اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایااورہدایت و رہنمائی کا یہ سلسلہ سیدناحضرت آدم علیہ السلام سے لیکر سرکارِ دوعالم ،نورِ مجسم ،شفیعِ معظم حضور نبی کریم ﷺپر اختتام پذیرہو ا اورآپ ﷺ پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا- بعدازاںاللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم فریضہ کو سر انجام دینے کے لئے اپنے محبوب پاک ﷺکی امت سے ایسے لوگوں کا انتخاب فرمایا،جن کا سینہ توحید ِالٰہی اور نبوت ورسالت کے نور سے منور اور محبتِ رسولﷺسے لبریزتھا،اوروہ اُٹھتے بیٹھتے،کھاتے،پیتے ،سوتے جاگتے بلکہ ایک پل کے لیے بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ رہتے ، بھلا وہ کیسے رہتے ؟کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دین کی اشاعت اور سربلندی کے لئے چن لیا اور ہمیشہ کے لیے انہیں { رضی اللّٰہ عنہ ورضوا عنہ} کی سند عطافرما ئی- صحابہ کرام کے ایمان کو اہلِ اسلام کے لیے کسوٹی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: {امنوا کما امن الناس} (البقرۃ :۱۳) ایمان لے آئو، جیسا کہ وہ لوگ ایمان لے آئے ، اسی آیت کے تحت علّامہ محمد بن جریر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر الطبری میںلکھتے ہیں { أصحاب محمدٍ}
’’ یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح‘‘ -
اور تفسیرسعدی ، عبدالرحمن بن ناصر بن سعدی میںاس آیت کی تفسیر یوں کی گئی ہے:
{ای کایمان الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم}
’’یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ایمان لاؤ‘‘-
ا ور اللہ تعالیٰ کے انتخاب کے فیضان کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ انہوں نے اسلام کواپنا اوڑھنابچھونا بنایا،اور دین حق کے پر چار کے لئے زمین کے طول وعرض میں سفر فرمائے - مال و جان، عزت و آبرو،اولاد،ماں باپ اور تمام رشتوں کو بلکہ کسی بھی چیز کو راہ ِحق میں قربان کرنے سے دریغ نہ کیا- یہی وجہ تھی کہ حضور نبی کریم ﷺ نے قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے انہیں قابلِ تقلید بنا دیا - جیسا کہ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ سے مروی آقا ﷺکا ارشادگرامی ہے :
{اصحابی کاالنجوم،فبایھم اقتدیتم اھتدیتم}(۱)
’’میرے صحابہ(ہدایت ورہنمائی میں)ستارو ں کی مانند ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت و رہنمائی پائو گے- ‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بارگاہ میں شرفِ باریابی حاصل کرنیوالے خوش نصیب اشخاصِ عالیّہ کی شان اور مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
{اذا اراداللّٰہ برجل من امتی خیرا القی حب اصحابی فی قلبہ}(۲)
’’جب اللہ تعالیٰ میری امت میں سے کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا تو اس کے دل میں میرے صحابی کی محبت ڈال دیتا ہے-‘‘
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین رُشد وہدایت کے منبع ہیں اور تمام کی فضیلت مسلّمہ ہے لیکن جس طرح الہامی کتابوں ، نبیوں اور رسولوںمیں سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے اسی طرح آئمۂ دین کے نزدیک جملہ صحابہ کرام میں سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے- مختصراً! خلفائے راشدین کا درجہ جملہ صحابہ کرام سے بلند ہے - حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
{ان اللّٰہ اختار اصحابی علی جمیع العالمین سوی النبیین والمرسلین،واختارلی من اصحابی اربعۃ فجعلھم خیر اصحابی ،ابو بکر ،عمر ،عثمان، علی،اختار امتی علیٰ سائر الامم}(۳)
’’بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے صحابہ کو تمام جہانوں پر منتخب فرمایا ہے سوائے نبیوں اور رسولوں کے اور میرے صحابہ میں سے چار کو میرے لیے منتخب فرمایا ہے ،پس اُن میں سے میرے بہترین ساتھی ابو بکر (ص) ، عمر (ص) ، عثمان (ص) اور علی (ص) کو بنایا ہے - میری امت کو تمام امتوں پر منتخب فر مایا ہے-‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام مخلوق میں سے حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺکو منتخب فرما کر اپنا محبوب رسول بنایا،اس لئے آپ ﷺ خیر الخلائق ہیں ،آپ ﷺ کا دین خیرالادیان ہے، آپ ﷺ کی کتاب خیرالکتب ہے ،آپ ﷺ کی امت خیر الامم ہے،آپ ﷺ کا زمانہ خیر القرون ہے اسی طرح آپ ﷺکے اصحاب بھی خیر الاصحاب ہیں- آقا پاک ﷺکا ارشاد مبارک ہے-
{ما من نبی الا لہ نظیر من امتی،ابو بکر نظیرابراہیم ،و عمر نظیر موسی،وعثمان نظیر ھارون،وعلی ابن ابی طالب نظیری} (۴)
’’میری امت میں ہر ایک نبی ں کی نظیر یعنی صفات سے متّصف موجود ہے ، ابو بکر صدیق (ص) حضرت ابراہیم ں کی صفات سے متّصف ہیں ،اور عمر فاروق (ص) حضرت موسیٰ ں کی صفات سے متّصف ہیںاور عثمان (ص) حضرت ہارون ں کی صفات سے متّصف ہیں ،اور علی المرتضی بن ابی طالب (ص) خود میری صفات سے متّصف ہیں -‘‘
نبی اکرم ﷺنے مزیدارشاد فرمایا کہ:
{ابو بکر وعمر منی کعینی فی راسی، و عثمان بن عفان منی کلِسَانی فی فمی وعلی بن ابی طالبٍ منی کروحی فی جسدی}(۵)
’’آقا پاک ﷺ نے فرمایا ابوبکر و عمر (ص) مجھ میںاس طرح ہیں جیسے میرے سَرمیں آنکھیں ہیں ،اور عثمان بن عفان (ص) مجھ میں ایسے ہیں جس طرح میرے منہ میں میری زبان ہے،اور علی بن ابی طالب (ص) اس طرح ہے جس طرح میرے جسم میں میری رُوح ہے- ‘‘
خلفائے راشدین نورِ نبوت سے منور چراغ ہیں اور انہی میں سے ایک مقدس نام حضرت عثمان غنی ص کا ہے یہ واحد صحابی ہیں جنہیں ذُوالنورین(دو نوروں والے )کا لقب نصیب ہوا - آپؓ کی عظمت اہلیانِ اِسلام کے ہاں اظہر من الشمس ہے-
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جود وسخا اورتسلیم ورضا کے پیکر اور صاحبِ حیا ء تھے -حیاء ایسی کہ فرشتے بھی شرما جائیں ،نرم دلی میں ا ن کا کوئی ثانی نہ تھا،جب بھی دینِ اسلام کی اشاعت و تر ویج کے لیے مال واسباب کی ضرورت پڑی آپ ؓ نے بلاتامل اُس کو پورا کیا-آپؓ کاشمار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریبی،معتبر اورجانثار ساتھیوں میں ہوتا ہے- آپ کا شجرہ نصب یوں ہے:
’’عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف بن قصیٰ بن کلاب بن مرابن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر
آپؓ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نسبِ شریف سے جا ملتا ہے -آپؓ کی کنیت اسلام سے پہلے ابوعمر تھی اور زمانہ ٔاسلام میں آپ کی کنیت آپ کے صاحبزادے عبداللہ کے نام پر ابوعبداللہ ہوئی - ‘‘ (۶)
ولادت:
صحیح قول کے مطابق حضرت عثمان غنی ؓ کی ولادت واقعہ فیل کے چھ سال بعد (ہجرت نبوی ﷺ سے ۴۷ برس پہلے )ہوئی-
لقب ذوالنورین :
ابو نعیم
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں