انسانی فطرت ہر معاشرے میں امن،سکون،آتشی،محبت، بھائی چارہ،عدل و انصاف کی متلاشی و خواہش مند رہی ہے-معاشرے کو منظم طور پر چلانے، امن کا گہوارہ بنانے،معاشرتی توازن برقرار رکھنے، سماجی ضروریات کوپورا اور ان تمام عناصر کا اہتمام و انتظام کرنا جس کی متلاشی و منتظر انسانی فطرت ہمیشہ سے رہی ہے اس لئے انسانی اور معاشرتی رویوں کو ایک ضابطے کے تابع لانے کےلئے قانون کی معاونت و ضرورت پیش آتی ہے- قانون ایسا معاشرتی ادارہ ہے کہ جس سے معاشرتی امنگو ں کی باضابطہ طور پر ترتیب دی جاتی ہے-مشہور سری لنکن قانون دان Mickey Dias قانون کو سماجی ادارے کی طور پر گردانتے ہوئے قانون کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
“Law is a social institution”.[1]
’’قانون ایک سماجی ادارہ ہے‘‘-
قدرت نے ہندوستان کوبرطانوی نو آبادیاتی نظام سے نجات دلانے، ہندوؤ ں کا اپنی اکثریت پرمبنی حکومت کے قیام کے خوابوں کو پورا نہ کرنے دینا،بیرونی تسلط سے چھٹکارا و آزادی دلانے اور مسلمانوں کو خود مختار ریاست کے قیام کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ) کو ایک منفرد سوچ اور قائدانہ بصیرت جیسی خصوصیات عطا کیں-آپ (رحمتہ اللہ علیہ) مزاج شناسی اور حالات و اقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے اور وقت کی نزاکت کو سمجھ کر اگلے اقدام اٹھاتے-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنی زندگی کو مرحلہ وار سر انجام دیا-آپ(رحمتہ اللہ علیہ) نے سیاست میں سب سے پہلے انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے قدم رکھا -
یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ)متحدہ ہندوستان کے حامی رہے لیکن اس کی وجہ آپ کی ایک جمہوریت پسند سیاست دان ہونے کی نشانی تھی یا پھروقت کا مطالبہ،یا مسلمانوں میں سیاسی شعور کا پہلا مرحلہ تھا -شاید ان حالات میں علیحدگی کا نعرہ لگانا،اس کی تحریک چلانا اور برطانوی سامراج سے اپنی بات منوانا ممکن نہ تھا-مسٹر جناح تحریک آزادیِ ہند کے ایک بڑے رہنما تھے جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام شروع کیا تھا لیکن بعد میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ملک کی طرف مرحلہ وار اقدام اٹھائے-
قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)زندگی کے کسی بھی معیار میں ایک اہم زندگی کے حامل انسان تھے، ان کی کثیرالجہت خصوصیات کی حامل شخصیت نے زندگی کے کئی شعبوں میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں-یقیناً تاریخ ِ برصغیر میں کئی ایسے کردار تھے جنہوں نے بہت سے کارنامے سر انجام دیے،لیکن وہ برصغیر کے بڑے قانونی وکیلوں میں سے ایک تھے، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر،آئین پسندی کا رجحان رکھنے والے، ایک ممتاز پارلیمانی لیڈر،ایک اعلیٰ ترین سیاستدان، ایک ناقابل شکست حریت پسند سپاہی،ایک متحرک مسلمان رہنما،سیاسی حکمت عملی جیسے اوصاف کی درخشاں مثال اور عہد حاضر کےعظیم قوم سازوں میں سب سے ممتاز رہنما تھے-قانون کا فہم ِ کامل رکھنے والے بحیثیت قانون کا طالبِ علم ہونے،قانون بنانےوالے،سامراجی قانون ساز اسمبلی کے رکن کی صورت میں بطورقانونی معاونت و دادرسی کرنے والے وکیل، قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے جج(جوکہ پریزیڈنسی مجسٹریٹ کی سیٹ پربرا جمان ہونےکی صورت میں ہمارے سامنے ہے)اور قانون کو نافذ کرنے والے بصورت گورنر جنرل اور قانون پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے والے،قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لئے سعی کرنے والے،غرض زندگی کےہر پہلو کو آپ(رحمتہ اللہ علیہ) قانونی عینک لگا کر دیکھتے تھے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کی قانونی علمیت، قابلیت اور صلاحیت تمام حیثیتوں میں ہمارےسامنے موجود ہیں-جناح کی قانونی قابلیت کے نہ صرف قانون دان بلکہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات معترف ہیں-
“President Bill Clinton during his visit to Pakistan in the year 2000 at the lunch given in his honor by the Chief Executive remarked that Mr. Jinnah was the greatest constitutional lawyer of the Common Wealth”.
’’صدر بل کلنٹن نے 2000ء میں پاکستان کے دورے کے دوران چیف ایگزیکٹو کی طرف سے اعزاز یہ دوپہر کے کھانے پر کہا کہ جناح دولت مشترکہ ریجن کے سب سے بڑے آئینی وکیل تھے‘‘-
“In a Broadcast from B.B.C., Sir Stafford Cripps spoke of him as “a most accomplished lawyer outstanding amongst Indian lawyers and a fine constitutionalist.”
’’بی بی سی کے ایک نشراتی پروگرام میں،سر اسٹافورڈ کرپس نے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ’’بھارتی وکلاء میں سے ایک بہت زیادہ قابل وکیل اوربہترین آئین ساز(آئین پسند) تھے‘‘-
“One might recall the opinion of Mahatma Gandhi, who, in his letter to Lord Birkenhead, described Mr. Jinnah and Sir Tej Bahadur Sapru as the two cleverest lawyers of India”[2].
’’ماہاتما گاندھی نے لارڈبرکن ہیڈ کو اپنے خطوط میں اس بات کی وضاحت کی کہ، مسٹر جناح اور سرتاج بہادر سپرو بھارت کے دو ہوشیار ترین وکیل ہیں‘‘-
قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کی طلسماتی شخصیت کا طرز عمل آئین پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے-جس کا اعتراف ہمارے سامنے ان تمام حوالوں سے آتا ہے-آپ(رحمتہ اللہ علیہ)بڑے مدلل انداز میں پاکستان کی جدوجہد مختلف صورتوں میں زیربحث لائے اور ثابت کیا کہ پر امن آئینی جدوجہد ہی سب سے بہتر اور درست راستہ ہے-انہوں نے مسلم مطالبات کی طرف سے ممکنہ حد تک سیاست اور خاص طور پر آئینی اور قانونی حفاظت کے لئے ان کی سیاسی و ثقافتی شناخت اورحقوق و مفاد کے لئے کام کیا-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے ہرحیثیت میں اپنے کام میں مخلص ہو کر غیر جانبدارانہ و آزادانہ کام کیا جس کی امثال کو دیکھنے کے لئے تاریخ کے اوارق گردانی کی جائے تو واضح ثبوت ملتے ہیں ،کہ مقننہ کےایک رکن کی حیثیت سے ہندوستان میں نافذ العمل قوانین کو کیسے زیر بحث لاتے جیساکہ سامراجی قانون سازکونسل کے ممبر کی حثیت سے آپ نے مختلف قوانین پر تبصرے فرمائے:
’’25 فروری 1910ء کو آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے مسلمانوں کے وقف علی الاولاد کے قانون کے سلسلے میں حکومت کے موقف کو چیلنج کیا-25 فروری 1913ء کو قائد اعظم(رحمتہ اللہ علیہ)نے سامراجی قانون ساز (imperial legislative) کونسل میں مجرم پناہ گزین برائے ترمیم پیش کیا،5 مارچ 1913ء کو پہلے ہندوستانی کی حیثیت سے ہندوستانی فوجداری قانون کے بل پر اظہار کیا،رولٹ ایکٹ کی منظوری پر کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفیٰ ہوگئے-14نومبر 1923ء کو قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) بمبئی سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوئے، جس میں 5 جون 1924ءاسٹیل انڈسٹری بل پر بحث کی اور وہ بل منظور ہوا،انڈین پینل کوڈ اختیار کرنے کے سلسلے میں اپنا ووٹ ڈالا، 3 فروری 1925ء کو ’’میڑنٹی بینیفٹ بل ‘‘اور خصوصی شادی بل پر اسمبلی میں اظہارِ خیال کیا اور 11 مارچ 1930ء کو صوبہ سرحد میں اصلاحات کے نفاذ کے حوالے سے اسمبلی میں بحث کی-(قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) کی ڈائری سے اقتباسات کی روشنی میں) ‘‘-[3]
یورپ میں زیادہ عرصہ گزارنے کی وجہ سے برطانیہ کی سیاست سے روشناس ومتاثر ہو کر اپنے ملک میں بھی اسی طرز و روش پر ریاستی و حکومتی نظام کو چلانے و دیکھنے کی امنگ نمودار ہوئی-وہ ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان چاہتے تھے-ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنے فہم و فراست سے یہ بھانپ لیا تھا کہ برطانوی سامراجیت (imperialism) اپنے جبرانہ تسلط کے لئے ہر عمل کو قانونی رنگ دے کر پیش کرتی تھی-بالفاظ دیگر ہر قانونی و غیر قانونی فعل کو قانون کا لبادہ پہناتی تھی-جس کی بہت سی تاریخی و قانونی امثال ہمارے سامنے موجود ہیں-جن میں سے ایک مثال کا خلاصہ یوں ہے:
’’برصغیر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا قیام ظہیر الدین بابر کے فتح ِدہلی سے شروع ہوا جس کے وسط میں تجارتی غرض سے آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بتدریج انتظامی معاملات میں کنٹرول حاصل کرلیا-اس سلطنت کا خاتمہ برطانوی سامراجیت کی سرپرستی میں بہادر شاہ ظفر پر چلایا جانے والے نام نہاد غداری کیس کی صورت میں ہوا،کیس کی عدالتی ضوابط میں بہت سےقانونی ضابطوں کو پامال کیا گیا جس کو پھر بھی عدالتی کاروائی کےاصولوں سے ہم آہنگ اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کہا گیااور یوں آخری مغل بادشاہ کوجلاوطنی کی سزاسنائی گئی‘‘-[4]
1885ءمیں بننے والی انڈین نیشنل کانگریس ہندوؤں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت بن کر رہ گئی اور ہندوؤں کے حقوق کے تحفظ کےلئے آواز بلند کرنے لگی-اس سے مسلمان ہر شعبہ زندگی میں پیچھے رہ گئے-جسکو ڈاکٹر منیر الدین چغتائی یوں لکھتے ہیں:
’’1892ء کے قانونِ مجالس ہند کے تحت مقامی حکومتوں، یونیورسٹیوں،چیمبرز آف کامرس اور ثقافتی انجمنوں کےارکان کے ذریعے قانون ساز اداروں میں محدود تعداد میں ہندوستان کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا-اس کےنتیجے میں جتنے لوگ بھی قانون ساز اداروں میں چنے جاتے تھے وہ اکثر ہندو ہوتے تھے-اگر کوئی مسلمان منتخب ہو بھی جاتا تو وہ بےبسی کا نمونہ ہوتا تھا‘‘ [5]
اسی عرصے میں مسلمانوں کے لئے ایک نہایت اہم سیاسی واقعہ پیش آیا جس سے مسلمانوں کاسیاسی شعور بیدار ہوا-وہ پیش آنے والا واقعہ تقسیمِ بنگال تھا-جس تقسیم کی اہمیت و افادیت کو ڈاکٹر منیر الدین چغتائی یوں لکھتےہیں:
’’1905ءمیں برطانوی حکومت نے صوبہ بنگال کومغربی اور مشرقی دو (2) حصوں میں تقسیم کر دیا-آسام کو مشرقی بنگال میں شامل کردیا گیااور اس کے لئے ایک علیحدہ قانون ساز اسمبلی اور علیحدہ بورڈ آف ریونیو قائم کیا گیا-بنگال کی تقسیم سے مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہندوؤں کے مقابلے میں بہتر ہو گیا-ہندوؤں نے اس تقسیم کے خلاف ایک پرتشدد تحریک شروع کردی اور سارے بنگال میں امن و امان کو تہہ و بالا کر ڈالا، ہندوؤں کی مسلم دشمنی کی مختلف تحریکوں بالخصوص تقسیم بنگال کے خلاف ان کی مہم کے پسِ منظر میں اکتوبر 1906ء میں مسلمانوں کا ایک وفد گورنر جنرل لارڈمنٹو سے شملہ میں ملا اور مطالبہ کیا کہ مسلمان ووٹروں کو یہ حق دیا جائے کہ تمام قانون ساز اداروں میں وہ اپنےنمائندے جداگانہ انتخاب کی بنیاد پر خود چنیں ‘‘-[6]
انہی حالات کے پیشِ نظر 1906ءمیں مسلمانوں نے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت تشکیل دی جس کے مطلوب و مقصود مسلمانوں کی جداگانہ انتخاب کا حق حاصل کرنا اور ان کے سیاسی و سماجی تنزلی کی صورتِ حال سے نبرد آزما ہونا تھا-
جداگانہ انتخاب سے مراد ووٹروں کو یہ حق دیا جائے کہ قانون ساز اداروں میں وہ اپنے نمائندے جداگانہ انتخاب کی بنیاد پر چنیں،اگر ایسا حق تسلیم نہ کیا جاتا تومسلمان ہندو اکثریت کے ہاتھوں مجبور ہو کر رہ جاتے-جداگانہ انتخاب سے ہی انہیں یہ حق مل سکتا ہے کہ وہ اپنے ایلیکٹڈ نمائندے قانون ساز اداروں میں بھیج کر حقوق کی حفاظت کے فرائض انجام دیں-مسلمانوں کی دن دگنی رات چگنی کوششوں سےقانون مجالسِ ہند 1909ء کے ذریعے مسلمانوں کو محدود تعداد میں نمائندگی حاصل ہوئی -
‘‘The Indian councils act, 1909 enlarged the size of legislative councils of governors general & the governors of various provinces, which include the nominated as well as elected members. Muslims were given separate representative and Muslim members of the legislature were to be elected by Muslim alone. The demand for a separate electorate was thus accepted”.[7]
’’انڈین نیشنل کانگریس برصغیر میں ہندوؤں کی نمائندہ جماعت اور ان کا اکثریت میں ہونے کی وجہ سے سیلف گورنمنٹ کامطالبہ کررہی تھی جس کو 1913ء میں مسلم لیگ نے بھی اپنے منشور میں شامل کر لیا جس کواپنے چھٹے سیشن میں ایک قرار داد جو کہ لکھنو 22-23 مارچ 1923ء میں منعقد ہوئی جس میں قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)ایک مہمان کی صورت میں شریک ہوئے جس کی حمایت بعد میں قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے کی‘‘-
“After the careful analysis of the Indian political situation and of the trend of political events in the country, the council has proposed “the attainment, under the aegis of the British crown, of a system of self-government suitable to India “as the final goal towards which our ought to be directed ”.[8]
’’ملک میں انڈین سیاسی صورتحال اور سیاسی واقعات کے رحجان کے محتاط تجزیہ کے بعد کونسل نے سفارش کی کہ حتمی مقصد کے طور پے تاجِ برطانیہ کے تحت ہند کےلئے ایک مناسب خود مختار نظامِ حکومت کا حصول ہو جس کی جانب ہماری چاہت بھی ہو‘‘-
مذکورہ بالا قرارداد کے پاس ہو جانے کے بعد،قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)مسلم لیگ میں شامل ہو گئے ،لیگ کے اسی بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک وفد کے ساتھ مئی 1914 ء انگلستان میں تشریف لےگئے اس موقعہ پر برطانوی حکومت کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے کہا:
“India is perhaps the only member of the British Empire without any real representation and the only civilized country in the world that has no real system of representative government”.[9]
’’بھارت ممکنہ طور پر شاید دنیا بھر میں برطانوی سلطنت کا بغیر کسی نمائندگی کے واحد رکن ملک ہےجہاں نمائندہ حکومت کا اصل نظام موجود نہیں ہے‘‘-
’’جداگانہ انتخابات کا حق دینے کے ساتھ ہی ،1905ء میں ہونے والی تقسیمِ بنگال کو 1911ءمیں ختم کردیا گیا جس پر مسلمان حکومتِ برطانیہ سے سخت برہمی کا شکار تھے اس منسوخی کا مطلب سامراج کی ہندوؤں کو حمایت تھی کیونکہ مشرقی بنگال کے خاتمے سے مسلمان ایک دفعہ پھر ہندو اکثریت کے سائے میں دبتے نظر آ رہے تھے-اس واقعہ نےبرصغیر کی سیاست و تاریخ کا دھارا قیامِ پاکستان کی طرف موڑا اسی وجہ سے مسلم لیگ نے سیلف گورنمنٹ کا مطالبہ پیش کیا جس کا ثبوت مسلم لیگ کی قراردادوں سے ملتا ہے‘‘[10] -
برطانیہ نے اپنے وعدوں سے منحرف ہوتے ہوئے مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی جذبوں کو ٹھیس پہنچائی جس کا ثبوت خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے میں برطانیہ کا ہاتھ ہے-ترکی سے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی وابستگی خلافتِ عثمانیہ کے وجود سےتھی-پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کے بر خلاف ہندوستان کے مسلمانوں نےانگریزوں کا ساتھ دیا اس ضمانت پرکہ جنگ کے بعد ترکی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا-لیکن جرمنی و ترکی کو شکستِ فاش ہوئی جب پہلی جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچی تو برطانوی حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہوگئی اور ترکی کے بہت سے علاقے بخرے کر دیئے گئے-مسلمانوں نے خلافت کے تحفظ میں ایک تحریک چلائی جو کہ تحریک ِخلافت کے نام سےموسوم ہے،اس تحریک کی مزاحمت اور حکومت کے خلاف احتجاج کو روکنے کے لئے برطانیہ کی طرف سے رولٹ ایکٹ 1919ء کے نام سے موسوم بل پیش کیا گیا-رولٹ ایکٹ جیسے قانون کے ذریعے بنیادی حقوق تحریر و تقریر اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی اس قانون کی برصغیر میں مخالفت شروع ہوئی-’’28 مارچ1919ء قائد اعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ)رولٹ بل کی منظوری کے بعد کونسل کی رکنیت سے مستعفیٰ ہوگئے‘‘[11]-
’’ہندوستان میں مجلسِ قانون ساز کا آغاز 1861ء سے ہوتا ہےجبکہ پہلی مرتبہ ایک مختصر سا ادارہ قائم کیا گیا-جس کے ممبران کی تعداد بالکل مختصر اور اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے-1885ء میں کانگریس کے قیام ساتھ ہی ہندوستان میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ 1861ءکےقانونِ حکومت ہند میں ترمیم کر کے مجلسِ قانون ساز کے ممبران کی تعداد اور اختیارات میں اضافہ کیاجائے-چنانچہ ہندوستانیوں کے مطالبات کوتسلیم کرتے ہوئے 1882ء میں ایک نیا قانون جاری کیا گیا-لیکن یہ قانون بھی ہندوستان کی توقعات پر پورا نہ اترا اور بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی روکنے کی غرض سے حکومت کو جلد ہی ایک اور قانون جاری کرنا پڑا جو منٹو مارے اصلاحات کےنام سے مشہور ہے-ان اصلاحات کے ٹھیک دس سال بعد مانٹیگو چمسفورڈ (Montagu Chemsford) اصلاحات کے ذریعے ہندوستانیوں کےمطالبہ خود اختیاری کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی-اس قانون میں ایک شق یہ رکھی گئی تھی کہ دس (10)سال کے بعد ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا جو اس قانون کی کارکردگی کا جائزہ لے کر حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرے گا‘‘-[12]
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کی شق چوراسی -A کے تحت 1927ء میں تاج برطانیہ کی طرف سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے برطانوی ہند کے لیے ایک آئینی کمیشن مقرر کیا گیا-کمیشن کی تقرری 1919ء کے ایکٹ کے دس سال بعد ہونی تھی لیکن سیاسی حالات میں کشیدگی کے پیشِ نظر مقررہ وقت مکمل ہونے سے پہلے ہی سر جان سائمن کی سربراہی میں سائمن کمیشن نامی برصغیر میں بھیجا گیا-سات افراد پر مشتمل اس وفد میں ایک بھی ہندوستانی باسی نہیں تھا وفد میں شامل ارکان سب کے سب انگریز تھے- یہی وجہ ہے کہ بعض مصنفین نے اسے White Commissionکا نام بھی دیا-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے برصغیر کےقانون پر رپورٹ دینے والے کمیشن میں کسی بھی برصغیر کی نمائندگی کرنے والوں کی عدم شمولیت کو دیکھتے ہوئے سخت برہمی کا مظاہرہ کیا جس کا واضح ثبوت میڈیا کےایک ممبر کے سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)سےملتا ہے:
’’میرے لئے تو ایسے کمیشن کا تصور ہی شاق ہے جو ہندوستان کے آئندہ آئین اور 35 کروڑ ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا ہو اور اس میں ایک ہندوستانی بھی شامل نہ ہو-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص آل انڈیا مسلم لیگ اورگانگرس پر زور دیا کہ وہ اعلان کے متعلق کاروائی کریں ‘‘-[13]
قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے اس کمیشن کے خلاف متحد ہونے، اتفاق اور یک جہتی کے ساتھ اُن کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کی اپیل کی-
’’ادھر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے امور ہند لارڈ برکن ہیڈ (Lord Birkenhead) نے (جنہیں مولانا محمد علی جوہر لارڈ بروکن ہیڈ کے نام سے یاد کرتے تھے) ہندوستانیوں کو طعنہ دیا کہ نہ تو وہ خود ہی ہندوستان کے لئے کوئی متفقہ آئین تیار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کمیشن کے ساتھ تعاون کرتے ہیں چنانچہ ہندوستانیوں نے برکن ہیڈ کے چیلنچ کو قبول کرتے ہوئے ایک متفقہ آئین تیار کرنے کا فیصلہ کیا-اس سلسلے میں ہندوستان کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس آل پارٹیز کانفرنس کےنام سے 19 مئی 1928ء کو بمبئی میں منعقد ہوا-چونکہ اس اجلاس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے لیڈر اور مختلف الخیال سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ پنڈت موتی لال نہرو کی زیر قیادت ایک مختصر سی کمیٹی قائم کی جائےجو ہندوستان کےلئے ایک آئین تیار کرے‘‘-[14]
اس آل پارٹیز کانفرنس میں موتی لال نہرو کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا-کمیٹی کا مقصد ہندوستان کیلئے ہندوستانیوں کے ذریعے ایک آئینی ڈھانچے کو تشکیل دینا تھا- مذکورہ بالا کمیٹی کی مرتب کردہ آئینی رپورٹ کونہرو رپورٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے-جو ہندوستان میں آباد تمام قومیتوں کے لیے قابل قبول ہو لیکن ہمیشہ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کانگریس نے محض ہندوؤں کے حقوق کے لئے اعلامیہ دیا-جس پرغور و خوص کرنے کے لئے مسلم لیگ کا کلکتہ میں بیسواں اجلاس منعقد ہوا جس کا خلاصہ پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد یوں پیش کرتے ہیں:
30 -26“ Dec. Twentieth session of AIML held at Calcutta with Moulvi Abdul Karim as Chairman, Reception Committee, and Mohammad Ali Muhammad Khan, Mahraja of Mahmudabad as President. Resolution adopted included those forming a delegation to attend the convention called by the Indian National Congress and resolving to adjust various outstanding questions between Hindu & Muslims regarding the Nehru Report; declining to send a delegation to the All-Parties Muslim Conference, terming it as a “rival” and reactionary organization; supporting afghan king Amanulllah Khan in his nation building efforts”.[15]
’’26 اور 30 دسمبر کو آل انڈیا مسلم لیگ کاکلکتہ میں بیسواں اجلاس منعقد ہوا ، جس میں مولوی عبد الکریم بطورِ چیئرمین ،استقبالیہ کمیٹی اور محمد علی محمد خان ، محمود آباد کے مہاراجہ نے صدارت کی-قرار داد منظور کرنے میں شامل افراد جنہوں نےانڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے کنونشن میں نامزد افراد کی شرکت کے لئے ایک وفد تشکیل دیا اور نہرو رپورٹ میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ اختلافی سوالات کوحل کیا گیا-آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں وفد بھیجنے کو مسترد کرتے ہوئے، اسے ’’حریف‘‘اور رجعت پسند تنظیم کے طور پر گردانا؛ افغان بادشاہ امان اللہ خان کواپنی قوم کی تعمیر ی کوششوں میں حمایت کی‘‘-
روزنامہ انقلاب کے نمائندہ خصوصی سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے نہرو رپورٹ کے متعلق فرمایا:
’’جس حد تک نہرو رپورٹ کے اصول اساسی کا تعلق ہے میں اس کے سخت خلاف ہوں-میرےنزدیک یہ اصول مسلمانوں کے مقاصدکے منافی ہیں-اس لئے میں نہرو رپورٹ کا مخالف ہوں-میرےخیال میں نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے مقاصد ِ اساسی کی حفاظت کے لئے کوئی سامان موجود نہیں اور جب مسلمان ان تمام شرائط کو منوانہ لیں گےجو میرے مرتبہ مسودہ میں موجود ہیں اس وقت تک مسلمان ہندوستان میں اپنی مستقل قومی حیثیت کو محفوظ نہیں بنا سکیں گے‘‘-[16]
کانگریس کا سر کردہ رکن رہنے کی وجہ سے آپ کو ہندو ذہنیت کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا-اس کنونشن کے بعد قائد اعظم(رحمتہ اللہ علیہ) نے نہرو کمیٹی کی مسلم کش دستوری سفارشات کو مسترد کرنے کے بعد ترامیم پیش کیں، جن میں :
· مسلمانوں کے لئے مرکزی اسمبلی میں ایک تہائی نمائندگی،
· پنجاب اور بنگال میں آبادی کے تناسب سے نشستوں کا تحفظ،
· آئندہ کسی بھی آئین میں مسلمانوں کا جداگانہ انتخا ب کا حق موجود رہے،
· سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک جداگانہ صوبہ کی حیثیت دی جائے اور بقیہ اختیارات مرکز کو دئیے جائیں-
جس کے ردعمل میں ہندوؤں نے ترامیم لانے سے انکار کیا-جس کے لئے قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے نہرو رپورٹ کے جواب میں چودہ (14) تاریخی نکات پیش کئے جو کہ آئندہ کے لئے مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد اور مسلم لیگ کا منشور بنے اور تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں-آپ نے یہ نکات پیش کر کے ہندوؤں پر حتمی طور پر یہ بات واضح کر دی کہ ان مطالبات کو کلی طور پر تسلیم کیے بغیر ہندوستان میں کوئی بھی دستوری ڈھانچہ نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا-وہ تمام ترامیم جو مندرجہ بالا مذکور ہیں ان کا واضح عکس قائد اعظم کے پیش کردہ نکات میں نظر آتا ہے-
سائمن کمیشن رپورٹ کے شائع ہونے پر ہندوستان کے لوگوں کی طرف سےپیش کی گئی مذمت پر برطانوی حکومت نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کے حل کے لئےلندن میں 1930ء سے 1932ء میں تین گول میز کانفرنسسز کا انعقاد کیا جوکہ ہندوؤں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچے بناء ختم ہوئیں-
برصغیر کے آئینی مسائل کے حل کے لئے 1935ءمیں برصغیر کا آئینی ڈھانچہ برطانوی حکومت نے نہایت ہی جامع گورنمنٹ آف انڈین ایکٹ، 1935ء کی صورت میں دیا جس میں بہت سے مطالبات جو نہرو رپورٹ میں تر میم کر کے شامل کرنے کےلئے کہے گئے تھے مانے گئے-اسی ایکٹ کی روشنی میں1937ء کوتمام صوبوں میں جو کہ اول الذکر ایکٹ کے تحت قائم کیے گئے ان میں انتخابات منعقد ہوئے اور اکثر صوبوں میں کانگریسی حکومتیں بنی-
قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے مسلمانوں کو ہر قیمت پر آزادی حاصل کرنے کے لئے کہا لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیشہ قانونی راستہ اپنانے کو کہااور ایسا راستہ اپنانے سے تنبیہ کی جو غیرقانونی ہو -قانون کی پاسداری کی وجہ سے گاندھی کے مقابلے آپ کو کبھی بھی جیل میں نہیں جانا پڑا-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے بطور صدر مسلم لیگ کے کارکنان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ:
’’لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارا مقصد کیاہے؟ میں کہتا ہوں کہ اب بھی تم ہمارا مقصدنہیں سمجھ سکے تو کبھی بھی نہ سمجھ سکو گے کہ مطلب بالکل صاف ہے-برطانیہ عظمیٰ ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے -مسٹر گاندھی اور کانگرس مسلمانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں-ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنے پر نہ برطانیہ کو حکومت کرنے دیں گے نہ مسٹر گاندھی کو -ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں‘‘-[17]
جب قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے آزادیٔ ہند کے لیڈر سے ارتقاء کرکے آزادیٔ پاکستان کے مجاہد ہونے کے راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا-انہوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا- مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے اہداف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی-
درحقیقت کانگریسی برطانوی سامراج سے مطالبہ کر رہے تھے کہ علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیے گئے دو قومی نظریے کے برعکس بر صغیربطور ِمتحدہ ہندوستان کے واحد قوم کے فلسفے پر قائم رہے-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے ہندوؤں کے کبھی نہ پورے ہونے والےایسے خواب کو پاکستان کا قانونی مقدمہ لڑتے ہوئے 1942ءمیں دو قومی نظریہ کے حوالے سے اورمسلمانوں کو بحیثیت ِ قوم بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یوں ثابت کیا:
“We are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of values and proportion, legal laws and moral code, customs and calendar, history and tradition, aptitudes and ambitions; in short, we have our own distinctive outlook on life and of life. By all canons of international law, we are a nation”.[18]
’’ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں-زبان اور ادب،فنونِ لطیفہ،فنِ تعمیرات ،نام اور نام رکھنے کا طریقہ،اقدار اور تناسب کا شعور،قانونی اور اخلاقی ضابطے، رسوم اور جنتری، تاریخ اور روایات ،رجحانات اور امنگیں-ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفہ حیات ہے-بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے مطاق ہم ایک قوم ہیں ‘‘-
برصغیر میں علیحدہ اسلامی ریاست کے حصول کےلئے قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نےمسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوؤں کے خلاف اور برطانوی سامراج کے سامنے مسلمانوں کے حقِ خودارادیت کےلئے آواز بلند کی[19]-
قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)انگریزوں کی چالوں سے بخوبی آگاہ ہوچکے تھے لہذا انہوں نے برطانیہ کی طرف سے ہر اس کوشش کو رد کیاجس سے اس کو اپنے نو آبادیاتی نظام کو مزید تقویت پہنچے-جس کے لئے وہ مختلف تجاویز لائے،کبھی سر سٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں کرپس مشن کی صورت میں جس کا بنیادی مقصد نئی ہندوستانی یونین کی تشکیل تھا ،کبھی گورنر جنرل لارڈ ویول کے پلان کی شکل میں جس کا کام گورنر جنرل کی انتظامی کونسل کی تشکیلِ نو کا اشارہ تھا ،تو کبھی لارڈپیتھک لارنس کی سربراہی میں کابینہ مشن کے نام سے منسوب کر کے-ایسے اٹھائے گئے تمام اقدام کا مقصد برطانوی سامراجیت کومزید طوالت و تقویت دینا تھا نہ کہ ہندوستانیوں کو آزادی اور حقوق کی فراہمی-
اِس مرحلہ پہ معروف قانون دان اور ’’Constitutional and Political History of Pakistan ‘‘ کے مصنف حامد خان کی فائنڈنگز پہ نظر ڈالتے ہیں :
On the failure of the Cripps Mission, Gandhi began to press for an immediate withdrawal of the British from the India and the transfer of power to the Congress without a prior settlement with any other party. These ideas wer e formally adopted by the All India Congress committee meeting held in Bombay on 8 August 1942, in the famous ‘Quit India’ Resolution which demanded the withdrawal of British power from India”.[20]
’’کرپشن مشن کی ناکامی پر،گاندھی نے برطانیہ کو فوری طور پرہندوستان سےنکالنے اور بغیر کسی دوسری پارٹی کے ساتھ پیش رفت کئے،کانگریس کو اقتدار کی منتقلی پر دباؤ ڈالا-ان مطالبات کو 8 اگست 1942ءکو بمبئی میں منعقد ہونے والی آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں رسمی طور پر ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ اپنایا گیا تھا جس سے بھارت سے برطانوی اختیارات کی واپسی کا مطالبہ کیا‘‘-
“The Muslim were not any less insistent on the attainment of independence but they felt that of Congress agitation was to bring to about the establishment of Hindu raj and to deal a death blow to the goal of Pakistan. To Gandhi’s slogan of ‘Quit India’ Jinnah replied, ‘Divide and Quit”.[21]
’’مسلم آزادی کے حصول کےلیے کوئی کم متحرک نہیں تھے لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ کانگریس کی پریشانی ہندو راج کے قیام کے لئے تھی اور حصول ِ پاکستان کے مقصد کے لئے موت بھی کم تھی-گاندھی کے نعرہ’’ہندوستان چھوڑو‘‘کےجواب میں جناح نے نعرہ دیا،’’ہندوستان تقسیم کرو اور نکلو‘‘-
برطانیہ کا اپنی بقاء کی جنگ کے لئے لڑنے کا قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کو خوب اندازہ تھا جس کا اعتراف انہوں نےبہت پہلے سے ہی ان الفاظ میں کیا:
’’11 نومبر 1940ء کو اسمبلی میں انڈین فنانس بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ نے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ وہ جمہوریت کے لئے کوشاں ہے بلکہ وہ ہمیشہ سے یہ کہتا چلاآرہا ہے کہ وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے ‘‘-[22]
الگ قوم تسلیم کروانے کے بعد برطانیہ سے ایسی حقیقت منوائی کہ جس سے رخ موڑنا مشکل ہو گیا-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے فرمایا کہ ایسےپلان اور کمیشن کو قبول کرنے سے پاکستان کا مقدمہ کھائی میں پڑھ سکتا ہے-لہذا برصغیر میں موجود آئینی مسائل کے حل کے لئے عبوری انتظام کی بجائے مستقل اور حتمی حل تلاش کیا جائے جو کہ قیام پاکستان میں مضمر ہے-ان حالات میں ایک نیا حربہ استعمال کیا گیاجو کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں تھا جس کا جواب قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے 15جولائی کو بڑے منطقی انداز میں دیا کہ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد جماعت دیکھنے کےلیے عام انتخابات منعقد کروائے جائیں نہ کہ 1937ءمیں ہونے والے صوبائی انتخابا ت کو دیکھ کرکہا جائے[23]-اسی اعتراض کے جواب میں انڈین نیشنل کانگریس کو چیلنج کرتے ہوئے پریس کانفرنس کے موقع پر کراچی میں کہا :
“We are face to face with a very vital and paramount issue, and this (the general elections) is one of the important criteria by which the opinion in India and abroad will be generally influenced, as this is one of the tests by which the Muslim India can prove that we are solidly and determinedly in favor of Pakistan”.[24]
’’ہم ایک بہت اہم اور قابل قدر مسئلہ کےلیے آمنے سامنے ہیں اور یہ (عام انتخابات) ایک اہم کسوٹی ہیں جس سےہندوستان اور بیرون ممالک اثر انداز ہوں گے، کیونکہ یہ حتمی امتحان میں سے ایک ہے جس میں انڈین مسلمان اس بات کو ثابت کرسکتا ہے کہ ہم پاکستان کے حق میں مضبوطی اورمستقل مزاجی سے کھڑے ہیں‘‘-
چنانچہ 1945-46 میں مرکزی اور صوبائی انتخابات ہوئے-ان انتخابات میں ہندوستان بھر کے مُسلمانوں نے پاکستان کے حق میں فیصلے کے لئے حصہ لیا-مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی تیس (30) نشستیں تھیں جو کہ مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے حاصل کیں-صوبوں میں کل نشستیں 495 تھیں-ان میں سے مسلم لیگ نے 446 نشستیں حاصل کرکےیہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور مسلمان پاکستان حاصل کرنا چاہتے ہیں-
ایسے حالات میں قائدا عظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے مسلمانوں کو متحد رہ کر گاندھی و برطانوی سامراج کے سامنے لڑنے کےلئے کہا جیساکہ 2 نومبر 1945ء پشاور میں منعقدہ اجلاسِ عام میں فرمایا:
’’ہمارا کوئی دوست نہیں ہے-ہمیں انگریز پر بھروسہ ہے نہ ہندو بُنیے پر-ہم دونوں کے خلاف جنگ کریں گےخواہ وہ دونوں آپس میں متحد کیوں نہ ہو جائیں‘‘-
یوں حکومتِ برطانیہ کو قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کی فراست، دور بینی اور پاکستان کے حصول کےلئےپُر امن قانونی سعی کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 24 مارچ 1947ء کولارڈ ماؤنٹ بیٹن تقسیم ہند کے منصوبے کی تکمیل کےلئے دہلی پہنچے-اعلان کیا کہ جلد ہی اگلے چند ماہ میں ہندوستان کے راہنماؤں کی مشاورت سے اختیارات کی منتقلی برصغیر کے لوگوں کے ہا تھ کر دوں گا-3جون 1947ء کو حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کے اصولوں کو قبول کیا اور یوں 3 جون 1947ء کے پلان کو قانونی حیثیت دینے کےلئے آزادیِ ہندایکٹ(Indian Independence Act)کا نام دیا گیا- یوں اس ایکٹ کے نفاذ سے 15اگست1947ءکو دو آزاد و خود مختیار ریاستیں وجود میں آئیں-یوں قانون آشنا رہنما،قانون کا پاسدار نوجوان، قانونی بالادستی و حکمرانی کی وکالت کرنے والاقانون دان،قانون کو حقیقی معنوں میں نافذ العمل کرنے والے سپاہی،قائداعظم محمد علی جناح ()کی ایک خود مختیار ریاست کو معرض وجود میں لانےاور حاصل کرنے کی سعی مکمل ہوئی-
سدا سلامت پاکستان! |
٭٭٭
[1](Dias, Jurisprudence, P15)
[2]( Quaid-i-Azam as a Lawyer by Syed Sharifuddin Pirzada(Pakistan Journal of History & Culture, Vol.XXVIII, No.1, 2007))
[3]( قائد اعظم:ارشادات و اقتباسات(قائد اعظم کی ڈائری )،ص:86)
[4](میرے مشہور مقدمے،ایس ایم ظفر)
[5](حصولِ پاکستان کےلیےجدوجہد،ص:7)
[6]( حصولِ پاکستان کےلیےجدوجہد،ص:8)
[7]( Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) P.10)
[8](Foundations of Pakistan,v-1, P 257)
[9](The Times, London June 3)
[10]( Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) p.10)
[11]( قائد اعظم:ارشادات و اقتباسات،تحسین حسین،ص:88)
[12]( حیاتِ قائد اعظم چند نئے پہلو:مصنف احمد سعید،ص:22)
[13](روزنامہ زمیندار،لاہور،11 نومبر 1927،ص:4)
[14](حیاتِ قائد اعظم چند نئے پہلو:مصنف احمد سعید،ص:24)
[15]) All India Muslim League & Creation of Pakistan by Riaz Ahmad,P۔36(
[16](روزنامہ انقلاب،5 اپریل1929ء،ص:1)
[17](قائد اعظم:ارشادات و اقتباسات،تحسین حسین،ص:15)
[18](قائداعظمؒ:تقاریروبیانات،ج سوم،مترجم:اقبال احمد صدیقی)
[19])Resolutions of the all India Muslim League From April 1942 to May 1943,Dehli(
[20])Hamid Khan, Constitutional and Political History of Pakistan, 2nd ed. (Karachi: Oxford Press, 2009) p. (36
[21])Ibid.(
[22]( قائد اعظم:ارشادات و اقتباسات،تحسین حسین،ص:99)
[23])All India Muslim League & Creation of Pakistan by Riaz Ahmad,P151(
[24])All India Muslim League & Creation of Pakistan by Riaz Ahmad,P15(2
انسانی فطرت ہر معاشرے میں امن،سکون،آتشی،محبت، بھائی چارہ،عدل و انصاف کی متلاشی و خواہش مند رہی ہے-معاشرے کو منظم طور پر چلانے، امن کا گہوارہ بنانے،معاشرتی توازن برقرار رکھنے، سماجی ضروریات کوپورا اور ان تمام عناصر کا اہتمام و انتظام کرنا جس کی متلاشی و منتظر انسانی فطرت ہمیشہ سے رہی ہے اس لئے انسانی اور معاشرتی رویوں کو ایک ضابطے کے تابع لانے کےلئے قانون کی معاونت و ضرورت پیش آتی ہے- ق