رُوحانی ارتقاء کے کیریئر میں حال اور مقام کے کوائف جاننا بہت ضروری ہے بندۂ خدا کو اپنے سلوک (باطنی سفر)میں لازماً ان سے سابقہ پڑتا ہے اور اگر ان کے بارے میں اُسے ابتدائی معلومات حاصل نہ ہوں تو راہ میں اس کے لڑ کھڑانے اور بعض اوقات بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں اسی لئے ولایت مکاشفات و اسرار کے امام شیخ الاکبر ابن العربی نے حال اور مقام کے اثرات سے خاص طور پر اہلِ سلوک کو آگاہ کیا ہے اور ان کی اصلیت کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے-
حال(جمع احوال) :
حال کہتے ہیں حالت، کیفیت اور ذہنی و رُوحانی ماحوال کے کسی مُوڈ کو جس سے رُوحانی سفر کرنے والوں کو واسطہ پڑتا ہے - ذہنی و رُوحانی فضل میں حال کی آمد وہبی ہوتی ہے یعنی اسے ایک لحاظ سے عطا کہا جاسکتا ہے کسی بھی موجود صورتِ حال کے لحاظ سے اس کی شدت اور وقت کے لحاظ سے اس کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا اس لیے اگر چہ احوال بر حق ہیں مگر حضرت شیخ الاکبررحمۃ اللہ علیہ انہیں بعض اوقات تغیر و تلوّن اور نابالغی کی نشانی بھی کہہ دیتے ہیں لیکن وہ سمجھانے کے لئے یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ صوفیاء ان احوال و مقامات سے ہر گز مبراء نہیں ہوتے ، وہ ایک حال سے دوسرے حال میں اور ایک مقام سے دوسرے مقام میں مشکل ہوتے رہتے ہیں یوں دیکھیں تو کئی احوال ہیں اور کئی مقامات و منازل -
احوال مائل بہ تغیر رہتے ہیں اور جب ان میں کسی طور پر کسی اقتضاء کے سبب شدت آتی ہے تو پھر یہ ایک سالک کے لئے آزمائش بھی بن جاتے ہیں اس موقع پر یہ احوال اپنی اصل میں وہبی اور عطائے الٰہی ہونے کے باوجود سالک کو ایک امتحان میں مبتلا کردیتے ہیں -
حال تابع قانون:
حال کا میلان آزادی کی طرف ہوتا ہے ، حال کا تعلق چونکہ جذبے سے ہے اس لئے اس میں کہیں شدت پیدا ہوتی ہے تو تعلقات و معاملات کے خواتین اور معاشرتی ضوابط ٹوٹنے لگتے ہیں اب یہاں سالک کو صرف قانون کی پاسداری بچا سکتی ہے بندۂ خدا کے حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ حال بھی اللہ کی طرف سے ہے اور قانون بھی اللہ کا ہے اس لئے قانون کی متابعت ہی شدت کے سامنے مانع ہوسکتی ہے-
اللہ نے قانون کا میزان عطا کر دیا ہے اس لئے جو اس میزان کو قائم رکھیں گے وہ ضرور محفوظ رہیں گے ورنہ خطرات بے حد ہیں -
اخلاقی لحاظ سے ضبط نفس کی افادیت کو ہر شخص جانتا ہے مگر حال میں جذب مشتعل ہوتا ہے تو ضبط کے بندھن بھی ڈھیلے پڑتے نظر آتے ہیں حتیٰ کہ جنون کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ایسے میں اگر آدمی کچھ کرتا ہے تو وہ مرفوع القلم ہے یعنی نہ اس سے باز پر س ہی ہوتی ہے اور نہ سزا ملتی ہے مگر اس نوبت پر پہنچ کر رُوحانی طور پریشان ضرور ہوجاتا ہے-
مزید خطرات:
شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہاں روحانی احوال اور ان کے ساتھ واردات اور خیالات لاز م اور بابرکت ہیں وہاں یہ طریق میں بندۂ خدا کے لئے بہت بڑا حجاب بھی ہیں-
نفسیاتی نکتہ ٔ نظر سے دیکھیں تو پھر بات وہی ہے کہ حال چونکہ ایک جذبہ ہے اس لیے خدانخواستہ اگر وہ یک رُخا ہوجائے تو حقیقت کو سالک صحیح دیکھ نہیں پاتا اور اُس کا یہی حال حجاب بن کر رہ جاتا ہے-احوال میں بہت سے معاملات در انداز ہوتے ہیں مثلاً ان احوال کے ساتھ جب ہمت شامل ہوجاتی ہے تو خرقِ عادت کام ممکن ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات صرف حال کی برکت سے کرامات ظاہر ہونے لگتی ہیں اگر کے ساتھ قدرے تکبر کا وہم آجائے تو پھر رجعت اور ہلاکت تک بات پہنچ سکتی ہے-
اسی طرح حال میں اگر کوئی خواہش در آتی ہے تو پھر فطری طور پر ’’ مکر ‘‘ بروئے کار آجاتا ہے آدمی سمجھتا ہے ، مَیں ٹھیک جارہاہوں ، کرامات بھی ہو رہی ہیں اور خود بھی اپنی سطح سے بلند ہورہا ہوں اور اردگرد کچھ لوگ جو احترام کا سلوک کر رہے ہوتے ہیں ، اُنہیں وہ اپنی برتر کیفیت کا گواہ سمجھنے لگتا ہے ، نتیجتاً ’’ مکر‘‘ اُسے وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں پہ گِر کر اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے -اِسی مکر کی کارستانیوں میں سالک کو قول و فعل میں اپنی بَڑ کو جائز ثابت کرنے کیلئے کسی بھی ایسے ویسے کام میں تاویل کی سوجھتی ہے ، حضرت شیخ الاکبر کے نزدیک ایسے مواقع پر تاویل سے زیادہ ضرر رساں اور کوئی امر نہیں - اکثر اہلِ نقص یہی کرتے ہیں ، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ شرو ع سے رہنمائی حاصل کرتے مگر وہ حال کے زیرِ اثر رُ و پذیر ہونے والے اپنے اعمال کی تاویلات کی وجہ سے اپنی بے راہروی میں بڑھے چلے جاتے ہیں- ایسے مواقع آئیں تو صاحبِ حال سالک کو اپنے امور اپنے علم کے حوالے کر دینے چاہیئں یہاں تو ہر طرف سے تنبیہ ہورہی ہوتی ہے کہ
؎آگاہ شو کہ قافلہ ناگاہ می زنند
(خبرداراس راستے پر قافلے اچانک لُوٹ لیے جاتے ہیں)
اللہ کا شکر ہے کہ طریقت میں صراط مستقیم پر قائم رکھنے کیلئے شرعی ہدایت موجود ہے سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے-
پیشوائے خود شریعت ساختم
ہر حقیقت از محمد ؐ یافتم
(میں نے شریعت کو اپنا رہنما بنایا اور ہر حقیقت محمد رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے مجھ پر ظاہر ہوئی)
مقام (جمع مقامات):
فرمایا گیا ہے کہ حال پائیدار نہیں لیکن مقام مستقل ہوتا ہے یعنی یہی حال جب راسخ اور پختہ ہوجائے اور اس کے غاء ہونے کا امکان نہ رہے تو مقام بن جاتا ہے - اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جہاں حال عطا ہے لیکن آنے جانے والی کیفیت ہے وہاں مقام کَسبی (علم ، ہدایت اور ریاضت کے ذریعہ حاصل کردہ)ہے لیکن مستقل ہے-مستقل ہونے کا یہ مطلب ہثیں کہ جب بندہ آگے کسی مقام کی طرف بڑھ جاتا ہے تو پہلا مقام اس سے چھوٹ جاتا ہے ، نہیں وہ مقام اُس کا اس کیلئے وہیں رہتا ہے ،صرف وہ اگلے مقام پر منتقل ہوجاتا ہے-
مقام کا پھر اپنا حال ہوتا ہے مگر صاحبِ مقام اس حال کو بروئے کار لانے اور اس کے ذریعہ سے تصرف کرنے کیلئے اپنے مقام سے نیچے آتا ہے اور پھر اس سے نتیجہ حاصل کرتا ہے - یہاں بھی قاعدیوہی ہیں جو محض حال کی بے راہروی سے بچنے کیلئے تھے مگر صاحبِ مقام کے قدم استقلال سے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور چونکہ وہ اپنے مقام پر صاحبِ علم و معرفت بھی ہوتا ہے اس لیے وہ عام طور ہر حال میں بے قابو نہیں ہوتا بلکہ حال کو اہنے قابو میں رکھتا ہے اور اگر خدانخواستہ وہ بھی کہیں پریشان ہونے لگے تو پھر مرشد کی دستگیری سے کسی بھی منفی رد عمل سے بچ بھی سکتا ہے-
مرشد کی دستگیری:
صرف احوال و مقامات کی بات نہیںبلکہ مکشوفات و اسار اور واردات و واقعات کے پیش آنے کی صورت میں ایک طالب یا مرید بہر طور مرشد کی ہدایت کا محتاج رہتا ہے -وہ لوگ جو کسی مرشد کو یا کسی صاحبِ مقام درویش کی ضرورت صرف مشاورت کی حد تک مانتے ہیں وہ ایک حد تک اُس سے فائدہ تو ضرور اٹھا سکتے ہیں مگر تکمیل کے درجہ تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ یہ مشورے یا ٹوٹکے کسی ایک مسئلے سے متعلق اور مخصوص ہوتے ہیں جبکہ روحانی ترقی کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہوتا ہے اس لئے ہمہ گیر روحانی ترقی ہنگامی سہاروں کے ذریعہ ممکن نہیں ہوپاتی-
بہر صورت جہاں تک احوال و مقاما ت کا تعلق ہے یہاں حال کی شدت جب کسی ظاہری و باطنی قاعدے قانون سے ٹکرانے لگے تو پھر کوئی پیر اُستاد اس طرح دستگیری کرتا ہے جیسے ایک ڈوبتے ہوئے شخص کو کوئی تیراک ڈوبنے سے بچا کر اسے کنارے پر لے آتا ہے-
مرشد وہ عالی مرتبت استاد و مربی ہوتا ہے جو تربیت کے سارے قاعدے اصول او رطور طریقے نہایت اچھی طرح سے جانتا ہے کیونکہ وہ ایک طریق سے وابستہ استاد کے زیر سایہ تربیت پاکر ایک مرتبے کو پہنچا ہوتا ہے وہ ایک ایسا ماہر نفسیات معلم ہوتا ہے جو انفرادی طور پر کسی بھی شعبۂ زندگی سے آنے والے شخص کو صحیح راہ دکھا سکتا ہے اور اس پہ چلا کر اسے خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار کرتا ہے-
وہ کتاب اور سنت کا عالم ہوتا ہے بلکہ فقہاو علمائِ دین میں استاد ہیں جبکہ صوفیا و فقراء دین کے شعبے میں طبیب اور حکیم ہیں اگر کوئی شخص قانون پر چلنے میں دِقت محسوس کرتا ہے ، غلط انداز میں چلتا ہے یا اس کی کوئی توضیح کر کے اپنے لئے کسی ناجائز بات کو جائز جانتا ہے تو پھر اس کے لیے کسی بوڑھے تجربہ کار، دانااستاد (مرشد) کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اسے اُس کی پریشان حالی سے نکال کر اطمینان کے کسی درجے تک پہنچا سکے-
حال اور مقام سے تصوف و فقر کی کوئی سطح بے واسطہ اور بے حاجت نہیں ہوتی انہی کے سہارے ایک سالک اپنا روحانی سفر طے کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ، سلوک کی نامعلوم دنیا میں حال بد حالی میں بدل سکتا ہے اور مقام کے حال کا کوئی میلان رجعت پر بھی منتج ہوسکتا ہے اس لیے یہاں بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی مرشد اپنے مرید کے حال کو بے راہرو نہ ہونے دے اور کہیں بھی کوئی ایسی صورت پیش نہ آئے کہ سالک قانون اور قاعدے اور احترام و عقیدت کے دائرے سے نکل کر انتشار کی نذر ہوجائے-
حال کی شدت میں ادب و احترام اور تہذیب و شائستگی کے قاعدوں کو بہت خطرہ لاحق ہوتا ہے صاحبِ حال جتنا بھی عام سطح سے اٹھ جائے مگر ادب کا لحاظ نہیں کرے گا تو اس کی ہلاکت کا سخت خطرہ ہے-
’’خواجہ بہائو الدین نقش بند رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک نیک اور پارسا نوجوان آیا ، حضرت خواجہ نے کسی خادم کو اُسے کھانے کیلئے کوئی چیز پیش کرنے کو کہا، اُس نے کہا مَیں روزے سے ہوں ، خواجہ نے فرمایا کہ مَیں تمہیں رمضان کے ایک روزے کا ثواب بخشتا ہوں مگر اُس نے باوجود اس کے کہ نفلی روزہ رکھا تھا ، نہ توڑا- آپ نے فرمایا: مَیں تمہیں پورے رمضان کے مہینے کا ثواب بخشتاہوں ، کھائو- اُس پر بھی وہ نہ مانا تو آپ نے چپکے سے کہا : بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی تمہارے جیسے ایک آدمی سے ایسا ہی سابقہ پڑا تھا -‘‘
بعد ازاں لوگوں نے دیکھا کہ وہ نوجوان فاسق ہوکر مرا-اب یہاں ادب کا تقاضا تھا کہ وی ایک مرشد کے کہنے پر روزہ توڑ دیتا مگر اُس نے ایسا نہ کیا اور ہلاک ہوگیا-
صاحبِ حال ہونا اچھی بات ہے مگر حال کے خطرات سے بچنا چاہیے اور اِن سے ادب ہی بچا سکتا ہے - شرعی قانون کا ادب، اخلاقی قوانین کا ادب، مرشد کا ادب اور حلقۂ درویشاں میں اخوان کے طور طریق کا ادب- لہٰذا ہر حال میں ہر مقام ہر ادب !
ورنہ تو وہی انجام ہوتا ہے:
کہاں کی شیخی اور کیسی بزرگی
مرا سب دعویٰ و پندار ٹوٹا