اگر ہم تصوف کی بات کریں تو اسکے تین درجات ہیں:
(۱) تصوُّفِ کرامت (۲) تصوُّفِ مقامت اور (۳) تصوُّفِ استقامت -
اوّل الذکر اور وسط الذکر ان میں حدود و قیود ہیںایک صرف خرقِ عادت تک رِہ جاتا ہے اور دوسرا مقام و مرتبہ کے حصول کی حدتک رہتا ہے - اس کے برعکس مؤخّر الذکر میںانتہاء یعنی مطلوب و مقصود تک رسائی ہے - جس سے انسانی زندگی کا مقصد اپنی استعداد سے بڑھ کر ازل وابد کے تمام راستے طے کرتا ہوا اپنی اصل حقیقت میں جا پہنچتا ہے - جیساکہ مکارم اخلاقِ محمدیﷺ اور اعمال ِ بے مثال صحابہ کرام ؓ صرف ضرب المثل کی حد تک نہیں بلکہ نص وحدیث سے واضح ہے- جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی طبعی زندگی سے بذاتِ خود آگا ہ نہیں ہوتا-
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہی
زندگی کے اختتام کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے - اگر ہم آج سے چودہ سو سال پہلے آقاپاکﷺ کے دور مبارک کا قرآن و حدیث کی روشنی میں بنظرِعمیق جائزہ لیں تو ہمارا تدبر اور ہمارا اِدراک ہمیں نہ صرف سوچنے پر مجبور بلکہ معمور بھی کرتا ہے کہ تصوف انسانی طبعی زندگی کے جس حصے سے آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے وہ حصہ انسانی جوانی کا ہے - کیونکہ جوانی کے دور میںانسان بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتاہے شُعلے توانا ہوتے ہیں جذبے اور اُمنگیں زور آور ہوتی ہیں ، نئی نئی چیزیں دریافت کرنا چاہتا ہے ،گناہ کم ہونے کی وجہ سے دل سخت نہیں ہوتا- اور سب سے بڑی بات یہ کہ جوانی میں توبہ کرنا اور اپنے آپ کو لذّاتِ دنیا اورخواہشات ِنفس سے دور رکھتے ہوئے رضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا شیوۂ پیغمبری ہے-اسی لیے کہاجاتا ہے:
درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیز گار
’’ جوانی میں اپنے آپ کو رضائے الٰہی کے مطابق ڈھالنا پیغمبروں کا شیوہ ہے،بڑھاپے میں پہنچ کے تو ظالم بھیڑیا بھی شکار کرنا چھوڑدیتا ہے - ‘‘
بڑائی اس میں ہے کہ کوئی آدمی کسی گناہ پہ قادر ہے مگر نہیں کرتا ، کسی ظلم کو ڈھا سکتا ہے مگر نہیں ڈھاتا ، کسی پہ غصب کر سکتا ہے مگر خوفِ الٰہی سے نہیں کرتا - اِس کے بر عکس اِس میں بڑائی کی یا عظمت کی کوئی بات نہیں کہ آدمی جس گناہ پہ قادر ہی نہیں وہ نہ کر کے صِلہ طلب کرے - اِس لئے بہت ایسے گناہ ہیں جنہیں آدمی جوانی میں کرنے کی طاقت رکھتا ہے اگر آدمی ان سے اپنا آپ صرف و صرف رضائے الٰہی اور محبتِ اِلٰہی کیلئے محفوظ رکھ لے تو بہت جلد قرب کی منازِل طے کر جاتا ہے- اِسی لئے قرآن پاک نے اور سُنّتِ رسول اللہ ﷺ نے ضبطِ نفس سیکھنے پہ بہت زور دیا تاکہ آدمی کی صفاتِ حیوانیّہ اس کو گمراہ نہ کر دیں ، جب آدمی ضبطِ نفس سیکھ جاتا ہے تو اس کی صفاتِ حیوانیّہ پہ صفاتِ روحانیّہ غالب آجاتی ہیں اور اُس کے بشری خواص پہ اُس کے نُوری خواص قوی ہو جاتے ہیں جس سے انسان کے اندر ایک ایسی آرزو اور تمنّا پیدا ہوتی ہے جسے ارتقائی منازل طے ہوجانے پہ ’’عقلِ سلیم‘‘ کہتے ہیں اور یہی عقلِ سلیم قوموں کی زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے - اگر نوجوان اِس عمر میں عقلِ سلیم کو پانے کی جستجو کریں اور اپنے آپ کو صفاتِ حیوانی سے بچا کر رکھیں اور یادِ اِلٰہی میں مشغولیّت اختیار کریں تو دُور نہیں کہ اللہ تعالیٰ اِس زوال یافتہ قوم کو عروج اور ترقّی عطا فرما دیں -
اگر ہم صوفیاء کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ اکثر صوفیاء نے جوانی میں اپنے آپ کو رضائے خداوندی کے مطابق ڈھالا ، صاحب ِنظر کی تلاش میں سرگرداں رہے - جب اپنے مرشد کی بارگاہ میں گئے تو سنت نبویﷺ کے تحت اُن کی وہاں پہ تربیت کی گئی ،اُن کے اندر خشیتِ الٰہی کو اُجاگر کیا گیا ، نفوس کا تزکیہ ،قلوب کا تصفیہ کرکے اُن کی رُوح کو بیدار کیا گیااُن کے اندر صدق ،یقین ، جذبہ ،محبت اور ادب و احترام انسانیت جیسے اخلاق باکمال اُجاگر کئے گئے-اس سے ان کی زندگیوں میں ایسا انقلاب برپا ہوا کہ وہ نہ صرف آئندہ نسلوں کیلئے ’’رول ماڈل‘‘ بنے بلکہ اُن کے تذکرہ کے بغیر تاریخ اسلام نا مکمل نظر آتی ہے - وہ کھانے پینے اور پہننے کی پرواہ کئے بغیر جو مل جاتا اس پر شکر کرکے آگے بڑھے اور پرچم اسلام کو سربلند رکھنے کے لئے دن رات ایک کر دیا - ہم نے اپنی معاشرتی تشکیل اِس طرح کر لی ہے کہ بدقسمتی سے آج کے نوجوان ان چیزوں سے کوسوں دور نظر آتے ہیں- شایدآج کے اس دور کو علامہ اقبالؒنے دیکھتے ہوئے فرمایا تھا:
نوجوانے را چو بینم بے ادب
روز من تاریک می گردد چو شب
تاب و تب در سینہ افزاید مرا
یاد عہد مصطفیﷺاید مرا
’’مَیں جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میرے دن (کا اُجالا) رات کی طرح تاریک ہو جاتا ہے (میرا دل خون کے آنسو روتا ہے)میرے سینے میں سوز بڑھ جاتا ہے اور مجھے آقاپاک ﷺکا زمانہ یاد آجاتا ہے-‘‘
اے کاش !آج کے نوجوان صوفیاء کرام کے دلوں کی تپش اور رُوح کی لرزش کو دیکھ پاتے کہ ان میں اشاعتِ اسلام اور محبتِ اسلام کا ایک ایسا جذبہ تھا جو انہیں چین سے بیٹھنے نہیںدیتا تھا -وہ حا لات واقعات کا مقابلہ اس شان سے کرتے کہ آندھیوں کے رُخ موڑ دیتے، سمند ر انہیں راستہ دینے پر مجبو ر ہو جاتے تھے-اس کی کیاوجوہات ہو سکتی ہیں کہ وہ بھی انسان تھے، ہم بھی انسان ہیں؟وہ بھی مسلمان تھے ہم بھی مسلمان ہیں ؟ہمارے لئے لمحہ تفکرہے کہ آج ہر برق ہم (مسلمانوں)پر ہی کیوں گرتی ہے ؟آج ہم ہی کیو ں ظلم و پستی کا شکار ہیں ؟ اگر ہم صوفیاء کی تعلیمات کا طائرانہ جائزہ لیں تو جواب واضح ملتا ہے کہ وہ کردار کے مالک تھے، ان کے قول وفعل میں تضاد نہیں تھا ، کلمہ وہ بھی پڑھتے تھے لیکن صر ف زبان کی حدتک نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے پڑھتے تھے -حضر ت سلطان باھُو ؒ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دِل دا پڑھدا کوئی ھُو
جب آدمی دِل اور زُبان میں اتحاد پیدا کر لیتا ہے یعنی زبان دِل کے مُشاہدات سے اپنے کہے کی تصدیق کرتی ہے ؒ اور دِل زُبان کو اپنے تابع رکھتا ہے جس سے زُبان میں بشری کمزوریوں کی لغزشیں زائل ہو جاتی ہی?