سیدنا کثیر الکتاب ﷺ (زیادہ کاتبوں والے ):-
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے اسلامی دعوت کا مخاطب نہ صرف فرمان روائوں کو بنایا بلکہ اپنے نامہ مبارک میں صراحت کے ساتھ ان کو پوری قوم کا نمائندہ قرار دے کر عوام کے برے بھلے کی ذمہ داری ان پر ڈالی - علاوہ ازیں بادشاہوں کو خطوط لکھتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے ایک طرف تو مروجہ آداب کا اہتمام فرمایا یعنی تمام خطوط بطور خاص آپ ﷺ کی انگوٹھی مبارکہ سے مہر کیے گئے اور ہر خط کا آغاز خدائے رحمن رحیم کے نام سے کیا گیا - مرسل کی حیثیت سے اپنا اسم مبارک اور پھر مکتوب الیہ کا نام ، پھر کم سے کم محتاط اور جچے تلے الفاظ میں مدعا بیان کیا- اس دور کے لحاظ سے سفارتی زبان آپ ﷺ نے استعمال کی وہ آپ ﷺ کے کمال ایجاز وبلاغت پر دلیل ہے- حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ خطوط لکھنے کے لئے سریانی زبان سیکھ لیں اس لیے یہودیوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا انہوں نے پندرہ دنوں میں سریانی زبان سیکھ لی اور وہ آپ ﷺ کی طرف سے خطوط لکھتے بھی اور ان کا جواب بھی دیتے - (علی بن ابراہیم الحلبی ،سیرۃ الحلبیہ)
سیدنا کثیر السفرء ﷺ(زیادہ سفیروں والے):-
عبدالحئی کتانی ’’ الترتیب الادرایۃ ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ سفراء کے انتخاب میں خاص طور پر اس بات کا بھی خیال فرماتے کہ ان کی شخصیت باوقار اور پرکشش ہو، جس طرح کہ شاہ روم کے دربار میں بھیجنے کے لئے حضرت وحیہ کلبیؓ کا تقرر کیا گیا جو کہ تمام سفرائے رسول ﷺ میں سب سے زیادہ صاحبِ وجاہت اور جاذب نظر تھے-
علاوہ ازیں وہ عملی اعتبار سے پکے مسلمان ہوں مکارم ِاخلاق کا پیکر ہوں، دین کا وسیع اور گہرا علم رکھتے ہوں افکار وخیالات کے اظہار کاعمدہ ملکہ رکھتے ہوں، علاقے کے لوگوں کی زبان، نفسیات ، طرزِ بودوباش اور حالات سے واقف ہوں یعنی نبی اکرم ﷺ مختلف علاقوں مقامی زبان میں خطوط لکھوانے کا اہتمام فرماتے تاکہ دعوت تبلیغ دین کے دوران مخاطب کے لئے مفہوم کے ادراک میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے -
یہی وجہ ہے کہ قیصر روم نے نہ صرف اہل مکہ کے تجارتی قافلہ سے ابوسفیان کو بلا کر آپ ﷺ کے پیغام کی صداقت کو پرکھا بلکہ مزید تسلی کے لئے اپنی مملکت کے ایک بڑے عالم ضغاطر رومی سے بھی معلومات حاصل کیں جس نے آپ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی - اس نے آپ ﷺ کے سفیر کا اکرام و احترام کیا بلکہ بعد میں ۹ہجری میں تبوک کے مقام پرا س کو ہمت نہ ہوئی کہ آپ ﷺ کے مقابلہ پر نکلتا غزوہ تبوک میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی کے پیچھے آپ ﷺ کے مکتوب گرامی اور انداز دعوت وتبلیغ اور حضرت وحیہ کلبیؓ کی کامیاب سفارت کا بڑا ہاتھ ہے - البتہ قیصر روم نے اقتدار وسلطنت کے کھو جانے کے خوف سے اور سیاسی مصلحتوں کی خاطر کھلم کھلا اسلام قبول نہیں کیا-
سیدنا کثیر الوفود ﷺ (زیادہ وفود والے):-
اسلام نظام سیاست میں سفارتی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہو گیا جب صلح حدیبیہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ چند اہم ساتھیوں سمیت حضور اکرم ﷺ سے آ ملے - اس کے بعد یہ سلسلہ کم و بیش جاری رہا حتٰی کہ فتح مکہ کے بعد جب اہل عرب سمجھ گئے کہ اب وہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو وہ جوق در جوق بارگاہِ رسالت میں بیعت کے لئے حاضر ہونا شروع ہو گئے - یہ واقعہ ۹ہجری کا ہے اسی لیے اسے عام الوفود کہا جاتا ہے- (علامہ ابن کثیر ، البدایہ والنھایہ)
آپ ﷺ وفود اور سفراء کا اکرام و احترام کرتے ، ان کے لئے قیام و طعام کا بہترین اہتمام فرماتے - ان کو تحائف سے نوازتے حتٰی کہ ان کے لئے زاد ِراہ کا بھی انتظام کرتے - بنو نجران کا ایک بہت بڑا وفد مدینہ منورہ آیا تو آپ ﷺ نے نہ صرف ان کومسجد نبوی میں ٹھہرایا بلکہ انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت دی- (علی بن ابراہیم الحلبی ،سیرۃ الحلبیہ)
اسی طرح قبیلہ بنو ثقیف کا وفد آیا تو آپ ﷺ نے ان کا خوب اکرام فرمایا ، ان کے لئے خاص طور پر خیمے لگوائے ، ان کے ساتھ مذاکرات اور ضیافت کے لئے حضرت خالد بن سعید بن العاصؓ کو رابطہ افسر مقرر فرمایا - (ابوالفتح محمد بن محمدبن احمد ، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر)
عمان کے گورنر کے تحائف کو قبول فرمایا اور سفیر کو پانچ سو درہم بطور تحفہ عنایت فرمائے - (الکتانی، عبدالحئی، التراتیب الاداریہ)
قبیلہ مذینہ کاوفد واپس جانے لگا تو ان لوگوں کے پاس زادِ راہ کم تھا آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو ان کے اسباب خوردو نوش فراہم کرنے کی تاکید فرمائی- (امام سیوطی ، الخصائص الکبریٰ)
اسی طرح بنوثعلبہ کے وفد کے ہر فرد کو واپس جاتے ہوئے پانچ پانچ اوقیہ چاندی عطا کی - (امام ابن سعد ، طبقات الکبریٰ)
سفیروں کے تحفظ اورعزت واحترام کا آپ ﷺ کو اس قدر خیال تھا کہ آپ نے سفراء کے بارے میں ارشاد فرمایا:
{اجیزوالوفد بنحو مما کنت اجیز ھم }(محمد بن اسحاق بن العباس الفاکھی المکی- اخبار مکۃ فی قدیم الدھر و حدیثیہ)
’’وفود (سفراء) کو اسی طرح تحفے دیتے رہنا جس طرح میں انہیں دیتا رہا ہوں-‘‘
علاوہ ازیں اسلامی ریاست میں کسی سفیر کی پہلی تقرری عسکری یا نیم عسکری مہمات کے دوران بھی ہوتی تھی ان سفارتوں کا مقصد یہ تھا کہ پڑوسی شاہان وقت کو دعوت اسلامی کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت اور صلح کے لئے آمادہ کیا جائے تاکہ ایک طرف تو اسلام کی عالم گیر تبلیغ کا دروازہ کھلے تو دوسری طرف تصادم وجارحیت کے احکامات یا خطرات میں کمی پیدا ہو - نتیجتاً ان سفارتوں نے اپنے اپنے حکمرانوں میں خیر سگالی اور دوستی کے جذبات پروان چڑھانے میں کافی مو ٔثر کردار ادا کیا- یوں آپ ﷺ نے اخوت و رواداری کے جذبات کے بنیاد پر قانون بین الممالک کی طرح ڈالی -
سیدنا الالمعی ﷺ(معاملہ فہم):-
دورِ رسالت میں نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی نبوی فراست کو غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے دو طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا - ایک تو حالت امن جس کا مختصر تذکرہ درج بالا مباحث میں موجود ہے کہ حالت امن میں خارجی عناصر سے روابط قائم کرنے میں آپ ﷺ نے کس طرح متوازن اور مؤثر حکمت عملی اپنا ئی اور جب حالت جنگ پیش آئی تو آپ ﷺ نے باقاعدہ جنگی قوانین وضع کیے اہل حرب کے ساتھ سلوک کی جہات کا تعین کیا- جنگی اصلاحات نافذ کیں - فدیہ اور تبادلۂ اسیران کے اصول وضع کیے حتٰی کہ مقتولین (مرد ،عورتیں ،بچے، بوڑھوں) میں بھی تخصیص کی اس طرح اسلامی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ قانون بین الممالک بھی تشکیل پاتا گیا-
یوں نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا طرز عمل نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ آنے والے ہر زمانے کے ہر کمیونٹی کے اِنسانوں کیلئے نظیر بنتا گیا - نبی اکرم ﷺ کی دس سالہ مدنی زندگی اسلامی انٹرنیشنل لاء کے اکثر قواعد کومعیّن ومدوّن کرنے کا باعث بنی -
اس ضمن میں ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں :
اسلامی قانون دراصل نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا معجزہ ہے نبی اکرم ﷺ کے دیے ہوئے احکام اس قدر معقول اور مناسب ہیں کہ ان میں تبدیلی کی کم از کم کسی سنجیدہ شخص کو ضرورت محسوس نہیں ہوئی - تاریخ قانون عالم میں یہ بات کسی حیران کن معجزے سے کم نہیں -
حیات انسانی کے سماجی پہلو اورحقوق انسانی کاتحفظ :
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ انسانی زندگی کے سماجی معیارات سے مخاطب ہوتی ہے اور حقوق وفرائض کا ایسا مؤثر نظام پیش کرتی ہے جس کی بنیاد مساوات ،عدل ،تقوٰی اور رواداری جیسے universal lawsپر رکھی گئی ہے اور ایک ایسا جامع نظام اخلاق متعین کرتی ہے جو سماجی اقدار کونسلِ انسانی کی ideal valuesکا مقام بخشتا ہے-
سیدنا الاتقیﷺ(متقی/پرہیزگار):-
{ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقکم ان اللّٰہ علیم خبیر} (الحجرات:۱۳)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو- اللہ خوب جاننے والا، پورا خبردار ہے-‘‘
اسلام نظام معاشرت میں کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں اسلام نے فضیلت تقویٰ کے تصور کے ساتھ معاشرتی ،طبقاتی اور جغرافیائی تقسیم ،نسل پرستی اور قومی وملکی تفاخر کا خاتمہ کر دیا ہے اور تمام امت مسلم کو وحدت کی لڑی میں پرو کرمساوات ِانسانی کا بے مثل عملی نمونہ پیش کیا ہے-
سیدنا المقسط ﷺ (انصاف کرنے والے ):-
{وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ان اللّٰہ یحب المقسطین } ( المائدہ: ۴۲)
’’اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے-‘‘
عدل سے مراد یہاں اجتماعی عدل ہے یعنی معاشرہ میں برابری اور غیر جانبداری کے ساتھ نظام عدل قائم کرنا- عدل ایک اہم سماجی قدر ہے جس پر کسی معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہوتا ہے اسلامی نظام عدل کا تقاضا ہے کہ جرائم کو روکا جائے ، مظلومین کو حقوق دلائے جائیں اور ظالموں کو سزا دی جائے - جس طرح ڈاکٹر راشد احمد لکھتے ہیں :
Islam wants to creat a society based on a deep sense of normal responsibility and justice in order to preserve human dignity accoerded to many God .(Islam And Curent Issues)
سیدنا المیسر فی الدین ﷺ (دین میں آسانی دیے گئے ):-
نبی اکرم حضرت محمدﷺ آسان دین اورسہل نظام شریعت دے کرمبعوث فرمائے گئے جس میں دین کی حدود کے اندر افراد معاشرہ کو پوری شخصی اور فکری آزادی حاصل تھی- اسلام نے اپنے نظام تشریع میں انسان کے پانچ بنیادی حقوق پر بہت زیادہ زور دیا ہے- اظہار فکر کی آزادی ،نجی ملکیت کا حق، اپنی ذات کے دفاع کی آزادی اور زندگی کی سلامتی اوربقاء کا حق- (معارف اسلامی، مدیر ڈاکٹر محمود الحسن بٹ اقبال اوپن یونیورسٹی)
ان تمام حقوق کی بنیاد خواہ اس کا تعلق مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہو یا ریاست کے غیر مسلم باشندگان کے ساتھ ،مساوات انسانی اور عدل وانصاف کے اسلامی تصورات کے ہی تابع ہے-
سیدنا المجتھد ﷺ(دین میں پوری کوشش کرنے والے):-
{الاجتھاد ھو بذل الوسع فی طلب امر یقصد } (الصالحی ، سبل الہدیٰ والرشاد)
’’کسی خاص مقصد کی طلب میں پوری کوشش خرچ کر دینے کو اجتہاد کہتے ہیں-‘‘
دین اسلام ایک جامع اور متحرک نظام حیات لیے ہوئے ہے - اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب وفرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ضمیر اور عبادات کی آزادی کا ضامن ہے- اسلامی نظام نہ صرف دوسرے مذاہب کو مکمل آزادی دیتا ہے بلکہ اجتماعی وسیاسی حدود میں ان کی حفاظت کرتا ہے- اسلام میں اجتہاد کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں جس کی مدد سے کثیر المذاہب معاشروں میں نہ صرف اسلامی اقدار وثقافت کی بقاء اور ارتقاء ممکن ہوئی بلکہ اختلاف وتنوع کو بھی قانون اورضابطہ کی شکل دے کر خوبصورت روایت اور رویہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے - جو قوانین اور اقوام کی تاریخ کا منفرد اور عظیم کارنامہ ہے-
حضرت برکت علی لدھیانوی اسلامی فلسفہ وفکر میں اجتہادی اختیار کا رُخ کچھ یوں متعین کرتے ہیں:
’’انسان کی نگاہ میں ضیق پن ،کج بینی ،کوتاہ نظری نہ ہو -وقتی ،ہنگامی اور معمولی منفعتوں کی طرف میلان نہ ہو بلکہ اس کی نگاہ دور رس فوائد پہ ہو ، عاقبت اندیشی شعار ہو- وسعت سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ دین میں ہر کمی بیشی ،جائز و ناجائز ، حلال وحرام کی گڈمڈ کو برداشت کر لیا جائے اور اس سے قطع نظر کر لی جائے یہ مفہوم وسعت دین سے خارج ہے-‘‘ ( مکشوفات منازل احسان)
سیدنا الاٰمر ﷺ (حکم دینے والے):-
{ومااتکم الرسول فخذوہ}
’’اور رسول ﷺ تم کو جو کچھ (حکم )دے دیا کریں وہ لے لیا کرو-‘‘
حضرت شرف الدّین بوصیری فرماتے ہیںکہ ہمارے نبی ﷺ حکم دینے والے اور منع کرنے والے ہیں آپ ﷺ سے زیادہ جہاں میں ’’ہاں‘‘ اور ’’نہ‘‘ کے معاملہ میں کوئی نیک نہیں- ( الصالحی ، سبل الہدیٰ والرشاد)
دین اسلام میں تمام تر وسعت اورآسانی کے باوجود نصوص اورمتعلقہ احکامات کی اہمیت اپنی جگہ مسَلّم ہے مسلم معاشرہ میں عدل وانصاف ،مساوات ، اخوت ،آزادی صداقت وامانت ،شجاعت ،دیانتداری اور رواداری جیسی عالم گیر سماجی اقدار کونفاذ قانون کے ذریعہ عملی شکل میں لاگو کیاگیاہے-
سیدناالناھیﷺ(برے کاموں سے روکنے والے)
{وما نہکم عنہ فانتھو} (الحشر:۷)
’’اورجس چیز سے (رسول ﷺ)تم کومنع فرمادیں تم رک جایاکرو-‘‘
اسلامی ریاست میں نظام شریعہ کے موثر نفاذ اوراسلامی روایات کے پنپنے کے لئے جتنی اہمیت اوامرکی ہے اتنی ہی نواہی کی بھی ہے جبرواستبداد ، لوٹ مار،حق تلفی،بے انصافی ،دھوکہ دہی،بددیانتی ،دہشت گردی ،غیر مسلموں اورپسماندہ طبقات کے حقوق کی پامالی کی اسلامی معاشرہ میں قطعاً اجازت نہیں - اسلام نظام حکومت میں حدود تعزیرات کے نفاذ کوموثر بناکر تمام سماجی معائب اورمعاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کاپورا نظام موجود ہے-
سیدنا مقیم الحدودﷺ(حدوں کوقائم کرنے والے )
حدود اللہ قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ افراط وتفریط سے پاک اورانصاف پرمبنی ایک معتدل اورمثالی معاشرتی ومعاشی نظام قائم کرنا ہے اور ایسی صورت حال عملی طور پر اسی وقت ممکن ہے جب عادلانہ بنیادوں پر نظام شریعہ کے کلی اورموثر نفاذ کوممکن بنایاجائے-
سیدناالمھذبﷺ(تہذیب یافتہ )
’’مہذب‘‘سے مراد یہاں یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ پاکیزہ اخلاق والے اورگناہوں سے بالکل پاک ہیں-( الصالحی ، سبل الہدیٰ والرشاد)
’’آپﷺ کے اخلاق کریمیہ کاہی اثر تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں دین اسلام اکناف عالم میں چہار سو پھیل گیا-اسلامی نظام فکر جس ابدیت اورجامعیت کادعوٰی کرتاہے وہ دوسرے مذاہب سے ہٹ کرکوئی نئی چیز نہیں بلکہ قبل از اسلام تمام مذاہب کے اہم اجزاء کی ترقی یافتہ شکل ہے اوریہی بنیاد ہے جس نے اسلامی تہذیب وتمدن کوتہذیبی ہم آہنگی کی بنیاد بنایا - اسلامی تہذیب میں ایسی لچک موجود ہے کہ یہ دوسری تہذیبوں کے ساتھ نہ صرف برابری اوراحترام کابرتائو کرتی ہے بلکہ ان تہذیبوں سے استنباط کومباح سمجھتی ہے - اسلامی تہذیب کی اسی ہمہ گیریت Inclusivenessکی بنیاد پر A.J Toynbee نے اسے State Universal قراردیا-‘‘ (A Study of History Newyork Oxford University Press 1967)
اورS.Goiteisنے اسے Religious Democracy Medieval قراردیا-‘‘
( S.D Goitein , Minority Self Rule and Government Controle in Islam)
اس ضمن میں ڈاکٹر محمود غازی رقم طراز ہیں:
’’ مسلمانوں کی فکری روایت جس نے تہذیب اسلامیہ کے مختلف پہلوں کوعلمی مظہر بخشا اورتہذیبی لباس عطا کیا انسانی تاریخ کی مؤثر ترین فکری اورتعلیمی روایت رہی ہے یہ فکر دین ودنیا کی جامع ترین فکر تھی جس میں عقل ونقل کے مابین توازن موجود تھا اس فکر میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی رہنمائی کاتمام ضروری سامان موجود تھا اورانسانی تاریخ کی جتنی اقوام ،جتنی نسلیں ،جتنی زبانیں بولنے والے اورجتنے علاقوں سے تعلق رکھنے والے انسان پائے جاتے تھے اوروہ سب لوگ جوتاریخ کے مختلف ادوار میں اس تہذیب کے اثر میں آئے ان سب کواس تہذیب نے اپنے اندر اس طرح سمویا کہ ان کی انفرادیت بھی برقرار رہی اورایسی اجتماعیت بھی سامنے آئی جس نے ثقافتوں اوراقوام وممالک کی اتھاہ کثرت میں ایک بے مثال اورحسین وحدت پیدا کی-‘‘
غیر مسلموں سے تعلقات استوار کرنے میں اور دین اسلام کی حفاظـت اورتبلیغ کے لئے اقدامات اٹھانے میں آپ ﷺ کے دانش مندانہ اوردوراندیش فیصلے نہ صرف آپ ﷺ کی نبوی حکمت وفراست پربرہان محکم ہیں بلکہ اہل عالم کے لئے ایک متوازن ،فلاحی اورمثالی سفارت قائم کرنے اورایک مؤثر اورجامع خارجہ پالیسی وضع کرنے کے لئے بھی رہنمااصول فراہم کرتے ہیں-
زیرِ نظر مضمون میں شامل تمام اسمائے رسول ﷺ حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ’’ اسماء النبی الکریم ﷺ ‘‘ سے ماخوذ ہیں-