مرشد کریم کی بارگاہ میں
پیغامِ معرفت کیا آسان آپ نے
اُمت پہ کر دیا ہے یہ احسان آپ نے
کھولا ہے خاص و عام پہ باھُو سخی کا فیض
غوثِ جلی سے پائی ہے کیا شان آپ نے
اصلاحِ باطنی کی ضرورت کے واسطے
بانٹا ہے اسمِ اعظمِ ذیشان آپ نے
بھولے ہوئے قلوب پہ یکساں عیاں کیا
روزِ ازل کا اولیں پیمان آپ نے
فیضِ سخی سے سب کو ہی سیراب کر دیا
صحرا تھے چاہے کھیت یا میدان، آپ نے
لکھا کمالِ فقر کا دیوان آپ نے