آج کا پاکستان اور قائداعظم

آج کا پاکستان اور قائداعظم

آج کا پاکستان اور قائداعظم

مصنف: ڈاکٹرعثمان حسن دسمبر 2014

اِسلام کی تاریخ میں ایسی بہت سی شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اسلام اور انسانیت کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں اورلوگوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کر کے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی جدوجہد کی مگر اُن کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے نظریا ت میں مختلف مکاتب فکر کے مابین اختلافات پیدا ہوئے اور اتحاد و یگانگی کے داعی ان شخصیات کے نظریات کو ہی بنیاد بناتے ہوئے مختلف مکاتبِ فکر نے اپنے درمیان اختلافات کو مٹانے کی بجائے اختلافات کو پروان چڑھا لیا- ایسی عظیم شخصیات کو جان بوجھ کر بھی متنازعہ بنایا جاتا ہے اور ایسا انجانے میں بھی ہو تا رہا ہے اور ایسا ہی قائداعظم محمد علی جناح کے متعلق بھی کیا گیا ہے- سوجی سمجھی سکیم کے تحت وہی لوگ ان کے نظریات پر اختلافات کو پروان چڑھا سکتے ہیں جنہیں قائد کے نظریات اور ان کی تحریک سے اختلاف ہے اور وہ بعد میں آنے والے افراد کو اُن کے نظریات سے دور رکھنا چاہتے ہیں جبکہ انجانے میں قائد کے نظریات پر اختلافات کی بڑی وجہ اُن کی شخصیت اور اُن کے نظریات کو پڑھنے اور سمجھنے سے قبل اُن کے متعلق حتمی رائے قائم کر لینا ہے جیسا ہمارے معاشرے میں بعض حلقوں کی جانب سے قائد پر سیکولر الزامات کی بوچھاڑ ہے-

کسی بھی نظریہ یا فلسفہ کو سمجھنے کیلئے اُس کی فقط ایک جھلک دیکھ لینا کافی نہیں ہوتا- بالکل ایسے ہی جیسے اشتراکیت (کمیون ازم) کا نظریہ پہلی نظر میں غریب عوام کو بہت دلفریب لگتا ہے مگر اس کی گہرائی میں ایسی خامیاں موجود ہیں جو اسے معاشرے میں زیادہ دیر تک نافذالعمل نہیں رہنے دیتیںچنانچہ کسی بھی نظام یا نظریہ کو مکمل سمجھے بنا اس کے متعلق حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی- اسلام کے اکثر ناقدین کے ساتھ اسی قسم کے مسائل درپیش رہتے ہیں کہ وہ اسلام کو مکمل طور پر مطالعہ کئے بغیر فقط چند احکامات یا واقعات کو بنیاد بنا کر اسکے متعلق اپنی حتمی رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی اصل روح سے محروم رہ جاتے ہیں- قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور ان کے نظریات کے متعلق ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے پائے جانے کی بھی ایسی ہی وجوہات ہیںجب تک قائد کی زندگی کے مختلف پہلوئوں، ان کے نظریات اور سیاسی اقدامات کو اُس وقت کے تناظر میں نہ دیکھ لیاجائے اُس وقت تک اُن کے متعلق حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی قائد کی زندگی کے کسی اہم واقعہ کو نظر انداز کر کے یا کسی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر ان کے نظریات پر بحث کی جا سکتی ہے-

پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کو آج تقریباً تمام مکاتب فکر سراہتے نظر آتے ہیں- البتہ ہر مکتبہ فکر چاہتا ہے کہ اُن کے نظریات کو اپنے مطابق ڈھال کر پیش کرے اور اسی مقصد کیلئے بسا اوقات اُن کی گیارہ اگست کی تقریر کو یا تو باقی نظریات سے الگ کر دیا جاتا ہے یا پھر باقی تمام اقدامات و نظریات کو کسی مصلحت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو گیارہ اگست کی تقریر اسلامی ریاست و نظام کی نفی کرتی ہے اور نہ ہی وہ ان کے باقی اقدامات و نظریات سے جدا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ جدت و قدامت کے امتزاج سے مزین قائد اعظم کی شخصیت کو بعض مذہبی شخصیات سمجھنے سے قاصر رہیں اور ان کی مخالفت نے بھی سیکولر مکاتب کو یہ جواز فراہم کیا کہ وہ یہ رائے قائم کر سکیں کہ قائد کے کچھ اقدامات شاید اسلام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ان پر یہ الزامات لگاتے رہے ہیں وہ خود یا تو اسلام کے جدت اور ارتقاء پسند نظریہ کو سمجھنے سے قاصر رہے یا پھر سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ان پر ایسے الزامات لگائے گئے۔ اورمراۃ العارفین کے گزشتہ سالوں کے مختلف شماروں میں ان موضوعات پر نہایت سیر حاصل گفتگو بھی گئی ہے اور گیارہ اگست کی تقریر کا اسلام کے اولین تحریری دستور یعنی میثاقِ مدینہ سے تقابلی جائزہ کر کے ان تمام پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو کی جا چکی ہے- راقم کا یہ سب بیان کرنے کا مقصد قائداعظم کی ہمہ جہت شخصیت کی جانب توجہ دلانا ہے کہ آج ہر مکتبہ فکر قائد کو سراہتا نظر آتا ہے تو پھر تمام مکاتب فکر افکارِ قائد کی بنیاد پر آپس میں ایک نقطہ پر متفق کیوں نہیں ہو سکتے؟

تاریخِ عالم شاہد ہے کہ دنیا میں وہی تحریکیں اور انقلابات کامیاب ٹھہرے ہیں جن میں ہر مکتب کے شخص کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور ہمارے وطنِ عزیز میں تاریخ کے ابتدائی دور میں اس کی بہترین مثال قائداعظم نے پیش کی اسی لئے ان کے نظریات میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ہر مکتب ان کو سراہنے اور اپنانے پر مجبور ہے-برصغیر میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت بھی مسلمان زبوں حالی کا شکار تھے مگر علامہ اقبال کے افکار نے ان میں ایک نیا جذبہ اور تحرک کی ایک نئی روح پھونکی اور قائد نے اُنہیں اپنی ولولہ انگیز قیادت سے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور اجتماعی سعی سے پاکستان کا حصول ممکن ہوا- اُس زمانے کے حالات کے مطابق دیکھا جائے تو بظاہر ایسا ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے مگر قائد کی ولولہ انگیز قیادت نے اسی قوم کو اتنی ہمت اور جلا بخشی اور اس سعی پر قدرت الٰہی نے ہمیں اس وطن عزیز کی عظیم نعمت سے نوازا-بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر ابھارا جاتا ہے کہ آج ہمارا وطنِ عزیز زبوں حالی کا شکار ہے اور شاید یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور جس کی تکمیل قائد نے کی- راقم صرف اتنی گزارش کرنا چاہے گا کہ اُس وقت کے حالات آج کے حالات سے کسی طور بہتر نہ تھے- اگر اُس وقت قائد اس قوم سے مایوس نہیں ہوئے اور اسی قوم کو متحرک کر کے پہلی منزل حاصل کی تو یقینا اگر وہ آج موجود ہوں تو وہ آج کے حالات سے بھی ہر گز مایوس ہونے والے نہیں- ضرورت فقط اتنی ہے کہ جن بنیادوں پر اقبال اور قائد نے ہمارے آبائو اجداد کو متحرک کیا تھا، آج ہمیں دوبارہ اُنہی بنیادوں پر اپنی عمارت کھڑی کرنی ہے جسے ہم نے پچھلی چھ دہائیوں سے ادھورا چھوڑ رکھا ہے- کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہمیں روحانی پلیٹ فارم پر متحرک کیا جائے اور {لا الٰہ الا اللّٰہ }کے نعرہ پر اکٹھا کیا جائے تو ہم اس پر کوئی بھی عذر پیش کرسکیں اور یہی وہ نظریہ ہے جس پر عمل کیا جائے تو اس میں اتنی طاقت اور توانائی ہے کہ نہ صرف تمام مکاتب فکر کو اپنے اندر سمو سکتا ہے بلکہ آنے والے وقت کیلئے بھی ایسی مثال قائم کر سکتا ہے کہ ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی مختلف مکاتب فکر قائد کو اپنا راہنما اور آئیڈیل تسلیم کرتے ہیں-

 قائد کے افکار اور ان کی قیادت کی طاقت ہے کہ ہر مکتب انہیں اپنانا اپنے لئے فخر سمجھتا ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ کھلے ذہن اور مطالعہ کے ساتھ قائد کے افکار کو نئی نسل تک پہنچایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سب ایک نقطہ پر متفق ہوں اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کی تجربہ گاہ بنا سکیں-ان کی قیادت نہ صرف جدید اسلامی ریاست کے لئے رول ماڈل ہے بلکہ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر اسلام کے جدت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھا جائے تو پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو سکتی ہے اور گروہ بندیوں اور فرقہ واریت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان اصولوں میں اتنی گنجائش، صلاحیت اور خوبیاں موجود ہیں کہ اسلام کی روحانی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے تمام انسانوں کو اس کی جانب متوجہ کیا جائے جیسا آج سے چودہ سو سال قبل ہوا تھا اور زمین کے طول و عرض پر لوگوں نے اسلام کے عالمگیر پیغام پر لبیک کہا تھا- پچھلی کئی دہائیوں پر محیط اس خلاء کو تنظیم العارفین نے پر کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور نہ صرف نوجوانوں کی نظریاتی تربیت جاری ہے بلکہ عوام الناس میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلامی نظام کو جدید نظریات اور علم و تحقیق کی ضرورت ہے جس جانب علامہ اقبال نے اپنا کردار ادا کیا اور ہماری توجہ دلائی تھی-سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ سے اقبال کی اِس فکر کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری‘‘ کو لیکر جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں آگے بڑھنے والی یہ تحریک انسانی فطرت اور معاشرے کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نظام کو آگے بڑھا رہی ہے اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان اسلام کی حقیقی تجربہ گاہ اور دنیا کیلئے ایک مثال بن کرسامنے آئےگا-

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر