28مئی 1993ء کو شہبازعارفاں حضرت پیرسید سلطان بہادرعلی شاہؒ کے آستانہ عالیہ پہ مجھے عظیم فقیر ِ کامل و صوفی باصفا سلطان الفقر حضرت سلطان محمداصغرعلیؒ سے بیعت کا شرف نصیب ہوا جس کے فوراً بعد حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ نے مجھے اصلاحی جماعت کی روحانی و اخلاقی تربیت کا حکم فرمایا اور میں دربارحضرت پیر سید بہادر علی شاہ صاحب ؒسے واپس لاہور آکر وادی سون سکیسر اوچھالی (ضلع خوشاب) آپ ؒکی بارگاہ میں حاضرہوا-مجھے بیعت کے بعد سے سلطان الفقرؒ کے وصال تک آپ کی صحبت میں گاہے بگاہے وقت گزارنے کا شرف حاصل ہوا ہے جس دوران مجھے آپ ؒ کی صحبت میں رہنے والےافراد کی اخلاقی،روحانی اور ذہنی و فکری تربیت کا عملی نمونہ دیکھنے کو ملا جو قرآن کریم اور سنتِ نبوی (ﷺ) کی حیاتِ انسانی کیلئے وضع کردہ اصولوں کے عین مطابق تھا -
جیسا کہ حضورسلطان الفقر ؒ نے پریکٹیکل کر کے دکھایا کہ اولاد کی تربیت میں آپ کو اپنا عملی کردارلازمی ادا کرنا چاہیے- یہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ سلطان الفقر ؒ کے تینوں شہزادگان (جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب، صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب ، صاحبزادہ سلطان محمدبہادرعزیز صاحب ) کی شخصیت میں دین ومّلت کے ساتھ وابستگی، دین کی خدمت و پاسبانی اور خلق خدا سے محبت و شفقت کا عملی جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے-
آپؒ کی تربیت کا مزید اثر دیکھیں تو تینوں بھائیوں کا آپس میں احترام کا رشتہ مثالی ہے کہ سلطان احمدعلی صاحب اور صاحبزادہ سلطان محمد بہادر عزیز صاحب نے جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کو کبھی بھائی کی طرح نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ اپنے مرشد پاک کی جگہ دیکھا اور اسی طرح ادب و احترام کو ملحوظ رکھا ہے-
سلطان الفقرؒ کا محبت و شفقت اور حسنِ اخلاق کے ذریعے خادمین کی تربیت کرنا :
سلطان الفقر ؒ نے اپنے خادموں، طالبوں اور غلاموں کی جس طرح تربیت فرمائی اس کے بے شمار واقعات ہیں –جن میں سے چند پیش خدمت ہیں:
’’موسمِ گرما میں ہم اکثر سلطان الفقرؒ کے ساتھ گھوڑوں کے سفر میں شامل ہوتے تھے- ایک دفعہ سفر کا اختتام چکوال میں کسی جگہ پر ہوا تو آپؒ نے مجھے اور ایک ساتھی کو لاہور بھیجنے کا حکم دیا جس کیلئے آپ ؒ نے فرمایا کہ چکوال سے لاہورکیلئے کتنا کرایہ لگتا ہے جو اس وقت تقریبا 500 کے لگ بھگ تھا-آپ ؒ نے حاجی صاحب سے فرمایا کہ یہ اپنے بیٹے ہیں انہیں کرائے کےعلاوہ 400روپیہ اضافی دے دیں- روانگی سے قبل آپ ؒ نے ہمیں مخاطب کر کے فرمایا بیٹا! گرمی بہت زیادہ ہے اس لیے آپ نے اے سی والی (ایئر کنڈیشنر) گاڑی میں سفرکرنا ہےاور گاڑی راستے میں جہاں رکے آپ نے کھانا بھی ہے اسی لیے کچھ پیسے زیادہ ہونے چاہیے- بظاہریہ چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں لیکن ہماری تربیت میں آپ ؒ کے اس حسنِ اخلاق نے گہرا اثر چھوڑا‘‘-
اسی طرح کا ایک اور دلچسپ واقعہ یوں ہے کہ :
’’سلسلہ حضرت سلطان العارفینؒ سے وابستہ ایک دیرینہ خاندان کے ایک فرد چکوال سے نشہ کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ انہیں اپنا ہوش اور خبر نہ ہوتی- یہ حالت دیکھ کران کے بھائی انہیں چارپائی پہ اٹھا کر آپؒ کی بارگاہ میں اوچھالی لائے اور خود گھر واپس چلے گئے- آپ ؒ نے بڑے پیار اورحلم سے چند ساتھیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ ان کو بر وقت کھانا دیا جائےاوران کا خیال رکھا جائے-آپ ؒ خود بھی وقتاً فوقتاً اُن کا حال احوال پوچھتے رہتے تھے- اُس ساتھی پر آپؒ کی قربت وصحبت اور اخلاقِ عالیہ کی ایسی تاثیر ہوئی اور لوگوں نے دیکھا کہ نشے میں لت پت وہ شخص بالکل صحت مند اورتوانا ہوگیا اور بقیہ زندگی آپؒ کی معیت میں گزاری اور آخری وقت تک دربار شریف پہ ڈیوٹی کرتا رہا- جب اُس ساتھی کا انتقال ہوا تو حضور مرشد کریم جانشین سلطان الفقر نے خود اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی ‘‘-
اُس کے اندر یہ تبدیلی سلطان الفقرؒ کے پیار و شفقت اور محبت کی بدولت رونما ہوئی جس نے اسے یہ احساس دلادیا کہ نشہ بُری بلا ہے -میں نے بڑے قریب سے دیکھا کہ آپ ؒ کی جو چیز سب سے زیادہ لوگوں پہ اثراندازہوتی وہ آپ ؒ کا ذاتی کرداراور اخلاق مبارک تھا-
مزید برآں علاوہ!
’’ہمارے گوجرانوالہ کے ایک ساتھی نور احمد قادری ایبٹ آباد میں ڈیوٹی کر رہے تھے - میں ان سے سلطان الفقر ؒ کی جماعت کا مشن سن کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا- یہ سردیوں کا موسم تھا جب وہ ڈیوٹی کیلئے ایبٹ آباد جانے لگے تو وہاں پنجاب کی نسبت سردی میں شدت ہوتی ہے-آپ ؒ نے روانگی کے وقت ان کو سامنے کھڑا کر کے ہدایات فرمائیں کہ بیٹا وہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے آپ کا تعلق پنجاب سے ہے تو آپ نے وہاں جرسی بھی پہننی ہے، گرم چادربھی لینی ہے، جرابیں اور بند جوتے بھی پہننے ہیں، مکمل طورپہ اپنے آپ کو سردی سے بچانا ہے،کھانے پینے میں بھی احتیاط کرنی ہے- پھر آپ ؒ نے ان کو یہ ساری چیزیں خرید کر دیں- بظاہر تو یہ عام سی بات ہے لیکن اس کے بعد نور احمدقادری صاحب نے متعدد بار مجھ سے اس بات کا ذکر کیا کہ دیکھیں ہمارے مرشدپاک کتنے کریم ہیں کہ والد بھی اس قدر خیال نہیں رکھتا ‘‘-
ایک اور واقعہ یوں ہے کہ:
’’ضلع وہاڑی کے ہمارے ساتھی ڈاکٹر اصغرصابر نوجوانی سے ہی مستقل ڈیوٹی میں رہتے تھے- جب میری ان سے گفتگو ہوئی تو کہنے لگے عامر بھائی ساری زندگی کسی نے اتنے پیار سے بیٹا کہہ کے نہیں بلایا تھا- میں جب پہلی مرتبہ حضورمرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ ؒ نے فرمایا ’’بیٹا جی آ گئے ہو‘‘ -آپ ؒ کے اس جملے سے متاثر ہو کر میں آپ کی خدمت میں رہنے لگا اور آپ ؒ سے تربیت حاصل کی‘‘-
بے لوث مہمان نوازی اور میزبانی کے آداب سکھلاکر تربیت:
آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز ؒ پر اگر کوئی ساتھی یا مہمان دیر سے آتا تو آپ ؒ بذات خود اُس سے کھانے پینے اور سفر کے بارے میں دریافت فرماتے کہ بیٹاآپ کا سفرکیسے گزارا،راستے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی ، آپ نے کھانا کھایا ہے یا نہیں،پھر آپؒ اپنے خادم کو بلا کے فرماتے انہیں کھانا اور چائے وغیرہ پیش کریں اور ان کے آرام کا بندوبست کریں- یہ دراصل آپ اپنے حسنِ کردار وعمدہ اخلاق سے ہماری تربیت فرمارہے ہوتے تھے جو اقبالؒ کے اس شعر کی عکاسی کرتا ہے:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں |
یہاں دل کو چھو لینے والا واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ :
’’حضورسلطان الفقر ؒ نے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے ساتھ مجھے کسی ڈیوٹی کیلئے بھیجا تو آپ ؒ نے جانے سے پہلے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب سے فرمایا کہ بیٹا ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ ڈیوٹی کیلئے جارہے ہیں، یہ اپنی ساری زندگی کا اصول بنالیں کہ اگر آپ کسی کے گھر جاتے ہیں اوروہاں آپ کے سامنے جو کھانا پیش کیا جاتا ہے اگر میزبان آپ کے ساتھ موجودہو اور آپ محسوس کریں کہ کھانے میں نمک کم ہے چاہے نمک ساتھ رکھا ہو ،پھر بھی آپ نے کھانے میں نمک نہیں ڈالنا کیونکہ میزبان نےاتنی محبت سے وہ کھانا تیار کیا ہوتاہے مگر جب آپ نمک ڈالیں گے تو آئندہ دعوت تک اس کے ذہن میں یہی رہے گا کہ خدمت میں کمی رہ گئی جو کہ اس کی دل آزاری ہے ‘‘-
سلطان الفقر ؒ کی صحبت میں رہنے والے ساتھیوں پر آپ کی تربیت کا اثر:
یہ حقیقت ہے کہ حضور سلطان الفقرؒ تربیت کا ایک عملی نمونہ پیش فرماتے اور پنے اعلیٰ اخلاق سے قلب و روح میں احسا س اجا گر کرتے جو سب کے سامنے عیاں تھا-عام فہم الفاظ میں یوں کہَہ لیں کہ آپ ؒ بُت (جسد) کی بجائے روح پر کردار کی تاثیر نافذ کرتے اور جوچیز روح پر نافذ ہوجائے پھر وہ ہمیشہ آباد رہتی ہے- یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کی تربیت کا اثر اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے کارکنان اور آپؒ کی صحبت میں رہنے والے لوگوں میں نمایاں نظر آتا ہے- مثلاً کبھی آپ میاں ضیاءالدین صاحب کے پاس تشریف رکھیں یا ان سے گفتگو کریں،آپ کو ان کی طبع میں، حلم، نرمی، برداشت، محبت و شفقت، حکمت اور اخلاق دیکھنے کو ملے گا-اسی طرح ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت حاجی محمد نواز صاحب کی شخصیت اور کردار کو دیکھ لیں- یہ سلطان الفقرؒکے تربیت یافتہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر آپؒ کا کمالِ تربیت و عکسِ تربیت یاد آتا ہے- مزید آپ ؒ کی صحبت میں رہنے والے ایسے ساتھیوں کی متعدد مثالیں موجود ہیں-
سلطان الفقر ؒ بچوں کی تربیت کیلئے کیا احکامات ارشاد فرماتے تھے؟
جو خادمین سلطان الفقر ؒ کی بارگاہ میں رہتے آپ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تفصیلی احکامات ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ بچے کیا کررہے ہیں؟کہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ اور ان کو کیسے تربیت دی جا رہی ہے؟ مزید آپ ؒ ساتھیوں کو ہدایات فرماتے کہ بچوں پہ بہت زیادہ سختی نہ کیا کریں –آپؒبالخصوص جسمانی تشدد کے بالکل خلاف تھے بلکہ آپ چاہتے تھے اخلاق ، محبت، پیار اور اپنے عمل سے بچے کے اندر احساس اجاگرکریں-مَیں نے اپنی پوری زندگی میں سلطان الفقرؒ کو اپنے بچوں کو کبھی مارتے دیکھا ہے اور نہ ہی یہ آپ ؒکے طریقہ کار میں شامل تھا- بلکہ آپؒ نے ہمیشہ اپنے کردار سے اپنے شہزادگان کی تربیت فرمائی اور اپنی صحبت میں رہنے والوں کو بھی یہی تلقین فرمائی کہ اولاد کی تربیت اپنے کردار اور عمل سے کریں-اسی طرح آپؒ کی نسبت والے لوگ اکثر آپؒ کی بارگاہ میں اپنے بچوں کی شکایت کرتے کہ فلاں بچہ بہت تنگ کررہا ہے اور اس کی حرکتیں صحیح نہیں توآپ ؒ فرماتے کہ ایسا کریں کہ بیٹے کو ہمارے پاس چھوڑدیں- وہی بچہ جس کے رویے اور حرکتوں سے گھر والے تنگ ہوتے تھے جب وہ کچھ وقت آپؒ کی صحبت و تربیت میں گزار لیتا تو پھراس جیسا مؤدب اور مطیع و فرمانبردار بچہ ہی اس گھر میں نہیں ہوتا تو یہ فقط آپ ؒ کی تربیت کا اثرتھا-
تربیت اولاد میں سلطان الفقرؒ کس چیز پر زیادہ زور دیتے تھے؟
اہم چیز جو میں نے سلطان الفقر ؒ کی حیات مبارکہ میں بارہا مرتبہ دیکھی اور اپنی معیت میں رہنے والے ساتھیوں کو تربیتِ اولاد کے حوالے سے جس چیز کی آپ ؒ بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے وہ شرم و حیا اور سچائی ہے-آپ ؒ فرماتے تھے اگرآپ اپنی اولاد کو حیا والا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو خود میں حیا پیدا کرنی چاہیے، اگرآپ اپنی اولاد کو سچا دیکھنے چاہتے ہیں تو آپ کے ذاتی کردار میں صدق و سچائی ہونی چاہیے-
مزید آپؒ تاکید فرماتے کہ بیٹا جب کسی کے گھر یا بازار جانا ہو تو اس بات کا ہمیشہ لازمی خیال رکھیں کہ جو خاتون آپ سے بڑی ہو وہ آپ کے لیے والدہ کا درجہ رکھتی ہے ،جوآپ کی ہم عمر ہے وہ آپ کے لیے بہن کادرجہ رکھتی ہے اور جوآپ سے چھوٹی ہے وہ آپ کیلئے بیٹی کا درجہ رکھتی ہے -آپ ایسی عینک لگا کر چلیں کہ آپ کو ماں، بہن یا بیٹی نظر آئے-آپ ؒ ہمیں یہ انفرادی اخلاق و کردار اپنی بارگاہ میں بٹھا کر سمجھاتے -
خلاصہ کلام :
الغرض! سلطان الفقر ؒ کی شخصیت اور حیاتِ مبارکہ حسنِ اخلاق وکردار اور تربیتِ افراد و اصلاح معاشرہ کے ہر پہلو کے حوالے سے آقا پاک (ﷺ) کی سیرت کا عملی نمونہ تھی- آپ ؒکبھی کسی کو حقارت کی نظرسے نہ دیکھتے چاہے وہ کسی بھی طبقے یا مکتبہ فکرسے تعلق رکھتا ہو کیونکہ آپؒ اپنی نگاہ کرم سے بھانپ لیتے تھے کہ آنے والے کی احتیاج اور ضرورت کیا ہے پھر اس کے مطابق آپ ؒ اُ س کی روحانی،اخلاقی اور ذہنی تربیت فرماتے- آپؒ کا آستانہ عالیہ آج بھی اخلاقی و روحانی تربیت کی عظیم درس گاہ کا درجہ رکھتی ہے جہاں انسانی زندگی کو قرآن وسنت کے عملی پیغام کے مطابق ڈھالنے کیلئے مختلف تدریسی و تربیتی شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں-
٭٭٭