وہ ہستی قدسیہ جن کی مثالی طرز حیات اور جامع محاسن پر آیات قرآنی کا نزول ایک ہمہ گیر جہت کی حیثیت رکھتا ہے جن کی عفت،تطہیر اورعزت و کرامت پر قرآن مجید میں سند نازل کی گئی، جو پروردہ آغوش نبوت اور اُم الائمہ ہیں- مخدرات اسلام میں ان کی حیثیت اظہر من الشمس ہے،شعائر دین کا قیام اور معاونتِ رسول (ﷺ) میں ان کی جدو جہد ناقابل فراموش ہے، میری مراد خاتون جنت،سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) ہیں-
ولادت مبارک :
سیدۃ النساء، اُم الحسنین کریمین، پروردہ آغوشِ خدیجۃ الکبرٰی (رضی اللہ عنہا)، لختِ جگر حضرت محمدمصطفٰے (ﷺ) حضرت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کی ولادت باسعادت مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوی (ﷺ)کے ایک سال بعد (بمطابق 20 جمادی الثانی ،بروز جمعۃ المبارک بمقام مکہ مکرمہ ) ہوئی -[1]
فضائل و مناقب:
خواتین اسلام میں جو اعلیٰ و ارفع اور قابل تحسین مقام جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کو حاصل ہوا وہ اپنی مثال آپ اور تاریخ ِ اسلام میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے-سیدہ خاتونِ جنت (رضی اللہ عنہا)کے فضائل و مناقب کااحاطہ کرنے سے انسانی عقل قاصر و ناتواں ہے-
امام طبرانیؒ نے روایت کیا ہے حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدنا رسول اللہ (ﷺ)نے سید ہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) سے ارشاد فرمایا:
’’بے شک تمہارے ناراض ہونے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اورتمہارے خوش ہونےسے اللہ پاک خوش ہوتاہے‘‘[2]
ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جگر کا ٹکڑاہے جو بات انہیں تکلیف دیتی ہے وہ مجھے رنج پہنچاتی ہے اور جس با ت سےان کو دکھ ہو تا ہے اس سے مجھے بھی دکھ ہو تا ہے ‘‘- [3]
صحیح بخاری میں اُم المؤمنین سید ہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے:
’’ہم رسول اللہ (ﷺ) کی ازواجِ مطہرات (رضی اللہ عنہن) آپ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں بیٹھیں تھیں اور ہم میں سے کوئی بھی غیر حاضر نہ تھیں تو سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) چلتی ہوئی آئیں، اللہ کی قسم!ان کی چال حضور نبی کریم (ﷺ) کی چال مبارک کے مشابہ تھی، حضور نبی کریم (ﷺ) نے آپ (رضی اللہ عنہا)کو دیکھ کر خوش آمدید کہا اور ارشاد فرمایا: ’’مَرْحَبًا بِابْنَتِي‘‘میری بیٹی کو خوش آمدید- پھر رسول اللہ (ﷺ) نے آپ (رضی اللہ عنہا) کو اپنے دائیں یابائیں جانب بٹھایا‘‘-[4]
مستدرک میں امام حاکم نے سندِ صحیح سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے یہ ارشاد فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہو گا توایک منادی پردے کی اوٹ سے یہ اعلان کرے گا:
’’اے اہل ِ محشر!اپنی نظریں جھکالو حتی کہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ)گزرجائیں ‘‘-[5]
صحیح بخاری میں اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا :
’’اے فاطمہ! کیا تم اس سے راضی نہیں کہ تم تمام مؤمن عورتوں کی سردار ہو یا تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو‘‘-[6]
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’تمام جہانوں کی عورتوں میں سے سب سے افضل مریم بنت عمران،آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد(ﷺ) ہیں ‘‘-[7]
ترمذی شریف میں حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہےکہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ایک فرشتہ جو اس رات سے قبل کبھی زمین پہ نہیں اُترا تھا، اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے خوشخبری دےکہ(سیدہ) فاطمہ (رضی اللہ عنہ) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور (سیدنا) حسن وحسین (رضی اللہ عنھم) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘-[8]
مخدومۂ کائنات کے سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے نکاح کے واقعہ کو امام طبرانی و دیگر محدثین نے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح (حضرت) علی (رضی اللہ عنہ) سے کر دوں‘‘- [9]
وہ کاشانہ اقدس جس میں سیدہ طیبہ طاہرہ (رضی اللہ عنہا) کے شب و روز گزرے اور آپ (رضی اللہ عنہا) کی ذاتِ اقدس کی وجہ سے کاشانہ اقدس کو بھی وہ مقام ملا کہ جبریل امین کو بھی آپ(رضی اللہ عنہا)کے گھر مبارک کی چار دیواری کی عزت و حرمت کا پاس تھا اور اس گھر کی عظمت و رفعت کے کیاکہنے جہاں قرآنی آیات کا نزول ہوا اور جہاں سیدنا امام حسن و سید الشھداء امام حسین(رضی اللہ عنہ) اور سیدہ زینب (رضی اللہ عنہا) جیسی عظیم ہستیاں پرورش پاتی رہیں-یہاں صرف ایک روایت پہ اکتفاء کرتے ہیں جس سے آپ (رضی اللہ عنہا) کے گھرکی عظمت ورفعت مزیدروزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے-
حضرت بُرَيْدَه(رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
’’فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ لا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ‘‘ [10]
’’ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان میں اس کا نام لیا جاتا ہے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ان میں صبح اور شام‘‘-
’’جب آپ (ﷺ )نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) !یہ کس کے گھر ہیں؟ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ یہ انبیاء کے گھر ہیں -پس آپ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) عرض گزار ہوئے (یارسول اللہ (ﷺ)! کیا یہ گھر جس میں حضرت علی المرتضیٰ اور سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) رہتے ہیں- (یہ گھر مبارک بھی)ان میں شامل ہے تو حضورنبی رحمت(ﷺ) نے ارشادفرمایا :
’’نَعَمْ مِنْ اَفَاضِلِھَا‘‘[11]
’’ہاں ! یہ ان بہترین گھروں میں سے ایک ہے ‘‘-
سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) سے عقیدت کا دم بھرنے والے صحیح العقیدہ مسلمان ان شاء اللہ عزوجل روزِ محشر بخشش سے بہرہ مند ہونگے ،جیساکہ حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک سب سے پہلے جو جنت میں داخل ہوں گے وہ مَیں، (سیدہ) فاطمہ اور (سیدنا) حسن و حسین (رضی اللہ عنھم) ہوں گے-مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)پس ہم سے محبت کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: وہ تمہارے پیچھے پیچھے ہوں گے‘‘-[12]
حضرت فاطمہ کُبریٰ(رضی اللہ عنہا)روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’ہر ماں کا بیٹا اپنے عصبہ کی طرف منسوب ہوتا ہے سوائے (حضرت)فاطمہ (رضی اللہ عنہا)کی اولاد کے،پس میں ان کا ولی اور ان کا عصبہ ہوں ‘‘- [13]
مخدومۂ کائنات سے مروی احادیث مبارکہ:
سیدہ فاطمۃ الزہراء(رضی اللہ عنہا)سے اٹھارہ احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک ایک حدیث پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ متفق ہیں-[14]
حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے احادیث مبارکہ نقل کرنے والوں میں سے خلیفۂ چہارم سیدنا حضرت علی، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، حضرت انس بن مالک، حضرت اُم ہانی، حضرت اُم سلمٰی اور حضرت اُم رافع (رضی اللہ عنہا) قابل ذکر ہیں-
امام دار قطنیؒ نے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) سے منقولات مبارکہ پر ایک کتاب تالیف فرمائی جس کا نام ’’مسندِ فاطمہ(رضی اللہ عنہا)‘‘ رکھا-
وصال مبارک:
سیدہ خاتونِ جنت (رضی اللہ عنہا) کا انتقال مبارک11ھ میں 3 رمضان المبارک کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے وصال مبارک کے چھ ماہ بعد ہوا- [15]
حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے بیان کیا ہے:
’’سیدۃ النساء خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کی طبیعت مبارک ناساز تھی آپ (رضی اللہ عنہا) نے اس میں وصال مبارک فرمایا اور میں تیماردار تھی ، ایک دن صبح سویرے میں نے دیکھا کہ آپ (رضی اللہ عنہا) کو افاقہ نظر آرہا تھا اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کسی کام سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء(رضی اللہ عنہا)نے فرمایا: اے امی جان! میرے لئے پانی انڈیل دو، (بس ) میں نے پانی تیار کر دیا اور جس طرح آپ (رضی اللہ عنہا) تندرستی میں غسل فرماتی تھیں ویسے ہی خوب غسل فرمایا، پھر آپ (رضی اللہ عنہا) نے نئے کپڑے طلب فرمائے، مَیں نے ان کو نئے کپڑے بھی دے دئیے جو انہوں نے خود پہن کر فرمایا : امی جان ! اب آپ ذرا میرے لئے گھر کے وسط میں بچھونا بچھا دیجئے، میں نے یہ بھی کردیا ، پس آپ (رضی اللہ عنہا) بستر پر استراحت فرما ہوئیں اور قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنا ایک دستِ اقدس اپنے گال کے نیچے رکھ کر کہا: اے امی جان! اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جا رہی ہوں اور میں نے غسل بھی کر لیا ہے پس اب کو ئی اور مجھ سے کپڑا نہ ہٹائے اور اس کے بعد آپ (رضی اللہ عنہا) کی روح مبارک پرواز کرگئی‘‘- [16]
مزار پرانوار:
مشہور روایت کے مطابق سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ﷺ) کا مزار پر انوار جنت البقیع میں مرکز انوار و تجلیات ہے-
حضرت سلطان باھوؒ
کا خراج عقیدت:
حضرت سلطان باھوؒ نے جن مقدس ہستیوں سے اکتساب فیض کیا ان میں سیدۂ خاتون جنت(رضی اللہ عنہا) کا مبارک نام بھی ہے-آپ (رضی اللہ عنہا) حضرت سیدہ پاک (رضی اللہ عنہا) سے اکتساب فیض کے حصول کے بعد یوں رقمطراز ہیں:
’’حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا)نے مجھے اپنا فرزند بنا لیا اور مَیں معرفت ِ فقر کے مرتبۂ کمال پر جا پہنچا‘‘- [17]
’’جو شخص آلِ نبی (ﷺ) و اولاد ِعلی وفاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کا منکر ہے وہ معرفت ِالٰہی سے محروم ہے‘‘-[18]
’’مَیں سادات سے دوستی رکھتا ہوں کہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ)کا نور ہیں اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)کے نورِ نظر ہیں- سادات کا دشمن حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کا دشمن ہے اور مصطفےٰ (ﷺ) کا دشمن اللہ عزوجل کا دشمن ہے‘‘ -[19]
حضور سلطان العارفینؒ نے آپ (رضی اللہ عنہا) کے فقر و فاقہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضور نبی رحمت(ﷺ) نے حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے احوالِ فقر و فاقہ دیکھے تو سکر و جلالیت میں آکر فرمایا: ’’اے خاتونِ جنت! اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس قدر طاقت دے رکھی ہے کہ اگر مَیں تمہارے گھر کے در و دیوار پر نظر کردوں تو وہ سونے کے ہو جائیں اور تمہارے گھر کے تمام سنگریزے لعل جواہر و یاقوت بن جائیں- کہو تو مَیں توجہ کردیتا ہوں اور تم دنیا کی اِن چیزوں کو سمیٹ لو-لیکن حضرت فاطمہ(رضی اللہ عنہا) نے اِسے قبول نہ کیا اور عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول (ﷺ)! مجھے اِس فقرِ محمدی (ﷺ) کی لذت و ذائقہ پسند ہے کہ یہ وہ فیض و گنجِ الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مقرب دوستوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کرتا لہٰذا ہم نے اِس فقر کو اختیار کر رکھا ہے‘‘- اِس پر حضور نبی رحمت (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اے خاتونِ جنت! تُو فقیر ہے تو مجھے اِس فقر پر فخر ہے کہ یہ میرا خاص سرمایہ ہے ‘‘ -[20]
ارمغان حجاز میں حضرت علامہ اقبال ؒ دختران ملت سے مخاطب ہیں :
اگر پندی ز درویشی پذیری |
’’اگر اس درویش کی نصیحت کو تو یاد رکھے، تو ہزاروں قومیں مر جائیں گی مگر (اے دختر) تیری قوم نہ مرے گی ‘‘-
بتولی باش و پنہاں شو ازیں عصر |
’’اسوۂ بتول کو اپنا لے اور اس جہاں کی آلودہ نگاہوں سے اپنے آپ کو چھپالے پھر تیری آغوش میں شبیر (حسین) (رضی اللہ عنہ) ہوں گے ‘‘-
حرف آخر:
سیدۂ کائنات (رضی اللہ عنہا) کے اخلاق عظیم اور سیرت مطہرہ سیرت نبوی (ﷺ) کے گرد گھومتی ہے- بطور بیٹی، زوجہ اور ماں آپ (رضی اللہ عنہا)کا کردار نہ صرف قابل تحسین بلکہ قابلِ تقلید ہے- اس لئے اقبال نے کہا کہ ’’مادراں را اسوۂ کامل بتول‘‘ کہ آپ کی ذات گرامی کُل عالَم کی خواتین بالخصوص ماؤوں کیلئے اسوۂ کامل ہے اور دختران اسلام کے لیے مشعل راہ ہے -
ہم اپنے معاشرے میں غور کریں تو مادیت پرستی اور جدیدیت کے طوفان بدتمیزی نےآزادی کے نام پر تباہی مچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہے- چار دیواری کی پاک دامنی اور عفت کو آزاد خیالی نے ایسے چوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا جہاں بیہودگی نے نئی روشنی کے خواب تو دکھائے مگر ستر پوشی کے معدوم ہو جانے سے پرانے اندھیرے کا شرف و طہارت بھی کھو گیا- اسلام عورتوں کے حق میں رحمت کا ابدی پیغام ہے- اسلام نے جو مقام عورت کو عطا فرمایا اس سےانسانی عقل ششدر و حیران رہ جاتی ہے لیکن افسوس! آج عورت اسی اسلام کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے-تاریخ اس بات پہ شاہدہے کہ اسلام نے زندہ درگور لڑکیوں کو زندگی بخشی یہود و نصارٰی کے ظالمانہ سلوک سے مامون کیا- ہنود کی مظلوم عورت کو ستی جیسی ظالمانہ رسم سے محفوظ کر کے وراثت کا حقدار اور نکاح ثانی کا اذن دیا اور ہر قسم کے معاشرتی، معاشی، خانگی معاملات اور مراعات کا حقدار ٹھہرایا- علمی و اخلاقی میدان میں مساوات کی بناء پر ہی ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ ‘‘ [21]کا فرمان روز روشن کی طرح عیاں ہے جس طرح علوم و فنون کی تحصیل کو یکساں قرار دیا گیا- اسی طرح ’’او امر و نواہی‘‘ کی پابندی پر اجر کی تقسیم بھی برابری کی سطح پہ کی گئی- جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ‘‘[22]
’’جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے‘‘-
بلاشبہ سیدۂ کائنات (رضی اللہ عنہا) کی پاکیزہ اورقرآن وسنت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی زندگی مبارک کے ہر پہلو میں انسانیت کی فلاح کا راز مضمر ہے-آج اس پرفتن دور میں عالم اسلام کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کیلیے پیغام ہے کہ وہ سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کے دامن سے وابستہ ہو کر آپ (رضی اللہ عنہا) کی پاکیزہ و مصفا سیرت پر عمل پیرا ہوں-امام السنت الشاہ احمد رضا خانؒ کے سلام کے ساتھ اختتام کرتے ہیں :
سیّدہ زاہرہ طیّبہ طاہرہ |
٭٭٭
[1](تاریخ دمشق ،باب: ذكر بنيه وبناته عليه الصلاة والسلام وأزواجه(ﷺ)
[2](معجم الکبیر للطبرانی،من مناقب فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)
[3]( سنن الترمذى، کتاب المناقب)
[4](صحیح البخاری ،کتاب الاستئذان)
[5]( مستدرک حاکم ، ذِكْرُ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)
[6]( صحیح البخاری،کتاب الاستئذان)
[7](معجم الکبیر للطبرانی،من مناقب فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)
[8]( سنن الترمذی ،ابواب المناقب)
[9](المعجم الکبیر للطبرانی، باب: من مناقب ابن مسعودؓ)
[10]( النور:36)
[11]( تفسیر در منثور ، زیرِآیت، النساء:36)
[12](المستدرك على الصحيحين، ذِكْرُ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)
[13]( مسند أبی يعلى، ج:9، ص:136)
[14](خلاصہ تذھیب تذہیب الکمال ، ج: 3، ص: 502 )
[15](عمدۃ القاری، باب: مناقب فاطمہ (رضی اللہ عنہا)
[16]( فضائل الصحابہ لامام أحمد بن حنبلؒ،)
[17]( عقلِ بیدار)
[18]( نور الہدیٰ)
[19](ایضاً)
[20]( محک الفقرکلاں)
[21]( شرح مسند ابی حنیفہ ؒ،باب: ذكر إسناده عن القاسم بن عبد الرحمن(ؒ)
[22]( النحل:97)