حضور نبی کریم رؤوف رحیم خاتم النبیین رحمۃ للعالمین (ﷺ) کی بعثت مبارکہ سے قبل عالم دنیا بالعموم اور عرب معاشرہ بالخصوص اپنے اخلاقی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے گِر چکا تھا ، ہر قسمی فتنہ و شر انگیزی، فساد پروری اور خون ریزی جیسے جرائم اُن کی گھٹی میں شامل ہو چکے تھے، جاہلانہ رسم و رواج، ظلم و زیادتی، تخریب کاری، خود ساختہ اور من پسند خرافات گویا کہ نقائص و عیوب اس معاشرے کی عادت بن چکے تھے-بے حیائی اور نسلی تفاخر جیسے موذی امراض روز بروز پروان چڑھ رہے تھے گویا کہ پورا معاشرہ طبقاتی کشمکش کی چکی میں پسا جا رہا تھا-بت پرستی کایہ عالم تھا کہ ذہنی تسکین کے لئے الگ الگ خدا بنا رکھے تھے اور بڑھتی ہوئی آبادی کےلحاظ سے دن بدن نئے خدا وجود میں آ رہے تھے اور اِسی تسلسل سے روز بروز انسانیت کا دم گھٹتا جا رہا تھا-امیر و غریب کی تفریق اور ذوات کی درجہ بندی سے انسانیت کی تذلیل میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا-عورت کے وجود کو سوائے تلذذ کے کوئی آدمی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا-بلکہ مضر، خزاعہ اور تمیم کے قبائل کے ہاں تو خاص کر بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کارواج عام ہو چکا تھا-اِس صنفِ نازک کے ساتھ اِس طرح کا ظالمانہ برتاؤ روا رکھنا ایک معمول کی بات تھی اور کوئی اِن کی چیخوں پر توجہ نہ دیتا اور آخر کار وہ سسکیاں لے لے کر اپنی جان، جان آفرین کے حوالے کر دیتی- گو کہ اِن برائیوں کے باوجود اہلِ عرب میں کچھ خوبیاں بھی تھیں، جیسا کہ مہمان نوازی اور وعدے کی پاسداری وغیرہ لیکن اُن کی فتنہ و شر پسندی ، قتل و غارت ، اُن کے ہاتھوں سے تذلیل ہونے والی انسانیت اور اُن کےفکری اور نظری زوال و انحطاط نے اُن کی سب خوبیوں پر پردے ڈال رکھے تھے -قرآن کریم نے عرب معاشرے کی اِس صورتحال کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیْمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ط اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ط اَلَا سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ ‘‘[1]
’’اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصّہ کھاتا ہے-لوگوں سے چُھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ، ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں‘‘-
اِس بات پر تاریخ شاہد ہے کہ اُس دور میں عورت اور غلام کتنے کمزور، مظلوم اور ستم رسیدہ تھے،اگر اِن کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک اور مظالم کو گننا شروع کریں تو انسانیت شرم سے پانی پانی ہو جائے، لیکن قربان جائیں آقا کریم (ﷺ) کی ذات بابرکات پر جو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر تشریف لائےاورایک ایسا واضح اور روشن دین لےکر آئے جس نے اِن کے حقوق کا باقاعدہ میثاق جاری کر دیا -جن کی تعلیمات نےدنیا کے سامنے غلاموں کو آقاؤں کے مرتبہ پر فائز کیا - آپ(ﷺ) نے صنفِ نازک کے احساسات اور صنفی نزاکتوں اور اِس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی باقائدہ تعلیم وتلقین فرمائی اور خاص کر والدین کے دل و دماغ میں بچیوں کیلئے محبت، پیار، الفت، ہمدردری، احساسِ پروری ، شفقت اور فدائیت کے جذبات کی تخم ریزی کرتے ہوئے ، ارشاد فرمایا :
’’مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ» وَضَمَّ أَصَابِعَهُ‘‘[2]
’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی بلوغت تک پرورش کی، قیامت کے دن مَیں اور وہ اس طرح آئیں گے، آپ (ﷺ) نے اپنی انگلیوں کو ملا کر دکھایا ‘‘-
رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
«مَنِ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ، فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ»[3]
’’جس شخص پر ان بیٹیوں کا بار پڑ جائے اور وہ اُن کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ اُس کیلئے جہنم سے حجاب ہو جاتی ہیں ‘‘-
مزید نفسِ انسانیت کے مقام و مرتبہ کی قدر دانی کا اندازہ اس ارشاد باری تعالیٰ سے لگائیں :
’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط‘‘[4]
’’جس نے کوئی جان قتل کی، بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے ، تو گویا اُس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا،اُس نے گویا سب لوگوں کو جِلالیا‘‘-
اس آیت کریمہ میں انسانی جان کی حرمت، عزت اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور اس میں مرد و عورت ، چھوٹا و بڑا، امیر و غریب اور مسلمان و کافر کسی ایک کی بھی تخصیص نہیں کی گئی-بلکہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کو زندہ کرنا قرار دیا گیا ہے-
’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ:
’’ ایک دیہاتی نے مسجد نبوی (ﷺ) میں آکر پیشاب کردیا صحابہ کرام ()میں سے بعض (اُس کو منع کرنے کیلئے)اُٹھے تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اِس کو پیشاب کرنے سے مت روکو اور جب وہ دیہاتی پیشاب کرچکا تو آقا کریم (ﷺ) نے پانی کا ڈول منگوایا اور (صاف کرنے کی غرض سے ) اُس پر بہا دیا ‘‘- [5]
محدث شہیر علامہ غلام رسول سعیدی ()’’ شرح صحیح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ کو منع کیا کہ اِس کے پیشاب کو منقطع مت کرو،کیونکہ مسجدمیں پیشاب کرنا بھی ایک بُرا کام ہے اور اِس کا پیشاب منقطع کر دینے سے جو اِس کو مرض پیدا ہوتا اور اِس کو ضرر ہوتا، وہ اِس سے بھی زیادہ بُرا کام تھا تو آپ (ﷺ) نے زیادہ برائی سے بچنے کے لئے کم برائی کو برداشت کرنے کا حکم دیا اور مسجد کو گندگی سے بچانا بھی ایک نیکی ہے اور اِس اعرابی کو مَرض اور ضَرر سے بچانا اِس سے بڑی نیکی ہے اس لئے آپ (ﷺ) نے چھوٹی نیکی کے مقابلہ میں بڑی نیکی کے حصول کا حکم دیا جب کہ مسجد کی صفائی تو بعد میں پانی بہا کر بھی حاصل ہو سکتی تھی‘‘ -[6]
مطلب یہ ہے کہ اگر زبردستی اس کا پیشاب روک دیا جاتا تو اس کے بیمار ہونے کا خطرہ تھا تو ایک طرف انسانی تکلیف تھی اور دوسری طرف مسجد کا تقدس تھا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے مسجد کے تقدس پر انسانی تکلیف پیدا نہ ہونے کو ترجیح دی ہے اور فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ انسانی جان بچانے کیلئے نماز کو توڑدینا واجب ہے - [7]
’’سنن ابن ماجہ ‘‘کی روایت ملاحظہ فرمائیں، جس میں مؤمن کے شرف کو بیان کیا گیا ہے :
’’حضرت عبد اللہ بن عمر() سے روایت ہے کہ مَیں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا کہ آپ(ﷺ) خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور ارشاد فرما رہے ہیں(اے خانہ کعبہ!) تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی اچھی ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی پاکیزہ ہے، (پھر فرمایا )
’’وَ الَّذِىْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِن أَعْظَمُ عِنْدَ اللّهِ حُرْمَةً مِّنْك‘‘[8]
اور اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ اللہ کے ہاں مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے ‘‘-
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور فرامین رسول (ﷺ) سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جان کی کتنی اہمیت ہے اور کس انداز سے اس کی قدر کرنا سکھائی گئی ہے- لیکن آج جب ہم معاشرے کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے جہالت قدیمہ پلٹ کر آگئی ہو، اُسی طرح انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے،کہیں ذوات کی درجہ بندی سے،کہیں امیر وغریب کی تفریق سے، کہیں معصوم بچیوں کے گلے دبا دیے جانے سے ، تو کہیں اِس بات پر خاتون کو طلاق دی جا رہی ہے کہ یہ بچیاں پیدا کرتی ہے اور کہیں ’الٹراساؤنڈ‘ کی خبر سےاِس لئے اسقاطِ حمل (abortion) کروایا جا رہا ہے کہ پیدا ہو نے والی بچی ہےالعیاذ باللہ، استغفراللہ - آج اُسی طرح خون ریزی، ظلم و زیادتی ، اخلاقی پستی ، ایک دوسرے پر نسلی تفاخر کی برتری اور اِسی قسم کے دیگر کئی ناسور اسلامی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کئے جا رہے ہیں- ان سارے جرائم کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان مقام انسان سے بے خبر ہے جس کی وجہ سے اس کی بے قدری ہو رہی ہے اور پورے معاشرے میں سب سے زیادہ اِسی کا خون سستا ہے اور آقاکریم (ﷺ) کی سنت عظیم یہ ہے کہ لوگوں میں احترام انسانیت کو عام کیا جائے، ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے -
بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی (قدس سرہ العزیز)نے آقا کریم (ﷺ) کی سنت مبارکہ پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے احترامِ انسانیت کو تحریکی بنیادوں پرمعاشرے میں اجاگر کروایا- معرفت اور قربِ الٰہی کے حصول کی تحریک من وجھہٍ مقام و عظمتِ انسان کو اجاگر کرنا ہے – آپؒ اپنے متعلقین اور معتقدین کو اکثر فرمایا کرتے کہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اپنے عقائد و نظریات سے اختلاف رکھنے والے آدمی کو کچھ بھی نام دے دیں، یہ آپ مرضی ہے،لیکن اُسے انسانیت کے دائرے سے ہرگز نہیں نکال سکتے، تو کیا بحیثیت انسان ایک دوسرے پر حقوق نہیں ہیں ؟ اگر آپ اُسے فقط انسان ہی شمار کر لیں، اُسے معاشرے کا فرد ہی سمجھ لیں اور اُسے معاشرہ میں جینے کا حق بھی دے دیں تو آپ کی یہ وسعتِ ظرفی امن و سلامتی پیدا کر سکتی ہے اور آپ کا یہ طرز عمل اُسے تمہارے نظریات کے قریب لا سکتا ہے اور پورا معاشرہ ایک بار پھر قتل و غارت کی لہر سے خلاصی پا سکتا ہے-
آپؒ نباضِ قوم کی حیثیت سے اِس بات کا اچھی طرح ادراک رکھتے تھے کہ معاشرے میں احترام انسانیت کے مفقود ہو جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟ فرماتے، وجہ یہ ہے کہ لوگ خود سے نا آشنا ہیں، اپنے آپ سے غافل ہیں، انہیں خبر نہیں ہے کہ انسان کیا ہے؟اِس کی عظمت کیا ہے؟اِس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اِس کا شرف کس وجہ سے ہے؟اِس کی تکریم کی اصل وجہ کیا ہے؟
آپؒ اِس بات کا بھی ادراک رکھتے تھے کہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی بد امنی، نا انصافی اور انسانی بے حرمتی کے تدارک کا واحد حل کیا ہے؟ فرماتے، حل یہ ہے کہ لوگوں کو مقامِ انسان سے متعارف کروایا جائے - تاکہ وہ جان لیں کہ یہ کس مکیں کا مکان ہے؟یہ کس ذات کی جلوہ گاہ ہے؟اور یہ حقیقت ہے کہ مکان کا شرف اُس کے مکیں کی وجہ سے ہوتا ہے - اس لئے انسان کے ازلی اور باطنی شرف کو سمجھنا بہت ضروری ہے - کیا انسان کی عظمت اور شرف کو سمجھنے کیلئے یہ کافی نہیں ہے کہ ایک تو اُسے خلیفۃ اللہ اور مسجودِ ملائک ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور دوسرا یہ خود (انسان) اِس جہان میں اﷲ تعالیٰ کی معرفت و پہچان کا ایک عظیم ذریعہ ہے-
صوفیا ء کرام اور علماء ربانیین کے ہاں تو ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ کے الفاظ مبارک حصولِ معرفت ِ الٰہی کیلئے نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں،جس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان کا راز انسان کی معرفت و پہچان میں رکھ دیا گیا ہے - اللہ تعالیٰ نے ’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ‘‘[9]فرماکر اولادِآدم کو اولادِآدم کے شرف اور عزت و تکریم سے آگاہ فرمایا -
حضرت شیخ عارف باللہ ابی محمد صدرالدین روزبہان بن ابی نصر البقلی الشیرازی (المتوفی:606ھ) تفسیر’’عرائس البیان‘‘ میں ’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِيْ آدَمَ بِالتَّقْرِیْبِ وَ مَعْرِفَۃِ التَّوْحِیْدِ‘‘[10]
’’ اور تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو قرب اور توحید کی معرفت کے ساتھ اکرام بخشا‘‘-
نُور الدین علی بن سلطان الملا علی القاری الھروی الحنفی (المتوفی: 1014ھ) اپنی تفسیر ’’الملا علی القاری‘‘، میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’وَ مِنْ ذٰلِکَ اَنَّہٗ زَیَّنَ ظَاہِرَ ھُمْ بِتُوْفِیْقِ الْمُجَاہِدَۃِ وَ حَسَّنَ بَاطِنَھُمْ بِتَحْقِیْقِ الْمُشَاہِدَۃِ‘‘[11]
’’ اور اِس یعنی انسان کی (تکریم)کی وجہ یہ ہے کہ اُس (ذاتِ باری تعالیٰ)نے اِن کے ظاہر کو مجاہدہ کی توفیق سے مزین کیا اور اِن کے باطن کو مشاہدہ کی تحقیق سے خوبصورت بنایا ہے ‘‘-
مطلب یہ کہ انسان کی تخلیق ہی اِس انداز سے کی گئی ہے کہ اس میں معرفت، قرب اور مشاہدہ کی صلاحیت رکھی گئی ہے اور اس کو عزت و تکریم بھی اسی وجہ سے عطا کی گئی ہے-جیسا کہ امام بیضاوی نے ’’تفسیر أنوار التنزيل و أسرار التأويل‘‘ میں لکھا ہے :
’’فَاِنَّ شَرْفَ الْإِنْسَانِ وَ كَرَامَتَهٗ بِالْمَعْرِفَةِ وَ الطَّاعَةِ‘‘[12]
’’پس بیشک انسان کا شرف اور اُس کی کرامت (اللہ تعالیٰ کی) معرفت اور اطاعت کی وجہ سے ہے‘‘-
امام المتکلمین و المفسرین امام فخرالدین رازی حدیث قدسی نقل کر نے کے بعد اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’كُنْتُ لَهُ سَمْعًا وَ بَصَرًا وَ لِسَانًا وَ قَلْبًا وَ يَدًا وَ رِجْلًا بِي يَسْمَعُ وَبِي يُبْصِرُ وَبِي يَنْطِقُ وَبِي يَمْشِي وَ هَذَا الْخَبَرُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّهٗ لَمْ يَبْقَ فِيْ سَمْعِهِمْ نَصِيْبٌ لِغَيْرِ اللهِ وَ لَا فِيْ بَصَرِهِمْ وَ لَا فِيْ سَائِرِ أَعْضَائِهِمْ إِذْ لَوْ بَقِيَ هُنَاكَ نَصِيْبٌ لِغَيْرِ اللهِ لَمَا قَالَ أَنَا سَمْعُهٗ وَبَصَرُهٗ‘‘[13]
’’مَیں اُس کے لیے سماعت، بصارت، زبان، دل، ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہوں، اوروہ مجھ سے سنتا ہے،اوروہ مجھ سےدیکھتا ہے، اوروہ مجھ سےبولتا ہے اور وہ مجھ سےچلتا ہے- یہ حدیث پاک اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اُن کے کانوں اور اُن کی آنکھوں اور اُن کے دیگر اعضاء میں غیر اللہ کا حصہ ہی باقی نہیں رہ گیا - اگر یہاں اللہ تعالیٰ کے غیر کیلئے کوئی حصہ باقی رہا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی یہ نہ فرماتا کہ میں اُس کی سماعت اور بصارت ہوں‘‘-
پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبین اور مقربین کو اپنے اسماء و صفات اور انوار سے متصف فرماتا ہے-اس لئے اُن کے وجود میں غیر نہیں رہتا بلکہ اُن کا وجود مقدس اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کی جلوہ گاہ بن جاتا ہے - اس لئے اُن کے قرب میں بیٹھنا گویا کہ انوارِ الٰہی کے قرب میں بیٹھنا ہے - ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’صِبْغَۃَ اللہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً زوَّنَحْنُ لَہٗ ’’عٰبِدُوْنَ ‘‘[14]
’’(کہہ دو ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو اسی کے عبادت گزار ہیں‘‘-
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں کہ اللہ کے رنگ سے مراد کیا ہے ؟
’’اِس سے مراد اللہ کا دین ، اللہ کی فطرت ، اللہ کی سنت، اللہ کی حجت اور فطرت ِاسلام ہے ‘‘-[15]
علامہ شیخ احمد بن محمد الصاوی المصری المالکی (المتوفی: 1241ھ) ’’حاشیۃ الصَّاوی علی تفسیر الجلالین‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’والمراد من الصبغة الأنوار الكائنة في القلب والأعضاء ‘‘[16]
’’اور صبغۃ سے مراد دل اور اعضاء میں موجود انوار ہیں‘‘-
حضرت شیخ عارف باللہ ابی محمد صدرالدین روزبہان بن ابی نصر البقلی الشیرازی (المتوفی:606ھ) تفسیر ’’عرائس البیان‘‘ میں صبْغَة کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’صبغة الخاصية التي خلق آدم على تلك الصفة‘‘
’’صبغہ وہ خاصیت ہے جس صفت پراللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا‘‘-
و قال صدر الصوفية، ورئيس البريَّة (ﷺ): خَلق الله آدم ( ؑ) على صورته، و هذا صبغ الظاهر الذي ألبسه صورة آدم، وأما صبغ الباطن هو الذي كسا الله تعالى قلب آدم، و لهذا سجد ت الملائكة بين يديه، وأورث الله تلك الصفتين اللتين خصَّ بها، آدم أرواح ذريته من الأنبياء والأولياء[17]
’’تمام صوفیا کے سرخیل اور ساری مخلوقات کے سردار (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا؛ اور یہ وہ صبغۃ الظاهر ہے جو اُس نے حضرت آدمؑ کی صورت کو عطا فرمایا اور بہرحال صبغۃ الباطن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کے قلب کو پہنایا، اس لیے ملائکہ نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا اور اللہ عزوجل نے اِن دو صفات (یعنی صبغۃ الظاهر اور صبغۃ الباطن) کے ساتھ آدمؑ کو خاص فرمایا (اوراللہ عزوجل نے ان دو صفات کا)حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے انبیاء اور اولیاء کی ارواح کو بھی وارث بنایا‘‘-
علامہ ابی العباس احمد ابن عجیبہ الحسنی (المتوفی: 1224ھ) ’’تفسیر بحرالمدید‘‘ میں علامہ ورتجبی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وقال الورتجبي: صبغة الله: صفته الخاصة التي خلق آدم عليها، وأورثت ذلك في أرواح ذريته من الأنبياء والأولياء ‘‘[18]
’’اور ورتجبی نے کہا کہ صبغۃ الله (اللہ تعالیٰ کا رنگ) یہ ایک ایسی خاص صفت ہے جس پر حضرت آدمؑ کو پیدا کیا گیا - پھر یہ (صفت خاصہ) حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے انبیاء اوراولیاء کی ارواح میں وراثتاً رکھ دی گئی ‘‘-
مطلب یہ ہوا کہ آدمی جتنا زیادہ شریعتِ مطہرہ پر عمل کرتا چلا جائے گا اور جیسے جیسے اِس میں پاکیزگی بڑھتی چلی جائے گی، اُسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے قریب اور اُس کی صفات سے متصف ہوتا چلا جائے گا کیونکہ صفات سے متصف ہونے کی صلاحیت اس میں رکھ دی گئی ہے - جیسا کہ علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانیؒ ’’جَوَاہِرُ الْبحَارِ، فی فضائل النبی المختار (ﷺ)‘‘میں لکھتے ہیں :
’’فَالْاَ نْبِیَا ءُ وَالْاَوْلِیَا ءُ صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْھِمْ مَظَاہِرُ الْاَسْمَا ءِ وَالصِّفَاتِ وَمُحَمَّدٌ (ﷺ) مَظْہَرُ الذَّاتِ ‘‘[19]
’’تما م انبیا ء(علیھم السلام)اور اولیا ئے کرام اللہ پاک کی صفات اور اسماء کے مظہر ہیں جبکہ محمدعربی (ﷺ) اللہ پاک کی ذات کے مظہر ہیں ‘‘-
عارف باللہ شیخ روز بہان بقلی شیرازی (المتوفی:606ھ) ’’تفسیر عرائس البیان‘‘ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان میں لکھتے ہیں:
’’جعل نبیہ (ﷺ) مرآۃً لظھور ذاتہ و صفاتہ‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کو اپنی ذات اور صفات کے ظہور کا آئینہ بنایا ‘‘-
مفتیٔ بغداد سید محمود احمد آلوسی (المتوفیٰ:1270ھ) ’’تفسیر روح المعانی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’إذ هو (ﷺ) مرآة الحق يتجلى منه على المؤمنين ولو تجلى لهم صرفا لا حترقوا بأول سطوات عظمته‘‘[20]
’’یاد رکھو!رسول اللہ (ﷺ) حق کا آئینہ ہیں جس سے اللہ تعالیٰ مومنین پر تجلی فرماتا ہےاور اگر اللہ تعالیٰ (حق کے آئینہ) کے واسطے کے بغیر تجلی فرماتا تو وہ تمام پہلے لمحہ میں ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت کے جلال کی وجہ سے جل جاتے‘‘-
شیخ روز بہان بقلی شیرازی (المتوفی:606ھ) ’’تفسیر عرائس البیان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’کَانَ النَّبِیُّ (ﷺ) مِرْآۃ الْحَقّ یَتَجَلّٰی بِجَلَالِہٖ وَ جَمَالِہٖ لِلْاَمْنَاءِ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ مِنْہُ یَرَوْنَ اللہَ بِرُؤْیَتِہٖ بقولہ (ؑ) من رانی فقد رای الحق ‘‘
’’ حضورنبی کریم (ﷺ)حق کا آئینہ ہیں جس میں اللہ پاک امینوں اورصدیقوں کے لیے اپنے جلال اور جمال کے ساتھ جلوہ فرما تا ہے اوروہ حضور نبی پاک (ﷺ) کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کا درشن کر لیتے ہیں کیونکہ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اُس نے حق کو دیکھا‘‘-
علامہ إسماعيل حقی البرصوی بن مصطفیٰ الحنفی (المتوفى: 1127ھ) ’’تفسیر روح البیان‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’من أراد رؤية جماله فلينظر فى قلوب أوليائه فان قلوبهم مظاهر ومرايا لجماله ‘‘[21]
’’جس نے اللہ عزوجل کے جمال کو دیکھنا ہو تواُسے چاہیے کہ وہ اُس کےاولیاء کے دلوں میں جھانک لے کیونکہ اُن کے دل اُس کے جمال کے مظہر اور آئینہ ہیں‘‘-
عارف باللہ شیخ روزبہان بقلی شیرازی (المتوفی: 606ھ) ’’تفسیر عرائس البیان‘‘ میں شان اولیاء کو بیان کرتے ہوئے ’’صم بکم عمی‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’عمی عن رؤیۃ انوار جمال الحق فی سیمآء اولیائہ ‘‘[22]
یعنی اندھے وہ لوگ ہیں جو اولیاء اللہ کی پیشانی میں حق تعالیٰ کے جمال کے انوار نہیں دیکھتے ‘‘-
محبوب سبحانی، قطب ربانی شہباز لا مکانی، محی الدین غوث الاعظم الحسنی الحسینی (قدس اللہ سرّہٗ) ’’رسالہ غوثیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے الہامًا مجھ سے کلام فرمایا:
’’مَاظَہَرْتُ فِیْ شَیْءٍ کَظَھُوْرِیْ فِی الْاِنْسَانِ‘‘
’’مَیں کسی شے میں ایسا ظاہر نہیں ہوا جیسا کہ انسان میں‘‘-
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادریؒ ’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’حضرت سیدنا بایزید بسطامی اور ان کے امثال و نظائر () وقت ِورود تجلی خاص شجرہ موسیٰ ہوتے ہیں، سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو درخت میں سے سنائی دیا: ’’یٰمُوْسٰٓی اِنِّیْ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘
’’اے موسیٰ! بے شک میں اللہ ہوں رب سارے جہاں کا‘‘-
کیا یہ پیڑ نے کہا تھا؟حاشا للہ بلکہ واحد قہار نے، جس نے درخت پر تجلی فرمائی اور وہ بات درخت سے سننے میں آئی، کیا رب العزت ایک درخت پر تجلی فرماسکتا ہے اور اپنے محبو ب با یزید پر نہیں؟ نہیں نہیں وہ ضرور تجلی ربانی تھی کلام بایزید کی زبان سے سنا جاتا تھا ، جیسے درخت سے سنا گیا، اور متکلم اللہ عزوجل تھا ،اُسی نے وہاں فرمایا:
’’یٰمُوْسٰٓی اِنِّیْ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘
’’اے موسیٰ! بے شک میں اللہ ہوں رب سارے جہاں کا‘‘-
اُسی نے یہاں بھی فرمایا :’’سبحانی ما اعظم شانی ‘‘
’’میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے‘‘-[23]
عارف باللہ شیخ روزبہان بقلی شیرازی (المتوفی: 606ھ) ’’شرح شطحیات‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’مرا دو نظر است بیک نظر شما را می بینم و بیک نظر دیگر شمارا نمی بینم ‘‘[24]
’’میری دو نظریں ہیں ایک نظر ہے کہ تم کو دیکھتا ہوں اور دوسری نظر ہے کہ تم کو نہیں دیکھتا- (بلکہ حق تعالیٰ کو دیکھتا ہوں )
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ اس پورے فلسفہ کو اپنے الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں:
ایہہ تَن ربّ سَچّے دا حُجرا وِچ پَا فَقیرا جَھاتی ھو |
٭٭٭
[1] (النحل:58-59)
[2](صحیح مسلم ،كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ ،بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ
[3]صحیح مسلم ،كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ ،بَابُ فَضْلِ الْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ
[4]المائدہ:32
[5]صحیح بخاری ، کتاب الوضوء، باب صَب الماء علی البول فی المسجد
صحیح مسلم :کتاب الطہارت ،باب وجوب غسل البول
[6]نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری ،جلد 1، ص :662، فرید بک سٹال اردو بازار لاہور ،پاکستان
[7]مراقی الفلاح،جلد:4، ص:161،فصل فیما یوجب قطع الصلوٰۃ
[8]سنن ابن ماجه ، کتاب الفتن ، الناشر: دار إحياء الكتب العربية
[9]الاسراء:70
[10]تفسیر عرائس البیان فی حقائقِ القران، جلد:2، ص:371، دارالکتب العلمیہ ،بیروت ،لبنان
[11]تفسیر الملا علی القاری المسمی انوارالقرآن و اسرار الفرقان، جلد:3، ص:155- 156، دارالکتب العلمیہ، بیروت ،لبنان
[12]تفسیر أنوار التنزيل وأسرار التأويل للبيضاوي جز : 4 ،ص : 132 ،: دار إحياء التراث العربي - بيروت
[13]مفاتيح الغيب ،جز 21 ، ص 435 ، للامام رازی ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت
[14]البقرہ:138
[15]تفسير مجاهد ،ج:1، ص: 214 ، لأبو الحجاج مجاهد بن جبر التابعي المكي المخزومي (المتوفى: 104ھ): دار الفكر الإسلامي الحديثة، مصر
تفسير عبد الرزاق ،ج:1 ، ص : 294، لأبو بكر عبد الرزاق بن همام اليماني الصنعاني (المتوفى: 211هـ): دار الكتب العلمية
تفسیر جامع البيان ، ج: 2 ، ص:606، لامام ابن جرير أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ) الناشر: دار هجر مفاتيح الغيب ،
تاویلات اھلِ السنۃ ،تفسیر الماتریدی ، ج:1 ،ص: 578 -579، لامام ابی منصور محمد بن محمد الماتریدی (المتوفی : 333ھ ) دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان
تفسیر مفاتيح الغيب، ج: 4 ،ص :75، لامام فخر الدين الرازي (المتوفى: 606هـ)الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت
[16]حاشیۃُ الصَّاوی علی تفسیر الجلالین، ج:1، ص:84، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان
[17]تفسیر عرائس البیان، جلد:1، ص:63، دارالکتب العلمیہ ،بیروت ،لبنان
[18]تفسیر بحرالمدید، ج:1، ص : 146، دارالکتب العلمیہ، بیروت ،لبنان
[19]جَوَاہِرُ الْبحَارِ فی فضائل النبی المختار(ﷺ)، جلد:4، ص:264، دارلکتب العلمیہ
[20]تفسیر روح المعانی، جز: 2 ، ص :342 ، للآلوسی (المتوفى: 1270ھ) دار الكتب العلمية ،بيروت
[21]تفسیر روح البيان، جز:3، ص:238، للعلامہ إسماعيل حقی (المتوفى: 1127هـ) ،دار الفكر،بيروت
[22]تفسیر عرائس البیان، جلد:1، ص:36، دارالکتب العلمیہ ،بیروت ،لبنان
[23]فتاوی رضویہ، ج: 14، ص :665-66 ،رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہو ،پاکستان -
[24]’’شرح شطحیات ، ج : 1 ،ص : 586،ناشر ، زبان و فرھنگ ، ایران