’’میرے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ کوئی اللہ کا طالب میرے قریب آئے پھر اگلا کام میرے ذمے ہے- ‘‘ بانی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، سلطان الفقر ششم ، سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے یہ الفاظ مبارک سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی اُس مثنوی کے حقیقی ترجمان ہیں جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کے صدر دروازے پر یوں کندہ ہے ؛
ہر کہ طالبِ حق بود من حاضرم
زِ ابتداء تا انتہاء یک دم برم
طالب بیا، طالب بیا، طالب بیا
تا رسانم روزِ اوّل با خدا
’’جو بھی اللہ تعالیٰ کا طالب ہے میں اسے (اس کی منازل میں) ابتداء سے لے کر انتہاء تک ایک ہی دم میں پہنچانے کے لیے حاضر ہوں، اے حق کے طالب آ، اے اللہ کے طالب آ، اے حقیقت کے متلاشی آجا تاکہ پہلے روز ہی مَیں خدا کی بارگاہ میں پہنچا (کر تجھے با مراد و با نصیب کر) دوں-‘‘
عہدِ رواں کے مسلمانان کو ایک جماعت کی صورت میں ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ کی حقیقت سے آشنائی بخشنے والے، چودہ صدیاں قبل پیدا ہونے والی اسلام کی زندہ و جاوید روح کو عصرِ حاضر کی مردہ رگوں میں پھونکنے والے، روحانیت کا اِحیاء فرما کر ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری‘‘ کی نئے انداز اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ’’رِیت‘‘ ڈالنے والے، تصوف کے باریک نکات کو قرآن و احادیث اور بزرگانِ دین کی کتب سے چھان کر انسانی وجود کا حصہ بنانے والے، سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی میراثِ فقر کے وارث، آپ کے خزانۂ علم و عرفان کے قاسم، محبت فتح القلوب کے مظہرِ مجسم، سلطان الفقر ششم ، سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جو بھی حاضری دیتا، چاہے مرید ہوتا یا ؔغیر مرید، اس حاضر ہونے والے کے لیے آپ کے دل و زبان سے ایک ہی دعا نکلتی کہ ’’اللہ پاک راضی ہو‘‘-
آپ کا الفت کی چاشنی سے بھرپور ، مودّت کی شرینی سے معمور ، دل و نگاہ کا یہ محبت بھرا انداز ہی تو تھا جس نے شکستہ دلوں کو جوڑا، یاس و قنوطیت میں مبتلا قلوب و اذہان کو جھنجوڑا اور امن و چین ، سکون و اطمینانِ قلبی کے متلاشی ایک عالَم کو {الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب}کی راہ پر گامزن کر دیا-لیکن جب ہم آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی زندگی مبارک کے مختلف پہلوئوں سے خوشہ چینی کرتے ہیں تو بچپن میں ہی آپ کو اپنی والدہ محترمہ کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑتا ہے مگر جس قدر بھی ان سے پیار ملا اسے عمر بھر نہ بھلا سکے اور زندگی کے آخر ی سالوں تک والدہ ماجدہ کی مزار مبارک پر حاضری کو اپنا معمول بنائے رکھا- بقول صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب، آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ معمول ہوتا تھا کہ جب طالبانِ مولیٰ کی دلجوئی اور مخلوقِ خدا کی بھلائی کے لیے شکار کا وسیلہ اختیار کر کے سفر مبارک فرماتے تو تکمیلِ منزل تک راستے سے واپسی محال بلکہ ناممکن ہوتی تھی اور ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ الحاج محمد نواز قادری صاحب نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ کے اس فرمان کا تذکرہ کیا ہے کہ:-
’’سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میرے ذمے میرے حضور مرشد پاک نے یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ چل پھر کر مخلوقِ خدا کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم عطا کریں - آپ فرماتے تھے کہ مجھے معرفتِ انوارِ الٰہی (کی لافانی دولت کی طرف دعوت) دینے کا حکم ہے اور لوگ مجھ سے دنیا (کا فانی مال و متاع) مانگتے ہیں-‘‘
دورانِ سفر ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ والدہ محترمہ کا یومِ وصال میانِ سفر ہی آگیا تو ’’مائی صاحبہ‘‘ کے ایصالِ ثواب کے لیے تکمیلِ منزل سے قبل ہی دربار شریف کے لیے روانہ ہوگئے- صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے سلطان الفقر ششم رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیھا سے محبت و عقیدت کا جو اظہار فرمایا ہے وہ آپ کے الفاظ مبارک سے ہی ملاحظہ فرمائیں:-
’’سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک ابھی چھوٹی تھی جب آپ کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیھا کا انتقال ہوگیا تھا اور ۲۳ رمضان المبارک کو اپنی والدہ ماجدہ کے ختم کا آپ جس طرح اہتمام فرماتے تھے آپ یہ کوشش فرماتے تھے کہ ۲۳ رمضان المبارک دربار شریف پر آئے- مجھے یاد ہے آخری سال سے کچھ ایک دو سال پہلے جب ۲۳ رمضان المبارک دورانِ شکار آیا تو آپ نے فرمایا کہ میری والدہ ماجدہ کا ختم ہے مَیں شکار چھوڑ کر وہاں ختم پہ جائوں گا حالانکہ آپ شکار چھوڑ کر کہیں تشریف نہیں لے جاتے تھے- آپ ۲۳ رمضان المبارک کو وہاں تشریف لائے- آپ اکثر ایک بات فرماتے تھے کہ میری والدہ کو یہ شرف نصیب ہے کہ وہ ایک بہت بڑے شیخِ کامل کی زوجہ تھیں اور دوسرا شرف انہیں یہ نصیب ہے کہ انہوں نے جتنے بھی بچوں کو جنم دیا ہے ان میں کوئی بھی تارکِ شریعت نہیں ہے اور تیسری بات آپ یہ فرماتے تھے کہ جن بچوں کو انہوں نے جنم دیا ہے ان میں سے کسی کے کردار پر بھی شک نہیں ہے -‘‘
بلا شبہ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی میں اس کی والدہ کی شفقت و پیار بھری تربیت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے لیکن سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ایک والدہ کے اس پیار کی کمی کو آپ کے راہبر و راہنما، مرشد کامل اور والد محترم، سلطان الاولیاء ، شہبازِ عارفاں سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ نے انتہائی لاجواب انداز سے کبھی محسوس ہی نہ ہونے دیاکیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے والد محترم سے پدر و پسر کی نسبت کی بجائے محب و محبوب کا تعلق تھا- سلطان الفقر ششم کی اپنے والدِ محترم و مرشد کامل سے قربتوں کے جو جو واقعات بھی ملتے ہیں ان سے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ محب کون ہے اور محبوب کون ہے ؟ یا پھر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے پُر مغز ، گوہر افشاں ، لفظ لفظ موتی کے مطابق خود عشق، خود عاشق ، خود معشوق اور خود محبت ، خود محب اور خو د محبوب والا ہی کوئی معاملہ تھا کیونکہ ایک طرف تو آپ کے والد و مرشد نے آپ سے اس حد تک محبت کی جو سب پر عیاں ہوئی ، سب آپ کو پیار سے ’’چَن&ls