{اللّٰہ نو ر السموات ولارض {مثل نورہ} کمشکوٰۃ فیھا مصباح المصباح فی زجاجۃ} (۱)
’’ اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو اس میں چراغ ہو ، وہ چراغ شیشے کے ایک فانوس میں ہو-‘‘
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کیلئے ہیں جس نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بشیر و نذیر ، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجا اور آپ کو عظیم ہیبت و جلالت اور تمام رفعتیں اور تمام بلندیاں عطا فرمائیں-
آپ ﷺ کی ذات جن و اِنس ، بحر و بر ، شجر و حجر ، جمادات ، حیوانات ، نباتات تمام کیلئے رحمت ہے - آپ ﷺ کو بدرِ منیر بنا کر بھیجا اور کائنات کے گوشے گوشے میں آپ کا روشن اور دل و دماغ میں اتر جانے والا ذکر پھیلا یا اور آپ کے وجود مبارک سے یہ اجڑی ہوئی کائنات جس کے اندر انسانوں کی جگہ خون خوار درندے رہتے تھے محبت و اُلفت، رأف و رحمت نام کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی اور یہ ارضِ عظیم اپنی زبانِ حال سے بارگاہِ خداوندی میں یوں گویا ہوئی ! یاخالق ِارض و سما کرم فرما اور اس کائنات کو آباد کرنے والا بھیج جس کے ذریعے کائنات میں سے تاریکی ختم ہوجائے اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ روشن و تاباں ہوجائے -اللہ رب العزت نے اس کائنات پر کرم فرمایا اور وجودِ مصطفیٰ ﷺ سے اس کائنات کی تاریکی کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا ایسا وجود عطا فرمایا جو کائنات کی ظاہر و باطن کی تمام تر تاریکیوں کو ختم کرنے والا اورحیات بخش ہے-
تاریکی اندھیرا تو اُس کی ضد روشنی اجالا ہے ظلمت کی ضد نور ہے تو جتنی زیادہ تاریکی تھی ، ظلمت تھی تو اب اس کو روشن کرنے کیلئے اتنے زیادہ نور اور روشنی کی ضرورت تھی تو خالق ِلم یزل نے ایسا نور اور روشنی اس کائنات کو عطا کی کہ اب قیامت تک یہ کائنات من کل الوجوہ تاریک نہیں ہوسکتی-
نور کا معنی {ھو الظاہر الذی بہ کل ظہور}(۲)
’’نور وہ ہے جس سے ہر شے کا ظہور ہو- ‘‘
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور ہی سے کل کائنات ظاہر ہوئی - وجود ِعدم سے تو کوئی چیز تاریک تر نہیں نور ایسا وجود ہے کہ کل کائنات کو فیض پہنچاتا ہے اور یہ ذاتِ الٰہی کا نور ہے - نور کی چار قسمیں ہیں -
۱- جس سے آنکھوں کو اشیاء ظاہر ہوں لیکن وہ خود دیکھنے ولا نہیں جیسے سورج وغیرہ کا نور جس سے پوشیدہ اشیاء ظاہر ہوتی ہیں -
۲- آنکھ کا نور جس سے اشیاء کو آنکھیں دیکھتی ہیں-
۳- عقل کا نور یہ اشیاء معقولہ مخفیہ کو آنکھو ں کیلئے ظاہر کرتا ہے-
۴-نورِ حق یہ اشیاء مخفیہ کو ظاہر کرتا ہے - (۳)
سلطان المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس کا قول ہے-
{ان معناہ ھادی اہل السموات والارض فھم بنورہ یعنی بھدایتہ الی الحق یھتذرون و بھداہ من خیرۃ الضلالتی ینجون}(۴)
’’حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آسمان اور زمین والوں کا وہ ہادی ہے پس اسی کے نور ہدایت سے راہنمائی پاتے ہیں اور گمراہی کی حیرانی سے نجات پاتے ہیں-‘‘
{مثل نورہ} سے مراد حضور کا نورِ مقدس ہے - مصباح سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں -
{قال سعید بن جبیر و ضحات ھو محمد ﷺقال ابن عباس لکعب الاحبار اخبرنی عن قولہ تعالیٰ مثل نورہ کمشکوٰۃ قال کعب ھذا مثل ضرب اللہ منبیہ ﷺ فاالمشکوۃ صدرہ والزجاجۃ قلبہ والمصباح فیھا النبوۃ یکاد نور محمد وامرہ یتبین للناس ولو لم یتکلم انہ نبی}(۵)
’’حضرت ابن عباس نے کعب الاحبار سے مثل نورہ کمشکوٰۃ کے ارشاد کے متعلق پوچھا تو حضرت کعب نے فرمایا یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم کیلئے بیان فرمائی - مشکوٰۃ سے مراد نبی مکرم کا سینہ مبارک ہے اور زجاجۃ سے مراد آپ کا قلب منور ہے مصباح سے مراد نبوت ہے یعنی حضور اکرم ﷺ کا نور اور حضور ﷺ کی شان بلند خود بخود عیاں تھی اگرچہ آپ اعلانِ نبوت نہ بھی فرماتے جیسا کہ کتب احادیث میں مروی ہے -‘‘
{حدثنا مخدوم بن نبھانی لما ولد رسول اللّٰہ ارتجس ایوان وسقطت منہ اربع عشر شرفہ و حمدت نار فارس ولم تحمد قبل ذال بالف سنۃ}(۶)
’’حضرت مخدوم نبھانی فرماتے ہیں جب رسول اللہ کی ولادت ہوئی ایوانِ کسریٰ پر لرزہ طاری ہوگیا اور اس کے چودہ کنگرے گرے اور فارس کا آتش کدہ بجھ گیا جب کہ اس سے پہلے ایک ہزار سال گزر گیا تھا اس کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تھی -‘‘
{اخرج ابن عساکر ان با طالب حسین اقحط لواد استسقی ومعہ النبی وھو غلام کاخذ ا ابو طالب النبی والصق ظھرہ باالکعبۃ ولا ذی النبی باصبحہ وما فی السماء قبرعۃ فاقبل السحاب من ھٰھنا و اھٰھنا فاغرق واغرق والعجزاہ الوادی و فی ذالک ابو طالب شعر}
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الہتامی عصمۃ للاکرامل (۷)
’’ابن عساکر فرماتے ہیں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ابھی بچپن تھا علاقہ میں قحط پڑ گیا حضرت ابو طالب آپ ﷺ کو ساتھ لے کر حرم میں تشریف لائے اور آپ کو کعبہ کے ساتھ بٹھا دیا آپ کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور دعا مانگی اسی وقت آسمان پر کوئی بادل نہیں تھا ، دعا مانگنے کی دیر تھی کہ بادل ادھر ادھر سے ہجوم کر آئے اور موسلا دھار بارش برسی یہاں تک کہ وادیاں بہنے لگیں اس وقت حضرت ابو طالب نے یہ شعر پڑھا -
وہ سفید من بھائی رنگت والا جس کے روئے تاباں کے صدقے بادل کی آرزو کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ماویٰ اور بیوائوں کا ملجا ہے-‘‘
{ان حلیمۃ لما اخذتہ دخلت علی الاصنام فنکس الھیل راسۃ وکذا جمیع الاصنام من اماکنھا تعظیما لہ وجائت بہ الی الجحر الاسود لیقبلہ فخرج الحجر الاسود من مکانہ حتی التصق بوجہ الکریم ﷺ}(۸)
’’حضرت حلیمہ رضی اللہ عنھا جب آپ کو بت کدہ میں لے کر گئیں تو ھبل بت نے اپنا سر جھکا دیا اسی طرح تمام بتوں نے آپ کی تعظیم میں سر جھکا دیا ، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنھا آپ کو حجرِ اسود کے پاس لے گئیں تاکہ آپ اسے بوسہ دیں تو حجر اسود اپنی جگہ سے نکلا آپ کے چہرے کے قریب ہوگیا (تاکہ آپ بآسانی بوسہ دے دیں)-‘‘
تو آقا علیہ الصلوٰہ والسلام اعلانِ نبوت سے پہلے بھی تمام لوگوںپر عیاں تھے -
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں :
{قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول ان اللّٰہ عز وجل خلق ؒخلقہ فی ظلمۃ ثم القی علیھم من نوری یومئذ فمن اصابہ من نورہ یومئذ اھتدی ومن اخطا صل}(۹)
’’حضرت عبداللہ ابن عمرو فرماتے ہیں مَیں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا جس کو یہ نور ملا اس نے ہدایت پائی جس کو یہ نور نہیں ملا وہ گمراہ ہوا-‘‘
جس نور کے حصول پر انسان کی ہدایت کا مدار ہے اس نور کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ آدمی کیسے اس نور کو حاصل کرے گا؟
{طریق الاصاطق ان یقتبس ذلک النور فمن بعثہ اللہ رحمۃ اللعلمین و شرح صدرہ وملاء قلبہ نور ا وحمکۃ وایمانا و یجعل قلبہ مراۃ لقلبہ علیہ السلام فیتنور قلبہ بقدر القتباس والاقتفاء فمنھم من اکتسب صورۃ الایمان و نجی من الکفر فی الدنیا والنیران فی الاخرۃ و منھم من اکتسب حقیقۃ الایمان علی تفاوت الدرجات و منھم من لم یقبس اصلاًفاخطائہ النور و ضل}(۱۰)
’’اس نور کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اُس نور کو اُس ذاتِ کریمہ سے حاصل کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا اور جس کے دل کو نور حکمت و ایمان سے لبریز فرمایا - انسان ایسے دل کو قلب مصطفیٰ ﷺ کے سامنے آئینہ بنائے پس اس طرح انسان کا دل بقدر حصول فیض روشن ہوجائے گا - پس جس نے قلبِ مصطفیٰ ﷺ سے ایمان کی صورت میں اکتسابِ فیض کیا تو وہ دنیا میں کفر اور آخرت میں آگ کے عذاب سے نجات پاگیا اور جس نے فیضان قلبِ مصطفیٰ ﷺ سے کچھ حاصل نہ کیا پس وہ نور سے محروم رہا اور وہ گمراہ ہوگیا -‘‘
ہدایت کا مدار قلبِ مصطفیٰ ﷺ کا فیضان ہے اگر قلبِ مصطفیٰ ﷺ کا فیضان مل گیا تو ہدایت یافتہ ورنہ گمراہ-
قلبِ مصطفیٰ ﷺ کا فیضان کہاںسے نصیب ہوگا؟ حدیث مبارکہ میںہے کہ آقا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا :
{قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ان اللّٰہ انیۃ من اھل الارض وانیۃ ربکم قلوب عبادالصالحین}(۱۱)
’’آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کیلئے اہلِ زمین سے کچھ برتن ہیں اور تمہارے رب کے برتن اللہ پاک کے نیک بندوں کے دل ہیں-‘‘
اب قلب فیضانِ مصطفیٰ ﷺ کو حاصل کرنے کیلئے اس اللہ کے بندے کو تلاش کرنا ضروری ہے جن کا دل رب کا برتن ہے کیونکہ ان کے قلوب سے فیضانِ مصطفیٰ ﷺ نصیب ہوگا تو اب وہ اللہ کا بندہ جس کا دل اللہ کا برتن ہے تو اس بندۂ مومن تک پہنچنا ہدایت-تمام تر ظلم و جبر درندگی حیوانیت اور انسانیت سوز اعمال بے راہ روی اندھیرا ہیں - ہدایت ایمان ، محبت ہمدردی ، انسانیت سے پیار ، خلق خدا کی بھلائی یہ روشنی ہیں جب یہ نور مبارک عرب کی زمین پر ضوفشاں ہوا تو پہلے یہ تمام چیزیں موجود تھیں اور اس کے بعد یہ معاشرہ بدل گیا اور وہی معاشرہ ایسا سنورا سدھرا کہ پوری تاریخ میں اس کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی - موجودہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ معاشرہ میں امن اور خوبصورتی آئے تو امن اور خوبصورتی اچھی عمارتوں یا سڑکوں سے نہیں بلکہ اچھے اذہان اور پاکیزہ دلوں سے آئے گی تو دل اللہ پاک کے نور سے پاک ہوگا اور وہ نور بندۂ مومن سے نصیب ہوگا آئیں اور اُس نور کو تلاش کریں-
حوالہ جات:
(۱)(النور:۳۵) (۲) (الف) تاج العروس، (ب) لسان العرب،(ج) ا لمقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ جلد ۱ ص ۱۴۶، (د) تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی جلد ۱۷ ص ۴۶۹، (ہ) شرح سنن ترمذی جلد ۴ ص ۸۲، (و) مرعاۃ المفتاح لتبریزی، (ز) اعجاز البیان فی تفسیر ام القرآن جلد ۱ ص ۳۳۲، (ح) تفسیر روح البیان جلد ۹ ص ۱۳۵) (۳)(روح البیان سورۃ نور ص ۲۲۶) (۴)(الف) (تفسیر ابی سعود جلد ۶ ص ۱۷۵، (ب) تفسیر بغوی جلد ۶ ص ۴۵ ، (ج) تفسیر خازن جلد ۵ ص ۷۶، (د) تفسیر اہلباب لابن عادل جلد ۱ ص ۳۸۳۱، (ہ) تفسیر مراح لبید لکشف معنی القرآن المجید جلد دوم ص ۱۱۲) (۵)(تفسیر مظھری جلد ۶ ص ۵۲۵) (۶)(الف) (دلائل النبوۃ للبیھقی جلد ۱ ص ۵۴- (ب)دلائل النبوۃ للاصبحان جلد ۱ ص ۱۳۴- (ج) السیرت النبوی جلد ۱ ص ۱۲۳- (د)سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرت خیر العباد جلد ۱ ص ۴) (۷)(الف)(مختصر سیرت رسول جلد ۱ ، ص ۲۰- (ب)الخصائص الکبری جلد ۱ ص ۴۵ ، (ج)سبل الھدیٰ والرشاد فی سر خیبر العباد جلد دوم ص ۱۳۷) (۸)(تفسیر مظھری جلد ۶ ص ۵۲۸) (۹)(الف)(المسند الجامع جلد ۷ ص ۱۳، (ب)السنن الکبری الجامع الصحیح سنن ترمذی حدیث نمبر ۲۶۴۳، (ج)المستدرک علی الصحیحین جلد ۱ ص ۸۴، (د)تحفۃ الاحوذی جلد ۱۴ ص ۳۹۷، (ہ) فتح الباری لابن الحجر جلد ۶ ص ۳۵۹، (و) فیض القدیر للمناوی جلد ۹ ص ۱۱۷، (ز)کنز العمال حصہ ۲۴ ص ۱۳۶، (ح)فتح الباری شرح صحیح البخاری حصہ ۲۶ ص ۲۹۵) (۱۰)(تفسیر مظھہری جلد ۶ ص ۵۳۸) (۱۱)(الف)(الجامع الصغیر جلد ۱ ص ۳۶۵،(ب) الجامع الحدیث حدیث نمبر۸۲۳۳)