سُلطان الفقرؒکی تحریک اور مسئلہ کشمیر

سُلطان الفقرؒکی تحریک اور مسئلہ کشمیر

سُلطان الفقرؒکی تحریک اور مسئلہ کشمیر

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز اکتوبر 2019

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہر زمانے میں احیائے دین کی تبلیغ اور مسلمانوں کی ثقافتی و تہذیبی اور روحانی و نظریاتی میراث کے تحفظ میں صوفیائے کرام کا کردار بے پایاں، غیر متزلزل و سر فہرست رہا ہے-دین پر جب کبھی کٹھن وقت آیا ان بر گزیدہ ہستیوں نے مشکلات کی پرواہ کئے بغیر باطل و الحادی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے امنِ عالم کو فروغ دیا- چاہے مسائل مذہبی، سیاسی، عمرانی ہوں یا ثقافتی مسائل ان نفوسِ قدسیہ نے مذکورہ مسائل کے حل کیلئے عملی کردار ادا کیا اور دفاعِ دین و نفاذِ شریعت کیلئے  قائدانہ کردار ادا کیا - مزید برآں اپنے عمل و اعلیٰ اخلاق سے لوگوں میں حق و صداقت کا شعور پیدا کیا تاکہ عامتہ الناس میں حبِّ الا اللہ و عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) کی تڑپ و جستجو پیدا کی جائے-ایک اہم چیز جو ان صوفیاء میں عام رہی ہے وہ وطن کی محبت تھی کہ جو صوفی جس خطہ ارض سے تعلق رکھتا تھا ’’حب الوطنِ من الایمان‘‘ کا عملی مظاہرہ بدرجہ اتم اس کی شخصیت میں نظر آتاتھا جس کی عملی امثال وقتاً فوقتاً صوفیاء و فقراء ہستیوں نے اپنے ادوار میں پیش کیں -

زیرِ نظر تحریر میں بھی ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اہم نظریاتی و روحانی مسئلہ ( کشمیر) کاقومی و بین الاقوامی سطح پر مثبت شعور اجاگر کرنے اور اس کے لئے آواز بلند کرنےمیں ایک ایسی محبِّ وطن تحریک کے کردار پر مختصراً روشنی ڈالیں گے جس کی بنیاد ایک عظیم صوفی و مرد ِ کامل نے رکھی جو اپنے نسب میں خانوادہ سلطان العارفین، برہان الواصلین حضرت سخی سلطان باھُوقدس اللہ سرّہٗ کے چشم و چراغ اور مقامِ ولایت میں گلشنِ فقر ِ محمدی (ﷺ) کے پھول ہیں- عظیم فکری و انقلابی تحریک (اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین) کے بانی[1] اور منبع ولایت سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ کا شمار اس خانودہ کے اکابر صوفیا ء میں ہوتا ہے - آپؒ کی شخصیت کئی اوصاف و ابعاد کی حامل اور علامہ اقبالؒ کےتصورِ فقر [2](فقرِ غیور جسے اقبالؒ متاعِ مصطفےٰ (ﷺ) اور حقیقت ِ دین قرار دیتے ہیں) کی عملی تعبیرتھی- یہی وہ فقر ہے جسے علامہ اقبال ؒ نے اپنے کلام میں میراث ِ مسلمانی اور سرمایہ شبیری[3] سے تعبیر کیا ہے اسی لئے آپؒ نے اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میراثِ مسلمانی کے تحفظ اور احیا ئے دین کیلئے وقف کر دی تھی- آپؒ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے-

مزید یہ کہ 14 اگست 1947ء یعنی جس دن پاکستان معرضِ وجود میں آیا بعین اسی دن آپؒ کا اس دنیا میں ظہور فرمانا اس طرف اشارہ ہے کہ آپ محافظِ پاکستان بن کر تشریف لائے- جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو چونکہ پاکستان کی روحانی و نظریاتی شناخت ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں سے ہمارا رشتہ ’’لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ‘‘ کی بنا پر استوار ہے اسی لئے تحریکِ سلطان الفقرؒ میں کشمیر کی محبت اور کشمیریوں کیلئے ہمدردی بدرجہ اتم موجود ہے اور مسئلہ کشمیر سے تحریک کی کمٹمنٹ غیر متزلزل و غیر مبہم ہے-

کشمیر پہ عملی جد و جہد :

عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے حضرت سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ) نے نوجوانانِ اسلام کو کشمیری مسلمانوں کی عملی مدد پہ ترغیب دلائی اور تحریکِ آزادی میں ان کی معاونت کرنے کا طریق سکھایا- اِس سلسلے میں تنظیم کے تحت باضابطہ شعبہ عمل میں لایا گیا، جس کے تحت عملی کاوشوں کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بیدار کرنے کا کام بھی کیا گیا-ملک بھر میں کشمیر کانفرنسیں منعقد کی جاتی تھیں جن میں اہل فکر دانش اور علمائے حق لوگوں کو کشمیر میں صورتحال سے آگاہ کرنے کیساتھ ساتھ عمل پہ رغبت دیتے-

تحریک کے زیرِ اہتمام سالانہ اجتماعات :

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے زیرِ اہتمام سالانہ ملک گیر اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جن میں کشمیر و فلسطین کا اکثر ذکر رہتا ہے اور ہر پروگرام کے اختتام پر آزادی کشمیر و فلسطین کیلئے خصوصی دعا کی جاتی ہے- جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت و چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب اپنے خطابات میں اکثر مسئلہ کشمیر و فلسطین کی آگاہی، مسئلہ کی اہمیت اور عالمی امن کے لئے کتنا ضروری ہے پر گفتگو کرتے ہیں- اس کے علاوہ یومِ کشمیر(5 فروری) کے موقع پر تنظیم کے زیرِ اہتمام مختلف اضلاع میں یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ریلیاں نکالی جاتی ہیں جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھتے ہوئے عوامی سطح پر اس کا شعور اجاگر کرنا ہے-

ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل:

ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد میں شائع ہونے والا اُردو مجلہ ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی نسبت سے شائع ہونے والا یہ مجلہ حقیقی معنوں میں فلسفۂ وحدانیت کا ترجمان، اصلاحِ انسانیت کا علمبردار، اتحادِ عالم اسلام اور نظریۂ پاکستان کی روشنی میں استحکامِ پاکستا ن کا داعی ہےجس میں مختلف الانواع کے فکری و نظریاتی مضامین شائع ہوتے ہیں- مخصوص شماروں میں پاکستان، اقبالؒ، قائد اعظمؒ اور سیرت نمبرقابلِ ذکر ہیں-ان کے علاوہ  مجلے میں کشمیر، فلسطین،جونا گڑھ اور دیگر اہم موضوعات پر تحقیقی مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہتے ہیں-بالفاظ دیگر یہ تحقیقی مجلہ نظریۂ پاکستان کے فروغ، مسئلہ کشمیر، فلسطین اور جونا گڑھ کو قومی و بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے- مسئلہ کشمیر پہ کئی اہم نوعیت کی تحقیقات اس مجلہ نے شائع کی ہیں-

مسلم انسٹیٹیوٹ:

جانشین ِسلطان الفقر ششمؒ و سر پرستِ تحریک حضرت صاحبزادہ سلطان محمد علی مدظلہ الاقدس نے  2012ء میں مسلم انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ (اسلام آباد میں)قائم کیا جس میں عالم ِ اسلام کو درپیش مسائل اور عصر ِ جدید کے دیگر مباحثی مسائل (Debatable Issues) پر تحقیق کی جاتی ہے جن میں مسئلہ کشمیر و فلسطین کو اہم حیثیت حاصل ہے- ادارے میں کشمیر پر باقاعدہ ڈیسک بنایا گیا ہے جو صرف کشمیر پر تحقیق کیلئے مختص ہے- ادارہ کشمیر پر مختلف سرگرمیاں اور پرو گرامز کا انعقاد کرواتا ہے جس میں قومی و بین الاقوامی کانفرنسز، سیمینارز، راؤنڈ ٹیبل ڈسکشنز اور ایکسپرٹ لیکچرز کا اہتما م کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان کی شَہ رگ کی حیثیت سےمسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجا گر کیا جاسکے-یہ اعزاز بھی اس مسلم انسٹیٹیوٹ کو حاصل ہے کہ 2012ء میں جب پاکستانی تھنک ٹینکس اور میڈیا کشمیر پہ بات کرنا گوارا نہیں کرتے تھے مسلم انسٹیٹیوٹ نے ایک عظیم الشان انٹرنیشنل کانفرنس کی جس میں کئی ممالک سے اعلیٰ سطحی سکالرز اور ان ممالک کے پارلیمنٹیرئنز نے شرکت کی- اس کے علاوہ گزشتہ دنوں ادارے کے تحت کشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف ملکی و غیر ملکی سکالرز نے شرکت کی اور کشمیر کی حالیہ صورتحال پر اپنا نقطۂ نظر اور تجاویز پیش کیں- یہ ادارہ اپنے قیام سے لے کر اب تک کشمیر پر متعدد نیشنل اور انٹرنیشنل پروگرام آرگنائز کروا چکا ہے-

دربار حضرت سلطان باھو پہ کشمیر ہاؤس  کا قیام :

بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کی خانقاہ عالیہ پر لوگوں میں کشمیر کا تذکرہ زندہ رکھنے کیلئے  کشمیر ہاؤس کے نام سے ایک دیدہ زیب عمارت قائم کی گئی ہے جو دیکھنے والوں کو کشمیریوں سے محبت کی یاد تازہ کرتی ہے اور سلطان الفقر کی تحریک کی کشمیر سے محبت کی عملی مثال ہے- یہ عمارت کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا بہترین اظہار ہے-اس کے علاوہ فلسطین و جو نا گڑھ ہاؤس کے نام سے بھی عمارات تعمیرکی گئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپؒ کی کشمیر سے بالخصوص اور امتِ مسلمہ کے دیگر مسائل سے بھی  کمٹمنٹ غیر متزلزل تھی اور آئندہ نسلوں کیلئے سبق ہے کہ اپنی میراث کا تحفظ کیسے کیا جائے-

خلاصہ کلام یہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے مملکتِ خداداد میں شاید ہی کوئی ایسی تحریک ہو جس نے مسئلہ کشمیر کیلئے اس قدر پر امن طریقے سے آواز بلند کی اور عوامی سطح پر اس مسئلے کی اہمیت و شعور اجاگر کیا ہو جو اس تحریک کی مسئلہ کشمیر سے غیر متزلزل کمٹمنٹ کا ثبوت ہے- عصرِ حاضر میں ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم ِ شبیریؒ‘‘ کےعملی پرچار کیلئے وقف اس تحریک کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود،امنِ عالم کا فروغ، احیائے دین کی تبلیغ، دنیا میں معرفت ِ الٰہی و عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کی شمع کو روشن کرنا اور بالخصوص اتحاد ِ امت ِ مسلمہ، استحکامِ پاکستان اور عالمِ اسلام کو درپیش روحانی و نظریاتی مسائل کے حل کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے-اللہ رب العزّت حکیم الاُمت حضرت علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اشعار کی مصداق اس تحریک کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے-آمین!

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الٰہ الا اللہ

٭٭٭



[1]( سلطا ن لفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے 1987ء میں اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی اور  1999ء  کے اواخر میں  عالمی تنظیم العارفین قائم فرمائی  -)

[2]( لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر                              دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور)

[3]( اِک فقر ہے شبّیری اِس فقر میں ہے میری                            میراثِ مسلمانی،سرمایہ شبّیری)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر