تحریکِ سُلطان الفقرششمؒ کی بُنیاد

تحریکِ سُلطان الفقرششمؒ کی بُنیاد

تحریکِ سُلطان الفقرششمؒ کی بُنیاد

مصنف: افضل عباس خان اکتوبر 2015

سُلطان الفقر ششّم رحمۃا للہ علیہ سے ہمار ے تعلُّق کی بُنیادیں

سُلطان الفقر ششّم حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی سے ہمارے تین رشتے بنتے ہیں -ہمارا ایک رشتہ مرشد اور طالب کاہے،ہمارا ایک رشتہ آپ کی ذات گرامی کے ساتھ قائد اور کارکن کا ہے اور ایک رشتہ جس کو ہمیشہ حضور سلطان الفقررحمۃ اللہ علیہ نے ہماری ظاہری کمزوریوں اور محرومیوں کو دیکھتے ہوئے آپ نے بہت زیادہ پذیرائی عطا فرمائی وہ صرف اپنی نُطفی اولاد سے ہی نہیں بلکہ وہ لُطفی اولاد کے ساتھ آپ کا باپ اور بیٹے کا رشتہ تھا-

سُلطان الفقر ششّم رحمۃا للہ علیہ کا اَخلاقِ عالیّہ

ہم میں سے جتنے بھی لوگوں کو سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع نصیب ہوا، اُن میں سے ہرایک یہ کہے گا کہ حضور مجھ سے زیادہ محبت فرماتے تھے اور جتنا قریبی رشتہ، جتنا قریبی پیار اور جتنی شفقت مجھے نصیب تھی اتنی کسی دوسرے کو نصیب ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے اور اس دعویٰ پہ ہم میں سے کوئی بھی جھوٹا نہیں-

اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں

ہر اِک کو ہے گماں ، کہ مخاطب ہمیں رہے

اُس نگاہِ کرم کا کمال ہی یہ تھاکہ پوری محفل بیٹھی ہے اور اُس محفل میں ہر آدمی کو گمان ہے کہ حضور میرے ساتھ مخاطب ہیں-

فرمانِ عالیشان

سُلطان الفقر ششّم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

بیعتِ طریقت کیا ہے ؟

مرشدِ کامل طالبِ مولیٰ سے سب سے پہلے 8   چیزوں سے توبہ کرواتا ہے :-

(۱) کفر سے (۲) شرک سے (۳) جھوٹ سے (۴) چوری سے (۵) غیبت اور گلہ گوئی سے (۶) بہتان سے (۷) زنا سے (۸) کارِ حرام سے -

چاہے ہم کسی بھی سلسلۂ طریقت سے تعلق رکھتے ہیں ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں کہ کیا سُنّتِ صحابہ کے مطابق کی ہوئی بیعت میں دیئے گئے عھد ہم نبھا رہے ہیں یا نہیں؟

اگر ہاںتو ایمان کی سلامتی مبارک ہو!

اگر نہیںتو پھر اپنی فلاح کی فکر کریں -

کیونکہ

بے عمل آدمی کبھی فلاح یاب نہیں ہو سکتا -

سُلطان الفقر ششّم رحمۃا للہ علیہ کا نظریّہ

سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کی بُنیاد قرآن و سُنّت ہیں - آپ کا نظریہ عالمگیر اور ہمہ جہت ہے- آپ کا نظریہ ایک خانقاہ سے شروع ہوکر اُسی خانقاہ پہ آکر ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ وہ خانقاہ سے شروع ہوتا ہے اور پوری کائنات کا احاطہ کرتاہے اور کائنات سے مراد یہ زمین ہی نہیں ہے، کائنات سے مراد یہ سامنے نظر آنے والا آسمان ہی نہیںہے ، کائنات سے مرادصرف یہ نظام شمسی بھی نہیں جو ہمارے سامنے ہے بلکہ وہ تمام نظام ہائے شمسی جو کائنات کے اندر موجود ہیں جس کے متعلق حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں:

اٹھارہ ہزار جو عالَم آہا اوہ اگے حسینؑ دے مردے ھُو

یہ جو تمام نظام ہائے شمسی اور اٹھارہ ہزار جہان ہیں- آپ کا نظریہ ان اٹھارہ ہزار جہانوں کے تمام نظام ہائے شمسی کا احاطہ کرتا ہے- کیونکہ جب ہم کسی چیز کو قرآن و سُنّت سے منسوب دیکھتے ہیں تو یہ ایک لازمی سمجھنے کی بات بن جاتی ہے کہ ہمارا پروردگار ’’الٰہ العالمین‘‘ ہے اور ہمارے محبوب پاک ’’رحمۃ اللعٰلمین‘‘ ہیں اور ہمارا قرآن ’’ذکر للعٰلمین‘‘ ہے - تو یہ تینوں محدود نہیں بلکہ لامحدود نہیں انہیں زمان و مکان کی قید میں رہتے ہوئے نہیں سمجھا جا سکتا اِس لئے جس نظریے کو ان سے نسبت ہوجائے اپنی حقانیّت و گہرائی میں وہ بھی زمان و مکان سے آزاد ہو جاتا ہے -

سُلطان الفقر ششّم رحمۃا للہ علیہ کی تحریک

ہم سب کو اندازہ ہونا چاہیئے کہ ہمارے روحانی پیشوا ، ہمارے راہبر ، ہمارے مرشد ، ہمارے قائد ہماری تحریک اور تنظیم کے بانی سُلطان الفقر ششّم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نظریاتی و فکری اعتبار سے ہمیں کتنی مستحکم بنیادوں پر لا کر کھڑا کیا اور دُنیا کے سامنے اَمن کی سفید دستاریں اصلاحی جماعت کے مبلّغین کے سر پہ رکھ کے ایک علامت (Symbol) بلکہ زندہ حقیقت کے طور پر کھڑا کردیا کہ یہ امن کے پیکر ہیں، یہ امن کے داعی ہیں، یہ عالمگیریت کی بات کر سکتے ہیں- یہی وہ تحریک تھی جس کی تڑپ آپ کو سلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے پنجابی کلام میں نظر آئے گی کہ

چڑھ چناں تے کر رُشنائی ذکر کریندے تارے ھُو

گلیاں دے وچ پھرن نمانے لعلاندے ونجارے ھُو

یہی تڑپ ہمیں حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں نظر آتی ہے کہ

تین سو سال ہیں ہند کے میخانے بند

اب مُناسب ہے تیرا فیض عام ہو ساقی

اصلاحی جماعت کی صُورت میں سُلطان الفقر ششّم رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تحریک کھڑی کردی جو ہمارے اسلاف کے خوابوں کی عملی تعبیر ہے اور اُن کے سوز و گداز کا ثمر ہے -

تحریکِ سُلطان الفقر ششّم رحمۃا للہ علیہ کی بُنیاد !

سلطان الفقر ششّم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک (اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم  العارفین) کے نظریّہ کی بُنیاد قرآن وسُنّت پر ہے - قرآن کے ظاہر اور باطن دونوں پہلؤں سے -

اگر ہم سمجھیں تو یہی ہماری میراث ِ اصلی ہے جو آج بھی ہماری ناموس اور شوکت و ثروت کی نگہبان ہوسکتی ہے اور قبر میں بھی ہمیں تاریکی سے بچا سکتی ہے اور حشر کے دن بھی ہمیں رسول اللہ کی بارگاہ میں شرمندہ نہیں ہونے دے گی- اور اللہ تعالیٰ کی عدالت میں بھی ہمیں کامیاب و سرخرو کرے گی -

یقیناً یہ نظریہ توحید و رسالت اور قرآن و سنت کا نظریہ ہے !!!

ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا چاہیے کہ آخر وہ کونسا نظریہ ہے اور آخر وہ کونسی تحریک ہے جو عرب کے بدوئوں، گڈریوں، ریوڑ چرانے والوں، ظالموں کو زمانے کا امام اور ایک نئی زندہ و تابندہ تہذیب کا مُوجد و معمار بنا دیتی ہے اور کیسی تسکین اُن کے اندر پیدا کر دیتی ہے کہ کل تک وہ بدو تھے، کل تک وہ ریوڑیے تھے، کل تک وہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن آج جب کہ وہ اپنے اندر اس جرأت کو لے کر چلتے ہیں اور میدانِ عمل میں آتے ہیں اور سفارت کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی سفیر نہیں ملتا، اَمارت کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی امیر نہیں ملتا، اگر تعمیر کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی معمار نہیں ملتا، وہ سیاست کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی با اُصول نہیں ملتا، وہ نظامِ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر