نظریہ ان خیالات وتصورات کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے جس کے تحت کسی قوم کا سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی نظام وجود میں آتا ہے- یعنی افراد کی اجتماعی سوچ مل کرملکی نظام کی نوعیت اور ممکنہ شکل کا خاکہ تیار کرتی ہے- پھر اس نظام کے قیام کیلئے مشترکہ کوششوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے - ایک دفعہ نظریہ قائم ہو جائے تو پھر قومی مقاصد اور سمت کا تعین از خود واضح ہو جاتا ہے- ان مقاصد کے حصول کیلیے اپنایا جانے والا مشترک طرزِ عمل قومی اقدار کی شکل اختیار کر کے بالآخر تہذیب و تمدن کے وجود کا باعث بنتے ہیں- اسی لیے نظریہ کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد و اقوام کی اجتماعی زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے- نظریہ قوم کی منزل اور سمت کا تعین کرتا ہے- مختصراً یہ کہ نظریہ فلسفہ حیات طے کرتا ہے جس سے تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار ہوتا ہے-
خیالات و تصورات ---نظریات و مقاصد --- نظام ---مشترک طرز عمل--- اقدا ر--- تہذیب و تمدن
درج بالا لطیف عمل، جس کا نقطہ آغاز خیالات و تصورات اور عروج ملکی نظام ہے، پر تعلیم وتربیت کا بڑا گہرا اثر پایا جاتاہے-
“The best teachers are those who show you where to look, but don't tell you what to see”.[1]
’’بہترین استاد وہ ہے جو آپ کی سمت کا تعین کرتے ہیں کہ کس طرف دیکھنا ہے، بجائےیہ کہ دیکھنا کیا ہے‘‘-
سلطان الفقرحضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒکی توجہ دراصل ان تصورات و افکار کی اصلاح پر ہوتی تھی جن کے نتیجے میں ایک معاشرتی نظام تشکیل پاتا ہے- یہی فقراء کا دستور رہا ہے کہ وہ بڑے غیر محسوس انداز میں قوموں کی سمت کو درست کرتے ہیں- وہ سینوں میں نور کے ایسے بیج بوتے ہیں جس سے پہلے مرحلے میں اخلاص بھرے ارادے اور افکار پھوٹتے ہیں-پھر وجود سے مہکتے ہوئے تعمیری اعمال و افعال کی کلیاں کھلتی ہیں اور معاشرے میں اصلاح کی ہری بھری ڈالیاں پھیل کر نتیجتاً نسلوں کے لئے امن ومحبت کے پھول میسر آتے ہیں- فکر سلطان الفقرؒ انسان کی نقطہ آغاز سے اصلاح فرما کر ایک بہترین معاشرتی انجام کو ترتیب دیتی ہے-
عصرِحاضرکامصلح اور مبلغ معاشرتی مسائل کےاصل سبب کا ادراک نہیں کر پا رہا ہے- دراصل یہ خراب معاشرتی معاملات اور تناؤ تو نتیجہ ہوتے ہیں ایک منطقی عمل کا جو بہت پہلے وجود میں شروع ہو چکا ہوتا ہے- اسی سبب آپؒ اولیائے اللہ کی طریق کے مطابق اعمال سے پہلے ارادوں کی درستگی پر توجہ فرماتے- قلب ونظر کوپاک فرماتے اور دلوں کو اللہ کے اسم سے پاک کر کے نگاہ کی توجہ سے روح کو بیدار فرماتے-
ارادوں میں دعاؤں کا تقدس ہو اگر شامل |
عہد حاضر کے نظام تعلیم اور رائج الوقت طریقہ تدریس کا موجودہ اور ممکنہ مسائل کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو اس سے واضح طور پر دو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:
1 -معاشرتی مقاصدکےاعتبارسے جامعیت کا فقدان:
عمومی طور پر اجتماعی سطح پر اہل مدرسہ، جدید انگریزی تعلیم اور اہل تصوف تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں- اہل مدرسہ جدید سائنسی علوم سے دوری کی وجہ سے زندگی کے گونا گوں مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی مطلوبہ صلاحیت حاصل کرنے سے قاصر ہیں -جس کے نتیجہ میں ان کیلئے موجودہ دور کے تقاضوں کا سامنا کرنا مشکل بن گیا ہے - تصوف کا لبادہ اوڑھے کچھ نام نہاد اہل طریقت، جو فقر و تصوف کی اصل روح اور بنیادی امنگوں سے ہی نا واقف ہیں، کے طریق سے بے عملی کی طرف رغبت حاصل ہوتی ہے جبکہ جدید انگریزی تعلیم کو دیکھا جائے تو یہ سرا سر مادیت پر مبنی ہے اور ممکنہ حد تک نوجوانوں کو اسلامی اقدار سے دور کر کے الحاد کا زہر گھول رہی ہے - بقول اقبال:
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم |
یہ تینوں طرز تعلیم کسی حد تک ایک دوسرے سے بیزار اور جامعیت کے ادراک سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں- نتیجتاً شخصیت کی ایک خاص طرز پر پروان چڑھنے کی وجہ سے وسیع النظری اور معاشرے کی مجموعی ضروریات کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رہتی- زندگی کے کسی ایک پہلو کا باقی پہلوؤں میں کردار اور ان کے ایک دوسرے پر اثرات کا فہم بڑا ضروری ہے-اس سے انتشار کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے-مثلاً باطنی فلاح کا تعلق اعلیٰ اخلاقی اقدار اور اخلاص سے ہے اور ان خوبیوں کا براہ راست باقی دونوں پہلوؤں میں بڑا کلیدی کردار ہے-پس یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ تینوں پہلوایک دوسرے سے جدا اور بے معنی ہیں البتہ تینوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم جزو اور ایک وحدت ہیں-بقول علامہ اقبال:
مقصد ہو اگر تربیتِ لعل و بدخشاں |
فکرِ سلطان الفقرحضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ ان تینوں پہلوؤں کے تقاضوں، مقاصد، امنگوں اور اہمیت کے پیش نظر ان کے امتزاج پہ مبنی ایک قابل قبول فلسفہ تعلیم اور طریق تربیت وضع کرتی ہے- جس سے ایک طرف فرد اور معاشرہ عہد حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق ترقی پاتا ہے تو دوسری طرف دینی مقاصد کے حصول کیلئے بھرپور کوشش کرتا ہے اور ساتھ ہی باطنی فلاح کا سفر بھی رواں دواں رکھنے کے قابل بنتا ہے- آستانہ عالیہ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒپر جا کر دیکھیں تو فقراء مختلف رنگوں کی صورت میں قوس قزاح کا دلکش منظر پیش کرتے ہیں- جہاں راہ سلوک کے سالک (فقراء) ذکر و فکر کے ساتھ ساتھ ایک صف اول کے دینی و روحانی دبستان میں دینی علوم حاصل کرتے ہیں اور آکسفورڈ کے طرز پر عالمی معیارات کے مطابق اکیسویں صدی کے جدید علوم حاصل کر کے ایک کار آمد شخصیت کے حامل انسان بنتے ہیں-یہ فقراء نہ صرف بحیثیت فرد مسلم امہ اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنتے ہیں بلکہ عالمی انسانی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں-یہ فقیر نہ تو دین سے بیزار ہوتے ہیں اور نہ ہی عالم کی تعمیر وتسخیر سے- بلکہ روحانی ترقی سے اپنے وجود میں ایسی فطرت پیدا کردیتے ہیں جس سے باقی دونوں پہلوؤں میں بھی انقلابی بنیادوں پر ترقی کے منازل طے کرتا ہے-
2- فرد کی علمی و اخلاقی ترقی کے اعتبار سے کلیت کی عدم موجودگی :
اس سے مراد یہ ہے کہ فرد واحد کی مادی اور عقلی لحا ظ سے تربیت و ترقی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن وجدانی، عرفانی یا روحانی ترقی اور تربیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے -یعنی ادراکی اور محسوساتی علوم کو عرفانی علوم اور وجدان پر فوقیت دی جاتی ہے - بقول علامہ اقبالؒ:
’’حقیقت کو جاننے کا ایک طریقہ تو بالواسطہ ہےجس میں وہ حواس کے ذریعے ہم سے سابقہ رکھتی ہے اور ادراک بالحواس سے اپنی علامات ہم پر منکشف کرتی ہے، تا ہم دوسرا طریقہ حقیقت سے براہ راست تعلق کا ہے جو ہمارے اندرون میں ہم پر اپنا انکشاف کرتی ہے‘‘-[2]
رائج الوقت نظام تعلیم حصول علم کیلئے حواس (Senses)، عقل و دلیل(Intellect and Reason)، مشاہدہ و تجربات (Experimentation) پراکتفا کرتاہے- یہ ذرائع اشیاء کی سطحی، طبعی اور مرئی(Physical) پہلو تک رسائی دیتے ہیں- ان ذرائع کا تعلق موجودہ نظام تعلیم سے ہے- اس کے علاوہ وجدان، باطنی مشاہدہ اور الہام (Intuition)بھی حصولِ علم کے ذرائع ہیں - جس سے علم کے اعلیٰ درجے اور حیات کے اعلیٰ مقاصد کا فہم حاصل ہوتا ہے -اس کو علم ِ لدنی بھی کہتے ہیں جس سے حکمت پیدا ہوتی ہے- اس کا حصول تعلیم کے بجائے تلقین یا فیضانِ نظر سے ممکن ہے-
’’حقیقت کاایک مکمل وقوف حاصل کرنے کیلئے ادراک بالحواس کے پہلو بہ پہلو دل، جسے قرآن قلب یا فواد کہتا ہے،کےمشاہدات سےبھی کام لینا چاہیے‘‘-[3]
حضرت عمر فاروق ()مدینہ میں بیٹھ کر میلوں دور جنگ کا ملاحظہ اور رہنمائی فرماتے ہیں کہ ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ اے حضرت ساریہ پہاڑ کی اوٹھ کی طرف دھیان دو جہاں سے دشمن حملہ کرنے والا ہے اور حضرت ساریہ بھی میلوں دور سے یہ ہدایات سن لیتے ہیں- یہ کون سا علم تھا؟ یہ وہ علم تھا جس کی حکمت تک ظاہری علوم اور ذراائع (حواس، عقل و دلیل اور تجربات و مشاہدات) کی رسائی نہیں ہے -
’’قلب ایک باطنی وجدان یا بصیرت ہے جس کے ذریعے ہمارا حقیقت کے ان گوشوں سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے جو حواس کی حدود سے باہر ہے‘‘-[4]
سلطان الفقرؒ کا طریقہ تربیت ظاہری تعلیم کے ساتھ ساتھ تلقین پر مشتمل تھا جس سےبصیرت اور علمِ عرفان کا حصول ممکن ہوتا ہے- علمِ عرفان کا تعلق روحانی ترقی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے ہے -
موجودہ فلسفہ تعلیم کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
According to Mathew Lynch:[5]
1- Teacher Centered Philosophies.
بنیادی مہارت یا فن سکھانا -) (Essentialism
عالمگیریت کے تناظر میں کسی بڑے کام کی استطاعت پیدا کرنا– (Perennialism)
2- Student Centered Philosophies.
اخلاقی معیار یا ضابطے بہتر کرنا-(Progressivism)
ممکنہ انسانی استعداد کی نشوونما- (Humanism)
کائنات کے بارے میں ایک نقطہ نظر قائم کرنا- (Constructivism)
3- Socially Centered Philosophies
تعلیم کےذریعے معاشرتی مسائل کا حل-(Reconstructionism)
ترقی پسندانہ ا ورمعاشرے کیلئے سود مند روئیے پیدا کرنا- (Behaviouris)
سلطان الفقرحضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی تعلیم و تلقین کے طریقہ کار کے مطالعہ سے حیران کن حد تک یہ حقیقت آشکار ہوئی ہےکہ آپ کا بظاہر فقیرانہ و درویشانہ طرز تعلیم درحقیقت رائج الوقت تعلیمی فلسفوں کا نہ صرف مصداق ہے بلکہ ان سے بھی ایک قدم آگے جا کے جدت کا نمونہ پیش کرتا ہے- آپؒ کی تعلیم و تربیت کے طریق پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جاسکتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے فلسفہ تعلیم کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے-
جس طرح فرد کا قوم سے،انسان کا معاشرے سے ایک فطری ربط قائم ہے اسی طرح تعلیم وتربیت باہم جڑے ہوئے اور ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں جن کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا- بد قسمتی سے دور جدید میں ایسے تعلیمی فلسفے اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں جن کا مقصد کسی خاص فن میں مہارت پیدا کر نا ہوتا ہے-معاشی ضروریات کے پیش نظر ہنر میں مہارت توحاصل کر لی جاتی ہے لیکن اخلاقیات میں عمدگی اور کردار میں پختگی پس پشت رہ جاتی ہے- عصر حاضر کی صف اول کا ایک فلسفہ تعلیم ’Essentialism‘ہے جو کہ اس وقت امریکہ میں عوامی تعلیم کیلئے ترجیح ہے- یہ طریقہ معاشرتی ضروریات کے پیش نظر صرف اور صرف مہارت پیدا کرنے پر زور دیتا ہے-
‘‘The function of schools for the Essentialists is to transmit cultural heritage to students, with the appropriate skills, attitude and values”.[6]
’’نظریہ لزومت والوں کےمطابق سکول کا فریضہ ہے کے طالب علم میں مناسب مہارت، رویے اور اقدار کے ساتھ ثقافتی ورثہ منتقل کرے‘‘-
جبکہ Perennialsim کے مقاصد عالمگیریت اور کسی بڑے کام کی استطاعت پیدا کرنے کے لئے علم و دانش کی پختگی ہے-
“The role of schools, for the perennialists, is to train a group of intellectual elite”.[7]
’’نظریہ دائمیت والوں کے مطابق سکول کا کردار یہ ہے کہ دانشور اشرافیہ کا ایک طبقہ تیار کرے‘‘-
Essentialism اور Perennialism کے مقاصد کے تناظر میں دیکھا جائے تو سلطان الفقرحضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کے زیر سایہ کوئی علم البیان کا ماہر بنا تو کوئی علم الکلام کا، کوئی فقر کا تو کوئی فقہ کا ، کوئی فلسفہ کا تو کوئی قانون کا، کوئی بہترین لکھاری تو کوئی ماہر شہسوار-یہ آپؒ کی ہی تربیت کا اثر ہے کہ ایسے دانشور تیار ہوئے جو نہ صرف علم و دانش کے ذریعے مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کا حل پیش کرتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر علم و تحقیق میں اپنا کردار ادا کرکے فلاح انسانیت اور امن عالم کے داعی بھی ہیں- مزید برآں یہی سکالر اپنی فراست سے پاکستان کے نظریاتی اساس کے محافظ بھی ہیں- فکر سلطان الفقرؒ کے زیر اثر تربیت یافتہ افراد ایک طرف معاشرے کا درد اپنے سینے میں موجزن کیے اس کی اصلاح کی سعی کر تے ہیں تو دوسری طرف انسان کو اس کی ذات سے متعارف کرا کر اس کی ممکنہ استعداد کو بڑھانے میں اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں-
اگر تہذیب و تمدن کی بات کی جائے تو اس کی بقاء صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اس کو عملی طور پر اپنایا جائے وگرنہ تہذیب و تمدن صرف کتابی شکل میں رہتی ہے- سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کی بیش بہا خدمات میں سے ایک گراں قدر احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے اسلامی تہذیب و تمدن کو نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں نافذ العمل رکھا بلکہ ان روایات کو اپنی نسلوں میں بھی منتقل کیا- آج بھی آستانہ عالیہ پر جائیں تو اسلامی تمدن و روایات مختلف عمارتوں، فن تعمیر، لباس، طرز عمل اور دیگر بہت سی صورتوں میں واضح نظر آتی ہے- آستانہ عالیہ پہ جائیں تو چہل قدمی کرتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم چہل قدمی نہ کر رہے ہوں بلکہ جمالیات کے کسی پروفیسر کا بصیرت افروز خطبہ سن رہے رہوں کیونکہ آستانہ عالیہ پہ ہر ایک چیز اسلامی تصور جمالیات کے نور میں نہائی اور خوشبو میں لپٹی ہوئی ہے -
Constructivism مشاہدہ اور تعمیرِ علم کے ذریعے تسخیر کائنات کی طرف راغب ہونے کا نام ہے - جس کو فقراء تن کی دنیا کہتے ہیں اور عام فہم میں اس کو ظاہری دنیا کہا جاتا ہے -
“Constructivism is a theory in education which posits that individuals construct new understandings and knowledge through experience and social discourse” integrating new information with what they already know”.[8]
’’تعمیر پسندی ایک تعلیمی نظریہ ہے جو فرض کرتا ہے کہ افراد معاشرتی مکالمے اور تجربے کے ذریعے نیا علم اور سمجھ بوجھ پیدا کرتے ہیں اور نئی معلومات کو موجودہ علم سے یکجا کرتے ہیں‘‘-
فکرِسلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کائنات کی تعمیر وتسخیر کے ساتھ ساتھ داخل وجود کے جہان کو دریافت کر کے من کی کائنات کے مشاہدہ اور تسخیر کی دعوت دیتی ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ مشاہدہ و تسخیرِ خودی کی دعوت میں یکتائی کا دامن تھامے استقامت بخشتی ہے- اس کو من کی دنیا یا باطنی دنیا کہا جاتا ہے- ظاہری دنیا کی تسخیر سے انسان اپنا دنیاوی محدود سفر جبکہ باطن یا وجود کی تسخیر سے انسان لا مکان کا سفر بھی بہتر بنانے کے قابل بنتا ہے- پہلی فکر محدود و ادنیٰ مقاصد کی حامل ہے جو صرف فلاح دنیا کا باعث ہے- جبکہ فکر سلطان الفقرؒ اعلیٰ مقاصد کی حامل ہے جس سے فلاح دنیا و آخرت بذریعہ فلاح باطن حاصل ہوتی ہے-
قباے زندگانی چاک تاکی |
’’کب تک زندگی کا لباس تار تار رکھے گا؟ کب تک چیونٹیوں کی طرح خاک میں گھر بنائے گا؟پرواز میں آ اور شاہینی سیکھ (چیونٹی کی طرح) کب تک مٹی میں اپنا رزق تلاش کرتا رہے گا؟‘‘-
Humanism یا Progressivism عقل اور خارجی ماحول کے ذریعے اخلاقی معیار اور ممکنہ انسانی استعداد کو بڑھانے کا متمنی ہے-
“The Progressives’ Emphasis on schools being social agencies to provide the skills and attitudes for students to participate in a democracy.”[9]
’’ترقی پسندوں کی تاکید کے مطابق سکول سماجی مراکز ہیں جن کا کام طالب علموں میں جمہوری عمل کا حصہ بننے کے لیے مہارت اور موزوں رویے پیدا کرنا ہیں‘‘-
جبکہ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فکر سلطان الفقر ؒ دل کی پاکی اور روح کی بیداری کے ذریعے ان مقاصد کا حصول ممکن بناتی ہے- افعال کا بنیادی متحرک وجود کے اندر لطیف صورت میں جذبہ و ارادہ کی شکل میں موجودہوتا ہے- یہ ایک باہم جڑا ہواعمل مسلسل ہے جو وجود کے اندر سے خواہشات و ارادوں کی صورت میں شروع ہو کر بالترتیب افعال و اقدار اور بالآخر معاشرتی وضع قطع کا تعین کرتا ہے- اس سفر میں تفکرات اور خواہشات پہلے مرحلے میں ترجیحات و عزائم کا تعین کرتی ہے جو نظریات و مقاصد کو طے کرتے ہیں اور نظریات ایک نظام کی صورت میں رائج ہو جاتے ہیں مختصر یہ کہ اس دائر ہ میں عمل کے آغاز (ارادہ) سے مرحلہ وار یہ لکیر(نظریات ،افعال) اپنا چکر پورا کر کےمنطقی انجام (نظام) تک پہنچتی ہے- لہٰذا اس کی درستگی کے لیے اسے ابتداء سے ٹھیک کرنا ضروری ہے - فکر سلطان الفقر افعال واعمال کے بحر رواں کےمحرک پر توجہ خاص کا مرکز ہے جو نظام کی درستگی کیلئے نظریات سے پہلے فرد اور فرد واحد کی پہلے باطنی اصلاح کرتی ہے-
کسی فرد یا معاشرے کا استحکام اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کی تعمیر اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر ہو- دانشوروں کے پیش کردہ افکار، انسانی اخلاقی معیار کی بہتری کیلئے عقل اور جسم پر توجہ دیتے ہے- حالانکہ اعلیٰ یا پست اخلاقی معیار کا موجب عقل یا جسم نہیں بلکہ روح اور نفس ہے -یہاں نفس سے مراد اس کی پہلی حالت (نفس امارہ) ہے- دراصل انسان کے بُرے ارادوں اور اعمال کا سبب نفسانی خواہشات ہیں- کیونکہ نفس امارہ کا تعلق بُری خصلتوں سے ہے جیسے حسد، بغض، کینہ، حرس، ہوس، غضب اور تخریب کاری وغیرہ- لہٰذا نفسانی غلبہ کی صورت میں وجود انسان ان بُری خصلتوں کا مظہر بن کر اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتا ہے- جبکہ روح، نیک ارادں اور اعمال کا منبع ہے- روح کا تعلق اعلیٰ اخلاقی اقدار اور خوبیوں سے ہے جیسے اخلاص، استقامت، صبر، شکر، قناعت، پرہیز گاری اور تعمیر وغیرہ-لہٰذا روح کے زیر اثر انسان خوبیوں کا پیکر بن کر اعلیٰ اخلاقی مقام پر فائز ہو جاتا ہے-
اسی طرح اعمال کا واقع ہونا دو مرحلوں پر مشتمل ہے- پہلا مرحلہ وجود کے اندر ( باطن میں)، خواہش، ارادہ اور منصوبہ بندی کی صورت میں جبکہ دوسرا مرحلہ ظاہر میں جسم سے عملی صورت میں ظاہر ہوتا ہے - پہلا مرحلہ اگر روح کی چاہت کے مطابق طے ہو گا تو ظاہر میں جسم سے خوبیوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی اعمال رونما ہونگے اور اگر یہ مرحلہ نفسانی خواہشات کے زیر اثر ہو گا تو جسم سے بُری خصلتوں اور اخلاقی پستی پر مبنی اعمال سرزد ہوں گے- عقل بہر حال دونوں صورتوں میں منصوبہ بندی کا کردار ادا کرتی رہے گی -
فکر سلطان الفقر ؒ فرد کی اصلاح اور باطنی فلاح کا ایسا نصاب وضع کرتی ہےجس میں ظاہری و جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس، دل کی پاکی اور روح کی بیداری کے معیارات اور تعلیمات بھی شامل ہیں- محض ظاہری تعلیم و تربیت اور کتابی قصے کہانیوں سے اخلاقیات کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا بلکہ انسان کی روحانی فلاح و ترقی کیلئے ایک جامع نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے-ظاہری اصول وقواعد صرف بُرے کاموں سے روکنے کیلئے رکاوٹ پیدا کر سکتے ہیں برائی کو جڑ سے ختم نہیں کر سکتے - جبکہ فکر سلطان الفقرؒ برائی پر اکسانے والی حِس اور بُرے افعال کے بیج کو ہی نام و نشان سمیت حرف غلط کی طرح مٹا دیتی ہے-
Behaviourism and Reconstructionismکی توجہ معاشرتی مسائل کو تعلیم کے ذریعے حل کرنے اور ترقی پسندانہ اور سود مند رویے پیدا کرنے پر ہے-
“Schools should be the centers for the reconstruction of society and the creation of a new social order”.[10]
’’سکول معاشرے کی تعمیر نواور ایک نئے سماجی نظام کی تخلیق کے مراکز ہونے چاہیے‘‘-
ہر معاشرے کی اپنی ایک الگ ساخت اور معروضی حالات ہوتے ہیں- جیسے کوئی معاشرہ نسلی قومیت، کوئی خاص مذہبی نظریہ پرقائم اور کوئی آزاد خیال مادی تصور پر قائم ہوتا ہے- ہمارے معاشرے کی ساخت پر نسلی قومیت، سیاسی نظریات، مذہبی رہنماؤں اور اہل تصوف کا بڑا گہرا اثر پایاجاتا ہے-عمومی طور پر انہی کی پیروی کی جاتی ہےاور ان ہی کے تصور معاشرت کے زیر اثرمعاشرے کے قیام کی کوششیں کی جاتی ہیں-یہ سب اپنی دانست میں بہترین مگر ایک دوسرے سے غیر متعلق اور بے ربط معاشرے کا قیام عمل میں لاتے ہیں- جس سے اجتماعی معاشرتی مقاصد میں تصادم پیدا ہو جاتا ہے اور ایک ہی ملک میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے مختلف اور لا تعلق بن جاتے ہیں- فکر سلطان الفقر ؒ ان کی یکجہتی اور اتفاق کی متلاشی ہے جو فرد واحد اور معاشرے کو بیک وقت تینوں پہلوؤں (ظاہری، مذہبی اور روحانی پہلوؤں)میں فلاح یافتہ بنانے میں سرگرم عمل ہے اور معاشرے کی منتشر سوچ کو یکجا کر کے اجتماعی مطمع نظر کی سمت میں یکسوئی پیدا کرتی ہے- یہ فکر سلطان الفقر ؒکا کمال ہے کہ کسی ایک پہلو میں تربیت کی بجائے ظاہری، باطنی اور مذہبی امنگوں کے ربط کو قائم کر کےتینوں پہلوؤں میں فلاح یافتہ بناتی ہے- ہر پہلو کے ترقی کے اپنے تقاضے ہیں اور ان کی ہم آہنگی تینوں پہلوؤں پر دسترس رکھنے والی شخصیت ہی پیدا کر سکتی ہے - آپ کے زیر تربیت نہ صرف دور جدید کے تقاضوں کے مطابق کامیاب بلکہ مذہبی امنگوں کے حصول میں سرفہرست اور ساتھ ہی روحانی ترقی کے سفر پر گامزن ہیں-
فکرسلطان الفقرؒکے ذریعے انسان میں مختلف طبقوں کے مابین مکالمے کی اہلیت اور ایسی حکیمانہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے جومعاشرے کے مختلف پہلوؤں کےلئے نئی متفق سمت کا تعین کر سکتی ہے-
آپؒ نے اجتماعیت اور معاشرتی وابستگی کا درس دیا -اپنے وسائل اور اسباب کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھنا عصر حاضر کی جدید رہبانیت کی ایک شکل ہے- رہبانیت میں انسان دنیا و معاشرے سے قطع تعلق ہو کے بیابانوں میں اکیلے اپنی ذات تک محدود ہو جاتا ہے اسی طرح اگر انسان کی جان و مال، اولاد، وقت، وسائل، ہنر، علم اور اسباب سے انسان اور معاشرے کی فلاح نہ ہو تو وہ عصر حاضر کی جدید رہبانیت کی ایک شکل ہے-
یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہوتی |
فکر سلطان الفقرحضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے طریق تعلیم و تلقین کے تجزیہ سے درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں جو عصر حاضر کی بنیادی ضرورت ہے:
v سلطان الفقر ؒکے طریق تعلیم میں کلیت پائی جاتی ہے جو عقل، حواس، وجدان، جذبے اور روحانی احساس کی تربیت پر مبنی ہے -
v آپؒ کی فکر کسی ایک پہلو میں ترقی کے بجائے جامعیت کی حامل ہے جس کا مقصد فرد اور معاشرے کا بیک وقت مادی، روحانی اور دینی فلاح ہے -
v آپؒ کے طریق میں باطنی فلاح کے ذریعے دینی اور دنیاوی امور میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا ہے-
v فرد کی روحانی ترقی کے ذریعے اس کا بالترتیب معاشرے، ملک، ملت، انسانیت، کائنات اور خالق سے ربط اور تعلق استوار کرناہے-
v کائنات کے مشاہدہ اور تسخیر کے ساتھ من کی دنیا کو مسخر کرنا ہے-
٭٭٭
[1]Alexandra K Trenfor
[2]The Reconstruction of Religious Thought in Islam. (Knowledge and Religious Experience), Alama Iqbal.
[3]The Reconstruction of Religious Thought in Islam. (Knowledge and Religious Experience), Alama Iqbal.
[4]The Reconstruction of Religious Thought in Islam. (Knowledge and Religious Experience), Alama Iqbal.
[5]Mathew Lynch May 01,2017 (Theedadvocate.org)
[6](Ellis, Cogan, & Howey, 1991)
[7]Philosophical Perspectives on education, January2006. CHARLENE TAN (The University of Hong Kong)
[8](Constructivism (Philosophy of education) en.m.Wikipedia.org
[9]Philosophical Perspectives on education, January2006. CHARLENE TAN (The University of Hong Kong(
[10]George S. Counts (Dare the Schools Build a new social order?