو اوراپنے دیدار کی نعمت کبرٰی سے سرفراز کیا ہو وہ رات کتنی افضل و بزرگ ہوگی!تو اسی شب کے بارے میں حضرت انس ؒ روایت کرتے ہیں کہ آقا  پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’للعامل في هذه الليلة حسنات مائة سنة ‘‘فمن صلى في هذه الليلة اثنتي عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرآن ويتشهد في كل ركعتين ويسلم في آخرهن ثم يقول ’’سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر مائة مرة ثم يستغفر الله مائة مرة ويصلي على النبي(ﷺ)مائة مرة ويدعو لنفسه بما شاء من أمر دنياه وآخرته ويصبح صائماً فإن الله يستجيب دعاءه كله إلا أن يدعو في معصية ‘‘[8]

’’رجب کی ستائیسویں (۲۷)رات میں عبادت کرنے والوں کوسو (۱۰۰)سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے جواس رات میں بارہ (۱۲)رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتح پڑھ کر قرآن کریم کی کوئی سورۃ پڑھے اور دو رکعت پر تشہد (التحیات للہ آخر تک )پڑھ کر (بعد درود)سلام پھیرے اوربارہ (۱۲)رکعتیں پڑھنے کے بعد سو(۱۰۰)مرتبہ یہ تسبیح پڑھے ’’سبحان اللہ والحمد اللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر‘‘-پھرسو (۱۰۰)مرتبہ استغفراللہ اورسو (۱۰۰)مرتبہ درود شریف پڑھے تو دنیا و آخرت کے امور کے متعلق جو چاہے دعا کرے اور صبح میں روزہ رکھے تو یقینا ًاللہ تعالیٰ اس کی تمام دعاؤں کو قبول فرمائے گا مگر یہ کہ وہ کوئی ایسی دعا نہ کرے جو گناہ میں شمار ہوتی ہو کیونکہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی ‘‘-

نفلی عبادت کےدرجات:

حضرت ابو ہریرہ ؒ رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِى بِشَىْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِى يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِى يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِى يَمْشِى بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِى لأُعْطِيَنَّهُ‘‘[9]

’’ اور میرا بندہ کسی ایسی عبادت سے میرا قر ب حاصل نہیں کرتا جو مجھے ان عبادات سے زیادہ پسندیدہ ہو جو مَیں نے اس پر فرض کی اور میرا بندہ نوافل کے ساتھ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے-حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ،پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سُنتاہے، میں اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، مَیں اس کے وہ ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، مَیں اس کے وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور جب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو مَیں ضرور اسے عطا کرتا ہوں‘‘-

حضرت حمید بن عبد الرحمٰن (رض)رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’قال(ﷺ)افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ قیام اللیل‘‘[10]

’’آقا پاک (ﷺ) ارشاد فرماتے ہیں کہ فرائض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے‘‘-

مزید  نوافل کی اہمیت  کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ آقاپاک(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ان اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ فان و جدت تامۃ کتبت تامۃو ان کان انتقص منھا شیئی قال انظر و اھل تجدون لہ من تطوع یکمل لہ ما ضیع من فریضۃ من تطوعۃ ثم سائر الاعمال تجری علی حسب ذلک‘‘[11]

’’قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے اس کی نمازوں کا حساب لیا جائے گا اگر وہ پوری پائی گئیں تو پوری لکھ لی جائیں گی اور اگر ان میں کچھ کمی پائی گئی تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نوافل بھی ہیں؟چنانچہ فرض نمازوں کی کمی نوافل سے پوری کی جائیگی، اسی طرح سارے اعمال  کے بارے میں ہوگا‘‘-

ابن المنکدر ؒ فرماتے ہیں کہ دنیاکی صرف تین(۳)  لذتیں باقی رہنے والی ہیں:

رات کو جاگنے والے کی لذت

بھائیوں سے ملاقات کی لذت

باجماعت نماز ادا کرنے کی لذت

بعض عارف باللہ فرماتے ہیں کہ سحر کے وقت اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے قلوب کی طرف توجہ فرماتا ہے جنہوں نے تمام رات عبادت کی اور انہیں نور سے بھر دیتا ہے  – پھر ان پاک باز بندوں کا نور غافلوں کے دلوں پر منتقل ہوجاتا ہے- بعض پہلے  علماء میں کسی عالم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادنقل کیا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں مَیں محبوب رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں وہ میرے مشتاق ہیں مَیں ان کا مشتاق ہوں، وہ میرا ذکر کرتے ہیں اور مَیں ان کا ذکر کرتا ہوں،وہ میری طرف دیکھتے ہیں اور مَیں ان کی طرف دیکھتا ہوں ،اگر تو ان کے طریقے کے مطابق عمل کرے گا تو مَیں تجھ کو دوست رکھوں گا اور اگر تو ان سے انحراف کرے گا تو مَیں تجھ سے ناراض رہوں گا، ان بندوں کی علامت یہ ہے کہ وہ دن کو اس طرح سایہ پر نظر رکھتے ہیں جس طرح چرواہا اپنی بکریوں پر نظر رکھتا ہے اور غروبِ آفتاب کے بعداس طرح رات کے دامن میں پناہ لیتے ہیں جس طرح پرندے اپنے گھونسلوں میں چھپ جاتے ہیں –پھر جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو حبیب اپنے محبوب کے ساتھ خلوت میں چلے جاتے ہیں تو وہ میرے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری خاطر اپنے چہرے زمین پر رکھتے ہیں مجھ سے مناجات کرتے ہیں، میرے انعامات کا تذکرہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ،کوئی روتا ہے،کوئی چیختا ہے ، کوئی آہ بھرتا ہے وہ لوگ جس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں وہ میری نگاہوں کے سامنے ہیں-میری محبت میں وہ جو  کچھ شکوے شکایت کرتے ہیں مَیں ان سے واقف ہوں، میرا ان لوگوں پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ مَیں اپنا کچھ نور ان کے دلوں میں ڈال دیتا ہوں-

دوسرا انعام یہ کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں، ان نیک بندوں کے مقابلے میں لائی جائیں تو مَیں انہیں (یعنی اپنے بندوں کو ) ترجیح دوں-

تیسرا انعام یہ ہے کہ مَیں اپنے چہرے سے ان کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ جن لوگوں کی طرف مَیں اس طرح متوجہ ہوتا ہوں انہیں کیا دینا چاہتا ہوں؟مالک ابن دینار ؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قریب آجاتے ہیں-ان قدسی صفت انسانوں کے دلوں میں سوز و گداز اور رقت کی یہ کیفیت اس لئے پیدا ہوتی تھی کہ انہیں باری تعالیٰ کا قرب میسر تھا[12]-

حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور پاک(ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’إن من الليل ساعة لا يوافقها عبد مسلم يسأل الله خيرا إلا أعطاه إياه ‘‘[13]

’’رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اسے پاتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر کی درخواست کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے‘‘-

یعنی تمام رات کی عبادت کا مقصد صرف اور صرف اس گھڑی کا پانا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ تمام دعاؤں کو قبول  فرماتاہے –اس لئے اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رات کی اُس گھڑی میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین---!

٭٭٭


[1](التوبہ:۳۶)

[2](مکاشفۃ القلوب،ص:۶۰۲)

[3](جامع الاحادیث،جلد:۴،ص:۴۰۹)

[4](مقاصد الحسنہ،ص:۳۰۶)

[5](مکاشفۃ القلوب،ص:۶۰۳)

[6](جامع الاحادیث،جلد:۴،ص:۴۰۹)

[7](احیاء علوم الدین،ج :۱ ،ص:۵۰۹)

[8](احیاءعلوم الدین،ج:۱، ص:۵۰۸)

[9](صحیح بخاری،ص:۱۵۹۷)

[10](سنن النسائی،جلد:۳،ص:۱۴۵)

[11](سنن نسائی، ص:۳۴۶)

[12](احیاء علوم الدین،جلد:۱،ص:۵۰۵)

[13](مسلم شریف،ص:۳۵۰)

اللہ رب العزت نے سال کے بارہ (۱۲)مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کر کے ان کی خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘[1]

’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کےنزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں‘‘-

ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ رجب ہے جس کے بارے میں امام محمد غزالی (﷫) ’’مکاشفۃ القلوب‘‘میں فرماتے ہیں  کہ’’رجب‘‘دراصل ترجیب سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہے تعظیم کرنا-اسے ’’الاحسب‘‘بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں  تیز بہاؤ، اس لیے کہ اس ماہ مبارک میں توبہ کرنے والوں پر رحمت کا بہاؤتیز ہو جاتا ہے اور عبادت گزاروں  پرانوار  قبولیت کا   فیضان ہوتا ہے-اس بنا پر  اسے  ’’اصم ‘‘ بھی کہتے ہیں چونکہ اس  مہینہ میں جنگ وقتال   کی آواز  نہیں  سنی جاتی-اس لئے اس مہینہ کو ’’اصب‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و مغفرت اُنڈیلتا ہے اس میں عبادتیں مقبول اور دعائیں مستجاب ہوتیں ہیں اسے رجب کہتے ہیں- رجب جنت میں ایک نہر کا نام ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید،شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا،اس کا پانی اُس کا مقدر ہوگا جو رجب میں روزے رکھے گا-

اسی مہینہ کی یکم تاریخ کو سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے،اسی ماہ کی چار(۴)تاریخ کو جنگِ صفین کا واقعہ پیش آیا،اسی ماہ کی ستائیسویں(۲۷) کی رات کو محبوب کبریا(ﷺ)نے معراج شریف کی ہے جس میں آسمانی سیر اور جنت و دوزخ کا ملاحظہ کرنا اور دیدار الٰہی سے مشرف ہونا تھا-

صوفیائے کرام کا فرمان ہے کہ رجب میں تین(۳) حروف ہیں:’’ر‘‘،’’ج‘‘ اور ’’ب‘‘-

v                  ’’ر‘‘ سے مراد اللہ کی رحمت ہے-

v                  ’’ج‘‘ سے مراد بندے کا جرم ہے-

v                  ’’ب‘‘ سے مراد اللہ کی بَر یعنی بھلائی مراد ہے-

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے جرم کو میری رحمت اور بھلائی یعنی بخشش کے درمیان کردو[2]-

اس لیے کہ اس ماہ کی نسبت بھی  اللہ پاک کی طرف ہے جیساکہ آقا پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’رجب شھر اللہ وشعبان شھری و رمضان شھر امتی ‘‘[3]

’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے‘‘-

ایک اور حدیث پاک میں آقا پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’فضل شهر رجب على الشهور كفضل القرآن على سائر الكلام‘‘[4]

’’رجب کی فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی قرآن پاک کی فضیلت باقی تمام کلاموں(صحیفوں) پر ہے‘‘-

رجب شریف کے روزے:

رجب المرجب کے مہینے میں روزے رکھنا بہت بڑا ثواب ہے، جیسا کہ اس بارے میں فرمانِ مصطفےٰ  (ﷺ)ہےکہ:

’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا اس نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کو واجب کر لیا-[5]

اِسی طرح ایک اور مقام پہ آقا پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ :

’’ رجب شهرعظيم يضاعف الله فيه الحسنات فمن صام يوما من رجب فكانما صام سنة ومن صام منه سبعة أيام غلقت عنه سبعة أبواب جهنم ومن صام منه ثمانية أيام فتحت له ثمانية أبواب الجنة ومن صام منه عشرة أيام لم يسال الله شيئا إلا أعطاه إياه ومن صام منه خمسة عشريوما نادى مناد في السماء قد غفر لك ما مضى فاستانف العمل ومن زاد زاده الله عزوجل ‘‘[6]

’’رجب ایک عظیم الشان مہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کو دگنا کرتا ہے جو آدمی رجب کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے اور جو شخص رجب کے سات (۷)دن کے روزے رکھے تو اس پر دوزخ کے سات دروازے بند کیے جائیں گے جو اس کے آٹھ (۸)دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت کےآٹھ (۸)دروازے کھل جائیں گے اور جو آدمی رجب کے دس دن کے روزے رکھے تواللہ تبارک و تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے گا وہ اسے دے گا اور جو رجب کے پندرہ دن روزے رکھےتو آسمان سے ایک منادی پکارے گا کہ تیرے گزشتہ گناہ معاف ہو گئے پس نئے سرے سے عمل کر   اور جو آدمی زیادہ روزے رکھے گا اسے اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ دے گا ‘‘-

مزید حضرت ابو ہریرہ (﷜)فرماتےہیں کہ آقاپاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایاکہ:

’’من صام يوم سبع وعشرين من رجب كتب الله له صيام ستين شهرا‘‘[7]

’’جو شخص رجب کی ستائیسویں (۲۷)تاریخ کو روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ساٹھ (۶۰)مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائےگا ‘‘-

نوافل کی اہمیت:

رجب المرجب شریف کی ستائیسویں (۲۷)شب کو ہمارے آقا ومولیٰ(ﷺ)علِم بیداری میں اور جسم انور کے ساتھ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آسمانوں پرآسمانوں سے بھی اوپر سدرۃ المنتہی تک اور پھر سدرۃ المنتہی سے بھی آگے وہاں تشریف لے گئے جہاں کسی کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا توایسی رات جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ اس میں سرور کائنات (ﷺ)کو معراج ہوئی ہو اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک (ﷺ) کو خصائص نعم (نعمتوں)سے نوازا ہو اوراپنے دیدار کی نعمت کبرٰی سے سرفراز کیا ہو وہ رات کتنی افضل و بزرگ ہوگی!تو اسی شب کے بارے میں حضرت انس (﷜)روایت کرتے ہیں کہ آقا  پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’للعامل في هذه الليلة حسنات مائة سنة ‘‘فمن صلى في هذه الليلة اثنتي عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرآن ويتشهد في كل ركعتين ويسلم في آخرهن ثم يقول ’’سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر مائة مرة ثم يستغفر الله مائة مرة ويصلي على النبي(ﷺ)مائة مرة ويدعو لنفسه بما شاء من أمر دنياه وآخرته ويصبح صائماً فإن الله يستجيب دعاءه كله إلا أن يدعو في معصية ‘‘[8]

’’رجب کی ستائیسویں (۲۷)رات میں عبادت کرنے والوں کوسو (۱۰۰)سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے جواس رات میں بارہ (۱۲)رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتح پڑھ کر قرآن کریم کی کوئی سورۃ پڑھے اور دو رکعت پر تشہد (التحیات للہ آخر تک )پڑھ کر (بعد درود)سلام پھیرے اوربارہ (۱۲)رکعتیں پڑھنے کے بعد سو(۱۰۰)مرتبہ یہ تسبیح پڑھے ’’سبحان اللہ والحمد اللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر‘‘-پھرسو (۱۰۰)مرتبہ استغفراللہ اورسو (۱۰۰)مرتبہ درود شریف پڑھے تو دنیا و آخرت کے امور کے متعلق جو چاہے دعا کرے اور صبح میں روزہ رکھے تو یقینا ًاللہ تعالیٰ اس کی تمام دعاؤں کو قبول فرمائے گا مگر یہ کہ وہ کوئی ایسی دعا نہ کرے جو گناہ میں شمار ہوتی ہو کیونکہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی ‘‘-

نفلی عبادت کےدرجات:

حضرت ابو ہریرہ (﷜)رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِى بِشَىْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِى يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِى يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِى يَمْشِى بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِى لأُعْطِيَنَّهُ‘‘[9]

’’ اور میرا بندہ کسی ایسی عبادت سے میرا قر ب حاصل نہیں کرتا جو مجھے ان عبادات سے زیادہ پسندیدہ ہو جو مَیں نے اس پر فرض کی اور میرا بندہ نوافل کے ساتھ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے-حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ،پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سُنتاہے، میں اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، مَیں اس کے وہ ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، مَیں اس کے وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور جب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو مَیں ضرور اسے عطا کرتا ہوں‘‘-

حضرت حمید بن عبد الرحمٰن (﷜)رسول اللہ (ﷺ)سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’قال(ﷺ)افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ قیام اللیل‘‘[10]

’’آقا پاک (ﷺ) ارشاد فرماتے ہیں کہ فرائض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے‘‘-

مزید  نوافل کی اہمیت  کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ (﷜)سے روایت ہے کہ آقاپاک(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ان اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ فان و جدت تامۃ کتبت تامۃو ان کان انتقص منھا شیئی قال انظر و اھل تجدون لہ من تطوع یکمل لہ ما ضیع من فریضۃ من تطوعۃ ثم سائر الاعمال تجری علی حسب ذلک‘‘[11]

’’قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے اس کی نمازوں کا حساب لیا جائے گا اگر وہ پوری پائی گئیں تو پوری لکھ لی جائیں گی اور اگر ان میں کچھ کمی پائی گئی تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نوافل بھی ہیں؟چنانچہ فرض نمازوں کی کمی نوافل سے پوری کی جائیگی، اسی طرح سارے اعمال  کے بارے میں ہوگا‘‘-

ابن المنکدر(﷫) فرماتے ہیں کہ دنیاکی صرف تین(۳)  لذتیں باقی رہنے والی ہیں:

v      رات کو جاگنے والے کی لذت

v      بھائیوں سے ملاقات کی لذت

v      باجماعت نماز ادا کرنے کی لذت

بعض عارف باللہ فرماتے ہیں کہ سحر کے وقت اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے قلوب کی طرف توجہ فرماتا ہے جنہوں نے تمام رات عبادت کی اور انہیں نور سے بھر دیتا ہے  – پھر ان پاک باز بندوں کا نور غافلوں کے دلوں پر منتقل ہوجاتا ہے- بعض پہلے  علماء میں کسی عالم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادنقل کیا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں مَیں محبوب رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں وہ میرے مشتاق ہیں مَیں ان کا مشتاق ہوں، وہ میرا ذکر کرتے ہیں اور مَیں ان کا ذکر کرتا ہوں،وہ میری طرف دیکھتے ہیں اور مَیں ان کی طرف دیکھتا ہوں ،اگر تو ان کے طریقے کے مطابق عمل کرے گا تو مَیں تجھ کو دوست رکھوں گا اور اگر تو ان سے انحراف کرے گا تو مَیں تجھ سے ناراض رہوں گا، ان بندوں کی علامت یہ ہے کہ وہ دن کو اس طرح سایہ پر نظر رکھتے ہیں جس طرح چرواہا اپنی بکریوں پر نظر رکھتا ہے اور غروبِ آفتاب کے بعداس طرح رات کے دامن میں پناہ لیتے ہیں جس طرح پرندے اپنے گھونسلوں میں چھپ جاتے ہیں –پھر جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو حبیب اپنے محبوب کے ساتھ خلوت میں چلے جاتے ہیں تو وہ میرے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری خاطر اپنے چہرے زمین پر رکھتے ہیں مجھ سے مناجات کرتے ہیں، میرے انعامات کا تذکرہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ،کوئی روتا ہے،کوئی چیختا ہے ، کوئی آہ بھرتا ہے وہ لوگ جس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں وہ میری نگاہوں کے سامنے ہیں-میری محبت میں وہ جو  کچھ شکوے شکایت کرتے ہیں مَیں ان سے واقف ہوں، میرا ان لوگوں پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ مَیں اپنا کچھ نور ان کے دلوں میں ڈال دیتا ہوں-

دوسرا انعام یہ کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں، ان نیک بندوں کے مقابلے میں لائی جائیں تو مَیں انہیں (یعنی اپنے بندوں کو ) ترجیح دوں-

تیسرا انعام یہ ہے کہ مَیں اپنے چہرے سے ان کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ جن لوگوں کی طرف مَیں اس طرح متوجہ ہوتا ہوں انہیں کیا دینا چاہتا ہوں؟مالک ابن دینار (﷫)فرماتے ہیں کہ جب بندہ رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قریب آجاتے ہیں-ان قدسی صفت انسانوں کے دلوں میں سوز و گداز اور رقت کی یہ کیفیت اس لئے پیدا ہوتی تھی کہ انہیں باری تعالیٰ کا قرب میسر تھا[12]-

حضرت جابر (﷜) سے روایت ہے کہ حضور پاک(ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’إن من الليل ساعة لا يوافقها عبد مسلم يسأل الله خيرا إلا أعطاه إياه ‘‘[13]

’’رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اسے پاتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر کی درخواست کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے‘‘-

یعنی تمام رات کی عبادت کا مقصد صرف اور صرف اس گھڑی کا پانا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ تمام دعاؤں کو قبول  فرماتاہے –اس لئے اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رات کی اُس گھڑی میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین---!

٭٭٭



[1](التوبہ:۳۶)

[2](مکاشفۃ القلوب،ص:۶۰۲)

[3](جامع الاحادیث،جلد:۴،ص:۴۰۹)

[4](مقاصد الحسنہ،ص:۳۰۶)

[5](مکاشفۃ القلوب،ص:۶۰۳)

[6](جامع الاحادیث،جلد:۴،ص:۴۰۹)

[7](احیاء علوم الدین،ج :۱ ،ص:۵۰۹)

[8](احیاءعلوم الدین،ج:۱، ص:۵۰۸)

[9](صحیح بخاری،ص:۱۵۹۷)

[10](سنن النسائی،جلد:۳،ص:۱۴۵)

[11](سنن نسائی، ص:۳۴۶)

[12](احیاء علوم الدین،جلد:۱،ص:۵۰۵)

[13](مسلم شریف،ص:۳۵۰)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر