فکرِ سُلطان الفقر سیمینار (۱۴ اگست لاہور)

فکرِ سُلطان الفقر سیمینار (۱۴ اگست لاہور)

فکرِ سُلطان الفقر سیمینار (۱۴ اگست لاہور)

مصنف: ادارہ اکتوبر 2015

صدارت:  (Chair of the Seminar)

 صاحبزادہ سلطان احمد علی (چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ،چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین، جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین)

مہمانانِ گرامی:  (Panelists)

ملک اکبر حیات اعوان( دیرینہ و قریبی ساتھی ، سابق وائس چیئرمین ضلع کونسل خوشاب)

میاں محمد ضیاء الدین(مرکزی صدر اصلاحی جماعت و عالم تنظیم العارفین- اولادِ حضرت سُلطان باھُو سے باہر حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت کے واحد خلافت یافتہ جنہیں حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت نے بیعت کرنے یا ذِکر اسم اللہ ذات عطا کرنے کی اِجازت فرمائی )

الحاج محمد نواز قادری(ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین)

حافظ عبدالرحمن  ( دیرینہ و قریبی ساتھی )

صوفی محمد حسین( دیرینہ و قریبی ساتھی)

مفتی محمد شیرالقادری (ریسرچ سکالر ماہنامہ مرأ ۃ العارفین)

ماڈریٹر:

ایس ایچ قادری (ریسرچ سکالر ماہنامہ مرأ ۃ العارفین)

افتتاحیہ کلمات :از صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

واجب الاحترام مہمانانِ گرامی جناب ملک اکبرحیات اعوان صاحب،جنا ب حافظ عبدالرحمن صاحب،جناب مفتی محمدشیرالقادری صاحب، میاں محمد ضیاء الدین صاحب ،جناب الحاج محمد نواز قادری صاحب، جناب صوفی محمد حسین صاحب، تشریف لانے والے تمام دوستوں ! کو مَیں سلام بھی پیش کرتا ہوں اورآپ کی تشریف آوری کاشکریہ بھی اداکرتا ہوں ،مَیں خاص طور پربرادرم قاری غلام رسول صاحب کا،اوران کے تمام رفقاء کاشکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے لاہور تنظیم کی جانب سے اس تقریب کاانتظام کیا اورآپ تمام مہمانانِ گرامی کواس میں شرکت کی دعوت پیش کی - آج پاکستان کااڑسٹھواں یومِ آزادی ہے جسے ہم منارہے ہیں میری دعاہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان کواسی طرح پھلتا اورپھولتا فرمائے اورجس طرح پچھلے چند ماہ سے پاکستان میں ایک نئی ترقی شروع ہوئی ہے ایک نئی زندگی شروع ہوئی ہے ہماری یہ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی افواج کوپاکستان کے دشمنوں کے خاتمے میں مدد فرمائے اوریہ قوم سکھ کاسانس لے سکے اورامن سے زندگی گزارسکے اورخاص طورپرجس نظریہ پریہ ملک حاصل کیاگیاتھا اورہمارے آبائو اجداد نے جن قربانیوں سے یہ ملک حاصل کیاتھااُن قربانیوں کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اُن کے خون اوراُن کی قربانیوں کاپاس رکھ سکیں -

یہ قدرت کااتفاق ہے اورقدرت ایسے اتفاقات اس لیے ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں کے سامنے ایسی مثالیں قائم ہوجائیں تاکہ اس چیز کوواضح کردیاجائے کہ محض حادثہ نہیں ہے یہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس دن پاکستان معرضِ وجود میں آرہاتھااورسلطنت ِمدینہ کے بعددُنیاکی تاریخ میں یہ دوسری اسلامی نظریاتی ریاست تھی جونظریۂ اسلام کی بنیاد پہ ، نظریہ لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی بنیاد پہ معرض ِوجود میں آئی اُسی دن جس دن پاکستان معرض ِوجود میں آیایعنی ستائیس رمضان المبارک اور لیلۃ القدراُسی دن حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے میں، آپ کی نویں پشت میں حضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس دُنیا میں تشریف لائے اورجنہوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پاک کوقریب سے دیکھا ہے، آپ کے انداز واطوار کودیکھا ہے، آپ کی طبع اورآپ کی طبیعت کو دیکھا ہے اورآپ کے فیوض وبرکات سے اِستفادہ کیا ہے وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں اوراس بات کااظہارکرتے ہیں کہ آپ کی شخصیت ایک Ordinaryانسان کی نہیں بلکہ ایکExtra Ordinaryبلکہ آپ کی سپرہیومنSuper Human شخصیت تھی اور قدرت نے آپ کودُنیاکے حوالے سے جو رُتبہ عطاکیاتھاوہ بھی کم نہیں تھا اورخاص طور پر آپ کاایک دینی مقام بھی مسلّمہ تھاکیونکہ آپ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے سے تھے اورآپ کے ذمے وہی ڈیوٹی تھی جوبرِّ صغیر پاک و ہند میں تمام بزرگانِ دین اورصوفیا کرام نے اس دین کے پرچارکیلئے ڈیوٹی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو آپ کارُوحانی کمال تھا،جسے آپ نے اپنی محنت سے ،مشقت سے اوراُس طلب ِمولیٰ کے مراحلے سے گزرکرکہ جس طلبِ مولیٰ کے مراحل کا بار باراعادہ کیااورباربارجس کاتذکرہ کیااورجس کی جانب لوگوں کومائل کیااورانہوں جومشقتیں اوراپنی زندگی میں ریاضتیں کیں اس کاذکرکیاہمارے مرشدکریم سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد اصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرشد حضرت سلطان عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں وقت گزارکراُن تمام مراحل سے گزرے اوران تمام فیوض وبرکات کواپنے اندر سمویا-جس کی وجہ سے ہم یہ اعزاز سمجھتے ہیں اورہم پاکستان کو بُرہان سمجھتے ہیں کہ جس دن آپ اس دُنیا میں تشریف لائے اُسی دن یہ مملکت وجود میں آئی -

یہ محض اتفاق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس چیز کااظہارہے کہ اللہ جب اپنے نیک اورصالحین بندوں کو اس زمین کاوارث بناکربھیجتاہے جیسے قاری صاحب نے تلاوت کی کہ{ ان الارض یرثھا عبادی الصالحون} ’’زمین کے وارث میرے نیک بندے ہیں ‘‘ اللہ تعالیٰ جس دن اپنے نیک بندوں کوبھیج رہاہے اُسی دن اپنی زمین کے ایک ٹکڑے کو اپنے دین کے ماننے والے لوگوں کے لیے مخصوص ومختص کررہاہے ،اس کامطلب ہے کہ ان دونوں کاآپس میں گہرا تعلق ہے اورہم توپاکستان سے جن وجوہات کی وجہ سے محبت کرتے ہیں اس میں سب سے بڑی وجہ پاکستان کانظریہ ہے، پاکستان کا اسلامی ورُوحانی تشخص ہے جومجبور کرتا ہے اس سے محبت اوراس پر قربان ہونے پر،ہمارے لئے یہ فخرکی بات ہوتی ہے کہ مَیں کسی شہیدکابیٹاہوں ،مَیں کسی شہیدکابھائی ہوں یامَیں کسی شہیدکاباپ ہوں- اوریہ ہمارے لئے فخرکی بات اس لئے نہیں کہ ہم اپنے وطن کے لئے ، اپنے جغرافیے کے لئے ، کسی اورناطے اوررشتے کے لئے اس پہ قربان ہوتے ہیں ،بلکہ یہ اس لئے فخر کی بات ہے کہ ہم اس کے نظریے کے لئے قربان ہوتے ہیں ، ہم اِس اِسلامی اساس، اسلامی تشخص کی خاطر قربان ہوتے ہیں اور وہ اسلامی تشخص کہ جس کے لئے خود سیّدی رسول اللہ ﷺ اورجس کے لئے آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے جدوجہد فرمائی اورجوہمارے آبائواجداد تبلیغ کے لئے اس خطے میں آئے اورپھر انہوںنے جوقربانیاں دیں اورپھر خاص طور پر مَیں آپ نوجوانوںجو مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتے ہیںسے ہمیشہ کہتاہوں کہ جب 14اگست،23مارچ یااس طرح کے دیگر پاکستان کے قومی ایام آئیں آپ کوتھوڑی دیر کے لئے اُن مہاجرین کی تصاویر ضرور دیکھنی چاہیں جو ہجرت کرکے لُٹے پٹے یہاں پہ پہنچے تھے اورجوپہلی ٹرین لاہور میں پہنچی تھی آپ تاریخ کی کتب میں دیکھیں ،آپ پاکستان کی تاریخ جاننے والوں سے پوچھیں کہ وہ کس انداز میں تھی کہ جب لوگ اس ٹرین میں داخل ہوئے تو وہ لوگ ڈھونڈرہے تھے کہ اس ٹرین میں کوئی زندہ آدمی بھی موجود ہے، کوئی زندہ شخص بھی موجود ہے، جس حالت میں وہ لٹے پٹے قافلے یہاں پہنچے اورجس طرح انہوں نے اپنی خستہ حالی کے باوجود اس جذبہ کوسامنے رکھا کہ کچھ بھی ہوجائے ایک دن یہ مملکت ہمارے خوابوں کی تعبیر ضرور بنے گی اوراُس نظریہ پہ کاربندیہ ریاست ضروربنے گی -

ہمیں ہمارے مرشد کریم نے جوسبق دیاوہ تین مرحلوں میںہے ،سب پہلی چیز ہے کہ بطورانسان ہم اُن تقاضوں کوپورا کریں جوہمارے خالق نے ہمارے اوپر مقرر کئے ،ایک اچھاانسان بننا، انسان پراوّلین فرض ہے- اُس کے بعد ہمارا تعلق مذہبِ اسلام سے ہے، دُنیائے اِسلام سے ہے ،ایک اچھامسلمان بننا اورایک اچھے مسلمان کے جو خواص ہیں اُن خواص کواپنے اندر پیداکرنا -اورتیسری چیز یہ مملکت پاکستان ہے، جو ہمارا پاکستانی تشخص ہے اوراس کا Pride اور ایک اچھاپاکستانی بننا اوراس ریاست کے قانون کامحافظ اور اس کے آئین کاپاسدار،اس کی اَساس کانگہبان اوراس کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کاسپاہی بننا یہ ہمارے لئے بہت ضروری ہے اورہم آج اس تقریب میں ان ساری چیزوں کو ،مرشد کریم کی تحریک کو،اورآپ نے جوتربیت کاعملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا اُس کو زیرِ بحث لائیںگے -

میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مَیں اس تقریب کی صدارت کررہاہوں جس میں میرے مرشدکریم کے انتہائی معتمد،انتہائی قریبی اورانتہائی آپ سے محبت کرنے والے اورجن سے آپ بے پناہ محبت اورشفقت فرماتے تھے وہ ساتھی ہمارے ساتھ موجود ہیں اگر مَیں ایک ایک ساتھی سے جومرشدکریم کی محبت وشفقت تھی ،اُنس تھا، آپ کے ساتھ Attachmentتھی، اگر اُن کاذکر کرنا شروع کردوں تواُس کے لئے ایک مکمل سیمینار جتنے وقت کی ضرورت ہے،مَیں مختصراً ان ساتھیوں کاتعارف کروائے دیتاہوں -

میری دائیں جانب ملک اکبر حیات اعوان صاحب تشریف فرماہیں آپ کاتعلق وادیٔ سون سیکسر سے ہے اورسائیکالوجی کے پروفیسرہیں اور ضلع کونسل خوشاب کے سابق وائس چیئرمین بھی ہیں آپ شرافت کے اعتبارسے ،وضع داری کے اعتبارسے، سیاست کے اعتبارسے وادیٔ سون سیکسرکے معروف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں-جب میرے مرشدکریم اوچھالی شریف میں تشریف لاتے توملک اکبر حیات اعوان کو اپنا بیٹا فرماتے تھے، ان کے والدگرامی ملک کرم الٰہی مرحوم اورہمارے مرشدکریم سلطان محمداصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ آپ Age-Fellowبھی تھے اورآپ نے سلطان محمد شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اکٹھے ہی گھڑسواری اورنیزہ بازی کی تربیت حاصل کی تھی -اوران کے دادا سے بھی ہمارے بزرگوں کاایسا ہی تعلق رہا تھا -  آپ کے ساتھ حافظ عبدالرحمن صاحب تشریف فرماہیں کھوہار ضلع گجرات سے آپ کاتعلق ہے اوران کے گھرانے سے مرشدکریم کی بے پناہ محبت تھی اورخاص طور پہ ان کے جوبرادرِ کبیر میاں عبداللہ صاحب ،مَیں نے مرشدکریم کے حوالے سے یہ بات سنی ہے کہ آپ جن طالبِ مولیٰ پہ فخر کیاکرتے تھے، جن کے بارے میں مرشد کریم فرماتے تھے کہ مجھے زندگی میں جن طالبِ مولیٰ نے راضی کیاہے اُن میں سے آپ ایک نام میاں عبداللہ صاحب کابھی ارشاد فرماتے تھے ،اُن کے برادرِ خوردحافظ عبدالرحمن صاحب جن کابیشتر وقت متحدہ ریاست ہائے امریکہ میں گزرا،مگراس کے باوجود آپ کامرشدکریم سے بڑانمایاں تعلق ہے اوران کے گھرانے کی مرشد کریم سے جو Attachmentہے وہ بڑی واضح اورنمایاں ہے- اوران کے ساتھ مفتی شیرالقادری صاحب تشریف فرماہیں ،یہ جب بالکل چھوٹے سے بچے تھے تومرشدکریم ان کواُن کے گھرسے خود لائے تھے اورمرشدکریم نے جودارلعلوم دربارِ عالیہ پہ قائم کیاآپ رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس مدرسہ میں ان کوداخل فرمایا،اِنہوں نے اپنادرس نظامی وہیں سے مکمل فرمایااوراِن کی رُوحانی تربیت مرشد کریم نے خود مکمل فرمائی اوراب آپ ماہنامہ مرأۃ العارفین اور العارفین پبلیکیشنز میں ریسرچ کے تمام اُمور دیکھتے ہیں اورفتویٰ نویسی میںتخصص فی الفقہ ہیں-

میری بائیں جانب صاحبزادہ میاں ضیاء الدین صاحب موجود ہیں اوران کے تعارف میں اگرمَیں اتناہی کہہ دوں توکافی ہوگا کہ مرشدکریم کی بارگاہ میں بڑے بڑے مشائخ، بڑے بڑے علماء، بڑی بڑی اکابردینی ، علمی ، متقی، پرہیزگارشخصیات آتیں تھیں لیکن مرشدکریم نے اپنی پوری زندگی مبارک میں ایک واحد شخصیت کودستارِ خلافت عطافرمائی اوراسم اعظم عطاکرنے کی اجازت دی اوریہ بھی حکم دیاکہ اِن کاادب میراادب ہے ،ان سے ملنامیرا ملناہے ،اوران سے بیعت میری بیعت ہے ،اوران کاحکم میراحکم ہے، اوران کی نافرمانی میری نافرمانی ہے ،ان کی بے ادبی میری بے ادبی کرنے کے مترادف ہے -اوروہ واحد شخصیت جن کومرشدکریم نے دستارِخلافت عطافرمائی اورجن کے متعلق آپ نے یہ احکامات صادرفرمائے وہ شخصیت میاں ضیاء الدین صاحب ہیں-آپ حضرت سلطان باھُو صاحب کے خلفاء کے ایک معروف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اوران کے بزرگوں نے ہر موقع اورہرمحاذ پہ آستانہ عالیہ سے بے پناہ محبت و عقیدت کاثبوت دیاہے اورپشت درپشت ان کے گھر میں یہ خلافت آرہی ہے اورآپ کے جدِامجد میاں سلطان اعظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت سلطان باھُو صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میںسے تھے اورایک صاحبِ حال اورصاحبِ دل ولی اللہ تھے- اورمیاں ضیاء الدین کے ساتھ تشریف فرماہیں الحاج محمدنواز قادری صاحب جنہیں شہبازِعارفاں حضرت سلطان عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ سے نسبت نصیب ہے -اصلاحی جماعت کے اوّلین معماروں میںحاجی صاحب کا شمار ہوتاہے اورمرشدکریم نے جوسفرِحج فرمایااورجتنے عمرے فرمائے، جتنے آپ نے اندرون ملک اسفار فرمائے، مَیں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ سوائے چند ایک اسفار کے ہرسفر میں حاجی صاحب مرشد کریم کے ساتھ سفرمیں رہے ہیں اورمرشدکریم گھریلومعاملات اوربرادری کے معاملات میں حاجی صاحب پہ بے پناہ اعتماد فرماتے تھے - ان کے ساتھ صوفی محمدحسین صاحب تشریف فرماہیں اور ان کے والدگرامی کی شہبازِعارفاںحضرت سلطان عبدالعزیز صاحب سے نسبت ہے اورمرشدکریم کے ساتھ آپ کی خصوصی محبت اورلگائو ہمیشہ سے رہاہے ،آپ کراچی واندرون سندھ اوربلوچستان میں اصلاحی جماعت اورعالمی تنظیم العارفین کے معاملات دیکھتے ہیں -

 میرے یہ ساتھی بیان کریں گے کہ کس چیز نے انہیں مجبور کیاکہ یہ اُس مردِ کامل سے ٹوٹ کرمحبت کرتے رہے - کیونکہ انسان جب کسی کو اپناآئیڈیل بناتا ہے تو وہ اُس کے خواص کودیکھ کر اُن کواپناتا ہے تومیرے یہ ساتھی مرشدکریم کے اُن خواص کو تفصیل سے بتائیں گے جس کی وجہ سے میرے یہ ساتھی مرشد کریم سے دیوانگی کی حد تک محبت اورلگائو رکھنے لگے کہ اپنی زندگی ہی مرشدکریم کے نام لگادی -پہلے ہمارے تمام پینلیسٹ کی گفت گو ہوگی، اُس کے بعد وقفہ سوالات ہوگا ، آپ حاضرین میں سے بھی اگرکوئی سوال کرنا چاہے تو وہ اپنے مقرر سے ادب اورشائستہ لہجے میں مخاطب ہوکرسوال کرسکتاہے-مَیں تمام مقررین اور حاضرینِ محفل کاایک بارپھرمشکور ہوں کہ آپ سب نے اپنے قیمتی وقت سے کچھ لمحات اس خصوصی نشست کے لئے مخصوص فرمائے -مَیں برادرم رانا تجمّل حُسین اور قاری صاحب کومبارک باد پیش کرتاہوں جنہوں نے آپ نوجوانوں کومدعوکیاکیونکہ اسی عمر میں ضرورت ہوتی ہے کہ ہم اس قسم کی شخصیات کے افکار سنیںکیونکہ جب ہڈی پک جاتی ہے تواُس وقت چیزوں کااثرکرناذرامشکل ہوتاہے اوراس نوعمری میں اگرانسان کسی مردِکامل کوآئیڈیالائز کرلے اوراُن کے خواص کواپنے اندرپیداکرنا شروع کردے تو اس سے انسان میںوہ انقلاب برپاہوسکتاہے جوانسان کوانسانیت کے اعلیٰ معیارتک جاپہنچاتاہے -آپ سب کی توجہ کابے حد شکریہ -

ماڈریٹر:

جنابِ صدر صاحب نے نہایت فصاحت وبلاغت سے نشست کے اغراض ومقاصد بیان فرمادئیے ہیں، اب مَیں دعوت دیتاہوں جناب ملک اکبرحیات اعوان صاحب کو کہ وہ اپنے خیالات سے حاضرین کوآگاہ کریں -

ملک اکبرحیات اعوان:

جناب صدرِمحفل صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب اورمعزز حاضرین میری جانب سے آپ سب لوگوں کوالسلام وعلیکم-

جیسا کہ حضرت صاحب نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیاکہ مَیں سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بہت قریب رہا ہوں، کئی دن تو مَیں چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے آپ کی محفل میں رہاہوں -آپ کااعلیٰ خاندان، رُوحانی تجلیات توایک طرف کیونکہ یہاں عالمِ دین تشریف فرماہیں ان معاملات میں وہ مجھ سے بہتراس موضوع پہ بات کرسکتے ہیں چونکہ مَیں ایک نفسیات کاطالب علم رہاہوں توسلطان الفقر ششم کاجو شخصی پہلودوسرے لوگوں سے مختلف اورنمایاں ہے اورحضرت صاحب کی جن امتیازی خصوصیات نے مجھے متأثرکیا ،مَیں بہتر سمجھتاہوں کہ اُن پہ آپ سے بات زیادہ اچھے انداز میں کرسکوں گا - ایک ولی اللہ کی شخصیت کے خواص توبہت زیادہ ہوتے ہیں، پھر ان خواص کے بھی درجے ہوتے ہیں ،توشخصی خصائص کے حوالے سے حضرت صاحب کی زندگی کی چند مثالیں پیش کروں گا-

سب سے پہلے ایک مسلمان کی خصوصیت ایمانداری ہے اورایمانداری کاتقاضہ خوفِ خدااورعشق رسول ﷺ ہے، تو اس حوالے سے آپ کی محفل میں زیادہ وقت عشقِ مصطفی ﷺ پہ بات ہوتی تھی -مرشدکریم کی شخصیت شرافت وحیاء کاپیکر تھی-مَیں نے عموماً مرشدکریم کوچلتے ہوئے دیکھا ہے تومَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ مبارک چلتے ہوئے چندگزآگے سے زیادہ اوپراُٹھی ہو- آپ رحمۃ اللہ علیہ کی محفل میں غیرمناسب بات ہوتی مَیں نے کبھی نہیں دیکھی اورنہ ہی کسی اورکی جرأت ہوتی کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں غیرشائستہ بات کہہ سکے- آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اورخصوصیت توکل تھی اور ایک ولی اللہ کے لئے توکل علی اللہ بہت زیادہ ضروری ہوتاہے -آپ کے قریب رہنے سے مجھے علم ہے کہ کئی بار آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کچھ نہیں ہوتاتھالیکن یقین کیجئیے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کااللہ تعالیٰ پہ اس قدربھروسہ تھا کہ ضرورت کے وقت کہیں نہ کہیں سے انتظام ہوجاتا -مرشدکریم کی سخاوت مَیں نے ہروقت اوربہت قریب سے بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سخاوت کے مظاہرے دیکھے ہیں اگرآپ رحمۃ اللہ علیہ کی سخاوت کی مثالیں ایک ایک کرکے دینے لگوں توشاید سارا دن اسی موضوع پہ صَرف ہوجائے -آپ کی سخاوت کی ایک چھوٹی سی مثال ضروردوں گاکہ ایک بار اوچھالی میں نیزہ بازی کامقابلہ تھا اورہماری ایک مقامی ایم -این - اے سمیرا ملک صاحبہ مہمانِ خصوصی تھیں ،مَیں بھی وہیں موجود دتھا توسمیرا ملک نے حاضری دی توآپ رحمۃ اللہ علیہ نے اوپر نگاہ اُٹھائے بغیر اس کے سلام کاجواب دیااور اُسی طرح نظریں جھکائے ہوئے دور سے ہی اپنا ہاتھ اُس کے سر پر پھیرا، جاتے ہوئے اس نے نذرانے کے طور پر کافی سارے پیسے آپ کے پاس رکھ دئیے اور بعد میں ، مَیں نے دریافت کیاتو وہ رقم پچاس ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ تھی- تو آپ کی روانگی کی تیاری بھی ہونے لگی توآپ نے رقم کے بارے میں دریافت فرمایاکہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے توعرض کی گئی کہ یہ رقم سمیراملک صاحبہ نذرانہ کے طورپردے گئی ہیں - نیزیبازیوں کے مقابلوں میں توآپ لوگوں نے بھی دیکھاہوگا کہ کہیں ڈھول بجانے والے ہوتے ہیں توکہیں اَنائونسر بیٹھاہوتاہے اوراکثر مانگنے والے بھی آجاتے ہیں ، کئی مشکوں سے پانی بھرنے والے بھی ہوتے ہیں-مرشدکریم نے وہ ساری رقم دیکھے بغیر جوبھی آیااُٹھااُٹھاکربانٹتے رہے- مَیں نے دیکھا کہ وہ ساٹھ ہزارسے زیادہ پیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بیٹھے بیٹھے تقسیم فرمادیئے ابھی آدھاوقت بھی باقی تھا - یہ صرف ایک واقعہ نہیں اِس طرح کے کئی واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں کہ آپ ہمیشہ غربا اور حاجت مندوں میں کھلے دل اور کھلے ہاتھ سے سخاوت فرماتے - آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مہمان نوازی دیکھی ہے ،بڑے بڑے نوابوں کی، جاگیرداروں کی سرداروں کی مہمان نوازی بھی دیکھی ہے مگر جو وضع دار ی اورمہمان نوازی آپ کے لنگر میں نظرآئی وہ کم یاب ہے- مستقل مزاجی ہر بڑی شخصیت کی امتیازی خاصیت ہوتی ہے ،آپ رحمۃ اللہ علیہ جوارادہ کرلیتے تو اس کام کوتکمیل تک پہنچاکردم لیتے بھلے راہ میں جوبھی رکاوٹ آجائے ، قدرت آپ کے ارادے کی تکمیل میں معاونت کرتی تھی -

مَیں دوبارہ عرض کرتاہوں کہ مَیں آپ کے اُن شخصی پہلوئوں پہ بات کررہاہوں جوہرعام آدمی کی سمجھ کے لئے قابل ِقبول ہے ،البتہ مَیں آپ کی دینی خدمات پہ بات کرنے سے خودکو قاصر سمجھتاہوں ،آپ کی دینی خدمات پہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے عالمِ دین بات کریں تو بہتر ہوگا-مَیں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ ان شخصی خواص کے بھی درجے ہوتے ہیں اورحضورکی بات کروں تو آپ کی ہر خاصیت انتہادرجے پہ تھی، اگر سخاوت پہ بات کروں تو آپ جیسا سخی نہیں دیکھا ،آپ کی شرافت اورحیاکی بات کروں توشرافت اورحیامیں آپ سے بڑھ کرکوئی اورنہیں دیکھا-حضورکی اُصول پسندی پہ مَیں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتاہوں کہ اوچھالی میں جب آپ نے رقبہ خریدا توایک عام ساآدمی آیااورعرض کرنالگاکہ حضورآپ کے رقبے میں مجھے لگتاہے کہ میری زمین کاکچھ حصہ بھی شامل ہوگیاہے، مَیں زمین کی حدبراری کرواناچاہتاہوں چونکہ میرے بزرگ ذیل دار بھی تھے اس لئے مجھے فرمایاکہ بیٹے!آپ بھی ان کے ساتھ حدبراری کروائیں اورخاص طورپہ مجھے فرمایا بیٹا! اگرتھوڑی سی ہماری جگہ اس کے رقبے میں شامل ہوجائے توکوئی بات نہیں لیکن بیٹااس غریب کی ایک ٹَسوبرابر جگہ بھی ہمارے رقبے میں ہرگزشامل نہ ہونے پائے یہ خاص خیال رکھنا-آپ کے انصاف اوراصول پسندی ملاحظہ ہو وگرنہ ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے بھائی کہ آپ ادھر کیسے آ گئے ہو؟ لیکن حضرت صاحب نے ہمیں خاص ہدایت فرمائی کہ جہاں یہ آدمی راضی وہاں پہ حدبرار ی کروادیں -

مَیں حضورکی لجپالی کی ایک چھوٹی سی مثال آپ کی خدمت میں پیش کرتاہوں- میرے والداورمَیں حضورکے ساتھ بہت مرتبہ شکار میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ رہے، حضورشکارکے لئے جھنگ میں گئے ہوئے تھے، اورہم سردیوں میں سرگودھامیں مقیم رہتے ہیں توہمیں حضورکی جانب سے حکم آیاکہ بیٹاشکارپہ آنا ہے اورآپ آج ہی پہنچو،مَیں چندشکاریوں کوساتھ لے کر پہنچ گیا،رات کو بستی اسلام آباد جھنگ میں حاضرہوئے ،دوسرے دن شکارکی جگہ پہ ساٹھ ستر کلومیڑ فاصلہ طے کرکے جاناتھا،ہم گاڑیوں میں شکارکی جگہ حضورسے کچھ دیرپہلے پہنچ گئے، اچانک ایک ہائی لکس ٹائپ گاڑی آئی اوراس گاڑی پرایک گدھا لداہوا تھا کیونکہ شکاروالی جگہ والی خالی ہوتی ہے ،وہاں ڈیرہ وغیرہ تو ہوتانہیں ہے، ہم نے اندازالگایاکہ گاڑی والابھول گیاہے ،یہ گاڑی والا اس جگہ گدھا کیوں اُتار رہا ہے ؟ ہم تجسس کاشکار ہوگئے کہ یہ گدھے والاادھر کدھر آگیا،جب گدھا اُتارا گیاتواُس پرکپڑاوغیرہ ایسے باندھاہوا تھاجیسے اُس کوسواری کے لئے تیار کیا گیا ہو - تھوڑی دیر کے بعدحضرت صاحب بھی تشریف لے آئے اورآپ کے پیچھے وین سے ایک نہایت ہی بوڑھاشخص آیااوروہ اُس گدھے پرسوار ہوگیا،مَیں اُس شخص کوپہچانتاتھا،وہ ہمارے سرگودھا کی مسلم شیخ برادری کاآدمی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ مسلم شیخ برادری کومعاشرے میں برابری کاسٹیٹس نہیں دیاجاتا اور اس طرح ان کا خیال نہیں رکھّا جاتا لیکن وہاں تواُس بوڑھے کیلئے کے لئے وہ گدھا آیا تھا - اس پورے اہتمام کی وجہ یہ تھی کہ وہ بوڑھاشخص حضرت سلطان محمداصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ کے والدگرامی شہبازِعارفاں سلطان محمدعبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کاشکاری تھا وہ چونکہ اب نہایت بوڑھاہوچکاتھا اس لیے حضر ت صاحب فرماتے تھے کہ اس شخص کے دل میں یہ بات نہ آجائے کہ چونکہ اب مَیں بوڑھاہوگیاہوں اس لیے حضرت صاحب مجھے ساتھ نہیں لے جاتے -اورآپ یقین کریں شکارکے دوران اس بوڑھے شخص کی نہایت عزت واحترام توکیاہی جاتااُس کی رائے کوبھی معتبرگناجاتا اور میں حیران تھا کہ ایک بظاہر ایک بے کار بوڑھا تھا مگر آپ کس قدر اُس سے لجپالی فرماتے تھے جو کہ صرف یہی تھی کہ وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد و مرشد کا شکاری رہا تھا -

مَیں چند سال پیشتر ٹی وی دیکھ رہاتھا اورڈاکٹراجمل نیازی کی گفتگوسن رہاتھا ،ڈاکٹراجمل نیازی نے دورانِ گفتگوجب ولی اللہ کاذکرکیاتوانہوں نے ایک بڑی خوبصورت بات کی کہ ولی کبھی جمع نہیں کرتا،کبھی طمع نہیں کرتااورکبھی منع بھی نہیں کرتا-مَیں نے ڈاکٹراجمل نیازی کی بات کو مرشدکریم میں بدرجہ اَتم پایا اور خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتاہوں- مَیں نے یہ ساری چیزیں حضورمیں دیکھیں اوربدرجہ کمال دیکھیں- مجھ پر بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کایہ اثر ہوا جو مجھے جانتے ہیں وہ گواہی دیں گے اس بات کی کہ مَیں نے کبھی نہیں دیکھاکہ میرے پاس کیاکچھ ہے؟ مَیں نے کبھی جمع نہیں کیا؟میرا بیٹایہاں موجود ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ مَیں نے اپنے اکائونٹ میں کبھی پیسہ جمع نہیں کیا، میری تنخواہ آتی ہے پانچ چھ تاریخ تک جس کودینی ہوتی دے دیتا ہوں آگے زمیندار ہیں اللہ تعالیٰ دیتارہتاہے اوراس طرح زندگی چلتی رہتی ہے -جمع نہ کرنااورطمع نہ کرنایہ دوچیزیں توحضورکی سخاوت اوردیگر مثالوں سے ثابت ہوگئیں ہیں لیکن منع کس کونہیں کرنایعنی حضورکی محفل میں جو گداگرآیا،حضورنے کبھی بھی اُسے دھتکارا نہیں، میرے جیسے کئی اوربھی گناہ گارلوگ وہاں بیٹھے ہوتے تھے حضور کی منع نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے میرے جیسے کئی اورلوگ بھی صحیح راستے پر آگئے، مَیں آپ کے ساتھ کافی عرصہ رہاہوں اس لئے واقعات بے انتہاہیں مگر وقت کی قِلّت کااحساس ہے تومَیں اسی امر پہ اپنی بات ختم کرتاہوں اللہ تعالیٰ مرشد کریم پہ اپنی رحمتیں نازل فرمائے-امین

ماڈریٹر:

 ملک اکبرحیات اعوان کاشکریہ اداکرتا ہوں اورجناب میاں ضیاء الدین صاحب کوگفتگو کے لئے دعوت پیش کرتاہوں:

 میاں ضیاء الدین صاحب :

چئیرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ ،جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین،چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین، مرشدِما ،اورصدرذی محفل کی  اجازت کے ساتھ تمام صاحبان کوچندمعروضات مرشد کریم کی ذاتِ قدسیہ کے حوالے سے پیش کرناچاہوں گا-یہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کاکرم ہے کہ مجھ جیسے مجرم کواپنی بارگاہ میں منظورفرمایااوراس قابل بنایاکہ آپ کی ذات پہ بولنے کی جسارت کررہاہوں ویسے میری طاقت نہیں ہے کہ مَیںمرشدکریم کی ذاتِ مبارکہ پہ بات کر سکوں کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے کسی ایک پہلو پہ ہم ساری عمر بات کرتے رہیں وہ مکمل نہیں ہوسکتا - یعنی صرف ایک پہلوکی بات کررہاہوں اورآپ رحمۃ اللہ علیہ کی پوری حیاتِ طیبہ آپ کے پورے اقوال وافعال توگویا ایک سمندرہے جس کا دوسراکنارہ بحیثیت مخلوق کے اور بحیثیت محدود عقل اور محدود علم کے ہم نہیں معلوم کرسکتے -البتہ آپ کی زندگی کاہر پہلو،آپ کی ہرادا، قرآن وسنت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتی ہے-مرشدکریم کاکو ئی قول، کوئی عمل ہم نے ایسا نہیں دیکھااورنہ ہی سناجو قرآن وحدیث کی ترتیب کے منافی ہو-آپ رحمۃ اللہ علیہ کاہرکام عین قرآن سنت کے مطابق ہوتاتھا بلکہ آپ حیاتِ طیبہ کے آخری ایام میںساتھیوں سے پوچھتے تھے کہ مجھے بتائیں کہ کوئی سنت مجھ سے قضا تو نہیں ہوگئی ؟حالانکہ ہم اس لفظ پرغور کریں تویہ لفظ اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ توخود سنتِ مطہرہ پرعمل کرنے والے ہیں ،وہ صرف ہماری توجہ مبذول کروارہے ہیں کہ تم اپنے وجودوں کے اندر غور کروکہ تمہارے وجودوں کے اندر قرآن وحدیث کاحکم مبارک رہ تونہیں گیا؟آپ کی زندگی کاکوئی پہلو ایسانہیں تھا جس میں قرآن وحدیث اوردین متین کی ترویج و اشاعت نہ ہو -

آپ کی زندگی کاایک پہلو جو سنتِ کریم کے ساتھ عرض کروں گاکیونکہ ولی ٔکامل، مکمل، اکمل نائب مصطفی ﷺ ہوتاہے چونکہ نائب میں بھی بطور سُنّت کے وہ اوصاف شامل ہوتے ہیں یااُن کے وجودِ قدسیہ اُن اوصاف سے متصف ہوتے ہیں جیسے قرآن مجید ارشادفرماتے ہیں{ اذ کنتم اعداء}کہ اُس وقت کاتذکرہ کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نعمت کی وجہ سے تمہارے درمیان اُلفت پیدا ہوگئی، تمہارے دلوں میں کس وجہ سے اُلفت پیداہوئی ؟اُس نعمتِ عظیم کی وجہ سے ،نعمت کبیر کی وجہ سے، نعمت کریم کی وجہ سے، قرآن مجیدمیں دیکھیں کہ وہ نعمتِ کبیر،نعمتِ عظیم ،نعمتِ کریم ،تاجدارِ مدینہ محمدمصطفیﷺ کی ذاتِ قدسیہ ہے کہ آپ کے وجود مسعود سے کائنات کے اندراُلفت بھی پیداہوئی جوخاندان پہلے لڑرہے تھے تاجدارِ مدینہ نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ان میں تالیف پیداہوگئی اورآقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ترتیب کو بحیثیت ایک ولی ٔکامل، مکمل اکمل ہم اپنے مرشدکریم کے اندردیکھنا چاہیں تویہ صفتِ رسول کریم ﷺ ہمیں اپنے مرشدکریم کی ذاتِ قدسیہ میں عیاں نظرآتی ہے اصلاحی جماعت کے پلیٹ فارم پہ اکثر نوجوان لوگ ہیں میں کہناچاہوں گاکہ اگرایک والد کے دو بیٹے جسے پنجابی میں ’’اتوتوتی‘‘ یعنی جن کی ہم عمرہو توآپس میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی ہے، اکثراُن کے درمیان جھگڑاہوتارہتاہے لیکن آپ دیکھیں میرے مرشد کی اس Superiorصفت کے حوالے سے، نائب مصطفی ہونے کے ناطے سے، نبی کریم ﷺ کی اس سنت مبارکہ کااس طرح عمل دیکھنے میں آیاہے - اصلاحی جماعت کی کثیرتعدادنوجوانوں کی ہے لیکن ان کے اندرتالیف اورمحبت اس طرح ہے کبھی ان کے درمیان جھگڑا نہیںہوتاہے- لیکن ایک دوسرے کااحترام ہوتا ہے ،ایک دوسرے کی عزت ہوتی ہے، قرآن بھی یہی کہتاہے کہ ایک ولی ٔکامل کے وجودِ مسعود سے جوان کی محفل میں آکر بیٹھتے ،اُن کواُلفت نصیب ہوتی ہے، محبت نصیب ہوتی ہے ،اُن کے وجود، محبت کے خُوگربن جاتے ہیں- آپ دیکھیں کہ مرشدکریم کی محفل میں جولوگ بھی آئے امیر ہیں، غریب ہیں ،عالم ہیں، جاہل ہیں، حسین ہیں یاحسین نہیں ہیں سب کوآپ کی محفل میں پذیرائی نصیب ہوئی ،سب کے دلوں کواس طرح جوڑدیا،اس طرح اکٹھاکردیاجس طرح میرے نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کے دلوں کوجوڑا تھا،جن کے اندر سو سو سال کی جنگیں تھیں وہ بارگاہِ مصطفی کریم کی وجہ سے بھائی بھائی بن گئے اورآج بھی اس معاشرے کوسب سے بڑی ضرورت امن کی ہے کیونکہ اس وقت پورا معاشرہ ظلم وبربریت سے دوچارہوچکاہے تواس کوامن کی ضرورت ہے، اُلفت کی گُھٹی کی ضرورت ہے، امن و اُلفت کی اساس کی ضرورت ہے، توہم کوشش کریں کہ مرشدکریم کی وہ ترتیب جواُلفت ہے جیسے مولاناروم صاحب کاقول ہے کہ:

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالع ترا طالع کند

کہ جوصالحین کی صحبت میں بیٹھتاہے وہ صالحین کی طرح بن جاتاہے -توآج مرشدکریم کی وہی ترتیب ہے- آج اس معاشرے کوامن کی ضرورت ہے- قرآن کہتاہے کہ وہ امن آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجودِ مسعود سے ہے اور ایک ولی ٔکامل کو اُس وجودِمسعودسے بقائیت اورفنائیت کے مراتب نصیب ہوتے ہیں کہ اگرہم آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفتِ کاملہ سے مستفید ہوناچاہتے ہیں تومرشدکریم کی اس ترتیب کودیکھیں کہ آپ کے وجودِقدسیہ سے ہمیں اُلفت ،محبت ،بھائی چارہ اوراُنس نصیب ہوتاہے توہم اپنے قلوب کومرشدکریم کے تذکار سے روشن رکھیں اور قرآن بھی یہ کہتاہے کہ{ اُذکرونعمت اللّٰہ} اورہم اس نعمت کاباربارتذکرہ کریں اورکثرت سے کریں تاکہ ہمارے دلوں کواُلفت نصیب ہو،ہم اس تالیف کی وجہ سے ،اس پورے معاشرے میں امن قائم کرلیں اور کیونکہ ایک ولی اللہ، اللہ کادوست ہوتاہے اوراس کواللہ کی مخلوق سے اس طرح اُنس ہوتاہے اوروہ چاہتاہے کہ پوری مخلوق کے اندرامن قائم ہوجائے -اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے کہ ہم سلطان الفقرششم کی ذاتِ مسعود سے فیض یاب ہوں اورآپ رحمۃ اللہ علیہ کے احکام پرعمل کرکے ایک اچھے انسان اورقرآن وحدیث پرعمل کرنے والے مسلمان ،اس معاشرے کے فرد بن جائیں - و ما علیناالا البلاغ المبین

ماڈریٹر:

 مرشدکریم کے وجودِ مسعود سے اُلفت اوراُنس کی تجلیات کے بارے میں آگاہی وشعوردینے پہ میاں ضیاء الدین صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں-

 ایک ولی ٔ کامل سے کسی کونسبت ہوجائے تووہ کتنا خوش نصیب ہوتا ہے اوراگراُس شخص سے ولی کامل کومحبت ہوجائے تووہ اُس بھی زیادہ خوش قسمت ہوتاہے اوروہ گھرانہ کتنا خوش نصیب ہوگاکہ جس پورے گھرانے سے ایک ولی کامل کومحبت ہوجائے -حضرت حافظ عبدالرحمن صاحب جن کے گھرانے سے سلطان الفقر ششم کوبہت زیادہ محبت تھی اس لیے اب مَیں حافظ عبدالرحمن صاحب سے عرض کرتاہوں کہ وہ سلطان الفقر ششم کے بارے میں اظہارِخیال فرمائیں -

حافظ عبدالرحمن صاحب :

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِo اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ o  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o {یاایھاالذین امنوکونومع الصادقین} اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا  تَسْلِیْمًا،اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ، وَ عَلٰی اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا سَیِّدِیْ یَا مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ ،صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْo

اللہ تعالیٰ کی حمدثنااورمحمدمصطفی ﷺ پر بے شماردوروسلام بھیجنے کے بعدصدرِمحفل جگرگوشۂ سلطان الفقرجناب حضرت سلطان احمدعلی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ،واجب الاحترام مہمانان گرامی السلام وعلیکم ورحمۃ وبرکاتہٗ!

 آج کی یہ تقریبِ سعید، یوم ِولادت سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 14اگست یومِ پاکستان کے حوالے سے انعقادپذیر ہے - قدرت کاازل سے ہی یہ نظام رہاہے کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل کے لئے انبیاء علیہم السلام کومعبوث فرمایا اوروہ توحید جس کاپیغام تمام انبیائے کرام نے انسانوں تک پہنچایااس کی تکمیل امام المرسلین ،خاتم النبین ﷺ کی بعثت سے ہوئی ،اُسی دعوتِ توحید کوآپ ﷺ کی اتباع میں، آپ ﷺ سے تربیت یافتہ صحابہ کرام نے آگے بڑھایا ،اسکے بعدتابعین ،تبع تابعین اورصالحین کے ذریعہ آگے بڑھااوراولیائے کرام اورصوفیائے عظام کے توسل اورتوسط سے تاقیامت توحید کایہ پیغام جاری وساری رہے گا-مَیں بات آگے بڑھانے سے پہلے ضمناً ذکرکرتاہوں کیونکہ حضرت سلطان احمدعلی صاحب نے میرا تعارف کرواتے ہوئے فرمایاہے کہ مَیں نے اپنی زندگی کاکچھ عرصہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں گزاراہے اورمجھے کچھ عرصہ یورپ میں بھی رہنے کاموقع ملاہے- اصلاحی جماعت کے میرے ساتھیو!اورجن کااصلاحی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں بھی ہے ہمارے وہ دوست بھی تشریف فرماہیں وہ بھی ہمارے لئے قابلِ احترام اور قابلِ عزت ہیں ،مَیں ایک امریکن کاحوالہ دیناچاہتاہوں کہ اُس نے برکلے یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اوراُس نے جوتھیسس لکھا اس نے برصغیرپاک وہنداوربنگلادیش یعنی جنوبی ایشیاء کے علاقے کے بارے اورسپین کے بارے میں اسلام کاجو اُس نے تجزیہ کیاہے اُس نے لکھاہے کہ سپین میں قریباً ساڑھے سات سوسال مسلمانوں نے حکومت کی اورجب وہاں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تواسلام بھی وہاں سے جاتارہا ،برصغیر میں اسلامی حکومت تونہیں کہہ سکتے لیکن اسلامی خطہ ضرور کہہ سکتے ہیں، مسلمانوں کایہ ملک ہے ،سپین میں تواسلامی حکومت کے جاتے ہی اسلام بھی جاتارہالیکن برصغیر میں اسلامی حکومت نہیں بھی تھی توکیاوجہ ہے اسلام ابھی تک روزبرروز بڑھتاہی جاتاہے، تواُس نے لکھا کہ برصغیرمیں جواسلام کوروزبروزفروغ حاصل ہو رہاہے وہ صرف صوفیائے عظام کی وجہ سے ،اس نے مزارحضرت خواجہ معین الدین چشتی کی مثال دی کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری نے نوے لاکھ غیر مسلموں کوکلمہ پڑھاکرمسلمان کیا ، آپ کے وصال کے بعداُن کے خلیفہ گدی نشین ہوئے توحضرت خواجہ کے پیروکار جس طرح آپ کی بات سنتے تھے من وعن وہ آپ کے خلیفہ کی بات بھی مانتے تھے اُس کے کہنے کامطلب یہ تھا کہ صوفیائے عظام نے لوگوں کے دلوں پربادشاہی کی، اس لئے اوراسی وجہ سے اسلام دن بدن بڑھتارہااوربڑھتارہے گا-یہ ہمارے لئے بھی فخرکی بات ہے کہ ہم بھی ایک دُرِدربار اورخانقاہِ مقدسہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی غلامی میں ہیں اورآپ کے لختِ جگر سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے اوراُن کی اولاد پاک سے ہماراتعلق ہے ، اللہ ہمیشہ ہمیں ان کی معیّت میں قائم ودائم رکھے - میرے دوستو! جب بھی مسلمانوں کے اسلامی معاشرتی نظام پرکڑا وقت آیاتواللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک کے صدقے انسانیت کی بھلائی کے لئے اپنے محبوب بندوں کاانتخاب فرماکرانسانی معاشرہ پررحم فرمایا اور ان کے ذریعے ان معاشروں کوپاک فرمایااورقریباً ایک صدی قبل جب انسان مادیت کاشکارہوکر فرقہ بندی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے توہرطرف اندھیرا ہی اندھیراچھارہاتھا، توہم پرستی، خداسے دوری اورغفلتِ قلب کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام اورعالمِ انسانیت میں انتشارپیداہوچکاتھا،انہیں حالات میں راہِ راست سے بھٹکی انسانیت کوراہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مردِحق ،مردِخودآگاہ، شہبازعارفاں سلطان الاولیاء حضرت سلطان محمدعبدالعزیزصاحب رحمۃ اللہ علیہ کومنتخب فرمایا-میرے پیرومرشدسلطان الاولیاء شہبازعارفاں سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی صورت اورسیرت کامطالعہ کیاجائے توآپ کی ذات اتباعِ رسول کریم ﷺ کامکمل نمونہ نظرآتی ہے- ختنہ شدہ پیداہونے سے لے کر زندگی گزارنے کے طرز و طریق تک آپ کی زندگی کاکوئی پہلوسنت نبویﷺ کے خلاف نظر نہیں آتا،شب وروز کی مصروفیات ہوں یادن رات کے وِرد وظائف ، طالبان مولیٰ کے لئے تلقین ہویاخاندان ِعالیہ کے معاملات، سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق دینِ اسلام کی خدمات کے لئے سفر کی مشکلات ہوں یامصائب برداشت کرکے طالبانِ مولیٰ تک رُوحانی فیوض وبرکات پہنچایا-میرے مرشد کریم اوروارثِ خزانہ فقر ،سلطان الاولیاء شہبازِعارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شہزادگان کی تربیت خالصتاً رُوحانی بنیادوں پر فرمائی اوربالخصوص خزانہ ٔ فقر کومنتقل کرنے کے لئے سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمداصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ کو سفروحضر میں ہمہ وقت اپنے قربِ خاص میں رکھ کر اُن کی تربیت فرمائی- 1979ء میں آپ کوبیعت کرنے اورخلافت عطا کرنے کے بعدارشادفرمایامیرایہ بیٹافقرکوجس طرح سنبھالے گاایسے قیامت تک کوئی نہیں سنبھال سکے گا- شہبازِعارفاں سلطان الاولیاء حضرت سلطان محمد عبدالعزیزصاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چہرۂ انورکودیکھ کرخدایاد آتا-صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے آقاپاک ﷺ سے اولیاء پاک کوپہچاننے کے لئے پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب انہیں دیکھو توخدا یادآجائے -بندہ اس واقعہ کاچشم دیدگواہ ہے کہ میرے بھائی حضرت مولاناعبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب آپ درس نظامی پڑھ رہے تھے توآپ کی توجہ کسی اورشیخ کی جانب ہوگئی تومیرے والد گرامی نے اپنے بیٹے کی شکایت شہبازِعارفاں سلطان الاولیاء حضرت سلطان محمدعبدالعزیزصاحب رحمۃ اللہ سے کی کہ میرے بیٹے کی توجہ کسی اورجانب ہو رہی ہے ،اورمَیں بڑاپریشان ہوں توآپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز میں مسکرا کرفرمایاکہ’’ میاں صاحب فکرنہ کرو’’جواساڈااے اوہ اساڈہی رہسی‘‘یعنی جو ہمارا ہے وہ ہماراہی رہے گا،یہی آپ کافرماناتھاکہ اُدھر مولانا کے دل میں انقلاب آگیااورآپ کادل بدل گیا،آپ کادل صحیح سمت توجہ کرگیا،اُسی وقت حضرت مولانا نے اپنے والد سے عرض کی کہ مجھے جلدی سے شہبازِعارفاں سلطان الاولیاء حضرت سلطان محمدعبدالعزیزصاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملوائیں اور مَیں آپ سے ملاقات کرناچاہتاہوں تومیرے والدگرامی بہت خوش ہوگئے تو حضور نے کئی باراس امرکااظہار اپنی زندگی میں اپنے قریبی دوستوں سے کیا اور مَیں توساتھ بیٹھاتھا،مَیں توخود سن رہاتھااورپھریہ عملی زندگی میں ہواکہ مولوی عبداللہ صاحب کوآپ نے اللہ تک پہنچایا،بہت زیادہ فیض عطافرمایا - اور جب آپ کاوصال قریب تھا توسلطان الفقرحضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مولاناعبداللہ صاحب کوپیغام بھیجاکہ آپ حضرت پیربہادرعلی شاہ صاحب مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار شریف پہ تشریف لے آئیں کہ حضوریادفرمارہے ہیں قریباً دوہفتے وہاں قیام ہوا - تووہاں آپ نے مولانا صاحب کوبہت کچھ عطا فرمایا اور حضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب سے فرمایاکہ آپ اورمولوی عبداللہ دونوں بھائی ہیں - توپھر حضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مولانا صاحب کوفیض یاب کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اورمرشدکریم نے ساری عمرلجپالی فرمائی اورمولوی عبداللہ کی وفات تک بھائی بن کے دکھایا - کیونکہ مولانا عبداللہ صاحب مرشدکریم سے پہلے وفات پاگئے اس وقت اُن کی عمرچالیس سال تھی، اپنے شیخِ کامل کے عرس سے واپس آرہے تھے توبھلوال کے قریب روڈ ایکسیڈینٹ میں مولانا صاحب کی جان چلی گئی ،ہم توبھائی بھائی کہتے ہیں دُنیاداری کے طورپر لیکن حضرت سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تین دن اُسی جگہ گزارے کہ جہاں مولانا عبداللہ صاحب نے عرس کے موقع پررات گزاری تھی آپ مولانا عبداللہ کے غم میں تین دن وہاں پربیٹھے رہے توقریبی ساتھیوں نے خاص کر آپ کی منہ بولی ماں ایک مائی حاجن ہوا کرتی تھی انہوں نے جاکرعرض کی حضورآپ کے بھائی مولانا عبداللہ کی وفات ہوگئی ہے لیکن آپ نے تودُنیامیں موجود طالبان مولیٰ کی رہنمائی فرمانی ہے اوراللہ تعالیٰ کے فرمان پر راضی ہوجائیں اورپھر مرشدکریم نے وہاں پرمولانا عبداللہ صاحب کے ختمِ قل کابھی اہتمام فرمایا اور ایصالِ ثواب کرنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وہ جگہ چھوڑی- ان کے درمیان اتناپیارومحبت اورقربت تھی ایک اوربات سلطان عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مجھے یادہے کہ آپ نے مولانا صاحب سے فرمایا کہ آپ جومولوی لوگ ہووہ زیادہ علم کی باتیں کرتے ہواگرمولوی عبداللہ آپ تصورِشیخ کے ساتھ اسم اللہ ذات کاذکر کریں توآپ کے تمام عقدے حل ہوجائیں گے، آپ کی تمام مشکلات اوررکاوٹیں جلددورہوجائیں گی تومولوی عبداللہ صاحب نے جواب میں عرض کی کہ حضورمجھے یہ منظور ہے اور پھر مولانا عبداللہ صاحب نے اُسی طرح اسم اللہ ذات کوپڑھااورتصوّرکیاجس طرح آپ کے شیخ کامل نے فرمایا تھا-اعلیٰ حضرت احمدرضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ایک کتاب میں تصورشیخ کے عقدہ کشائی فرماتے ہوئے رسالہ عزیزیہ کے حوالے سے نقل فرمایاہے یہ علم کی بات ہے اُس کی تصدیق کے لیے میں اعلیٰ حضرت کاحوالہ دے رہاہوں کہ مخدوم سلطان المواحدین برہان العاشقین حجۃ المتکلمین مولاناقاضی سبحان یوسف ناصفی رحمۃ اللہ علیہ اس طرح فرماتے ہیں کہ شیخ کی صور ت جوظاہرمیں ہم دیکھتے ہیں یہ جسم انسانی کے پردے میں انوارِ حق تعالیٰ کامشاہدہ ہے - کیونکہ حدیث {خلق آدم علی صورت رحمن }کہ آدم علیہ السلام کو رحمن کی صورت میں پیدافرمایااورحدیث نبوی کہ{ من رانی فقد رایٔ الحق} کہ جس نے مجھے دیکھااُس نے حق کودیکھا- اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے مطابق یہ حدیثیں پیرکے حق میں صحیح جاتی ہیں -خزانۂ فقر کوسنبھالنے کے لئے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نویں پشت مبارک سے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب کاظہور 14اگست 1947ء بمطابق 27رمضان المبارک بوقت سحر دربارِ پُرانوارسلطان حق باھُو رحمۃ اللہ علیہ ضلع جھنگ میں ہوا آپ کی ولادت باسعادت برصغیرکے مسلمانوں کے لئے آزادی کی نوید ساتھ لائی اورتقسیم ہند کے نتیجے میں مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آئی - آپ نے بھولی بھالی انسانیت کو غیراسلامی رسومات سے نجات دلانے کے لئے اتنہائی عظیم ترین رازِ حق کوظاہر فرماکرخلق خداکی رہنمائی کے لئے اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کوقائم فرمایا-بنیادی طورپراولیائے کرام کی تعلیمات کوعمل ،تزکیۂ نفس اورتصفیۂ باطن اس تحریک کے مقصد کے لئے بالخصوص حضرت سلطان العارفین کی تعلیمات پرمبنی مشن ہے ہم نے اپنے مرشدکریم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے یہی سیکھاہے اگرچہ ہر چیز سے پیاری زندگی ہے لیکن اسلام کاعالم گیر مشن ہمیں اپنی زندگیوں سے بھی زیادہ عزیز ہے - سلطان الفقرششم نے سب سے پہلے اپنے شہزادگان کواس خدمت کے لئے پیش کیا،یہی تربیت دی کہ زندگی اورموت اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے مگرجب تک زندہ رہاجائے رسول کریم ﷺ کی سنت پر،قرآن کریم کے احکامات پرزندہ رہاجائے اورقومی اورملی غیرت کے ساتھ زندہ رہاجائے -اسی پاکیزہ مشن کولے کر جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب کی وَلولہ انگیز قیادت میں اوراصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے سیکریٹری جنرل صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب اس مشن کوآگے لے کرجارہے ہیں اوریہ صرف رضائے الٰہی کے لئے ہے- دعاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کوعمرِخضرعطافرمائے اورآپ کے سائے میں یہ مشن جلداپنی تکمیل تک پہنچے -؎

میرے دوستو!مَیں خراج تحسین پیش کرناچاہتاہوں حضرت صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب کوکہ مَیں نے تیس سال عالمی دُنیادیکھی ہے انٹرنیشنل مواقع بہت ملتے رہے ،مَیں وہاں پریشان رہتا تھا، کافی مشائخ کرام وہاں تشریف لے کرجاتے تھے کہ اپنے دینی مشن کوزمینی حقائق کے مطابق اپروچ کریں لیکن پتہ نہیں کیاوجہ تھی کہ بہت کم لوگوں نے اس میں پیش قدمی کی لیکن آگے نہ بڑھ سکے -مجھے اتنی دلی خوشی ہے کہ جانشین سلطان الفقراور صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب کی قیادت میں اصلاحی جماعت کے حوالے سے جوتبدیلی آئی ہے اوراس مشن کوزمینی حقائق اورزمانے کی ضروریات کے مطابق ڈھالاجارہاہے اوریہ منزل ترقی کی جانب گامزن ہے- میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشن کودن دوگنی اوررات چوگنی ترقی عطافرمائے اورصاحبزادگان کاسایہ مبارک ہمیشہ ہمارے سروں پہ قائم رہے اورہم ان کی غلامی میں رہ کرکوئی منزل پاسکیں اوردُنیا و آخرت کے لئے کوئی سرمایہ بناسکیں - وماعلینا الا البلاغ المبین

ماڈریٹر:

حافظ عبدالرحمن صاحب کاشکریہ ادا کرنے کے

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر