دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام(رضی اللہ عنھم) لوگوں کی رشدو ہدایت کیلئے تشریف لائے جو ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کو وعدہ الست بھی یاد دلاتے رہے اور مقصد حیات سے آگاہی بھی دیتے رہے -
وقت گزرتا رہا انبیاء و رسل عظام (علیھم السلام) تشریف لاتے رہے حتی کہ سرکار دو عالم، نور مجسم امام الانبیاء خاتم النبیین حضرت مُحمد مُصطفٰے(ﷺ) اس دنیا میں تشریف لائے- اللہ تعالیٰ نےحضور نبی کریم (ﷺ) کو جامع صفات و کمالات، مکمل و اکمل اور نور الہدیٰ بنا کر مبعوث فرمایا-آپ (ﷺ) کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انبیاء کرام (علیھم السلام) بھی دعائیں مانگتے گئے کہ یا باری تعالی اپنے پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا امتی بنادے-
حضور رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین (ﷺ) نے ساری زندگی لوگوں کی رہنمائی و ہدایت کیلئے بسر کی اور اپنی مجلس میں بیٹھنے والوں کی اس طرز پر تربیت فرمائی کہ ان میں سے ہر فرد لوگوں کیلئے مینارہ نور ثابت ہوا جس کی تائید اس حدیث پاک سے ہوتی ہے :
حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت پاؤ گے‘‘-
مزید اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے :-
حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا ہے آپ(ﷺ) نے فرمایا :
’’مثل أهل بيتي مثل سفينة نوح من ركبها نجا ، ومن تخلف عنها غرق ‘‘ [1]
’’میرے اہل بیت کشتی نوح (علیہ السلام) کی مثل ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا اور جو رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا‘‘-
امت مسلمہ کی کامیابی کا راز ان مقدس ہستیوں سے وابستہ رہنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے میں ہے-مرورِ زمانہ کے لحاظ سے حالات بدل گئے، سوچ بدل گئی، ترجیحات بدل گئیں، دنیا کی رنگینوں میں ایسے پھنسے کہ لوگوں کی دین اور صالحین سے وابستگی دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی، دین سے تعلق ایک رسمی صورت اختیار کرتا چلا گیا اور معاشرہ اس نہج پر آپہنچا کہ معاذ اللہ بعض دفعہ اسلام کے مسلمانوں میں اجنبی ہونے کا خیال لاحق ہونے لگتا ہے-میں جب سوچتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں کہ کہیں وہی زمانہ تو نہیں آ گیا جس کے متعلق حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : قال رسول (ﷺ): يوشك أن يأت على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه و لا يبقى من القرآن إلا رسمه مساجدهم عامرة و هي خراب من الهدى‘‘[2]
’’حضرت علی بن ابی طالب(رضی اللہ عنہ)سےروایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ عن قریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام صرف نام کا رہ جائے گا اور قرآن صرف بطور رسم رہ جائے گا اور ان کی مساجد آباد ہوں گی حالانکہ وہ ہدایت سے خالی ہوں گی‘‘-
سنتِ الٰہی ہے کہ ایسے حالات میں اللہ تعالی لوگوں کی رہنمائی کے لئے ا پنے خاص بندوں کو اس کام پر مامور فرماتا ہے جو دن رات لوگوں کی ہدایت اور فلاح کیلئے کو شاں رہتے ہیں -
اصلاحی جماعت کی بنیاد :
اس پر فتن دور میں لوگوں کی رشد و ہدایت کیلئے جس مربی خاص کا انتخاب فرمایا جو صورت میں آئینہ جمال اور سیرت میں اس نمونہ سنتِ رسول (ﷺ)تھے-ارضِ ہند کو یہ اعزاز نصیب ہوا اور سلطان الفقر ششم، حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرہٗ کی 14 اگست 1947ء، 27 رمضان بروز جمعۃ المبارک بوقت سحر ولادت باسعادت ہوئی-جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اخلاق، اوصاف اور رنگ سے وافر حصہ عطا فرمایا-
مرد خود آگاہ، محسن ملت، مصلح امت، بحر حقیقت و معرفت، سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرہ نے اللہ تعالیٰ کی توفیق خاص اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ سے منظوری اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ کی نسبت خاص اور نسبت پاک سے اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی-آپ قدس اللہ سرّہٗ کی نگاہِ فیضان سے وجود پانے والی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین گزشتہ صدیوں میں اٹھنے والی تحریکوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ آپ قدس اللہ سرّہٗ نے سب سے پہلے اصلاحی جماعت کے مبلغین کی اپنے صحبت میں باطنی تربیت فرمائی، اپنی نگاہ کاملہ سے ان میں طلبِ مولیٰ کا جذبہ پروان چڑھایا، اللہ پر توکل اور ماسوی اللہ کوترک کے راستہ پر چلاکر ظاہر و باطن کو اللہ تعالیٰ کے امرکے تابع چلانے کی تلقین فرمائی اور پھر مخلوق کی راہنمائی اور دعوت الی اللہ کی تبلیغ کیلئے دنیا بھر میں بھیجا-
اصلاحی جماعت کے مبلغین کو صدور کا نام دیا جانا :
صدور، صدر کی جمع ہے اور صدر کا معنی سینہ ہے-یہ لفظ قرآن سے لیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ[3]
’’پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے‘‘-
مرآۃ العارفین:
یہ ماہنامہ عارفین کا آئینہ ہے یہ بھی ایک مکمل صدر (مبلغ) ہے اور جو گنجینہ فقر کا علم سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس رسالہ میں لکھا تھا اس کا نام مرآۃ العارفین ہے اس نسبت سے بھی اس ماہنامہ کا نام مرآۃ العارفین ہے اور یہ ماہنامہ اولیاء اللہ کی تعلیمات کی اشاعت کا سب سے بڑا شعبہ ہے-
تعارف اصلاحی جماعت:
قرآن مجید میں فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَالْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَیَأْ مُرُوْنَ بِاالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘[4]
’’اے میرے پیارے حبیب (ﷺ) کے اُمتیو! تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی دعوت دے اور راہِ معرفت کا حکم کرے اور بُرائی سے روکے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘-
اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت اصلاحی جماعت کی تشکیل کی گئی تاکہ معرفت الٰہیہ کا باقاعدہ ایک جماعت کی شکل میں پیغام پہنچایا جائے - معرفت الٰہی کی دعوت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے:
’’کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ‘‘[5]
’’مَیں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس مَیں نے مخلوق کو پیدا فرمایا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-
اسی طرح جو لوگ طلبِ مولیٰ میں راہ معرفت اختیار کرتے ہیں ان کی شان میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْہُمْج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا‘‘[6]
’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے‘‘-
اصلاحی جماعت اورتعلیماتِ اولیاء اللہ کا احیاء:
سورۃ الکہف کی ’’آیت:28‘‘ کی روشنی میں اولیائے کاملین نے کچھ اصول مرتب کئے جو تصوف کی جان ہیں-فرداً فرداً خانقاہوں اور آستانوں پر ان اصولوں پر عمل ہوتا رہا لیکن جس طرح فکری اور عملی طور پر ایک جماعت کی شکل میں منظم طریقے سے مشائخ عظام کے قواعد و قوانین اور ضوابط پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین نے عمل در آمد کیا جو کہ اصلاحی جماعت کا خاصہ ہے-کیونکہ سلطان الفقرششم بانٔی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ کی نگاہ فیض کا کما ل ہے کہ پوری دنیا کی روحانی تربیت اور تزکیہ نفس کی عملی تحریکوں میں سے یہ ایک عظیم تحریک ہے -
جس طریق سےحضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی تربیت فرما کر دور دراز علاقوں میں بھیجا توتوکل علی اللہ پر ان نفوس قدسیہ نے دنیا کے بڑے بڑے جابر بادشاہوں تک رسائی حاصل کی اور انہیں توحید و رسالت اور معرفت الٰہی کا پیغام پہنچایا-ساڑھے چودہ سو سال بعد بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم قدس اللہ سرّہٗ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نوجوانوں کی ظاہری اور باطنی تربیت فرما کر انہیں دنیا کے مختلف شہروں اورممالک میں دین اسلام کی اس عظیم نعمت کو عام کرنےکے لئے بھیجا-سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہٗ نے اکابرین اولیاء کرام اور اسلام کی طرز تبلیغ کو مدنظر رکھتے ہوئے جبہ و قبہ چھوڑ کر شاہانہ شان سے دین متین کی خدمت کو شعار بنایا-
بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ نے لوگوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کے مطابق، گُھڑ دوڑ، نیزہ بازی اور شکار جیسے مشاغل اپنا کر لوگوں کو قریب کیا پھر ان کو رشدو ہدایت کا سامان فراہم کیا - یہ حقیقت ہے کہ جنہوں نے عقیدت و محبت کی نظروں سے اولیاء اللہ کو دیکھا اور ان سے صحبت اختیار کی انہوں نے نہ صرف فیض پایا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کے مشاہدہ کا حصول بھی ہوا-
پیر کامل صورت ظل الہ |
٭٭٭
[1](المستدرك على الصحيحين للحاكم، كتاب التفسير)
[2](شعب الإيمان، رقم الحدیث: 1908)
[3](الانعام:125)
[4](آل عمران:104)
[5](تاریخ ابن خلدون،ج:1، المقدمہ)
[6](الکہف:28)