نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تواِس پرصعوبت سفر ہجرت کامقصد صرف مشرکین ِمکہ کی ایذارسانیوں سے نجات حاصل کرنا ہی نہ تھا بلکہ ایک پُرامن علاقے میں ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل وتاسیس کرنا بھی تھا -آپﷺ کومدینہ منورہ میں تین طرح اقوام سے واسطہ پڑا-
(1)آپ ﷺ کے پاکباز صحابہ کرامؓ - (2)مدینہ کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے مشرکین -(3)یہود -
ان میں سے ہرایک کے حالات ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ تھے-جہاںآپﷺ نے مدینہ منورہ کے اندر مسلمان مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات کے ذریعے زبردست بھائی چارہ کروایااوراسلامی مرکز کوقوت فراہم کی وہیں بیرونی قبائل کے ساتھ بھی تعلقات استوار کئے اور معاہدوں کی ذریعے نوزائیدہ اسلامی ریاست(مدینہ منورہ)کے دفاع کومضبوط فرمایااس ضمن میں آپ ﷺ کے سیاسی فیصلے ، آپ ﷺ کی نبوی بصیرت پربین ثبوت ہیں -آپ ﷺ نے قلیل عرصہ میں ریاست مدینہ کے اندراورباہر جملہ مسائل کابہترین حل پیش کیا کیونکہ آپﷺ کے فہیمانہ فیصلوں کوتائید ربّانی حاصل تھی -
کثیر المذہبی معاشروں مسلم اورغیر مسلم قوموں کے مابین تعلقات کی نوعیت :
کثیرالمذہب معاشروں میں مسلم اورغیر مسلم قوموں کے مابین تعلقات کی نوعیت اوراہمیت کاادراک آپ ﷺ کے اسمائے کریمیہ کے تناظر میں کچھ اس طرح حاصل کیاجاسکتاہے -
سیدناالمواخیﷺ (بھائی چارہ ڈالنے والے ):-
مدینہ منورہ میں موجود مسلمان قوم(انصار)کے ساتھ نبی کریم حضر ت محمد الرسول اللہ ﷺ نے مہاجرین مسلمانوں کابھائی چارہ کرادیا-
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ انصار نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا- آپ ﷺ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں- آپ ﷺ نے فرمایا نہیں- انصار نے کہاتب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کر دیا کریں اور ہم پھلوں میں آپ لوگوں کوشریک رکھیں گے انہوں نے کہا ٹھیک ہے - ہم نے بات سنی اورمانی -(صحیح بخاری)
چشم تاریخ انسانی نے اس سے قبل ایثار وقربانی کی ایسی عظیم اور بے لوث مثال کامشاہدہ نہیں کیا جس میں انصار ِمدینہ نے مال ودولت اور جائیداد وباغات کے ساتھ ساتھ اپنی ازواج کو بھی مہاجرین کی خدمت میں پیش کر دیا مگر پُر عزم مہاجرین نے کسب حلال کو ترجیح دی مواخات مدینہ کا یہ بے مثال معاہدہ ایک نادر حکمت اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ایک بہترین حل تھا-
سیدناالامٰنﷺ(امن قائم کرنے والے):-
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہﷺ کی بعثت کا مقصد ایک پُر امن معاشرہ قائم کرنا تھا اور آپ ﷺ کی تعلیمات بحیثیت مجموعی امن وآشتی کی علم بردار ہیں - رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے محقّقین اس ضمن میں میثاقِ مدینہ کے علاوہ اسلامی تعاون اور پیمان امن سے متعلقہ ایک دوسرے معاہدے کا ذکر بھی کرتے ہیں جس میں جہاں مسلمانوں کو باہمی تعاون و اتحاد، اخوت ویگانگت کاسبق دیا گیا وہیں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے عملی خاکہ وضع کیا گیا- مشرکین مدینہ میں سے بہت سے لوگ اسلامی نظامِ اخلاق سے متأثر ہو کر اسلام لے آئے اس طرح مدینہ میں جڑیں پکڑتی جاہلی کشمکش کی بیخ کنی کر دی گئی اور اس نوزائیدہ اسلامی ریاست میں دورِ جاہلیت کے رسم ورواج کے لئے کوئی گنجائش نہ چھوڑی گئی-
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے امن عامہ قائم کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان مواخات قائم کی اور غیر مسلموں کے ساتھ مختلف معاہدے منعقد کیے -دین اسلام کی حفاظت کے لئے اقدامات اٹھانے اورغیر مسلموں سے تعلقات استوار کرنے کے لئے آپ ﷺ کے دانش مندانہ اور دور اندیش فیصلے نبوی حکمت و فراست پر برہان محکم ہیں-
سیدنا الناجز ﷺ (عہد نبھانے والے):-
مدینہ منورہ میں تیسرا غیر مسلم گروہ یہود تھے جو اہل ِمدینہ کے قریب ترین پڑوسی تھے یہ لوگ اگرچہ درپردہ مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے لیکن شروع میں انہوں نے کسی جھگڑے اورمحاذ آرائی کا اظہار نہ کیا اورنبی اکرم ﷺ نے انتہائی معاملہ فہمی اور فراست کے ساتھ ان کو اپنے ساتھ ایک معاہدے میں شامل کر لیا جس میں انہیں دین ومذہب اور جان ومال کی مطلق آزادی حاصل تھی- جلاوطنی ،ضبطی جائیداد یا جھگڑالو سیاست کا کوئی رخ اختیار نہیں کیا گیا - تاریخ ِاسلام میں یہ معاہدہ میثاقِ مدینہ کے نام سے معروف ہے- اسے بجاطور پر پہلا تحریری دستور قرار دیا گیا- اس معاہدے کے بعد مدینہ منورہ کو باقاعدہ طور پر پہلی اسلامی ریاست تسلیم کیا گیا اور اسلامی شریعہ کا نفاذ عملی طور پر ممکن ہو سکا -
سیدنا قیم السنتہ ﷺ (سنت قائم کرنے والے ):-
میثاقِ مدینہ کے بعد نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کومدینہ منورہ میں اسلامی نظام شریعہ استوار کرنے کے لئے جو اہم فائدے حاصل ہوئے ان میں :
(۱) دستوری معاہدے پر عمل داری کی بدولت ریاست مدینہ میں خدا کی حاکمیت اوراس کے قانون کو اساسی اہمیت حاصل ہو گئی -
(۲) دفاعی لحاظ سے ریاست مدینہ ایک متحدہ اور مضبوط طاقت بن گئی اور مکہ میں بیٹھے سازشی سردارانِ قریش کی ریشہ دوانیوں کی گنجائش نہ رہی -
(۳) سیاسی قانونی اور عدالتی لحاظ سے حتمی اختیار نبی اکرمﷺ کے ہاتھ میں آگیا یعنی مسلم اور غیر مسلم اقوام نے آپ ﷺ کو اپنا ثالث اور حاکم تسلیم کر لیا-
اس طرح نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے ریاستِ مدینہ میں اِسلامی نظام نافذ کرنے کی تدبیر فرمائی اور تبلیغ دین اسلام کا کام بھی زور و شور سے جاری رہا- آپ ﷺ نے اپنے اخلاق عالیہ کے ذریعہ سے سنت ابراہیمی کی تجدید فرمائی اورسنت محمدی ﷺ کی صورت اُس کو حتمی طور پر نافذ فرمایا-
سیدنا سھل الاخلاق ﷺ(نرم اخلاق والے):-
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرامؓ جو آپ ﷺ ہی کی تربیت یافتہ جماعت تھی- ان ہستیوں سے ظاہری خوبیوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کمالات ، خداداد صلاحیتوں ،مجدد فضائل ،مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کا وقتاً فوقتاً اظہار ہونا اور خود پیکر اخلاق نبی اکرم ﷺ کی شخصیت اس قدر مسحور کن تھی کہ دل خود بخود آپ ﷺ کی طرف کھنچے چلے جاتے یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے اندر اور باہر سے لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے - یوں دین اسلام کا سب سے باکمال اور باشرف معاشرہ وجود میں آیا- قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لااکرہ فی الدین }’’دین میں کوئی جبر نہیں -‘‘(البقرہ:۲۵۶)
دُنیا کے ہر مؤرّخ نے اِس امر کو تسلیم کیا ہے کہ عہد نبوی اور خلافت راشدہ کے میں دین اسلام قبول کرنے کے لئے کسی پر کسی بھی قسم کا کوئی جبر نہیں کیا گیا - ہر مذہبی کمیونٹی کو کامل داخلی خود مختیاری دی گئی- اُن کو نہ صرف عقائد کی آزادی حاصل تھی بلکہ اپنے قانون کے مطابق اور دیگر امور مکمل آزاد تھے - اس طرح غیر مسلم اقوام کو مکمل آزادی حاصل تھی تاکہ ہر کوئی آزاد اسلامی معاشرے کا ایک پر امن اور ذمہ دار فرد بن کر زندگی گزارے -
اسلامی تہذیب وتمدن نے دوسرے مذاہب وادیان اور تہذیب وثقافت سے میل جول اور تعلقات کو استوار کرنے میں جن اسلامی اصول وضوابط کو پیش نظر رکھا ہے اس کے مطابق مختلف تہذیبوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی اورتاثیر واثر پذیر ی ایک فطری عمل ہے جس میں ہر تصادم کی نفی ہے - اسلامی تہذیب وتمدن کا دوسری تہذیبوں کے ساتھ رویہ اور طریق عمل تحمل ،بردباری اور رواداری پر مشتمل ہونا چاہیے جو پرامن ثقافتی میل جول اور تعاون پر ابھارے اور کسی طرح بھی دین اسلام کی نصوص سے متصادم نہ ہو- غیر مسلم اقوام کو بھی امن وآشتی اور اخوت ومحبت کی بنیاد پر مسلم اقوام سے تعلقات استوار کرنے چاہیں -
اسلامی خارجہ پالیسی اور قانون بین الممالک :
اسلامی ریاست کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے جو قوانین وضوابط وضع کیے جاتے ہیں اُن کا تعلق خارجہ پالیسی کے ساتھ ہے اور یہ تعلقات باہمی جن اصول وقواعد کو مدّنظر رکھ کر استوار کئے جاتے ہیں ان اصول وضوابط کا تعلق قانون بین الممالک یعنی انٹرنیشنل لاء کے ساتھ ہے اور اسلامی خارجہ پالیسی ، اسلامی قانون بین الممالک کی آئینہ دار ہے-
سیدنا مرحمتہ ﷺ (مہربان):-
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ، مجھے جنگجو بنا کر بھیجا گیا ہے اور میں تجارت کرنے والا اور کھیتی باڑی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں-
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے دفاعی نکتۂ نظر سے جہاں غزوات اور جنگوں میں بہادری کے بے مثل فیصلے صادر فرمائے اُس سے کہیں بڑھ کر ضرورت وحالات کے مطابق مصالحانہ رویے بھی اختیار کیے - بیرونی قبائل کے ساتھ دستوری طرز پر بہت سے معاہدات طے کیے اس طرح یہ قبیلے اور علاقے دراصل سیاسی وحدت اسلامیہ کاجزو بن گئے گویا سلطنت مدینہ کاحصہ ہو گئے- نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے رواداری اورپُرامن مقاصد پر ہمسایہ قبائل کے ساتھ متعدد معاہدے کیے اور مدینہ کے دفاع کو یقینی بنایا -
سیدنا کاتب الصلح ﷺ (صلح کا معاہدہ لکھنے والے ):-
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے حلیف اور حریف قبائل کے ساتھ جو معاہدے منعقد کیے وہ اکثر مصالحانہ بنیادوں پر تھے جن میں فریقین کے مفادات ، حقوق اور دفاع کا پورا خیال رکھا جاتا - ان معاہدات میں تاریخی لحاظ سے ایک اہم ترین معاہدہ صلح حدیبیہ کا تھا جو بظاہر تو مسلمانوں کے جذبات پر کاری ضرب تھا اور قریش کی پیش کردہ شرائط پر مشتمل تھا لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے خود فتح عظیم کی حیثیت رکھتا تھا اورنبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی سیاسی بصیرت پر قوی دلیل تھی - اس معاہدہ کی بدولت مسلمانوں نے عظیم مقاصد حاصل کیے -
1-مسلمانان مدینہ اور مشرکین مکہ کے درمیان میل جول کے راستے کُھل گئے اور تبلیغ دین اسلام کا سفر آسان ہوا-
2-جنگ وجدال کے اندیشہ جات سے نجات پا کر ریاست کے نظم ونسق کو چلانے اور غیر ملکی حکومتوں کو دین اسلام کی دعوت دینے کے مواقع پیدا ہوئے-
3-قریش کی طرف سے بے فکری ہو گئی ،قبائل عرب کو آزادی حاصل ہو گئی کہ جو چاہے حکومت مدینہ کا ساتھ دے اس لئے لوگ بڑی تعداد میں حلقۂ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے -
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی نبوی فراست اور ماہرانہ حکمت عملی کی بدولت جلد ہی ریاست مدینہ کا بیرونی قبائل ، مختلف سلطنتوں کے سربراہان اور روساء کے ساتھ سفارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا-
سیدنا کثیر النقباء ﷺ (زیادہ نقیبوں والے):-
نبی اکرم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ پہلے ہی انصار میں سے بارہ نقباء چن کر نکال چکے تھے جو اپنے قبیلے کے نمائندہ سردار تھے اور ان قبائل میں تبلیغ دین اسلام کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے تھے - آپ ﷺ نے نہ صرف عام لوگوں کے ساتھ خود بھی رابطہ رکھا بلکہ اپنے نمائندے جو کہ انہیں میں سے منتخب کردہ تھے ان میں بھیج کر تبلیغ دین اسلام کا اہتمام فرمایا- آپ ﷺ کی اس میں فراست یہ تھی کہ ان لوگوں سے ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کی جائے تاکہ وہ اس کو قبول کر سکیں جیسا کہ بیعت اوّل میں آپ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اپنا نمائند ہ بنا کر اوس وخزرج کی طرف روانہ فرمایا اور اس میں حکمت یہ تھی کہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا انداز دعوت بہت لطیف ہوتا اور وہ بہت مضبوط اور مؤثر دلائل کے ساتھ مخاطب کوقائل کرتے حتٰی کہ سامعین کے لئے انکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی آپ ﷺ کا کمال یہ تھا کہ آپ ﷺ نے قبائل اوس وخزرج کے سرداروں حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ کو بھی جو مکمل سیاست واقتدار کے مالک تھے دائرہ اسلام میں داخل کرلیا تھاجن کے قبول اسلام کایہ فائدہ ہوا کہ جلد ہی مدینہ منورہ کے ان دو عظیم قبائل کے تمام افراد نے اسلام قبول کر لیا -
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں: سپہ سالارِ اعظم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ نے با امرِ مجبُوری محض دفاعی جنگیں لڑیں ورنہ جنگ آپ ﷺ کی خواہش کبھی نہ تھی - مصالحت کے دورِ امن میں بھی آپ ﷺ نے عرب کے ساتھ ساتھ غیر عرب ممالک میں پرامن طریق پربات چیت کا سلسلہ شروع کیا تاکہ وہ اسے قبول کر سکیں اور جب آپ ﷺ نے دین اسلام کی تبلیغ کا اہتمام فرمایا تو آپ ﷺ نے ان منتخب افراد کے ذریعے وہاں خطوط بھیجے جو کم از کم اس علاقے کی زبان سے واقف تھے-
آپ ﷺ نے دین اسلام کی اشاعت ، امن و سلامتی کے قیام اور مختلف اقوام کے اسلام کے لئے ردعمل کا جائزہ لینے اور ان کے ساتھ باہمی تعلقات کا رُخ متعین کرنے لئے اپنے سفراء کے ذریعے وقت کی بڑی بڑی سلطنتوں کے حکمرانوں ، نیم خود مختیار ریاستوں کے امراء اور قبائل کے سرداروں کے ساتھ سفارتی رابطے قائم کیے - اس طرح باقاعدہ طور پر بیرون ممالک کے ساتھ سفارت کاری کا آغاز ہوا اور اسلامی خارجہ پالیسی کی داغ بیل پڑی -
زیرِ نظر مضمون میں شامل تمام اسمائے رسول ﷺ حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ’’ اسماء النبی الکریم ﷺ ‘‘ سے ماخوذ ہیں-
سیدنا کثیر الکتاب ﷺ (زیادہ کاتبوں والے ):-
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے اسلامی دعوت کا مخاطب نہ صرف فرمان روائوں کو بنایا بلکہ اپنے نامہ مبارک میں صراحت کے ساتھ ان کو پوری قوم کا نمائندہ قرار دے کر عوام کے برے بھلے کی ذمہ داری ان پر ڈالی - علاوہ ازیں بادشاہوں کو خطوط لکھتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے ایک طرف تو مروجہ آداب کا اہتمام فرمایا یعنی تمام خطوط بطور خاص آپ ﷺ کی انگوٹھی مبارکہ سے مہر کیے گئے اور ہر خط کا آغاز خدائے رحمن رحیم کے نام سے کیا گیا - مرسل کی حیثیت سے اپنا اسم مبارک اور پھر مکتوب الیہ کا نام ، پھر کم سے کم محتاط اور جچے تلے الفاظ میں مدعا بیان کیا- اس دور کے لحاظ سے سفارتی زبان آپ ﷺ نے استعمال کی وہ آپ ﷺ کے کمال ایجاز وبلاغت پر دلیل ہے- حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ خطوط لکھنے کے لئے سریانی زبان سیکھ لیں اس لیے یہودیوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا انہوں نے پندرہ دنوں میں سریانی زبان سیکھ لی اور وہ آپ ﷺ کی طرف سے خطوط لکھتے بھی اور ان کا جواب بھی دیتے - (۱۱)
سیدنا کثیر السفرء ﷺ(زیادہ سفراء والے):-
عبدالحئی کتانی ’’ الترتیب الادرایۃ ‘‘ میں رقمطراز ہیں : نبی اکرم حضرت محمد ﷺ سفراء کے انتخاب میں خاص طور پر اس بات کا بھی خیال فرماتے کہ ان کی شخصیت باوقار اور پرکشش ہو، جس طرح کہ شاہ روم کے دربار میں بھیجنے کے لئے حضرت وحیہ کلبیؓ کا تقرر کیا گیا جو کہ تمام سفرائے رسول ﷺ میں سب سے زیادہ صاحبِ وجاہت اور جاذب نظر تھے-(۱۲)
علاوہ ازیں وہ عملی اعتبار سے پکے مسلمان ہوں مکارم ِاخلاق کا پیکر ہوں، دین کا وسیع اور گہرا علم رکھتے ہوں افکار وخیالات کے اظہار کاعمدہ ملکہ رکھتے ہوں، علاقے کے لوگوں کی زبان، نفسیات ، طرزِ بودوباش اور حالات سے واقف ہوں یعنی نبی اکرم ﷺ مختلف علاقوں مقامی زبان میں خطوط لکھوانے کا اہتمام فرماتے تاکہ دعوت تبلیغ دین کے دوران مخاطب کے لئے مفہوم کے ادراک میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے -
یہی وجہ ہے کہ قیصر روم نے نہ صرف اہل مکہ کے تجارتی قافلہ سے ابوسفیان کو بلا کر آپ ﷺ کے پیغام کی صداقت کو پرکھا بلکہ مزید تسلی کے لئے اپنی مملکت کے ایک بڑے عالم ضغاطر رومی سے بھی معلومات حاصل کیں جس نے آپ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کی - اس نے آپ ﷺ کے سفیر کا اکرام و احترام کیا بلکہ بعد میں ۹ہجری میں تبوک کے مقام پرا س کو ہمت نہ ہوئی کہ آپ ﷺ کے مقابلہ پر نکلتا غزوہ تبوک میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی کے پیچھے آپ ﷺ کے مکتوب گرامی اور انداز دعوت وتبلیغ اور حضرت وحیہ کلبیؓ کی کامیاب سفارت کا بڑا ہاتھ ہے البتہ قیصر روم نے اقتدار وسلطنت کے کھو جانے کے خوف سے اور سیاسی مصلحتوں کی خاطر کھلم کھلا اسلام قبول نہیں کیا-
سیدنا کثیر الوفود ﷺ (زیادہ وفود والے):-
اسلام نظام سیاست میں سفارتی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہو گیا جب صلح حدیبیہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ کے سردار بدیل بن ورقہ چند اہم ساتھیوں سمیت حضور اکرم ﷺ سے آ ملے - اس کے بعد یہ سلسلہ کم و بیش جاری رہا حتٰی کہ فتح مکہ کے بعد جب اہل عرب سمجھ گئے کہ اب وہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو وہ جوق در جوق بارگاہِ رسالت میں بیعت کے لئے حاضر ہونا شروع ہو گئے - یہ واقعہ ۹ہجری کا ہے اسی لیے اسے عام الوفود کہا جاتا ہے- (۱۳)
آپ ﷺ وفود اور سفراء کا اکرام و احترام کرتے ، ان کے لئے قیام و طعام کا بہترین اہتمام فرماتے - ان کو تحائف سے نوازتے حتٰی کہ ان کے لئے زاد ِراہ کا بھی انتظام کرتے - بنو نجران کا ایک بہت بڑا وفد مدینہ منورہ آیا تو آپ ﷺ نے نہ صرف ان کومسجد نبوی میں ٹھہرایا بلکہ انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت دی- (۱۴)
اسی طرح قبیلہ بنو ثقیف کا وفد آیا تو آپ ﷺ نے ان کا خوب اکرام فرمایا ، ان کے لئے خاص طور پر خیمے لگوائے ، ان کے ساتھ مذاکرات اور ضیافت کے لئے حضرت خالد بن سعید بن العاصؓ کو رابطہ افسر مقرر فرمایا - (۱۵)
عمان کے گورنر کے تحائف کو قبول فرمایا اور سفیر کو پانچ سو درہم بطور تحفہ عنایت فرمائے - (۱۶)
قبیلہ مذینہ کاوفد واپس جانے لگا تو ان لوگوں کے پاس زادِ راہ کم تھا آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو ان کے اسباب خوردو نوش فراہم کرنے کی تاکید فرمائی- (۱۷)
اسی طرح بنوثعلبہ کے وفد کے ہر فرد کو واپس جاتے ہوئے پانچ پانچ اوقیہ چاندی عطا کی - (۱۸)
سفیروں کے تحفظ اورعزت واحترام کا آپ ﷺ کو اس قدر خیال تھا کہ آپ نے سفراء کے بارے میں ارشاد فرمایا:
{اجیزوالوفد بنحو مما کنت اجیز ھم }(۱۹)
’’وفود (سفراء) کو اسی طرح تحفے دیتے رہنا جس طرح میں انہیں دیتا رہا ہوں-‘‘
علاوہ ازیں اسلامی ریاست میں کسی سفیر کی پہلی تقرری عسکری یا نیم عسکری مہمات کے دوران بھی ہوتی تھی ان سفارتوں کا مقصد یہ تھا کہ پڑوسی شاہان وقت کو دعوت اسلامی کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت اور صلح کے لئے آمادہ کیا جائے تاکہ ایک طرف تو اسلام کی عالم گیر تبلیغ کا دروازہ کھلے تو دوسری طرف تصادم وجارحیت کے احکامات یا خطرات میں کمی پیدا ہو - نتیجتاً ان سفارتوں نے اپنے اپنے حکمرانوں میں خیر سگالی اور دوستی کے جذبات پروان چڑھانے میں کافی مو ٔثر کردار ادا کیا- (۲۰)
یوں آپ ﷺ نے اخوت و رواداری کے جذبات کے بنیاد پر قانون بین الممالک کی طرح ڈالی -
سیدنا الالمعی ﷺ(معاملہ فہم):-
دورِ رسالت میں نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی نبوی فراست کو غیر مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے دو طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا - ایک تو حالت امن جس کا مختصر تذکرہ درج بالا مباحث میں موجود ہے کہ حالت امن میں خارجی عناصر سے روابط قائم کرنے میں آپ ﷺ نے کس طرح متوازن اور مؤثر حکمت عملی اپنا ئی اور جب حالت جنگ پیش آئی تو آپ ﷺ نے باقاعدہ جنگی قوانین وضع کیے اہل حرب کے ساتھ سلوک کی جہات کا تعین کیا- جنگی اصلاحات نافذ کیں - فدیہ اور تبادلہ اسیران کے اصول وضع کیے حتٰی کہ مقتولین (مرد ،عورتیں ،بچے، بوڑھوں) میں بھی تخصیص کی اس طرح اسلامی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ قانون بین الممالک بھی تشکیل پاتا گیا- (۲۱)
یوں نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا طرز عمل مسلمانوں کے لئے نظیر بنتا گیا - نبی اکرم ﷺ کی دس سالہ مدنی زندگی اسلامی انٹرنیشنل لاء کے اکثر قواعد کومعین ومدون کرنے کا باعث بنی -
اس ضمن میں ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں :اسلامی قانون دراصل نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا معجزہ ہے نبی اکرم ﷺ کے دیے ہوئے احکام اس قدر معقول اور مناسب ہیں کہ ان میں تبدیلی کی کم از کم کسی سنجیدہ شخص کو ضرورت محسوس نہیں ہوئی - تاریخ قانون عالم میں یہ بات کسی حیران کن معجزے سے کم نہیں - (۲۲)
حیات انسانی کے سماجی پہلو اورحقوق انسانی کاتحفظ :
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ انسانی زندگی کے سماجی معیارات سے مخاطب ہوتی ہے اور حقوق وفرائض کا ایسا مؤثر نظام پیش کرتی ہے جس کی بنیاد مساوات ،عدل ،تقوٰی اور رواداری جیسے universal lawsپر رکھی گئی ہے اور ایک ایسا جامع نظام اخلاق متعین کرتی ہے جو سماجی اقدار کونسل انسانی کی ideal valuesکا مقام بخشتا ہے-
سیدنا الاتقیﷺ(متقی/پرہیزگار):-
{ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقکم ان اللّٰہ علیم خبیر}(۲۳)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو- اللہ خوب جاننے والا، پورا خبردار ہے-‘‘
اسلام نظام معاشرت میں کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں اسلام نے فضیلت تقویٰ کے تصور کے ساتھ معاشرتی ،طبقاتی اور جغرافیائی تقسیم ،نسل پرستی اور قومی وملکی تفاخر کا خاتمہ کر دیا ہے اور تمام امت مسلم کو وحدت کی لڑی میں پرو کرمساوات ِانسانی کا بے مثل عملی نمونہ پیش کیا ہے-
سیدنا المقسط ﷺ (انصاف کرنے والے ):-
{وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ان اللّٰہ یحب المقسطین } (۲۴)
’’اگر آپ فیصلہ کریں تو ان میں عدل کے موافق فیصلہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے-‘‘
عدل سے مراد یہاں اجتماعی عدل ہے یعنی معاشرہ میں برابری اور غیر جانبداری کے ساتھ نظام عدل قائم کرنا- عدل ایک اہم سماجی قدر ہے جس پر کسی معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہوتا ہے اسلامی نظام عدل کا تقاضا ہے کہ جرائم کو روکا جائے ، مظلومین کو حقوق دلائے جائیں اور ظالموں کو سزا دی جائے -
Islam wants to creat a society based on a deep sense of normal responsibility and justice in order to preserve human dignity accoerded to many God .(25)
سیدنا المیسر فی الدین ﷺ (دین میں آسانی دیے گئے ):-
نبی اکرم حضرت محمدﷺ آسان دین اورسہل نظام شریعت دے کرمبعوث فرمائے گئے جس میں دین کی حدود کے اندر افراد معاشرہ کو پوری شخصی اور فکری آزادی حاصل تھی- اسلام نے اپنے نظام تشریع میں انسان کے پانچ بنیادی حقوق پر بہت زیادہ زور دیا ہے- اظہار فکر کی آزادی ،نجی ملکیت کا حق، اپنی ذات کے دفاع کی آزادی اور زندگی کی سلامتی اوربقاء کا حق- (۲۶)
ان تمام حقوق کی بنیاد خواہ اس کا تعلق مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہو یا ریاست کے غیر مسلم باشندگان کے ساتھ ،مساوات انسانی اور عدل وانصاف کے اسلامی تصورات کے ہی تابع ہے-
سیدنا المجتھد ﷺ(دین میں پوری کوشش کرنے والے):-
{الاجتھاد ھو بذل الوسع فی طلب امر یقصد } (۲۷)
’’کسی خاص مقصد کی طلب میں پوری کوشش خرچ کر دینے کو اجتہاد کہتے ہیں-‘‘
دین اسلام ایک جامع اور متحرک نظام حیات لیے ہوئے ہے - اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب وفرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے ضمیر اور عبادات کی آزادی کا ضامن ہے- اسلامی نظام نہ صرف دوسرے مذاہب کو مکمل آزادی دیتا ہے بلکہ اجتماعی وسیاسی حدود میں ان کی حفاظت کرتا ہے- اسلام میں اجتہاد کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں جس کی مدد سے کثیر المذاہب معاشروں میں نہ صرف اسلامی اقدار وثقافت کی بقاء اور ارتقاء ممکن ہوئی بلکہ اختلاف وتنوع کو بھی قانون اورضابطہ کی شکل دے کر خوبصورت روایت اور رویہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو قوانین اور اقوام کی تاریخ کا منفرد اور عظیم کارنامہ ہے-
حضرت برکت علی لدھیانوی اسلامی فلسفہ وفکر میں اجتہادی اختیار کا رُخ کچھ یوں متعین کرتے ہیں: ’’انسان کی نگاہ میں ضیق پن ،کج بینی ،کوتاہ نظری نہ ہو -وقتی ،ہنگامی اور معمولی منفعتوں کی طرف میلان نہ ہو بلکہ اس کی نگاہ دور رس فوائد پہ ہو ، عاقبت اندیشی شعار ہو- وسعت سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ دین میں ہر کمی بیشی ،جائز و ناجائز ، حلال وحرام کی گڈمڈ کو برداشت کر لیا جائے اور اس سے قطع نظر کر لی جائے یہ مفہوم وسعت دین سے خارج ہے-‘‘ (۲۸)
سیدنا الامر ﷺ (حکم دینے والے):-
{ومااتکم الرسول فخذوہ}
’’اور رسول ﷺ تم کو جو کچھ (حکم )دے دیا کریں وہ لے لیا کرو-‘‘
حضرت شرف بوصیری فرماتے ہیںکہ ہمارے نبی ﷺ حکم دینے والے اور منع کرنے والے ہیں آپ ﷺ سے زیادہ جہاں میں ’’ہاں‘‘ اور ’’نہ‘‘ کے معاملہ میں کوئی نیک نہیں- (۲۹)
دین اسلام میں تمام تر وسعت اورآسانی کے باوجود نصوص اورمتعلقہ احکامات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مسلم معاشرہ میں عدل وانصاف ،مساوات ،اخوت ،آزادی صداقت وامانت ،شجاعت ،دیانتداری اور رواداری جیسی عالم گیر سماجی اقدار کونفاذ قانون کے ذریعہ عملی شکل میں لاگو کیاگیاہے-
سیدناالناھیﷺ(برے کاموں سے روکنے والے)
وما نہکم عنہ فانتھو(۳۰)’’اورجس چیز سے (رسول ﷺ)تم کومنع فرمادیں تم رک جایاکرو-‘‘
اسلامی ریاست میں نظام شریعہ کے موثر نفاذ اوراسلامی روایات کے پنپنے کے لئے جتنی اہمیت اوامرکی ہے اتنی ہی نواہی کی بھی ہے جبرواستبداد ،لوٹ مار،حق تلفی،بے انصافی ،دھوکہ دہی،بددیانتی ،دہشت گردی ،غیر مسلموں اورپسماندہ طبقات کے حقوق کی پامالی کی اسلامی معاشرہ میں قطعاً اجازت نہیں اسلام نظام حکومت میں حدود تعزیرات کے نفاذ کوموثر بناکر تمام سماجی معائب اورمعاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کاپورا نظام موجود ہے-
سیدنا مقیم الحدودﷺ(حدوں کوقائم کرنے والے )
حدود اللہ قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ افراط وتفریط سے پاک اورانصاف پرمبنی ایک معتدل اورمثالی معاشرتی ومعاشی نظام قائم کرنا ہے اور ایسی صورت حال عملی طور پر اسی وقت ممکن ہے جب عادلانہ بنیادوں پر نظام شریعہ کے کلی اورموثر نفاذ کوممکن بنایاجائے-
سیدناالمھذبﷺ(تہذیب یافتہ )
’’مہذب‘‘سے مراد یہاں یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ پاکیزہ اخلاق والے اورگناہوں سے بالکل پاک ہیں-(۳۱)
آپﷺ کے اخلاق کریمیہ کاہی اثر تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں دین اسلام اکناف عالم میں چہار سو پھیل گیا-اسلامی نظام فکر جس ابدیت اورجامعیت کادعوٰی کرتاہے وہ دوسرے مذاہب سے ہٹ کرکئی نئی چیز نہیں بلکہ قبل از اسلام تمام مذاہب کے اہم اجزاء کی ترقی یافتہ شکل ہے اوریہی بنیاد ہے جس نے اسلامی تہذیب وتمدن کوتہذیبی ہم آہنگی کی بنیاد بنایا اسلامی تہذیب میں ایسی لچک موجود ہے کہ یہ دوسری تہذیبوں کے ساتھ نہ صرف برابری اوراحترام کابرتائو کرتی ہے بلکہ ان تہذیبوں سے استنباط کومباح سمجھتی ہے اسلامی تہذیب کی اسی ہمہ گیریت Inclusivenessکی بنیاد پرA.J Toynbeeنے اسے State Universal قراردیا-(۳۲)اورS.Goiteisنے اسے Religious Democracy Medieval قراردیا-(۳۳)
اس ضمن میں ڈاکٹر محمود غازی رقم طراز ہیں: مسلمانوں کی فکری روایت جس نے تہذیب اسلامیہ کے مختلف پہلوں کوعلمی مظہر بخشا اورتہذیبی لباس عطا کیا انسانی تاریخ کی موثر ترین فکری اورتعلیمی روایت رہی ہے یہ فکر دین ودنیا کی جامع ترین فکر تھی جس میں عقل ونقل کے مابین توازن موجود تھا اس فکر میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی رہنمائی کاتمام ضروری سامان موجود تھا اورانسانی تاریخ کی جتنی اقوام ،جتنی نسلیں ،جتنی زبانیں بولنے والے اورجتنے علاقوں سے تعلق رکھنے والے انسان پائے جاتے تھے اوروہ سب لوگ جوتاریخ کے مختلف ادوار میں اس تہذیب کے اثر میں آئے ان سب کواس تہذیب نے اپنے اندر اس طرح سمویا کہ ان کی انفرادیت بھی برقرار رہی اورایسی اجتماعیت بھی سامنے آئی جس نے ثقافتوں اوراقوام وممالک کی اتھاہ کثرت میں ایک بے مثال اورحسین وحدت پیدا کی-(۳۴)
غیر مسلموں سے تعلقات استوار کرنے میں اور دین اسلام کی حفاظـت اورتبلیغ کے لئے اقدامات اٹھانے میں آپ ﷺ کے دانش مندانہ اوردوراندیش فیصلے نہ صرف آپ ﷺ کی نبوی حکمت وفراست پربرہان محکم ہیں بلکہ اہل عالم کے لئے ایک متوازن ،فلاحی اورمثالی سفارت قائم کرنے اورایک موثر اورجامع خارجہ پالیسی وضع کرنے کے لئے بھی رہنمااصول فراہم کرتے ہیں-
حواشی وحوالاجات
۱-بخاری ،ابوعبداللہ ،محمد بن اسماعیل ،امام ،الجامع المسند الصحیح المختصرمن امور رسول اللہ وسننہ وایامہ دمشق :دارطوق النجاۃ ،۱۴۲۲ھ ،باب اخاء النبی ﷺ ،حدیث نمبر۳۷۸۲،۵ /۳۲
۲-مبارک پوری ،صفی الرحمن ،مولاناالرحیق الختوم لاہور :المکتبہ السلفیہ ،۲۰۱۲ص:۲۵۸
۳-ایضاً
۴-نعیم صدیقی ،محسن انسانیت لاہور :الفیصل ناشران ص:۲۲۷
۵-البقرہ:۲۵۶
۶-حمیداللہ ،ڈاکٹر ،خطبات بہاولپور ،اسلام آباد ،ادارہ تحقیقات اسلامی،ص:۳۷۱
۷-الصالحی:الشامی،محمد بن یوسف ،سبل الہدیٰ والرشادفی خیرالعباد ،بیروت ،دارلکتب العلمیۃ ۱۴۱۴ھ ۱ /۶۳۲
۸-حمیداللہ ،ڈاکٹر ،رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی لاہور نگارشات پبلشرز مزنگ روڈ ص:۳۵۹
۹-نعیم صدیقی ،محسن انسانیت لاہور :الفیصل ناشران ص:۵۱۶
۱۰-حمیداللہ ،ڈاکٹر،رسول اکرمﷺ ملتان گلگشت کالونی ص:۱۸۶
۱۱-الحلبی ،ابوالفرج،برہان الدین ،علی بن ابراہیم ،سیرۃ الحلبیہ ،بیروت،لبنان :دارالکتب العلمیۃ:۳ /۴۲۲
۱۲-الکتانی ،محمد عبدالحئی بن عبدالکبیر ،م:۱۳۸۲ھ،التراتیب الاداریہ ،بیروت ،لبنان،دارلارقم،۱ /۱۶۷
۱۳-ابن کثیر ، ابوالفداء ، عماد الدین اسماعیل ، البدایۃ والنھایۃ، بیروت، لبنان: مطبوعہ دارالفکر، ۱۴۱۸ھ، ۵/۴۰
۱۴-الحلبی ،برہان الدین علی بن ابراہیم،سیرۃ الحلبیہ ،۳ /۳۹۸
۱۵- ابوالفتح ، ابن سیدالناس، محمد بن محمدبن احمد ، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر ، بیروت، لبنان : دار القلم ، ۲/۲۸۲
۱۶- الکتانی، عبدالحئی، التراتیب الاداریہ، ۱/۳۴۸
۱۷- السیوطی ، جلال الدین ، حافظ ، الخصائص الکبریٰ، بیروت، لبنان، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، ۱۴۰۵ھ، ۲/۱۰۵
۱۸-ابن سعد، ابو عبداللہ محمد، الطبقات الکبریٰ، بیروت لبنان: دار صادر، ۱۹۶۸ء ۱/۲۹۸
۱۹- الفاکھی ، ابو عبداللہ، محمد بن اسحاق بن العباس، المکی، م : ۲۸۲ھ ، اخبار مکۃ فی قدیم الدھر و حدیثیہ، بیروت لبنان : دار خضر، ۱۴۱۴ھ، ۳/۱۳
۲۰- اسد سلیم، شیخ، رسو ل اللہ ﷺ کی خارجہ پالیسی ، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ص: ۵۴
۲۱- حمیداللہ ، ڈاکٹر، خطبات بہاولپور، ص : ۱۲۳
۲۲- حمیداللہ ، ڈاکٹر، مقالہ: رسول اکرم ﷺ بطور مفتن مشمولہ سیرت خیرالانام لاہور، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جامع پنجاب
۲۳-الحجرات:۱۳
۲۴- المائدہ: ۴۲
۲۵- Rashid Ahmad, Islam And Curent Issues, Lahore: Institute of Islamic center, P# 20
۲۶-معارف اسلامی، مدیر ڈاکٹر محمود الحسن بٹ، اسلام آباد: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، شمارہ نمبر۲، ۸/۱۰۹،دسمبر۲۰۰۸ء
۲۷- الصالحی ، سبل الہدیٰ والرشاد، ۱/۶۲۷
۲۸- ابو انیس ، محمد برکت علی ، مکشوفات منازل احسان، فیصل آباد کیمپ دارالاحسان پبلی کیشنز، ص:۱۸۷
۲۹- الصالحی ، سبل الہدیٰ والرشاد، ۱/۱۳۱
۳۰- الحشر:۷
۳۱- الصالحی ، سبل الہدیٰ والرشاد، ۱/۲۴۸
۳۲-A.J Toynbee, A Study of History Newyork Oxford University Press 1967, P # 67
۳۳-S.D Goitein , Minority Self Rule and Government Controle in Islam , Saudia Islamica, Vol:31, P # 109
۳۴-غازی ، محمود احمد ، ڈاکٹر، عصر حاضر اور شریعتِ اسلامی، اسلام آباد، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، ص : ۸۹
٭ زیر مطالعہ آرٹیکل میں تمام اسمائے رسول ﷺ حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف عالیہ ’’ اسماء النبی الکریم ﷺ ‘‘ سے ماخوذ ہیں-