اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب ترین اور پسندیدہ دین، دینِ اسلام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہماری فتح و نصرت کیلئے ہمارے لئے پسند فرمایا ہے یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر بنی نوع انسان کی ہدایت کے چراغ روشن کر تا ہے یہ سراپا رحمت اور خیر خواہی کا دین ہے- جس کی بنیادی تعلیم معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان امن و سلامتی، باہمی رواداری اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دینا ہے، یہ اپنے متبعین کو کبھی پریشان اور تنگی میں دیکھنا گوارہ نہیں کرتا بلکہ اپنے مبلغین کو حکم دیتا ہے کہ:
’’يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا‘‘[1]
’’آسانیاں پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو اور خوشخبریاں دو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو ‘‘-
مزید برآنکہ آدمی کو طاقت وقوت سے زیادہ مکلف بھی نہیں کرتا، جن کی گواہی قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
’’ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا ‘‘[2]
’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘-
اس کے جملہ احکامات و فرمودات زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لئے باعثِ رحمت اور اَمن و سلامتی اور صلح و آشتی کے ضامن ہیں، ایسے دینِ رحمت کو انتہاپسندی اور دہشتگردی کے ساتھ جو ڑنا،نا انصافی اور حماقت ہوگی، یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ جس کے خمیر میں ازل سے ہی الفت و محبت، اخوت و بھائی چارگی، عدل و انصاف، عفو و درگزر گوند دی گئی ہو،جو اپنے تو اپنے بیگانوں کے ساتھ بھی برابری کا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہو ،جو بغض وعداوت اور نفرت جیسی ناسور کی کھلے الفاظ میں مذمت کرتا ہو ،جو سب کی جان ومال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت بھی فرا ہم کرتا ہو، جو انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی الفت و محبت کی تعلم دیتا ہو بلکہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت چھری کو تیز کرنے کا حکم بھی جاری کرتا ہو،جو حالت جنگ میں بھی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر ہتھیار اُٹھانے کی اجازت نہ دیتا ہو ، پھر اِس دین کی جملہ تعلیمات کا مقصد ہی انسدادجرم اور انسداد فتنہ ہو، ایسے سراپا رحمت اور سراپا شفقت دین کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا، اُس کے خلاف مختلف قسم کے شکوک و شبہات پھیلانا باایں مقصد کہ لوگ دین سے متنفر ہو جاہیں گے، دین کو چھوڑ دیں گے اور جب دین کے پیروکار نہیں رہیں گے تو یقیناًایک نہ ایک دن یہ دنیا سے مٹ جائے گا-یہ دشمن کی بھُول ہے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب دین عطا کرنے والا رحمٰن و رحیم ہو ، دین سکھانے والا رحمۃ اللعالمین ہو اور دین سراپا امن و سلامتی کا مظہر ہو ، اِس دین کے خمیر سے عداوت اور نفرت کیسےجنم لے سکتی ہے؟ جو ’’ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ کی شانِ رغبت و محبت کے ساتھ آیا ہو اور اپنے اختیار کرنے میں بھی کوئی زبردستی نہ رکھتا ہو تو بھلا وہ کیسے اپنے ماننے والوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دے گا؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ دین اسلام کو بدنام کرنے سے دین کے عالمگیر اور آفاقی پیغام کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا، جو دین ’’لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ کی شان سے عطا کیا گیا ہو، اُس کی طاقت و قوت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا جس کی شان میں خالق کائنات نے یہ فرما یا ہو :
’’یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَ اللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ‘‘[3]
’’یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ(کی پھونکوں) سے بجھادیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں‘‘-
کیا اُس دین کو ختم کیا جاسکتا ہے،جس کے بارے میں حضور نبی پاک (ﷺ) نے یہ فرمایا ہو:
’’لَا يَبْقَى عَلَى الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللّهُ الْإِسْلَامَ بِعِزِّ عَزِيزٍ، أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ ‘‘[4]
’’روئے زمین پر موجود کوئی مکان یا خیمہ باقی نہیں رہے گا مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام داخل فرمائےگا، عزت والے کو عزت عطا فرما کر یا پھر ذلیل کو ذلت و رسوائی دے کر ‘‘-
کیااُس دین کا راستہ روکا جاسکتا ہے ؟ یہ طے شدہ بات ہے کہ نہ اُس کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اُس کا راستہ روکا جاسکتا ہے-
یہی وجہ ہے کہ 1400 سال پرانا ہو کر بھی ہر لمحہ و لحظہ ایک نئی شان اور نئی آن کے ساتھ تازہ دم ہو کر نمودار ہوتا ہے پہلے دن سے آخر تک اُس کے فیوض و برکات کے چشمے اُبلتے رہیں گے-’’پیامِ مشرق ‘‘ میں حضرت علامہ اقبال نے اسلام کےتعارف میں دو بنیادی باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی یہ کہ اسلام کا راستہ نہ کوئی روک سکا اور نہ کوئی روک سکے گا کہ یہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تمام بند و رکاوٹیں توڑتا ہوا، گھاٹیوں، وادیوں، پہاڑوں اور میدانوں سے گزرتا ہوا، تمام نشیب و فراز کو ہموار کرتا ہوا ، بادشاہوں کے محلوں، چمن اور باغوں سے گزر گیا لیکن اسلام کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ٹھہر سکی -دُوسرا اِس سوچ کا رد کرتے ہوئے فرمایا جو کہتے ہیں ’’میاں! دین تو 14 سو سال پرانا ہے اور دور جدید کے تقاضوں کا متقاضی کچھ اور ہے‘‘- اقبال اِن کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’در ہر زمان بہ تازہ رسید از کہن گذشت‘‘
’’اسلام تو ہر دور میں تازہ دم ہو کر آتا ہے نئے سے نیا ہو کر آتا ہے ‘‘-
پھر اقبال ایک راز کی بات بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دین ِاسلام کی غیرت و حمیت، طاقت و قوت، جلال و جمال اور نور و فراست کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے جس کے ذریعہ دین کی جملہ فیوض و برکات آدمی کے وجود میں منتقل ہو جاتی ہیں وہ راستہ اور ذریعہ ’ادب‘ ہے - فرماتے ہیں :
دین سراپا سوختن اندر طلب |
’’اُس(اللہ) کی طلب میں جلنا سراپا دین ہے-اُس کی انتہا عشق اوراُس کی ابتداء ادب ہے ‘‘-
یہی وجہ ہےکہ دین اسلام ہر مقام پر ادب کا متقاضی ہے آپ کو اسلام کا کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں ملے گا جو ادب کا تقاضا نہ کرتا ہو-
آپ نماز کو دیکھ لیں اِس کے قیام کو دیکھیں، اِس کے رکوع کو دیکھیں، اِس کے سجود کو دیکھیں،نماز کا ہر ہر رکن ادب کی عملی تصویر ہے، حضور نبی کریم (ﷺ) نے نماز سے متعلق ارشاد فرمایا:
«إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهٗ فَلْيَعْلَمْ بِمَا يُنَاجِيْهٖ‘‘
’’بے شک نمازی اللہ پا ک سے مناجات کرتا ہے تو اُسے اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کس سے مناجات کر رہا ہے ‘‘-
یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں سَراپا ادب بن کر حاضر ہو، تومعلوم ہوا کہ نماز سراپا ادب ہے، اسی طرح آپ روزہ کو دیکھ لیں سحری اور افطاری کے اُن اوقات کو چشم تصور میں لائیں کہ سب کچھ سامنے پڑا ہے مجال ہے اجازتِ شرعی سے پہلے ہاتھ اُٹھ جائے، روزہ ادب و فرمانبرداری کی انتہا ہے-اسی طرح آپ حج دیکھ لیں، احرام کو دیکھیں، تلبیہ دیکھیں:
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ
اسی طرح بارگاہِ الٰہی میں حاضری سے متعلق قرآن کہتا ہے:
’’وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ ‘‘[5]
’’اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے‘‘-
بارگاہِ مصطفےٰ (ﷺ) کے ادب سے متعلق قرآن کہتا ہے کہ:
’’لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ ‘‘[6]
’’(کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا کرو‘‘-
’’لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ‘‘[7]
’’تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو‘‘
’’وَ لَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ‘‘[8]
’’اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو‘‘-
’’لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًاط‘‘ [9]
’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو‘‘-
’’إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ‘‘[10]
’’بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے‘‘-
اِن جملہ آیات کریمہ میں اہل ایمان کو بارگاہِ مصطفےٰ کریم (ﷺ) کے آداب کی تعلیم دی جارہی ہے - جب دین کا ہر پہلو آدمی سے ادب کا تقاضا کرتا ہے - تو اس کا مطلب ہے ’’الاسلام کلہ ادب ‘‘ کہ اسلام سراپا ادب ہے اس لئے اس کے فیوض و برکات کے حصول کے راستہ و ذریعہ کو ادب قرار دیا گیاہے - یہی وجہ تھی کہ ہمارے اسلاف نے ادب پہ زیادہ زور دیا ہے:
شیخ أبو عبد الله، شمس الدين المقدسی الحنبلی (المتوفى: 763ھ)’’الآداب الشرعية‘‘میں لکھتے ہیں :
حضرت عمر فاروقؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
’’تَأَدَّبُوا، ثُمَّ تَعَلَّمُوا‘‘
’’(پہلے )ادب سیکھو پھر علم سیکھو‘‘-
امام اجل حضرت امام عبد الوہاب الشعرانی ’’الانوار القدسیۃ فی معرفۃ قواعد الصوفیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت امام مالکؒ نے ارشاد فرمایا:
’’يا محمد اجعل علمك ملحا وأدبك دقيقاً‘‘
’’اے محمد الشافعی! (اگر تم کچھ بننا چاہتے ہو ) تو اپنے علم کو نمک اور ادب کو آٹے کی مانند کرلو‘‘-
مطلب یہ تھا کہ جتنی مقدار آٹے میں نمک کی ڈالی جاتی ہے، اتنی مقدار علم کی ہو اور جتنی مقدار آٹے کی ہوتی ہے، اتنی مقدار ادب کی ہو، تب جا کر اُس علم کا نور اور برکات آدمی کے وجود میں منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اورپھر پورا معاشرہ اس آدمی سے مستفیض ہوتا ہے-
حضرت امام ابوالقاسم القشیریؒ المتوفی :465ھ ’’رسالہ قشیریہ‘‘ میں لکھتے ہیں: حضرت عبد اللہ ابن مبارکؒ نے فرمایا:
’’ہم زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑے ’’ادب ‘‘ کے زیادہ محتاج ہیں ‘‘-
امام شمس الدين المقدسی الحنبلی (المتوفى: 763ھ)’’الآداب الشرعية‘‘ میں اور امام ابو العون محمد بن احمد بن سالم السفارينی الحنبلی (المتوفى:1188ھ)’’غذاء الألباب فی شرح منظومة الآداب‘‘ میں امام احمد بن حنبل سے متعلق لکھتے ہیں :
’’وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ إسْمَاعِيل سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ كَانَ يَجْتَمِعُ فِي مَجْلِسِ أَحْمَدَ زُهَاءُ عَلَى خَمْسَةِ آلَافٍ، أَوْ يَزِيدُون، أَقَلُّ مِنْ خَمْسِمِائَةٍ يَكْتُبُون، وَالْبَاقِي يَتَعَلَّمُون مِنْهُ حُسْن الْأَدَبِ وَحُسْن السَّمْتِ‘‘
’’حسین بن اسماعیل نے فرمایا کہ انہوں نے اپنے باپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ امام احمد کی مجلس میں 5000 لوگ جمع ہوتے یا اس سے زیادہ اور 500سے کم لکھتے، باقی حُسن ادب سیکھتے اور حُسن رائے سیکھتے ‘‘-
امام عبدالوہاب الشعرانی ’’الانوار القدسیۃ فی معرفۃ قواعد الصوفیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’سیدنا عبدالرحمن بن القاسم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام مالک کے سامنے 20 سال زانوئے تلمذ تہہ کیا یعنی شاگردی اختیار کی، اِس عرصہ میں انہوں نے مجھے 18 سال ادب سکھایا اور صرف 2 سال علم سکھایا- بعد ازاں میں پچھتانے لگا کہ کاش وہ 2 سال جو مَیں نے علم سیکھنے میں صرف کیے، وہ سال بھی مَیں ادب سیکھنے میں صرف کرتا‘‘-
دین میں اَدب کی مقبولیت،پسندیدگی، اِس کے مبارک ہونے اور اِس کی اہمیت کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی کریم ، خاتم النبیین (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’أَدَّبَنِي رَبِّي فَأَحْسَنَ تَأْدِيبِي‘‘
’’مجھے میرے رب نے ادب سکھایا ہے پس میری تادیب احسن ہے‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) کی مکمل اتباع اور آپ کی سنت کی پیروی کے نتیجے میں یہ فیض آپ (ﷺ) کی اُمت کے اولیاء، صُوفیاء و عرفاء کو بھی نصیب ہوتا ہے جیسا کہ حضرت امام ابو القاسم القشیریؒ المتوفی :465ھ رسالہ قشیریہ میں حضرت ذوالنون مصریؓ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’قَالَ ذو النون المصري: أدب العارف فَوْقَ كُل أدب، لأن معرفة مؤدب قلبه ‘‘
’’حضرت ذون النون مصریؒ نے فرمایا: عارف کا ادب ہر ادب سے اوپر ہے اس لئے کہ معرفت ذات (اللہ عزوجل) اُس کے دل کو ’’ادب‘‘ سکھاتا ہے -
حجۃ الاسلام حضرت امام غزالیؒ صوفیاء کرام سے متعلق فرماتے ہیں :
’’فان جمیع حرکاتھم وسکناتھم ، فی ظاہر ھم و باطنھم، مقتبسۃ من نور مشکاۃ النبوۃ‘‘
’’پس بے شک ان (صوفیاء) کی تمام حرکات و سکنات چاہے ظاہری ہوں،چاہے باطنی نورِ مشکاۃ نبوت سے ہی منور ہیں ‘‘-
جس سے یہ معلوم ہوا کہ صوفیاء کرام بارگاہِ صمدیت اور بارگاہِ رسالت کے ہی فیض یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں-
اِنہی عرفاء اور صُوفیاء کی صف میں سے ایک مرد حق اور مرد خود آگاہ خانوادۂ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ کے عظیم چشم و چراغ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہٗ کی ذات گرامی ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی زندگی مبارک کا ہر ہر لمحہ کرامت تھی اور وہ یوں کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ سنتِ نبوی (ﷺ) کا عملی نمونہ تھی، اور اُمتی ہُونے کاحق بھی تب پُورا ہوتا ہے کہ انسان اپنے نبی کے اوصاف و خصائل کے سانچے میں ایسا ڈھلا ہوا ہو کہ امتی کو دیکھنے سے اُس کے نبی کی زیارت ہو جائے- یعنی دیکھنے والے کو بتانا نہ پڑے کہ میں تاجدارِ کائنات فخرِ موجودات احمد مجبتی حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کا اُمتی ہوں- بلکہ دیکھنے والا خود پہچان جائے کہ یہ کس نبی کا امتی ہے؟اور آپؒ کی قرآن و حدیث سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ آپ جب بھی گفتگو فرماتے وہ عین قرآن و سنت کے مطابق ہوتی - یہاں پر آپؒ کی زندگی مبارک کے چند آداب بیان کرتے ہیں تاکہ بات سند رہے-
عجز و نیاز او ر ادب کا پیکر ہونا
آپؒ صرف عاجزی پسند ہی نہ تھے بلکہ عجز و نیاز اور ادب کے پیکر تھے-آپ نے اپنا تخلص بھی عاجز رکھا ہوا تھا آپ کا ہر قول و فعل، چلنا پھرنا، سونا، جاگنا، اٹھنا، بیٹھنا حتی کہ لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنا، اُن سے مخاطب ہونا یہ سب عاجزی، وقار اور ادب کا آئینہ دار تھا-اِس عاجزی کا پسِ منظر یہ تھا :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ‘‘[11]
’’اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات یوں بیان فرمائی ہیں:
’’وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا‘‘[12]
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘‘-
رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
«إِنَّ اللّهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَبْغِيَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ»[13]
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم عاجزی کرو اور کوئی کسی پر سرکشی اورفخر نہ کرے‘‘-
اولاد کو ادب سکھانا
آپؒ اپنے شہزادوں کو ادب سکھانے کے حوالے سے جب کوئی معمولی سے معمولی بات سمجھا رہے ہوتے( جس کی عام آدمی کی نظر میں کوئی اہمیت نہ ہوتی اور نہ وہ اُس کی طرف کوئی توجہ دیتا ہے) تو اتنی سنجیدگی سے لیتے یوں محسوس ہوتا کہ آپ اُن کو کسی بڑی مہم کے لئے تیار فرما رہے ہیں اور فرمایا کرتے کہ اولاد کو اچھی تربیت دینا اور ادب سکھانا یہ والدین پر بنیادی حق ہے- دراصل اس کا پس منظر یہ تھا :
امام بخاری،صحیح البخاری میں’’قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ‘‘ [التحريم: 6]کی تفسیر میں حضرت مجاہدؒ کا قول نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں :
’’وَقَالَ مُجَاهِدٌ:أَوْصُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَأَدِّبُوهُمْ»
’’اور حضرت مجاہدؒ نے فرمایا : اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو اللہ پاک سے ڈرنے کی وصیت کرو اور انہیں ادب سکھاؤ‘‘-
امام ابن جریر أبو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ) اِسی آیت ’’قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نَارًا‘‘ کی تفسیر میں مولائے کائنات حضرت علیؓ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أَدِّبُوهُمْ، عَلِّمُوهُمْ‘‘
’’انہیں (اہل و عیال کو ) ادب سکھاؤ اور ان کوتعلیم دو‘‘-
رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْل أَفْضَلَ مِنْ أَدَب حَسَن‘‘[14]
’’والد کا بیٹے کو عطیہ دینا اچھا ادب سکھانے سے افضل نہیں ہے‘‘-
آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’لَأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَ لَدَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ‘‘[15]
’’مرد کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کر نے سے بہتر ہے‘‘-
شیخ الاسلام امام ابن حجر ہیتمی (المتوفی:974ھ) ’’فتاوی حدیثیہ‘‘ اور امام جلال الدین سیوطی ’’الجامع الصغیر‘‘ میں لکھتے ہیں :
حضرت علی بن ابی طالبؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’أَدِّبُوْا أَوْلَادَكُمْ عَلَى خِصَالٍ ثَلَاثٍ‘‘
’’اپنی اولادوں کو تین چیزوں کا ادب سکھاؤ‘‘
1-’’عَلَى حُبِّ نَبِيِّكُمْ‘‘
’’اپنے نبی (ﷺ)کی محبت‘‘
2-وَحُبِّ أَهْلِ بَيْتِهٖ،
’’آپ (ﷺ)کی اہلِ بیتؓ کی محبت‘‘
3-’’وَعَلَى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ‘‘
’’اورتلاوتِ قرآن کی محبت‘‘
یہی وجہ تھی کہ شہزادوں کو تجوید و قرأت کے ساتھ قرآن مجید پڑھانے کیلئے ایک انتہائی قابل ترین قاری صاحب ہر وقت موجود رہتے اور بچوں کے دل و دماغ میں محبتِ رسول (ﷺ) کو راسخ کرنے کیلئے اکثر و بیشترحضور نبی کریم (ﷺ) کا حُلیہ مبارک اور اوصاف و کمالات اُن کے سامنے بیان فرماتے رہتے -
اہل بیت اور صحابہ کرامؓ کی محبت اور اُن سے ہمیشہ کی وابستگی کے فروغ کے لئے اُن کی جرأت و بہادری، اُن کےجنگی فاتحانہ کارناموں اور آپ (ﷺ) پر سب کچھ وار دینے کے واقعات کا تذکرہ فرماتے رہتے - آپ کے ایک ایک کام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسا کہ ایک بہت بڑے ذخیرۂ حدیث کے عملی انوار آپ میں چمکتے تھے -
بوڑھوں کا ادب کرنا
آپ میں یہ کمال درجے کا وصف تھا کہ ہر ملنے والے کے ساتھ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ملاقات فرماتے اور پوری توجہ کے ساتھ اُن سے مخاطب ہوتے اور جب کوئی بزرگ آپؒ کی زیارت کیلئے حاضر ہوتا تو آپؒ انتہائی ادب و احترام سے حال احوال پوچھتے- کئی دفعہ ایسا دیکھنے کو ملا کہ بوڑھا آتا،وہ آپؒ کو راستہ میں روکتا، آپؒ رکتےاور جب تک اُس کی بات مکمل نہ ہوتی آپ ٹھہرے رہتے، چاہے آپؒ کتنی ہی ایمر جنسی میں کیوں نہ جا رہے ہوں-دراصل اِس کا پس منظر یہ تھا:
حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
« كَبِّرِ الْكُبْرَ »[16]
’’بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو‘‘-
سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيْرَنَا ‘‘[17]
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پہ رحم نہ کرے اورہمارے بڑوں کی توقیر نہ کر ے ‘‘-
حضرت ابو موسیٰ اشعریؒ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم(ﷺ)نے فرمایا :
«إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللّهِ إِكْرَامَ ذِى الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَ حَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِى فِيهِ وَ الْجَافِى عَنْهُ وَ إِكْرَامَ ذِى السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ ‘‘[18]
’’بے شک بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے اور (اسی طرح) قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو- (ان تینوں کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا ایک حصہ ہے -)
حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’اَبْغُونِىْ ضُعَفَاءَكُمْ فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِكُمْ ‘‘[19]
’’مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے‘‘-
شیخ ومرشد کی بارگاہ کا ادب
یوں تو آپؒ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو ادب و انکساری کا آئینہ دار تھا لیکن جہاں تک آپؒ کا شیخ سے ادب کا تعلق تھا یہ ایک حیرت انگیز پہلو ہے- آپ کے شیخ و مرشد آپ کے والد گرامی شہبازِ عارفاں سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیزؒ تھے جو ناف بریدہ اور ختنہ شدہ پیدا ہوئے اور ان کی پیدائش سے تقریباً ایک صدی قبل حضور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنے خانوادہ کے اولیاء کو اِن کا نام مبارک بتا دیا تھا- حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ نے گھر میں رہتے ہوئے بھی کبھی اپنے شیخ کی طرف پیٹھ نہیں کی، شیخ کی بارگاہ میں کبھی اونچا نہیں بولے، عام طور پر گفتگومیں شیخ کے نام مبارک سے پہلے اپنا نام نہ لیتے، کبھی اپنی ذات کیلئے سوال نہیں کیا، کبھی شیخ سے پہلے سوئے نہیں، کبھی شیخ سے پہلے کھانا نہیں کھایا، کبھی شیخ کےسامنے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کیا، بس راضی برضا رہتے اور شیخ کے حکم کےمنتظر رہتے- مرشد کریم کے وصال مبارک کے بعد بھی تاحیات مزار شریف کی طرف پیٹھ نہیں کی، سفر میں بھی مزار شریف کی طرف پاؤں مبارک پھیلا کر کبھی نہ سوئے - دراصل اس کا پس منظر یہ تھا –صحابہ کرام جو اپنے شیخ و مرشد حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں ادب کو بجا لاتے-
حافظ عماد الدین ابن کثیر تفسیر ابن کثیر اور امام جلال الدین سیوطی تفسیر در منثورمیں لکھتے ہیں کہ اِس آیت کریمہ ’’لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ‘‘ کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق () جب حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس کلام کرتے، یعنی اپنے مرشد کی بارگاہ میں کلام کرتے تو وہ کسی کو سنائی نہ دیتا تھا یہاں تک کہ اُن سے اِس کے بارے میں پوچھا جاتا اور اِسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ (ﷺ) سے سرگوشی کرنے والے کی طرح سرگوشی کرتے -
حضرت عثمان بن عفانؓ نے قُباث بن اشیم سے پوچھا جو بنی یعمر بن لیث کے بھائی تھے -
’’أَ أَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللّهِ (ﷺ)؟‘‘
’’کیاآپ بڑے ہیں یا حضور نبی اکرم (ﷺ) ؟‘‘
’’فَقَالَ: رَسُولُ اللهِ (ﷺ) أَكْبَرُ مِنِّىْ وَ أَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِى الْمِيْلاَدِ‘‘[20]
’’کہنے لگے رسول اللہ(ﷺ) مجھ سے بڑے ہیں اور میری تو فقط ولادت پہلے ہوئی ہے ‘‘-
حضرت معاذؓ کو یمن بھیجتے وقت حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ فیصلہ کیسے کرو گے- تو انہوں نے عرض کی ’’بكتاب اللّٰه‘‘ کہ کتاب اللہ کے ساتھ- پھر آپ (ﷺ) فرمایا:’’فإن لم تجد؟‘‘کہ اگر اس میں نہ پاؤ تو؟ عرض کی: ’’بسنة رسول اللّٰه‘‘ سنت رسول (ﷺ) کے ساتھ، پھر آپ (ﷺ) فرمایا ’’فإن لم تجد؟‘‘کہ اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو؟ عرض کی أجتهد رأيي میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا-’’ فضرب في صدره‘‘آپ(ﷺ) نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور کہاکہ:
’’الحمد للّٰه الذي وفق رسولَ رسولِ اللّٰه، لما يرضي رسول اللّٰه ‘‘
’’تمام تعریفیں اُس رب کی ہیں جس نے اپنے رسول (ﷺ) کے نمائندے کو اس بات کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے ‘‘-
علامہ ابن کثیراس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے اپنی رائے اور اجتہاد کو کتاب و سنت کے بعد رکھا اگر وہ اپنے اجتہاد کو پہلے رکھتے تو یہ بھی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے سامنے سبقت ہوتی- (لیکن یہ صحابئ رسول(ﷺ)تھے کیسے ہو سکتا تھا کہ اپنا نام پہلے لیتے-
اس لئے مرید پر ، طالب پر اورسالک پر لازم ہے کہ ہر مقام پر شیخ کو اور شیخ کے فیصلے کو ترجیح دے بلکہ شیخ کے سامنے اپنی ہستی کو ختم کردے اس لئے حاشیہ جلالین شریف میں فرمایا گیا ہے کہ :
’’فَاِنَّ الْمُرِيْدَ مَنْ يَّفْنِىْ إِرَادَتُهٗ فِىْ اِرَادَةِ الشَّيْخِ فَمَنْ عَمِلَ بِرَأيِهِ اَمْرًا فَهُوَ لَيْسَ بِمُرِيْدٍ‘‘[21]
’’بیشک مرید وہ ہے جو اپنے ارادے کو اپنے شیخ کے ارادے میں فنا کر دے اور جو مرید اپنی رائے کے ساتھ کسی کام پر عمل کرتا ہےپس وہ مرید نہیں ‘‘-
کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ :
’’’ما وصل من وصل الابالحرمة وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ‘‘
’’جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا‘‘-
اس لئے ادب سیکھنا اتنا ضروری ہے کہ اگر اپنے علاقے میں سیکھانے والا کوئی نہ ہو تو دور دراز کے علاقوں میں سفر کر کے بھی اس کا سیکھنا ضروری ہے- اسی حوالے سے امام اجل حضرت امام عبدالوہاب الشعرانی ’’الانوار القدسیۃ فی معرفۃ قواعد الصوفیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ومن شأنه إذا لم يجد أحدا يتأدب به في بلده من الشيوخ يهاجر من بلده إلى من هو منصوب لإرشاد المريدين في ذلك الزمان ولو كان بينه وبينه مسيرة سنة وأكثر ‘‘
’’اورمرید کے آداب میں سے یہ بات بھی ہے کہ اگر وہ اپنے شہر میں کسی شیخ کو نہ پائے جس سے ادب سیکھے تو اپنے شہر سے اس شیخ کے پاس چلا جائے جو اس زمانے میں مریدین کی ہدایت کیلئے مقرر ہے اگرچہ ان دونوں کے درمیان ایک سال یا اس سے زیادہ مدت کی مسافت ہو‘‘-
ادب اس لئے ضروری ہے کہ عمل کی کمزوری آدمی کو گناہ گار بنا دیتی ہے لیکن ادب کی کمزوری وبال جان اور وبال ایمان بن سکتی ہے-
بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کے تربیت یافتہ شہزادگان جو عجز و انکساری اور ادب کے پیکر اور اپنے والد و شیخ کا عملی نمونہ ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کی تربیت اور ان کی زندگیوں میں ادب و انکساری کا رنگ بھرنے کیلئے طول و عرض میں مختلف پلیٹ فارمز اور مراکز قائم فرمائے ہیں- آئیے اور پائیے!
٭٭٭
[1]( صحیح البخاری ، كِتَابُ العِلْمِ )
[2](البقرہ : 286)
[3](الصف : 8)
[4](صحيح ابن حبان، رقم الحدیث: 6699)
[5](البقرۃ:238)
[6](الحجرات:1)
[7](الحجرات:2)
[8](الحجرات:2)
[9](نور :63)
[10](الحجرات:4)
[11](لقمان :18)
[12](الفرقان:63)
[13](الأدب المفرد، بَابُ الْمُسْتَبَّانِ)
[14](سنن ترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي أَدَبِ الوَلَدِ)
[15](ایضاً)
[16](صحيح البخارى، کتاب الادب )
[17](مسند أحمد بن حنبل)
[18](سنن أبى داود ، کتاب الادب)
[19](سنن الترمذى، کتاب الجہاد)
[20](سُنن الترمذی، کتاب المناقب)
[21](حاشیہ تفسیر جلالین، ص:211، اسلامی کتب خانہ)