دینِ اسلام کے دنیا میں پھیلاؤ کے ساتھ ہی فلاسفہ اور متکلمین نے اس کے مختلف موضوعات پر اپنی علمی کاوشیں کیں اور وقت کے ساتھ ساتھ علمی نظریات کو وسعت ملتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ ان نظریات کو جامع علمی رنگ میں بیان کرنے کی کاوشیں کی گئیں- اس سبب جہاں ایک جانب دینِ اسلام کی عالمگیریت کھل کر سامنے آئی وہیں کچھ سوالات نے بھی جنم لیا- یعنی کیا دینِ اسلام کو علمی اور تحریری صورت میں بیان کر دینے اور اسے پروان چڑھانے سے نفاذِ دین ممکن ہو سکے گا؟ کیا علمی مباحث اور ترقی سے عملی میدان میں ترقی ممکن ہوتی ہے یا عملی میدان سے علمی میدان میں عروج کا سفر طے ہو گا؟ دوسرے لفظوں میں کیا ایک مربوط نظامِ سماج، معاش و سیاست سے بہتر روحانی معاشرے کی جانب سفر ممکن ہوتا ہے یا روحانیت کی بنیاد پر افراد کے استخلاص سے ایک اچھے فلاحی سیاسی و معاشی نظام کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسلامی انقلاب کی بنیاد کسی منفی رویہ کے خلاف بغاوت سے مشروط ہے یا یہ اپنے اندر ایک عالمگیر تحریک رکھتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے بہت عرصہ سے اسکالرز کو الجھائے رکھا ہے- ان سوالات کا جواب ہمیں بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک سے ملتا ہے کیونکہ آپؒ کے نظامِ تحرک کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آخر کیوں مردِ مؤمن کی فراست کے بارے خبردار کیا گیا ہے- نورِ الٰہی کی روشنی سے پرورش پانے والی تحریک کبھی بھی زمان و مکان کی قید میں آ کر حالات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ آفاقی نظریہ اور آفاقی دین پر بنیاد کرتی ہے اس لئے اس کی حدود بھی آفاقی ہیں-
تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ حضور نبی اکرم(ﷺ) نے جوں جوں نظام کو قائم فرمایا، اصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے آپ (ﷺ) کی آواز پر لبیک کہا اور اس نظام کا حصہ بنتے چلے گئے- ایسا اُسی وقت ممکن ہے کہ ایک جانب وہ نظام اپنی منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رہا اور دوسری جانب آپ(ﷺ) کے اصحاب اس پختہ یقین سے آپ(ﷺ) کے ساتھ وابستہ تھے کہ جو الفاظ اور احکامات حضور نبی اکرم(ﷺ) نے فرمائے ہیں ان سے بہتر کوئی طریقہ وجود میں نہیں آ سکتا-آج تک بنائے جانے والے تمام تر علمی تقاضے اس بات کو تسلیم کرتے چلے آ رہے ہیں- مگر یہ بات واضح ہے کہ اصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کا اس نظام سے وابستہ ہونا دراصل روحانی رشتہ کے سبب تھا جو انہیں ہر حال میں مصمم اور قائم رکھے ہوئے تھا- اسی سنتِ مبارکہ کے تحت سلطان الفقر ششمؒ نے اپنے تحریکی کارکنان کو تیار فرمایا اور انہیں اس قدر مضبوط روحانی بنیاد فراہم کی کہ انہیں ظاہری و باطنی نظام میں آگے بڑھنے کیلئے ہر مشکل سے نبر آزما ہونے میں دِقّت محسوس نہیں ہوتی- یہی وجہ ہے کہ بظاہراً کسی مدرسہ یا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود آپؒ کے کارکنان نے اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی اور آپؒ کا پیغام انتہائی منظم انداز میں پھیلایا- نتیجتاً یہ کارکنان ایک حرکی نظریہ سے وابستگی کے سبب تحریک کے نئے قائم ہونے والے شعبہ جات سے اجنبیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس کام کو بطریق احسن انجام دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں-
سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہ ٗنے سنتِ نبوی(ﷺ) کے مطابق اپنی تحریک کا بنیادی اور پہلا نکتہ معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسول(ﷺ) پر استوار فرمایا- بجائے کسی دوسرے پر تنقید یا نفرت کو پروان چڑھانے کے، آپؒ نے اپنے کارکنان کو یہ سوچ اور فکر عطا فرمائی کہ سب سے پہلے اپنی ذات کا محاسبہ کریں اور اپنے آپ سے مخلصی اختیار کرتے ہوئے حقیقتِ حیات کا راستہ اپنائیں- یہی وہ انقلابی نکتہ ہے جس پر اس عظیم تحریک کی آبیاری ہوئی ہے کیونکہ یہ وہ بنیادی تصور ہے جس کی بناء پر صوفیائے کرام نے دنیا بھر کے مختلف علاقوں اور نسلوں کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پُر امن طریقے سے پہنچایا ہے- کیونکہ جب انسان اپنے اندر کے محاسبہ سے اپنے اعمال اور اپنے ارد گرد معاشرہ کا محاسبہ کرتا ہے اور اس کی بہتری کیلئے عملی اقدامات کرنے نکلتا ہے تو وہ اقدامات نفرت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ صلہ رحمی پر مبنی ہوتے ہیں کیونکہ اُسے ہر برائی کی پشت پر کارفرما عناصر میں شامل انسانوں کو اُن کی اپنی اصل منزل مقصود سے متعارف کروانے اور حقیقی راہ پر چلانے کی جستجو لگی رہتی ہے-بعین اس طرح جیسے عمومی طور پر انسان درد، پریشانی، خوف اور خوشی جیسے اپنے خالصتاً موضوعی(subjective ) احساسات کو دوسروں پر منطبق کرتا ہے اسی طرح وہ اپنی حقیقت کا ادراک ہونے کے بعد اسے بھی دوسروں پر منطبق ہوتا دیکھنے کا خواہش مند رہتا ہے-یہ وہ تحرک ہے جس کا مادی طریقوں سے احاطہ کرنا شاید ممکن نہ ہو- البتہ ان احساسات کے ثانوی اثرات کو ضرور پرکھا اور جانچا جا سکتا ہے- سلطان الفقر ششمؒ نے اس بنیادی حقیقت سے آشنائی کروانے کے بعد اپنے کارکنان کو عملی میدان میں اتارا اور یہی وجہ ہے کہ یہ کارکنان کسی دوسرے انسان سے نفرت کا درس دینے کی بجائے سب سے پہلے انسان کو اپنے اندر جھانکنے اور اپنے محاسبہ کا درس دیتے ہیں تاکہ جب انسان عالمگیر امن کے نظام کے قیام کیلئے نکلے تو اس کی نظر اور اس کی منزل راستے کے کسی پتھر کی اوٹ میں دھندلانے نہ پائے- اس کے ساتھ ساتھ آپؒ کا ایک امتیاز اس ضمن میں یہ بھی ہے کہ آپؒ نے تصوف کو ایک نئی جہت بخشتے ہوئے ایک باقاعدہ منظم انداز میں تحریک کا قیام عمل میں لایا جس نے امت مسلمہ کی روحانی، فکری اور نظریاتی تربیت کا بیڑہ اٹھایا- کیونکہ صوفیائے کرام کا خاصہ رہا ہے کہ انہوں نے امت کی بالخصوص ان مواقع پر رہنمائی فرمائی جب وہ زوال کا شکار ہو رہی تھی، چاہے وہ اخلاقی و روحانی زوال تھا یا سیاسی و سماجی- سلطان الفقر ششمؒ کی حیات مبارکہ بھی اسی سلسلے میں گزری ہے- ایسے وقت میں جب ہم بحیثیت قوم پُر تشدد فرقہ واریت کا شکار تھے اور فکری انتشار میں گھرے ہوئے تھے، آپؒ نے تمام تر لسانی، نسلی اور فروعی نفرتوں کو پسِ پشت ڈال کر انسانیت کی بنیاد پر روحانیت کا درس عام کرنے کی فکر عطا فرمائی-
ہمارے ہاں یہ بد قسمتی ہے کہ کسی بھی مذہبی جماعت یا تحریک کیلئے پُر تشدد فرقہ وارانہ شدت پسندی اور نفرت کا حصہ بنے بغیر عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے-شاید اس کی ایک وجہ سیاسی نظام میں ’’حکومت‘‘ اور ’’اپوزیشن‘‘ کے تصورات بھی ہیں جو اپنے اندر بے جا مخالفت اورنفرت کا تصور رچا بسا چکے ہیں -تاہم ایسی وجوہات پر بحث اس مضمون کا مطمع نظر نہیں اس لئے ان پر صرفِ نظر کرتے ہوئے اس فضا میں سلطان الفقر ششمؒ کی کاوشوں کے ذکر تک محدود رہا جائے گا- مختصراً ایسی فضا میں سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک فرقہ وارانہ شدت پسندی اور نفرتوں میں الجھنے کی بجائے عصرِ حاضر میں ایک اجتماعی فکر قائم کرتے ہوئے آگے بڑھی ہے- بعین اسی طرح جیسے امام غزالی اور علامہ اقبال کی فکر نے امت کو فروعی اختلافات اور نفرتوں کی بجائے ایک ملّی سوچ دی تھی تاکہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی سمت درست کریں اور باہمی اتحاد سے عصر حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی جانب پیش رفت کریں-ایک جانب جہاں کارکنان کی نظریاتی اور فکری پختگی میں آپؒ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں ایک عام انسان جو فرقہ واریت اور شدت پسندی کے ماحول کا شکار ہوا ہے، اس کیلئے نرم گوشہ رکھنے کی تلقین فرمائی- یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط اس تحریک نے مملکتِ خدادادِ پاکستان میں بہت سے شب و روز دیکھے ہیں- اس عرصہ میں شاید ہی پاکستان میں کوئی تحریک یا جماعت اپنے آپ کو اس طرح سے غیر متنازعہ رکھ پائی ہو جس طرح سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک نے اپنے آپ کو رکھا ہے- یہ بھی اسی نگاہِ کاملہ کا فیضان ہے اور ملکی و غیر ملکی دانشور اس امر کوکھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں-
سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک عظیم صوفیانہ روایت کے تحت نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ اہم اور قابلِ توجّہ معاملات پہ غیر اسلامی بالخصوص مغربی ممالک سے بھی ڈائیلاگ کی کاوشیں کر رہی ہے تاکہ مسلمانوں کے عالمی مسائل کو علمی میدان میں بھی واضح اور منطقی انداز میں پیش کیا جائے اور ان مسائل کے حل کیلئے عقلی و علمی حجت کو تمام کیا جائے- یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک جانب ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کیلئے اواز اٹھانے میں یہ تحریک پیش پیش ہے وہیں ان سامراجی طاقتوں کے پیچھے موجود انجان اور حقیقت سے نا آشنا عوام کو حقیقت سے روشناس کروانے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے-
بہت سے مفکرین اس بات پر قائل ہیں کہ اسلامی نظام محض تحریری احکامات اور بیان کردہ عقائد و ایمانیات کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حرکی اور زندہ نظام ہے جس کی اصل حیات مردِ کامل اور ولی کامل سے مکمل ہوتی ہے جس کی نگاہ انفرادی حیثیت میں انسان اور اجتماعی حیثیت میں نظام کا تعلق اللہ رب العزت کی ذات سے قائم رکھتی ہے- یعنی آپ کیسی ہی کاوش کیوں نہ کر لیں اور تمام تر دنیاوی تقاضے پورے کر لیں، نظامِ اسلام اپنی پوری آب و تاب سے تب ہی چمک سکتا ہے جب اس میں خود احتسابی کا عمل جاری ہو تاکہ یہ کائنات کا احتساب بھی اسی طاقتور ترین کسوٹی پر کر سکے- یہ اسی وقت ممکن ہے جب ا یسا نظام کسی ولی کامل کی نگاہ سے تشکیل پائے جو مجلسِ محمدی(ﷺ) سے عطا کردہ فراست اور آفاقی نگاہ سے اسے اپنے حتمی مطمع نظر تک لے جائے- انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب سلطان الفقر ششمؒ کی نگاہ کے فیضان سے سیراب کردہ یہ تحریک نظامِ اسلام کو قائم کرے گی اور کائنات بھی ایک بار پھر اپنا احتساب ہوتا دیکھے گی- اللہ تعالیٰ اس کا حامی و ناصر ہو-
٭٭٭
دینِ اسلام کے دنیا میں پھیلاؤ کے ساتھ ہی فلاسفہ اور متکلمین نے اس کے مختلف موضوعات پر اپنی علمی کاوشیں کیں اور وقت کے ساتھ ساتھ علمی نظریات کو وسعت ملتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ ان نظریات کو جامع علمی رنگ میں بیان کرنے کی کاوشیں کی گئیں- اس سبب جہاں ایک جانب دینِ اسلام کی عالمگیریت کھل کر سامنے آئی وہیں کچھ سوالات نے بھی جنم لیا- یعنی کیا دینِ اسلام کو علمی اور تحریری صورت میں بیان کر دینے اور اسے پروان چڑھانے سے نفاذِ دین ممکن ہو سکے گا؟ کیا علمی مباحث اور ترقی سے عملی میدان میں ترقی ممکن ہوتی ہے یا عملی میدان سے علمی میدان میں عروج کا سفر طے ہو گا؟ دوسرے لفظوں میں کیا ایک مربوط نظامِ سماج، معاش و سیاست سے بہتر روحانی معاشرے کی جانب سفر ممکن ہوتا ہے یا روحانیت کی بنیاد پر افراد کے استخلاص سے ایک اچھے فلاحی سیاسی و معاشی نظام کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسلامی انقلاب کی بنیاد کسی منفی رویہ کے خلاف بغاوت سے مشروط ہے یا یہ اپنے اندر ایک عالمگیر تحریک رکھتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے بہت عرصہ سے اسکالرز کو الجھائے رکھا ہے- ان سوالات کا جواب ہمیں بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک سے ملتا ہے کیونکہ آپؒ کے نظامِ تحرک کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آخر کیوں مردِ مؤمن کی فراست کے بارے خبردار کیا گیا ہے- نورِ الٰہی کی روشنی سے پرورش پانے والی تحریک کبھی بھی زمان و مکان کی قید میں آ کر حالات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ آفاقی نظریہ اور آفاقی دین پر بنیاد کرتی ہے اس لئے اس کی حدود بھی آفاقی ہیں-
تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ حضور نبی اکرم(ﷺ) نے جوں جوں نظام کو قائم فرمایا، اصحابہ کرام ()نے آپ (ﷺ) کی آواز پر لبیک کہا اور اس نظام کا حصہ بنتے چلے گئے- ایسا اُسی وقت ممکن ہے کہ ایک جانب وہ نظام اپنی منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رہا اور دوسری جانب آپ(ﷺ) کے اصحاب اس پختہ یقین سے آپ(ﷺ) کے ساتھ وابستہ تھے کہ جو الفاظ اور احکامات حضور نبی اکرم(ﷺ) نے فرمائے ہیں ان سے بہتر کوئی طریقہ وجود میں نہیں آ سکتا-آج تک بنائے جانے والے تمام تر علمی تقاضے اس بات کو تسلیم کرتے چلے آ رہے ہیں- مگر یہ بات واضح ہے کہ اصحابہ کرام ( )کا اس نظام سے وابستہ ہونا دراصل روحانی رشتہ کے سبب تھا جو انہیں ہر حال میں مصمم اور قائم رکھے ہوئے تھا- اسی سنتِ مبارکہ کے تحت سلطان الفقر ششمؒ نے اپنے تحریکی کارکنان کو تیار فرمایا اور انہیں اس قدر مضبوط روحانی بنیاد فراہم کی کہ انہیں ظاہری و باطنی نظام میں آگے بڑھنے کیلئے ہر مشکل سے نبر آزما ہونے میں دِقّت محسوس نہیں ہوتی- یہی وجہ ہے کہ بظاہراً کسی مدرسہ یا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود آپؒ کے کارکنان نے اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی اور آپؒ کا پیغام انتہائی منظم انداز میں پھیلایا- نتیجتاً یہ کارکنان ایک حرکی نظریہ سے وابستگی کے سبب تحریک کے نئے قائم ہونے والے شعبہ جات سے اجنبیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اس کام کو بطریق احسن انجام دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں-
سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہ ٗنے سنتِ نبوی(ﷺ) کے مطابق اپنی تحریک کا بنیادی اور پہلا نکتہ معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسول(ﷺ) پر استوار فرمایا- بجائے کسی دوسرے پر تنقید یا نفرت کو پروان چڑھانے کے، آپؒ نے اپنے کارکنان کو یہ سوچ اور فکر عطا فرمائی کہ سب سے پہلے اپنی ذات کا محاسبہ کریں اور اپنے آپ سے مخلصی اختیار کرتے ہوئے حقیقتِ حیات کا راستہ اپنائیں- یہی وہ انقلابی نکتہ ہے جس پر اس عظیم تحریک کی آبیاری ہوئی ہے کیونکہ یہ وہ بنیادی تصور ہے جس کی بناء پر صوفیائے کرام نے دنیا بھر کے مختلف علاقوں اور نسلوں کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پُر امن طریقے سے پہنچایا ہے- کیونکہ جب انسان اپنے اندر کے محاسبہ سے اپنے اعمال اور اپنے ارد گرد معاشرہ کا محاسبہ کرتا ہے اور اس کی بہتری کیلئے عملی اقدامات کرنے نکلتا ہے تو وہ اقدامات نفرت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ صلہ رحمی پر مبنی ہوتے ہیں کیونکہ اُسے ہر برائی کی پشت پر کارفرما عناصر میں شامل انسانوں کو اُن کی اپنی اصل منزل مقصود سے متعارف کروانے اور حقیقی راہ پر چلانے کی جستجو لگی رہتی ہے-بعین اس طرح جیسے عمومی طور پر انسان درد، پریشانی، خوف اور خوشی جیسے اپنے خالصتاً موضوعی(subjective) احساسات کو دوسروں پر منطبق کرتا ہے اسی طرح وہ اپنی حقیقت کا ادراک ہونے کے بعد اسے بھی دوسروں پر منطبق ہوتا دیکھنے کا خواہش مند رہتا ہے-یہ وہ تحرک ہے جس کا مادی طریقوں سے احاطہ کرنا شاید ممکن نہ ہو- البتہ ان احساسات کے ثانوی اثرات کو ضرور پرکھا اور جانچا جا سکتا ہے- سلطان الفقر ششمؒ نے اس بنیادی حقیقت سے آشنائی کروانے کے بعد اپنے کارکنان کو عملی میدان میں اتارا اور یہی وجہ ہے کہ یہ کارکنان کسی دوسرے انسان سے نفرت کا درس دینے کی بجائے سب سے پہلے انسان کو اپنے اندر جھانکنے اور اپنے محاسبہ کا درس دیتے ہیں تاکہ جب انسان عالمگیر امن کے نظام کے قیام کیلئے نکلے تو اس کی نظر اور اس کی منزل راستے کے کسی پتھر کی اوٹ میں دھندلانے نہ پائے- اس کے ساتھ ساتھ آپؒ کا ایک امتیاز اس ضمن میں یہ بھی ہے کہ آپؒ نے تصوف کو ایک نئی جہت بخشتے ہوئے ایک باقاعدہ منظم انداز میں تحریک کا قیام عمل میں لایا جس نے امت مسلمہ کی روحانی، فکری اور نظریاتی تربیت کا بیڑہ اٹھایا- کیونکہ صوفیائے کرام کا خاصہ رہا ہے کہ انہوں نے امت کی بالخصوص ان مواقع پر رہنمائی فرمائی جب وہ زوال کا شکار ہو رہی تھی، چاہے وہ اخلاقی و روحانی زوال تھا یا سیاسی و سماجی- سلطان الفقر ششمؒ کی حیات مبارکہ بھی اسی سلسلے میں گزری ہے- ایسے وقت میں جب ہم بحیثیت قوم پُر تشدد فرقہ واریت کا شکار تھے اور فکری انتشار میں گھرے ہوئے تھے، آپؒ نے تمام تر لسانی، نسلی اور فروعی نفرتوں کو پسِ پشت ڈال کر انسانیت کی بنیاد پر روحانیت کا درس عام کرنے کی فکر عطا فرمائی-
ہمارے ہاں یہ بد قسمتی ہے کہ کسی بھی مذہبی جماعت یا تحریک کیلئے پُر تشدد فرقہ وارانہ شدت پسندی اور نفرت کا حصہ بنے بغیر عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے-شاید اس کی ایک وجہ سیاسی نظام میں ’’حکومت‘‘ اور ’’اپوزیشن‘‘ کے تصورات بھی ہیں جو اپنے اندر بے جا مخالفت اورنفرت کا تصور رچا بسا چکے ہیں -تاہم ایسی وجوہات پر بحث اس مضمون کا مطمع نظر نہیں اس لئے ان پر صرفِ نظر کرتے ہوئے اس فضا میں سلطان الفقر ششمؒ کی کاوشوں کے ذکر تک محدود رہا جائے گا- مختصراً ایسی فضا میں سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک فرقہ وارانہ شدت پسندی اور نفرتوں میں الجھنے کی بجائے عصرِ حاضر میں ایک اجتماعی فکر قائم کرتے ہوئے آگے بڑھی ہے- بعین اسی طرح جیسے امام غزالی اور علامہ اقبال کی فکر نے امت کو فروعی اختلافات اور نفرتوں کی بجائے ایک ملّی سوچ دی تھی تاکہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی سمت درست کریں اور باہمی اتحاد سے عصر حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی جانب پیش رفت کریں-ایک جانب جہاں کارکنان کی نظریاتی اور فکری پختگی میں آپؒ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں ایک عام انسان جو فرقہ واریت اور شدت پسندی کے ماحول کا شکار ہوا ہے، اس کیلئے نرم گوشہ رکھنے کی تلقین فرمائی- یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط اس تحریک نے مملکتِ خدادادِ پاکستان میں بہت سے شب و روز دیکھے ہیں- اس عرصہ میں شاید ہی پاکستان میں کوئی تحریک یا جماعت اپنے آپ کو اس طرح سے غیر متنازعہ رکھ پائی ہو جس طرح سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک نے اپنے آپ کو رکھا ہے- یہ بھی اسی نگاہِ کاملہ کا فیضان ہے اور ملکی و غیر ملکی دانشور اس امر کوکھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں-
سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک عظیم صوفیانہ روایت کے تحت نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ اہم اور قابلِ توجّہ معاملات پہ غیر اسلامی بالخصوص مغربی ممالک سے بھی ڈائیلاگ کی کاوشیں کر رہی ہے تاکہ مسلمانوں کے عالمی مسائل کو علمی میدان میں بھی واضح اور منطقی انداز میں پیش کیا جائے اور ان مسائل کے حل کیلئے عقلی و علمی حجت کو تمام کیا جائے- یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک جانب ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کیلئے اواز اٹھانے میں یہ تحریک پیش پیش ہے وہیں ان سامراجی طاقتوں کے پیچھے موجود انجان اور حقیقت سے نا آشنا عوام کو حقیقت سے روشناس کروانے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے-
بہت سے مفکرین اس بات پر قائل ہیں کہ اسلامی نظام محض تحریری احکامات اور بیان کردہ عقائد و ایمانیات کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حرکی اور زندہ نظام ہے جس کی اصل حیات مردِ کامل اور ولی کامل سے مکمل ہوتی ہے جس کی نگاہ انفرادی حیثیت میں انسان اور اجتماعی حیثیت میں نظام کا تعلق اللہ رب العزت کی ذات سے قائم رکھتی ہے- یعنی آپ کیسی ہی کاوش کیوں نہ کر لیں اور تمام تر دنیاوی تقاضے پورے کر لیں، نظامِ اسلام اپنی پوری آب و تاب سے تب ہی چمک سکتا ہے جب اس میں خود احتسابی کا عمل جاری ہو تاکہ یہ کائنات کا احتساب بھی اسی طاقتور ترین کسوٹی پر کر سکے- یہ اسی وقت ممکن ہے جب ا یسا نظام کسی ولی کامل کی نگاہ سے تشکیل پائے جو مجلسِ محمدی(ﷺ) سے عطا کردہ فراست اور آفاقی نگاہ سے اسے اپنے حتمی مطمع نظر تک لے جائے- انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب سلطان الفقر ششمؒ کی نگاہ کے فیضان سے سیراب کردہ یہ تحریک نظامِ اسلام کو قائم کرے گی اور کائنات بھی ایک بار پھر اپنا احتساب ہوتا دیکھے گی- اللہ تعالیٰ اس کا حامی و ناصر ہو-
٭٭٭