ابن آدم کی ہدایت کے لیے اللہ رب العزت نے انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا اور جو تعلق بندہ اور خدا کا منقطع ہو چکا تھا اُس کو بحال کرنے کیلئے یہ سلسلہ چلتا رہا - آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لیکر ہادیٔ عالم، نورِ مجسم شفیعِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اختتام پذیر ہوا اور نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بندہو گیا - اب یہ تعلق جو بندہ اور مولیٰ کا تھا اس کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ اس واسطہ کی ہر دور اور ہر حال میں اَشد ضرورت تھی کیونکہ اس واسطے کے بغیر یہ نظام نہیں چل سکتا تو اب نبوت کا دروازہ تو بند ہوگیا پھر یہ ڈیوٹی کس کے سپرد ہوئی جو اِس ٹوٹے ہوئے تعلق کو استوار کرے تو اللہ رب العزت نے ابن آدم میں سے اپنے کچھ بندوں کا انتخاب کیا جن کا ظاہر تو امتی اور متبع کا تھا ، لباس تو خادم اور غلام کا تھا، نام مطیع و فرمانبردار تھا لیکن باطن نورِ نبوت سے منور تھا ، سینہ خزانۂ نبوت سے مزین تھا ، مالک کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق کہ لمحہ بھر بھی یادِ الٰہی اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے غافل نہ تھا - اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، ایک سانس بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہیں لیتے اور خلق کے ساتھ اتنا گہرا تعلق اور پیار کہ ہر لمحہ ان کی فکر کہ فلاح و کامیابی کیسے ملے گی، یہ کیسے مراد تک پہنچے گی، منزل تک رسائی کیسے ہوگی، یہ ابدی سرمدی کامیابی کیسے حاصل کریں گے؟ہر وقت امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آسانیاں پیدا کرنے اور گوہرمراد حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں -
الامام العلامہ الشیخ الاکبر محی الدین ابن العربی علیہ الرحمۃ انہی بندگانِ خدا میں سے ایک ہیں - آپ کی ولادت با سعادت مشرقی اندلس (اسپین) کے شہر مریسہ میں پیر کی رات ۱۷ رمضان المبارک ۵۶۰ ھ میں ہوئی - شیخ الاکبر محی الدین حضرت امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کو امام جلال الدّین سیُوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ’’التنبئۃ الغبی بتبرأۃ شیخ ابن العربی‘‘ میں حافظ شرف الدین الدمیاطی کی ’’معجم‘‘ کے حوالہ سے اس شجرہ اور ان القابات سے ذکر فرمایا : -
’’ محمد بن علی بن محمد بن احمد ابو عبد اللہ بن ابی عبد اللہ الطائی ،الحاتمی ، مغربی الاصل، دمشقی المولد، الشافعی، الفقیہ، الادیب المعروف ابن العربی‘‘-
آپ کے والد علی بن محمد صاحبِ زہد عالم اور متقی تھے اور غوث الاعظم محی الدین سیّدی شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کے معتقدین و فیض یافتگان میں سے تھے - آپ کا خاندان اپنی شرافت ، جاہ و جلال ، علم و معرفت ، زہد و تقویٰ ، امارت و عزت میں اپنے وقت میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا ، آپ کے والد گرامی فقہ و حدیث میں ممتاز مقام رکھتے تھے ، اس کے علاوہ وہ عظیم فلسفی ابن رشد کے دوست اور سلطان اشبیلیہ کے وزیر بھی تھے - آپ ۸ سال کی عمرمیں اپنے خاندان کے ساتھ ۵۶۸ھ میں مریسہ سے اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ آگئے اور ۵۹۸ھ تک وہیں مقیم رہے- اس دوران علم و ادب میں دسترس حاصل کی شروع میں ابوبکر محمد بن خلف اور ابو القاسم عبدالرحمن الشرائط القرطبی سے قرآت سبعہ کی تعلیم حاصل کی - یہاں پر آپ تقریباً ۳۰ سال کا عرصہ رہے اور اندلسی صوفیاء کرام سے استفادہ کیا-
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ عالمِ اسلام اور دُنیائے تصوف کے وہ درخشندہ ستارے ہیں جن کے علم و عرفان سے دنیا کئی صدیوں سے منور ہو رہی ہے ، تصوف کے تمام سلاسل نے ان کو شیخِ اکبر کا نام دیا ہے اور بلا شبہ اس کے حق دار بھی ہیں ، تمام سلاسل کے تمام مشائخ اولیائے کاملین ، صوفیائے عظام ، علمائِ حق ان کے بارے میں رطب اللسان ہیں اور ان کی کشفی و الہامی کیفیات مُسَلَّمَہ ہیں-
علامہ ابن عربی کی ہمہ گیر کثیر الجہات شخصیت ا ن کے علوم و معارف ، حیرت انگیز باطنی احوال ، کثیر تصانیف ، عمیق عرفان اور دیگر افکار کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے علم و عرفان ، اسرارِ الٰہیہ کے دریا بہا دیئے ہیں - تصوف و فلسفہ تو ان کی شخصیت کے اجزئے ترکیبی ہیں ، آپ نے ایسے ایسے اَسرار و رموز کی نقاب کشائی کی ہے جس سے راہِ طریقت کھل کر سامنے آگیا- اپنے عہد کے مشہور فلسفی ابن رُشد چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے شیخ اکبر ان سے ملنے قرطبہ گئے اور ان کو اتنا متأثر کیا کہ ابن رُشد خود ان کے حلقہ بگوش ہوگئے- علامہ ابن عربی کو اللہ رب العزت نے کثیر اوصافِ حمیدہ سے نوازا جن میں سے ہر پہلو پر گفتگو کی جاسکتی ہے مگر میرا مدعا یہ ہے کہ آپ کے متعلق آپ کے ہم عصر اور بعد میں آنے والے فقہاء ، عرفاء ، محدثین، مؤلفین، مصنفین کی آراء کا جائزہ لیا جائے-
کیونکہ ان کی آراء اور تبصرہ سے علامہ ابن عربی کی شخصیت اور علمی و عملی قابلیت اور خداداد صلاحیتیں جو بارگاہِ ایزدی سے آپ کو نصیب ہوئیں اُن پہ ایک خاطر خواہ روشنی مل جاتی ہے - بعض نہایت جلیل القدر بزرگوں نے آپ سے علمی اِختلاف بھی فرمایا ہے لیکن آپ کے مناصبِ رُوحانی کا اعتراف بھی فرمایا ہے -
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اپنے زمانہ کے اکابرین کے سربراہ تھے ، صوفیاء کرام نے انہیں علی الاعلان مختلف القابات سے یاد کیا ، مثلاً ابن عربی قطب الموحدین، رئیس المکاشفین ، شیخ المحققین اور امام الاولیاء و الصالحین ہیں ، وہ واقف اسرار و ہدایت عارف، محقق اور سردار مقربین تھے بے شک ولایت عظمی اور صدیقیت کبری پر فائز تھے -
امام جلال الدین السیوطی : شیخ اکبر عارفوں کے مربی ہیں ، تنزلات کی روح ہیں ، اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدم بقدم چلنے والے ہیں -امام سیوطی علیہ الرحمہ نے حضرت شیخ اکبر کی تائید و دفاع میں شاندار رسالہ بعنوان ’’التنبئۃ الغبی بتبرأۃ ابن العربی‘‘ لکھا -
امام فخرالدین رازی : ابن عربی بہت بڑے جلیل القدر ولی اللہ تھے -
امام عبدالوہاب الشعرانی : شیخ اکبر کتاب و سنت کے پابند تھے اور فرماتے تھے جس نے ایک لحظہ بھی شریعتِ محمدی چھوڑ دی وہ ہلاک ہوگیا-
شیخ شہاب الدّین سُہروردی : ابنِ عربی بحر الحقائق ( حقیقتوں کا سمندر ) ہیں-
حافظ عماد الدین ابن کثیر : آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت شیخ اکبر
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں