دربار پر سناٹا طاری تھا- عرصہ بعد درباریوں نے ہرقل اعظم کو اتنے غصے اور جلال کی حالت میں دیکھا تھا-
’’ کیا روم کی مائوں نے بہادروں کو جنم دینا بند کر دیا ہے- عظیم روما کی سلطنت میں کوئی ایسا نہیں رہا جو اس آندھی کو لگام دے- کون ہیں یہ لوگ؟ مکہ کے بدو، جاہل، ان کی حقیقت ہی کیا ہے؟ کسی نے اب سے پہلے ان کا نام سنا تھا کیا؟‘‘ … غصے سے چنگھاڑتے ہوئے اس نے امرائے دربار پر نظر دوڑائی-
سب گردنیں جھکائے کھڑے تھے، شہنشاہ کے سامنے کسی کو دَم مارنے کی مجال نہیں تھی-
’’کاہنِ اعظم! تم بتائو! تم کیوں چپ ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟‘‘ عرب کے یہ خانہ بدوش اس قابل ہو گئے ہیں کہ روم کو للکاریں؟‘‘ اس نے کاہنِ اعظم کی آنکھوں میں براہِ راست جھانکتے ہوئے پوچھا-
’’ ظلِ الٰہی! جان کی امان پائوں تو عرض کروں…‘‘ کاہنِ اعظم نے بادشاہ کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا-
’’ہاں! ہاں! کہو! تم کیا نئی بات بتائو گے ان کے متعلق؟‘‘ ہرقلِ اعظم نے طنزیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا-
’’ اب یہ لوگ بدو اور وحشی نہیں رہے ظلِ سبحانی! ان کے بادشاہ نے جو ان کی طرح بوریا نشین ہے- کسی تاج و تخت کا روا دار نہیں انہیں بہت مہذب بنا دیا ہے، اب وہ منظم ہو گئے ہیں… اگلے ہی روز ایک تجارتی قافلہ جو ادھر سے واپس آیا ہے وہ تو بہت عجیب و غریب کہانیاں سنا رہے تھے ان کے متعلق… ہرقل اعظم! اب وہ پہلے والے عرب بدو نہیں رہے- ان کے نبی ؐ جس مذہب کے پیروکار ہیں وہ تیزی سے پھیل رہا ہے، تجارتی قافلے جو عرب جاتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگ ان کے اخلاق و کردار سے متأثر ہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں-
’’ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘ غصے سے ہرقل اعظم نے اس کی طرف دیکھا-
’’ بادشاہ سلامت! مَیں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ اس سمت سے ایک طوفان اٹھے گا جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا… مجھے تو لگتا ہے وہ وقت آگیا ہے…‘‘ کاہن نے بغیر کسی خوف کے کہہ دیا-
’’ ایسا کبھی نہیں ہو گا… عظیم روما کی سلطنت کو کبھی زوال نہیں آئے گا… کبھی نہیں…‘‘ اس نے کاہن کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو کاہن کے بدن پر بھی لرزہ طاری ہو گیا-
’’ بالکل بجا فرمایا ظل الٰہی! خداوند لات و منات آپ کا اقبال بلندرکھیں… سلطنت کے خدمت گار کی حیثیت سے میرا فرض تھا کہ اطلاعات آپ تک منتقل کرتا-‘‘ اس نے پیش بندی کی-
’’ ٹھیک ہے… اب کچھ کرنا ہی پڑے گا، قبل اس کے کہ وہ ہماری طرف بڑھیں ہم خود آگے بڑھ کر انہیں نیست و نابود کر دیں گے…‘‘ یہ کہتے ہوئے ہر قل اعظم نے پلٹ کر اپنے جرنیل مالک بن زافلہ کی طرف دیکھا-
’’ظل الٰہی! ابھی عرب کی مائوں نے وہ بچے نہیں جنم دیئے جو میری تلوار کی کاٹ کے سامنے ٹھہرسکیں ‘‘- مالک بن زافلہ نے مؤدب ہو کر کہا-
’’ ٹھیک ہے فوراً لشکر جرار لے کر ان کی سرکوبی کو نکلو- اور ہاں ! عرب کے وہ قبائل جو تمہاری دسترس میں ہیں انہیں ضرور اس لشکر کا حصہ بنانا…‘‘ ہرقل اعظم نے حکم دیا-
’’جی ظلِ سبحانی…‘‘ مالک بن زافلہ نے کہا-
اگلے روز لشکر کی تیاری شروع ہو گئی… روم کے اسلحہ خانوں میں تلواریں اور نیزے ڈھلنے لگے اور دنوں میں یہ لشکر جرار منزلیں مارتا شام جا پہنچا جہاں مزید ایک لاکھ قبائلی فوج پہلے سے ملنے والے احکامات کے تابع ان کی منتظر تھی…
مالک بن زافلہ کے روم سے آنے والے سوار تھکے ہوئے تھے لیکن کیا مجال جو کسی کی دم مارنے کی مجال ہو سب جانتے تھے کہ مالک بن زافلہ کو جیسے نیند اور آرام سے تو کچھ لینا دینا ہی نہیں- انہوں نے بمشکل گھوڑوں کی پیٹھ سے اترکر اپنی کمر سیدھی کی تھی، گھوڑوں کو تازہ دم کیا تھا کہ اگلے پڑائو کی طرف روانگی کا حکم ملا، مالک بن زافلہ بڑا آزمودہ کار جرنیل تھا، میدان جنگ کا انتخاب وہ ہمیشہ خود کرتا تھا، یہی اس کی کامیابی کا سنہری اور پوشیدہ راز بھی تھا، اب بھی اس نے اس علاقے کی جغرافیائی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ’’بلقاء‘‘ کو اپنا مرکز بنایا اور قریباً ڈیڑھ دو لاکھ فوج کواس میدانی اور پہاڑی علاقے میں اس طرح صف آراء کیا کہ حملہ آور فوج کے لیے بظاہرکوئی جنگی چال محفوظ نہیں چھوڑی تھی-
لشکر کے میمنہ اور میسرہ پر شام اور روم کے آزمودہ ’’ناہئس‘‘ موجود تھے- سر سے پائوں تک لوہے میں لپٹے ان آہن پوشوں کی زندگی کا مقصد ہی عظیم سلطنت روما کی عظمت کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنا تھا، ان کے گھوڑے خصوصی عربی النسل اور اور جنگی ماحول سے ان ہی کی طرح آشنا تھے- آہن پوش ایک ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے میں مضبوط لوہے کی ڈھال پکڑ کر آندھی اور طوفان کی رفتار سے اپنے گھوڑے دوڑاتے مخالف فوج کے میمنہ اور میسرہ کو کاٹتے چلے جاتے تھے جبکہ قلب لشکر میں رتھ بردار آزمودہ کار رومیوں کی فوج ظفر موج پرے باندھ کر مالک بن نافلہ کی کمان میں حملہ آورہوتی اور چند گھنٹوں ہی میں مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگاتی چل جاتی-
اب مالک بن نافلہ کو مسلمان لشکر کا انتظار تھا، اس کے یہاں سے مکہ تک پھیلے نظام جاسوسی کے اہلکاروں نے انہیں باخبر کر دیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس مرتبہ جدید جنگی حکمت عملی اپنائی ہے اور حضرت زید بن حارث ؓ کی کمان میں مسلمان ان پر حملہ آورہونے کے لیے روانگی کی تیاریاں کررہے ہیں-
مالک بن نافلہ نے اس خبر پر زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا-
’’چلو اچھاہوا شکار خود شکاری کے جال میں پھنسنے آرہا ہے ہمارا کام آسان ہو گیا…‘‘
٭٭٭
آقائے نامدار سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ میں سال ہشتم ہجری کے ماہ ذوالحجہ سے لے کر جس میں مشرکین عرب حج وزیارت خانہ کعبہ کے لیے مکہ میں جمع ہوئے تھے- ماہ جمادی الاوّل تک قیام فرمانے کے بعد مدینہ تشریف لے آئے تھے کیونکہ آپﷺ کو دُشمنانِ اسلام کے اجتماع اور شام کے سرحدی علاقوں میں جمع ہونے کے بعد مسلمانوں پر یلغار کرنے کی اطلاعات مل چکی تھیں- سید کائنات ﷺ نے تین ہزار مجاہدین کا لشکر تیار کیا اور اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہؓ کو ان پر کمانڈر مقرر کرنے کے بعد فرمایا اگر زید بن حارثہ ؓ شہادت سے سرفراز ہوں تو لشکر کی کمان حضرت جعفر بن ابو طالبؓ فرمائیں گے اگر آپ بھی فضیلت مآب ہو گئے تو کمان عبد اللہ بن رواحہؓ کو سونپی جائے-
واقدی لکھتے ہیں کہ ان سے ربیعہ بن عثمان نے عمر و بن حکم اور ان کے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ جب سرکار دو عالم ﷺ لشکر اسلام کی تیاری سے متعلق ہدایات فرما رہے تھے تووہاں نعمان ابن محض یہودی سردار موجود تھاجو ایک وفد کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا تھاجب اس تک آپ کے احکامات عالیہ کی تفصیل پہنچی جس میں آپ نے یکے بعد دیگرے تین صحابہ کرام ؓ کو ایک دوسرے کی متبادل کمانڈر مقرر کرنے کی ہدایت کے ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر عبد اللہ بن رواحہ ؓ بھی شہید ہو جائیں تو لشکر کو نیا کمانڈر مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے- جن کے لیے اتفاق رائے بہر حال شرط ہو گا-
نعمان ابن محض نے یہ سن کر آپ ﷺ سے عرض کیا-
’’ بنی اسرائیل کے انبیاء اپنے لشکریوں کو بالکل اس طرح کے احکامات جاری کیا کرتے تھے اور اب تک آپﷺ کے بارے میں جو کچھ مَیں نے سنا اس کی تصدیق ہو جائے گی اگر زید بن حارثہؓ ناکام ہو کر واپس نہ لوٹے بلکہ آپ کے حکم کی اطاعت میں انبیائے بنی اسرائیل کے تابعین کی طرح دشمن کا حتی الامکان مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے کر آپ ؐ کی نبوت کی صداقت کا ثبوت دیں گے-‘‘
واقدی لکھتا ہے:زید بن حارثہؓ اس موقعہ پر سرکارِ دو عالمﷺ کی خدمت میں موجود تھے، فرمایا:
’’ مَیں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ؐ کے حکم کی اطاعت میں جان کی بازی لگا کر اس مہم کو سر کروں گا اگر اس راستے میں شہادت آجائے تو واللہ ! مجھے مقصد حیات مل گیا اور میری شہادت نبی کریم ؐ کی صداقت نبوت کی دلیل ہو گی-‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکر کی منزل ’’موتہ‘‘ متعین کی تھی- ماہرین حرب و ضرب جب اس دور کی جنگی حکمتِ عملی کا جائزہ لیتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ آپ ؐ کی طرف سے صرف اس ایک حکم نے دشمنان اسلام کی جنگی چال کو پلٹ کررکھ دیا تھا اس دور کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو ’’بلقا‘‘ میں صف آرا رومی لشکر کے سامنے واحد رکاوٹ صرف ’’موتہ‘‘ ہی تھی- جسے اس لحاظ سے سٹرٹیجک پوائنٹ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں سے لشکر اسلام جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا تھا-
لشکر اسلام کی روانگی کا منظر قابل دید تھا مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مدینہ کے باہر تک پیدل چل کر تشریف لائے-باقاعدہ دعا کے بعد لشکر اسلام کو فتح کی خوشخبری دی- تینوں سپہ سالاروں سے معانقہ فرمایا اور دعائوں کے ساتھ لشکر کو رخصت کیا- یہ پہلا وہ اسلامی لشکر تھا جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو روانہ کیا گیا تھا، وہی خالد بن ولید جنہوں نے جنگِ احد میں مسلمانوں کی فتح کو شکست میں بدل دیا تھا- اہل قریش کا یہ جید جرنیل حلقہ بگوش اسلام ہوا تو ایک سپاہی کی حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خدمت گار بنا اور ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اس راستے میں شہادت ان کا مقدر بنے لیکن اللہ کی اس تلوار کو اللہ کب اپنے انسانوں کے ہاتھوں ٹوٹنے دیتے-
٭٭٭
دم رخصت حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ آقا علیہ السلام سے جدائی کے غم میں اشکبار تھے اور کہتے جاتے تھے-
’’ اے اللہ میں تیری مغفرت کا طالب ہوں- چاہتا ہوں کہ سرخروہو کر تیرے حضور پیش ہو جائوں…‘‘
حضرت زید بن حارثہؓ کی کمان میں مجاہدینِ اسلام کا یہ لشکر اللہ کی بزرگی اسلام کے دینِ مبین اور آقائے نامدار ؐ کے ختم رسل ہونے کی گواہی دیتا ایک سرشاری کے عالم میں ’’موتہ‘‘ تک پہنچ گیا- یہاں پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی- حضرت زید بن حارثہؓ نے دیگر کمانڈروں کی مشاورت سے لشکر کو ترتیب دیا اور ایسی پوزیشن اختیار کی کہ اگر دشمن شب خون بھی مارتا تو وہ مجاہدینِ اسلام کو اپنے سامنے مقابلے کے لیے تیار موجود پاتا-
مالک بن زافلہ کو جب مسلمانوں کی تعداد اور طاقت کا علم ہوا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کا مذاق اڑاتا رہا کہ یہ لوگ اتنی دور سے تکلیف دہ سفر کے بعد ان کے ہاتھوں مرنے کے لیے یہاں آگئے ہیں جب کہ وہ یہ کام وہاں مدینہ اور مکہ میں کرنے جا رہے تھے-
صبح دم بعد از نماز جب عبد اللہ بن رواحہؓ نے جو مسلمانوں کے ہر اول کی کمان کر رہے تھے- اپنے سامنے اہم پوزیشنوں پر مورچہ زن لاکھوں کی تعداد میں رومی لشکر ان کے زرق برق لباس اور سامان آتش و آہن کو دیکھا تو ایک لمحے کو اپنی قلت اور دشمن کی کثرت کی فکر دامن گیر ہوئی- اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹے اور کہا-
’’ کیا ہی اچھا ہو اگر کچھ سوار مدینہ واپس جائیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ ٖسلم کو رومیوں کے لشکر جرار کی خبر کریں-‘‘
صحابہ ؓ نے اس پر خاموشی اختیار کی پھر ایک جید انصاری نے کہا…
’’ اللہ کی قسم جس کے قبضے میں ہماری جان ہے ہم آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کو اپنی جان سے قیمتی جانتے ہیں- ہمارا ایمان ہے ہمیں فتح ہو گی کیونکہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کوئی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا- اگر فتح ہوگئی تو اللہ کا شکر بجا لائیں گے اگر شہادت ہی ہمارا مقدر ہے تو اس سے بڑھ کر دوسری سعادت اور کیا ہو سکتی ہے-‘‘
رومیوں کا لشکر اتنا بڑا تھا کہ جہاں تک انسانی نظر کام کرتی ہر طرف آہن پوش لشکری اور سامان حرب و ضرب دکھائی دیتا- کسی نے لشکر میں شامل معروف صحابی حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا : ’’آپ نے اس سے پہلے کبھی اتنا بڑا لشکر دیکھا ہے؟‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا - ’’مَیں نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی جب مشرکین مکہ ہم سے تعداد میں کئی گنا زیادہ تھے لیکن اتنا بڑا لشکر ہمارے ساتھ پہلے کبھی مقابل نہیں ہوا جتنا آج دیکھ رہا ہوں… اگر تم بدر میں ہمارے ساتھ ہوتے تو جان لیتے کہ ہم دشمن کی کثرت تعداد کو کبھی خاطر میں نہیں لائے‘‘-
حضرت زید بن حارثہؓ نے اللہ کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے لشکر کو بلقاء کے نزدیک ’’شارف‘‘ کے بالکل سامنے ترتیب دیا- میسرہ پر انصار کے جید جرنیل عبید بن مالک ؓ تھے- میمنہ پر بنی عزرہ کے قطبہؓ نے کمان سنبھالی جن کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ اور ان کے جانثار ساتھی حملہ آور ہونے کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے- قلب لشکر میں حضرت زید بن حارثہ ؓ عَلم تھامے سب سے آگے ان کے پیچھے حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت جعفر بن ابو طالبؓ اس طرح صف بندی کر رہے تھے کہ ایک کے بعد دوسرا اس کی جگہ لے سکے-
حملے کا آغاز قلب لشکر اور میمنہ سے مسلمانوں نے کر کے رومی لشکر کو ایسا ’’سرپرائز‘‘ دیا جس کی وہ کبھی توقع نہیں کر سکتے تھے، میمنہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنی شمشیر تابدار سے کشتوں کے پشتے لگاتے رومی لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے جنگی ترتیب کے مطابق اپنے سالارِ اعلیٰ حضرت زید بن حارثہؓ کی مدد کو قلب کی طرف سمٹ رہے تھے کہ حضرت زید بن حارثہؓ جو رومی لشکر کو کاٹتے مالک بن رافلہ کے بالکل نزدیک پہنچ چکے تھے جب اس نے چیخ و پکار کر کے اپنے ساتھیوں کو للکارا اور درجنوں نیزہ بردار آپ ؓ پر حملہ آور ہوئے جان فروشی کی عظیم روایت قائم کرتے آپ نے جام شہادت دشمن لشکر کے بالکل قلب میں پہنچ کر نوش کیا- جس کے ساتھ ہی حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے عَلم تھام لیا اور بلند آواز میں اللہ کی عظمت کا اعلان کرتے دشمن پر حملہ آور ہوئے- آپ کے دائیں بائیں حضرت خالد بن ولیدؓ اور انصار صحابہ موجود تھے- جنہوں نے آپ کو اپنے قلب میں لیا ہوا تھا اور بڑھ بڑھ کر رومیوں پر حملہ کررہے تھے-
خدا جانے ان عربی تلواروں میں کیا بجلی بھری تھی کہ رومیوں کو ان کے آہن پوش لباس سمیت کاٹتی چلی جاتی تھیں، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اس دلیری سے لڑے کہ رومیوں پر دہشت طاری ہو گئی- ان کے لشکر کے ساتھ موجود مغنیائیں اونچی آواز میں ’’رجز‘‘ پڑھ کر انہیں جوش دلاتیں ان کی غیرت کو للکارتی اور انہیں طعنہ دے رہی تھیں کہ تم ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ان مٹھی بھر مسلمانوں کو ختم کیوں نہیں کر دیتے-
عبد اللہ بن رواحہؓ نے جذبہ شوق شہادت سے مکمل ایمانی شدت کے ساتھ ہرقل کے لشکر کے نیزہ براداروں پر حملہ کیا جو رومی لشکر کے سب سے بڑے سورما سمجھے جاتے تھے- عبد اللہ بن رواحہؓ عربی اشعار پڑھتے انہیں دین اسلام اور اپنے نبی کریم ؐ کی عظمت اور نبوت پر گواہی دینے قلب لشکر میں موجود تھے- جب مالک بن نافلہ کے خصوصی دستے کے سینکڑوں نیزہ برداروں نے آپ پر حملہ کیا اور آپ جام شہادت نوش کر گئے-
اب عَلم اسلام حضرت جعفر بن طالب ؓ کے ہاتھ میں تھا، سیدنا علیؓ کے برادر اکبر اس ہاشمی سردار نے اپنے حملوں سے رومیوں کو لرزا کر رکھ دیا-
آپ عَلم کو سینے اور پیٹ پر باندھے دائیں ہاتھ سے تلوار پکڑے رومیوں پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ ان کی صفیں پلٹ کر رکھ دیتے- ایک زخم لگتا کچھ سنبھلتے پھر حملہ کرتے، پھر زخم لگتا سنبھلتے اور پلٹ کر حملہ آور ہوتے- راوی بیان کرتے ہیں کہ جب جام شہادت نوش کیا تو آپ کے جسم اطہر پر تلواروں اور نیزوں کے اَسّی نشانات موجود تھے- رجز یہ اشعار پڑھتے آپ جھپٹتے، پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے- آپ کے حملوں نے دشمن پر ہیبت طاری کر دی-
آپ شہید ہوئے تو بنی عجلان کے جانباز جو آپ کے دائیں بائیں موجود تھے،ان میں سے حضرت ثابت بن اقرامؓ نے عَلم تھام لیا اور بآواز بلند پکارے-
’’مسلمانو! اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے مطابق جسے چاہو اپنا سردار مقرر کر لو…‘‘
٭٭٭
یہی وہ معرکہ تھا جس کے پل پل کی خبر رسولِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے جانثاروں کو مدینہ طیّبہ میں کھڑے ارشاد فرمارہے تھے کہ:
’’اب زید بن حارثہؓ جامِ شہادت نوش کر چکے..... اب علم عبداللہ بن رواحہؓ کے پاس ہے ..... اب میرا یہ عاشق بھی بحضورِ پروردگار پہنچا ..... اب علَم جعفر ؓبن ابی طالب کے ہاتھ ہے ..... اب میرا یہ عاشق بھی مئے شہادت سے مخمور ہوا ..... ..... .....
مجمعِ عُشّاق بیتابی سے فرمانِ مُصطفیٰ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کا منتظر ہے کہ ’’خُدایا ! کون خوش نصیب ہے جسے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنا سالار مقرر کرتے ہیں ؟ ‘‘ہر نظر چہرۂ مُصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پہ ہے ، آنکھیں زیارت سے پُرنُور ، قلب رفاقت سے معمور جبکہ کان ارشاد اور نویدِ فتح سُننے کے منتظر !
اتنے میں منبعِ لطافت ’’پتلی پتلی گُلِ قُدس کی پتیاں‘‘ یعنی والیٔ کون و مکان کے لبِ اَقدس جُنبش فرماتے ہیں ..... عُشّاق کی نگاہیں ادب سے جھُک جاتی ہیں ، آوازیں تھم جاتی ہیں ، محفل میں صرف سانسوں اور دھڑکنوں کی آواز رِہ جاتی ہے ..... ارشاد ہوتا ہے:
’’جانتے ہو اب عَلَم کس نے تھام لیا ؟‘‘
عرض کرتے ہیں : {اللہ و رسولہٗ اعلم} ’’اللہ جل شانہٗ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بہتر جانتے ہیں ‘‘- ’’ہمارے ماں باپ آپ پر قُربان ..... یارسول اللہ صلی اللہ علیک و بارک وسلم ! آپ ارشاد فرمائیے !‘‘
فرمایا: ’’{سیف من سیوف اللّٰہ} اللہ کی تلواروں سے ایک تلوار ‘‘..... (جِسے کوئی توڑ نہیں سکے گا )-
جس کے مُقدّر میں ایک شکست بھی نہیں لکھی گئی ..... جس کے عمامہ کی تہوں میں کالی کملی والے کے ’’موئے مبارک ‘‘ضمانتِ فتح کے طور پہ موجود ہوں گے..... جس کی شمشیرِ جہانگیر و جہاندار جبر و استبداد کی حاکمیّتوں کو توڑ کر رکھ دے گی ..... جس کے قدموں میں ہیبتِ کسریٰ پامال ہوگی ..... جس کی للکار قیصر و کسریٰ کے محلّات کو لرزہ بر اَندام کر دے گی ..... جس کا نام رہتی دُنیا تک فتحِ اِسلام کا استعارہ بن جائے گا .....
٭٭٭
ہے فکر مجھے مصرعۂ ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تُجھ کو عطا فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن
یا خالدِجانباز ہے یا حیدرِکرّار
٭٭٭
دوران جنگ مشاورت سے صحابہ کرامؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ اعزاز بخشا- آپ نے اس سے پہلے کبھی اسلامی لشکر کی کمانڈ نہیں کی تھی، پہلے انکساری کا مظاہرہ کیا اور فرمایا : ’’میں آپ کے سپاہی کی حیثیت سے شہادت کو اپنے لیے زیادہ بڑا اعزاز جانتا ہوں ‘‘-
لیکن کچھ صحابہؓ نے جو ان کی شجاعت اور دلیرانہ خاصیت کا ادراک رکھتے تھے اصرار کیا اور آپ کو اسلامی لشکر کا کمانڈر بننے پر آمادہ کر لیا-
حضرت خالد بن ولید ؓ کے کمان سنبھالتے ہی جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا- آپ نے میمنہ اور میسرہ کو دوبارہ ترتیب دیا، ایک مخصوص مقام پر کچھ تیر اندازوں کو خصوصی ہدایات کے ساتھ تیر برسانے کی ہدایت کی اور خود گھوڑے کو بھگاتے مالک بن نافلہ کے بالکل سامنے پہنچ گئے، یہاں تک پہنچنے سے پہلے آپ نے رومی لشکر کے کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے، مالک بن نافلہ کو آپ کی لڑائی کے انداز سے آپ کی پوشیدہ صلاحیتوں کا احساس ہو گیا تھا وہ اپنے خصوصی نائٹس کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوا، آہن پوش نیزہ بردار دیوار کی طرح آپ کی طرف بڑھتے آپ دیوار میں شگاف ڈالتے تو اس کے پیچھے دوسری دیوار موجود ہوتی-
اس قریشی سالار نے ایسی کئی دیواریں کاٹ کرمالک بن نافلہ تک رسائی حاصل کی اور اسے للکارا کہ
’’اگر کسی بہادر ماں کے جنے ہوتو مقابلہ کرو…‘‘
مالک بن نافلہ قہر و غضب کی تصویر بنا آپ پر حملہ آور ہوا، درجنوں رومی آہن پوش اس کے دائیں بائیں موجود تھے، چند منٹ کی لڑائی میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے تلوار کے ایک وار سے اس کی گردن زمین بوس کر دی جس کے ساتھ ہی رومی عَلم گر پڑا اور رومیوں پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ انہوں نے پھر واپس پلٹ کر نہیں دیکھا-
حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سجدہ شکر بجا لائے، غنیمت اکٹھی کی گئی اور فاتح اسلامی لشکر اپنے کمانڈر سیّدنا حضرت خالد بن ولیدؓ کی کمان میں مدینہ واپس لوٹا-
والی ئِ کون و مکان نے جب اپنے اِس جانباز کو دیکھا تو گُلِ قُدس کی پتیوں پہ تبسُّم سا پھیل گیا - ارشاد ہوا :
’’{سیف من سیوف اللّٰہ} اللہ کی تلواروں سے ایک تلوار‘‘ ..... (جِسے کوئی توڑ نہ سکا)-