حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اُن اولیائے کرام میں ہوتا ہے جنہیں عامۃ الناس نے اُن کی حیات مبارک میں پہچان لیا ہو بلکہ خواص تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کے منتظر تھے جن لوگوں پر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے مہربانی فرمائی اور انہیں تعلیماتِ باھُو کا فہم عام عطا فرمایا وہ جانتے تھے کہ فیضانِ حضرت سُلطان العارفین کی تقسیم کا اہتمام ابھی باقی ہے اور اِس خانقاہ سے نفاذِ قُرآن و سُنّت کی تحریک کا آغاز ابھی ہونا ہے - بقول علامہ اقبال :
تین سو سال سے ہیں ہند کے مئے خانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
یہ حقیقت ہے کہ سابقہ تین سو سالوں سے اس خطے کے معرفتِ حق تعالیٰ اور عشقِ الٰہی کے مئے خانے (اولیائے کرام کی خانقاہیں) نظریاتی طور پر خستہ حالی کا شکار تھے - نہ صرف خانقاہیں بلکہ پورا مسلم معاشرہ ہی ہمہ قسم کی تنزلی کا شکار تھا - تصوف کی تشریحات پہ مبنی عشقِ الٰہی اور اولیائے کرام کی تعلیمات سے بیگانگی نے مسلم معاشرہ میں دو انتہائیں پیدا کردی تھیں پہلی انتہا تو بضد تھی کہ مذہب کی معاشرتی ضرورت ہے ہی نہیں اور یہ فقط فرد کا نجی معاملہ ہے - یہ انتہا انسان کو خدا کے انکار پر بھی مائل کرتی ، جبکہ دوسری انتہا مذہبی سخت گیریت اور شدت پسندی کی تھی- ان دونوں کی چپقلش سے مسلم معاشرہ میں عجیب نفسا نفسی اور افراتفری کی کیفیات در آئیں تھیں کہ ایسے میں سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں انتہائوں کو یکسر مسترد کر دیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ سلف صالحین کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے قرآن مجید اور شریعتِ نبوی ؐ پر قائم شدہ روحانی اور معاشرتی زندگی کی عمارت کو عظمتِ رفتہ سے سرفراز فرمانے کے لئے جد و جہد کا آغاز فرمایا- ایسی عمارت کہ جہاں ایک طرف ہر سُو شریعتِ محمدی ﷺ کے رنگ بکھیرے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اللہ رب العزت کی معرفت اور قُرب کو حاصل کرنے کے لئے تصور اسم اللہ ذات کے فانوس دمک رہے ہوں- بلا شبہ سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ ’’سلطان الفقر‘‘ کے فرائض سے بخوبی عہدہ برا ہوئے اور فقرِ محمدی ، شریعتِ رسول کریم ﷺ اور عرفانِ ذات کو مسلم معاشرے کی رگوں میں رچا بسا دینے کے لئے تحریکی آغاز فرمایا-
سلطان الفقر ششّم کاخاندانی پس منظر:
سُلطان الفقر ششّم حضرت سُلطان محمّد اصغر علیؒ سروری قادری کانسبی شجرہ:
سلطان الفقر سُلطان محمد اصغر علی ابن شُہبازِ عارفاں سلطان محمد عبد العزیز ابن سلطان فتح محمد ابن سلطان غلام رسول ابن سلطان غلام میراں، ابن سلطان ولی محمد ابن سلطان نور محمد ابن سلطان محمد حسین ابن سلطان ولی محمد ابن سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ابن حافظ بازید محمد، ابن شیخ فتح محمد ابن شیخ اللہ دتہ ابن شیخ محمد تہیم ابن شیخ محمد منان ابن شیخ محمد مغلا ابن شیخ محمد عبدا ابن شیخ محمد سگھرا ابن شیخ محمد انون ابن شیخ محمد ملا ابن، شیخ محمد بہاری ابن شیخ محمد جیون ابن شیخ محمد ہرگن ابن شیخ انور شاہ ابن شیخ امیر شاہ ابن شیخ قطب شاہ ابن شیخ امان شاہ ابن شیخ سلطان حسین شاہ، ابن شیخ فیروز شاہ ابن شیخ محمود شاہ ابن شیخ قرطک شاہ ابن شیخ نواب شاہ ابن شیخ دراب شاہ ابن شیخ ادھم شاہ ابن شیخ عطیق شاہ ابن شیخ عبیق شاہ ابن شیخ سکندر شاہ ابن شیخ احمد شاہ ابن شیخ حجر شاہ ابن حضرت امیر زبیر ابن خلیفۂ چہارم، امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ ابن ابی طالب ابن عبد المطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف ابن قصیٰ ابن کلاب ابن مرہ، ابن کعب ابن لویٔ ابن غالب ابن فہد ابن مالک ابن النضر ابن کنائتہ ابن خزیمتہ ابن مدرکتہ ابن سیّدنا الیاسؑ ابن مضر ابن نزار، ابن معد ابن عدنان ابن ادابن ادد ابن ہمیسع ابن جمل ابن بنت ابن قیدار ابن سیّدنا اسماعیل ؑ ابن سیّدنا ابراہیمؑ ابن تارخ ،ابن قاصر ابن شارغ ابن ارغوہ ابن فارخ ابن شارغ ابن ارغوہ ابن فالغ ابن شالخ ابن قینان ابن ارفخشد، ابن سام ابن سیّد نا نوح ؑ ابن یردا ابن سیّدنا ادریس ؑ ابن مہمائیل ابن قینان ابن انوش، ابن سیّدنا شیثؑ ابن ابو البشر سیّد نا آدم علیہ السّلام-
جیسا کہ شجرہ سے واضح ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ معروف قبیلہ اعوان سے ہیں اور اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی غیر فاطمی اولاد سے ہیں یعنی جو حضور سیّدۃ النسا حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی دیگر ازواج سے ہیں - علوی النسب اعوانوں کے چار قبیلے مشہور ہیں -(۱) پہلے قبیلے کاتعلق امام محمد حنیفہ بن علی سے (۲) دوسرے قبیلے کاتعلق عمر الاطرف بن علی سے (۳) تیسرے قبیلے کاتعلق عباس بن علی سے (۴) چوتھے قبیلے کاتعلق امیر زیبر بن علی سے جا نکلتاہے- حضرت سلطان محمد اصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جد امجد قطب شاہ کا سلسلہ نسب دوالگ الگ روایات کے مطابق حضرت عباس بن علی سے اور امیر زبیر بن علی ہے ، یہ دونوں روایات مستند علمائے انساب نے بیان کی ہیں - حضرت امیر زبیر کے اسمِ گرامی پہ اکثر علمائے انساب نے بحث کی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ یہ اُن کا اسمِ مبارک ہے ، لقب ہے یا کنیت - البتّہ اعوانوں کے شجروں میں آپ کا نام مذکور ہوا ہے - زیادہ تر اعوان شجرے حضرت عبّاس بن علی رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ہیں اور بکثرت روایات اِسی کی پائی جاتی ہیں -
قبیلۂ اعوان کی تاریخ:
حضرت علی وجہہ الکریم کے (بعض روایات کے مطابق) اٹھارہ صاحبزادگان کی اُولاد میں سے غیر فاطمی اولاد کو ہاشمی علوی اور اعوان کہا جاتا ہے اور لغوی لحاظ سے لفظ ’’اعوان‘‘ عون کی جمع ہے جس کا معنی مدد گار یا حمایت کرنے والا کے ہیں اور تاریخِ حضرت سُلطان باھُو کے اوّلین و مستند ترین مآخذ ’’مناقبِ سلطانی‘‘ کے مطابق :
’’جب سادات نے حادثوں اور تفرقات کے سبب وطن چھوڑا اور ایران اور ترکستان کے مختلف حصوں میں بود و باش اختیار کی تو قبیلہ اعوان نے چونکہ سادات عظام کے قریبی تھے اس لئے عرب و عجم میں حادثوں ، مصیبتوں ،تنگی اور غریب الوطنی میں ان کی مدد کی اورجاں فشانی کی اور اُن کے رفیق اور معاون بنے اسی وجہ سے ان کا نسب اعوان ہوا یعنی ساداتِ بنی فاطمہ کی مدد کرنے والے علوی اور ہاشمی کا لقب اعوان میں تبدیل ہوگیا‘‘-
معرکۂ کربلا کے بعد بھی خاندان علوی کے ساتھ اُموی اور پھر عباسی خلفاء کی مخالفت جاری
سوشل میڈیا پر شِیئر کریں