عصرِ حاضر میں بچوں کی اخلاقی تربیت: حیاتِ سلطان الفقر سے اسباق

عصرِ حاضر میں بچوں کی اخلاقی تربیت: حیاتِ سلطان الفقر سے اسباق

عصرِ حاضر میں بچوں کی اخلاقی تربیت: حیاتِ سلطان الفقر سے اسباق

مصنف: لئیق احمد دسمبر 2022

انسان کے اخلاق اور کردار کا انحصار اس کی تربیت اور تعلیم پر ہوتا ہے- بچپن سے ہی آداب و احتیاط کے اسباق اگر ازبر کروادئیے جائیں اور وقتاًفوقتاًنگہبانی اور نصیحت کی جائے تو بچہ بڑے ہوکر بااخلاق و باکردار انسان بنتا ہے-

حضرت ابوہریرہ (رض)سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:

’’كل مولود يولد على الملة فابواه يهودانه او ينصرانه او يشركانه‘‘[1]

’’ہر بچہ فطرت(اسلام)پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسےیہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں‘‘-

بچے کی تربیت اور اسے ملنے والے ماحول کا  بچے پر اس قدر گہرا اثر ہوتاہے کہ اُسے جیسا بنایا جائے گا وہ ویسا انسان بنے گا-لہٰذا بچوں کی تربیت کے معاملے میں دینِ اسلام نے مکمل نصاب فراہم کیا ہے- حضور رسالتِ مآب (ﷺ) بچوں کے معاملے میں بےحد حساس تھے- حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص (رض)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

«ليس منا من لم يَرحمْ صغيرنا، ويَعرفْ شَرَفَ كبيرنا ‘‘[2]

”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑے کے شرف وفضل کو نہیں پہچانتا“-

بچے کی تربیت ایسی ہونی چاہئے کہ وہ سچے دین کا پیرو، باادب،  بااخلاق،تعلیم یافتہ اور معاشرے کے لئے نفیس اور کارآمد انسان بن سکے- بچوں سے حسنِ سلوک اور اعلیٰ برتاؤ کرنا سنتِ نبوی(ﷺ) ہے- کتبِ احادیث میں درجنوں روایات ایسی موجود ہیں جو اس بات پہ دلالت پیش کرتی ہیں کہ آپ(ﷺ) بچوں کے جذبات و نفسیات کو سمجھتے اور اس کے مطابق عمل مبارک فرماتے تھے- حضرت عبداللہ بن حارث (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) حضرت عباس (رض)کے صاحبزادگان کو ایک صف میں کھڑا کرتے اور فرماتے کہ جو میرے پاس پہلے آئے گا، اسے یہ یہ ملے گا، چنانچہ سب دوڑ کر آپ (ﷺ) کے پاس آتے، کوئی پشت پر گرتا اور کوئی سینہ مبارک پر آکر گرتا، حضور نبی کریم (ﷺ)  انہیں پیار کرتے اور اپنے جسم کے ساتھ لگاتے- [3]

بلاشبہ بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی اخلاقی تربیت سیرتِ طیبہ (ﷺ) کا اہم گوشہ ہے اور آپ (ﷺ) کی امت کے اولیاء کرام (رض) کی حیات و ارشادات بھی سیرتِ طیبہ(ﷺ) کے عملی نمونے ہیں-اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو جب خطۂ پاکستان  عطا فرمایا تو بعین اسی دن اپنے ایک ولئ کامل سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کو بھی مبعوث فرمایا- آپؒ سنتِ نبوی (ﷺ) کا پیکر تھے- آپؒ نےاپنی زندگی کو حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ کے عین مطابق بسر فرمایا- بچوں کی تربیت آپؒ کی معمول کا حصہ تھا-

مزید برآں، زیرِ غور مقالہ آپؒ کی حیاتِ مبارکہ سے منتخب کردہ چند واقعات و اسباق پر مبنی ہے جس سے قارئین بچوں کی اخلاقی تربیت کے متعلق سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کے ارشادات و واقعات سے مستفید ہو سکیں گے-

بچوں کے ساتھ آپؒ کا برتاؤ: 

آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ احترامِ انسانی کا تقاضہ ہے کہ بچوں سے جب مخاطب ہوا جائے تو”آپ“ کہہ کر پکارا جائے- آپؒ اپنے اقرباء کو نصیحت فرماتے تھے کہ بچوں کا استقبال اٹھ کر کرو اور انہیں ”تُو“ کہہ کر نہ بلاؤ-

با خبر شو از مقامِ آدمی
اصل تہذیب احترامِ آدمی

جب کوئی آپؒ سے ملاقات کیلئے آتا تو آپؒ اپنی مکمل توجہ اس کی جناب مبذول کرتے، اس میں بچے یا بڑے کی کوئی تفریق نہ ہوتی بلکہ غالب یہی ہوتا تھا کہ آپؒ کی شفقت بڑوں کی نسبت بچوں پہ زیادہ ہوا کرتی تھی- سلطان الفقر ؒ کا یہ اندازِ مبارک تھا کہ جب کوئی بھی بچہ آپؒ سے کچھ بھی عرض کرتا تو آپؒ اس کی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوتے تھے- ہمہ تن گوش اس کی عرضی کو سماعت فرماتے تھے- آپؒ کا مشفقانہ انداز بڑوں اور چھوٹوں دونوں کے لئے باعثِ مسرت ہوا کرتا تھا- آپؒ بچوں کو مخاطب فرماتے تو حال احوال دریافت کرنے سے قبل ہمیشہ  ’بیٹا جی‘ فرماتے- گفتگو کے دوران ہمیشہ شیریں لہجہ اور دھیمی آواز ہوا کرتی جو دلوں کو فتح کرلیا کرتی تھی-

شفقت و رحمت کی حد یہاں تک تھی کہ ایک دفعہ جب بچے آپ کے حضور پیش ہوئے تو آپؒ نے انہیں اپنے بازؤوں میں اٹھالیا حالانکہ بازیچۂ اطفال کے باعث ان پہ مٹی اور گرد لگی ہوئی تھی مگر آپؒ ان سے  اس قدر محبت فرماتے کہ ان سے اظہارِ محبت کرنے میں کبھی بھی کراہت نہ فرمایا کرتے-

آپؒ کی بارگاہ کی معیت حاصل رکھنے والے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایک دفعہ کوئی اپنے بیٹے کو آپؒ کی بارگاہ میں لایا اور ملتجی ہوا کہ یہ بہت زیادہ بگڑ گیا ہے اور چوری چکاری بھی کرنے لگاہے- کئی طریقے اپنائے کہ اسے سدھارا جائے حتیٰ کہ رہنمائی (counseling) بھی کروائی گئی لیکن کوئی خاص فرق واضح نہ ہوسکا-آپؒ نے اسے اپنے پاس بٹھایا، حال احوال اور اس کی تعلیم کے متعلق دریافت فرمایا، ”بیٹا جی“ کر کے اس سے محوِ گفتگو رہے، ہر جملے کے آخر میں ” جی“ کی اضافت فرماتے رہے، اسے سلطان العارفینؒ کی تصانیف کے مطالعہ کا فرمایا، دسترخوان لگا تو سب سے پہلے اس کے آگے کھانا رکھنے کا فرمایا بلکہ اپنے دستِ شفقت سے اس کی پلیٹ میں کھانا ڈالا، محبت و شفقت کا عالم انتہا پہ تھا، نتیجتاً اس پہلی نشست میں ہی اس کے وجود پہ آپ کی مہربانی و شفقت اثر انداز ہونا شروع ہوگئی -بعدازیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے کرم سے اس کا وجود بااخلاق اور باکردار ہو گیا-

جب بھی کوئی اپنی اولاد کے نافرمان ہونے کا عرض کرتے تو سلطان ا لفقرؒ فرماتے کہ آپ انہیں ہمارے پاس لے آئیں، جب وہ کچھ دن آپ کی صحبت میں رہتا تو ادب و محبت کے حصول کے بعد ایسی مہربانی ثبت ہوتی کہ باقیوں سے زیادہ فرمانبردار اور دین دار بن کر ابھرتا-

والدین کا احترام:

آپؒ کے پاس جب بچے آتے تو آپؒ نہایت شفقت فرماتے بالخصوص اگر کوئی یتیم آپؒ کے حضور پیش ہوتا تو آپؒ اس کے سر پہ شفقت والا ہاتھ رکھتے-آپؒ بچوں کو ہمیشہ والدین،  احباء و اقرباء سے حسنِ سلوک کی تلقین فرمایا کرتے تھے-

یہ ادب و محبت آپؒ کے وجود مبارک میں آپؒ کے والد گرامی کی تربیت کا نتیجہ تھی- آپؒ کا اپنے والدِ گرامی کے ساتھ تعلق انتہائی مؤدبانہ تھا، آپؒ اپنے والدِ گرامی حضرت سلطان محمد عبدالعزیز ؒ سے پدر وپسر کے رشتے کے بجائے مرشد اور طالب کے رشتے سے زیادہ پہچانے جاتے تھے- بے حد فرمانبردار اور بردبار شخصیت تھے، کبھی بھی اپنے والد و مرشد کی کسی بات کی نافرمانی نہ کی ہمیشہ سر تسلیمِ خم فرمایا- جب آپؒ  کی والدہ ماجدہ اس دنیا سے رحلت فرماگئیں تب آپؒ اپنی عمر کے چھوٹے حصے میں تھے- اپنی والدہ ماجدہ سے آپؒ کی محبت وعقیدت کو بیان کرتے ہوئے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب فرماتے ہیں :

’’جب آپؒ کی والدہ ماجدہؒ کا انتقال ہوا تو آپؒ 23 رمضان المبارک کو اپنی والدہ ماجدہ کے ایصال ثواب کیلئے ختم پاک کا اہتمام فرماتے اور کوشش فرماتے کہ 23 رمضان المبارک دربار شریف پر آئے-مجھے یاد ہے کہ آخری سال سے کچھ ایک دوسال پہلے جب 23 رمضان المبارک دورانِ شکار آیا تو آپؒ نے ارشادفرمایا کہ میر ی والدہ ماجدہ کاختم ہے مَیں شکار چھوڑکر وہاں ختم پہ جاؤں گا،حالانکہ آپ شکار چھوڑ کر کہیں تشریف نہیں لے جاتے تھے-آپؒ 23رمضان المبارک کو وہاں تشریف لائے- آپؒ اکثر ایک بات فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ کو یہ شرف نصیب ہے کہ وہ ایک بڑے شیخ ِ کامل کی زوجہ تھیں اور دوسرا شرف انہیں یہ نصیب ہے کہ انہوں نے جتنے بھی بچوں کو جنم دیا ہے ان میں کوئی بھی تارکِ شریعت نہیں ہے اورتیسری بات آپؒ یہ فرماتے تھے کہ جن بچوں کوانہوں نے جنم دیا ہے ان میں کسی کے کردار پربھی شک نہیں ہے ‘‘-

والدین کو نصیحت:

آپؒ ہمیشہ والدین سے بچوں کے بارے میں پوچھ گچھ فرماتے تھے-ان کی تعلیم و تدریس کے حوالے سے آگاہی لیا کرتے تھے-آپؒ نے ہمیشہ تشدد کی نفی فرمائی ہے- آپؒ محبت، شفقت، پیار اور اخلاق کے ساتھ احساس اجاگر کرنے کے قائل تھے اور اپنی صحبت میں رہنے والے افراد کو بھی یہی نصیحت فرماتے کہ بچوں کی تربیت اپنے اخلاق اور کردار سے کریں- کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ بچہ جو مشاہدہ کرتا ہے اسے اپنالیتا ہے-

صدق و حیاء کی تلقین:

وہ تمام تر اشخاص جنہوں نے آپؒ کے سایۂ شفقت میں پرورش پائی ہے ان کے وجود میں لازماً اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک (ﷺ) کی محبت کے ساتھ ساتھ وفا، غیرت، حیاء اور ادب درجۂ کمال پہ پایا جاتا ہے- آپؒ اپنے عقیدت مند ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے کہ اگر اپنی اولاد کو باحیاء اور سچا دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اندر حیاء پیدا کرنی چاہئے اور پہلے اپنے کردار میں صدق و سچائی ہونی چاہیے- سلطان  الفقر ؒ ؒ حیاء کے معاملے میں بے حد حساس تھے- آپؒ ارشاد فرماتے تھے کہ اگر اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ جو خاتون آپ سے عمر میں بڑی ہیں وہ آپ کی والدہ  کی حیثیت رکھتی ہیں، جو آپ کی ہم عمر ہیں وہ آپ کی بہن اور جو آپ سے چھوٹی ہیں وہ آپ کی بیٹی کا درجہ رکھتی ہیں-

آپؒ ہمیشہ بچوں کو صدق اختیار کرنے کی تلقین فرمایا کرتے- آپؒ کا سمجھانے کا انداز  اتنا مؤثر ترین تھا کہ اطفال کے وجود میں صدق ایسا راسخ ہوا کہ عصرِ حاضر میں وہ تمام اشخاص پیکرِ صدق و حیاء بن کر معاشرے میں اخلاق کے اثبات کا عملی جامہ ہیں- فسق و فجور، بدلحاظی،بےادبی و دیگر اخلاقی برائیاں ان کے وجود سے صادر نہیں ہوتیں کیونکہ آپؒ کی صحبت اور نگاہِ کرم نے انہیں ان اعمالِ رزیلہ کے انجام دینے سے ہمیشہ پاک رکھا-عالم یہ ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ افراد اگر کسی گھر پہ جائیں تو ان کی نگاہیں قدموں سے تجاوز نہیں کرتیں، حیاء کا پہلو ہمیشہ ان کے وجود پہ غالب رہتا ہے-

عزتِ نفس کا پاس رکھنا:

سلطان الفقر ؒ جہاں لوگوں سے محبت اور شفقت فرماتے وہیں ان کی عزتِ نفس کا بھی خیال فرماتے تھے- آپؒ ہمیشہ لوگوں کی دلجوئی فرماتے، ان کی ڈھارس باندھتے اور کسی کی کجی کو کمی نہ گردانتے بلکہ اعلیٰ اخلاق اور وسیع ظرف کےساتھ لوگوں سے ملتے کہ وہ آپ کا اثر قبول کئے بغیر نہ رہ پاتے تھے- ایک مرتبہ آپؒ نے اپنےصاحبزادے،  صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کو کسی کام کے سلسلے میں کہیں بھیجا تو جاتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ:

”بیٹا ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ ڈیوٹی کیلئے جا رہے ہیں، یہ اپنی ساری زندگی کا اصول بنالیں کہ اگر آپ کسی کے گھر جاتے ہیں اوروہاں آپ کے سامنے جو کھانا پیش کیا جاتا ہے اگر میزبان آپ کے ساتھ موجود ہو اور آپ محسوس کریں کہ کھانے میں نمک کم ہے چاہے نمک ساتھ رکھا ہو،پھر بھی آپ نے کھانے میں نمک نہیں ڈالنا کیونکہ میزبان نے اتنی محبت سے وہ کھانا تیار کیا ہوتاہے مگر جب آپ نمک ڈالیں گے تو آئندہ دعوت تک اس کے ذہن میں یہی رہے گا کہ خدمت میں کمی رہ گئی جو کہ اس کی دل آزاری ہے ‘‘-

یعنی اس قدر معمولی اورنظر انداز کردینے والے عمل پہ بھی آپؒ خصوصی توجہ فرمایا کرتے تھے تاکہ کسی بھی طرح کسی شخص کو تکلیف نہ پہنچے-

سنتِ نبوی () اور آپؒ کا معیارِ تربیت:

عصرِ حاضر میں پُر فتن ماحول ، احترامِ انسانی کی بےوقعتی اور اخلاقی تربیت کی عدم دستیابی عام ہونے کی وجہ سے بےشمار برائیاں جنم لے رہی ہیں- اس دور میں بلاشبہ سلطان الفقرؒ کی معیاری تربیت کا طریقہ کار اپنا کر بچوں کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کی جاسکتی ہے- اگر یہی معیاری تربیت جو کہ ہمیں سیرتِ نبوی (ﷺ) سے ملتی ہے، اسے عملی طور پہ دیکھنا ہوتو چاہئے کہ  سلطان الفقر ؒکے صاحبزادگان کو دیکھ لیا جائے-

حضور نبی کریم(ﷺ) کے ارشادِ مبارک کی روشنی میں آپؒ نے اپنے تینوں صاحبزادوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ ان کے وجود میں حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی محبت، مؤدت، آپ(ﷺ) کے اہلِ بیعت اطہار اور صحابہ کرام (رض)کی محبت اور قرآن مجید کی محبت ایسے جاگزیں ہوئی کہ جن کے چشموں سے لاکھوں تشنگان فیض یاب ہو رہے ہیں- صاحبزادگان کے بچپن میں معمول تھا کہ آپؒ ان سے تاریخِ اسلام کے مطالعے، ایثار و جذبہ کے قصے، خدمتِ انسانی کے دروس، حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات پہ سب کچھ قربان کر دینے کے واقعات کا بارہا تذکرہ فرماتے- اوصافِ حمیدہ ہوں یا اخلاقِ کاملہ، قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ ہو یا حضرتِ انسان کی عظمت کا معاملہ، آپؒ کے صاحبزدگان نے یہ سب آپؒ کی تربیت سے ہی حاصل کیا ہے -جس کے باعث آج ملک بھر میں اور عالمی سطح پر دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور پاکستان کی خدمت کے فرائض بطریقِ احسن انجام دے رہے ہیں-

حرفِ آخر:

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن، ایثار، مساوات اور الفت پہ قائم ہو تو نہایت ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت پہ خاصہ زور دیں اور انہیں ایک ایسا سازگار ماحول مہیا کریں جس میں وہ اپنی جسمانی،عقلی اور روحانی نشونما پاسکیں- صوفیائے کرام (رض) نے سیرِت طیبہ (ﷺ)  کی روشنی میں تربیتِ اولاد کے اصول وضع فرمائے اور انہیں عملی طور پہ انجام دے کر دکھایا-اب ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ان طریقوں اور نصیحتوں کو اپنے دامن سے وابستہ کر لیں تاکہ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی سنور سکے-

٭٭٭



[1](صحیح بخاری، کتاب الجنائز)

[2](سنن ترمذی/ سنن ابی داؤد، مسند احمد)

[3](مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث: 1836)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر