قدامت اور جدت دو متضاد ترجیحات ہیں-دونوں کی اپنی اہمیت اورتقاضے ہیں- قدامت کا لفظی معنی بعد زمانی، گزرا ہوا، بہت پرانا؛ اور جدت کا لفظی معنی تازہ پن، نیا یا جدید جو جاری ہے موجودہ ہے- بہت سی قدیم روایات ایسی ہوتی ہیں جو قدیم ہونے کے باوجود بھی اپنی اہمیت برقرار رکھتی ہیں- یہی وجہ ہے کہ انسان فطرتی طور پر قدیم اور جدید روایات کے ساتھ زندگی گزارنےکو ترجیح دیتاہے اور یوں اپنے ماضی اور حال کے امتزاج کو قائم رکھتا ہے-
اسلام قدیم و جدیدکو اپنے اندر سمونے کی طاقت رکھتا ہے- جیسا کہ اسلام میں بہت سے ایسے اعمال، فرض اور واجب ہیں جو پہلی امتوں پہ بھی فرض تھے مثلاً نماز، روزہ، جہاد وغیرہ- حضور نبی کریم(ﷺ) بھی قدامت و جدت کا حسین امتزاج ہیں آپ (ﷺ) نے بہت سی روایات کو باقی رکھا جو پہلے سے موجود تھیں مثلاً قسامت کا تصور جو پہلے موجود تھا آپ (ﷺ) نے ویسے ہی رکھا- حضور پاک (ﷺ) نے مسلمانوں کو جدید آلات سے لیس فرمایا مثلاً صحابہ کرام ؓ نے منجنیق بنانے اور چلانے کا طریقہ کار سیکھا- تاکہ مسلمان جدید آلات اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں- جب مسلمانوں کی فتوحات میں اضافہ ہوا اور سمندری جنگوں کی ضرورت پیش آئی تو مسلمانوں نے بحری جہاز بنائے- اس طرح اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو مسلمان قدامت و جدت کا عکاس نظر آتے ہیں- یہی اسلام کی خوبی ہےکہ جہاں قدامت کو جگہ دیتا ہے وہیں جدت کوبھی قبول کرتا ہے-
اسلام کی فلسفیانہ تعبیر میں جو چیز اسے قائم و دائم رکھنے اور بقول علامہ اقبال متحرک رکھتی ہےاور ابدی دین ہونے کا تصور دیتی ہے وہ اس کا قدیم و جدید کو اپنے ہاں قبول و رد کرنا ہے- اسلام کا ایک نظام ہےجس کے مطابق اصول واضح کر دیئے گئے ہیں اور ان اصولوں کی روشنی میں ہر نئی چیز کو پرکھا جاتا ہے، اگر وہ مطابقت رکھے تو قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں- اس بات کو عام فہم انداز میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ آئین پاکستان میں ہے کہ قرآن وسنت کے مخالف کوئی قانون نہیں بنایا جائےگا تو اس سے مراد انہی اصولوں کی روشنی میں نیا قانون ترتیب دیا جائے گا- اقبالؒ کے نزدیک تو اسلام بھی قدیم و جدت کے سنگم پر کھڑا ملتا ہے- اجتہاد، قیاس، استصلاح، مصالح مرسلہ اورفقہ حنفی کا ’’نظریہ سیاسہ‘‘ جیسے نظریات اسلام کو زندہ وجاوید بھی بناتے ہیں اور قدیم و جدید سے ہم آہنگ کرنے میں معاون و موافق بھی ہوتے ہیں-
اسلام کا کامل دین ہونے اور حضورنبی کریم(ﷺ) کا خاتم الانبیاء ہونے کا مطلب بھی اسی تناظر میں دیکھا جائےتو موضوع کا مکمل فہم حاصل ہوتا ہے کہ جب انسانی تہذیب اپنی ترقی کے اعتبارسے مختلف منازل طے کر رہی تھی تو انسانی زندگی کیلئے کوئی ایسے بنیادی ٹھوس اصول متعین نہ تھےجن پر عمل رہتی دنیا تک کے لئے ممکن ہوتا- انسانی تہذیب کے اسی ارتقائی عمل کو اقبال اپنے خطبے ’’مُسلم ثقافت کی رُوح‘‘ میں یوں بیان کرتے ہیں:
“There is no doubt that the ancient world produced some great systems of philosophy at a time when man was comparatively primitive and governed more or less by suggestion. But we must not forget that this system‐building in the ancient world was the work of abstract thought which cannot go beyond the systematization of vague religious beliefs and traditions, and gives us no hold on the concrete situations of life”.[1]
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیائے قدیم نے ایک وقت میں بعض بہت بڑے فلسفیانہ نظام پیش کئے،جبکہ انسان اپنی ابتدائی منازل پر تھا اور اس پر کم و بیش روایات کا غلبہ تھا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پرانی دنیا میں یہ نظام بندی مجرد فکر کا نتیجہ تھی، جو مبہم مذہبی اعتقادات اور روایات کی ترتیب و تنظیم سے آگے نہیں جاسکتی اور اس سے ہمیں زندگی کے ٹھوس حقائق پر گرفت حاصل نہیں ہو سکتی‘‘-
انسان کی رہنمائی کےلئے مختلف ادوار میں مختلف انبیاء تشریف لاتے رہے، جنہوں نے ’’خیر‘‘ کی دعوت دی اور ’’شر‘‘ سے روکا- یہ اصول ہمیں تمام شریعتوں میں ملتا ہے اس کے بعد آپ(ﷺ) کی ولادت باسعادت کا وقت آن پہنچتا ہے جس کو علامہ اقبالؒ یوں بیان فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کی بعثت ایسے وقت پر ہوئی جو زمان و مکاں کے اعتبار سے موزوں ترین ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:
’’بنی آدم پر یکے بعد دیگر ے گزرنے والے قرون میں سے سب سے بہتر قرن میں مجھے معبوث کیا گیا اور سب سے بہتر قرن وہی ہے جس میں مجھے بھیجاگیا‘‘-[2]
حضرت علامہ اقبال اسی بات کو اپنے ایک خطبہ میں کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں :
“Looking at the matter from this point of view, then, the Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned he belongs to the ancient world; in so far as the spirit of his revelation is concerned he belongs to the modern world. In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction”.
’’اس معاملے پر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو ہمیں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد (ﷺ) قدیم اور جدید دنیاؤں کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں-جہاں تک آپ (ﷺ) کی وحی کے منابع کا تعلق ہے تو آپ (ﷺ) کا تعلق قدیم دنیا سے ہے- جہاں تک اس وحی کی روح کا تعلق ہے تو آپ (ﷺ) کا تعلق دنیائے جدید سے ہے-آپ نے زندگی میں علم کے کچھ دوسرے ذرائع کو دریافت کر لیا جو نئی سمتوں کیلئے موزوں تھے‘‘-
پس! انبیاء ؑ کا پیغام ِہدایت پہنچانےکا فریضہ اپنے حتمی انجام کو پہنچا اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کا قدیم وجدید وقت کے درمیان میں تشریف لانا جن کے علِم سر چشمۂ وحی کا تعلق قدیم بنیادوں پر استوار ہے لیکن جس کی روح ایسے افکار سے عبارت ہے جن کی روشنی میں جدید دنیا کے لئےحل نکالا جا سکتاہے- انسان کےدنیا میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی انسانی تہذیب اپنی ترقی کے مختلف مدارج سے ہوتے ہوئے اس مقامِ انتہا پر آن پہنچتی ہے جس کی سعی تاریخ انسانی کے ساتھ شروع ہوئی تھی اور نبوت کے سلسلے کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا اور یوں دینِ اسلام کو رہتی دنیا تک کے لئے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنایا گیا-
حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) بھی قدامت و جدت کا حسین امتزاج ہیں آپ کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آپؒ قدامت و جدت کی ایک تصویر کے طور پہ نظر آتے ہیں- قدیم روایت جو حضور پاک (ﷺ) سے چل رہی ہے اسی طرز پہ آپؒ نے مرشد کے ہاتھ پہ بیعت کی آپؒ کے مرشدِ کریم سلطان الاؤلیاء حضرت سلطان محمد عبد العزیز ؒ ہیں جو آپؒ کے والدِ محترم ہیں - آپؒ کا اپنے والدِ محترم سے باپ بیٹے کی بجائے طالب و مرشد والا تعلق تھا- جس روایت پہ حضور پاک (ﷺ) کی ذات مبارکہ سے لے کر آج تک تمام اہلِ فقر ہستیاں عمل پیرا ہیں آپؒ نے اسی روایت کی طرز پہ لوگوں کو بیعت فرمایا اور اسمِ اعظم کی لازوال دولت سے مالا مال کیا-آپؒ اس قدیم روایت پہ گامزن رہے-
حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے کئی صدیوں سے جامد خانقاہی نظام اور تصوف کےاندر نئی روح پھونکی اور اس کو وہی جلا بخشی جس کے لیے یہ قائم ہوا تھا- آپؒ نے اصل امر کی حقیقی تصویر پیش کی کہ تصوف کی حقیقت فقرِ محمدی (ﷺ) ہے اور آپؒ نے تصوف کو محض فلسفیانہ انداز میں پڑھنے اور سمجھنے کی بجائے عمل پر زور دیا- آپؒ نے اس پرفتن دور میں تصوف کو زندہ کیا اور مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کرنے کا راستہ دکھایا- تصوف کا اصل مآخذ قرآن و سنت کو قرار دیا اور نظریہ فقر کو عوام و خاص میں واضح کیا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ کیسے یہ انسان کو دنیا سے لایحتاج کر دیتا ہے-
سلطان الفقر (قدس اللہ سرّہٗ) خانقاہی نظام میں قدامت و جدت کا امتزاج نظر آتے ہیں- آپؒ نے اپنے مریدوں اور ارادت مندوں کو روایتی پیری مریدی تک محدود نہ رکھا بلکہ انہیں طالبِ مولیٰ بنایا- اسمِ اعظم اور اپنی نگاہِ کامل سے ان کے باطن کو پاک فرما کر ان کو لوگوں کی رہنمائی کیلئے دنیا میں بھیجا تاکہ لوگوں کو معرفت اور قرب ِ الٰہی کی دعوت دیں آپؒ نے جہاد بالنفس کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا درس بھی دیا- روایتی پیری مریدی کی بجائے طالب مولیٰ بنا کر لوگوں کو معرفتِ الٰہی کی دعوت دی اور دعوت الی اللہ کیلئے1986ء میں انجمن غوثیہ عزیزیہ حضرت حق باھو سلطانؒ پاکستان وعالمِ اسلام رجسٹرڈ کرائی- اسی انجمن کے تحت آپؒ نے 1987ء میں اصلاحی جماعت تشکیل دی- اس جماعت کی بنیاد اللہ پاک کے اس فرمان کے مطابق رکھی گئی:
’’وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘[3]
’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور نیکی (معرفتِ الٰہی) کا حکم دیں اور برائی (غفلت) سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے‘‘-
آپؒ نے 1989ء میں اصلاحی جماعت کے تبلیغی شعبہ کا اجراء فرمایا اور اصلاحی جماعت میں شامل افراد کی تربیت کا اہتمام فرمایا- اصلاحی جماعت کے تربیت یافتہ افراد کے لیے ’’صدر‘‘ کا نام منتخب فرمایا یہ ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی ہے جو کسی جماعت کے افراد کے لئے استعمال ہوئی- صدر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے سینہ- یعنی ان کا سینہ آپؒ نے کھول دیا- آپؒ نے جماعت کو ضلع، تحصیل اور یونٹ کی سطح پہ منظم کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچایا جا سکے- آپؒ نے فروری 1989ء میں اصلاحی جماعت کے مرکزی اجتماع بعنوان میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) کا کامیاب انعقاد فرمایا یہ اجتما ع 1991ء سے لے کر آج تک بتاریخ 12-13 اپریل کو دربار عالیہ حضرت سلطان العارفین سلطان حق باھُوؒ پہ مسلسل کامیابی سےمنعقد کیا جا رہا ہے- آپؒ نے اصلاحی جماعت کو منظم کرنے کیلئے 1999ء میں عالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھی- آپؒ مختلف مقامات پہ محفل پاک کا اہتمام فرماتے پروگرام میں علماء کرام کے خطابات کے بعد بیعت فرماتے، اسمِ اعظم کا ذکر عطا فرماتےاور فرداً فرداً لوگوں سے ملاقات فرماتےجس میں لوگ آپؒ کے اخلاق سے بہت متاثر ہوتے-
حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے ماہنامہ مرآۃ العارفین کی 2000 میں بنیاد رکھی- جو کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری‘‘ کا ترجمان ہے- جس کی ماہانہ تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جو معرفتِ الٰہی، محبتِ رسول(ﷺ) اور نظریہ پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے-
حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے ’’دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو سلطانؒ آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز ؒ پہ قائم فرمایا- پہلے قرآن پاک کی حفظ و ناظرہ کی کلاسز حضرت سلطان محمد عبدالعزیز ؒ کے دور میں شروع ہوئی تھیں- 1992ء میں درسِ نظامی کی پہلی کلاس شروع ہوئی- جس میں مروجہ اسلامی کتب کے علاوہ تصوف اور جدید تعلیم بھی دی جاتی ہے- آج اس ادارے کا نظم و ضبط اپنی مثال آپ ہے جبکہ اس کی ملک میں درجنوں برانچز مزید بھی ہیں جن میں سینکڑوں طلباء تحصیل علومِ دینی کیلئے زانوئے تلمذ تہ کیے ہوئے ہیں اور جَیَّد و نامور مفتی صاحبان و شیوخِ فقہ و حدیث تدریس کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں- آپؒ کا یہ قدم بھی قدامت و جِدَّت کا حسین اِمتزاج ہے-
آپؒ نےحضرت سلطان باھوؒ کی کتب کے تراجم اور دیگر صوفیائے کرام کی کتب کی اشاعت کیلئے ایک ادارہ ’’العارفین پبلیکیشنز‘‘قائم فرمایا- آپؒ نے حضرت سلطان باھو ؒ اور حضور غوثِ اعظم سید عبد القادر جیلانی ؒ کی تعلیمات کا ترجمہ کروا کر شائع کرایا- جن کی اس دور میں اشد ضرورت ہے-آپؒ نے ان کتب کا ترجمہ بمع متن شائع کرایا جو عصرِ حاضر تک اس ادارے نےحضرت سید عبد القادر جیلانی ؒ کی کتب کے تراجم بمع عربی متن اور حضرت سلطان باھوؒ کی کتب کے تراجم بمع فارسی متن کے سینکڑوں ایڈیشنز شائع کیے ہیں جو آج لوگوں کی ہدایت کے لیے مینارہ نور بنے ہوئے ہیں-
آپ معاشرے سے کٹ کے رہنے والے خشک واعظ کے طریقہ کے بر عکس ایک بھر پور معاشرتی زندگی کے قائل تھے ، اپنے معاشرے کے ہر طبقہ سے متعلق رہنا اور ہر ممکن طریقہ سے عامۃ الناس تک اپنا پیغام پہنچانا آپ کی حکمت و بصیرت کا حصہ تھا- اس لئے آپ مثبت و پاکیزہ ثقافتی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی فرماتے ، گھڑ سواری و نیزہ بازی ان میں سے ایک ہے- آپؒ نے نیزہ بازی میں قدیم و جدید تقاضوں کو پورا فرمایا - پاکستان میں ہونے والے نیزہ بازی کے مقابلوں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ آپؒ نے بہت سے مقابلے جیتے- آپؒ نے خود بھی بہت سے نیزہ بازی کے مقابلے کرائے جن میں بہت سے شہ سوار حصہ لیتے- آپؒ نے محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان کلب کی بنیا د رکھی جو پاکستان میں سب سے بڑا نیزہ باز کلب ہےآپؒ نے ’’ٹیم آف ایٹ‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج تک مختلف نیزہ بازی کے مقابلوں میں چل رہی ہے-
آپؒ کے ملبوسات کا ذکر کیا جائے توآپؒ قدامت و جدت کے عکاس نظر آتے ہیں-جہاں تہبند اور قمیض زیبِ تن فرمائی وہاں شلوار قمیض بھی پہنی- آپؒ کڑھائی والے قمیض اور اکثر واسکٹ زیب تن فرماتے- سر پہ سندھی ٹوپی پہنتے یا سفید شملہ والی دستار باندھتے- سر پہ کبھی کبھار سبز دستار تو کبھی مشدی باندھتے- آپؒ سردیوں میں سر پہ گرم ٹوپی، سویٹر، جرسی، گرم کوٹ زیب تن فرمایا- آپؒ گرم چادر بھی استعمال فرماتے، آپؒ کے قمیض کےاکثر کھلے کف ہوتےجبکہ ڈبل کف والے سوٹ بھی پہنتے جن میں آپؒ کف لنکس لگاتے، آپؒ دھوپ سے بچاؤ کی عینک بھی لگاتے جس کے سلیکشن آپ کے حسنِ ذوق کی آئینہ دار ہوتی ، سردیوں میں موزے اور جرابیں بھی پہنتے- اپنی کلائی کو گھڑی سے زیبا کرتے- آپؒ پاؤں میں زیادہ تر کھسہ پہنتے- آپؒ کنیالی، بوٹ کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف جوتے بھی پہنتے-
آپؒ ہر سال طویل سفر گھوڑوں پر فرماتے، مختلف جگہوں پہ گھوڑوں کے سفر میں تشریف فرما ہوتے سارا قافلہ گھوڑوں پہ ہوتا اور اونٹنیوں پہ سامان لدا ہوا ہوتا- جہاں پہ قیام فرماتے وہاں نماز پنجگانہ کا باجماعت اہتمام کیا جاتا اور اسمِ اعظم کےذکر کے ساتھ فجر اور عشاء کے بعد درس کا اہتمام کیا جاتا- فجر کی نماز کے بعد تفسیر قرآن پاک کا درس ہوتا اور عشاء کے بعد تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا درس ہوتا- جب آپؒ نے اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی تو آپؒ گھوڑوں پہ سفر کم فرماتے بلکہ آپؒ گاڑی پہ سفر فرماتے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک معرفتِ الٰہی کا پیغام پہنچ جائے-
آپؒ فن تعمیر کے حوالے سے انتہا درجے کاشوق رکھتے تھے اگر اس کا عملی نمونہ دیکھا جائے تو آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز ؒ پہ نوری مسجد اس کامنہ بولتا ثبوت ہے- اس میں شیشے کی کشیدہ کاری اور رنگوں کے حُسن امتزاج کی وجہ سے عوام الناس اس کو شیشوں والی مسجد کہتے ہیں- آپؒ نے مسجد پاک کا کام اپنی مرضی اور نگرانی میں کرایا- آج بھی انہیں دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے-
آپؒ کے انتقال کے بعد آپؒ کے جانشین حضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے منصبِ ارشاد سنبھالا توانہوں نے بھی سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ)کے طریق قدیم و جدت کو اپنا رکھا ہے- تمام شعبہ جات میں مزید ترقی فرمائی اور مزید شعبہ جات بھی قائم فرمائے- دورِ جدید کے مطابق مسلم انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اتحاد، استحکام اور مسلمانوں میں قائدانہ صلاحیتوں کا پیدا کرنا ہے- یہ مسلم اُمہ، پاکستان کے مسائل اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ریسرچ اور ڈائیلاگ کےذریعے کام کرتا ہے یہ پالیسی ساز اداروں کو پالیسی مہیا کرنے والا ریسرچ بیسڈ تھینک ٹینک ہے- آپ نے ایس بی سکول کی بھی بنیاد رکھی ہے جس میں تعلیم کے ساتھ تربیت پہ بھی زور دیا جاتا ہے- اس طرح اور بھی بہت سے اقدامات فرمائے ہیں- آپ بھی قدامت و جدت کی حقیقی تصویر ہیں-
حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کی نجی زندگی ہو یا آپؒ کی تحریکی زندگی، آپؒ کے قائم کردہ ادارےہوں یا ان کے لیےکیے گئےاقدامات ہوں، آپؒ کا لباس ہو یا آپؒ کا رہن سہن- الغرض آپؒ ہر پہلو میں قدامت و جِدّت کا حقیقی امتزاج نظر آتے ہیں-
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ |
٭٭٭
[1]Reconstruction of Religious Thought in Islam, v
[2](تفسیر ابن کثیر، ج:2، ص:299)
[3](آل عمران:104)