اللہ تبارک وتعالیٰ نے ساری کائنات بنائی اور اشرف لمخلوقات انسان کوبنایا ہے -انسان کی رہنمائی اورہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کوبھیجا اورآخرمیں اپنے پیارے محبوب آقاپاک ﷺ جلوہ افروز ہوئے - اللہ تعالیٰ نے پیارے محبوب ﷺ پر قرآن پاک نازل فرمایالیکن یہ قرآن پاک کس لیے نازل فرمایا ؟ صرف اورصرف انسانیت کی ہدایت اوربھلائی کے لئے ! جس طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد مبارک ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ}(المائدہ:۶۷)
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے-‘‘
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن پاک کو آگے پہنچادیااورحکم فرمایا:
{بَلِّغُوْ عَنِّیْ وَلَوْکَانَ آیَہ}
’’میری طرف سے پہنچادوخواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو-‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے محبوب کوحکم فرمایاکہ یہ قرآن آگے پہنچائوتو پتہ چلاقرآن پاک محبوب پاک کی معرفت ،انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل کیاگیاہے-جب قرآن پاک آگے پہنچا دیا تواللہ پاک نے فرمایاکہ:
{یٰٓـایُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَo}(یونس:۵۷)
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت (بھی)-‘‘
اوردوسری جگہ ارشادفرمایا:
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ}(البقرہ:۱۸۵)
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے-‘‘
{اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ }(الاسراء:۹)
’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے -‘‘
قرآن پاک اورانسان کاتعلق ایساہے جیسے ایک دوست دوسرے دوست کوخط لکھتاہے اورآدمی جب خط پڑھتا ہے تووہ اُس سے گفتگو کرتاہے اور لکھنے والے سے کلام کرتاہے - اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ اے انسانو!میں نے یہ قرآن پاک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی معرفت،تمہاری ہدایت کے لئے نازل فرمایاہے-یہ میری کتاب بھی تم سے باتیں کرتی ہے- ‘‘
{ہٰذَا کِتٰـبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ }(الجاثیۃ:۲۹)
’’یہ ہمارا نوشتہ ہے جو تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کرے گا-‘‘(ہماری یہ کتاب تمہارے ساتھ حق کی باتیں کرتی ہے)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں محبوب پاک کوبھی ہادی بناکربھیجاہے -
{یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًاo}(النساء:۱۷۴)
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی ﷺ کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اُتار دیا ہے-‘‘
قرآن پاک جب انسان کی رہنمائی کے لئے نازل ہوا تو قرآن پاک مقامِ انسان بتاتاہے - مقام انسان کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰـھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰـھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰـھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاًo }(الاسراء:۷۰)
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا-‘‘
{وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِoوَطُوْرِ سِیْنِیْنَoوَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ اَسْفَلَ سٰـفِلِیْنَo} (التین:۱ تا ۵)
’’انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسم ،اور سینا کے (پہاڑ) طور کی قَسم،اور اس امن والے شہر (مکہ) کی قَسم، ،بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے،پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا-‘‘
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے مقام اورحقیقت کوکھل کربیان کیاتو ملاحظہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ظاہری وجود کو چار عناصر آگ ،ہوا ،پانی اور مٹی سے بنایا اور اس میں روح داخل کی اور بعض جلیل القدر صُوفیا کی تاویل کے مطابق روح کے احترام کے لئے سجدہ بھی کروایا اسی طرح آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس طرح بنایا:
{الَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍo}
’’وہی ہے جس نے خوبی و حسن بخشا ہر اس چیز کو جسے اس نے پیدا فرمایا اور اس نے انسانی تخلیق کی ابتداء مٹی (یعنی غیر نامی مادّہ) سے کی-‘‘
{ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰـلَۃٍ مِّنْ مَّـآئٍ مَّھِیْنٍo}
’’پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ (یعنی نطفہ) سے چلایا-‘‘
{ثُمَّ سَوّٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَلْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَo}
’’پھر اس (میں اعضاء) کو درست کیا اور اس میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور تمہارے لئے (رحم مادر ہی میں پہلے) کان اور (پھر) آنکھیں اور (پھر) دل و دماغ بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو-‘‘(السجدۃ:۷تا۹)
سورت سجدہ میںاللہ تعالیٰ نے مقامِ انسان کوواضح اجاگر کیاکہ انسان کامقام کیاہے؟ اوراس کی حقیقت کیا ہے؟ دیکھئے انسان کے تین پہلوہیں اورتینوں پہلوئوں کاذکر قرآن مجید میں موجود ہے قرآن کھو ل کھول کربتاتاہے کہ انسان کوملے جلے نطفے(امشاجٍ من نطفۃٍ) سے پیدا کیا گیا اور انسان کا باطن کیا ہے ؟کہ اس میں(وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہ) ’’اپنی روح پھونکی ‘‘یہ انسان کاباطن ہوگیااوراس کی حقیقت کیا ہے؟
{وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo}(ق: ۱۶)
’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں-‘‘
بلکہ اپنے محبوب کے بارے میںارشاد فرمایاکہ وہ بھی بندے کے قریب تر ہیں -
{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ }( الاحزاب:۶)
’’یہ نبیِّ (مکرّم ﷺ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں -‘‘
اورپھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ
وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَo (الذریات:۲۱)
’’اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو-‘‘
کہ اے انسان تم اپنے اندر جھانک کردیکھتے کیوں نہیں اورکیاتمہیں اپنی جانوں میں کچھ نہیں دکھائی دیتاتو ذرا غور کریں کہ انسان کے اندر کیاہے انسان کے اندر رُوح بھی ہے انسان کے اندر دل بھی ہے اور دِل جب پاک ہو جائے ، طیّب و طاہر ہو جائے تو دل کے اندر کس کے اَنوار کی جلوہ گری ہوتی ہے- اوردل کی کتنی وسعت کے بارے میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ھُو
وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ موہانے ھُو
چوداں طبق دلے دے اندر تمبو وانگن تانے ھُو
جو دل دا محرم ہووے باھُوؔ سوئی رب پچھانے ھُو
تو علامہ اقبال فرماتے ہیں :
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق
اللہ تعالیٰ نے انسان کوجوشرف وعزت عطاکی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کواللہ تعالیٰ نے اپنا راز دار بنایا(انی جاعل فی الارض خلیفہ) انسان کو خلافت کا تاج پہنایا (الانسان سری وانا سرہٗ) کہ انسان میرا راز ہے اور میں انسان کاراز ہوں -انسان سے اللہ تعالیٰ نے کام لینا ہے اور انسان سے اللہ تعالیٰ نے ڈیوٹی لینی ہے لیکن انسان اپنے آپ سے بے خبر ہواتواللہ تعالیٰ نے بذریعہ قرآن انسان کو بیدار کرنے کے لیے فرمایا:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo(المومنون:۱۱۵)
’’سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے او ریہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئو گے؟-‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بامقصد بنایا ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo}(الذاریات:۵۶)
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں-‘‘
جب اپنی تمام صورت حال انسان کے سامنے آئی تو یہ واضح ہوگیا کہ انسان کا تو بہت بڑا مقام ہے لیکن خرابی کی وجہ کیا بنی کہ شیطان بھی بھولا کہ آدم علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ یہ مٹی سے ہے اور مَیں آگ سے ہوں تو وہ مردود ہوگیا - تو آج بھی جو انسان کا فقط ظاہر دیکھے گا اور اِسے حقیر ، ذلیل ، بے وُقعت اور ناپاک کپڑا کہہ دے گاتو وہ بھی برباد ہوگیا - جبکہ انبیائے کرام ، اولیائے کرام نے اس کی حقیقت کو کھول کر بتایا :
{مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ‘‘ }(تفسیر مظھری)
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا-‘‘
تو انسان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں فرمایا :
’’ اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے تو ہوگا وہی جو میری چاہت ہے -‘‘
تو اگر سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ قرآن مجید بھی جواب فرماتا ہے اور حدیث قدسی میں بھی ارشاد فرماتا ہے -
’’ کہ انسان کو اعلیٰ و اشرف اپنی خلافت کیلئے بنایا -‘‘
تو انسان اپنے آپ سے بے خبر ہوگیا :
{وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِصلے لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَاط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo}(الاعراف:۱۷۹)
’’اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے جنوں اور انسانوں میں سے بہت سے (افراد) کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں-‘‘
تو انسان کو سمجھنا ،جو ظاہر دیکھتا ہے اُسے نطفہ نظر آتا ہے اُس کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں یہ بھی دیگر جانداروں کی طرح جب چاہے قتل گاہوں میں قربان کیا جا سکتا ہے - لیکن جو انسان کا باطن دیکھتا ہے اُس کے نزدیک انسانیت کا احترام بڑھ جاتا ہے انسانی جان کی قدر و قیمت بھی بڑھ جاتی ہے - کیونکہ اِنسان کی حقیقت بہت ہی لطیف ہے اور کئی نُوری پردوں میں چھپی ہوئی ہے جسے کوئی عارفِ بااللہ ہی تلاش کر سکتا ہے - اِسی لئے لازِم ہے کہ اُمّت کے جلیل القدر صُوفیا نے حقیقتِ اِنسان کو جس انداز میں بیان کیا ہے اُس کا مُطالعہ کیا جائے اور انسان کی عظمت کو سمجھا جائے تاکہ اِس انسانی بستی میں ظُلم و تعدّی کی بجائے رحم و رحمت کو عام کیا جائے - اور انسانی جانوں کو ضیاع سے بچایا جائے - جس عارف کو بھی دیکھیں اُس نے حقیقتِ اِنسان پر ضرور اِظہار کیا تاکہ لوگ اِنسانی شرف کو قائم رکھّیں اور انسانی بے حرمتی کو دُنیا میں روکا جا سکے - مثلاً ماضی قریب کے عرفا کرام میں حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اِس پہ بڑے لطیف نکات و رموز کو منکشف کیا ہے :
٭ اُلجھن نہ ہو تجھے تو کھول کر کہہ دوں ذرا
وجودِ حضرتِ انساں نہ روح ہے نہ بدن
جنہیں مَیں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے حدیثِ قُدسی میں فرمایا ہے جسے کئی عرفأ نے روایت فرمایا ہے :
{ لَایَسَعُنِیْ اَرْضِیْ وَلَاسَمَآئِیْ و َلٰٰکِنْ یَّسَعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِا لْمُوئْ مِنِ} (تفسیر ابن عربی)
’’ میں زمین اور آسمانوں میں نہیں سماتا بلکہ بندۂ مومن کے دل میں سما تا ہوں-‘‘
جب اتنی وسعت انسان کے دل کی ہے تودل، رُوح اورانسان کا پورا وجود کیا ہوا؟حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں:
؎دل بازار تے منہ دروازہ سینہ شہر ڈسیندا ھُو
سینہ شہر ہے اور دل بازار ہے اورپوراوجود ملک کی مثل ہے -تو اس کی وسعت اتنی ہے تو اس کی قیمت کیا ہوگی ؟فرمان باری تعالیٰ ہے:
{ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط }(المائدہ:۳۲)
’’ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا-‘‘
{ وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط}(المائدہ:۳۲)
’’ اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)-‘‘
یہاں زندہ رکھنے اور مارنے سے کیا مراد ہے؟ ایک تو اس کا ظاہری حکم ہے تاکہ خُونِ ناحق بند کیا جائے اور انسانی قتلِ عام کو روکا جائے - اِس کی ایک تشریح عُرفائے کرام نے باطن کے حوالے سے بھی بیان کی ہے کہ اگر اللہ سے بندے کا تعلق توڑ دیا جائے تو وہ مردہ ہے اور اگر جوڑ دیا جائے تو وہ حیات ہے-کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے کہ
’’ ذکر کرنے والا زندہ کی مثل اور نہ کرنے والا مردہ کی مثل ہے-‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
{فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْ کُرْکُمْ }(البقرۃ:۱۵۲)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا -‘‘
ہم اگر ایک مرتبہ یاد کریں گے کہ {یَااَللّٰہُ}، تو اللہ تعالیٰ دس مرتبہ فرماتا ہے{ لبیک یاعبدی}-----
تو یہ کتنا بڑا مقام ہے، ادھر مقام دیکھو تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کو زندہ کرنا پوری انسانیت کو زندہ کرنا ہے - گویا باطنی تاویل و تشریح کے مطابق یوں مفہوم ہوگا کہ انسانیّت کو موت سے بچایا جائے یعنی ذکرِ الٰہی سے غافل نہ ہونے دیا جائے اُسے زندگی دی جائے یعنی ذکرِ الٰہی کی طرف راغب کیا جائے -یہ سارے امُور قرآن پاک پڑھنے سے سمجھ آتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم قرآن پاک کو پڑھیں،سمجھیں ،اِس پر عمل کریں کیونکہ حکم بھی یہی ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے- اس لئے ہماری ناکامی کی وجہ یہ بن رہی ہے کہ ہم اللہ سے بے خبر ہوئے اور خرابی بن گئی ، ہم اپنے مقام سے بے خبر ہوگئے- اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
{وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo}(الحشر:۱۹)
’’اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا (کہ وہ اپنی جانوں کے لیے ہی کچھ بھلائی آگے بھیج دیتے)، وہی لوگ نافرمان ہیں-‘‘
تو ہمیں اپنی پہچان کرنی چاہیے، پورا قرآن پاک انسان کی بھلائی ، رہنمائی اور ہدایت کیلئے آیا ہے تو کل قیامت کے دن آقا پاک ﷺ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کریں گے :
{وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًاo}(الفرقان:۳۰)
’’اور رسولِ (اکرم ﷺ) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا-‘‘
تو آج موقعہ غنیمت ہے کہ ہم قرآن کو پڑھیں ، سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اپنے اوپر لاگو کریں -اور قرآن پاک کو جس نے ترجمہ کیساتھ پڑھا اور اِس کے احکامات کو اپنے اوپر لاگو کیا تو وہی دنیا میں کامیاب ہوا -
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو انسان کا مقام پانے کی توفیق عطا فرمائے اور بذریعہ قرآن یہ سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین و دُنیا میںاللہ تعالیٰ سر خرو کرے-اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو-