ورک پلیس سپرچوئیلٹی اور بانیِ اصلاحی جماعت کا اسلوبِ تربیت

ورک پلیس سپرچوئیلٹی اور بانیِ اصلاحی جماعت کا اسلوبِ تربیت

ورک پلیس سپرچوئیلٹی اور بانیِ اصلاحی جماعت کا اسلوبِ تربیت

مصنف: ڈاکٹرعثمان حسن اکتوبر 2017

ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں عظیم شخصیات کے عظیم نظریات کو چار  طرح سے قبولِ عام ملتا ہے - (۱)  بسا اوقات عظیم شخصیات کو اُن کی زندگی میں ہی پذیرائی مل جاتی ہے (۲)جبکہ تاریخ میں ایسا بھی بکثرت ہوتا رہا ہے کہ کئی عظیم شخصیات کو ان کے اِس دُنیا سے جانے  کے بعد ان  کی عظمت اور کئے گئے کام پر سراہا گیا (۳) کئی ایسی شخصیات بھی آئیں کہ جنہیں اُن کی ظاہری زندگی میں تو بہت پذیرائی اور شُہرت ملی مگر جاتے ہوئے اپنی پذیرائی اور قبولیتِ عام بھی ساتھ لے گئے -  (۴) جبکہ ایسی شخصیات بھی فلکِ تاریخ پہ اپنی تابندگی بکھیرتے نظر آتی ہیں جن کے افکار و نظریات اُن کی زندگی میں بھی عام ہوئے اور اُن کے جانے کے بعد بھی اُسی طرح یا اُس سے بڑھ کر مقبول ہوئے - بانی اصلاحی جماعت سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہٗ کی شخصیت و افکار کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو آپ بھی ایک ایسی ہی ہستی ہیں جن کے نظریات و افکار کو اُن کی زندگی میں بھی قبولِ عام ملا اور اِس دُنیا سے ظاہری پردہ پوشی کے بعد بھی اُن کے فقر کا فیض اور اُن  کی فکر کی ترویج و قبولیت جاری وساری ہے-(ایسے صاحبِ نگاہ مردانِ کامل کا فیض روحانی تو بلا شک و شُبہ تشنگانِ فقر کو سیراب کرتا رہتا ہے، زیرِ نظر مضمون میں ہم آپ قدس اللہ سرّہٗ  کی فکر اور تحریک کے حوالہ سے جائزہ لیں گے- )

جمودی رویوں کی بیسویں صدی  میں بانی اِصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ  نے جس سمت رہنمائی اور قیادت کا فریضہ سر انجام دیا اُس نے خانقاہی سلسلوں میں جمود و تعطل کی روایت میں زلزلے بپا کئے-  دینِ مبین، ترویجِ فقر اور ملتِ اسلامیہ کے لئے اُن کی بڑی خدمات اور اُن کی نگاہِ کاملہ سے برپا کیا جانے والا عظیم فکری و روحانی انقلاب ان کے اپنے دور کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے جو کہ لٹریچر میں آہستہ آہستہ  آشکار ہو رہا ہے-سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہٗ کی قیادت کا وہ معیار ہے جس کا احاطہ کرنا بھی مشکل ہے-آپ قدس اللہ سرّہٗ نے آنے والے دور میں لیڈرشپ کے مؤثر نظریات(theories ) اور تنظیم و ادارہ جات سے متعلقہ تھیوریز پر مطالعہ و تحقیق کے لئے اپنی شخصیت، کردار اور تحریک کی صورت میں بہترین سرمایہ و اثاثہ مہیا کیا ہے-

فطرت انسانی ہے کہ انسان اپنے تجربات اور اردگرد کے ماحول سے سیکھتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نِت نئے نظریات اور تھیوریز تخلیق کرتا ہے اور اس امر کا دائرہ کار قریباً تمام معاملاتِ زندگی تک پھیلا ہوا ہے-گزشتہ چند صدیوں میں اس شعبہ میں مغرب نے سبقت حاصل کی ہے اور علومِ ظاہری میں ان گنت نئے نظریات متعارف کروائے ہیں- مگر ایک پہلو جس کا فطرت انسانی شدت سے انتظار کر رہی ہے وہ ایسا عالمگیر نظریہ اور  نظام ہے جو انسان کی تمام جہتوں کو یکجا کر کے اپنے اندر سمیٹ سکے-حالیہ دور کے جتنے بھی جدید نظریات تعمیر کے گئے ہیں ان کو پرکھنے کا معیار اُنہی معاشروں اور اداروں کو رکھا جا رہا ہے جو خود انہی نظریات کی پیداوار ہیں-یہ طریقہ کار کسی حد تک دنیاوی مسائل سے نمٹنے میں تو  مددگار ہو سکتا ہے مگر جدید معاشروں میں روحانی اقدار و استخلاص کا نہ ہونا ان تھیوریز اور نظریات کی عالمگیریت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان علوم کی روشنی میں  کوئی ایسی کامیاب عالمگیر ترتیب نہیں دی جا سکی  جو انسان کی تمام تر زندگی کا احاطہ کر سکے-

سرمایہ دارانہ نظام نے دانشوروں کو بھی مجبور کیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ ادارہ جات اور کمپنیوں و فیکٹریوں کے نظام کو بہتر سے بہتر کرنے کیلئے ’’تھیوریز و پریکٹسز‘‘ بنانے میں صرف ہو جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ علوم و فنون نے بذاتِ خود ایک منظم  ادارہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس کی بقا و نشوو نما کےلئے دستیاب فنڈز اور ضروریات سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ہو گئے ہیں-تاہم تحقیق و علوم میں ارتقاء کے باوجود  روحانی عدم استحکام کے سبب ان ادارہ جات میں کام کرنے والوں کے تمام مسائل حَل نہیں ہو سکے اور وہ مسائل اجتماعی سطح پر ادارہ جات کیلئے مسائل کا باعث بنتے ہیں-

ایسے میں انسانی ’’خواہشات بمقابلہ اقدار‘‘ کی جنگ و کشمکش نے محققین و  دانشوروں کو مجبور کیا ہے کہ وہ  اخلاقیات و اقدار کی جانب قدم بڑھائیں-اگرچہ اس بحث نے مذہب سے دوری اور عالمگیر اصولوں کے انکار کی گونج میں جنم لیا ہے تاہم یہ ایک طرح کی مجبوری بنتی چلی جا رہی ہے کہ ملازمین کو کسی بھی ادارہ، دفتر یا فیکٹری  میں کام کرنے کیلئے اندرونی طور پر مستحکم کیا جائے اور اسی اثناء میں مادی ضروریات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ورک پلیس سپر چوئلٹی (work place spirituality) کا تصور سامنے آیا ہے -  Cornell University  کے  Dr. Robert Giacalone   اور University of Massachusetts Boston  کی پروفیسر  Carole L. Jurkiewicz  کے مطابق:

“Workplace spirituality is a framework of organisational values evidenced in the culture that promotes employees experience of transcendence through the work process, facilitating their sense of being connected to others in a way that provided feelings of completeness and joy”.[1]

’’ورک پلیس سپر چوئلٹی (اَخلاقی روحانیت بہ مکانِ کار) ، کلچر میں موجود باقاعدہ اقدار کا ایک ایسا نظام ہے جو ملازمین میں دوسروں کے ساتھ منسلک ہونے کے احساس کے ذریعہ سبقت لے جانے کے تجربہ کواس طرح بڑھاتا ہے کہ انہیں تکمیل اور مسرت کا احساس ہو‘‘-

یہ اسی حقیقت کا غماز ہے کہ چاہے فرد ہو یا ادارہ یا کوئی بھی ایسا معاملہ، ہر شخص کہیں نہ کہیں اقدار اور اپنی تکمیل کے ساتھ وابستہ ہے-مگر افسوس اس امر کا ہے کہ اصل بنیاد سے انکار کر کے فقط سرمایہ میں اضافہ یا ایک ادارہ کی بہتر کارکردگی کے لئے ایسے سطحی نظریات  کسی حد تک ادارہ جات کے لئے ایک اچھی فضا قائم کر سکتے ہیں مگر فرد کو انفرادی سطح پر تنہا ہی رکھتے ہیں-کیونکہ وہ ’’ورک پلیس فلاسفی‘‘ سے تو آشنا ہوتا ہے مگر فلسفۂ حیات سے خالی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ان دونوں کے درمیان ایک خلیج قائم ہو جاتی ہے اور یا تو ورک پلیس سپیر چوئلٹی (اَخلاقی روحانیت بہ مکانِ کار) ایک مافوق الفطرت شے معلوم ہوتی ہے یا پھر فرد اپنے آپ کو نامکمل محسوس کر کے اپنے اندر سے تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے-فرد کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت(چاہے ادارہ میں ہو یا کسی بڑے معاشرہ میں) اگرچہ الگ الگ معاملات سے نمٹتی ہیں تاہم ان کے مرکز و محور کی ثنویت (duality) فرد کو اندر سے توڑ دیتی ہے- زندگی کو قریب سے دیکھنے اور فلسفہ ٔحیات پرکھنے والے افراد کے لئے ضروری ہوتا ہے  کہ وہ انفرادی سطح پر روحانی اصولوں کا عکس معاشرے اور ادارہ جات میں دیکھ پائیں-ایسے میں چاہے وہ اپنے نجی معاملات کو ترتیب دیں یا چاہے کسی ادارہ میں ہوں، ہر شعبہ زندگی کے رہنما اصول کیلئے ایک ہی مآخذ کی جانب رجوع انہیں اندر سے  مضبوط رکھتا ہے-ایسے میں انہیں ورک پلیس سپیر چوئلٹی  کوئی مافوق الفطرت شئے نہیں لگتی بلکہ انسان کی زندگی کا ایک ضروری عنصر بن جاتی ہے-اسی جانب اشارہ کرتے ہوئےNorweigian Business School کے پروفیسر Mark P. Kriger  اور American University Washington  کے Professor Yvonne Seng لکھتے ہیں:

it is highly likely that those who exercise leadership roles in organizations, and who believe in spiritual or religious belief systems, will have their leadership behavior shaped by the underlying values and attitudes of those worldviews”.[2]

’’---اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے لوگ جو ادارہ جات میں لیڈر شپ  کا کردار ادا کرتے ہیں اور روحانی یا مذہبی عقائد رکھتے ہیں ان کی اپنی لیڈر شپ کا رویہ ان کے (روحانی یا مذہبی)نظریہ میں موجود رہنما اصولوں سے تشکیل پائے گا‘‘-

University of Georgia  کے Marianne F. Foote اور ایسوسی ایٹ پروفیسر  Dr. Wendy Ruona کے مطابق:

“Scholars believe ethical behavior must be institutionalized—evidenced in daily practices and rooted in organizational culture—to sustain ethics in the workplace”.[3]

 

’’سکالرز کا یہ ماننا ہے کہ ملازمت کی جگہ پر اقدار کو برقرار رکھنے کے لئے اخلاقی رویہ لازماً  منظم حیثیت میں ہونا چاہیے جو روزانہ کے معمولات میں موجود ہو اور اس کی بنیادیں تنظیمی کلچر میں ہوں‘‘-

عصرِ حاضر میں تحقیق کا زیادہ تر دائرہ کار ادارہ جات کی بہتر کارکردگی کے لئے اصول بنانے تک محدود ہو رہا ہے-ایسے دور میں تحقیق کا رخ کسی ٹھوس نظریہ کی جانب موڑنے کیلئے سب سے زیادہ کارگر چیز  نئے تجربات ہو سکتے ہیں-دوسرے لفظوں میں ایک ایسے ماحول، معاشرہ یا تنظیمی نظام کی تشکیل ہو جو قرونِ اولیٰ کے ’’اخلاقی اعتبار سے‘‘ مثالی معاشروں کے اصولوں کی بنیاد پر  کھڑے ہوں جہاں فرد کا روحانی استخلاص بھی ہو،اس کے پاس اپنی زندگی کا ایک مقصد ہو، فلسفۂ حیات موجود ہو اور وہیں معاشرے کے پاس بھی عالمگیر اصول موجود ہوں جو اسی فلسفۂ حیات سے منسلک ہوں جن پر ایک فرد  کی تعمیر ہو رہی ہو-ایسے کسی ادارہ کی تشکیل، اس کا مطالعہ اور تجربہ یقیناً محققین کے لئے نئی راہیں کھولے گا- 

حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیاتِ مبارکہ کے عظیم پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے ایک  ایسی تحریک چلائی اور ایسا نظام ترتیب دیا  جس نے رہتی دنیا کیلئے ورک پلیس سپیر چوئلٹی (اَخلاقی روحانیت بہ مکانِ کار) کی ایک عظیم  مثال فراہم کی ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریک جہاں ایک جانب فرد کے روحانی استخلاص پر بنیاد کرتی ہے تو وہیں فرد کو معاشرے میں اپنے کردار سے بخوبی آگاہ کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کی تعمیر کیلئے رہنما اصول وضع کرتی ہے-اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی صورت میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ایسی عملی مثال پیش کی ہے کہ دنیاوی علوم اور ادارہ جات چلانے کیلئے ضروری تجربہ و فہم سے بظاہراً نا آشنا لوگوں نے اس تحریک کے نظم و ضبط اور فعال  کردار کے لئے وہ کارنامے سر انجام دئیے ہیں جو شاید بڑی بڑی ڈگریوں والے  اور تجربہ کار لوگ بھی نہ کر سکیں-اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ ایسے محور سے منسلک ہو گئے جس  سے انہیں اپنی ذاتی حیثیت اور معاشرتی و تنظیمی حیثیت میں رہنما اصول فراہم ہوئے-آپ قدس اللہ سرّہٗ کی تحریک کے تربیت یافتہ ساتھی  میاں محمد ضیاء الدین صاحب اسی متعلق فرماتے ہیں :

’’تنظیم کا مطلب منظم ہونا ہے تو آپ کی تعلیمات اور گفتگو کا جو عملی سسٹم تھا ، آپ کی بارگاہ میں کوئی مورخ آیا، عالم ، یا امیر و غریب آیا تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) سب سے پہلے یہ تلقین فرماتے کہ تمہاری زبان اور دل ایک بن جائے-جب یہ دونوں اکٹھے ہوں گے تو جو دل میں بات ہے وہی زبان پر ہوگی - کیونکہ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ ہماری زبان اور دل ایک ہو جائے کہ زبان اگر ’’لا الہ اللہ‘‘ کہہ رہی ہے تو دل بھی اسے ماننے والا ہو کہ معبود کون ہے اللہ کی ذات ہے- قرآن و سنت کے مطابق آپ نے یہ تلقین فرمائی کہ ہمارے زبان و دل ایک ہوجائیں‘‘-[4]

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی تنظیمی باڈی اور کسی بھی سطح کا کارکن اپنی انفرادی حیثیت میں برابر حیثیت رکھتا ہے اور فقط تنظیمی ڈھانچہ کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے-ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار یہ جانثار اپنی زندگی انسانیت کی بھلائی اور عالمگیر امن کے پیغام کو گھر گھر تک پہنچانے کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں اور اسی بنیادی رشتہ پر ایسا مثالی نوعیت کا تنظیمی ماحول مرتب ہوا جس نے کارکنوں کے مابین ایک دوسرے سے خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر محبت پیدا کر دی-بے سروسامانی کے عالم میں بھی ان مبلغین نے قرآن  و سنت کے پیغام کو ملک کے طول و عرض میں انتہائی منظم انداز میں پہنچایا ہے کیونکہ اس نظم و ضبط کی بنیاد قرآن کریم کے اس فلسفہ پر ہے:

’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ‘‘[5]

 

’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے‘‘-

یہی وہ بنیاد ہے جس پر بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ) نے مختلف علاقوں اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل جماعت قائم فرمائی اور ان کے مابین باہمی محبت، احترام اور تعاون کا رشتہ قائم ہوا-جب  افراد کے قلب کے تصفیہ اور شرح صدر کا عکس ان کے باہمی میل جول اور بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریک کے متحرک کارکن بننے کی صورت میں سامنے آیا اور انہوں نے اپنا ’’تن من دھن‘‘ اس تحریک سے وابستہ کیاجس میں ہمیں وہ عظیم نظم و ضبط اور ورک پلیس سپیرچوئلٹی نظر آتی ہے کہ باہمی محبت و مروت اور باہمی ہمدردی و جانفشانی کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی- بلاشبہ بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ)  کی عظیم قیادت نے عالمگیر نظریہ اور ہمہ گیر اصولوں کے ذریعے اس تنظیم کو دوام بخشا ہے اور آپ(قدس اللہ سرّہٗ)  کے وصالِ باکمال کے بعد بھی یہ اسی تحرک و جذبہ اور اولوالعزمی سے آگے بڑھی ہے-

تنظیمی ڈسپلن اور  نظم و ضبط کی ایک چھوٹی سی مثال سالانہ میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) و حق باھُو کانفرنسز کی صورت میں نظر آتی ہے جب روزانہ کی بنیاد پہ پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے اور ہر پروگرام میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں-ہر پروگرام ڈسپلن اور نظم و ضبط کے حوالہ سے اپنی مثال آپ ہوتا ہے -اگرچہ تمام تر پروگرامز ضلعی تنظیمی باڈیز منعقد کرواتی ہیں جو براہ راست مرکزی تنظیم سے ہدایات وصول کر کے اس کے مطابق اہتمام کرتی ہے تاہم تمام اضلاع کے پروگرامز میں ایک جیسے ڈسپلن کی جھلک نظر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا تعلق ضلعی باڈیز کے باہمی روحانی تعلق اور ورک پلیس سپیر چوئلٹی سے ہے-یہ سلطان الفقر کی نگاہ کا فیضان ہے جس نے قلوب میں انقلاب  برپا کیا اور  جس کا اظہار وقت کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات میں ہو رہا ہے- 

بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ)کی چشمِ قیادت میں فیضِ صدّیقی (رضی اللہ عنہ) کا نور واضح نظر آتا ہے کہ جس طرح بوقتِ وصال سیّدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے مسلمانوں کی جماعت سے جہازِ اسلام کی بادبانی و نگہبانی کیلئے بہترین قائد کا اِنتخاب فرمایا جنہوں نے نگاہِ نبوّت (ﷺ) کی تربیتِ خاص کے فیضِ عام کا ’’اَن مٹ‘‘ نقش قائم فرما دیا ، جن کی قیادت میں افریقہ کے صحراؤں سے لیکر یورپ کے کلیساؤں تک اورسیّارۂ زمین کے اطراف و اکناف میں پرچمِ اِسلام لہرانے لگا - اُسی مُبارک سُنتِ صدیقی (رضی اللہ عنہ) کے مطابق بانی اصلاحی جماعت حضرت سُلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ)نے طالبانِ مولیٰ کی جماعت سے اِس عظیم تحریک کی نگہبانی کیلئے بہترین قائد کا انتخاب فرمایا جنہوں نےروشنیٔ  فیضِ فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) سے تحریک کا مستقبل تابناک و تابندہ بنا دیا - بانی اصلاحی جماعت سُلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ)کے جانشین حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں وہی دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیتیں چھلکتی ہیں اور اسی لئے یہ تحریک فکر و عمل میں دن دگنی رات چگنی ترقی پاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے-آپ کی قیادت کے متعلق چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب فرماتے ہیں:

’’پاکستان کے ایک عام آدمی بالخصوص نوجوان نسل، جو اس کنفیوژن کا شکار تھی کہ کونسا مکتبہ فکر درست ہے اور کس مکتبہ فکر کی جانب جانا چاہیے، انہیں بھی اس جماعت نے روحانی، فکری، علمی، مذہبی، فکری تحرک دے کر زندگی گزارنے کا ایک بہترین طریقہ اور صحیح توازن پر مبنی معاشرے کا تصور دے کر ان کے وجود سے شدت، تشدد، تعصب اور نفرت کو ختم کیا-یہ سب ثمرات ایک زندہ جاوید اور انتہائی باکمال صاحبِ نگاہ قیادت کے بغیر ممکن نہیں‘‘-[6]

اس تنظیم میں ہر شخص اپنی رائے کے اظہار کیلئے آزاد ہے جبکہ قیادت کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ہر کارکن کے نظریہ اور اس کے کام میں وہی جھلک نظر آتی ہے جس انداز سے سلطان الفقر(قدس اللہ سرّہٗ) نے ان کی تربیت فرمائی اور انہیں زندگی کا ایک نظریہ عطا فرمایا-یہ مرشد کے اسی فرض کی ادائیگی ہے جہاں شریعت و طریقت کا امتزاج ہوتا ہے اور نظریاتی کارکنان زندگی کے ہر شعبہ کے اصول اسی ایک نقطہ سے اخذ کرتے ہیں جسے ان کے سینوں میں کھولا گیا ہے-یہی وہ مقام ہے جہاں انہیں فکر و تدبر کا سلیقہ آزادی افکار کے احسن استعمال کا ہنر سکھاتا ہے-قیادت کا یہی وہ انداز ہے جو ایک جانب فرد کو روحانی منازل طے کراتی ہے تو دوسری جانب اس کی تنظیمی اور معاشرتی زندگی کے معاملات میں رہنمائی فرماتی ہے-یہی فکر زندگی کے ہر شعبہ کو اللہ رب العزت کے جانب سے عطا کردہ نعمت و ذمہ داری سمجھ کر سر انجام دینے کا ہنر سکھاتی ہے اور ہر ہر قدم براہ راست روحانی اقدار اور روحانی استحکام سے منسلک کرتی ہے-چنانچہ افراد کے ظاہر و باطن میں امتزاج قائم ہوتا ہے اور نتیجتاً روحانی و مادی دنیا دونوں کی یگانگت سے استحکام حاصل ہوتا ہے-یہاں عقائد، باطنی کیفیات، عقلی دلائل، اخلاقیات و اقدار اور جسمانی ضروریات تمام پہلوؤں کیلئے انسان کو ایک ہی مآخذ سے رہنمائی ملتی ہے اور ان تمام کی جستجو کو ایک ہی اعلیٰ مقصد کیلئے یکجا کرنے میں آسانی ہوتی ہے-یہی وہ نقطہ ہے جس کے آشکار ہونے پر دین مکمل ضابطہ حیات کے طور پر اپنانا آسان ہو جاتا ہے-اس احسن انداز میں تربیت کرنے والی قیادت کو سمجھنے اور اس کا احاطہ کرنے  کیلئے اب تک موجود تمام تھیوریز ناکافی ہو جاتی ہیں-وہ دن دور نہیں جب حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ)  کی حیاتِ مبارکہ کے مطالعہ کے بعدراہیانِ تحقیق و متلاشیانِ استحکام  بہت جلد آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی قیادت کو عصرِ حاضر میں ایک رول ماڈل کے طور پر تسلیم کریں گے-اللہ تعالیٰ سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ) کی اس  تحریک کا حامی و ناصر ہو اور اسے اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے-آمین---!

٭٭٭


[1]Giacalone, Robert A., and Carole L. Jurkiewicz. "Toward a science of workplace spirituality." Handbook of workplace spirituality and organizational performance (2003): 3-28.

[2]Kriger, Mark, and Yvonne Seng. "Leadership with inner meaning: A contingency theory of leadership based on the worldviews of five religions." The Leadership Quarterly 16, no. 5 (2005): 771-806.

[3]Foote, Marianne F., and Wendy EA Ruona. "Institutionalizing ethics: A synthesis of frameworks and the implications for HRD." Human Resource Development Review 7, no. 3 (2008): 292-308.

[4](رپورٹ: فکرِ سلطان الفقر سیمینار،اکتوبر 2014، ص:13، ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل)

[5](العمران:103)

[6](صاحبزادہ سُلطان احمد علی - مضمون :’’رنگِ ثباتِ دوام: جانشین سلطان الفقر ششم کا معیارِ قیادت اور نیا زمانہ‘‘- ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل - اکتوبر ۲۰۱۶)

ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں عظیم شخصیات کے عظیم نظریات کو چار  طرح سے قبولِ عام ملتا ہے - (۱)  بسا اوقات عظیم شخصیات کو اُن کی زندگی میں ہی پذیرائی مل جاتی ہے (۲)جبکہ تاریخ میں ایسا بھی بکثرت ہوتا رہا ہے کہ کئی عظیم شخصیات کو ان کے اِس دُنیا سے جانے  کے بعد ان  کی عظمت اور کئے گئے کام پر سراہا گیا (۳) کئی ایسی شخصیات بھی آئیں کہ جنہیں اُن کی ظاہری زندگی میں تو بہت پذیرائی اور شُہرت ملی مگر جاتے ہوئے اپنی پذیرائی اور قبولیتِ عام بھی ساتھ لے گئے -  (۴) جبکہ ایسی شخصیات بھی فلکِ تاریخ پہ اپنی تابندگی بکھیرتے نظر آتی ہیں جن کے افکار و نظریات اُن کی زندگی میں بھی عام ہوئے اور اُن کے جانے کے بعد بھی اُسی طرح یا اُس سے بڑھ کر مقبول ہوئے - بانی اصلاحی جماعت سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہٗ کی شخصیت و افکار کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو آپ بھی ایک ایسی ہی ہستی ہیں جن کے نظریات و افکار کو اُن کی زندگی میں بھی قبولِ عام ملا اور اِس دُنیا سے ظاہری پردہ پوشی کے بعد بھی اُن کے فقر کا فیض اور اُن  کی فکر کی ترویج و قبولیت جاری وساری ہے-(ایسے صاحبِ نگاہ مردانِ کامل کا فیض روحانی تو بلا شک و شُبہ تشنگانِ فقر کو سیراب کرتا رہتا ہے، زیرِ نظر مضمون میں ہم آپ قدس اللہ سرّہٗ  کی فکر اور تحریک کے حوالہ سے جائزہ لیں گے- )

جمودی رویوں کی بیسویں صدی  میں بانی اِصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ  نے جس سمت رہنمائی اور قیادت کا فریضہ سر انجام دیا اُس نے خانقاہی سلسلوں میں جمود و تعطل کی روایت میں زلزلے بپا کئے-  دینِ مبین، ترویجِ فقر اور ملتِ اسلامیہ کے لئے اُن کی بڑی خدمات اور اُن کی نگاہِ کاملہ سے برپا کیا جانے والا عظیم فکری و روحانی انقلاب ان کے اپنے دور کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے جو کہ لٹریچر میں آہستہ آہستہ  آشکار ہو رہا ہے-سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہٗ کی قیادت کا وہ معیار ہے جس کا احاطہ کرنا بھی مشکل ہے-آپ قدس اللہ سرّہٗ نے آنے والے دور میں لیڈرشپ کے مؤثر نظریات(theories) اور تنظیم و ادارہ جات سے متعلقہ تھیوریز پر مطالعہ و تحقیق کے لئے اپنی شخصیت، کردار اور تحریک کی صورت میں بہترین سرمایہ و اثاثہ مہیا کیا ہے-

فطرت انسانی ہے کہ انسان اپنے تجربات اور اردگرد کے ماحول سے سیکھتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نِت نئے نظریات اور تھیوریز تخلیق کرتا ہے اور اس امر کا دائرہ کار قریباً تمام معاملاتِ زندگی تک پھیلا ہوا ہے-گزشتہ چند صدیوں میں اس شعبہ میں مغرب نے سبقت حاصل کی ہے اور علومِ ظاہری میں ان گنت نئے نظریات متعارف کروائے ہیں- مگر ایک پہلو جس کا فطرت انسانی شدت سے انتظار کر رہی ہے وہ ایسا عالمگیر نظریہ اور  نظام ہے جو انسان کی تمام جہتوں کو یکجا کر کے اپنے اندر سمیٹ سکے-حالیہ دور کے جتنے بھی جدید نظریات تعمیر کے گئے ہیں ان کو پرکھنے کا معیار اُنہی معاشروں اور اداروں کو رکھا جا رہا ہے جو خود انہی نظریات کی پیداوار ہیں-یہ طریقہ کار کسی حد تک دنیاوی مسائل سے نمٹنے میں تو  مددگار ہو سکتا ہے مگر جدید معاشروں میں روحانی اقدار و استخلاص کا نہ ہونا ان تھیوریز اور نظریات کی عالمگیریت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان علوم کی روشنی میں  کوئی ایسی کامیاب عالمگیر ترتیب نہیں دی جا سکی  جو انسان کی تمام تر زندگی کا احاطہ کر سکے-

سرمایہ دارانہ نظام نے دانشوروں کو بھی مجبور کیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ ادارہ جات اور کمپنیوں و فیکٹریوں کے نظام کو بہتر سے بہتر کرنے کیلئے ’’تھیوریز و پریکٹسز‘‘ بنانے میں صرف ہو جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ علوم و فنون نے بذاتِ خود ایک منظم  ادارہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس کی بقا و نشوو نما کےلئے دستیاب فنڈز اور ضروریات سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ہو گئے ہیں-تاہم تحقیق و علوم میں ارتقاء کے باوجود  روحانی عدم استحکام کے سبب ان ادارہ جات میں کام کرنے والوں کے تمام مسائل حَل نہیں ہو سکے اور وہ مسائل اجتماعی سطح پر ادارہ جات کیلئے مسائل کا باعث بنتے ہیں-


ایسے میں انسانی ’’خواہشات بمقابلہ اقدار‘‘ کی جنگ و کشمکش نے محققین و  دانشوروں کو مجبور کیا ہے کہ وہ  اخلاقیات و اقدار کی جانب قدم بڑھائیں-اگرچہ اس بحث نے مذہب سے دوری اور عالمگیر اصولوں کے انکار کی گونج میں جنم لیا ہے تاہم یہ ایک طرح کی مجبوری بنتی چلی جا رہی ہے کہ ملازمین کو کسی بھی ادارہ، دفتر یا فیکٹری  میں کام کرنے کیلئے اندرونی طور پر مستحکم کیا جائے اور اسی اثناء میں مادی ضروریات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ورک پلیس سپر چوئلٹی (work place spirituality) کا تصور سامنے آیا ہے -  Cornell University  کے  Dr. Robert Giacalone   اور University of Massachusetts Boston  کی پروفیسر  Carole L. Jurkiewicz  کے مطابق:

“Workplace spirituality is a framework of organisational values evidenced in the culture that promotes employees experience of transcendence through the work process, facilitating their sense of being connected to others in a way that provided feelings of completeness and joy”.[1]

’’ورک پلیس سپر چوئلٹی (اَخلاقی روحانیت بہ مکانِ کار) ، کلچر میں موجود باقاعدہ اقدار کا ایک ایسا نظام ہے جو ملازمین میں دوسروں کے ساتھ منسلک ہونے کے احساس کے ذریعہ سبقت لے جانے کے تجربہ کواس طرح بڑھاتا ہے کہ انہیں تکمیل اور مسرت کا احساس ہو‘‘-

یہ اسی حقیقت کا غماز ہے کہ چاہے فرد ہو یا ادارہ یا کوئی بھی ایسا معاملہ، ہر شخص کہیں نہ کہیں اقدار اور اپنی تکمیل کے ساتھ وابستہ ہے-مگر افسوس اس امر کا ہے کہ اصل بنیاد سے انکار کر کے فقط سرمایہ میں اضافہ یا ایک ادارہ کی بہتر کارکردگی کے لئے ایسے سطحی نظریات  کسی حد تک ادارہ جات کے لئے ایک اچھی فضا قائم کر سکتے ہیں مگر فرد کو انفرادی سطح پر تنہا ہی رکھتے ہیں-کیونکہ وہ ’’ورک پلیس فلاسفی‘‘ سے تو آشنا ہوتا ہے مگر فلسفۂ حیات سے خالی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ان دونوں کے درمیان ایک خلیج قائم ہو جاتی ہے اور یا تو ورک پلیس سپیر چوئلٹی (اَخلاقی روحانیت بہ مکانِ کار) ایک مافوق الفطرت شے معلوم ہوتی ہے یا پھر فرد اپنے آپ کو نامکمل محسوس کر کے اپنے اندر سے تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے-فرد کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت(چاہے ادارہ میں ہو یا کسی بڑے معاشرہ میں) اگرچہ الگ الگ معاملات سے نمٹتی ہیں تاہم ان کے مرکز و محور کی ثنویت (duality) فرد کو اندر سے توڑ دیتی ہے- زندگی کو قریب سے دیکھنے اور فلسفہ ٔحیات پرکھنے والے افراد کے لئے ضروری ہوتا ہے  کہ وہ انفرادی سطح پر روحانی اصولوں کا عکس معاشرے اور ادارہ جات میں دیکھ پائیں-ایسے میں چاہے وہ اپنے نجی معاملات کو ترتیب دیں یا چاہے کسی ادارہ میں ہوں، ہر شعبہ زندگی کے رہنما اصول کیلئے ایک ہی مآخذ کی جانب رجوع انہیں اندر سے  مضبوط رکھتا ہے-ایسے میں انہیں ورک پلیس سپیر چوئلٹی  کوئی مافوق الفطرت شئے نہیں لگتی بلکہ انسان کی زندگی کا ایک ضروری عنصر بن جاتی ہے-اسی جانب اشارہ کرتے ہوئےNorweigian Business School کے پروفیسر Mark P. Kriger  اور American University Washington  کے Professor Yvonne Seng لکھتے ہیں:

it is highly likely that those who exercise leadership roles in organizations, and who believe in spiritual or religious belief systems, will have their leadership behavior shaped by the underlying values and attitudes of those worldviews”.[2]

’’---اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے لوگ جو ادارہ جات میں لیڈر شپ  کا کردار ادا کرتے ہیں اور روحانی یا مذہبی عقائد رکھتے ہیں ان کی اپنی لیڈر شپ کا رویہ ان کے (روحانی یا مذہبی)نظریہ میں موجود رہنما اصولوں سے تشکیل پائے گا‘‘-

University of Georgia  کے Marianne F. Foote اور ایسوسی ایٹ پروفیسر  Dr. Wendy Ruona کے مطابق:

“Scholars believe ethical behavior must be institutionalized—evidenced in daily practices and rooted in organizational culture—to sustain ethics in the workplace”.[3]


’’سکالرز کا یہ ماننا ہے کہ ملازمت کی جگہ پر اقدار کو برقرار رکھنے کے لئے اخلاقی رویہ لازماً  منظم حیثیت میں ہونا چاہیے جو روزانہ کے معمولات میں موجود ہو اور اس کی بنیادیں تنظیمی کلچر میں ہوں‘‘-

عصرِ حاضر میں تحقیق کا زیادہ تر دائرہ کار ادارہ جات کی بہتر کارکردگی کے لئے اصول بنانے تک محدود ہو رہا ہے-ایسے دور میں تحقیق کا رخ کسی ٹھوس نظریہ کی جانب موڑنے کیلئے سب سے زیادہ کارگر چیز  نئے تجربات ہو سکتے ہیں-دوسرے لفظوں میں ایک ایسے ماحول، معاشرہ یا تنظیمی نظام کی تشکیل ہو جو قرونِ اولیٰ کے ’’اخلاقی اعتبار سے‘‘ مثالی معاشروں کے اصولوں کی بنیاد پر  کھڑے ہوں جہاں فرد کا روحانی استخلاص بھی ہو،اس کے پاس اپنی زندگی کا ایک مقصد ہو، فلسفۂ حیات موجود ہو اور وہیں معاشرے کے پاس بھی عالمگیر اصول موجود ہوں جو اسی فلسفۂ حیات سے منسلک ہوں جن پر ایک فرد  کی تعمیر ہو رہی ہو-ایسے کسی ادارہ کی تشکیل، اس کا مطالعہ اور تجربہ یقیناً محققین کے لئے نئی راہیں کھولے گا-

حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیاتِ مبارکہ کے عظیم پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے ایک  ایسی تحریک چلائی اور ایسا نظام ترتیب دیا  جس نے رہتی دنیا کیلئے ورک پلیس سپیر چوئلٹی (اَخلاقی روحانیت بہ مکانِ کار) کی ایک عظیم  مثال فراہم کی ہے- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریک جہاں ایک جانب فرد کے روحانی استخلاص پر بنیاد کرتی ہے تو وہیں فرد کو معاشرے میں اپنے کردار سے بخوبی آگاہ کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کی تعمیر کیلئے رہنما اصول وضع کرتی ہے-اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی صورت میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ایسی عملی مثال پیش کی ہے کہ دنیاوی علوم اور ادارہ جات چلانے کیلئے ضروری تجربہ و فہم سے بظاہراً نا آشنا لوگوں نے اس تحریک کے نظم و ضبط اور فعال  کردار کے لئے وہ کارنامے سر انجام دئیے ہیں جو شاید بڑی بڑی ڈگریوں والے  اور تجربہ کار لوگ بھی نہ کر سکیں-اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ ایسے محور سے منسلک ہو گئے جس  سے انہیں اپنی ذاتی حیثیت اور معاشرتی و تنظیمی حیثیت میں رہنما اصول فراہم ہوئے-آپ قدس اللہ سرّہٗ کی تحریک کے تربیت یافتہ ساتھی  میاں محمد ضیاء الدین صاحب اسی متعلق فرماتے ہیں :

’’تنظیم کا مطلب منظم ہونا ہے تو آپ کی تعلیمات اور گفتگو کا جو عملی سسٹم تھا ، آپ کی بارگاہ میں کوئی مورخ آیا، عالم ، یا امیر و غریب آیا تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) سب سے پہلے یہ تلقین فرماتے کہ تمہاری زبان اور دل ایک بن جائے-جب یہ دونوں اکٹھے ہوں گے تو جو دل میں بات ہے وہی زبان پر ہوگی - کیونکہ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ ہماری زبان اور دل ایک ہو جائے کہ زبان اگر ’’لا الہ اللہ‘‘ کہہ رہی ہے تو دل بھی اسے ماننے والا ہو کہ معبود کون ہے اللہ کی ذات ہے- قرآن و سنت کے مطابق آپ نے یہ تلقین فرمائی کہ ہمارے زبان و دل ایک ہوجائیں‘‘-[4]

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی تنظیمی باڈی اور کسی بھی سطح کا کارکن اپنی انفرادی حیثیت میں برابر حیثیت رکھتا ہے اور فقط تنظیمی ڈھانچہ کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے-ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار یہ جانثار اپنی زندگی انسانیت کی بھلائی اور عالمگیر امن کے پیغام کو گھر گھر تک پہنچانے کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں اور اسی بنیادی رشتہ پر ایسا مثالی نوعیت کا تنظیمی ماحول مرتب ہوا جس نے کارکنوں کے مابین ایک دوسرے سے خونی رشتوں سے بھی بڑھ کر محبت پیدا کر دی-بے سروسامانی کے عالم میں بھی ان مبلغین نے قرآن  و سنت کے پیغام کو ملک کے طول و عرض میں انتہائی منظم انداز میں پہنچایا ہے کیونکہ اس نظم و ضبط کی بنیاد قرآن کریم کے اس فلسفہ پر ہے:

’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ‘‘[5]

 

’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے‘‘-

یہی وہ بنیاد ہے جس پر بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ) نے مختلف علاقوں اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل جماعت قائم فرمائی اور ان کے مابین باہمی محبت، احترام اور تعاون کا رشتہ قائم ہوا-جب  افراد کے قلب کے تصفیہ اور شرح صدر کا عکس ان کے باہمی میل جول اور بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریک کے متحرک کارکن بننے کی صورت میں سامنے آیا اور انہوں نے اپنا ’’تن من دھن‘‘ اس تحریک سے وابستہ کیاجس میں ہمیں وہ عظیم نظم و ضبط اور ورک پلیس سپیرچوئلٹی نظر آتی ہے کہ باہمی محبت و مروت اور باہمی ہمدردی و جانفشانی کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی- بلاشبہ بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ)  کی عظیم قیادت نے عالمگیر نظریہ اور ہمہ گیر اصولوں کے ذریعے اس تنظیم کو دوام بخشا ہے اور آپ(قدس اللہ سرّہٗ)  کے وصالِ باکمال کے بعد بھی یہ اسی تحرک و جذبہ اور اولوالعزمی سے آگے بڑھی ہے-

تنظیمی ڈسپلن اور  نظم و ضبط کی ایک چھوٹی سی مثال سالانہ میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) و حق باھُو کانفرنسز کی صورت میں نظر آتی ہے جب روزانہ کی بنیاد پہ پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے اور ہر پروگرام میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں-ہر پروگرام ڈسپلن اور نظم و ضبط کے حوالہ سے اپنی مثال آپ ہوتا ہے -اگرچہ تمام تر پروگرامز ضلعی تنظیمی باڈیز منعقد کرواتی ہیں جو براہ راست مرکزی تنظیم سے ہدایات وصول کر کے اس کے مطابق اہتمام کرتی ہے تاہم تمام اضلاع کے پروگرامز میں ایک جیسے ڈسپلن کی جھلک نظر آتی ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا تعلق ضلعی باڈیز کے باہمی روحانی تعلق اور ورک پلیس سپیر چوئلٹی سے ہے-یہ سلطان الفقر کی نگاہ کا فیضان ہے جس نے قلوب میں انقلاب  برپا کیا اور  جس کا اظہار وقت کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات میں ہو رہا ہے- 

بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ)کی چشمِ قیادت میں فیضِ صدّیقی (﷜) کا نور واضح نظر آتا ہے کہ جس طرح بوقتِ وصال سیّدنا ابو بکر صدیق (﷜)نے مسلمانوں کی جماعت سے جہازِ اسلام کی بادبانی و نگہبانی کیلئے بہترین قائد کا اِنتخاب فرمایا جنہوں نے نگاہِ نبوّت (ﷺ) کی تربیتِ خاص کے فیضِ عام کا ’’اَن مٹ‘‘ نقش قائم فرما دیا ، جن کی قیادت میں افریقہ کے صحراؤں سے لیکر یورپ کے کلیساؤں تک اورسیّارۂ زمین کے اطراف و اکناف میں پرچمِ اِسلام لہرانے لگا - اُسی مُبارک سُنتِ صدیقی (﷜) کے مطابق بانی اصلاحی جماعت حضرت سُلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ)نے طالبانِ مولیٰ کی جماعت سے اِس عظیم تحریک کی نگہبانی کیلئے بہترین قائد کا انتخاب فرمایا جنہوں نےروشنیٔ  فیضِ فاروقِ اعظم (﷜) سے تحریک کا مستقبل تابناک و تابندہ بنا دیا - بانی اصلاحی جماعت سُلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ)کے جانشین حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں وہی دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیتیں چھلکتی ہیں اور اسی لئے یہ تحریک فکر و عمل میں دن دگنی رات چگنی ترقی پاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے-آپ کی قیادت کے متعلق چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب فرماتے ہیں:

’’پاکستان کے ایک عام آدمی بالخصوص نوجوان نسل، جو اس کنفیوژن کا شکار تھی کہ کونسا مکتبہ فکر درست ہے اور کس مکتبہ فکر کی جانب جانا چاہیے، انہیں بھی اس جماعت نے روحانی، فکری، علمی، مذہبی، فکری تحرک دے کر زندگی گزارنے کا ایک بہترین طریقہ اور صحیح توازن پر مبنی معاشرے کا تصور دے کر ان کے وجود سے شدت، تشدد، تعصب اور نفرت کو ختم کیا-یہ سب ثمرات ایک زندہ جاوید اور انتہائی باکمال صاحبِ نگاہ قیادت کے بغیر ممکن نہیں‘‘-[6]

اس تنظیم میں ہر شخص اپنی رائے کے اظہار کیلئے آزاد ہے جبکہ قیادت کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور ہر کارکن کے نظریہ اور اس کے کام میں وہی جھلک نظر آتی ہے جس انداز سے سلطان الفقر(قدس اللہ سرّہٗ) نے ان کی تربیت فرمائی اور انہیں زندگی کا ایک نظریہ عطا فرمایا-یہ مرشد کے اسی فرض کی ادائیگی ہے جہاں شریعت و طریقت کا امتزاج ہوتا ہے اور نظریاتی کارکنان زندگی کے ہر شعبہ کے اصول اسی ایک نقطہ سے اخذ کرتے ہیں جسے ان کے سینوں میں کھولا گیا ہے-یہی وہ مقام ہے جہاں انہیں فکر و تدبر کا سلیقہ آزادی افکار کے احسن استعمال کا ہنر سکھاتا ہے-قیادت کا یہی وہ انداز ہے جو ایک جانب فرد کو روحانی منازل طے کراتی ہے تو دوسری جانب اس کی تنظیمی اور معاشرتی زندگی کے معاملات میں رہنمائی فرماتی ہے-یہی فکر زندگی کے ہر شعبہ کو اللہ رب العزت کے جانب سے عطا کردہ نعمت و ذمہ داری سمجھ کر سر انجام دینے کا ہنر سکھاتی ہے اور ہر ہر قدم براہ راست روحانی اقدار اور روحانی استحکام سے منسلک کرتی ہے-چنانچہ افراد کے ظاہر و باطن میں امتزاج قائم ہوتا ہے اور نتیجتاً روحانی و مادی دنیا دونوں کی یگانگت سے استحکام حاصل ہوتا ہے-یہاں عقائد، باطنی کیفیات، عقلی دلائل، اخلاقیات و اقدار اور جسمانی ضروریات تمام پہلوؤں کیلئے انسان کو ایک ہی مآخذ سے رہنمائی ملتی ہے اور ان تمام کی جستجو کو ایک ہی اعلیٰ مقصد کیلئے یکجا کرنے میں آسانی ہوتی ہے-یہی وہ نقطہ ہے جس کے آشکار ہونے پر دین مکمل ضابطہ حیات کے طور پر اپنانا آسان ہو جاتا ہے-اس احسن انداز میں تربیت کرنے والی قیادت کو سمجھنے اور اس کا احاطہ کرنے  کیلئے اب تک موجود تمام تھیوریز ناکافی ہو جاتی ہیں-وہ دن دور نہیں جب حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ)  کی حیاتِ مبارکہ کے مطالعہ کے بعدراہیانِ تحقیق و متلاشیانِ استحکام  بہت جلد آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی قیادت کو عصرِ حاضر میں ایک رول ماڈل کے طور پر تسلیم کریں گے-اللہ تعالیٰ سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ) کی اس  تحریک کا حامی و ناصر ہو اور اسے اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے-آمین---!

٭٭٭



[1]Giacalone, Robert A., and Carole L. Jurkiewicz. "Toward a science of workplace spirituality." Handbook of workplace spirituality and organizational performance (2003): 3-28.

[2]Kriger, Mark, and Yvonne Seng. "Leadership with inner meaning: A contingency theory of leadership based on the worldviews of five religions." The Leadership Quarterly 16, no. 5 (2005): 771-806.

[3]Foote, Marianne F., and Wendy EA Ruona. "Institutionalizing ethics: A synthesis of frameworks and the implications for HRD." Human Resource Development Review 7, no. 3 (2008): 292-308.

[4](رپورٹ: فکرِ سلطان الفقر سیمینار،اکتوبر 2014، ص:13، ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل)

[5](العمران:103)

[6](صاحبزادہ سُلطان احمد علی - مضمون :’’رنگِ ثباتِ دوام: جانشین سلطان الفقر ششم کا معیارِ قیادت اور نیا زمانہ‘‘- ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل - اکتوبر ۲۰۱۶)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر