تحریکِ پاکستان میں ہماری خواتین نے بحیثیت مائوں ، بیٹیوں ،بہنوں اور بیویوں کے جو کردار ادا کیا دنیا کی سہڑی میں اس سے قبل اور آج تک اس کے بعد بھی سیاست میں اس کی مثال نہیں ملتی-
بی اماں مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی والدہ نے برصغیر ہند کی خواتین کو آزادی کیلئے جس جذبہ و جوش و ہمت سے پکارا ، اس کی للکار و پکار بے نظیر ہے - بی اماں کے دونوں بیٹے جیل میں تھے اور مولانا جو ہر علی کی اہلیہ بھی آپ کے ساتھ آزادی کے سفر میں برابر شریکِ کار رہیں، قابل ستائش بات تو یہ ہے کہ عبدی بانو نامی بی اماں نے اور ان کی بہو نے پردے میں رہ کر مسلمان بیٹوں ، بھائیوں اور باپوں کی آزادیکیلئے مخلص و بے لوث جدو جہد کی - انہوں نے ۱۹۲۰ء میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا - انہوں نے ہندوستان کے بڑے شہروں میں جاکر محلوں میں خواتین کو بیدار کیا - انہیں مسلم لیگ کا ممبر بنایا اور مسلم لیگ کے لئے فنڈز جمع کیے - یہ وہ وقت تھا کہ عورتوں کا کل اثاثہ ان کا زیور ہوتا تھا اور انہوں نے بی اماں کی ایک آواز پر اپنا زیور بھی مسلم لیگ کے چندے اور تحفے کیلئے قربان کردیا بے حد خوشی اور جوش و خروش کے ساتھ- یہ ہے حقیقت میں مثال ، آزادی کے سفرِ اوائل میں خواتین کے کردار کی!
اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح اس قدر متأثر ہوئے کہ انہوں نے محسوس کیا کہ خواتین کو بھی مسلم لیگ کا ممبر بن کر تحریکِ آزادی کا متحرک کارکن بن کر اپنا رول ادا کرنا چاہیے-
بنا بریں ۱۹۳۷ء میںلکھنئو کے ایک جلسہ کے دوران قائد اعظم نے مسلم لیگ ویمن ونگ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور ۱۹۳۸ ء کے جلسے کے چند سیشن کے بعد قائداعظم نے فرمایا کہ ہر ڈسٹرکٹ میں عورتوں کا مسلم لیگ ونگ بنایا جائے، ہر شہر کے محلوں میں خواتین نے دورے کر کے ان کو آزادی کے لیے سیاسی شعور پیدا کیا اور دو تین سال کے اندر خواتین کے ہر طبقے میں سفر آزادی میں براہِ راست و بالواسطہ شرکت کر کے کوشاں ہونے کی لگن لگ گئی - حتیٰ کہ صوبہ سرحد میں جہاں عورتوں کا گھروں سے باہر نکل کر جلسوں میں شامل ہونا واقعی ایک مشکل کام تھا خواتین میں بیگم زری سرفراز کا نام قابلِ ذکر ہے - ۱۹۴۰ء میں اپنی والدہ کے ہمراہ زری سرفراز مردان سے لاہور سفر کر کے آئیں تاکہ مسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسہ میں شرکت کریں ، انہوں نے ۱۶ سال کی عمر میں پختونخواہ صوبے کی خواتین کی نمائندگی کی مردان کے جلسے میں قائد اعظم کی خدمت میں وہ رقم پیش کی جو انہوں نے بہار کے ہندو مسلم فسادات میں متأثرین کیلئے چندہ جمع کیا تھا - دہلی پہنچ کر قائد اعظم نے مردان کی خواتین کا شکریہ ادا کرنے کا خط زری سرفراز کو لکھا-
خوش قسمتی سے بر صغیر کی مسلم خواتین نے یہ محسوس کر لیا کہ آزادی سفر میں تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا حل صرف ایک ہی ہدف میں ہے وہ ہدف اسلام ہے جس کے نعرہ پر مسلمانانِ ہند علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں- ’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان-‘‘ ’’ پہلے بنے گا پاکستان-‘‘ مسلم لیگ لیں گے پاکستان- آزاد تب ہوگا ہندوستان‘‘ مسلم لیگ زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد‘‘-
حقیتاً بر صغیر ہند میں مسلمان خواتین میں یہ شعور جاگ اٹھا کہ وہ ہندو تہذیب سے اپنی اسلامی تہذیب کو بچا کر رکھیں کیونکہ مسلم معاشرہ میں بیٹیوں، بہنوں اور مائوں کا لباس ، رہن سہن کھانا پینا ، طرزِ زندگی اور اس کے رسم و رواج ہندو معاشرہ سے بالکل مختلف ہیں،اوریہ ان کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت دے کر پروان چڑھ جائیں-
قائد اعظم محمد علی جناح نے انگلستان میں تعلیم کے دوران کیمرج یونیورسٹی میں یہ محسوس کر لیا تھا کہ مغرب کی تہذیب میں روحانی نشو ونما کے سامان کا فقدان ہے اور اسلام جسم و مادی ضروریات و لوازمات کے ساتھ اخلاقی ، قلبی، ذہنی و روحانی قدروں کو بر تر مقام دیتا ہے-بدن و روح کا توازن اور ہم آہنگی اسلامی تہذیب اور تعلیم و تربیت کی اساس ہے ، اسی وجہ سے ان دو متضاد تہذیبوں کے حامیوں کا معاشرہ میں مل جل کر رہنے سے بے حد مسائل کو جہنم دیتا ہے جن کا کوئی علاج ممکن نہیں صرف ایک ہی حل ہے علیحدہ ملک اور علیحدہ معاشرہ- اسی کو مصنفین اور ریسرچ کنندگان نے Reawgence of Muslim women National کا نام دیا -
محمڈن اینگلو اوریٹل کانفرنس ۱۸۹۶ ء میں منعقد ہوئی اور اس دوران آئیلہ بی A'ala Biمسلم خواتین کے متحد ہو کر آزادی کیلئے کام کرنے اوران کو راہبری دینے کی وجہ سے مسلم ویمن آرگنائزیشن کی تشکیل دی - دوسرے الفاظ میں ہم اسے محمڈن اینگلو اورینٹل کانفرنس کا فی میل برانچ کہہ سکتے ہیں -ا س تنظیم کا وقت کے دانشوروں اور مصنفین و مفکرین پر بہت مثبت اثر پڑا اور انہوں نے خواتین کی بیداری ، ان کے احساس ، حقو ق و فرائض کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا - بیسویں صدی کے آغاز میں نئے مسائل پیداہوگئے بالخصوص پہلی عالمی جنگ ۱۸-۱۹۱۴ء اور دوسری عالمی جنگ ۴۵-۱۹۳۹ء کا سانحات و واقعات نے برصغیر کی مسلم خواتین کو سخت مشکلات میں ڈال دیا - لاکھوں مسلم مائوں کے بیٹے، لاکھوں بہنوں کے بھائی اور اَن گنت بیویوں کے سہاگ، انڈین ملٹری سروس میں شہد ہوگئے - برٹش آرمی میں زیادہ تر پوٹھوار اور ہمارے شمالی علاقہ جات کے نوجوان بھرتی کر کے ۱۸ سالہ و ۲۰ سالہ عمر میں اتحادیوں کی فوج میں شامل ہوکر مختلف عالمی محاذوں میں لڑتے ہوئے جان دے دیتے تھے-
۱۹۱۵ میں قائد اعظم نے بر صغیر کی مسلم خواتین کو ہدایت کی کہ وہ آل انڈین ویمن آرگنائزیشن سے بائیکاٹ کر کے اپنی علیحدہ تنظیم وجود میں لائیں تاکہ ان کی اپنی الگ شناخت ہو-
پہلی عالمی جنگ کے دوران (۱۸-۱۹۱۴) یہ تنظیم نسواں بہت فعال ہوگئی اور لاہور میں آبرو بیگم کی زیرِ صدارت ایک کانفرنس منعقد ہوئی-
اس کانفرنس نے خواتین کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں انہوں نے ملکر حالات حاضرہ کے متعلق آگاہی پائی اور اپنے افکار کی نئی سمت موڑی ، اس طرح ان کے ذہنی و اخلاقی قوتوں کو گرمائی پہنچی اور سوچ کیلئے نئی راہیں پیدا ہوئیں،انہوں نے نہایت خوش اسلوبی اور اعلیٰ ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرد حضرات کے شانہ بشانہ سفر آزادی میں شامل ہو گئیں -نئی سوچ و نئی فکر نے خواتین میں تجسس کا مادہ پیدا کردیا اور ان میں زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے کی قوت اور انکا علم اور حل بھی معلوم ہونے لگا حل یہ کہ ’’بن کے رہے گا پاکستان ‘‘ ’’پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الا اللہ ‘‘ تحریکِ پاکستان کے اسی نعرہ میں حقیقی جوش و جذبہ خواتین نے بیدار کیا جس کی تاریخ گواہ ہے برصغیر کی مسلم خواتین کے جذبہ و جوش آزادی کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی تنظیمیں بنا کر اپنے آپ کو متحد کیا بلکہ فکری و علمی اصلاح کے لئے درس و تدریس کے میدان میں بھی سر شار ہو کر کام شروع کر دیا ۱۹۱۲ میں مدرسہ نسواں کا فکر جنم پاتا ہے اور اسکی تہذیبی و تعلیمی وتربیتی قدروں کو اجاگر کرنے کا ذریعہ وسیلہ بنتا ہے اس طرح مجموعی طور پر مسلمان خواتین کو پردے میں رہ کر اپنی تہذیب کے مطابق دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہونے کا موقعہ ملتا ہے- اسی جدوجہد نسواں نے بیرون اور اندرون خانہ مرد حضرات کا حوصلہ بڑھایا نتیجتاً تحریک آزادی دن دگنی رات چوگنی ترقی کے ساتھ پنپنے لگی اور اس کا نصب العین اور مقصد کامیابی کے دوراہے پر آکھڑا ہوا- خواتین نے اپنے مدارس میں علیحد ہ سلیبس ونصاب تعین کرنے کی بھی تجویز پیش کی اسی میدان میں نامور مجاہدۂ ملت و آزادی فاطمہ بیگم (۱۹۵۸-۱۸۹۰)ہیں - انکے والد محترم محبوب الٰہی پیسہ اخبار کے ایڈیٹر تھے، فاطمہ بیگم خواتین کی علمی وفکری بیداری کے لئے نہایت ولولہ انگیز وجوش پیدا کرنے والے مضامین میگزین شریف بی بی اور پیسہ اخبار میں لکھتی تھیں ان کی تعلیمی وسماجی و معاشرتی خدمات کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے بمبئی میں پہلی خاتون انسپکٹر س آف سکو لز تعینات ہوئیں -
یہ امر قابل ستائش اور قابل ذکر ہے کہ فاطمہ بیگم قائداعظم کے فرمان پر اپنی نوکری اور اپنی فیملی کو خیر باد کہہ کر بمبئی سے لاہور کوچ کر گئیں تاکہ وہاں کی خواتین کو سیاسی حلقے میں شامل کر کے منظم کریں اور مسلم لیگ کے متحرک کارکن وممبر بنادیں- فاطمہ بیگم نے آزادی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اور مثبت قدم اٹھایا اور نواں کوٹ کے قصبے میںمسلم خواتین کی دوسری تنظیم ’’انجمن خواتین اسلام ‘‘کی بنیاد ۱۹۰۸ ھ میں رکھی گئی- اسکی بانی لیڈی شفیع تھیں جنہوں نے خواتین میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے اور سیاسی بیداری کیلئے نمایاں کردار ادا کیا -بیگم شفیع نے اپنی تقریروں اور علمی مقالات و خطبات سے نہ صرف معاشرے کی خواتین کو باشعور بنا کر سفرِ آزادیٔ مسلمانانِ ہند کیلئے تیار کیا بلکہ اپنی بیٹیوں جہان آرا شاھنواز اور گیتی آرابیگم کو سیاسی لیڈرِ خواتین بنادیا جنہوں نے قائداعظم کا بے حد ساتھ دیا اور ہر مقام پر او رہر مرحلہ میں بے لوث جذبہ و عقیدت کے ساتھ پاکستان کے قیام کو اپنا نصب العین سمجھا انہوں نے اپنی خدمات کو اپنی کتاب سوانح عمری بعنوان(daughter and father)میں قلمبند کر کے خواتین کے کردار کو زندہ جاوید بنادیا تاکہ اس کو پڑھ کر آج کل کی بہنیں وبیٹیاں ومائیں اسی جذبہ سے سرشارہوکہ اپنے پاکستان کی خدمت کریںیہ واقعہ قابل ستائش ہے کہ ۱۹۴۶ھ میں آل انڈیا ویمن کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدر بیگم نواب بھو پال تھیں -اس کانفرنس میں سائمن کمیشن کے چیئر مین نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے صدارت کی - خواتین کی تقاریر سننے کے بعد انگشت بدندان ہوگیا اور اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا:
’’ ہندوستان کی آزادی اور اس میںکامیابی کی کنجی اس کی عورتوں کے ہاتھ میں ہے‘‘-
اس کانفرنس میں سَر شفیع نے بھی خطاب کیا اور بڑے فخر سے اس بات کا اعتراف کیا کہ خواتین کی سفر آزادی میں متحرک کردار ادا کر نے کیلئے انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں جہاں آراشاہنواز، اور گیتی آرا بیگم کو مسلمانانِ ہند کے مستقبل کے تحفظ کیلئے سیاسی زندگی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی - کیا خوبصورت امتزاج ہے مغربی تہذیب اور مشرقی اقدار کا ، یہ ہے حل آج ہمارے مسائل کا
۱۹۲۰ سے ۱۹۲۸ کے دورا ن چوہدری رحمت علی نے کیمرج یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم چند مسلمانوں کو اکٹھا کر کے ہندوستان میں مسلمان ریاست کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوشاں کیا ان میں احمد شفیع شیخ کشمیری مسلمان کا نام قابلِ ذکر ہے انہوں نے رحمت علی کے مشن کو جلا بخشنے کیلئے زمین کی آبیاری کی- احمد شفیع کی مدبرانہ سوچ اور کوشش سے اپنے والد محترم خان بہادر خان محمد انزی مجسٹریٹ راولپنڈی کو قائل کروایا کہ اپنی بیٹی تاج محل کو لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج میں اعلیٰ تعلیم کیلئے دہلی بھیجیں وہ پہلی مسلمان خاتون تھیںجنہوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری متعلقہ کالج سے حاصل کی اور بعد ازاں لاہور میں بحیثیت ڈاکٹر گلاب دیوی ہسپتال اور لیڈی میکلگن کالج میں ۲۵ سالہ بطور میڈیکل آفیسر خدمات سر انجام دیں-
یہ ذکر ہے ان خواتین کا تعلیمی شوق اور اس کے لیے تندہی سے محنت و مشقت تاکہ اس تعلیم و تربیت سے اِسلامیانِ ہند کا نصب العین پایۂ تکمیل تک پہنچے اور بر صغیر کی خواتین تعلیم کے ہتھیار سے مزین ہو کر سیاسی آگاہی اجتماعی شعور کے ساتھ اپنے مسائل کا حل کریں- نہ صرف رحمت علی اور ان کے معاونین نے خواتین کی تعلیم پر زور ڈالا بلکہ ان سے قبل ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا :
’’ مائوں کی پیشانیوں پر قوم کی تقدیر لکھی ہوتی ہے‘‘-
علامہ اور قائد اعظم نے ڈاکٹر تاج محل، بیگم سلمی تصدق حسین، جی اے خان ، بیگم جہاں آرا شاہنواز- باجی رشیدہ لطیف، بیگم سکینہ فرخ ،بیگم ہدایت اللہ ، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم نواب اسماعیل و دیگر کو جو اس وقت کی یعنی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں عملی ، معاشرتی ، تعلیمی اور سیاسی میدان سر گرم کارکن تھیں ان کو نگاہِ تحسین و قدر سے دیکھتے تھے-
قائد اعظم کی خواتین کے بارے میں روشن خیالی کی انتہا دیکھیئے- جب آپ نے لندن پہلی گول میز کانفرنس ۳۱-۱۹۳۰ میں شرکت کیلئے جانا ہے تو اپنے ہمراہ دو سرگرم سیاسی خواتین لیڈرز کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کر کے ساتھ لے گئے-
۱۹۳۵ انڈیا ایکٹ کے مطابق مسلم خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا لیکن مسلم ویمن ونگ کی خواتین نے بے حد اصرار اور تکرار کے ساتھ اس قانون کی بھر پور مزاحمت و مخالفت کی کیونکہ اسلام نے خواتین کو نہ صرف ماں و بیٹی و بہن ، بیوی کی حیثیت سے حقوق دیے ہیں بلکہ پرنسپل لاء آف شریعہ کے مطابق عورت کو سیاسی ، معاشرتی اور معاشی حقوق بھی حاصل ہیں جس کی بھر پور تائید ان چند تعلیم یافتہ مسلم خواتین نے کی-
۱۹۳۶ء میں ان خواتین نے بیگم شاہنواز اور بیگم رشیدہ لطیف نے بیرون لاہور اور اندرون لاہور کے متحد طور پر الیکشن جیت لیے اور قانون ساز اسمبلی کی مستقل ممبر بن گئیں- ان کی سیاسی فتح پر تمام مسلم خواتین کے حوصلے بلند ہوگئے اور بیداری و آگاہی میں بے پناہ اضافہ ہوا-
۱۹۳۷ میں بیگم شاہ نواز کے یہ نکتہ قائد اعظم کے سامنے پیش کیا کہ مسلم لیگ کی کونسل میں مزید خواتین کی شمولیت ناگزیر ہے قائد اعظم نے اس خیال کو بے حد سراہا مسلم لیگ اور کونسل میں خواتین کی ایک کمیٹی زیرِ صدارت مس فاطمہ جناح تشکیل دی، اس کے ساتھ انہوں نے یہ ہدایات جاری کیں کہ تمام صوبوں میں اسی طرز پر خواتین کمیٹی بنائی جائے تاکہ ان کا سیاسی شعور اور عملی سرگرمیاں تقویت پائیں- ۱۹۳۷ میں لکھنؤ میں مسلم لیگ سیشن میں یہ متفقہ فیصلہ ہوا کہ ہر صوبہ سے دو خاتون ممبران کو کونسل کمیٹی میں شامل کیا جائے اور اس کا منظم سسٹم بھی رائج کیا جائے-
ملاحظہ فرمائیے: ۷۶ سال قبل آزادی کے سفر پر رواں دواں صرف چند خواتین نے مل کر اپنے حقوق و فرائض اس سر زمین کو عالمی نقش پر لانے کیلئے جد جہد کس لگن ، جذبہ، شوق ، محنت ، عقیدت و وطن کی وفا و محبت کے ساتھ کی - کیا آج کے دور میں ان مائوں کی بیٹیاں اس شوق وجوش سے اپنے عزیز وطن کو سر بلند کرنے کیلئے تیار ہیں ؟ یہ ایک سوالیہ نشان اور لمحۂ فکریہ ہے-
اگر ہیں تو انہیں اپنے معاشرے کی بہنوں ، بیٹیوں اور ماؤں کی تربیت کیلئے کام کرنا چاھئے تاکہ ہم وہ قوم بن سکیں جس کا تصور قائد اعظم اور علامہ اقبال نے دیا -
٭٭٭٭