"کشف المحجوب" اور "عین الفقر"کا ایک مماثلاتی جائزہ

"کشف المحجوب" اور "عین الفقر"کا ایک مماثلاتی جائزہ

مصنف: ایس ایچ قادری دسمبر 2014

رُوحانیتِ اسلام ایک ایسی حقیقت ہے جو عہدِ رسالت میں غارِ حرا کی گوشۂ تنہائی میں سے ’’اقرأ‘‘ کا نور لے کر ’’دارِ ارقم‘‘ میں چند اصحاب میں خفیہ طور پر متعارف ہونے کے بعد ’’اصحابِ صفہ‘‘ کی صورت میں ایک منظم ادارہ بن کر باقاعدہ اکیڈمی (۱) کی صورت اختیار کر گئی- یہ الگ بات ہے کہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین میں سے کوئی بھی اپنے وقت کے عظیم صوفیاء ہونے کے باوجود لفظِ صوفی سے معروف نہیں ہوئے- یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیسے ان میں حافظ قرآن بھی تھے، مفسر قرآن، فقہ و حدیث اور قرأت کے امام بھی تھے لیکن ہم ان کے نام کے ساتھ حافظ، قاری، شیخ التفسیر، شیخ الحدیث، محدث، فقیہ یا مفتی کا لفظ عموماً استعمال نہیں کرتے بعینہ وہ عہدِ رسالت کے عظیم صوفیاء کرام ہونے کے باوجود صوفی نہیں کہلاتے- البتہ اللہ تعالیٰ نے لفظِ ’’ولی‘‘ قرآن پاک میں استعمال فرمایا ہے :

{ اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ} (۲)

 اُس وقت لفظِ’’اولیآء اللّٰہ‘‘ کے پہلے مخاطَب صحابہ کرام ہی تھے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پہلے ’’ولی‘‘ صحابہ کرام ہی تھے ان کے بعد تابعین پھر تبع تابعین- ان کے بعد صالحین کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ( واضح رہے کہ باعتبارِ فضیلت ، جو سلف صالحین نے بیان کی ، رُتبۂ صحابی رُتبۂ صُوفی سے بُلند تر ہے ) -

پہلی تین چار صدیوں میں تصوف، جو کہ زُہد و تقویٰ کے باعث معروف تھا، انتہائی عروج پر تھا اور ابتداء میں تو اسے قرآن و سنت سے الگ تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا لیکن تیسری صدی ہجری میں بتدریج خارجی عناصر اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے جس نے اسلامی تصوف و زُہد میں اثر نفوذ پیدا کرکے اسلام کی روح کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کردیا (۳ـ) یعنی جو ناکارہ بھی عمل سے کنارہ کش ہوتا وہ تصوف کا لبادہ اوڑھ لیتا اور شعبدہ بازیوں کے ذریعے عامۃ الناس کے جذبات سے کھیلنے لگتا- یہ وہ خارجی عناصر تھے ان کے اثرات نے جب ملت اسلامیہ کے ہر شعبہ کو کھوکھلا کر دیا تو صالحین نے تصوفِ اسلامی کے دفاع کے لیے کتب لکھنے کا فیصلہ کیا-

دُنیائے تصوف کی وہ عظیم شخصیّات جنہوں نے اپنی تصانیفِ عالِیَّہ سے عامۃ النّاس کو رہنمائی عطا فرمائی اُن بہت بڑی بڑی ہستیوں میں حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سُلطان باھُو رحمۃا للہ علیہ نمایاں ہیں- اِن دونوں شخصیّات کے ظاہری و باطنی بہت سے ایسے پہلُو ہیں جن پہ تحقیق کی ضرورت محسُوس کی جاتی ہے بالخصوص اِس عہدِ جدید میں پہنچ کر اور بھی زیادہ لازِم ہو جاتا ہے جہاں کہ نہ صِرف ’’تقابلی جائزہ‘‘ کو سائنسی طریقِ تحقیق کا حِصَّہ مانا جائے بلکہ اِسے اجتماعی نتائج اخذ کرنے کا زیادہ مؤثَر ذریعہ تسلیم کیا جائے- زیادہ گہرائی میں گئے بغیر اِن کی مماثلت کے چند ظاہری پہلو تو یہ ہیں کہ دونوں کے آباء و اَجداد افغانستان سے تھے اور حضرت داتا صاحب خود جبکہ حضرت سُلطان باھُو کے اجداد تبلیغِ دین کیلئے ہندوستان میں تشریف لائے اور اِس خِطّے میں شمعِ توحید ِ باری تعالیٰ کو روشن فرمایا- دوسرا یہ کہ دونوں طریقِ صوفیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے صوفیہ جنہوں نے اپنے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کیلئے علمی و فکری وِرثہ بھی چھوڑا ہے اور دونوں ہی ظاہر و باطن کی اِصلاح اور اِسلام کے اسلوبِ تربیّتِ ظاہری و اسلُوبِ تربیّتِ باطنی کو باہم دِگر لازِم و ملزوم سمجھتے ہیں-

زیرِ نظر مختصر مضمون میں حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ اور حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی معروفِ زمانہ تصنیف ’’عین الفقر‘‘ کا تقابلی جائزہ لیا جائے گا تاکہ ہم اپنی اِصلاحِ ظاہر و باطن کیلئے اجتماعی نتائج اخذ کر سکیں اور ’’جہالتِ جدیدہ‘‘ کے اِس دور میں ، کہ جس میں برقی قمقمے تو جگمگا رہے ہیں مگر انسانوں کے دِل بُجھ چکے ہیں، یہ جان سکیں کہ ہم اپنے افسُردہ و پژمُردہ دِل کو کس طرح زندگی و توانائی بخش سکتے ہیں، ہم کس طرح ان عظیم انسانوں کے افکار سے اپنے لئے کامیابی کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں-

پانچویں صدی ہجری میں لکھی جانے والی ’’کشف المحجوب‘‘ کو فارسی زبان میں تصوف کی انتہائی اہم اور قدیم ترین کتاب کا درجہ حاصل ہے- شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ہے- اس کتاب کو فارسی زبان میں تصوف کی پہلی کتاب کہہ سکتے ہیں (۴) کیونکہ سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ (۴۰۰ھ-تا - تقریبا ۴۷۵ھ ) سے پہلے ابو عبد اللہ حارث محاسبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:۲۴۳ھ) نے ’’شرح المعرفۃ‘‘، ا بو نصر سراج طوسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:۳۷۸ھ) نے ’’کتاب اللمع فی التصوف‘‘، ابو بکر کلابازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:۳۸۰ھ) نے ’’التعرّف لمذھب اھل التصوف‘‘ ا بو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:۳۸۶ھ) نے ’’قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب‘‘، ا بو عبد الرحمن سلمی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ: ۴۱۲ھ) نے ’’طبقات الصوفیۃ‘‘ا ور ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ:۴۶۵ھ) نے ’’الرسالۃ‘‘ جیسی عظیم کتبِ تصوف لکھیں ہیں لیکن ان سب کی زبان عربی ہے- اگر زبان کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’کشف المحجوب‘‘ کا علم و فنِ تصوف میں وہی مقام ہے جو ’’کتاب اللمع ‘‘ کا ہے اگرچہ ان کے مصنفین میں ایک صدی کا فاصلہ ہے-

اس کتاب کے تحریری اسلوب کو فارسی زبان کے پہلے دور کی عمدہ ترین نثروں میں شمار کیا جاتا ہے- ایرانی محقق ڈاکٹر محمود عابدی کے نزدیک قرائن بتاتے ہیں کہ ’’کشف المحجوب‘‘ کی تالیف کا آغاز ۴۶۵ھ سے پہلے ہوا اور اختتام ۴۶۹ھ میں ہوا (۵)-  چونکہ اس کے مصنف سید ابو الحسن علی بن ابو علی عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پانچویں صدی ہجری کی ساتویں دہائی میں ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب آپ نے اپنی عارفانہ زندگی کے آخری دور میں چار سال میں مکمل فرمائی- کوئی بھی صوفی، عارف، ولی اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اپنے راہِ سلوک کے روحانی تجربات اور مشاہدات کی اوجِ ثریا پر ہوتا ہے اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’کشف المحجوب‘‘ آپ کے زندگی بھر کے روحانی تجربات و مشاہدات کا خلاصہ ہے-

اگر ہم ’’کشف المحجوب‘‘ کے پسِ منظر کو جھانکتے ہوئے پانچویں صدی کی اسلامی دنیا کا مشاہدہ کریں تو اس وقت عالَمِ اسلام پر سیاسی، دینی اور علمی افراتفری کے بادل منڈلا رہے تھے- جنگ و جدال کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بغداد اور ایران ڈوبا ہوا تھا- عباسی خلفاء اور ان کے ایران میں غزنوی اور سلجوقی سنی فرمانروائوں کے درمیان اختلافات بڑھے ہوئے تھے(۶)- مصر کے فاطمیوں کا باطنیہ فرقہ کے ساتھ تنائو شدت سے زیادہ تھا (۷)- علماء میں باہمی حسد اور کینہ انتہاء کو پہنچا ہوا تھا- فقہاء اور فلسفیوں کے درمیان مناقشہ کی وجہ سے آزادانہ بحث مباحثے ختم ہوچکے تھے- ان صورتِ احوال کے پیشِ نظر سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خود اپنے اہلِ زمانہ کا شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خداوند عز و جل ما را اندر زمانہ ای پدیدار آوردہ است کہ اھل آن ھوی را شریعت نام کردہ اند و طلبِ جاہ و ریاست و تکبر را عز و علم، و ریای خلق را خشیت، و نہان داشتن کینہ را اندر دل حلم، و مجادلہ را مناظرہ و محاربت و سفاہت را عزت، و نفاق را زہد و تمنا را ارادت، و ھذیانِ طبع را معرفت و حرکاتِ دل و حدیثِ نفس را محبت و الحاد را فقر، وجحود را صفوت، و زندقہ را فنا و ترکِ شریعتِ پیغمبر  صلی اللّٰہ علیہ وسلم را طریقت، و آفتِ اہلِ زمانہ را معاملت نام کردہ اند تا اربابِ معانی اندر میانِ ایشان مھجور گشتہ اند و ایشان غلبہ گرفتہ- (۸)

’’خدا وند عز وجل نے ہمیں اس زمانہ میں پیدا کیا ہے جس میں لوگوں نے ہوا و ہوس کو شریعت کا نام دے رکھا ہے، جاہ و منصب اور تکبر کو عزت و علم ،مخلوق میں ریاکاری کو خشیت، دل میں کینہ رکھنے کو حلم، مجادلہ کو مناظرہ، جنگ و سفاہت کو عزت، منافقت کو زہد، تمنا کو ارادت، ہذیانِ طبع کو معرفت، حرکاتِ دل اور حدیثِ نفس کو محبت، الحاد کو فقر، زندیقی و بے دینی کو فنا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ترک کرنے کو طریقت اور اہلِ زمانہ کی آفات کو معاملت کا نام دے رکھا ہے- یہاں تک کہ اربابِ معانی ٔ حقیقت ان سے پسِ پردہ چلے گئے ہیں اور یہ (فتنہ باز) غلبہ پا گئے ہیں- ‘‘

آپ کے اس بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے کس دور میں اِعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ سر انجام دیا- اس دور کی افراتفری نے اگرچہ علماء و متصوفین کو منتشر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جیسے صاحبِ ہمت و استقامت بزرگانِ دین کے دم قدم سے اسلامی علوم بالخصوص اسلامی تصوف کی جڑیں مضبوط ہوگئیں جس کے ثمرات آج تک ہم اٹھا رہے ہیں-

آپ نے یہ کتاب اپنے ایک خلیفہ ابو سعید ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ایک سوال کے جواب میں لکھی (۹)، اگرچہ سوال صرف چند لائنوں پر مشتمل تھا جس کا چند سطور میں جواب دیا جاسکتا تھا لیکن آپ نے خود اس بات کا اظہار کیا کہ مرورِ زمانہ کے حالات کا تقاضا ہے کہ اس سوال کا پوری تفصیل، تحقیق اور تجربہ کی روشنی میں جواب دیا جائے یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں اپنا نام مبارک ذکر کرنے کی آپ نے دو وجہیں ذکر فرمائی ہیں ان میں دوسری وجہ کا تعلق آپ کے اس فن میں علمی مہارت اور تجربے و تحقیق سے ہے- آپ فرماتے ہیں:

اما آنچہ نصیبِ خاص بود آن است کہ چون کتابی بینند و دانند کہ مولف آن بدین فنِ علم، عالِم بودہ است و محقق، رعایتِ حقوقِ آن بھتر کنند و برخواندنِ آن و یاد گرفتنِ آن بہ جد تر باشند و مرادِ خوانندہ و صاحبِ کتابِ از آن بھتر برآید-(۱۰)

دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کتاب کا مولف اس فنِ علم کا محقق عالم ہے تو اس کتاب کی قدر کرتے ہیں اور اسے پڑھنے اور یاد کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں جس سے پڑھنے والے اور صاحبِ کتاب کو گوہرِ مقصود بہتر طریقے سے حاصل ہو جاتا ہے-‘‘

یہ کتاب ایک مقدمہ اور چالیس ابواب پر مشتمل ہے جس میں تصوفِ اسلامی کے نظری و عملی اصول و ضابطے، مشائخ و ائمہ صوفیاء کے اقوال ، سیرت و احوال، صوفیاء کے فرقے، دینی عقاید، عبادات، معاملات، صوفیانہ رسوم اور ان کی تقلید کا تذکرہ کیا ہے - مقدمہ کو آٹھ چھوٹی چھوٹی فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں آپ نے اپنے دور کے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے سببِ تالیف ذکر کیا ہے- کتاب کے موضوعات کو بحیثیت مجموعی سات اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے پہلی قسم میں صوفیانہ اصولوں کا تذکرہ ہے جس کے تحت باب العلم، باب الفقر، باب التصوف اور صوفیاء کا فقر و صفوت میں اختلاف کے ابواب شامل ہیں- دوسری قسم میں وہ ابواب ہیں جو فروعی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں جیسے گدڑی پہننے کا باب، ملامت کا باب، تیسری قسم مشائخ عظام کی سیرت، احوال اور اقوال سے معمور ہے جس میں ائمہ صحابہ، ائمہ تابعین اور ائمہ تبع تابعین کے ساتھ ساتھ ائمہ اہلِ بیت کا الگ باب باندھا گیا ہے- ان کے بعد ائمہ متاخرین کا بھی تذکرہ ہے- چوتھی قسم صوفیانہ جماعتوں کی ہے- پانچویں قسم عقائدِ دینیہ کی ہے جس میں معرفتِ الٰہی اور توحید و ایمان کا تذکرہ ہے- چھٹی قسم عبادات کے ساتھ خاص ہے جس میں طہارت، نماز، زکوۃ، روزہ، حج کا تذکرہ ہے اور ساتویں قسم میں آدابِ صوفیاء اور ان کے اسرار و رموز کا تذکرہ کیا گیا ہے-

چونکہ پانچویں صدی ہجری تک اسلامی تصوف کی شکل و صورت کافی حد تک متبدل ہوچکی تھی اس لیے آپ نے باب ’’التصوف‘‘ میں صوفی، متصوف اور مستصوف کے بارے میںتفصیل سے بات کی ہے- آپ کی انتہائی کوشش یہ تھی کہ تصوف اپنی پہلی روش پر آجائے کیونکہ آپ کے دور میں مستصوفین یعنی بناوٹی صوفیاء کے بہت سے گروہوں نے اصل صوفیاء کے طریقوں سے انحراف کیا ہوا تھا-

آپ نے اپنی کتاب میں تصوف کو ’’کشف‘‘ یعنی روشنی سے تعبیر کیا ہے-اس میں تصوف کے وہ تمام نظری اور علمی اصول بیان فرمائے ہیں جو قرآن و حدیث کی روشنی سے منور ہیں گویا آپ شریعت اور حقیقت کے درمیان قربت پیدا کرتے ہیں- آپ نے اسی باب میں یہ ثابت کیا کہ اخلاقِ انبیاء کا ہی دوسرا نام تصوف ہے جیسا کہ فرمایا:

’’تصوف نیکو خوی باشد، ہر کہ نیکو خو تر صوفی تر‘‘ (۱۱)

’’تصوف حسنِ اخلاق کا نام ہے جو سب سے زیادہ خوش اخلاق ہے وہی سب سے بڑا صوفی ہے-‘‘

اگر آپ کی تالیف کے مجموعی تاثر کو ذکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی کتاب کی مدد سے قلوب و اذہان کو اس خطرے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے جو آپ کے دور میں تصوف کو لاحق تھا تاکہ اسلام کی اصل روح کو ان تمام شکوک و شبہات سے پاک کیا جائے جو آپ کے دور میں داخل ہوچکے ہیں- جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ بحیثیت مجموعی ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہوچکی تھی- آپ کے دور کی ان کاوشوں کے اثرات بعد میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیات پر مرتب ہوتے ہیں جنہوں نے ’’احیاء العلوم الدین‘‘ جیسی تصوف کی نہایت اعلیٰ اور غیر متنازعہ کتاب کو تالیف کیا (۱۲)- سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی طرزِ تحریر اور اسلوب کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصوف کے بلند احوال و مقامات کوبڑے آسان پیرائے میں عوام الناس کو سمجھانا چاہتے ہیں اس لیے آپ ان احوال و مقامات کو بیان کرتے وقت اپنی تحریر کو اقوالِ مشائخ اور ان کی حکایات سے مزین کرتے چلے جاتے ہیں جن سے انہیں سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے اور ان میں وافر دلچسپی بھی پیدا ہوجاتی ہے-

محترم قارئینِ ’’مرأۃ العارفین‘‘! ’’کشف المحجوب‘‘ کے مندرجات کو آپ نے ملاحظہ کیا- اب ’’عین الفقر‘‘ کے مندرجات کا احاطہ کیا جائے تو یہ ایک مقدمہ اور دس ابواب پر مشتمل ہے جن تفصیل کچھ یوں ہے:

باب اوّل: شرح اسم اللّٰہ ذات و توحید فنافی اللّٰہ- باب دوّم: تجلیات و تحقیقاتِ مقاماتِ نفس و شیطان و غیر ما سوی اللّٰہ- باب سوّم: ذکرِ مرشد و طالب و فقر فنا فی بقا باللّٰہ- باب چھارم: در ذکرِ مخالفتِ نفس ،کشتن و زیر کردنِ نفس بعون اللّٰہ تعالٰی- باب پنجم: ذکرِِ علماء و فقرأ و ذکر اللّٰہ اولٰی و اعزّ و اجلّ و اتمّ و اکبر- باب ششم: مراتبِِ مراقبہ و مشاہدۂ خواب و تعبیر و استغراقِ فنا فی اللّٰہ- باب ہفتم: ذکراللّٰہ بزبان و قلب و روح و سرّ و ذکر کلمہ طیب جھر و خفیہ- باب ہشتم: در ذکرِ محبت، عشق، فقر فنا فی اللّٰہ وصال احوال- باب نھم: در ذکرِِ شراب و حقائقِ اولیاء اللّٰہ و ترکِ ما سِوَی اللّٰہ- باب دہم: فقر فنا فی اللّٰہ و ترکِ دنیا ماسِوَی اللّٰہ -(۱۳)  

ان ابواب کے فقط عنوانات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فہم و فراست کے کس معیار کو مدنظر رکھ کر ’’عین الفقر‘‘ کو تحریر فرمایا ہے مگر آپ نے تمثیلات، حکایات، روایات اور اشعار کا تذکرہ کرکے معاشرے کے ہر فرد کے لیے اس کتاب کو مفید بنا دیا ہے- ہمیں ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس مقصدِ اولیٰ و اعلیٰ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جو ان کے مصنفین کے اپنے ادوار میں ان کے پیشِ نظر تھا-

حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی ’’عین الفقر‘‘ اور ’’کشف المحجوب‘‘ کے مندرجات و مشتملات کے بارے گفتگو کرنے کا یہ مقصود ہر گز نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دی جائے کیونکہ دنوں بزرگوں کے درمیان چھ صدیوں کا فاصلہ ہے- سیدنا علی ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص حالات کے پیشِ نظر اور اپنے دور کے انداز سے ’’کشف المحجوب‘‘ کو تحریر فرمایا جبکہ حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۳۹ھ-۱۱۰۲ھ بمطابق ۱۶۲۹ء - ۱۶۹۱ء) کا زمانہ اورنگ زیب عالمگیر کا دور ہے - آپ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کتاب لکھتے ہوئے وہ حالات درپیش نہیں تھے جو پانچویں صدی ہجری میں سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو در پیش تھے کیونکہ حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عین الفقر‘‘ اپنے وصال سے سترہ سال پہلے (۱۰۸۵ھ/۱۶۷۴ء) میں مکمل کی ہے (۱۴)- اس وقت اورنگ زیب عالمگیر کو برصغیر میں حکومت کرتے ہوئے تقریبا سولہ سال مکمل ہوچکے تھے (۱۵)- ہم سب جانتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ہر طرف علم کا دور دورہ تھا، اورنگ زیب بذاتِ خود ایک صوفی منش بادشاہ تھا اور علمائے دین اور بزرگانِ دین کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا- البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکبر کے نئے دین کے اثرات ابھی تک مکمل طور پر زائل نہیں ہوئے تھے- علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بقول: تُخمِ الحادے کہ اکبرؔ پرورید/ باز اندر فطرتِ داراؔ دمید (۱۶) - دارا شکوہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ، دارا شکوہ جیسے صوفیا ء جس طرح ’’ہندو مسلم امتزاج پہ مبنی تصوف ‘‘ کا تصور پیش کر رہے تھے اس سے برصغیر میں ملّتِ اسلامیہ کی قومی وحدت کو شدید خطرہ لاحق تھا (۱۷) - دوسری اس دور کی خاص کمزوری یہ تھی کہ علمائے ظاہر اپنے ظاہری علوم کو ہی کامل دین سمجھ کر اس پر عمل پیرا تھے، ظاہری علوم کا اس حد تک غلبہ تھا کہ صاحبِ عرفان علماء پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے اور وہ اپنے روحانی تجربات و مشاہدات یعنی علمِ معرفت کا کھل کر اظہار نہ کرسکے- تیسری بڑی خرابی فرقہ پرستی تھی جس کی جڑیں، جو صدیوں سے پنپ رہی تھیں، اب ایک تناور درخت بن چکی تھی جس کا قلعہ قمع کرنے کے لیے خواص کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں بھی وسعتِ قلبی کی اشد ضرورت تھی-

ان حالات کے پیشِ نظر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’عین الفقر‘‘ کا اسلوب اور طرزِ تحریر کا جائزہ لیں تو وہ ہمیں ’’کشف المحجوب ‘‘ سے الگ نظر آتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے دور کے علمائے کرام اور مشائخِ عظام کی ذہنی اپروچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو تحریر کیا ہے کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اگر معاشرے کے یہ دو گروہ راہِ راست پر آجائیں تو ان کے زیرِ سایہ عوام الناس بھی صراطِ مستقیم پر گامزن ہوسکتی ہے- آپ کے طرزِ تحریر کے پیشِ نظر کتبِ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے معروف شارح و مترجم سید امیر خان نیازی کو آپ رحمۃاللہ علیہ کی کتب کی عوام الناس کو تفہیم کرانے کے لیے ’’تفہیم الکلام حضرت سلطان باھُو‘‘ کی صورت میں ایک کتابچہ تحریر کرنا پڑا جس میں انہوں نے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کے متعلق لکھا:

’’بنیادی طور پر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ہر کتاب طالبانِ مولیٰ کی تعلیم و تربیت کے لئے لکھی ہے اِس لئے اے صاحب ِمطالعہ اُن کی کتب کے مطالعہ کے دوران کئی مقامات ایسے بھی آئیں گے کہ جہاں آپ اُلجھ سکتے ہیں ، کئی مقامات پر آپ کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور کئی مقامات پر آپ انکار کی راہ اختیار کر کے ہدایت و سلامتی سے محروم ہو سکتے ہیں اِس لئے ضروری سمجھا گیا ہے کہ ایک رسالے کی صورت میں کچھ ضروری معلومات جمع کر دی جائیں جن کی مدد سے حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کو سمجھنے میں آسانی رہے -

آپ جانتے ہی ہیں کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ عارفوں کے امام ہیں اِس لئے آپ شریعت ِنبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے ہٹ کر کوئی بات کرتے ہی نہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

ہر  مراتب  از  شریعت  یافتم

پیشوائِ خود شریعت ساختم

 ’’  مَیں نے ہر مرتبہ شریعت کی پیروی سے پایا اور شریعت ہی کو مَیں نے اپنا پیشوا بنایا - ‘‘

 ’’  شریعت سے ہٹ کر جو راہ بھی ہے وہ کفر و زندقہ کی راہ ہے -‘‘

ہیچ تالیفی نہ د ر تصنیفِ ما

ہر سخن تصنیفِ ما را از خدا

علم از قرآن گرفتم و ز حدیث

ہر کہ منکر می شود اہل از خبیث

 ’’  ہماری تصانیف میں کوئی تالیف نہیں - ہماری تصانیف کا ہر سخن الہامِ خدا وندی ہے - مَیں نے ہر علم قرآن و حدیث سے پایا ہے لہٰذا میری تحریر کا انکار کرنے والا قرآن و حدیث کا منکر ہے اِس لئے وہ راہِ خباثت پہ ہے -‘‘

سُلطان العارفین حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ کا طرز تحریر قرآن مجیدکے اسلوب سے ملتا جلتا ہے اگر اُن کی کتب کے اصل فارسی متن کو پڑھا جائے تو ایک عجیب سی لذت و سرور کا احساس ہوتا ہے لیکن اگر اُس کا ترجمہ کیا جائے تو ترجمہ میں وہ رُوح قائم نہیں رکھی جا سکتی جو اصل متن میں موجود ہے-اُن کی تحریر کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں-

’فقیر نیز چہار قسم است: صاحبِ حیرت حیران، صاحبِ جُرم گریان، صاحبِ عشق جان بُریان و صاحبِ  شوقِ قلب ذکر وحدت وجد جریان-‘‘ (عین الفقر)

’’در طریقت  بعضی  جذبِ  طریقت زدہ دیوانہ  شدہ اند، در آبِ دریا غرق شدہ مُردہ اند  و بعضی جذبِ طریقت خوردہ خفّہ بدرخت گرفتہ مُردہ اند وبعضی رو بصحرا در آوردہ بی طعام و آب مُردہ اند‘‘

(عین الفقر)

’’فقیری درویشی نہ در گفتگو نہ در خواندن و نوشتن مسئلہ مسائل حکایت قصّہ خوانی، فقر دریافت معرفت و محو شدن  در توحیدِ رحمانی و گشتن از خویش فانی و بیزار شُدن از ہوائِ نفسانی و معصیّتِ شیطانی و بستن لب با ادب زبانی، کردن غیر نسیانی و نگہداشتن جوہرِ ذکر پاس انفاس جسمانی جانی، صاحبِ شریعت دانش و  بینش دُرِّ کانی، غوطہ  خوردن  در لاہُوت  لامکانی  توبہ کردن از دیدنِ روئِ اہلِ دنیا ظلمانی‘‘ (عین الفقر)

یہ طرزِتحریرہو بہو قرآن مجید سے ملتا جلتا ہے- ویسے بھی حضرت سلطان العارفینؒ کی کتابیں اِلہامی ہیں اِس لئے اُن کے کلام کا ترجمہ کرتے ہوئے کوئی لاکھ جتن ہی کرلے، اُس میں موجود لطیف مطالب کو اُجاگر نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ عمیق و دقیق مطلب و مفہوم ترجمہ سے ظاہر کر سکتا ہے جو مصنف کے مدِّ نظر ہے- ‘‘ (۱۸)

سبکِ نگارش کے مختلف ہونے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کئی باتوں میں ’’کشف المحجوب‘‘ اور ’’عین الفقر‘‘ میں مماثلت پائی جاتی ہے- مثلا دونوں بزرگ تصوف کے اس تصور کو پیش کرتے ہیں جو صحابہ کرام میں موجود تھا- دونوں بزرگ تصوف کو قرآن و حدیث سے ثابت کرتے ہیں - البتہ ’’کشف المحجوب‘‘ میں قرآن و احادیث کا تذکرہ باب بندی کے تحت ہے پہلے ہر باب میں آیتِ کریمہ کا تذکرہ ہے پھر احادیثِ مبارکہ ذکر کی گئی ہیں پھر باب کے موضوع کو آخر تک لے جایا گیا ہے - جبکہ حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ جابجا آیات و احادیث کا ذکر کرتے ہیں کبھی آیت یا حدیث سے بات شروع فرماتے ہیں اور اس کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے کسی آیت یا حدیث پر ہی بات کو مکمل فرما دیتے ہیں پھر معاً دوسری بات شروع فرما دیتے ہیں جس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کا سابقہ موضوع سے کوئی تعلق نہیں لیکن اگر انتہائی باریک بینی سے دیکھا جائے تو دونوں کا آپس میں کوئی نہ کوئی ربط ہوتا ہے- ’’عین الفقر‘‘ اور ’’کشف المحجوب‘‘ کے اسلُوبِ بیان کے اِس فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پہ تشریف فرما ہو کر کتاب تصنیف کی ہے اور کتاب کو باضابطہ ابواب میں تقسیم فرمایا ہے جبکہ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اسفار میں اکثر کتب تصنیف فرمائی ہیں (۱۹) اور اکثر تقسیمِ اَبواب کا اہتمام فرمایا ہے مگر بعض مقامات پہ نہیں فرمایا- حضرت داتا صاحب نے ایک جگہ پہ تشریف فرما ہوکر کتاب تصنیف فرمائی اور آپ کے معتقدین و طالبین نے اِسلامی دُنیا میں اُس کی اشاعت کا باقاعدہ اور بھرپور اہتمام کیا مگر تصانیفِ حضرت سُلطان باھُو کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ آپ کے معتقدین نے ان کتب کو ایک ’’مخفی خزانہ ‘‘ سمجھ کر پاک غلافوں میں لپیٹ کے مضبوط دروازوں والے محفوظ صندوقوں میں بند کر دیا- سترہویں یا اٹھارویں صدی عیسوی کی کیا بات کرنی آج اکیسویں صدی میں یہ حالت ہے کہ جن حضرات کے پاس نُسخہ جات ہیں وہ ہوا لگوانے کو تیار نہیں- مہینوں کی منتوں سماجتوں کے بعد ایک آدھ نُسخہ بمشکل ملتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پہ تصانیفِ حضرت سُلطان باھُو کی ترویج کا کام کما حقّہٗ نہیں کیا جا سکا- جو آدمی بھی تصانیفِ حضرت سُلطان باھُو پہ کام کرتا ہے اُسے اِس دُکھ کا اَندازہ بخوبی ہو جاتا ہے- مثلاً سید امیر خان نیازی (مرحوم) ’’اسرار القادری‘‘ کے ترجمہ کے پیش لفظ میں لِکھتے ہیں:

’’ یہ بات بھی کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں کہ فقر و عرفان، ادب و تصوف، فلسفہ و حِکمت اور بے بہا عُلُوم کا خزانہ جو کہ حضرت سُلطان باھُو صاحب کے قلمی نسخوں کی صُورت میں لوگوں کے پاس محفوظ ہے اور وہ اُسے ذاتی جاگیر سمجھ کر عامۃ النّاس کو اُس فیض سے محروم رکھے ہوئے ہیں ایک مترجّم کی حیثیَّت سے میرے لئے سب سے بڑی پریشانی ہی یہی ہے کہ قلمی نُسخہ جات میسَّر نہیں ہو پاتے تاکہ (قلمی نسخوں کے ) تقابلی جائزے کے بعد صحیح فارسی متن اخذ کر کے ترجمہ کا صحیح حق ادا کیا جائے - اگر حضرت سُلطان باھُو صاحب کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک بھی نُسخہ مل جائے تو باقیوں کی ضرورت ترجمہ کیلئے نہیں رہتی بد قسمتی سے کسی ایک کتاب کا نسخہ بھی آپ کے ہاتھ کا لِکھّا ہوا موجود نہیں وہ بھی اِسی طرح ضائع ہو گئے کہ خُلفأ نے اُنہیں عام کرنے کی بجائے اپنے صندوقوں میں محفوظ کردیا- میں اُن تمام احباب سے گزارش کروں گا جن کے پاس حضور سُلطان صاحب کے قلمی نُسخے ہیں کہ از راہِ کرم اِس مُعاملے میں کنجوسی نہ کیا کریں یہ ’’سُلطانیات‘‘ کے ساتھ کھُلی زیادتی ہے- ‘‘ (۲۰)

محقّقین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا اصل کام آپ کی فارسی تصانیف ہیں جو زیادہ منظرِ عام پہ نہیں آسکیں گو کہ یہ بات موضوعِ مضمون سے تو قدرے ہٹ کے ہے مگر اِس پہ ایک آخری اقتباس معروف محققِ تصوف بشیر حُسین ناظِم (مرحوم) کا پیش کروں گا :

’’ عالمِ اِسلام میں دو شخصیّتیں ایسی ہوئی ہیں جو لوگوں میں اپنے اصلی کمالات کے باعث شُہرت نہیں پاسکیں- اُن میں ایک حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور دوسری شخصیَّت عُمر خیّام- حضرت سُلطان باھُو اپنے اَبیات کی وجہ سے مشہور ہوئے اور عمر خیام اپنی رُباعیات کے باعث - ‘‘ (۲۱)

حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ دونوں شریعت اور طریقت کو ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتے بلکہ اِن دونوں عظیم المرتبت صوفیوں کی صوفیانہ تحریک کا مقصد ہی شریعت کو عملی طور پہ اپنانا اور تصوف کے نام پہ گلی محلوں میں لوگوں کے ایمان کے ڈاکو بن کے پھرنے والے بے عمل اور بد عمل لوگوں سے اِظہارِ لاتعلقی کیا جائے اور عامۃ النّاس پہ یہ واضح کیا جائے کہ تصوف کی تو اَساس ہی شریعت ِ مصطفوی ﷺ ہے لہٰذا شریعت کا تارک کسی بھی طرح صُوفی نہیں ہوسکتا- صُوفی کا کام لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا تعلق از سرِ نو قائم کرنا ہے تو دینِ مبین میں ایسا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے جو شریعت کی پاسداری و نگہبانی کئے بغیر خالق کی حضوری تک لے کر جائے-

مثلاً حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ ’’عین الفقر‘‘ کے آغاز میں ہی فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ اِس کتاب کا نام عین الفقر رکھا گیا ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے طالبوں اور فنا فی اللہ فقیروں کی ہر خاص و عام مقام پر خواہ وہ مقام مبتدی ہو یا منتہی ہو، راہنمائی کر کے صراطِ مستقیم پر قائم رکھتی ہے اور اُنہیں مشاہداتِ اسرارِ پروردگار اور مشاہداتِ تجلیاتِ انوارِ توحید ِ ذات سے مشرف کر کے ’’  علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین‘‘ کے مراتب پر پہنچاتی ہے جہاں اُنہیں محبت ِحق تعالیٰ نصیب ہو جاتی ہے اور اِس حدیث ِقدسی کے رموز اُن پر آشکارہ ہو جاتے ہیں کہ-: ’’ مَیں ایک مخفی خزانہ تھا ، مَیں نے چاہا کہ میری پہچان ہو، پس مَیں نے اپنی پہچان کے لئے مخلوق کو پیدا کیا -‘‘پھر وہ شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے روگردانی ہرگز نہیں کرتے اور نہ ہی غلط روش اختیا ر کر کے استدراج و بدعت سے آلودہ ہوتے ہیں- فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم اُنہیں اُس طرف سے پکڑتے ہیں جدھر سے اُن کو خبر بھی نہیں ہوتی-‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-: ’’جس راہ کو شریعت رد کر دے وہ زندقہ کی راہ ہے-‘‘ جس راہ کو شریعت ٹھکرا دے وہ کفر کی راہ ہے، شیطان و ہوائے نفس اور دنیائے ذلیل کی راہ ہے- لوگوں کو چاہیے کہ اِس سے خبردار رہیں -حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-: ’’جس نے کسی چیز کو چاہا وہ خیر سے محروم رہا اور جس نے  اَللّٰہُ کو چاہا وہ مالک ِکل ہو گیا- ‘‘جس نے کسی چیز کی جستجو کی اُسے اُس سے فائدہ نہ ہوااورجس نے اَللّٰہُ  کی جستجو کی اُسے ہر چیز میسر آ گئی-یہ چند کلمات ظاہری و باطنی طیر سیر کے اُس سلک سلوک کے بارے میں ہیںجس کا مقصود ومطلوب فقر ’’فَفِرُّوْآاِلَی اللّٰہِ‘‘ہے- طالب ِ دنیا کا سلک سلوک فقر ’’ فَفِرُّوْآ  مِنَ اللّٰہِ‘‘  ہے جو مردود ہے- ‘‘ (۲۲)

سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مشترکہ بات یہ بھی ہے کہ دونوں نفس امارہ کو بہت بڑا حجاب اور برائی اور شر کا منبع قرار دیتے ہیں- مزید اس نکتہ پر بھی اتفاق نظر آتا ہے کہ علمائے ظاہر کو علم کی اس حقیقت سے روشناس ہونا چاہیے جو علمِ لدنی کہلاتا ہے- سیدنا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اس علم کے سخت مخالف ہیں جو علماء کو ذاتِ حق تک نہ پہنچائے - آپ فرماتے ہیں:

’’آن کہ از علم جاہ و عز دنیا طلبد نہ عالم بود ، زیرا کہ طلب جاہ و عز از اخواتِ جھل بود و ھیچ درجہ نیست اندر مرتبۂ علم، کہ چون آن نباشد ھیچ لطیفہ ٔخداوند تعالیٰ را نشناسد و چون آن موجود باشد ھمہ مقامات و شواھد و مراتب را سزاوار باشد-‘‘ (۲۳)

یعنی جو شخص علم کو دنیاوی عزت اور منصب کی غرض سے حاصل کرتا ہے در حقیقت وہ عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے کیونکہ دنیاوی عزت و جاہ کی خواہش کرنا بجائے خود ایک جہالت ہے جبکہ علم بذاتِ خود ایک بلند مرتبہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی مرتبہ ہے ہی نہیںجب وہ اس ظاہری علم کے مرتبہ سے ہی نادان ہے تو وہ ربانی اسرار و لطائف کو کیسے جان سکتا ہے- حضرت سلطان باھورحمۃ اللہ علیہ بھی ایسے علم کی مزمت بیان کرتے ہیں :

’’عالم آنرا گویند کہ عین طالبِ حق باشد ومولٰینا آنرا گویند کہ طالبِ مولیٰ باشد و دانشمند آنرا  گویند  کہ دعویٰ مدّعی بنفسِ خود باشد و فاضل آنرا گویند کہ جُز محبّت جاودانی را بگزارد  رفیق با توفیقِ اللّٰہ تعالیٰ- قال علیہ الصلوٰۃُ و السلام-: ’’ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِدُّ نْیَا فَھُوَ کَافِرٌ وَّ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِلْحُجَّۃِ فَھُوَ مُنَافِقٌ وَّ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ  لِلْمَوْلٰی فَھُوَ مُسْلِمٌ‘‘- قال علیہ الصلوٰۃُ و السلام-: ’’ مَنْ سَکَتَ عَنِ الْحَقِّ فَھُوَ شَیْطٰنٌ اَخْرَسٌ ‘‘-  پس علم نیز دو قسم است، علمِ عارفیّت و علمِ عاریّت- علمِ عارفیّت علمِ ربوبیّت است طالبِ دیدار و علمِ  عاریّت طالبِ دنیا مُردار- قال علیہ الصلوٰۃُ و السلام-: ’’اَلدُّ نْیَا مَنَامٌ وَّ عَیْشُھَا فِیْہِ اِحْتِلَامٌ ‘‘- علمی کہ از بہرِ دنیا روزگار خواند ہمنشینِ ابوجہل بنشاند و علمی کہ از بہرِ خدا و رسول خواند بمرتبۂ محمدی صلّی اللّٰہ علیہ  و آلہٖ و سلّم رساند- قال علیہ الصلوٰۃُ و السلام-: ’’اَلْعُذْرَۃُ شِیْئٌ وَّالْجَھْلُ لَیْسَ بِشَیْئٍ ‘‘-  مرشد عالم باید وطالبِ او متعلّم جہل راچہ کند- حد یثِ قدسی-: ’’ مَاتَّخَذَ اللّٰہُ وَلِیًّا جَاھِلًا ‘‘- جاہل کیست وکرا گویند؟ جاہل آنست کہ طالبِ حُبِّ دنیا حرص ہوا طالبِ دنیا دون دشمنِ علما ٔو کلام اللّٰہ- پس او کافر-‘‘ (۲۴)

’’عالم اسے کہتے ہیں جو عین طالب ِحق ہو، مولانا اسے کہتے ہیں جو طالب ِمولیٰ ہو، دانشمند اسے کہتے ہیں جو اپنے نفس کے خلاف مدعی بن کر اس کا محاسبہ کرے اور فاضل اسے کہتے ہیں جو محبت ِالٰہی کے علاوہ سب کچھ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا رفیق ِبا توفیق بن جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-: ’’جس نے حصولِ دنیا کی خاطر علم حاصل کیا وہ کافر ہے، جس نے حجت بازی کے لئے علم حاصل کیا وہ منافق ہے اور جس نے رضائے الٰہی کی خاطر علم حاصل کیا وہ مسلم ہے-‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-: ’’جو آدمی حق بات کہنے سے خاموش رہا وہ گونگا شیطان ہے-‘‘ پس علم بھی دو قسم کا ہے: علمِ عارفیت اورعلمِ عاریت- علمِ عارفیت علمِ ربوبیت ہے جو آدمی کو طالب ِدیدارِ پروردگار بناتا ہے جب کہ علمِ عاریت آدمی کو طالب ِ دنیائے مردار بناتا ہے- حدیث -: ’’دنیا ایک خواب ہے اور اِس کی عیش و عشرت احتلام ہے-‘‘ جو علم روزگارِ دنیا کی خاطر پڑھا جائے وہ ابوجہل کے مرتبے پر پہنچاتا ہے اور جو علم خدا اور رسول کی خاطر پڑھا جائے وہ مرتبۂ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہنچاتا ہے- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-: ’’عذر تو کوئی شے ہے مگر جہالت کوئی شے نہیں-‘‘ مرشد کو عالم ہونا چاہیے اور طالب کو متعلّم، جاہل کی گنجائش ہی نہیں- حدیث ِقدسی میں آیا ہے-: ’’اللہ تعالیٰ جاہلوں کو دوست نہیں بناتا-‘‘جاہل کون ہے اور جاہل کسے کہتے ہیں؟ جاہل وہ ہے جو حبّ ِدنیا میں گرفتار حرص و ہوا کا بندہ ہے، دنیائے دون کا طالب اور علما و کلام اللہ کا دشمن ہے، لہٰذا وہ کافر ہے-

بطورِ نمونہ یہ چند مثالیں ہیں ان کے علاوہ بے شمار احوال و مقامات ہیں جن میں ان دونوں بزرگوں میں صدیوں کا فاصلہ ہونے کے باوجود اتفاق و اتحاد ہے جنہیں امثلہ کے ساتھ تفصیلاً ذکر کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں- دونوں بزرگوں کا اندازِ بیان اگرچہ مختلف ہے لیکن چونکہ دونوں کا مقصد ایک ہے اس لیے مماثلت قطعی ہے نیز حق وہی ہے جو اہلِ حق بیان کرتے ہیں-

لہٰذا تصوف کو چاہے آپ قرآنی اِصطلاح میں ’’علمِ لدنی‘‘ کہیں ، حدیثِ جبریل کی روشنی میں ’’اِحسان‘‘ کہیں، تابعین اور تبع تابعین کا ’’زُہد و تقویٰ‘‘ سمجھیں ، سیدنا علی ہجویری کی نظر سے ’’اخلاقِ انبیاء‘‘ کا نام دیں، حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی روشنی میں ’’اِخلاص‘‘ کہیں، حضرت سلطان باھو کی نگاہ سے ’’علمِ فقر‘‘ کہیں یا علامہ اقبال کے خطبات کی روشنی میں ’’احساس‘‘ کا نام دے دیں ابو حامد محمد بن محمد المعروف امام غزالی (المتوفیٰ:۵۰۵ھ) جیسی ہستیوں کی زندگی بھر کی محنت، مطالعہ ، تجزیہ اور مشاہدہ کا نچوڑ یہی ہے کہ صوفیاء کا طریق ہی طریقِ حق ہے کیونکہ ان کی راہ محض علم و فن کی راہ نہیں ہے بلکہ علم و عمل دونوں کی راہ ہے اور اسی راہ پر گامزن ہو کر ہی انسانوں کے بجھے دِل دوبارہ جگمگا سکتے ہیں، انہی کے نقشِ قدم پر چل کر ہی ہم اپنے افسُردہ و پژمُردہ دِلوں کو زندگی و توانائی بخش سکتے ہیں- آج جبکہ دنیا کے ہر نظام اور آئین کی یہ حالت ہے کہ وہ فتنہ و فساد ، شرا نگیزی ، معاشرتی ناہمواری ، بے انصافی، انسانی تفریق، معاشی بے اعتدالی اور عدمِ برداشت کے آگے دم توڑتا جارہا ہے ہم ان عظیم انسانوں کے جلیل القدر افکار اور بے مثل کردار سے اپنے اور پوری عالَمِ اِنسانیت کے لئے فلاح و کامیابی کا راستہ متعین کر سکتے ہیں -

٭٭٭٭

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حواشی و حوالہ جات:

(۱) (حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا شمار اصحابِ صفہ کے جید صحابہ کرام میں ہوتا ہے- سنن ابی دائود میں کتاب ’’الطلاق‘‘ با ب ’’من احق بالولد‘‘ میں روایت نمبر ۲۲۷۷ ہے جس کے مطابق حضرت ابو ھریرہ کے پاس ایک فارسی (ایرانی) خاتون اپنے بیٹے کی حوالگی کا استغاثہ لے کر آتی ہے- وہ خاتون آپ سے فارسی میں گفتگو کرتی ہے اور آپ بھی اسے فارسی میں ہی جواب دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عربی کے علاوہ فارسی زبان سے بھی واقف تھے- اس کے علاوہ آپ لکھنا بھی جانتے تھے اور احادیث کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا، اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا بھی علم تھا بالخصوص تورات کے مسائل سے کافی واقفیت تھی- دیکھئے ’’صفہ و اصحاب صفہ‘‘ ص: ۱۴۳، پبلشر: بیت العلوم لاہور، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں اصحابِ صفہ کو قرآن کے ظاہری و باطنی علوم کے علاوہ دیگر السنہ و علوم بھی پڑھائے جاتے تھے)-

(۲) (سورۃ یونس آیت ۱۰) (ترجمہ: بے شک اللہ کے اولیاء پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے)-

(۳) (دوسری اور تیسری صدی ہجری میں یونانی کتب کے عربی تراجم کا آغاز ہوا- رفتہ رفتہ یونانی افلاطونیت، کلیسائی رُہبانیت اور زرتشتی مذاہب نے اسلام کی مذہبی رواداری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تصوف کے عملی کردار کو مجروح کرنا شروع کردیا - بر صغیر میںمسلمانوں کو ہندی فلسفہ ویدانت کا سامنا تھا )-

(۴) (اگرچہ خراسان (ایران) میں عربی کتبِ تصوف کی کچھ فارسی شروحات لکھی گئیں جیسا کہ دکتر محمود عابدی نے مقدمہ میں وضاحت کی ہے کہ ’’شرح تعرف‘‘ کے بعد ’’کشف المحجوب‘‘ فارسی زبان میں تصوف کی پہلی کتاب ہے- حوالہ: مقدمہ مصحح ، ص:بیست و پنج (۲۵)، ’’کشف المحجوب‘‘ مرتبہ دکتر محمود عابدی، تہران- لیکن دکتر محمد حسین تسبیحی ]رھا[ اپنی مرتب کردہ ’’کشف المحجوب‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں پہلی مرتبہ تصوف کے علمی و نظری اصولوں کو بے تکلفی سے منظم و مرتب کیا گیا ہے اس لیے اسے ہی فارسی زبان میں تصوف کی پہلی کتاب شمار کیا جانا چاہیے- حوالہ:’’کشف المحجوب‘‘ مرتبہ دکتر محمد حسین تسبیحی  ]رھا[ ص: سیزدھم (۱۳)، انتشارات مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد)

(۵) (دکتر محمود عابدی، ’’کشف المحجوب‘‘ مقدمہ مصحح، ص: چھل و یک (۴۱)، مطبوعہ سروش پریس ، تہران، ایران )

(۶) (تفصیل کے لیے دیکھئے علامہ حافظ عماد الدین ابن کثیر کی ’’البدایۃ و النھایۃ‘‘ ج:۱۲، پانچویں صدی ہجری کے واقعات، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)

(۷) (ایضاً)

(۸) (سید علی ہجویری ، ’’کشف المحجوب‘‘  مرتبہ :دکتر محمود عابدی ،ص: ۱۲ ، مطبوعہ سروش پریس ، تہران، ایران)

(۹) (دکتر محمد حسین تسبیحی ]رھا[ ’’کشف المحجوب‘‘ ص: سیزدھم (۱۳)، انتشارات مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد)

(۱۰) (سید علی ہجویری ، ’’کشف المحجوب‘‘  مرتبہ :دکتر محمود عابدی ،ص: ۳، مطبوعہ سروش پریس ، تہران، ایران)

(۱۱) (ایضاً،ص: ۵۴)

(۱۲) (امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سرگزشت ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں خود صراحت فرمائی کہ تصوف کی طرف مائل ہونے کے لیے انہوں نے ابو طالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘ حارث محاسبی کی تالیفات اور ان اقوال کا مطالعہ کیا جو جنید، شبلی، ابو یزید بسطامی قدس اللہ ارواحھم اور ان کے علاوہ دیگر مشائخ سے منقول ہیں- دیکھئے! ’’سرگزشتِ غزالی‘‘ ص:۱۵۴، مترجم: محمد حنیف ندوی، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، کلب روڈ لاہور، طبع اوّل: ۱۹۵۹ء)-

(۱۳) (حضرت سلطان باھو، ’’عین الفقر‘‘، ص: ۴، ایڈیشن ۲۶، اشاعت ستمبر ۲۰۱۴ء، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان)

(۱۴) (ایضاً، ص: ۳۸۶)

(۱۵) (اورنگ زیب عالمگیر کے دورِ حکومت کا آغاز ۱۰۶۹ھ بمطابق ۱۶۵۹ء سے ہے- دیکھئے !ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل، جون ۲۰۰۸ء، مجلد حضرت سلطان باھو نمبر، سلطان الفقر کے ہم عصر حکمران، ص: ۵۰)

(۱۶) (اقبال، ’’رموزِ بیخودی‘‘حکایتِ شیر و شہنشاہ عالمگیر، ترجمہ: الحاد و بے دینی کا جو بیج شہنشاہ اکبر نے آمادہ کیا وہ دارا شکوہ کی طبیعت میں دوبارہ پھوٹ پڑا )-

(۱۷) (دارا شکوہ ،شاہجہان کا بڑا بیٹا تھا، ۲۰ مارچ ۱۶۱۵ء کو پیدا ہوا- ’’مجمع البحرین‘‘ اس کی مشہور کتاب ہے جو ۱۶۵۰ء میں تصنیف ہوئی- اس میں ویدانت اور تصوف کی اصطلاحات کو مجتمع کیا گیا ہے )-

(۱۸) (سید امیر خان نیازی (مرحوم) ’’تفہیم الکلام‘‘  ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل، جون ۲۰۰۸ء، مجلد حضرت سلطان باھو نمبر، ص: ۷۷)

(۱۹) ( حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عین الفقر‘‘ میں وضاحت فرمائی : ’’یہ فقیر باھو کہتا ہے کہ میں تیس سال تک مرشدِ کامل تلاش کرتا رہا اور اب سالہا سال سے طالب کی تلاش میں ہوں-‘‘ دیکھئے ایڈیشن ۲۶، ص:۲۷۵- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی سفرِ مسلسل میں ہی گذری ہے) -

(۲۰) (سید امیر خان نیازی (مرحوم) ’’پیش لفظ‘‘، ’’اسرار القادری‘‘ص: ۸،ایڈیشن :۳، اشاعت: مارچ ۲۰۱۴ء، العارفین پبلیکیشنز لاہور، پاکستان)

(۲۱) (ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل ، مئی، ۲۰۱۱ء ، اشاعت خاص مجلد، حضرت سُلطان باھُو نمبر -ص :۲۵۷)

(۲۲) (حضرت سلطان باھو،’’عین الفقر‘‘ص: ۲۵ ایڈیشن: ۲۶، اشاعت: ستمبر۲۰۱۴ء، العارفین پبلیکیشنز لاہور، پاکستان)

(۲۳) (سید علی ہجویری ، ’’کشف المحجوب‘‘  مرتبہ :دکتر محمود عابدی ،ص: ۱۹، سروش پریس تہران، ایران)

(۲۴) (حضرت سلطان باھو ’’عین الفقر‘‘ ص: ۱۲۰، ایڈیشن: ۲۶، اشاعت: ستمبر ۲۰۱۴ء، العارفین پبلیکیشنز لاہور، پاکستان)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر