تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم قائد تھے-تحریک پاکستان کو کسی بھی زاویے سے جانچا یا پرکھا جائے تو یہی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم قائد، محمد علی جناح نظریاتی بنیادوں پر بّرصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی اسلامی مملکت کے قیام کے داعی تھے-بہرحال اِس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کے عظیم مقاصد کو سبوتاژ کرنے اور اکھنڈ بھارت کے مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے اغیار کچھ عاقبت نا اندیش دانشوروں کی اختراع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قائد اعظم ؒ کی شخصیت کو من پسند معنی پہنا کر نئی نسل کو تحریک پاکستان کے مقاصد سے گمراہ کرنے کی منظم کوششوں میں مصروف ہیں-بھارتی سیاسی دانشوروں کی جانب سے پاکستان کی تاریخ مسخ کرنے کی کوششیں تو کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن صد افسوس کہ اِس منظم بھارتی پروپیگنڈا مہم کا منہ توڑ جواب دینے اور نئی نسل کو تحریک پاکستان کے حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے ریاستی سطح پر نہ تو مربوط کوششیں کی جا رہی ہیں نہ ہی پاکستان کے صوبوں، ضلعوں اور تعلقہ و تحصیلوں میں ریاستی سطح پر ایسے سرکاری یا نیم سرکاری فورم تشکیل دئیے گئے ہیں جو سول سوسائٹی میں مملکت پاکستان کی اساس کے بارے میں تیزی سے پھیلنے والے بیرونی پراپیگنڈے کا مناسب توڑ کر سکے-نظریہّ پاکستان کے حوالے سے لاہور میں آبروئے صحافت رجلِ حریت جناب مجید نظامی مرحوم کی فکر سے وابستہ نظریہ پاکستان کی تنظیم تو آج بھی متحرک نظر آتی ہے لیکن سرکاری اداروں میں پاکستان کی اساس کے حوالے سے خاموشی طاری ہے جبکہ بھارتی سرکاری و غیر سرکاری دانشورانہ صرف نجی و سرکاری میڈیا میں منظم ڈِس انفارمیشن کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستانی نئی نسل کے ذہنوں کو مسخر کرنے کے لئے متحرک ہیں بلکہ ریاستی سرپرستی میں بھارتی سیاسی و سماجی دانشوروں کی جانب سے قائداعظم ؒ کو سیکولر قرار دینے اور بّرصغیر جنوبی ایشیاء کو ایک سیاسی اکائی (اکھنڈ بھارت) قرار دیتے ہوئے پاکستانی نوجوان نسل کے ذہنوں کو پروپیگنڈہ کرنے میں بدستور مصروف ہے-لیکن ریاستی سطح پر بھارتی ڈِس انفارمیشن کے اِس تاثر کو زائل کرنے کی کوششیں کہیں نظر نہیں آتی ہیں- اِس حقیقت کو نہیں بھلانا چاہیے کہ بھارت نے آئینی طور پر تو سیکولر ریاست کا لبادہ اُوڑھا ہوا ہے لیکن بنیادی طور پر بھارت ایک متعصب ہندو ریاست ہے جہاں مودی حکومت کے انتہاء پسند ہندوؤں نے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کو روز مرہ کا معمول بنایاہے-
درج بالا تناظر میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی ذاتِ گرامی کو بھارتی لابی سے متاثر متعدد پاکستانی سیاسی و سماجی دانشور سیکولر ثابت کرنے کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں پیش پیش نظر آتے ہیں-قائداعظم ؒ کی دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947ء کی تقریر کو سیکولرازم کے حوالے سے معنی پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے،بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائداعظم ؒ کی ذات کو سیکولر بنیادوں پر اچھالنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں-برصغیر میں مسلم تہذیب و تمدن سے نابلد یہ ثقافتی دوغلے جناح کی ذات پر کیچڑ اُچھالتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ 11 اگست کی تقریر میں قائداعظم نے وہی باتیں دھرائی تھیں جن کا تذکرہ وہ 1937ء سے شروع ہونے والی تحریک پاکستان کے دوران اقلیتوں کے حقوق کے لئے اسلامی فکر کے حوالے سے کرتے رہے تھے اور جنہیں اب غلط معنی پہنانے میں روشن خیالی کے نام پر بھارتی سیاسی و سماجی لابی سے متاثر یہ ثقافتی دوغلے آج بھی پیش پیش ہیں حتیٰ کہ اِسی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے چند برس قبل لکھی گئی کتاب: ’’جناح، بھارت،تقسیم اور آزادی‘‘ میں بھی اِس پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں خاص کردار ادا کیا ہے-اِس کتاب اور دیگر بھارتی سیاسی دانشوروں کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر کچھ پاکستانی طالب علم اور سیاسی دانشور قیام پاکستان کے حوالے سے غلط نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی تشفی کے لئے سیاق و سباق کے ساتھ جواب دیا جانا ضروری ہے-
جسونت سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اکھنڈ بھارت پالیسی کے پیش نظر ’’کرپس تجاویز‘‘ اور 1946ءکے کیبنٹ مشن پلان کے حوالے سے قائد اعظم ؒ کے تقسیم ہند کے اصولی موقف کو نئے معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے سیاسی طور پر قائد اعظم ؒ کو متحدہ ہندوستان کا حامی قرار دینے اور تقسیم ہند کی ذمہ داری BJP کی مخالف سیاسی جماعت کانگریس کی لیڈرشپ یعنی نہرو، گاندہی اور سردار پٹیل پرڈالنے کی کوشش کی ہے- بلاشبہ جسونت سنگھ انتہاء پسند ہندو دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن ہیں جس کی سربراہی اب انتہا پسند ہندو لیڈر نریندر مودی کر رہے ہیں-کرپس تجاویز اور کیبنٹ مشن پلان جس پر 1946ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی تھی،ایک ایسا موضوع ہے جس پر جسونت سنگھ سے قبل دیگر بھارتی سیاسی دانشور بشمول مولانا ابولکلام آزاد،راج موہن گاندھی اور ایچ ایم سیروائی سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں چنانچہ پاکستانی مصنفہ عائشہ جلال نے بھی انڈیا آفس لائبریری کے متنازع ریکارڈ اور اِن مصنفوں کی کاوشوں سے متاثر ہوکر ایسے ہی متنازعہ آرا پر بھارتی فکر کو مہمیز دیتی رہی ہیں-حیرانی کی بات ہے کہ کرپس تجاویز اور کیبنٹ مشن پلان کے حوا لے سے قائد اعظم ؒ کے اصولی مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کئے بغیر یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ قائد اعظم ؒ نے تقسیم ہند کے تصور کو قطعی طور پر پس پشت ڈال دیا تھا، انتہائی لغو خیال ہے-تقسیم ہند کے موقع پر موجود ہندوستانی کانگریسی لیڈرشپ بشمول گاندھی جی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل اپنے دور کے شاطر ترین سیاست دان تھے-اُنہوں نے کرپس تجاویز اور کیبنٹ مشن پلان کے حوالے سے قائداعظم ؒ کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط کا نوٹس ضرور لیا تھا-گاندھی اور نہرو کو درج بالا برطانوی تجاویز پر جناح کی جانب سے پیش کی گئی شرائط کے پس پردہ دس سالہ طویل المیعاد منصوبے کے تحت ہندوستان میں چھ (6)مسلم اکثریتی صوبوں / علاقوں یعنی مکمل پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، مکمل بنگال اور مکمل آسام پر مشتمل ایک گریٹر پاکستان بنتا نظر آ رہا تھا، لہٰذا اُنہوں نے جنوبی ایشیاء میں ایسی کسی بھی اسکیم کو ہندو مفادات کے منافی سمجھتے ہوئے بلا آخر اِسے مسترد کردیا تھا چنانچہ اِس برطانوی اسکیم سے راہ فرار اختیار کرنے کے باوجود کانگریسی لیڈر شپ ہر قیمت پر قائداعظم ؒ کو تقسیم ہند کے مطالبے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن وہ جناح کو مسلم قومی ریاست کے اصولی موقف سے ہٹانے اور قائد کی قیادت میں مسلمانوں کی یکجہتی ختم کرنے میں ناکام رہے- کانگریسی لیڈر راج گوپال اچاریہ نے تقسیم ہند کے مطالبے سے قائد اعظم ؒ کو ہٹانے کےلئے اُنہیں کانگریس کی جانب سے مکمل اتھارٹی کے ساتھ متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کی کابینہ کے وزیراعظم کے طور پر قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھاجبکہ تحریک پاکستان کے آخری مرحلے پر اِسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے مہاتما گاندھی نے متحدہ آزاد ہندوستان کے وزیراعظم کا عہدہ قائداعظم ؒ کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن قائد اعظم ؒ نے مسلمانوں کی علیحدہ مملکت سے کم کسی تجویز سے اتفاق نہیں کیا-
جسونت سنگھ اکھنڈ بھارت کے حامی ہیں اور اُنہوں نے قیام پاکستان کے ساٹھ (60)برس کے بعد قائد اعظم ؒ پر کتاب لکھی ہے-اُن کا تعلق عمر کوٹ سے رہا ہے اور وہ سابق وفاقی وزیر رانا چندر سنگھ کے فسٹ کزن ہیں لیکن وہ اکھنڈ بھارت کے ایک اور داعی ایل کے ایڈوانی کے ہمراہ تقسیم ہند سے کچھ روز قبل ہی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے-ایل کے ایڈوانی بھارتی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے فدائیوں میں شامل تھے، وہ بھارت میں فرقہ پرست ہندو جماعت جن سنگھ کے صدر رہے جسے بعد میں ہندو دہشت پرست تنظیم آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل کر دیا گیا-جسونت سنگھ بی جے پی کی حکومت میں باجپائی اور ایڈوانی کے معتمد خاص کے طور پر وزیر خارجہ کے اہم عہدے پر کام کرتے رہے ہیں-یہ اَمر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد مارچ 1972ء میں جب ایل کے ایڈوانی ہندو فرقہ پرست جماعت جن سنگھ کے صدر تھے تو اُنہوں نے نئی دہلی میں پاکستانی صحافی محمود شام کوانٹرویو دیتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ اُن کی پارٹی واقعی اکھنڈ بھارت کی حامی ہے اور بنگلہ دیش و پاکستان کو پُرامن طریقے سے بھارت میں شامل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتی ہے-ایڈوانی کا کہنا تھا کہ وہ ابتدائی طور پر پاکستان و بنگلہ دیش میں عوامی مباحثہ کے ذریعے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کارن کوئی ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ہو جیسے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی، اگر کوئی اُنہیں ملانے کی بات کرے تو اُسے غلط نہیں سمجھا جاتا-آپس کے تصادم کی پالیسی پر ہمارا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے جبکہ جغرافیائی طور پر ہم ایک اکائی ہیں اور ہمارا موقف یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر بّرصغیر پُرامن طور پر سیاسی وحدت بن جائے-ہم اِسے کنفیڈریشن سے شروع کرینگے، قدرتی وسائل کو یکجا کیا جائے گا،تینوں ملکوں کی فیڈریشن قائم کی جائے گی اور اکھنڈ بھارت بن جائے گا-دراصل جسونت سنگھ کی کتاب کا مقصد بھی ایڈوانی کی اِسی فکر کو عوامی مباحثہ کے لئے پاکستان تک پہنچانا مقصود تھا تاکہ قائداعظم محمد علی جناح کو سیکولر اور تقسیم ہند کو بے معنی قرار دیتے ہوئے پاکستانی عوام کو قائل کرنے کے لئے جنوبی ایشیاء کو سیاسی وحدت قرار دیتے ہوئے نئے عوامی مباحثے کو جنم دیا جائے اور پاکستان میں ہم خیال افراد کی مدد سے اکھنڈ بھارت کے تصور کی دبی ہوئی چنگاریوں کو جگانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ کوشش پاکستان میں جسونت سنگھ کی کتاب کی رونمائی کرنے کے باوجود عوام الناس میں متوقع بحث کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکی-
آئیے ایک نظر اِس اَمر پر ڈالتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم ؒ کے سیکولر ہونے کے پراپیگنڈے کی کیا حقیقت ہے-یہ درست ہے کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت ہند کے زمانے میں قائداعظم ؒ نے اپنا سیاسی سفر اُس وقت کی واحد سیاسی جماعت کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہی شروع کیا تھا لیکن جب وہ کانگریس میں تھے تب بھی اور بعد میں جب وہ مسلم لیگ میں آئے تب بھی اُن کی بہترین صلاحیتیں ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی بحالی کی آواز بلند کرنے کے حوالے سے ہی سامنے آتی رہی-یہ درست ہے کہ قائد اعظم ؒ 1929ء میں مسلم زعماء کی آپس کی چپقلش کے باعث چند سال کے لئے لندن چلے گئے تھے لیکن اُن کی غیرموجودگی میں علامہ اقبال ؒ کو1930ء کے خطبہ الہ آباد میں ہندوستان میں مسلمانوں کی مستقبل کی مملکت کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کرنے کا موقع ملا-بہرحال علامہ اقبال ؒچونکہ فلسفی شاعر ہونے کے ناطے قومی ویژن کے خالق تھے، لہذا ، اُنہوں نے مسلم لیگ کی صدارت کے دوران محسوس کیا کہ مسلمانانِ ہند کی قیادت قائداعظم ؒ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا چنانچہ علامہ اقبال ؒ نے قوم کا درد رکھنے والے چند دیگر قائدین بشمول لیاقت علی خان قائد اعظم ؒ کو ہندوستان واپس آ کر قوم کی قیادت سنبھالنے کا مشورہ دیا-قائد اعظم ؒ واپس آئے،مسلم لیگ کی تنظیِم نو کی اور 1937ء میں تحریک پاکستان کی ابتدا کی-تحریک پاکستان کی دس سالہ تاریخ گواہ ہے اور تحریک کے دوران قائد اعظم ؒ کے سینکڑوں بیانات اُن کی فکر و نظر کے شاہد ہیں لہذا نوجوان نسل کی تشفی کے لئے قائد ؒ کی تقریروں کے چند اقتباسات ہی کافی ہیں جن کے مطالعہ سے ہندوستان میں قائداعظم ؒ کے اسلامی فکر و نظر اور تشخص کے بارے میں کسی اور وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی :
1. 15اکتوبر 1937ء میں لکھنو کے خطبہ صدارت میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا، آٹھ کروڑ مسلمانوں کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں- اُن کی تقدیر اُن کے اپنے ہاتھوں میں ہے اور وہ ایک متحد،ٹھوس اور منظم طاقت کی حیثیت سے ہر خطرے اور مزاحمت کا مقابلہ کر سکتے ہیں،مسلمانوں، تمہارے اپنے ہاتھوں میں ساحرانہ قوت موجود ہے، اب تمہیں اپنے اہم فیصلوں پر ڈٹ جانا چاہیے-
2. 26 دسمبر 1938ء میں ہندو واردھا سکیم پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پٹنہ میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا کہ ہندو ذہنیت اور ہندو نظریہ کی ترویج کی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں اِسے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے-کیا مسلمانوں نے کہیں بھی ہندوؤں کو اسلامی ثقافت پڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن اِس کے باوجود اگر مسلمان کہیں خفیف سی آواز بھی بلند کرتے ہیں کہ ہندو ثقافت کیوں ہمارے سر منڈھے جا رہی ہے تو اُنہیں فرقہ پرست اور شورش انگیز ٹھہرایا جاتا ہے-
3. 22 جون 1939ء میں مسودۂ قانون مال گزاری پر ہندو اکثریت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے لیکن تم ہماری روح کو فنا کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گے،تم اس تہذیب کو مٹا نہ سکو گے، اُس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے-ہمارا نور ایمان زندہ ہے، زندہ رہا ہے اور زندہ رہے گا،تم ہمیں مغلوب کرو، ہمارے ساتھ بدترین سلوک کرو، ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو ہم لڑتے لڑتے مر جائیں گے-
4. 13 نومبر 1939ء میں یوم عید کے موقع پر قائد اعظم ؒ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ہمیں قرآنی دلائل کی روشنی میں اپنے اخلاق و عقائد کو درست کرنا چاہیے اور اِسی روشنی میں حق و صداقت کی جستجو بھی کرنی چاہیے، اگر ہماری صداقت پرستی بے لاگ ہے تو ہم ضرور اپنی منزل کو پا لیں گے-صداقت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں اتنے ہی حصے پر قناعت کرنی چاہیے جس کو ہم دوسروں کی حق تلفی کئے بغیر حاصل کر سکتے ہیں،آخر میں میری یہ تاکید نہ بھولنا کہ اسلام ہر مسلمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر اپنا فرض ادا کرے-
5. 25 فروری 1940ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے، اگر اب بھی تم نے ہمارا مقصد نہیں سمجھا تو میں کہونگا کہ تم کبھی نہ سمجھ سکو گے، یہ بالکل صاف ہے، برطانیہ عظمیٰ ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے، مسٹر گاندہی اور کانگریس مسلمانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم نہ برطانیہ کو اور نہ مسٹر گاندہی کو مسلمانوں پر حکومت کرنے دیں گے،ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں -
6. 23 مارچ 1940ء میں لاہور میں تاریخی خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:قومیت کی تعریف چاہے کسی انداز میں کی جائے ، مسلمان ہر طرح سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور اِس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کی علیحدہ اور خود مختار ریاست ہو-ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسائیوں کےساتھ امن و امان کی زندگی بسر کریں، ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشونما بخشے اور وہ طریق عمل اختیار کرے جو اُس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے عطیاتِ قدرتی اور نصب العین سے ہم آہنگ ہو-اے خادمانِ اسلام، اپنے اربابِ ملت کو اقتصادی ، سیاسی ، تعلیمی اور معاشرتی تمام پہلوؤں سے منظم کرو ، پھر تم دیکھو گے کہ تم یقیناً ایسی قوت بن گئے ہو جس کی طاقت ہر شخص تسلیم کرے گا-
7. 2 مارچ1941ءپنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا : اسلامیان ہند کےلئے یہی ایک حل ہے جو آزمائش ، تجربہ اور وقت کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے تاکہ ہندو اور مسلمان، اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور تمدنی لحاظ سے اپنی اپنی قومی روایات اور خدائی عطیات کے مطابق نشونما پائیں-ہماری جدوجہد کا مقصد مفید مواقع کا حصول ہے تاکہ مسلمان اپنے قومی ارادوں کو عملی جامعہ پہنا سکیں-یہ زندگی اور موت کا معرکہ ہے کیونکہ ہماری سعی صرف مادی فوائد کےلئے نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمانوں کی بقائے روح کےلئے بھی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے-مسلمانوں کو اِس حقیقت کا پورا احساس ہے کہ اگر ہم شکست کھا ئیں گے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے-
8. اپریل 1941ء میں مدراس میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا: اقلیتیں جہاں بھی ہوں اُن کے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا کیونکہ کوئی حکومت اور کوئی مملکت اپنی اقلیتوں کو اعتماد اور تحفظ کا یقین دلائے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی- مجھے یقین ہے کہ جب وقت آئے گا تو ہمارے ملکی خطوں کی اقلیت کو ہماری روایات، ثقافت اور اسلامی تعلیم سے نہ صرف انصاف و صداقت ملے گی بلکہ اُنہیں ہماری کریم النفسی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت بھی مل جائے گا-(حقیقت یہی ہے کہ تقسیم کے موقع پر بھارت میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف جب پاکستان میں ردعمل ہوا تو قائد اعظم ؒ نے پھر بھی آہنی دیوار بن کر اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا)-
9. یکم جولائی 1942ءمیں ایسوسی ایٹ پریس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے قائداعظم ؒ نے کہا کہ ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں، زبان و ادب، فن تعمیر، شعورِ اقتدار و تناسب، قانون و اخلاق، رسم و رواج ، تاریخ و روایات اور رجحان و مقاصد، ہر لحاظ سے ہمارا زاویہ نگاہ اور فلسفۂ حیات موجود ہے اور بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف ہماری قومیت کو سلامی دینے کےلئے تیار ہے-
10. 15 نومبر 1942ء میں قائداعظم ؒ نے جالندھر میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : آپ ہندوستان کے مسلمان طلباء کی اِس طرح تنظیم کیجئے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے ایک نقطہ پر جمع ہو جائیں اور ملت اسلامیہ کی معاشرتی، اقتصادی اور ترقی و ارتقاء کےلئے تعمیری لائحہ عمل ترتیب دیں-ثقافت اسلامی اور تعلیمات محمدی کا احیاء کریں اور ہندوستان کی مختلف اقوام کے درمیان بھائی چارے اور خیر سگالی کے احساسات کو آگے بڑھائیں-
11. 18دسمبر 1943ء میں برطانوی صحافی بیورلے نکولس نے قائد اعظم سے انٹرویو کے دوران یہ سوال کیا کہ آپ مسلمانوں کو ایک قوم کہتے ہیں تو کیا آپ کے پیش نظر مذہب ہوتا ہے؟ قائداعظم نے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : کسی حد تک آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام صرف مذہبی عبادات یا اعتقادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل طریقِ حیات ہے-میں جب مسلمانوں کو ایک قوم کہتا ہوں تو زندگی کے تمام شعبے اور زندگی کی تمام ضروریات میرے پیش نظر ہوتی ہیں-مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، ہر اعتبار سے ہماری تاریخ علیحدہ ہے، ہمارے ہیرو الگ ہیں، ہمارا آرٹ مختلف ہے، ہمارا فنِ تعمیر ، ہماری موسیقی ، ہمارے قوانین ، ہمارا آئین سب کچھ یکسر مختلف ہے-ہندو گائے کو مقدس دیوی گردانتے ہیں ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں،ہم اصل میں ہندوؤں سے ایک الگ وجود ہیں،زندگی میں ہماری کوئی قدر مشترک نہیں ہے، ہمارا لباس، ہمارے کھانے، ہماری معاشی زندگی، ہمارے اصولِ تعلیم، ہمارا خواتین کے ساتھ رویہ، ہمارا جانوروں کے متعلق نظریہ سب کچھ ہی مختلف ہے-
12. 21 نومبر 1945ء میں پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم ؒ نے فرمایا: میں نو (9)سال کے بعد پشاور آیا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ مسلم لیگ اب پٹھانوں میں مقبول ہو گئی ہے،یہاں مسلمان کانگریس کی ریشہ دوانیوں کا شکار تھے، مسلمان ایک خدا، ایک کتاب اور ایک رسول (ﷺ)میں یقین رکھتے ہیں،مسلم لیگ کی کوشش یہی ہے کہ ان کو ایک پلیٹ فارم اور ایک پرچم تلے جمع کیا جائے اور یہ پرچم پاکستان کا پرچم ہے-ہمارا کوئی دوست نہیں ہے ، ہمیں نہ انگریز پر بھروسہ ہے اور نہ ہندو پر،ہم دونوں کا مقابلہ کریں گے خواہ وہ آپس میں متحد ہی کیوں نہ ہو جائیں-
13. 11 جولائی 1946ءمیں حیدرآباد دکن میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم ؒ نے فرمایا: اِس وقت ہندو مسلمان کی جنگ ہو رہی ہے، لوگ پوچھتے ہیں کون فتح یاب ہوگا، علمِ غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے کَہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر شیوہ ٔصبر و رضاِ خداوندی پر کاربند رہیں اور اِس ارشاد خداوندی کو فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتوں کا مجموعہ بھی مغلوب نہیں کر سکتا-ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہونگے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تختے اُلٹ دئیے تھے-
14. 30اگست 1946ء میں قیصر باغ بمبئی میں جشن عید کے موقع پر عوام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا: بلاشبہ آج اسلامی دنیا کے لئے مسرت و شادمانی کا دن ہے لیکن ہم حقائق سے چشم پوشی نہیں کر سکتے، ہمارے سروں پر سیاہ بادل کا ایک ٹکڑا منڈلا رہا ہے، ایسے نازک حالات میں مَیں اسلامیان ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آنے والے خطرات کو محسوس کریں اور اپنے اختلافات بھول کر سارے ملک میں متحد و منظم ہو جائیں-میں خاص طور پر جمعیت العلماء ہند، مجلس احرار، خاکسار اور مسلم مجلس سے اپیل کرتا ہوں کہ اسلام کی فلاح و سربلندی کی خاطر متحد ہو جائیں اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں-ہمارے مخالفین اِس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ہم میں اتنی قوت نہیں ہے کہ ہم حالات کا مردانہ وار مقابلہ نہ کر سکیں، ہمیں اُنہیں احساس دلانا ہے کہ اُنہوں نے اسلامیان ِ ہند کے عزم کا کتنا غلط اندازہ لگایا ہے-اگر ہم متحد و منظم ہو کر مقابلہ کریں تو مخالفین کی تمام طاغوتی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے-
15. 27 مارچ 1947ء میں بمبئی چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم ؒ نے فرمایا : میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں ہندو قوم کی بہت عزت ہے، اُن کا اپنا دھرم ہے، اپنا فلسفہ ہے، وہ اپنا تمدن رکھتے ہیں عین اُسی طرح جس طرح مسلمان اپنا ایمان، فلسفہ ِ حیات اور تمدن رکھتے ہیں لیکن دونوں الگ الگ قومیں ہیں اور میں پاکستان کے لئے لڑ رہا ہوں کیونکہ ہمارے مسائل کا یہی حل ہے-ہم ہندوؤں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کےساتھ منصفانہ اور برادرانہ سلوک کیا جائے گا ، اِس کے ثبوت میں ہماری تاریخ شاہد ہے، اسلامی تعلیمات نے ہمیں یہی سکھایا ہے-
مندرجہ بالا تناظر میں کیا قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم ؒ کی سینکڑوں تقریروں میں سے مندرجہ بالا چند اقتباسات سے کہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست کی جدوجہد کر رہے تھے؟ یقیناً ایسا نہیں تھا-
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم ؒ کو مملکت ِ پاکستان کے خدوخال واضح کرنے کے لئے زیادہ وقت نہیں مل سکا-پاکستان ایک نیا ملک تھا اُس کا دارلحکومت ابھی تشکیل دیا جانا تھا اور ہر کام ’’الف، ب‘‘ سے ہی شروع کرنا تھا جبکہ بھارت کو نئی دہلی میں سجا سجایا دارلحکومت ملا تھا لیکن پھر بھی قائد اعظم ؒ نے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام اور لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کی آباد کاری کے مسائل کو اخوت اسلامی کے جذبے سے حل کیا، کشمیر میں بھارتی مداخلت کا مقابلہ کیا، آزاد کشمیر کی حکومت قائم ہوئی، وزیرستان اور بلوچستان سے فوجوں کو واپس بلا کر خسارے کے صوبوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور مشکل ترین مسائل کے باوجود مملکتِ پاکستان کا پہلا ہی بجٹ منافع کا بنا- کشمیری مہاجرین کی آمدسے پیدا ہونے والے مسائل کا مقابلہ کیا اور شدید بیماری کے باوجود اپنی جہد مسلسل سے بّرصغیر جنوبی ایشیاء میں ایک آزاد اسلامی ملک کی بنیاد رکھی، جو آج ہماری کرپشن، بداعمالیوں، غفلتوں اور کوتاہیوں سے دولخت ہونے کے باوجود محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بے پایاں صلاحیتوں کے باعث ایک ایٹمی ملک ہے-اسلامی فلاحی ریاست کے حوالے سے قائد اعظم ؒ کا ویژن بہت واضح تھا-اُنہوں نے ظلمات کے اندھیروں میں مسلمانوں کے لئے آزادی کی قندیل روشن کی اور ہندوستان میں ایک منتشر و شکست خوردہ قوم کو قومی یکجہتی کی لڑی میں پُرو کر آزادی کی فضا میں جینے کا قرینہ سکھایا جو دنیا کی تاریخ میں یقیناً بے مثال اَمر ہے-قائد اعظم ؒ جلد ہی اِس بے ثباتی دنیا سے چلے گئے لیکن قوموں کی زندگی میں پاکستان کی ایک بے مثال یادگار چھوڑ گئے- اُن کی بے وقت موت پر ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں نے اُن کی شخصیت کے بارے جن خیالات کا اظہار کیا وہ بھی اب تاریخ کا سنہری باب ہے-
ممتاز عالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ جنہوں نے قائد اعظم ؒ کی نماز جنازہ کی امامت بھی کی تھی، نے کہا کہ ہندوستان نے اورنگزیب عالمگیر کے بعد اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس نے مسلمانانِ ہند کی بربادی اور مایوسی کو فتح میں بدل دیا-مجلسِ احرار کے سربراہ سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد لاہور کے ایک جلسہ عام میں یہ کَہ کر اپنی جماعت توڑنے کا اعلان کیا تھا کہ متحدہ ہندوستان کی حمایت اُن کی غلطی تھی ، جناح صاحب کی سوچ جیت گئی اور میری سوچ ہار گئی-قائد اعظم ؒ کی وفات پر اُنہوں نے کہا کہ قائد اعظم ؒ ایک عہد آفریں شخصیت تھے، اسلامی تاریخ میں اُنہوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے جو پاکستان کے نام سے رہتی دنیا تک یادگار رہے گا-خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی ؒ نے کہا کہ قائد اعظم ؒ کا عزم پائندہ اور راسخ تھا ، وہ بہادر اور بیباک سپاہی تھے جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے-مشہور ہندوستانی سیاسی دانشور مسز سروجنی نائیڈو کا کہنا تھا کہ جناح کی جسمانی ناتوانی کے پیچھے ذہن اور کردار کی غیر معمولی قوتیں پوشیدہ تھیں-سروجنی نائیڈو نے تقسیم ہندوستان سے قبل بمبئی کے ایک اجتماع میں کانگریسی مسلمان لیڈر کی جانب سے قائد اعظم ؒ کو انگریزوں کا زر خرید کہنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :
’’ایسا بالکل نہیں ہے، میرے دوست تم بک سکتے ہو، مَیں بک سکتی ہوں، گاندہی جی اور جواہر لال نہرو کا سودا بھی شاید ہو سکتا ہے مگر جناح کو خریدا نہیں جا سکتا- جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈٹ نے کہا کہ جناح ناقابل شکست تھے، اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندہی ہوتے لیکن کانگریس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں بنتا‘‘-
سر فرانسس موڈی سابق انگریز گورنر پنجاب نے کہا کہ جناح کا مقابلہ محض ہندوؤں کی دولت اور قابلیت سے ہی نہیں تھا بلکہ تمام انگریز حکام اور برطانیہ کے اکثر سیاستدان بھی اُن کے خلاف تھے لیکن اُنہوں نے دباؤ کے باوجود اپنا موقف تبدیل نہیں کیا-مشہور ہندو ایڈیٹر جگت نارئین لال نے لکھا کہ جناح کسی بھی طاقت کے آگے جھکنا نہیں جانتے تھے، اُنہوں نے ہر محاذ پر ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ کیا اور اُنہیں شکست دی-مشہور دانشور اور انگریز مصنف اسٹیلنے والپرٹ نے جناح کو مسلمانانِ ہند کی یکجہتی کو ایک قوم کی شکل میں متحد کرنے اور ایک عظیم قومی ریاست کے بانی ہونے کے حوالے سے تمام دنیا کے سیاسی و سماجی رہنماؤں کے مقابلے میں ممتاز ترین لیڈر قرار دیا-ہندوستانی اچھوت لیڈر ڈاکٹر امبیڈکر جو ہندوستان کے سیکولر آئین کے بانی تھے، نے کہا کہ جناح اپنے ارادوں اور رائے میں پختہ تھے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہو ں کہ جناح کسی قیمت پر بھی انگریز کے آلہ کا ر نہیں بنے-برطانیہ کے آخری اور متنازعہ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو جواہر لال نہرو کی ایما پر بھارت کے متنازعہ گورنر جنرل بن گئے تھے، نے کہا کہ جناح چٹان کی طرح اٹل اور مستحکم مگر انتہائی ٹھنڈے دل و دماغ کے انسان تھے اور میرے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہو سکا کہ میں اُن کے سینے کی گہرائیوں میں اُتر سکوں اور اُنہیں متحدہ ہندوستان پر قائل کر سکوں،بالآخر مجھے جناح کے موقف کے سامنے جھکنا پڑا-
اندرونِ حالات،حامیوں اور مخالفوں کے اتنے سنہرے کلمات کی روشنی میں یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم ؒ اقلیتوں کے سیاسی حقوق اور اُن کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے حامی تو ضرور تھے لیکن کسی پہلو سے سیکولر نہیں تھے بلکہ وہ مسلم تمدن کے احیاء اور مسلم مملکت کے عظیم قائد تھے-وہ آج اِس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا اِس سے بہتر کوئی اور عمل نہیں ہوسکتا کہ ہم قومی یکجہتی کے حوالے سے اُن کی تعلیمات پر عمل کرکے پاکستان کو کرپشن، بد انتظامی اور بدعنوانی کے موجودہ بحران سے نکال کر ایک عظیم تر مملکت بنا دیں-اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو-
٭٭٭
تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح () ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم قائد تھے-تحریک پاکستان کو کسی بھی زاویے سے جانچا یا پرکھا جائے تو یہی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم قائد، محمد علی جناح نظریاتی بنیادوں پر بّرصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی اسلامی مملکت کے قیام کے داعی تھے-بہرحال اِس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کے عظیم مقاصد کو سبوتاژ کرنے اور اکھنڈ بھارت کے مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے اغیار کچھ عاقبت نا اندیش دانشوروں کی اختراع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قائد اعظم ()کی شخصیت کو من پسند معنی پہنا کر نئی نسل کو تحریک پاکستان کے مقاصد سے گمراہ کرنے کی منظم کوششوں میں مصروف ہیں-بھارتی سیاسی دانشوروں کی جانب سے پاکستان کی تاریخ مسخ کرنے کی کوششیں تو کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن صد افسوس کہ اِس منظم بھارتی پروپیگنڈا مہم کا منہ توڑ جواب دینے اور نئی نسل کو تحریک پاکستان کے حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے ریاستی سطح پر نہ تو مربوط کوششیں کی جا رہی ہیں نہ ہی پاکستان کے صوبوں، ضلعوں اور تعلقہ و تحصیلوں میں ریاستی سطح پر ایسے سرکاری یا نیم سرکاری فورم تشکیل دئیے گئے ہیں جو سول سوسائٹی میں مملکت پاکستان کی اساس کے بارے میں تیزی سے پھیلنے والے بیرونی پراپیگنڈے کا مناسب توڑ کر سکے-نظریہّ پاکستان کے حوالے سے لاہور میں آبروئے صحافت رجلِ حریت جناب مجید نظامی مرحوم کی فکر سے وابستہ نظریہ پاکستان کی تنظیم تو آج بھی متحرک نظر آتی ہے لیکن سرکاری اداروں میں پاکستان کی اساس کے حوالے سے خاموشی طاری ہے جبکہ بھارتی سرکاری و غیر سرکاری دانشورانہ صرف نجی و سرکاری میڈیا میں منظم ڈِس انفارمیشن کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستانی نئی نسل کے ذہنوں کو مسخر کرنے کے لئے متحرک ہیں بلکہ ریاستی سرپرستی میں بھارتی سیاسی و سماجی دانشوروں کی جانب سے قائداعظم ()کو سیکولر قرار دینے اور بّرصغیر جنوبی ایشیاء کو ایک سیاسی اکائی (اکھنڈ بھارت) قرار دیتے ہوئے پاکستانی نوجوان نسل کے ذہنوں کو پروپیگنڈہ کرنے میں بدستور مصروف ہے-لیکن ریاستی سطح پر بھارتی ڈِس انفارمیشن کے اِس تاثر کو زائل کرنے کی کوششیں کہیں نظر نہیں آتی ہیں- اِس حقیقت کو نہیں بھلانا چاہیے کہ بھارت نے آئینی طور پر تو سیکولر ریاست کا لبادہ اُوڑھا ہوا ہے لیکن بنیادی طور پر بھارت ایک متعصب ہندو ریاست ہے جہاں مودی حکومت کے انتہاء پسند ہندوؤں نے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کو روز مرہ کا معمول بنایاہے-
درج بالا تناظر میں قائد اعظم محمد علی جناح ()کی ذاتِ گرامی کو بھارتی لابی سے متاثر متعدد پاکستانی سیاسی و سماجی دانشور سیکولر ثابت کرنے کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں پیش پیش نظر آتے ہیں-قائداعظم ()کی دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947ء کی تقریر کو سیکولرازم کے حوالے سے معنی پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے،بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائداعظم () کی ذات کو سیکولر بنیادوں پر اچھالنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں-برصغیر میں مسلم تہذیب و تمدن سے نابلد یہ ثقافتی دوغلے جناح کی ذات پر کیچڑ اُچھالتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ 11 اگست کی تقریر میں قائداعظم نے وہی باتیں دھرائی تھیں جن کا تذکرہ وہ 1937ء سے شروع ہونے والی تحریک پاکستان کے دوران اقلیتوں کے حقوق کے لئے اسلامی فکر کے حوالے سے کرتے رہے تھے اور جنہیں اب غلط معنی پہنانے میں روشن خیالی کے نام پر بھارتی سیاسی و سماجی لابی سے متاثر یہ ثقافتی دوغلے آج بھی پیش پیش ہیں حتیٰ کہ اِسی فکر کو آگے بڑھانے کے لئے سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے چند برس قبل لکھی گئی کتاب: ’’جناح، بھارت،تقسیم اور آزادی‘‘ میں بھی اِس پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں خاص کردار ادا کیا ہے-اِس کتاب اور دیگر بھارتی سیاسی دانشوروں کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر کچھ پاکستانی طالب علم اور سیاسی دانشور قیام پاکستان کے حوالے سے غلط نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی تشفی کے لئے سیاق و سباق کے ساتھ جواب دیا جانا ضروری ہے-
جسونت سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اکھنڈ بھارت پالیسی کے پیش نظر ’’کرپس تجاویز‘‘ اور 1946ءکے کیبنٹ مشن پلان کے حوالے سے قائد اعظم ()کے تقسیم ہند کے اصولی موقف کو نئے معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے سیاسی طور پر قائد اعظم ()کو متحدہ ہندوستان کا حامی قرار دینے اور تقسیم ہند کی ذمہ داری BJP کی مخالف سیاسی جماعت کانگریس کی لیڈرشپ یعنی نہرو، گاندہی اور سردار پٹیل پرڈالنے کی کوشش کی ہے- بلاشبہ جسونت سنگھ انتہاء پسند ہندو دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن ہیں جس کی سربراہی اب انتہا پسند ہندو لیڈر نریندر مودی کر رہے ہیں-کرپس تجاویز اور کیبنٹ مشن پلان جس پر 1946ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی تھی،ایک ایسا موضوع ہے جس پر جسونت سنگھ سے قبل دیگر بھارتی سیاسی دانشور بشمول مولانا ابولکلام آزاد،راج موہن گاندھی اور ایچ ایم سیروائی سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں چنانچہ پاکستانی مصنفہ عائشہ جلال نے بھی انڈیا آفس لائبریری کے متنازع ریکارڈ اور اِن مصنفوں کی کاوشوں سے متاثر ہوکر ایسے ہی متنازعہ آرا پر بھارتی فکر کو مہمیز دیتی رہی ہیں-حیرانی کی بات ہے کہ کرپس تجاویز اور کیبنٹ مشن پلان کے حوا لے سے قائد اعظم ()کے اصولی مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کئے بغیر یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ قائد اعظم ()نے تقسیم ہند کے تصور کو قطعی طور پر پس پشت ڈال دیا تھا، انتہائی لغو خیال ہے-تقسیم ہند کے موقع پر موجود ہندوستانی کانگریسی لیڈرشپ بشمول گاندھی جی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل اپنے دور کے شاطر ترین سیاست دان تھے-اُنہوں نے کرپس تجاویز اور کیبنٹ مشن پلان کے حوالے سے قائداعظم ()کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط کا نوٹس ضرور لیا تھا-گاندھی اور نہرو کو درج بالا برطانوی تجاویز پر جناح کی جانب سے پیش کی گئی شرائط کے پس پردہ دس سالہ طویل المیعاد منصوبے کے تحت ہندوستان میں چھ (6)مسلم اکثریتی صوبوں / علاقوں یعنی مکمل پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، مکمل بنگال اور مکمل آسام پر مشتمل ایک گریٹر پاکستان بنتا نظر آ رہا تھا، لہٰذا اُنہوں نے جنوبی ایشیاء میں ایسی کسی بھی اسکیم کو ہندو مفادات کے منافی سمجھتے ہوئے بلا آخر اِسے مسترد کردیا تھا چنانچہ اِس برطانوی اسکیم سے راہ فرار اختیار کرنے کے باوجود کانگریسی لیڈر شپ ہر قیمت پر قائداعظم ()کو تقسیم ہند کے مطالبے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن وہ جناح کو مسلم قومی ریاست کے اصولی موقف سے ہٹانے اور قائد کی قیادت میں مسلمانوں کی یکجہتی ختم کرنے میں ناکام رہے- کانگریسی لیڈر راج گوپال اچاریہ نے تقسیم ہند کے مطالبے سے قائد اعظم ()کو ہٹانے کےلئے اُنہیں کانگریس کی جانب سے مکمل اتھارٹی کے ساتھ متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کی کابینہ کے وزیراعظم کے طور پر قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھاجبکہ تحریک پاکستان کے آخری مرحلے پر اِسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے مہاتما گاندھی نے متحدہ آزاد ہندوستان کے وزیراعظم کا عہدہ قائداعظم ()کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن قائد اعظم ()نے مسلمانوں کی علیحدہ مملکت سے کم کسی تجویز سے اتفاق نہیں کیا-
جسونت سنگھ اکھنڈ بھارت کے حامی ہیں اور اُنہوں نے قیام پاکستان کے ساٹھ (60)برس کے بعد قائد اعظم ()پر کتاب لکھی ہے-اُن کا تعلق عمر کوٹ سے رہا ہے اور وہ سابق وفاقی وزیر رانا چندر سنگھ کے فسٹ کزن ہیں لیکن وہ اکھنڈ بھارت کے ایک اور داعی ایل کے ایڈوانی کے ہمراہ تقسیم ہند سے کچھ روز قبل ہی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے-ایل کے ایڈوانی بھارتی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے فدائیوں میں شامل تھے، وہ بھارت میں فرقہ پرست ہندو جماعت جن سنگھ کے صدر رہے جسے بعد میں ہندو دہشت پرست تنظیم آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل کر دیا گیا-جسونت سنگھ بی جے پی کی حکومت میں باجپائی اور ایڈوانی کے معتمد خاص کے طور پر وزیر خارجہ کے اہم عہدے پر کام کرتے رہے ہیں-یہ اَمر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد مارچ 1972ء میں جب ایل کے ایڈوانی ہندو فرقہ پرست جماعت جن سنگھ کے صدر تھے تو اُنہوں نے نئی دہلی میں پاکستانی صحافی محمود شام کوانٹرویو دیتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ اُن کی پارٹی واقعی اکھنڈ بھارت کی حامی ہے اور بنگلہ دیش و پاکستان کو پُرامن طریقے سے بھارت میں شامل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتی ہے-ایڈوانی کا کہنا تھا کہ وہ ابتدائی طور پر پاکستان و بنگلہ دیش میں عوامی مباحثہ کے ذریعے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کارن کوئی ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ہو جیسے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی، اگر کوئی اُنہیں ملانے کی بات کرے تو اُسے غلط نہیں سمجھا جاتا-آپس کے تصادم کی پالیسی پر ہمارا کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے جبکہ جغرافیائی طور پر ہم ایک اکائی ہیں اور ہمارا موقف یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر بّرصغیر پُرامن طور پر سیاسی وحدت بن جائے-ہم اِسے کنفیڈریشن سے شروع کرینگے، قدرتی وسائل کو یکجا کیا جائے گا،تینوں ملکوں کی فیڈریشن قائم کی جائے گی اور اکھنڈ بھارت بن جائے گا-دراصل جسونت سنگھ کی کتاب کا مقصد بھی ایڈوانی کی اِسی فکر کو عوامی مباحثہ کے لئے پاکستان تک پہنچانا مقصود تھا تاکہ قائداعظم محمد علی جناح کو سیکولر اور تقسیم ہند کو بے معنی قرار دیتے ہوئے پاکستانی عوام کو قائل کرنے کے لئے جنوبی ایشیاء کو سیاسی وحدت قرار دیتے ہوئے نئے عوامی مباحثے کو جنم دیا جائے اور پاکستان میں ہم خیال افراد کی مدد سے اکھنڈ بھارت کے تصور کی دبی ہوئی چنگاریوں کو جگانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ کوشش پاکستان میں جسونت سنگھ کی کتاب کی رونمائی کرنے کے باوجود عوام الناس میں متوقع بحث کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکی-
آئیے ایک نظر اِس اَمر پر ڈالتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم ()کے سیکولر ہونے کے پراپیگنڈے کی کیا حقیقت ہے-یہ درست ہے کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت ہند کے زمانے میں قائداعظم ()نے اپنا سیاسی سفر اُس وقت کی واحد سیاسی جماعت کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہی شروع کیا تھا لیکن جب وہ کانگریس میں تھے تب بھی اور بعد میں جب وہ مسلم لیگ میں آئے تب بھی اُن کی بہترین صلاحیتیں ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی بحالی کی آواز بلند کرنے کے حوالے سے ہی سامنے آتی رہی-یہ درست ہے کہ قائد اعظم () 1929ء میں مسلم زعماء کی آپس کی چپقلش کے باعث چند سال کے لئے لندن چلے گئے تھے لیکن اُن کی غیرموجودگی میں علامہ اقبال() کو 1930ء کے خطبہ الہ آباد میں ہندوستان میں مسلمانوں کی مستقبل کی مملکت کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کرنے کا موقع ملا-بہرحال علامہ اقبال ()چونکہ فلسفی شاعر ہونے کے ناطے قومی ویژن کے خالق تھے، لہذا ، اُنہوں نے مسلم لیگ کی صدارت کے دوران محسوس کیا کہ مسلمانانِ ہند کی قیادت قائداعظم ()سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا چنانچہ علامہ اقبال ()نے قوم کا درد رکھنے والے چند دیگر قائدین بشمول لیاقت علی خان قائد اعظم ()کو ہندوستان واپس آ کر قوم کی قیادت سنبھالنے کا مشورہ دیا-قائد اعظم ()واپس آئے،مسلم لیگ کی تنظیِم نو کی اور 1937ء میں تحریک پاکستان کی ابتدا کی-تحریک پاکستان کی دس سالہ تاریخ گواہ ہے اور تحریک کے دوران قائد اعظم ()کے سینکڑوں بیانات اُن کی فکر و نظر کے شاہد ہیں لہذا نوجوان نسل کی تشفی کے لئے قائد ()کی تقریروں کے چند اقتباسات ہی کافی ہیں جن کے مطالعہ سے ہندوستان میں قائداعظم ()کے اسلامی فکر و نظر اور تشخص کے بارے میں کسی اور وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی :
1. 15اکتوبر 1937ء میں لکھنو کے خطبہ صدارت میں قائد اعظم ()نے فرمایا، آٹھ کروڑ مسلمانوں کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں- اُن کی تقدیر اُن کے اپنے ہاتھوں میں ہے اور وہ ایک متحد،ٹھوس اور منظم طاقت کی حیثیت سے ہر خطرے اور مزاحمت کا مقابلہ کر سکتے ہیں،مسلمانوں، تمہارے اپنے ہاتھوں میں ساحرانہ قوت موجود ہے، اب تمہیں اپنے اہم فیصلوں پر ڈٹ جانا چاہیے-
2. 26 دسمبر 1938ء میں ہندو واردھا سکیم پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پٹنہ میں قائد اعظم ()نے فرمایا کہ ہندو ذہنیت اور ہندو نظریہ کی ترویج کی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں اِسے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے-کیا مسلمانوں نے کہیں بھی ہندوؤں کو اسلامی ثقافت پڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن اِس کے باوجود اگر مسلمان کہیں خفیف سی آواز بھی بلند کرتے ہیں کہ ہندو ثقافت کیوں ہمارے سر منڈھے جا رہی ہے تو اُنہیں فرقہ پرست اور شورش انگیز ٹھہرایا جاتا ہے-
3. 22 جون 1939ء میں مسودۂ قانون مال گزاری پر ہندو اکثریت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے لیکن تم ہماری روح کو فنا کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گے،تم اس تہذیب کو مٹا نہ سکو گے، اُس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے-ہمارا نور ایمان زندہ ہے، زندہ رہا ہے اور زندہ رہے گا،تم ہمیں مغلوب کرو، ہمارے ساتھ بدترین سلوک کرو، ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو ہم لڑتے لڑتے مر جائیں گے-
4. 13 نومبر 1939ء میں یوم عید کے موقع پر قائد اعظم () نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ہمیں قرآنی دلائل کی روشنی میں اپنے اخلاق و عقائد کو درست کرنا چاہیے اور اِسی روشنی میں حق و صداقت کی جستجو بھی کرنی چاہیے، اگر ہماری صداقت پرستی بے لاگ ہے تو ہم ضرور اپنی منزل کو پا لیں گے-صداقت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں اتنے ہی حصے پر قناعت کرنی چاہیے جس کو ہم دوسروں کی حق تلفی کئے بغیر حاصل کر سکتے ہیں،آخر میں میری یہ تاکید نہ بھولنا کہ اسلام ہر مسلمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر اپنا فرض ادا کرے-
5. 25 فروری 1940ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے، اگر اب بھی تم نے ہمارا مقصد نہیں سمجھا تو میں کہونگا کہ تم کبھی نہ سمجھ سکو گے، یہ بالکل صاف ہے، برطانیہ عظمیٰ ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے، مسٹر گاندہی اور کانگریس مسلمانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم نہ برطانیہ کو اور نہ مسٹر گاندہی کو مسلمانوں پر حکومت کرنے دیں گے،ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں -
6. 23 مارچ 1940ء میں لاہور میں تاریخی خطب