شریعت و طریقت اور بانی اصلاحی جماعت کی تعلیمات

شریعت و طریقت اور بانی  اصلاحی جماعت کی تعلیمات

شریعت و طریقت اور بانی اصلاحی جماعت کی تعلیمات

مصنف: لئیق احمد دسمبر 2021

دین متین کا مکمل نفاذ احکامِ شرعیہ کی کامل پابندی کے باعث ہی ممکن ہے- ان احکامات کی پابندی سے بندہ مومن اپنی ذات، ساخت اور باطن کو سنوارتا اور نکھارتا ہے-

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں اسی متعلق لکھا ہے:

’’اِعْلَمْ اَنَّ مَا کَلَّفَ بِہ الشَّارِعُ۔۔۔ہُوَ الْاَعْمَالُ مِنْ جِہَةٍ اَنَّہَا تَنْبَعِثُ مِنَ الْہَیْئَاتِ النَّفْسانِیَّةِ الَّتِیْ ہِیَ فِی الْمِعَادِ لِلنُّفُوْسِ اَوْ عَلَیْہَا۔۔۔ وَ الْبَحْثُ مِنْ تِلْکَ الْاَعْمَالِ مِنْ جِہَتَیْنِ- اَحَدُہُمَا جِہَةٌ اِلْزَامُہَا جَمْہُوْرَ النَّاسِ۔۔۔وَ الثانِیَةُ تَہْذِیْبُ نُفُوْسِہِمْ بِہَا وَاِیْصَالُہَا اِلٰی الْہَیْئَاتِ الْمَطْلُوْبَةِ مِنْہَا۔۔۔ فَالْبَاحِثُ عَنْہَا مِنَ الجِہَةِ الْاُوْلٰی ہُوَ عِلْمُ الشَّرَائِعِ وَ عَنِ الثَّانِیَةِ  ہُوَ عِلْمُ الْاِحْسَانِ ‘‘[1]

’’شرعی احکام جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو مکلف کیا گیا ہے وہ دو طرح کے ہیں: ایک تو ان کی ظاہری صورت ہے اور اسی سے حکم کی بجا آواری ہونے نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے- دوسری ان کی وہ تاثیر ہے جس سے انسان کا قلب اور روح سنورتے اور بنتے ہیں- پہلی حیثیت کو علم الشرائع کہا جائے گا اور دوسری حیثیت کا نام علم الاحسان ہے‘‘-

علم الشرائع کو علم شریعت اور علم الاحسان کو علم طریقت کہا جاتا ہے-

علم شریعت میں احکام ظاہرہ کی پابندی پر زور دیا جاتا ہے جیسے کہ نماز، روزہ، زکوٰة، حج، بیع و شراء اور نکاح وطلاق وغیرہ اور علم طریقت میں احکام باطنہ پر زور دیا جاتا ہے جیسا کہ صبر و شکر، رضا و تسلیم، تفویض و توکل اور اخلاص وغیرہ- المختصر یہ کہ شریعت ظاہر کو سنوارنے اور طریقت باطن کو سنوارنے کا نام ہے- ظاہر اور باطن آپسی ربط کے متحمل ہیں- اسی لئے شریعت و طریقت متضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کی معاونت کا باعث بنتے ہیں جبکہ ایک کی تکمیل دوسرے سے ہوتی ہے-

علوم ظاہریہ و باطنیہ کا اہم جزو ادب ہے اور اگر علم طریقت یا تصوف کی بات کی جائے تو یہ سراپا ادب ہی ادب ہے- اللہ پاک نے انسانی فطرت میں آداب کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اس کی تربیت پر زور بھی فرمایا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ ‘‘[2]

’’بیشک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے‘‘-

منہجِ حضرت سلطان باھو (قدس سرّہٗ العزیز) میں جہاں علم طریقت کا بیان ہے وہیں علم شریعت کی پاسداری بھی لازم ہے- آپ (قدس سرّہٗ العزیز) نے واضح طور پر علم الشرائع اور علم الاحسان کے آپسی ربط کو بیان فرمایا اور اپنے متعلق فرمایا کہ:

ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم

جیسا کہ ما قبل عرض کیا گیا کہ شریعت اور طریقت آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں- یہ ممکن ہی نہیں کہ شریعت ترک کر کے طریقت (تصوف) میں مقام پیدا کیا جائے یا فقط شریعت اپنا کر طریقت کو متروک کر دیا جائے- ساتھ ساتھ ادب و آداب کی اہمیت کے متعلق حضور سلطان العارفین (قدس سرہ العزیز) فرماتے ہیں:

علم پڑھیا پر ادب نہ سکھیا، کی لینا علم نوں پڑھ کے ھو

گو کہ تمام علمائے ربانیین کے ہاں علمِ شریعت اور علمِ طریقت کی ہم آہنگی ملتی ہے لیکن اس مضمون میں مختصراً حضور مرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس سرّہٗ العزیز) کا شریعت و طریقت میں ہم آہنگی پہ اصرار اور ادب و آداب کے بیانیے میں عظیم روحانی تحریک ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے بنیادی مقاصد پر روشنی ڈالی جائے گی-

حضور سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس سرّہٗ العزیز) ایک ایسی عظیم الشان ہستی ہیں جو فقر محمدی (ﷺ)کی امین، راہ فقر سے تسخیر کائنات تک طالب اللہ کی دسترس کو یقینی بنانے والے اور تاثیرِ فقر سے ’’اپنے من میں ڈوب کر‘‘ اپنے خالق حقیقی کی پہچان کا موجب اور مشعل راہ ہیں- آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کی پوری زندگی شریعت اور طریقت دونوں کا امتزاج ہے- آپ اپنے جد امجد حضرت سخی سلطان باھو (قدس سرّہٗ العزیز) کی تعلیمات پر خصوصی عمل کی تاکید فرماتے ہیں-

آپ کی تعلیمات انسان کو ظاہر و باطن میں اللہ عزوجل کے نظام کا پابند بناتی ہیں- آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کی نگاہ کاملہ ایسا جذبہ عشق بیدار کرنے کا موجب بنی ہے کہ جس کی بدولت فقر محمدی (ﷺ) اور دعوت الی اللہ کی تبلیغ کے لئے آپ کے تشکیل کردہ پلیٹ فارمز منظر عام پر آئے- جس سے عوام الناس کے دلوں کو انوارِ الہٰیہ کی وہ حقیقت معلوم ہوئی جو آج کے اس دورِ پُر فتن میں گمان کی حیثیت رکھتی تھی آپ نے جن پلیٹ فارمز کی تشکیل دی اُن میں درج ذیل ادارے شامل ہیں:

v     انجمن غوثیہ عزیزیہ حضرت حق باھو سلطانؒ پاکستان و عالمِ اسلام

v     اصلاحی جماعت

v     عالمی تنظیم العارفین

v     دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو  سلطان

v     ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل

v     العارفین پبلی کیشنز

v     العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن

v     مسلم انسٹیٹیوٹ

ان اداروں کا مقصد شریعت کے ساتھ طریقت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وفائے محمدی (ﷺ) کے سائے تلے اُمت مسلمہ کو در پیش مسائل کا عالمی سطح پر تدارک اور اسلام کو در پیش فکری و نظریاتی مسائل کا سدباب کرنا اور فکری و ملی استحکام کی کوشش جاری رکھنا ہے-

مدینہ ثانی ریاست پاکستان کی محبت اور وفا دین اسلام سے الگ نہیں بلکہ اس کا خاصہ ہے اور اس ملت کی خودی کو اجاگر کرنے کیلئے حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب  (قدس سرّہٗ العزیز)کے قائم کردہ ادارے اور ان کی گراں قدر خدمات اپنی مثال آپ ہیں- حضور سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ نےمبلغین اصلاحی جماعت کی سب سے پہلے باطنی تربیت اپنی نگاہ کاملہ سے کی اور جذبۂ طلبِ مولیٰ کو بیدار کر کے اللہ پر توکل اور ماسوائے اللہ سے ترک کے راستے پر چلنے کی تلقین فرمائی-اصلاحی جماعت کے مبلغین دعوت الی اللہ کا پیغام آج دنیا بھر میں خالصتاً اللہ کے نظام کو عام کرنے کے لئے مصلحانہ انداز میں مصروف عمل ہیں-

حضور سلطان الفقر  حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس سرّہٗ العزیز) کی ظاہری حیات شریعت و طریقت کا اتحاد تھی- جس پر چیدہ چیدہ نکات پیشِ خدمت ہیں:

طریقِ بیعت:

حضور سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس سرّہٗ العزیز) جب بھی کسی کو بیعت فرماتے تو سب سے پہلے اسے نماز، روزہ، تراویح و دیگر احکام شرعیہ کی پابندی کا حکم فرماتے اور ساتھ ہی تصور اسم اللہ ذات کا بھی پابندی سے ذکر کرنے کا حکم فرماتے تھے- آپ (قدس سرہ العزیز) نے اپنی ظاہری حیات میں ہمیشہ شریعت اور طریقت کو مقدم رکھا ہے- نماز ظاہری وجود کی پاکیزگی کا باعث ہے- نمازی کا نماز ادا کرنے کیلئے ہمیشہ پاک ہونا ضروری ہے- ظاہری طہارت نماز سے عطا ہوتی ہے جو کہ شریعت ہے اور باطنی طہارت کا تعلق انسان کے قلب سے ہے- جس کے لئے آپ مریدین اور معتقدین کو اسم اعظم کا ذکر عطا فرماتے تھے- تاکہ شریعت پر مکمل عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ طریقت پر بھی مکمل عمل کیا جائے-

پیکرِ مثال:

حضور سلطان الفقر (قدس سرّہٗ العزیز) نے شریعت اور طریقت کے احکامات کا لبادہ زیب تن فرمائے رکھا یہاں تک کہ آپ تہجد کی باجماعت نماز کا بھی اہتمام فرماتے تھے اور سفر و حضر کسی صورت میں بھی قلبی ذکر اللہ تصور اسم اللہ ذات قضا نہ فرماتے بلکہ کثرت سے فرماتے-

آپ (قدس سرّہٗ العزیز) زہد و ورع اور تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے- آپ ہمیشہ نہایت محبت سے شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے کا حکم فرماتے اور فرائض و واجبات پر سختی سے عمل فرمایا کرتے- آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کی محفل میں بیٹھنے والے اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ خوش طبع شخصیت کے حامل تھے، شریعت کے پابند تھے اور ہر آنے والے کو اسم اللہ ذات کے ذکر کی تلقین فرمایا کرتے تھے- آپ کا اندازِ بیان مسجع اور مقفیٰ سا تھا- گفتگو میں سادہ، سلیس اور محفل میں موجود لوگوں کے عین مطابق انتہائی حلیم الطبع تھے جو بھی آپ کی خدمت میں آتا وہ آپ کے آداب، انداز اور گفتار سے آپ کا گرویدہ ہوجاتا- آپ کی محفل میں آیا ہر شخص آپ کی شخصیت سے اس قدر تاثیر حاصل کرتا تھا کہ آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کے وجود کی برکت ہی اسے باعمل بنانے کیلئے کافی ہوتی تھی- خواہ دنیا دار ہو، خواہ دین دار، خواہ خواندہ ہو یا ناخواندہ ، آپ کی ذات سب کیلئے ایسی پیکرِ مثال تھی کہ جو آپ کو نماز پڑھتا دیکھتا تو اس کا بھی یہ عمل دہرانے کا جی کرتا تھا یعنی زبان سے کہنے کی حاجت نہ پڑتی بلکہ اس ذوق کو دیکھ کر ہی وجود میں شوق پیدا ہوجاتا تھا- شریعت اور طریقت کو آپ (قدس سرّہٗ العزیز) نے خود پر اس طرح نافذ فرمایا تھا کہ یہ کہنے میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ تصوّف آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کا اوڑھنا بچھونا تھا-

شرائع و اِحسان اور فکرِ سلطان الفقر:

رسالہ غوث الاعظم شریف میں حضور سیدنا غوث الاعظم  (قدس سرّہٗ العزیز) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ناسوت سے ملکوت تک جو طریق ہے وہ شریعت ہے اور ملکوت سے جبروت تک جو طور ہے وہ طریقت ہے-[3] یعنی ناسوت سے ملکوت تک اور ملکوت سے جبروت تک دو سواریاں ہیں ، ایک شریعت اور دوسری طریقت جبکہ جبروت سے لاہوت تک کی سواری حقیقت ہے- شریعت کی سواری سے طالب اللہ نے اپنے نفس کا تزکیہ کرکے اسے ستھرا کرنا ہے- طریقت کی سواری سے انسان نے قلب کی پاکیزگی حاصل کرکے لاہوت کی جانب بڑھنا ہے- جو حضرتِ انسان کا اصل مکان ہے- مختصر یہ کہ شریعت تزکیہ نفس ہے اور طریقت تصفیہ قلب ہے-

حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس سرّہٗ العزیز) کا طریقِ تبلیغ دیگر علماء کرام سے مختلف و منفرد تھا- جہاں علماء شریعت کے اعمال ثواب کی خاطر فرماتے وہاں حضور مرشد کریم (قدس سرّہٗ العزیز) اعمال تزکیہ نفس کیلئے کرواتے اور جہاں دیگر، اذکار و وظائف مقامات کی طیر سیر اور رجوعاتِ خلق کیلئے کرواتے وہاں حضور مرشد کریم (قدس سرّہٗ العزیز) ذکر فکر کا حکم تصفیہ قلب کیلئے دیتے تھے تاکہ طالب کی رسائی آگے جبروت تلک ہو- آپ محض ثواب اور محض حصولِ مقامات کیلئے شرائع و الاحسان کا حکم نہ فرماتے بلکہ تزکیہ نفس و تصفیہ قلب کی بنیاد پر حکم فرماتے تاکہ طالب کی سمت درست ہو اور وہ رجوع الی اللہ سے نہ بھٹکے-

اصلاحی جماعت کے مقاصد:

بلاشبہ بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس سرّہٗ العزیز) فقر محمدی (ﷺ) کے امین تھے اور ایسے بااثر بندہ مومن تھے کہ جس کے بارے حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں:

فقرِ مومن چیست؟ تسخیر حیات
بندہ از تاثیر او مولیٰ صفات

’’مومن کا فقر کیا ہے؟ کائنات کی تسخیر کرنا اور فقر کی تاثیر سے بندے کے اندر اپنے مولیٰ کی صفات منعکس کرنا‘‘-

آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کی خدمت میں کئی نامور شخصیات بھی آتیں- طارق اسماعیل ساگر مرحوم آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کی شخصیت سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے جب آپ (قدس سرّہٗ العزیز) پر کتاب لکھی تو آپ (قدس سرّہٗ العزیز) کو اقبالؒ کے مطابق ’’صاحب لولاک‘‘ فرمایا- بقول اقبال:

عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے!

حضور سلطان الفقر (قدس سرّہٗ العزیز) کی شخصیت پیکرِ مثال تھی- آپ کی ذات شریعت اور طریقت کے کامل عامل کا نمونہ تھی- ملک و ملت پر جب ظلمت کی تاریک گھٹا چھانے لگی اور پسپائی اور رسوائی کے بادل بڑھنے لگے تو آپ (قدس سرّہٗ العزیز) نے اصلاحی جماعت کا قیام فرمایا اور ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری‘‘کی فکر کو لے کر آپ ملک بھر کے کونے کونے پر گئے- اصلاحی جماعت عالمگیر مقصد کے تحت وجود میں آئی- تزکیۂ نفس، تصفیہ ٔ قلب، تجلیۂ سر اور معراج انسانیت کے حصول کی ندا لگا کر گلی گلی کوچے کوچے جماعت کا پیغام پہنچایا گیاتاکہ متلاشیانِ حق کو اس پُر فتن دور میں واصل بحق ہونے کا نسخہ عطا کیا جائے اور حقیقی ابلاغ، تعلیماتِ صوفیاء، پاسدارئ شریعت اور کیمیائے اکسیر (تصور اسم اللہ ذات) عطا کی جائے جس سے وہ اپنے ظاہر اور باطن کو پاک کر کے ’’ففروا الی اللہ‘‘ اور ’’رجوع الی اللہ‘‘ کرسکیں تاکہ جمعیت اور اخوت کے جذبات سے سرشار ہو کر جب فردِ واحد ابھرے تو وہ اسلامی معاشرت کی تشکیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے- یہی وجہ ہے کہ آج آپ (قدس سرّہٗ العزیز)  کی فکر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عام ہورہی ہے اور اصلاح و تربیت کا یہ مشن رواں دواں ہے-

٭٭٭


[1]( حجة اللہ البالغہ ،ج:2، ص: 26)

[2](النحل:90)

[3](مترجم: مولوی محمد حسین خان، پروگریسو بکس لاہور، ص:41-42)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر