صدارت: صاحبزادہ سُلطان احمد علی
(چیئر مین ’’مسلم انسٹیٹیوٹ‘‘، چیف ایڈیٹر ’’ماہنامہ مرأة العارفین انٹرنیشنل‘‘، مرکزی سیکریٹری جنرل ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘)
مہمانانِ گرامی: (Panelists)
صوفی اللہ دتہ قادری :( دیرینہ و تحریکی ساتھی ،جھنگ)
مفتی محمد صدیق خان قادری:(صاحبِ نسبت-محقق و مدرس ، ضلع بھکر)
قاری محمد نصر اللہ : ( دیرینہ و تحریکی ساتھی، میانوالی)
ماڈریٹر: (Moderator)
آصف تنویر اعوان ایڈووکیٹ
ابتدائیہ کلمات از:
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
واجب الاحترام بھائیو، بزرگو، نوجوان ساتھیو! انتہائی قابل احترام پینل کے ممبران السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
سب سے پہلے ہم سب کو پاکستان کا 72 یوم آزادی اور حضور مرشدکریم سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کا 72 یوم ولادت دلی طور پر مبارک ہو- میں ایک بار پھر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین برانچ لاہور کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا اور آپ تمام ساتھیوں، نوجوانوں، بھائیوں اور بزرگوں کو شرکت کی دعوت دی-اس شاندار و پروقار تقریب کا سلسلہ ہمارے بھائی اور دوست، رانا تجمل حسین صاحب (مرحوم) جو ہم میں نہیں ہیں اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے،نے شروع کیا تھا جس کا بنیادی مقصد پاکستان اور ہمارے مرشد کریم سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کی فکر کو اجاگر کرنا اور بالخصوص ہم میں جنریشن گیپ کو اس محفل کے ذریعے ختم کرنا ہے-کیونکہ ہم نوجوان ساتھیوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ جنہوں نے بالمشافہ سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کی زیارت نہیں کی، آپ سے شرف ملاقات حاصل نہیں کیا؛ اور جن ساتھیوں نے کیا بھی ہے تو وہ اس وقت کم سن تھے-اس لئے ہمارے ساتھی جنہیں یہ سعادت و شرف نصیب رہا کہ وہ بانیٔ اصلاحی جماعت سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کی صحبت و خدمت میں تشریف فرما رہے، آپ کے اٹھنے، بیٹھنے، کلام کرنے، مسکرانے، تربیت فرمانے، گفتگو کرنے کو گہری نظر سے دیکھتے رہے، اُن ساتھیوں کا ہمارے ساتھ ہونا ہمارے لئے سعادت بھی ہے اور ایک عظیم موقع بھی ہوتا ہے کہ ہم ان کی زبان سے ان تجربات و کیفیات کو سیکھتے ہیں جو انہیں میسر رہے -کیونکہ جب یہ گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم اُس عہد اور زمانہ میں پہنچ گئے ہیں-بزبانِ حکیم الامت:
یادِ عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے |
اکسیر کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اکسیر کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ کوئی ایسی دوا جو کسی بیمار کو چھولے تو بیمار جسم شفاء یاب ہو جائے- دوسرا معنی وہ پارہ جو تانبے کو سونا بنا دے اسے بھی اکسیر کہتے ہیں- یعنی وہ اعلیٰ و حسین یادیں جنہوں نے میری روح کو معطر و منور کیا وہ میری خاک کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ جب کبھی میری خاک، خاک ہو کر بکھرنے لگتی ہے تو تابناک ماضی کی یادیں میری خاک کو سمیٹ کر سونا بنا دیتی ہیں-اس لئے زندگی کے اس اہم گوشے سے سیکھنے کا ہمارے لئے یہ ایک عظیم لمحہ و موقع ہوتا ہے جس میں ہم اپنے جسم کی تاریکی کو سونے کی تابانی اور چمک بخشتے ہیں-
اس سے پہلے پینل کچھ وسیع ہوتا تھا-اس مرتبہ ہم نے کوشش کی کہ پینل کو مختصر کیا جائے لیکن اس میں اُن ساتھیوں کو شامل کیا جائے جن کا حضور مرشد کریم کی ذات گرامی سے دیرینہ تعلق تھا ہی تھا بلکہ جنہوں نے اصلاحی جماعت کو اس کے پہلے دن سے دیکھنا شروع کیا- یعنی جس دن اصلاحی جماعت کا بیج کاشت کیا گیا یہ لوگ اس دن موجود تھے؛ بالخصوص صوفی اللہ دتّہ صاحب اور قاری نصر اللہ صاحب- صوفی صاحب ہمارے بزرگ ساتھی ہیں جوہمارے حضور دادا مرشد پاک شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) سے نسبت رکھتے ہیں- مجھے ان سے یہ خاص شرف حاصل ہے کہ 2000ء میں ہمیں مدرسہ کے بعدحضور مرشد کریم نے اپنے ساتھ رکھ لیا- مدرسہ سے چند برس تعلیم کے بعد میرا پہلاتربیتی سفرجو مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور کا تھا اس میں حضور مرشد کریم نے تربیت کی باضابطہ ڈیوٹی صوفی صاحب کے ذمہ لگائی اور میں نے جماعت کی پہلی تربیت جو باضابطہ تربیتی کورس میں دی جاتی ہے وہ صوفی صاحب سے حاصل کی؛ اس اعتبار سے صوفی صاحب میرے استادِ تربیت بھی ہیں اور ان کے ساتھ اس سفر کی ہماری بہت سی حسین اور خوبصورت یادیں وابستہ ہیں- ان کے ساتھ سفر کی خوبصورت یاد آپ کے ساتھ شیئر کرتاچلوں کہ ہم ایک دفعہ تھل کے سفر پہ گئے تو بہت شدید گرمی تھی، ہماری گاڑی بھی چھوٹی تھی، سامان زیادہ ہوتا تھا، پیچھے تین ساتھی ہوتے تھے، تو اکثر ٹیلوں میں گاڑی پھنس جاتی تھی- ہم بڑی کوشش کرتے تھے لیکن گاڑی نہیں نکلتی تھی-گاڑی کے پیچھے ایک سٹیکر لگا ہوا تھا جس پر لکھا ہوا تھا’’یاللہ! ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘؛ ایک دن صوفی صاحب نے کہا کہ یہ ساتھی ویسے ہی دھکا لگاتے رہتے ہیں لیکن گاڑی نہیں نکلتی-اس لئے جو بندہ بھی دھکا لگانے آئے پہلے اس سٹیکر کو پڑھے پھر دھکا لگائے گاڑی نکل جائے گی- مَیں سمجھتا ہوں کہ صوفی صاحب کی کرامت ہے کہ جب ہم یہ کَہ کہ ’’یاللہ! ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ دھکا لگاتے تو گاڑی نکل جاتی تھی-
ان کے ساتھ قاری محمد نصر اللہ صاحب ہیں جن کو یہ سعادت و شرف حاصل ہے کہ یہ طویل عرصہ سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کی ذاتی خدمت پہ معمور رہے، جب حضور مرشد کریم رمضان المبارک میں سفر میں ہوتے تھے تو آپ سفر میں بھی نمازِ جمعہ اور نمازِ تراویح قضا نہیں فرماتے تھے تو قاری صاحب نمازِ تراویح کی تلاوت بھی حضور مرشد کریم کے سامنے کرتے رہے اور کئی مرتبہ شکار میں جمعہ کا دن ہوتا تھا تو شکار گاہ میں بھی قاری صاحب جمعہ کی امامت فرماتے-اس کے علاوہ قاری صاحب سے جو عظیم ترین یاد وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ سروری قادری طریقت میں یعنی سلسلہ قادری میں سروری قادری سلسلہ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا طریق ہے، اس سروری قادری طریقت میں ہمارے مرشد کریم سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے ایک اجتہاد فرمایا ہے اور وہ اجتہاد یہ ہے کہ آپ نے شہبازِ عارفاں سید محمد بہادر علی شاہ صاحب قدس اللہ سرّہٗ کا کلام لائیو بیٹھ کر محفلِ سماع میں سنا جو استاد پٹھانے خان نے گایا تھا؛ وہ محفل جس مقام پہ ہوئی تھی وہ قاری نصر اللہ صاحب کے گھر کا صحن تھا- اس کےعلاوہ ان کو یہ شرف بھی نصیب ہے کہ حضور مرشد کریم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کی ظاہری حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں قاری محمد نصر اللہ صاحب حضور مرشد کریم کے ساتھ تھے-
تیسرے ہمارے ساتھی مفتی محمد صدیق خان قادری صاحب ہیں جن کے ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشل میں مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں- مفتی صاحب کا سپیشلائزڈ موضوعِ سخن ’’حدیث پاک‘‘ہے اور حدیث مبارک میں بالخصوص ’’اسماء الرجال‘‘اور ’’متقدمین آئمہ حدیث‘‘ہے-ان کے مضامین میں معرکۃ الآراء تحقیقات ہوتی ہیں- عام آدمی کو ان کےمضامین اس اعتبار سے پڑھنے چاہیےکہ آئمہ کرام کے احوال، مقام و مرتبے اور ان کے روحانی فیوض و برکات سے رہنمائی ملتی ہے- لیکن اگر آپ علمِ حدیث کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ان مضامین میں مفتی صاحب نہایت سادہ پیرائے میں کسی بحث کو الجھائے بغیر اس طرح ان سوالات کے جوابات دیتے ہیں کہ آدمی کے تمام عقدے حل ہو جاتے ہیں- ان کا گھرانہ عرصہ دراز سے دربارِ عالیہ سے منسوب ہے، دربارِ عالیہ حضرت سلطان باھوؒ کے مدرسہ میں زیرِ تعلیم رہے، حضور مرشد کریم کی زیارت کا بھی شرف نصیب ہے، ابھی بھی دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھو سلطان ضلع بھکر میں صدر مدرّس ہیں-
حضور مرشد کریم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے جس طرح تربیت فرمائی وہ عمومی طور پر ایسا انداز تھا کہ جس میں طالبانِ مولیٰ کی تربیت کی جاتی ہے- یعنی ایسے لوگ جو طالبِ مولیٰ نہیں ہوتے تھے یا راہِ سلوک، راہِ طلب کو نہیں سمجھتے تھے آپ نے ان کی تربیت کی رغبت بھی اسی طلبِ الٰہی کے معیار کی طرف دلائی- بعض دفعہ اس بات کو سمجھنا نئے آدمی کے لئے مشکل ہوتا ہے کہ طالب کی تربیت سے کیا مراد ہے؟ آپ اپنے ذہن میں چاردرجےبٹھا لیں:
|
پہلا درجہ منکر کا ہوتا ہے جو مانتا ہی نہیں،جو یقین ہی نہیں رکھتا، جو کسی چیز کا قائل ہی نہیں ہوتا، وہ چیز اس کے ایمان کا حصہ بھی نہیں ہوتی-دوسرا درجہ معتقد کا ہے، معتقد وہ ہوتا ہے جو عقیدت و یقین رکھتا ہے، احترام رکھتا ہے مگر اس احترام سے زیادہ اس کے فیض کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا-تیسرا درجہ مرید کا ہوتا ہے، جو مرید ہوتا ہے اس کے لئے اتنا کافی ہوتا ہے کہ وہ نسبت رکھتا ہےاور ضرورت کے وقت آتا جاتا ہے- ضرورت کی بھی کئی اقسام ہیں مثلاً؛ دعا کروانا، کسی مشکل و پریشانی میں ہے اس کے لئے رہنمائی لینایا نیک لوگوں سے قربت رکھنے کی جو صوفیانہ روایت ہے اس روایت میں آکر وہ نسبت رکھتا ہے یعنی دربار شریف پہ آتا ہے، فاتحہ و دعاپڑھتا ہے اور چلا جاتا ہے، چند بنیادی اذکار اور وظائف وغیرہ لے لیتا ہے جی چاہا تو پڑھ لئے- رابطہ رکھنے میں بھی زیادہ پابند نہیں ہوتا- چوتھا درجہ طالب کا ہے-یاد رکھیں! کہ بعض دفعہ یوں ہوتا ہے کہ طالب مرید نہیں ہوتا مگر محبوبیت و قربت میں وہ مرید سے بلند مقام پہ ہوتا ہے- طالب اور مرید میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مرید کیلئے بہت سی سہولیات ہوتی ہیں- مَیں نے کئی ایسے ساتھی دیکھے ہیں جو تربیت کے لئے آتے یا اظہار کرتے تھے تو حضور مرشد کریم انہیں فرماتے تھے کہ بیٹا آپ کی تربیت یہی ہے کہ آپ جائیں اور اپنے والدین کے ساتھ رہیں- اس طریق کی مثالیں صحابہ کرام اور اولیاء اللہ سے بھی ملتی ہیں یعنی حضور مرشدکریم کی خدمت میں بھی یہی معاملہ تھا کہ آپ مریدین کو فرماتے کہ بیٹا گھر جائیں، وہی رہیں اور وہی رہ کر آپ جو جماعت کے لئے کرنا چاہتے ہیں کریں یہ آپ کی خدمت ہے-یعنی مرید کے پاس چوائس ہے کہ وہ چاہے تو والدین کے پاس رہے اور چاہے تو مرشد کی بارگاہ میں آجائے-اگر کہیں کچھ قربانی دینے کا موقعہ آیا بھی ہے تو اس کے لئے یہ گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اس قربانی میں بھر پور طریقے سے شامل نہ بھی ہو تو بھی وہ اپنے درجے کے انعامات سے محروم نہیں ہوتا- لیکن طالب کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، طالب کیلئے مرشد کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہیں ہوتی-اس لیے جو مرید کے لئے سہولتیں ہیں جب وہ طالب کی کیٹیگری میں آتا ہے تو اس کے لئے وہ آسانیاں ختم اور آزمائشیں شروع ہوجاتی ہیں اور وہ ایک نئی دنیا میں آجاتا ہے- یہ سوچنا بھی اس کے زوال کا موجب ہوتا ہے کہ میرے سامنے دو انتخاب ہیں؛ میرے والدین اور میرے مرشد کریم-یعنی اس کے پاس سوچنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی اس کا فیصلہ واضح ہوتا ہے کہ وہ مرشد کریم کی بارگاہ میں رہے گا-
اسی طرح معتقد، مرید اور طالب کی تربیت میں بھی فرق ہوتا ہے-معتقد کی ترتیب بہت عمومی ہوتی ہے اس کے لئے جیسے ظاہری مسائل ہیں، لطف و پیار کی باتیں ہیں، عقیدے کی بات ہے، بعض چھوٹے چھوٹے مسائل جیسے معاشرت ہے، امن و برداشت ہے اخلاق و معاملات کی بنیادی باتیں ہیں، یہ سب چیزیں معتقد کی تربیت کا حصہ ہوتی ہیں-مرید کی تربیت میں کچھ بنیادی تسبیحات اور اذکار آجاتے ہیں، اس کے علاوہ اس کیلئے جن روحانی امور میں وہ رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ آجاتی ہیں- لیکن طالبِ مولیٰ کی تربیت کے لوازمات بالکل مختلف ہوتے ہیں اور ہر مرشد یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ طالب کی تربیت کر سکے- حضور مرشد کریم حضرت سخی سلطان محمد اصغرعلی (قدس اللہ سرّہٗ) نے اس طریق سے تربیت فرمائی کہ جوطالبِ مولیٰ نہیں بھی ہوتا تھا آپؒ اس کو اپنے چند لمحوں کی صحبت میں رکھ کر اس کے دل میں طلبِ الٰہی کا بیج کاشت فرما دیتے-یعنی ایک آدمی جو طلبِ الٰہی کی نیت سے ہی نہیں آیا لیکن جب وہ آیا اور بارگاہ فقر سے فیض یاب ہو کر گیا تو وہ دو مختلف شخصیتیں تھیں-
آج بھی میرے اپنے جتنے ساتھی ملتے ہیں بالخصوص جو تربیت یافتہ ہیں اور جو ان بنیادی چیزوں کو تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ کئی معاملات میں خاص کر جب اپنے ذاتی معاملات میں سوالات کرتے ہیں تو مَیں ان سے ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ سب سے پہلے آپ اپنی پوزیشن ڈکلیئر کریں کہ آپ کس کیٹیگری میں آتے ہیں کیونکہ جب آپ اپنی کیٹیگری کا انتخاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مَیں مرید ہوں مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے پھر آپ کے بہت سے سوالات وہیں پر ختم ہو جاتے ہیں- لیکن جب آپ اپنا انتخاب مرید کے طور پر کرتے ہیں اور سوال ان انعامات کا کرتے ہیں جو طالب کیلئے ہوتے ہیں تو وہاں آپ کے لئے الجھن پیدا ہوتی ہے- اس لئے اپنی پوزیشن کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اور یہ یاد رکھیں کہ جو دعویٰ طلب نہیں رکھتا، صرف ارادت رکھتا ہے اس کے لئے بھی انعامات کم نہیں ہوتے اس کے انعامات کا شمار بھی کم نہیں ہے لیکن جب وہ طالب سمجھ کر اُن انعامات کی توقع رکھتا ہے تو پھر اس کے لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اندر وہ اوصاف بھی پیدا کرے- بقول حکیم الامت:
آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور |
’’وہ بلند ہمت سوزِ جگر لے کر آو باپ کی تلوار اٹھا کر لڑنا چاہتے ہو پہلے باپ والا بازو لے کر آو‘‘-
یعنی اگر انعام طالب والا چاہتے ہو تو پھر اپنے صدق کا معیار بھی وہ لے کر آؤ جو طالب کا ہوتا ہے؛ قربانی کا جذبہ بھی وہ لے کر آؤ جو طالب کاہوتا ہے-مرشد کی بارگاہ میں طالب کا سب سے بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ اس کی مَیں ختم ہو جاتی ہے-جب مَیں ختم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو ہر فرمان کے مطابق ڈھالنے کا اہل ہوجاتا ہے یعنی موم ہو جاتا ہے- مثلاً ایک اصول آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں کہ جب آپ سواری کرتے ہیں، سواری میں گھوڑے کی نیت صحیح کرنےکا طریق یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے گھوڑے کو یہ پتا ہو کہ میری مرضی نہیں ہے سوارکی مرضی ہے- جب تک گھوڑا اس اصول پر تیار نہیں ہوتا کہ مَیں نے سوار کی مرضی پر چلنا ہے تب تک وہ گھوڑا ایک اچھا نیزہ باز اور چال باز گھوڑا نہیں بن سکتا-اس لئے سب سے پہلے سوار گھوڑے کو سکھاتا ہی یہی ہے کہ تم نے میری انگلی کی سمت کو فالو کرنا ہے کہ جدھر میرا ارادہ بنے تم نے ادھر مڑنا ہے، ادھر بھاگنا ہے، ادھر رکنا ہے- جس کے لئے وہ یہ دیکھتا ہے کہ گھوڑا ان راستوں میں کہاں مڑنا چاہتا ہے اور پھر گھوڑے کواس کی مرضی کے خلاف موڑتا ہے- جیسا کہ مولانا رومیؒ اپنے سالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
ای بو العلا ای بو العلا مومی تو اندر کف ما |
’’اے ابو العلیٰ! اے ابو العلیٰ! تو میرے ہاتھ میں موم کی طرح ہے اگر تو خنجر بننا چاہے گا تو میں تجھےساغر بنادوں گا اور اگر تو ساغر بننا چاہے گا تو میں تمہیں خنجر بنادوں گا‘‘-
یعنی مرشد طالب کو اپنی مرضی پر تشکیل کرتا ہے اور جب طالب اپنی مرضی کو ختم کر کے مرشد کی مرضی پہ راضی ہوجاتا ہے تو بزبانِ میرزا عبد القادر بیدل دہلویؒ:
ترکِ آرزو کردم رنجِ ہستی آسان شد |
’’مَیں نے اپنی آرزو کو چھوڑ دیا اور زندگی کے سارے دکھ ختم ہوگئے،جب پرندے نے اڑنے کی تمنا کو ختم کر دیا تو پرندہ کاپنجرہ اس کے لئے گلستان بن گیا ‘‘-
میرزا عبد القادر بیدل دہلویؒ کا یہ کلام اس کہانی کا ترجمان ہے کہ ایک شخص کہیں سے گزرا اس نے دیکھا کہ ایک پنجرہ میں پرندہ قید تھا جس میں وہ نیانیا آیا تھا- اس کی کلغی زخمی، چونچ، دم، پنجے، سینہ، گردن زخمی ہے- بندہ بڑا حیران ہوا اور اس نے اس کے مالک سے پوچھا کہ اس کو کیا مسئلہ ہوا ہے؟ پرندہ کے مالک نے کہا کہ یہ پرندہ پنجرہ میں نیا نیا آیا ہے اس لئے یہ پنجرہ سے آزادہونے کی کوشش کرتا ہے- اپنی مرضی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی چونچ مارتاہے، کبھی کلغی مارتا ہے ، کبھی سینہ مارتا ہے، کبھی دُم مارتا ہے، کبھی پنجے مارتا ہے تاکہ یہ پنجرہ ٹوٹ جائے لیکن بیچارے پرندہ کی کیا مجال کہ شکاری کا پنجرہ توڑ سکے -کچھ دن بعد اس آدمی کا وہاں سے دوبارہ گزر ہوا اور اُس نے دیکھا کہ اُسی پرندہ کی کلغی بھی ٹھیک، دم بھی ٹھیک،سینہ بھی ٹھیک، پنجے بھی ٹھیک، چونچ بھی ٹھیک تو اس نے پھر حیرانگی سے اس کے مالک سے پوچھا کہ اب یہ پرندہ ٹھیک لگ رہاہے، پانی بھی ٹھیک پی رہا ہے اور وہ خوراک جو اس کے پنجرےمیں ڈالی جارہی ہے وہ بھی ٹھیک کھا رہا ہے- اس کی وجہ کیا ہے؟ اس نےکہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس نے اپنی مرضی کو ترک کر کے میری مرضی کو قبول کر لیا ہے-کیونکہ جب تک اپنی مرضی تھی تو وجود کا ہر ہر حصہ زخمی تھا لیکن جب میری مرضی پہ آگیا تو اب وہی قفس اس کے لئے گلستاں بن گیا ہے- اس لئے سب سے پہلے طالب کو اپنی تمناؤں کو چھوڑنا پڑتا ہے اورخود کو مرشد کی رضا، اس کی خواہش و ارادے کے تابع کرنا پڑتا ہے – کیونکہ بزبانِ مولانا رومیؒ:
از بہاراں کے شود سر سبز سنگ؟ |
’’ہزاروں بہاریں گزر جائیں کیا پتھر پہ پھول اگ سکتے ہیں؟ لیکن اگر(پتھر) خاک بن جائے تو اس خاک سے رنگ برنگے پھول اگ سکتے ہیں‘‘-
یعنی اب یہ طالب کی مرضی ہے کہ وہ پتھر بنتا ہے یا مٹی-پتھر سختی کی علامت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ ‘‘ ، ’’ان کےدل پتھروں کی طرح سخت ہیں‘‘-
جبکہ مٹی ہونے سے مرادیہ ہے کہ طالب مٹی کی طرح اپنا آپ مرشد کے حوالے کر دے- جب طالب مرشد کے سامنے خود کو مٹی کی طرح پیش کرتا ہے تو پھر مرشد مٹی سے رنگ برنگے پھول نکالتاہے-
اس لئے اصل چیز عاجزی و انکساری ہے، اس کی صحبت میں اس کے قدموں میں بیٹھنا ہے- قدموں میں بیٹھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی فاتح کی طرح اپنے قدموں کے نیچے لٹا کر انسانی دھڑوں کو روندتا ہوا آگے نکل جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے طالب مرشد کے آگے اپنی مَیں کو قربان کر دے- صحبت میں بیٹھنا ایک پرانا دستور تھا کہ جب شاگرد استاد کے پاس سیکھنے جاتا تھا تو وہ زانووں کے بل بیٹھتا تھا-اکثر اردو زبان میں آپ یہ سنتے اور پڑھتے بھی ہوں گے کہ انہوں نے فلاں جگہ زانوئے تلمذ تَہ کیا-یعنی شاگردی کے لئے اپنے زانوں کو لپیٹ کر اس کے سامنے بیٹھے- جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے کہ جبرائیل امین (علیہ السلام)جب سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ اپنے زانوں حضور نبی کریم (ﷺ) کے زانوں سے ملا کر بیٹھتے ہیں؛ اسے کہتے ہیں زانوئے تلمذ تَہ کرنا-بزبانِ امام احمد رضا خان بریلویؒ:
انبیاء تَہ کریں زانو اُن کے حضور |
تصوف میں زانوں تَہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ خود کو اس کے قدموں میں یوں بٹھا دینا کہ اس استادِ ازل سے آپ سیکھ سکیں جس نے مرشد کو اپنے تک آنےکا وسیلہ بنایا ہے-کیونکہ یہ وہ بنیادی اصول ہے جو حضور مرشد کریم سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تربیت و صحبت اور نظر کرم سے ہم سب کو سکھایا ہے-اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ اصول صحیح طرح سیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے-
ماڈریٹر:
صاحبِ صدر نے نہایت خوبصورت گفتگو فرماتے ہوئے فصاحت و بلاغت سے نشست کے اغراض و مقاصد بیان فرمائے اور ہمیں ایک وژن و مقصد بتایا ہے کہ جس کے مطابق ہم اپنی پوری زندگی گزار سکتے ہیں- اب مہمانانِ گرامی جن کا تعارف ہو چکا، اُن میں سے جناب صوفی اللہ دتہ قادری صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات سے آگاہ کریں-
صوفی اللہ دتہ قادری صاحب:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
و- وکا گئی آں تیرے نام پچھے |
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
جب تک بکا نہ تھا تو کوئی پوچھتا نہ تھا |
حضور مرشد کریم کا عطا کردہ جملہ مبارک آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:
ژ- ژالہ خاص حضور جمال والا پیا وسدا جگ چودھار بیلی |
یومِ سلطان الفقر کےحوالے سے حضور مرشد کریم کی نگاہ کرم سے فقر کے بارے میں کچھ گزارشات عرض کرنا چاہوں گا کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’الفقر و فخری و الفقر منی‘‘
’’فقر پر مجھے فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘-
فقرِ محمدی (ﷺ) انتہاء درجہ کی حقیقت ہے جس پر خود سرکارِ دو عالم (ﷺ) نے فخر فرمایا - فقر خدا کاعکسِ جلال و جمال ہے، فقر کی حقیقت لازوال ہے، فقر تمام جہانوں کے لئے آفتا ب کی طرح فیض بخش و فیض رَساں ہے- فقر تقلید سے نکلنا اور تحریر میں آنا، حکایت سے نکلنا اور ہدایت میں آنا، غنایت سے نکلنا اور عنایت میں آنا، ہدایت سے بڑھ کر نور الھدیٰ ہونا، خواہش سے نکلنا اور لا یحتاج ہوجانا جس کے بارے میں حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:
لَایُحْتَاجْ جِنہاں نُوں ہویا فَقر تنہاں نوں سارا ھو |
عزیزانِ گرامی! اس عاجز کو حضور سُلطان الفقر (قدس اللہ سرّہٗ) کی صحبت 1981ء سے نصیب ہے آپ کے کرم سے جب آپؒ کی صحبت نصیب ہوئی تو اس صحبت مبارک کا یہ اثر تھا کہ اگر مَیں دس دن کاروبار کرتا تو 20 دن حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں ہوتا- اگر 15دن کاروبار کرتا تو 15 دن حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں ہوتا-یہ گزارشات جماعت پاک کے عمل میں آنے سے پہلے کی ہیں-اسی دوران آپؒ کی رفاقت میں سفر کرنے کا شرف نصیب ہوا- جیسا کہ حضور شہزادہ سلطان الفقر فرما رہے تھے کہ اکثر شکاروں میں جماعتیں ہوتیں؛سفر اکثر گھوڑوں پر ہوتا، جب ہم حضور مرشد کریم کی رفاقت میں کَھمبی سے کھوہار آتے تو راستے میں ایک چھوٹی سی ندی آتی تھی ہم اکثر اس کے کنارے پر نماز ادا کیا کرتے تھے-حضور مرشد کریم فرماتے کہ صوفی صاحب چادر بچھاؤ اور جماعت کرواؤ؛ اذان پڑھی جاتی پھر نماز ہوتی اور کھمبی سے لے کر کھوہار تک ذکرپاک ہوتا- یعنی ’’اللہُ‘‘، ’’ ھُو‘‘ کا ذکر کیا جاتا-اگر بندہ اس ذکر پاک پرتھوڑا غور کرے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک اعلان تھا جو سمجھنے والے سمجھ جاتے تھے- کیونکہ جو ’’ھُو‘‘ کی طرز ہے اس پر غور کیا جائے تو پنجابی زبان میں دور تک آواز پہنچانے کے لئے ھو کیا جاتا ہے-اس لئے یہ اس بات کا اعلان تھا کہ کیا کوئی فقر کا طالب ہے؟ کیا کوئی اس ذات کا متلاشی ہے؟ تو آؤ اس کے فیض سے فیض یاب ہوجاؤ- پھر اسی طرح اکثر شکاروں کے سفر میں پہاڑی علاقہ اور جنگل سے گزر ہوتا جس میں میاں محمد معین الحق صاحب بھی ساتھ ہوتے-ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سفر کے دوران ایسی جگہ سے گزر ہوا کہ جہاں پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا تو آپؒ نے فرمایا کہ صوفی صاحب پانی کا کوئی انتظام ہے اور نماز کا وقت جارہا ہے-کیونکہ جو صاحب فقر ہوتا ہے اس کی ابتداء بھی شریعت ہوتی ہے اور انتہاء بھی شریعت- جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
ہر مراتب از شریعت یافتم |
’’مَیں نے ہر مرتبہ شریعت ہی سے حاصل کیا اور شریعت ہی کو اپنا راہبر بنائے رکھا‘‘-
حضور مرشد کریم جہاں بھی سفر میں ہوتے ہم اکثر ساتھ ہوتے اور ہمیں یہ حکم ہوتا کہ ہم نماز کے وقت کا بتائیں-
اکثر ساتھی مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ تو کہتے ہیں کہ پَل بھر میں تربیت ہو جاتی ہے لیکن ہمیں تو تربیت گاہ میں تین سے چار ماہ لگتے ہیں؛ اس کے جواب میں مَیں اکثر ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ مَیں آپ سے اپنی تربیت کے بارے میں عرض کرتا ہوں پھر آپ موازنہ کر لینا کہ دیر کیوں لگتی ہے-23 فروری 1987ء میں ناچیز حضور مرشد کریم شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب قدس اللہ سرّہٗ کے عرس پاک پہ حاضر ہوا اور حضور مرشد کریم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی بارگاہ میں حاضری نصیب ہوئی-آپؒ نے فرمایا کہ ابھی آپ گھر جائیں اور ساتھیوں کو لے کر آئیں کہ جماعت تیار کرنی ہے- مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ جماعت کیسی ہوگی؟ کیونکہ مَیں نے کبھی تبلیغی جماعت کے ساتھ سفر بھی نہیں کیا تھا- یہ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ ہمیں تین تین ماہ کیوں تربیت کرنی پڑتی ہے آپ کہتے ہیں کہ چند منٹ لگے تھے تو تربیت ہوگئی تھی- ہم اس وقت چند پیر بھائی تھے اب تو پیر بھائیوں کی تعداد ایک شہر کی صورت اختیار کر گئی ہے؛ جب میں نے حضور مرشد کریم کا پیغام پیش کیا تو کسی نے کوئی مجبوری ظاہر کی، کسی نے کوئی، یعنی کوئی تیار نہ ہو سکا-27 فروری کو مَیں آپؒ کی بارگاہ میں پہنچا، شام کا وقت تھا، اس وقت کچےحجرہ مبارک ہوا کرتے تھے، جیسے ہی مَیں دروازے سے داخل ہونے لگا، ابھی سلام عرض نہیں کیا، مِلا بھی نہیں، دست بوسی بھی نہیں کی اور آپؒ نے اپنا رخِ مبارک ناچیز کی طرف کیا اور فرمایا صوفی صاحب آگئے ہو؟ میں نے عرض کی جی حضور آگیا ہوں- آپؒ نےپوچھا کوئی ساتھی آیا ہے مَیں نے عرض کی حضور مجبوریاں ظاہر کی ہیں کوئی آنہیں سکا-
اگر میں اپنے بارے میں کچھ بتاؤں تو زیادہ تر ساتھیوں کو نہیں پتا ہوگا کہ مَیں ایک کاروباری آدمی تھا پرائمری پاس ہوں، بچپن میں قرآن پاک ایک مائی صاحبہ سے پڑھا تھا، آپ کے اس لاہور شہر میں بکرے بیچا کرتا تھا،( 1973ء سے لے کر 1977ء جب بھٹو پر اٹیک ہوا تو مَیں آخری بار بکرے بیچ کر گھر پہنچا ) حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپؒ نے فرمایا صوفی صاحب جماعت کے لئے کوئی ساتھی نہیں آیا تو آپ کا کیا خیال ہے؟مَیں نے عرض کی حضور! یہ جان حاضر ہے پہاڑوں، جنگلوں،دریاؤں میں حکم دیں تو آپؒ نےفرمایا کہ پھر دیکھ کیا رہے ہو آگے آجاؤ یہ جان ہی کافی ہے-
میرے عزیزو! ہم اس وقت چار آدمی تھے اور پانچواں صرف خدا-حضور مرشد کریم کا رخِ انور شہبازِ عارفاں حضرت سلطان بہادر علی شاہ صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کے مزار مبارک کی طرف ہوا اور آپؒ نے فرمایا نیازی صاحب تربیتی پمفلٹ پڑھ کر سناؤ- پہلے ہمیں کوئی خبر نہیں تھی کہ کیا ہونے والا تھا؛ حاجی احمد خان کھمبی والے، ایک ساتھی اور تھے اور تیسرا یہ عاجز - زیرِ تربیت نیازی صاحب نے چار دفعہ پمفلٹ پڑھ کر سنایا اور حضور مرشد کریم نے کرم فرمایا کہ آپ نے سب سے پہلے میری طرف انگلی مبارک کی اور فرمایا صوفی صاحب آپ صدر ہیں- مَیں نے عرض کی حضور میں نے کیا کرنا ہے؟ آپ نے فرمایا تبلیغ کرنی ہے؛ لوگوں کو دعوتِ الی اللہ دینی ہے- مَیں نے عرض کی حضور مجھے تو پڑھنا لکھنا نہیں آتا مَیں تو بکرے بیچتا ہوں- آپؒ نے فرمایا آپ کے ذمہ پڑھنا نہیں ہے یہ ڈھانچہ آپ کا ہوگا بولنے والا خود ہی بولتا رہے گا-اس کے بعد حضور مرشد کریم ہمیں محل شریف میں لے گئے اور ہمارے لئے دعا فرمائی-شروع سے آج تک جماعت کی یہ ترتیب مبارک ہے کہ دورانِ جماعتی ٹور کے کسی ساتھی کے جیب میں کوئی رقم نہیں ہوتی سب توکل علی اللہ پر چلتے ہیں-اسی ترتیب میں ہم چار آدمی جماعت لے کر چلے تو راستے میں ہمیں ہمارے پیر بھائی حاجی علی خان بلوچ صاحب ملے جو ہمیں حاجیوں کے ڈیرے پر لے گئے وہاں تقریر کرنی تھی اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ مَیں نے کیا بات کرنی ہے، مَیں نےوہی چار صفحوں کا پمفلٹ پڑھ کر سنا دیا، پروگرام ہوا دعا ہوگئی- جب صبح کی نماز پڑھی تو مَیں نے صوفی غلام شبیر صاحب جو اُس وقت بھی ہمارے ساتھ تھے،سے کہا غلام شبیر میں نے رات کو ایک طرح کا کفر کیاہے؟انہوں نے کہا صوفی صاحب خیر تو ہے کونسا کفر کیا ہے؟ مَیں نے کہا جو مَیں نے پمفلٹ پڑھا ہے وہ میرے لئے ایک طرح کا کفر ہو گیا ہے- کہتے ہیں جناب آپ نے تو قرآن و حدیث پڑھا ہے، یہ آپ کیا کَہ رہے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ حضور مرشد کریم نے مجھے فرمایا تھا کہ میں نے پڑھنا نہیں ہے بولنے والا خود ہی بول لے گا تو پھر میں نے کیوں پڑھا ہے؟ جاؤ اس پمفلٹ کو جا کر بیگ میں رکھ دو، بولنے والے کی مرضی ہوئی تو رات کو تقریر کروالے نہیں تو یہ عاجز واپس جا کر بکرے فروخت کرے گااور یہ تمام دیرینہ ساتھی گواہ ہیں کہ اُس رات مَیں نے بغیر پمفلٹ پڑھے ڈیڑھ گھنٹہ اللہ پاک کی محبت اور آقا پاک کی اطاعت کی دعوت پیش کی-
کامل مرشد کی نگاہ ہر وقت طالب کے دل پہ ہوتی ہے اس لئے جب ہم 15 دن جماعت پاک کیلئے جاتے تو حضور مرشد کریم باطنی طور پہ ہمارے گھروں میں دورہ فرماتے اور جو مشکل و پریشانی درپیش ہوتی اس کو حل فرماتے جیسا کہ حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں:
خوف نہیں طالباں صادقاں نوں جیندا پیر اکمل دستگیر ہووے |
فقر کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جا سکتا ہے لیکن اِس زبان میں وہ طاقت نہیں کے بیان کر سکے-لیکن پھر سلطان الفقر کے کرم سے وہ وقت آیا جب ساتھی اکٹھےہوئے اور جماعتیں چلائی گئیں- جس طرح پہلے ذکر کیا کہ حضور مرشد کریم نے ہمیں توکل کی تعلیم دی اور جس کے باعث ہمارے پاس نہ کچھ رقم تھی اور نہ ہی کچھ کھانے پینے کا سامان ہوتا تھا-ہمارے ذہنوں میں یہی ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھو وہ خود ہی کوئی سبب پیدا فرما دے گا-یہاں آپ لوگوں سے اپنی زندگی کا ایک خوبصورت واقعہ شیئر کرنا چاہوں گا کہ مالک پاک نے کس طرح ہمارے لئے سبب پیدا فرمایا:
’’ایک دفعہ سفر کے دوران ہمارا ایک گاؤ ں سے گزر ہوا تو راستے میں کچھ لوگ پھول لے کر آرہے تھے، ہم اس وقت چار آدمی تھے، دیکھا تو راستے میں ایک مرد اور ایک عورت کھڑے ہیں، انہوں نے پوچھا کہ بھائی آپ کہاں سےآئے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں؟ جب ہم نے جماعت کاتعارف کروایا تو واللہ! ان لوگوں نےکہا کہ ہم تیسری بار ادھر آ رہے ہیں، گھر جاتے ہیں تو ہمارے اندر ایک ہل چل سی مچ جاتی ہے کیونکہ ہمیں آج صبح سے انتظار تھا کہ ہمارے گھر میں مہمانوں نے آنا ہے لیکن یہاں آتے تو کوئی نظر نہ آتا؛ اب آپ آئیں ہیں تو ہمارے دلوں کو سکون نصیب ہوا ہے آپ ہمارے گھر چلیں ہم نے آپ کے لئے قیام و طعام کا انتظام کیا ہے-میرے عزیزو! ہم نے جماعت پاک کے جتنے بھی سفر کیے ایک دن بھی مسجد میں رات نہیں گزاری اور نہ کسی سے کہا کہ ہمارے لئے قیام و طعام کا انتظام کرو-ہم جہاں بھی جاتے لوگ پہلے ہی سے ہمارے لئے سب انتظام کر کے ہمارا انتظار کررہے ہوتے تھے‘‘-
اس واقعہ کے بعد ہمیں یہ یقین ہوا کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں اس کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے نکلتے ہیں تو وہ خود ہی اپنے بندوں کے لئے سبب پیدا فرمادیتا ہے-اس یقین کا ہمارے دلوں میں پیدا ہونا ہمارے حضور مرشد کریم کی بارگاہ کا فیض تھا جن سے ہمارے دل فیض یاب ہوئے-کیونکہ تاریخ انسانی میں کوئی ایسی سلطان الفقر ہستی نہیں گزری جس نے ’’اسم اللہ ذات‘‘ کو عوام الناس میں اس طرح عام کیا ہو-اس لئے اگر آپؒ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے توآپؒ کی زندگی آپؒ کے کلام کے عین مطابق گزری ہے کہ:
’’چہ مسلم، چہ کافر، چہ زندہ، چہ مردہ، چہ بے نصیب، چہ بانصیب‘‘
یعنی آپؒ کی بارگاہ میں جو آیا چاہے وہ مسلم ہویا کافر، چاہے زندہ دل ہو یا مردہ دل، چاہے بے نصیب ہو یا بانصیب آپ سب کو دولتِ ایمان اور دعوت الی اللہ سے نوازتے، خوش بختوں کو اسم اعظم کی لازوال دولت سے مالا مال فرماتے-مَیں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کر کے بھی آیا ہے تو آپؒ کی لجپالی کا یہ عالم تھا کہ آپؒ فرماتے بیٹا بڑا مسلمان ہے بھائی اس کے لئے سونے سے لکھا ہوا اسم اللہ ذات لےآؤ- کیونکہ سلطان الفقر ہستی لایحتاج ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس کو یہ طاقت عطا کی ہوتی ہے کہ وہ جس پہ چاہے نظر کرکےاس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا قرب بخش دے-یہی وجہ ہے کہ جب جماعت چلی تو اس کا اثر یہ ہوا کہ سُلطان الفقر کی نگاہِ فقر سے فیض یاب ہونے والے غلاموں نے سنتِ بلالیؓ کے مطابق چشم عالم کا مشاہدہ کیا اور جب علماء کرام کو فکرِ سُلطان الفقر کا مطالعہ نصیب ہوا تو وہ زار و قطا ر روتے ہوئے چلنے لگے کہ جس کا ہمارے سامنے اعلان ہوا تھا کہ :
دلبر ہے بَر میں الحمد للہ |
کیونکہ یہ وہ کرم تھا جو طالبان حق کو صورت سُلطان الفقر میں نصیب ہواتھا-بزبانِ حکیم الامت:
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست |
حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب قدس اللہ سرّہٗ نے بھی قبل ظہور سُلطان الفقر کی ذاتِ گرامی کے متعلق فرمایا کہ:
عشق دا مکتب کھولیا ہے سلطانؒ سوہنے عالیشان سائیں |
فقر کی مزید وضاحت میں یہاں ایک چیز بیان کرنا چاہوں گا کہ آپ اکثر ایک جملہ سنتے ہوں گے کہ:
’’پھلا وے گلاب دیا تینوں میں سانبھ رکھاں میرے ماہی دے باغ دیا‘‘-
یہ پنجابی کا وہ جملہ ہے جو حضور پیر صاحب قدس اللہ سرّہٗ اپنے طالب و محبوب حضرت سلطان عبد العزیز ؒ کیلئے فرماتے-اس پہ غور کیا جائے تو جو چیز سنبھال کے رکھی جاتی ہے وہ کسی کیلئے ہوتی ہے یعنی وہ امانت ہوتی ہے-وہ امانت سُلطان الفقر کی آمد کی نوید تھی جس کو پھول سے تشبیہ دی گئی حالانکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کے بعد افضل الناس سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) ہیں لیکن سلطان العارفین قد س اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ فقر کی رِیت مولا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے شروع ہوئی-اس لئے اس جلوہ کا ظہور تا قیامت رہے گا کیونکہ میرے مرشد کریم سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کے سر مبارک پہ فقر کی وہ دستار ہے جو دستار سینہ بہ سینہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے عطا ہوئی تھی- اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور مرشد کریم کی تعلیمات کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو!
صدرِ محفل:
صوفی صاحب نے دستارِ فقر کا ذکر کیا جو سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ نے وصال مبارک سے قبل حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کو عطا فرمائی تھی- جس وقت دستار مبارک والا واقعہ پیش آیا تو چند خوش نصیب ساتھیوں میں قاری محمد نصراللہ صاحب اورصوفی اللہ دتہ صاحب کے ساتھ ناچیز کو بھی وہاں موجود ہونے کی سعادت حاصل ہوئی- بعض دفعہ کئی واقعات ایسے ہوتے جو آپ نے سنے ہوتے ہیں، آپ کے علم میں ہوتے ہیں لیکن کسی سے سُننا اور بات ہوتی ہے اور عینی شاہد سے سُننا اور بات- اس لئے مَیں صوفی اللہ دتہ صاحب سے عرض کروں گا کہ وہ واقعہ اپنی زبان سے سنا دیں تاکہ ساتھیوں کے لیے سند قائم ہوجائے -
صوفی اللہ دتہ قادری صاحب:
دربارِ سلطان العارفین پہ ترتیب مبارک ہے کہ وہاں 12-13 اپریل کو اصلاحی جماعت کے زیر اہتمام سالانہ مرکزی اجتماع میلادِ مصطفےٰ و حق باھو کانفرنس منعقد کی جاتی ہے-دستارِ فقر کی منتقلی کا واقعہ 12 -13 اپریل 2003ء کے فوری بعد پیش آیا- مجھے یاد ہے کہ حاجی محمد نواز صاحب، قبلہ نیازی صاحب،قادری صاحب، قاری صاحب اور ناچیز ہم محل شریف میں جمع ہوئے-بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ نے جب جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کو بیعت فرمایا تو مَیں آپؒ کے دائیں طرف کھڑا تھا اور آپؒ کا رخِ انور بھی ہماری طرف تھا،آپؒ نے فرمایا میرے مرشد کریم آقا دو جہاں(ﷺ) کی بارگاہ سے فقر کا خزانہ مجھ تک پہنچا ہے میں نے وہی دستار (خزانہ) حضرت سلطان محمد علی صاحب کو عطا کر دیا ہےاور فقرِ محمدی (ﷺ) کی دستار ان کے سر مبارک پہ رکھ دی ہے- آج کے بعد جماعت پاک، تنظیم، گھوڑوں پاک اور دربار پاک کےجتنے بھی معاملات ہیں سب کے وارث سلطان محمد علی صاحب ہیں-
دوسری بات ہمارے گھر میں حضور مرشد کریم کی دعوت کے لیے اہتمام ہو رہا تھا جس میں تعمیراتی کام بھی ہو رہا تھا، آپ کا واش روم علیحدہ بنایا، مہمانوں کیلیے علیحدہ بنایا، لیکن ابھی کام مکمل نہیں ہوئے تھے آپؒ کا وصال مبارک ہو گیا- اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو خوش رکھے یہ غسل دے رہے تھے، مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی- جب ہم واپس گھر گئے تو آپ سوچیں!کہ ہم کس حال میں گئے ہوں گے؟ کھانا پینا کیسے یاد رہا ہو گا؟ ہمارا یہ عالم تھا کہ ہر چیز بھول گئےتھے، آپکی یاد میں روتے روتے سو جاتے تھے-تاریخ حضور مرشد کریم کی شفقت و مہربانی کی مثال پیش نہیں کر سکتی کہ حضور مرشد کریم نے ہم پہ کس قدر کرم فرمایا ہے- خدا کبھی جھوٹ والی زبان بھی نہ دے، یہ مَیں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ جانو کہ کیا کیا فتنے شروع ہو گئے ہیں کیونکہ ’’لباس خضر میں ہزاروں رہزن بھی پھرتے ہیں‘‘- آپؒ میری بیٹی کے خواب میں تشریف لائے اور فرما یاکہ اے میری بیٹی! صوفی صاحب سے کہو کہ کیوں روتے ہو؟ جب سلطان محمد علی صاحب جیسا مرشد سامنے بیٹھا ہو تو کس بات کا غم ہے-صوفی صاحب سے کہو کہ سلطان محمد علی صاحب کی آغوش پہ ماتھا رکھ کے پتہ کرے کہ وہ کون ہیں؟ وہ جلوۂ نور ہے اور دنیا میں ہزاروں اولیاء میں ایک کی پیشانی میں چمکتا ہے جب ایک جاتا ہے تو دوسرے بندے کا انتخاب کر دیا جاتا ہے اور وہ نور اس کی پیشانی میں روشن ہو جاتا ہے-ایک ہستی نے اس دنیا فانی سے وصال فرمایا ہے تو اس نے امانت الٰہی منتقل کر کے اپنی جگہ پہ ایک ہستی تیار کی ہے- خدا ہمیں وہ وقت نہ دکھائے لیکن جب بھی کسی ہستی کی اس دنیا فانی سے کوچ کی تیاری ہوگی تو امانتِ الٰہی کی منتقلی ہوگی-
علمائے کرام یہاں تشریف فرما ہیں ان سے ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام سے کس جلوہ کا عہد لیا تھا؟ دوستو! انبیاء کرام سے اسی جلوۂ فقرِ محمدی (ﷺ) کاعہد لیا جا رہا تھا-جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗط قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَاط قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ‘‘[1]
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں‘‘-
آج ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہم اس فقرِ محمدی (ﷺ) کے جمال و کمال کو سمجھیں اور ان کے مشن کو پھیلانے میں ان کی مدد کریں-
ماڈریٹر:
اب ہمارے اگلے مقرر حضور مرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت کے دیرینہ اور معتمد ترین ساتھی ہیں میری مراد جناب مفتی محمد صدیق خان قادری صاحب ہیں-نہایت ادب سے ملتمس ہوں کہ جناب اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں!
مفتی محمد صدیق خان قادری:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سب سے پہلے مَیں تمام حضرات کو یوم آزادی اور یوم سلطان الفقر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں-حضرات محترم! جب ہم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کی پوری زندگی قرآن مجید اور سنتِ رسول (ﷺ) کا آئینہ دار تھی- ہوتی بھی کیوں نہ!!! جبکہ اس بات کا اشارہ آپؒ کی ولادت با سعادت سے ہو گیا تھا کہ آپؒ کی ولادت باسعادت جس بابرکت مہینے اور بابرکات لمحات میں ہوئی وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ یہ عام ہستی نہیں ہے-آپؒ کی ولادت باسعادت رمضان المبارک شب ستائیسویں بروز جمعۃ المبارک بوقتِ سحر ہوئی اور پھر اس کیفیت اور اس عالم میں ہوئی کہ جب اللہ رب العزت نے ہمیں ملکِ پاکستان عطا کیا-یہ کوئی محض اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ منشاءِ الٰہی تھی کیونکہ قدرت کا یہ اصول ہے کہ جب اللہ رب العزت اپنے بندوں کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو کسی نہ کسی ذات کے وسیلے سے عطا فرماتا ہے-جس طرح اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو من و سلویٰ کی نعمت عطا فرمائی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طفیل عطا فرمائی اور ہمیں قرآن مجید و ایمان کی دولت نصیب ہوئی تو آقا کریم (ﷺ) کے وسیلے سے نصیب ہوئی-کیونکہ نعمت وہ شے ہوتی ہے کہ جس کو حاصل کرنے سے انسان کو خوشی نصیب ہوتی ہے-لغت میں نعمت کا معنی خوشی و آرام و سکون ہے-اسی تناظر میں آپ دیکھیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت مسلمان کس طرح اضطراب و مشکلات سے گزر رہے تھے لیکن جب پاکستان بنا تو ہم نے اس بے چینی سے چھٹکارا حاصل کیا اور ہمیں ایک بڑی نعمت ملکِ پاکستان کی صورت میں سلطان الفقر کے صدقے سے عطاہوئی-
سُلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی حیات مبارکہ کے بے شمار پہلو ہیں اور ہر ایک پہلو پر گفتگو کی جاسکتی ہے کیونکہ ہر ایک پہلو اپنے اندر ایک مکمل تفسیر رکھتا ہے- لیکن مَیں آج اس تقریب میں اختصار کے ساتھ ایک پہلو پر گفتگو کرنا چاہوں گا کہ آپؒ ادب اور عجز و انکساری کے کس قدر پیکر تھے- میرے دوستو! یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دینِ اسلام میں جتنی بھی عبادات پائی جاتی ہیں، جتنے ہی احوال ہیں، اُن تمام احوال اور عبادات کی روح عاجزی و انکساری ہے-اس لئے سید الجرجانیؒ اپنی تصنیف ’’کتاب التعریفات‘‘ میں اسلام کا معنی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :
’’الاسلام الخضوع و الانقیاد‘‘
’’اسلام عاجزی اور جھک جانے کا نام ہے‘‘-
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اللہ والوں کا تعارف عاجزی و انکساری کا کروایا ہےکہ اُن کا چلنا کیسے ہوتا ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا‘‘[2]
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں‘‘-
علامہ ابن عجیبہؒ حضرت ابو حفصؒ کا تصوف کے متعلق قول نقل کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ:
’’التصوف کلہ ادب، لکل وقت ادب، لکل حال ادب، لکل مقام ادب‘‘
’’تصوف پورے کا پورا ادب کا نام- ہر حال میں ادب، ہر وقت ادب اور ہر مقام پر ادب کا نام تصوف ہے‘‘-
مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’الادب سند الفقراء‘‘[3]
’’ادب فقراء کی سند (زینت) ہوتا ہے‘‘-
یعنی مردِ کامل چاہے ولایت کے جس مقام پر پہنچ جائے وہ ادب، عاجزی اور انکساری کوکبھی نہیں چھوڑتا-یہی وجہ ہے کہ بانیٔ اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ ’’الادب سند الفقراء‘‘ کی ایک عملی تفسیر تھے-کیونکہ آپؒ نے اپنی پوری زندگی میں لفظ ’’مَیں‘‘ استعمال نہیں فرمایا- جب بھی گفتگو کرتے تو اپنے لئے لفظ ’’عاجز‘‘ استعمال کرتے -پھر جب آپؒ اپنے حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو وہاں ادب اور عجز و انکساری کا یہ عالم ہوتا کہ آپؒ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اور جب تک حکم نہ ملتا بیٹھتے نہ تھے-آپؒ نے پوری زندگی اور خاص طور پر 12 سال ایک خاص ڈیوٹی سر انجام فرمائی کہ تہجد کے وقت اپنے حضور مرشد کریم کے لئے ایک مخصوص وقت میں مخصوص انداز کے ساتھ چائے بنا کر پیش خدمت کرتے تھے، اس کے باوجود کہ سینکڑوں خُدّام موجود تھے ؛اور جب آپؒ کے مرشد کریم آرام فرماتے تو آپؒ کا یہ معمول ہوتا کہ آپ ان کے قدموں میں کھڑے ہو کر ان کے چہرۂ انور کی زیارت کرتے-آپؒ جب اپنے مرشد کریم کے ساتھ چلتے تو آپؒ کے چلنے کا انداز یہ ہوتا کہ آپؒ دائیں کی بجائے بائیں طرف اس ادب و احترام کے ساتھ چلتے کہ دیکھنے والا یہ محسوس کرتا کہ ایک آدمی پہاڑ سے نیچے اتر رہا ہو-حتٰی کہ جب آپؒ کے مرشد کریم کا وصال ہوا تو آپؒ ان کے مزارِ اقدس پر حاضری کے لئے جاتے تو پیٹھ نہیں کرتے تھے اور جب حاضری کے بعد واپس لوٹتے تو تا حدِ نگاہ الٹے قدموں واپس آتے تھے-
یہاں ایک واقعہ آپ دوستوں سے شیئر کرتا چلوں جو اپنے اندر ادب و عجز کی ایک تاریخ رکھتا ہے، جس کو سن کر آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اس انتہاء کا ادب بھی ہوسکتا ہے!!!
’’ایک دفعہ آپؒ عمرہ شریف سے واپس آئے اور واپسی پر اپنے حضور مرشد کریم کے محل پاک میں حاضر ی کےلئے تشریف لے گئے - اُس وقت آپ نے ایک لٹھے کا سوٹ زیبِ تن کیا ہوا تھا جس کو مائع لگا ہوا تھا- آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بہ نسبت سادے کپڑوں کے لٹھے کےسوٹ سے ایک مخصوص آواز پیدا ہوتی ہے-جونہی آپؒ محل شریف میں تشریف لے گئے تو فوراً واپس آگئے، واپس آکر آپ نے سوٹ تبدیل فرمایا اور پھر تشریف لے گئے-حاضری کے بعد آپ نے بڑے پیار بھرے انداز میں فرمایا:
’’اَساں محل پاک اِچ گئے آں جی تے کپڑے بڑا شور کر رے اَن‘‘
یعنی جب ہم محل پاک حاضری کےلئے گئے تو اٹھنے بیٹھنے کی حرکت کی وجہ سے کپڑے شور کر رہے تھے تو ہم نے اُس دھیمی سی آواز کو بھی خلافِ اد ب سمجھا ہے‘‘-
حقیقت میں آپ بیک وقت طالبِ مولیٰ اور تمام آنے والی نسلوں کو یہ درس دے رہےتھے کہ جب آپ مرشد کریم کی بارگاہ میں آئیں تو اس درجے کا احترام ہونا چاہیے-پھر جب حضور مرشد کریم حضرت سخی سلطان باھو صاحب قدس اللہ سرّہٗ کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوتے تھے تو وہاں بھی یہی انداز ہوتا تھا کہ حاضری کے بعد آپؒ محل شریف کی طرف پیٹھ نہیں کرتے تھے بلکہ تا حدِ نگاہ الٹے قدموں واپس آتے تھے-اسی طرح آپؒ یہ معاملات صرف حضور مرشد کریم کے ساتھ نہیں کرتے تھے بلکہ آپؒ کی بارگاہ میں جو بھی آتا تھا خاص طور پر سادات کا بہت احترام کرتے تھے-اگر آپ کو معلوم ہو جاتا کہ یہ سید ہے تو آپ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس سے ملاقات کرتے تھے- اسی طرح جو علماء کرام تشریف لاتے ان کا بہت ادب و احترام کرتے تھے- پھر خاص طورپر جب میلاد پاک کا پروگرام ہوتا تھا نعت خواں حضرات اور علمائے کرام ہوتے تھے تو ان کی بہت خدمت اور بے حد حوصلہ افزائی فرماتے تھے-
یہاں ایک واقعہ عرض کرتا چلوں کہ:
’’ایک شیخِ طریقت تھے جو حضرت صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے ، ایک مرتبہ میلاد پاک کے سالانہ پروگرام میں شرکت کیلئے آئے تو دیکھا کہ بہت سے علمائے کرام اور نعت خوان حضرات وہاں ذوق و شوق سے شریک ہیں تو انہوں نے بعد میں ایک مشہور ثنا خوان صوفی اللہ دتہ راہی صاحب سے فرمایا کہ صوفی صاحب ، ہم ان میں سے بہت سے علمائے کرام اور ثنا خوانوں کو بلاتے ہیں اپنے ہاں لیکن اس طرح نہیں آتے جس طرح یہاں حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب کے پاس آئے ہوئے تھے؛ تو صوفی اللہ دتہ راہی صاحب نے عرض کی کہ حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب علمأ و نعت خوانوں کی بہت خدمت کرتے ہیں ان کا ہاتھ قمیص کی جیب سے رکتا ہی نہیں اتنا عطا کرتے ہیں؛ تو حضرت شیخ ؒ مسکرا کر فرمانے لگے کہ راہی صاحب پھر تو قمیص لینا چاہئے-راہی صاحب نے عرض کی حضور ، قمیص آبھی جائے تو دینے والے وہ ہاتھ کہاں سے آئیں گے ؟‘‘
مقصد یہ تھا کہ جیب تو کسی بھی قمیص کو لگ جاتی ہے اصل چیز عطا کرنے والے وہ ہاتھ تھے جو سخاوت کا استعارہ تھے جوسخاوت ہمارے مرشد پاک حضور بانی اصلاحی جماعت کی پہچان تھی- اسی طرح آپؒ نے انجمن غوثیہ عزیزیہ کے تحت جتنے بھی شعبہ جات قائم فرمائے ہیں اگر آپ مشاہدہ کریں تو اس میں آپ کو دینی و ملی خدمت کا جذبہ نظر آئے گا- مثلاً دار العلوم غوثیہ عزیزیہ ، اصلاحی جماعت کا قیام، مسلم انسٹیٹیوٹ، ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل، ایس بی سکول آپ کے دینی و ملی خدمت کے جذبے کی عکاسی ہے-کیونکہ صوفیاء کرام جو اقدامات اٹھاتے ہیں اس میں بہت حکمت ہوتی ہے، خاص طور پر اللہ تعالیٰ کا ولی اور نیک بندہ اس وقت قدم اٹھاتا ہے کہ جب اُمت کسی انتشار و زوال کا شکار ہو جاتی ہے-پھر چاہے وہ زوال روحانی ہو یا فکری، سیاسی ہو یا سماجی- یہ آپؒ کی نگاہِ بصیرت تھی کہ آپ نے دیکھا کہ امتِ مسلمہ انتشار کا شکار ہے، فرقوں میں بٹ رہی ہے، نفرت و تعصب اپنی شدت کو پہنچ رہا ہے تو آپؒ نے ان شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا تا کہ امتِ مسلمہ کی دینی و ملی خدمت کی جاسکے-اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ جس طرح آپؒ نے پوری زندگی دین اور ملک و قوم کی خدمت کے لئے گزاری ہے ہم بھی اسی جذبے کے ساتھ آپؒ کے پیغام کو پھیلائیں-اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور مرشد کریم کے نقشِ قدم پر چلائے-آمین!
ماڈریٹر:
بہت شکریہ مُفتی صاحب ! اب مَیں ہمارے اگلے مقرر حضور مرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت کے دیرینہ اور معتمد ترین ساتھی قاری محمد نصر اللہ صاحب سے نہایت ادب سے ملتمس ہوں کہ جناب اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں!
قاری محمدنصراللہ صاحب:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فرمانِ باری تعالیٰ:
’’اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo‘‘[4]
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘-
فرمانِ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) :
م:مُرشد میرا شہباز الٰہی ونج رَلیا سنگ حَبیبَاں ھو |
فرمانِ شہبازِ عارفاں سید سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب قدس اللہ سرّہٗ:
ت: تار توار الست والی سوہنے پیر دتی تعلیم مینوں |
دوستو! مجھے تقریباً 1982ء میں بانیٔ اصلاحی جماعت کے دستِ اقدس پہ بیعت ہونے کا شرف نصیب ہوا-آپؒ کی بارگاہ میں حاضری، جماعت پاک سے وابستگی اور حضور مرشد کریم کی مہربانی و شفقت کا ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:
’’مَیں اپنے شہرکمر مشانی میں قرآن پاک حفظ کرتا تھا، میرے خیال میں مجھے خود قرآن پاک حفظ کرنے کا شوق نہیں تھا لیکن میرے بڑے بھائی حاجی محمد لطیف صاحب جو کہ اس دارے فانی سے رخصت فرما چکے ہیں ان کو بہت شوق تھا کہ مَیں اپنے اس بھائی کو قرآن پاک حفظ کرواؤں- ان کے اسرار پہ مَیں شہر کے ایک مدرسہ میں داخل ہوگیا تو کچھ عرصے کے بعد وہاں پہ قاری فضل کریم صاحب مرحوم (اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے) بھکر سے اس مدرسہ میں قرآن مجید حفظ کرنے کیلئے آگئے، اُن سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ ہی زیادہ اُٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا تو انہوں نے گفتگو فرمائی تو مجھے بتایا کہ مَیں اور میرا گھرانہ دربارحضرت سلطان باھوؒ سےنسبت رکھتا ہے-میں نے ایک دو درگاہوں کے متعلق اظہار کیا تو یہاں انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت مثال دی کہ ندی نالے کبھی کبھار سوکھ بھی جاتے ہیں لیکن سمندر ہمیشہ موج میں رہتا ہے ، قاری فضل کریم صاحب نے کہا کہ حضرت سُلطان صاحب کا فیض سمندر ہے جو اللہ کے کرم سے ہر دم جوش میں ہوتا ہے جو کبھی سوکھے گا نہیں -اسی گفتگو کے بعد قاری صاحب نے بانیٔ اصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ سے ملاقات کی دعوت دی تو میں قاری صاحب کے ساتھ حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں ملاقات کے لئے آگیا-گرمیوں کا موسم تھا ، حضور مرشد کریم اوچھالی میں تشریف فرما تھے، ہم ظہر کے وقت پہنچے، ملاقات کی اور مجھے آپؒ دستِ اقدس پہ بیعت نصیب ہوئی- بیعت کے بعد آپ نے اپنے نہایت ہی شائستہ اندازمیں فرمایا کہ بیٹا آپ کو آنا جانا ہوگا کیونکہ جب آپ آئیں جائیں گے تو رابطہ بھی رہے گا اور پہچان بھی ہوتی رہے گی-بیعت کے بعد ہمارا حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں آنا جانا بڑھ گیا اور یہ سلسلہ جاری رہا کہ ہم محبت و عقیدت میں حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں جاتے آپؒ کی گفتگو سنتے اور دل میں سکون محسوس کرتے-
ایک دفعہ ہم دربار شریف حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ جماعت کی تشکیل کے متعلق اور اس کے نام کے متعلق گفتگو فرمارہے تھے کافی دیرینہ و متعمد ساتھی بھی تشریف فرما تھے- جماعت پاک کا نام رکھنے کی تجاویز پر گفتگو ہو رہی تھی جس میں دیگر جماعتوں اور تنظیموں کا تذکرہ بھی کیا گیا لیکن آپ نے خود فرمایا کہ یہ جماعت اولیاء اللہ کی جماعت ہوگی اس لئے اس جماعت کا نام ’’اصلاحی جماعت‘‘ رکھتے ہیں کیونکہ اولیاء اللہ کا مشن و مقصد ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کی اصلاح کے ذریعے اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ کا قرب نصیب فرماتے ہیں-جس کی تائید ہمارے نہایت ہی محترم ساتھی سید امیر خان نیازی صاحب مرحوم جن کو سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ کی فارسی کتب کا ترجمہ کرنے کا شرف نصیب ہوا، اس طرح فرمائی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےصالحین کی جماعت کا ذکر فرمایاہے-اس کے بعد جب جماعت پاک کا نام رکھا گیا، اس کی تشکیل ہوگئی تو نیازی صاحب نے حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں خوشی و مزاح سےعرض کی کہ حضور سب سے پہلے ان دو قاریوں (قاری فضل کریم صاحب اور ناچیز) کو جماعت پاک کے لئے مقرر فرمائیں- حضور مرشد کریم نے فرمایا کہ نیازی صاحب یہ دونوں میرے بیٹے ہیں آپ ان کی فکر ہی نہ کریں آپ جب ان کو بلائیں گے یہ حاضر ہوجائیں گےآپ باقی ساتھیوں کے متعلق فکر کریں-نیازی صاحب حضور مرشد کریم کو خوش کرنے کیلئے ماحول کے مطابق کبھی کبھار ہنسی مذاق کرتے رہتے تھے جس سے حضور مرشد کریم بہت مسکراتے تھے ‘‘-
مجھے الحمد للہ! جو وقت بھی حضور مرشد کریم کی بارگاہ مبارک میں میسر آیا ہے اگر اس پہ غور کروں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور مرشد کریم کا ہر قول و فعل آقائے دو جہاں (ﷺ) کے نقشِ قدم پہ نظر آتا ہے- آپ قدس اللہ سرّہٗ کی حیاتِ مبارکہ کے جس بھی پہلو پر غور کیا جائے اس کی تَہ میں آپ کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی سنت مبارکہ کا عکس نظر آئے گا-یعنی اگر آپ نے آرام فرمایا ہے، قیام و طیام فرمایا ہے، آپؒ چلے ہیں، بیٹھے ہیں، آپ نے گفتگو فرمائی ہے، حتی کہ جو بھی قول و عمل اختیار فرمایا ہے وہ سنتِ مبارکہ (ﷺ) کے مطابق فرمایا ہے-اگر آپؒ کے اخلاق کے متعلق ذکر کیا جائے تو آپؒ کا اخلاق بھی فرمانِ باری تعالیٰ اور سنتِ رسول (ﷺ) کے مطابق تھا کہ:
’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘[5]
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘-
کیونکہ جب میں آپؒ کا بیعت ہوا اور آپؒ کا حسنِ اخلاق دیکھا تو فوراً میرے ذہن میں یہ کلامِ الٰہی آگیا-حسنِ اخلاق کی یہ صفت صرف آپؒ میں ہی نہیں دیکھی بلکہ آپؒ نے طالبان اور مریدین کی تربیت بھی اس نہج پہ فرمائی ہے کہ ان سے بھی اس صفت کا اظہار ہوتا ہے-ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشل، شمارہ جولائی کو مطالعہ کرنے کا شرف نصیب ہوا تو اس میں ایک حضور سلطان العارفین صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی تعلیمات میں سے ایک حوالہ نظر سے گزرا جس میں آپ فرمارہے تھے کہ مجلسِ محمدی اور فقرِ محمدی (ﷺ) حاصل کرنا آسان کام ہے لیکن حسنِ اخلاق سے پیش آنا مشکل کام ہے-اندازہ لگائیں! کہ کیا حضور نبی کریم (ﷺ) کی کچہری، آپ(ﷺ) کی مجلس کا مقام پانا آسان ہے؟؟؟ نہیں!!! بالکل آسان نہیں ہے لیکن حضور بادشاہ صاحبؒ فرما رہے ہیں کہ یہ آسان ہے لیکن سب سے مشکل حسنِ اخلاق سے پیش آنا ہے-یعنی کسی سے انتقام نہ لینا، حسد نہ رکھنا، گلہ گوئی و غیبت، بہتان طرازی نہ کرنا اور جملہ برائیوں سے محفوظ رہنا یہ سب سے مشکل کام ہے-
لیکن ہمارے حضور مرشد کریم نے جب یہ جماعت بنائی اور آپؒ کی بارگاہ میں جوبھی طالب کی حیثیت سے آیا آپؒ نے ان کی اس نہج پہ تربیت فرمائی کہ جب وہ جماعت لے کر چلتے اور حضور مرشد کریم کی فکر کے مطابق دعوتِ الی اللہ دیتے تو لوگ حیران ہوتے کہ کس ہستی نے ان کی تربیت فرمائی ہے جو کہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کی فرمائی تھی-جونہی لوگ ان ساتھیوں سے پیغامِ الٰہی سنتے تو متاثر ہو کر حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں تربیت حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوتے-آپؒ کی تربیت کا کمال کیا تھا؟ لوگ کیوں اتنے متاثر ہوتے تھے؟ اس لئے کہ آپؒ ظاہر کے ساتھ ساتھ انسان کے باطن کو بھی پاکیزگی عطا فرماتے تھے کیونکہ جب تک ظاہر اور باطن کی تربیت پاکیزگی نہ ہو انسان مکمل نہیں ہوتا-اس لئے آپؒ فرماتے کہ جس شخص کی اپنی تربیت نہیں ہے وہ کسی کی تربیت کیسے کرسکتا ہے؟؟؟-آپ پوری دنیا گھوم لیں اگر آپ کو ایسی تربیت ملے گی جو انسان کے ظاہرو باطن کو پاکیزہ کردے تو وہ صرف و صرف حضور مرشد کریم بانی اصلاحی جماعت کی قائم کردہ اصلاحی جماعت کی صورت میں ملے گی-
جس طرح صوفی اللہ دتّہ صاحب بیان فرمارہے تھے کہ حضور مرشد کریم شریعت مطہرہ کے مکمل طور پر کاربند تھے اس کی تائید میں ناچیز یہ گزارش کرنا چاہے گا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے-کیونکہ آپؒ جس طرح کے بھی سفر پہ ہوتے، چاہے وہ شکار ہو، یا گھوڑوں کا سفر ہو جب بھی نماز کا وقت ہوتا آپ سب ساتھیوں کو حکم فرماتے کہ تیاری کرو باجماعت نماز ادا کی جائے گی-خاص کر رمضان المبارک کے مہینے میں اگر سفر ہوتا تو دورانِ سفر نمازِ تروایح کی مکمل ترتیب ہوتی تھی-اس کے علاوہ ہم جتنے ساتھی ہوتے ہر ساتھی کے ذمہ یہ ڈیوٹی ہوتی تھی کہ وہ نمازِ فجر کے بعد قرآن مجید کے ایک رکوع کی تلاوت کرے اور اس کی تفسیر بیان کرے-ہم اکثر سوچتے تھے کہ سفر میں تو کچھ آسانیاں ہونی چاہیے لیکن حضور مرشد کریم کی ترتیب یہ ہوتی تھی کہ دورانِ سفر بھی ارکانِ اسلام کی تکمیل میں مکمل کاربند تھے-اس بات کا بعد میں پتا چلا کہ دورانِ سفر حضور مرشد کا قافلہ جس جس جگہ سے گزرتا آپ کی اس ترتیب مبارک کی وجہ سے کسان لوگوں کی فصل دگنی ہوجاتی اورآس پاس، دیہات کے لوگ حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں خاص طور پر شکریہ ادا کرنے حاضر ہوتے کہ آپ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر خاص کرم فرمایاہے-اس لئے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے لجپالی مرشد کریم کی فکر کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین!
وقفہ سوال و جواب
سوال:
میرا سوال قاری نصر اللہ صاحب سے ہےکہ آپ کو حضور مرشد کریم سلطان محمد اصغرعلی صاحبؒ کی صحبت اور خدمت کا موقع ملا تو آپ نے حضور مرشد کریم کی بیداری اور آرام کرنے کی ترتیب کو کیسے پایا؟ آپ کے سفرکی ترتیب کو کیسا پایا؟ آج کل تو سفر آسان ہو گئے ہیں لیکن جماعت پاک کے ابتدائی ایام میں جب حضورمرشد کریم طویل سفر فرماتے تھے تو کیا ترتیب ہوتی تھی؟
جواب از قاری نصر اللہ قادری صاحب:
گرمیوں کے موسم میں آپ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہر روز آرام فرماتے تھے-اس وقت آپ کی خدمت میں جو ساتھی ہوتے تھے ان میں ناچیزاوربھائی عبد المجید صاحب ضلع بھکر کے رہنے والے، وہ ہوتے تھے اور آپ کو دبانے کیلیے رشید خان اور ایک دو ساتھی تھے جو آپ کو آرام کرواتے تھے- آپؒ کی آرام کی ترتیب یہ ہوتی تھی کہ آپؒ گرمی کے موسم میں ایک چادر اوپر اوڑھتے تھے وہ چادر مبارک نیلے کلر کی اور پھر گولڈن کلر بھی آپ نے استعمال کی- آپؒ کا یہ معمول تھا کہ آپ سونے سے پہلے ہمیں حضور دادا مرشد پاک، حضور پیر صاحب کے واقعات یا اولیاء کاملین کے واقعات سنایا کرتے تھے جس سے ایمان کو تقویت ملے-ایک مرتبہ آپؒ حضور پیر صاحب (قدس اللہ سرّہٗ)کے دربار پاک پہ آرام فرما نے لگے، ہم ساتھی آپؒ کو دبا رہے تھے،اس وقت رشید خان بھی ہمارے ساتھ تھا- آپؒ نے فرمایا فقر کی زکوٰۃ ہوتی ہے ہم تو خاموش رہے لیکن رشید خان پرانا فقیر تھا اس نے اپنی پشتو مکس پنجابی زبان میں کہا کہ ’’حضور اَجے تہاڈے اُتّے فرض نہی ہوئی‘‘- اس کے بعد آپؒ نے اور تو کوئی بات نہیں فرمائی بلکہ اس کو اپنے پیار بھرے انداز میں فرمایا ’’توں ایہوں سوچیندا رہیا ایں ‘‘-
پھر اس ترتیب کے ساتھ آرام فرما جاتے- اس کے بعد آپؒ ہمیں حکم فرماتے کہ وقتِ نماز ہر صورت جگانا ہے- ایک مرتبہ دربار پاک پہ آپؒ نے فرمایا ظہر کی نماز ادا کرنی ہے توآپ نے مجھے جگانا ہے- جب جگانے کا وقت ہوا کمرے مبارک میں آپ آرام فرما رہے تھے میں نے بڑی کوشش کی جگانے کی تاکہ آپ وقت پہ بیدار ہو جائیں اور وضو فرما کے نماز ادا کر لیں لیکن آپ بیدار نہیں ہوئے- مَیں باہر آیا میرے ذہن میں تھا اگر نیازی صاحب بیٹھے ہوئے تو ان کو عرض کرتا ہوں کیونکہ آپ کو جگانا ضرور ہے، آپ نے نماز ادا کرنی ہے نہیں تو دیر ہو جائے گی- مَیں باہر آیا نیازی صاحب دفتر سے باہر نکلے میں نے کہا نیازی صاحب حضور پاک بیدار نہیں ہو رہے - نیازی صاحب نے کہا اچھا پھر مجھے اجازت ہے میں نے کہا آؤ مہربانی کرو- نیازی صاحب مسکراتے ہوئے جب کمرے میں گئے تو عرض کی حضور ’’اُٹھیں باہر تو بڑی تیز بارش ہے، حضور جلدی اٹھیں بڑی مزے دار بارش ہے، آپ جلدی جلدی بیدار ہو گئے اور آپ نے وضو فرما کے نماز ادا کی-
آپؒ کی سفر مبارک کی یہ ترتیب ہوتی تھی کہ جب بھی سفر مبارک کے لئے تیاری فرماتے تومحل شریف میں حاضری ضرور دیتے-حاضری پر جانے سے پہلے ہم ساتھیوں کو فرماتے کہ جب میں حاضری سے واپس آؤں تو کوئی آدمی مجھ کسی قسم کی بات نہ کرے-کیونکہ جب میں حاضری کے لئے جاتا ہوں تو وہاں سفر کے متعلق سوال و جواب شروع ہوجاتے ہیں-جب سفر کی مکمل تیاری ہوجاتی تو آپ فرماتے ہیں کہ ’’اب اللہ ہی اللہ ہے-چلیں‘‘-جب آپ سفر میں ہوتے تو راستے میں اگر ٹریفک پولیس والے روکتے تو آپ ان سے بہت اخلاق و محبت سے پیش آتے، اپنا نام بتاتے اور دربار شریف کاتذکرہ کرتے،جونہی آپ یہ بتاتے وہ کہتا کہ جی آپ جائیں کیونکہ آپ کے چہرہ مبارک میں کشش اتنی ہوتی تھی کہ ہر کوئی آپ سے محبت کر بیٹھتا تھا-سفر کے دوران آپ غریبوں، مسکینوں کے ساتھ بہت شفقت اور مہربانی فرماتے دور سے بھی منگتا نظر آ جاتا تو گاڑی رکوا کر عطا کرتے- آپ جب بڑے محل پاک میں حاضری کرتے، آپ مجھے فرماتے قاری صاحب قرآن پاک لے آؤ- جب میں لے آتا تو آپ فرماتے قاری صاحب قرآن پاک کی وہ جگہ کھولو جہاں پہ سورۃ یٰسین لکھی ہوئی ہے- اس کی حکمت آپ خود ہی بہت جانتے تھے میں پھر قرآن پاک کی وہی سورۃ یٰسین والی جگہ کھولتا تو پھر آپ قرآن پاک کو حضور سلطان صاحب کے محل پاک کےساتھ مَس کرتے،پھر ایک ہاتھ قرآن پاک پہ رکھتے اور ایک ہاتھ سے دعا مانگتے- پھر آپ فرماتے قاری صاحب قرآن پاک میں کچھ پیسے رکھو، سب ساتھی اس میں کچھ پیسے رکھتے اور پھر مجھے فرماتے یہ اٹھا لو، میں اٹھا کر جیب میں ڈال لیتا، پھر جب باہر نکلتے جتنے غریب،مسکین، یتیم اس انتظار میں کھڑے ہوتے تھے کہ آپؒ حاضری پہ گئے ہیں واپس آکر پیسے تقسیم کریں گے- آپ مجھے فرماتے قاری صاحب یہ پیسے ان سب میں تقسیم کردیں-
وضاحت از صدرِ محفل:
سفر کی بات پہ مجھے ایک واقعہ یاد آیا جو یہاں بیان کرنا چاہوں گا-آپ کو معلوم ہے کہ عموماً لگژری بسّوں میں سیٹوں کی گنجائش کم ہوتی ہے اس لیے وہ بیٹھنے کے لیے زیادہ جگہ رکھتے ہیں-اس وقت عام طور پر بڑی بسیں جو چلتی تھیں ان کے لیے ’’ 72 سیٹر بسیں ‘‘ مشہور تھی- حضور مرشدِ کریم سفر میں اکثر ساتھیوں کو ساتھ رکھتے تھے، اس میں گفتگو ہوتی تھی اور ان کی تربیت فرماتے تھے- اس کی جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ تربیت کا اصل مقصود مالک کو پہچاننا ہے نہ کہ کورس کو حفظ کرنا-اکثر یہ ہوتا تھا کہ ساتھی زیادہ ہو جاتے تھے،ایک دو لوگ تھے ان کو بڑا شوق تھا کہ حضور مرشد کریم کیلیے ’’چٹے بمپر ‘‘والی گاڑی لینےکا،وہ کار لے آئےجس میں حضور مرشد کریم تو جلوہ فرما ہو جاتے تھے ساتھ جو چار ساتھی تھے ان میں سے تین ساتھی تو آسانی سے آجاتے تھےلیکن چوتھا ساتھی نہیں آ سکتا تھا-پھرآپ نے وہ لگژری کار دے کر یہاں لاہور سے ایک سنگل کیبن ڈالہ خریدا- یہ تقریباً 1993ء کی بات ہےکہ چوہدھری ساجد حسین صاحب جو یہاں بیٹھے ہیں وہ یہ ڈالہ لےکے گئے تھے دوآبہ ضلع جھنگ میں جہاں حضور مرشد کریم شکار کے سفر پہ تھے-حضور مرشد کریم کے استعمال میں پھر وہ ڈالہ رہا جس میں دس، پندرہ،سترہ ساتھی بھی آجاتے تھے-جہاں گاڑی رکتی، کھانے یا نماز کے لیے تو سب ساتھی ساتھ ہوتے جہاں رکتے مجلس لگ جاتی، جہاں رکتے مجلس لگ جاتی - حضور مرشد کریم کے ساتھ رہنا اس بات کے مترادف تھا کہ ’’جہاں پہ بیٹھ گئے میکدہ بنا کے اٹھے‘‘-گاڑی میں سترہ ساتھیوں کے باوجود بھی چار پانچ ساتھی آپ کے ساتھ بسوں پہ سفر کرتے تھے کہ جہاں آپ نے جانا ہوتا تھا وہ وہاں بس پہ پہنچ جاتے تھے-کچھ وقت کے ساتھ ڈبل کیبن گاڑی بھی آ گئی جس میں پانچ ساتھی آگے، چار پانچ ساتھی پیچھے اس کےساتھ سنگل کیبن ڈالہ بھی ہوتا تھا جس میں بھی اٹھارہ،بیس ساتھی ہوتے تھے-اب آٹھ ساتھی اگلی گاڑی میں، کوئی پندرہ ،سترہ ساتھی پچھلی گاڑی میں، چار پانچ ساتھی پھر بھی بسوں پہ جاتے تھے-پھر حضور مرشد کریم کے ساتھ کار آ گئی،آپؒ کار میں ہوتے تھے، تین چار ساتھی کار میں، دس ساتھی ڈبل کیبن میں، سترہ اٹھارہ ساتھی سنگل کیبن ڈالے میں،اس کے باوجود بھی چار پانچ ساتھی پھر بسوں پہ جاتے تھے-ایک دن اتفاق یہ ہوا کہ سفر میں روانگی تھی، تو ناچیز اورحضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب بھی ساتھ ،تو ایک ڈبل کیبن ڈالہ حضورجانشینِ سلطان الفقر والا وہ بھی ساتھ،ناچیز کی ایک چھوٹی سی کار بھی ساتھ، حضور مرشد کریم کی اپنی کار بھی ساتھ، سنگل کیبن اورڈبل کیبن ڈالے بھی ساتھ تھے تو تقریباً کم و بیش چالیس سے پنتالیس ساتھیوں کا قافلہ تھا اور چار پانچ ساتھی پھر بس پہ جاتے تھے- حضور مرشد کریم کسی جگہ کام سے گئے وہاں آپؒ کو کچھ وقت لگا تو ہم باہر آپؒ کے انتظار میں کھڑے تھے-قافلہ میں ایک ایسے ساتھی تھے جو نئے نئے آئیڈیاز حضورمرشد کریم کی خدمت میں پیش کرتے رہتے تھے، وہ کہنے لگے کہ ’’یار اتنی تنگی ہو رہی ہےاتنی گاڑیاں بھی ہیں،پھر بھی چار پانچ ساتھی بسوں پر جا رہے ہیں ،ہمیں ایک ہائی ایس رکھ لینی چاہیےاس میں زیادہ ساتھیوں کے بیٹھنے کی تعداد ہوتی ہے‘‘-یہ سن کر قاری نصر اللہ صاحب نے اپنی میانوالی والی زبان میں کہا کہ’’ کرنل صاحب اتہے بہتُّر (72) سیٹاں والی ہو وے تے 5 بندے وت وی بساں تے ویسون‘‘ (یعنی اگر یہاں بہتر سیٹوں والی بس ہو تو پھر بھی پانچ ساتھی جنرل ٹرانسپورٹ پہ جائیں گے ) ‘‘- کیونکہ ایک کار کے قافلہ سے کئی گاڑیوں پہ مشتمل قافلہ تک ہمیشہ پانچ ساتھی جنرل ٹرانسپورٹ پہ ہوتے تھے- حضور مرشد کریم کی اس ترتیب مبارک میں جو حکمت تھی وہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی ، بس اتنا کَہ سکتا ہوں کہ یہ آباد میکدوں کی نشانیوں میں سے ہے -اس کے علاوہ ایک اور حکمت ایسی ہے جس کو میں کبھی سمجھ نہ سکا کہ آپ جب بھی مکہ مکرمہ میں چلے جائیں وہاں آپ کو ہمیشہ نئی کنسٹرکشن ملے گی- یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حدودِ حرم میں کنسٹرکشن بند ہو جائے،اسی طرح آپ مدینہ منورہ چلے جائیں تو مسجدِ نبوی میں تعمیرات کا کام سینکڑوں صدیوں سے جاری ہے-پہلی توسیع سیدنا حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے فرمائی تھی، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی توسیع سے لے کے آج تک مسجدِ نبوی میں توسیع ہو رہی ہے-اسی طرح مَیں نے جب سے ہوش کی آنکھ سنبھالی ہے حضور مرشد کریم کی زیرِ نگرانی سارا سال دربارِ عالیہ پہ کنسٹرکشن چلتی ہے-میرے خیال میں یہ ایک ایسا سائن ہےجس کو عام طور پر سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے-
سوال:
میرا سوال مفتی صدیق خان قادری صاحب سے ہے کہ حضور مرشد کریم کا علمائے کرام کے ساتھ اندازِ ملاقات اور اندازِ گفتگو کیسا تھا؟
جواب از مفتی صدیق خان قادری صاحب:
آپ قدس اللہ سرّہٗ کا اندازِ گفتگو اور اندازِ ملاقات نہایت ادب و احترام والا ہوتا- جب بھی علمائے کرام یا مفتیان کرام ملاقات کے لئے آتے تو آپؒ اپنی جگہ سے اُٹھ کر ان کے ساتھ پہلے معانقہ کرتے پھر مصافحہ کرتے اور ان کے ساتھ بڑی محبت و شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے - آپ کے قافلہ میں مستند علمائے کرام ضرور ہوتے تھے-
اختتامیہ کلمات از
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
آخری بات جو مَیں نےعرض کی کہ کچھ سائنز ایسے ہوتے ہیں جن کو بعض اوقات آپ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں- لیکن اگر آپ کو سمجھ آجائے تو اس میں سے بہت پیارے مضامین نکلتے ہیں- مثلاً ایک واقعہ پاکستان کے تناظر میں میرے ذہن میں آتا ہے کہ جس دن پاکستان بنا سینکڑوں بچے اسی دن پیدا ہوئےاور فوت ہوئے تو ان میں جو بچے پاکستان سے محبت کرنے والے گھروں کے تھے ان کے لیے یہ یقیناً ’’گڈ سائن‘‘ تھا کہ ان کیلئے یہ حادثہ27 رمضان المبارک 14 اگست جو کہ پاکستان کا روحانی یوم آزادی تھا کو پیش آیا-لیکن سلطان العارفین سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ کے خانوادے میں اور سلطان العارفین کے فقر کے وارث شہبازعارفاں حضرت سلطان عبدالعزیزؒ کی آغوش میں فقر کے سلطان ولادت فرماتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے ایک ’’سپیشل سائن‘‘ تھا- اس سے مجھے نادر شاہ افغانی کا ایک واقعہ یاد آیا کہ نادر نے تختِ دہلی پہ چڑھائی کی اور یہاں پہ جو تخت طاؤس تھا اس کو اٹھا کے کابل لے گیا- یاد رکھیں! بعض دفعہ اللہ تعالیٰ بعض قوموں کو ان کی سستی، کاہلی، نکمے پن اورتعیش پرستی کی سزا دیتا ہے اور ان کو وہ سزا ظالم، جابراور فاتح قوموں کے ہاتھوں ہوتی ہے جیسے عباسیوں اورسلجوقوں کو سزا منگولوں کے ہاتھوں دی گئی تھی- منگولوں نے جب خلافتِ عباسیہ پر حملہ کیا جس کے بعد ان کی جو مصیبت زدہ حالت تھی اصل میں وہ ان کی سزا تھی-کیونکہ اس وقت جو خلیفۃ المسلمین تھا اس کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنے دربار کے ضمیر فروش و نام نہاد علم رکھنے والوں سے اپنے حق میں یہ فتویٰ لیا تھا کہ خلیفۃ المسلمین چونکہ کام کرتے ہیں،تھک جاتے ہیں تو ان کے لیے انگوری شراب پینا حلال ہے-اس لئےمجھے منگول، عباسیوں کی سزا نظر آتے ہیں اور میرے خیال میں یہ اللہ پاک کا اپنا ایک ڈیزائین ہے جسے ہم نہیں سمجھتے- نادر کے بارے میں آپ ہزار کلمات کہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ نادر شاہ مغلوں کی سزا کے طور پہ آیا تھا- جب نادر شاہ کابل سے روانہ ہوا تو وہ گھوڑے پہ بیٹھا ہوا بستی کے قریب سے گزرا تو وہاں ایک بچہ کھڑا ہو کے قرآن پاک کی آیات پڑھ رہا تھا- نادر شاہ نے جب غور سے سنا تو وہ ’’سورۃ فتح‘‘ کی آیات پڑھ رہا تھا- نادر شاہ نے گھوڑا روکا، اپنے وزیر جو کہ بڑا عالم تھا، سے کہا ہمارےدربار میں بھی جنگ پہ جانے سے پہلے یہ سورت پڑھی جاتی تھی لیکن ابھی جب ہم جنگ پہ نکلے تو یہ سورۃ ہمارے دربار میں نہیں پڑھی گئی- وزیر نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت!پہلے ہم ان آیات کوپڑھانے کا اہتمام کرتے تھے تاکہ ہمارے قافلے میں برکت ہو، ہمارا لشکر فاتح ہو کے لوٹے- ہم نے اگر نہیں پڑھیں تواس بچے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لشکر کے لیے خود اہتمام کر دیا ہے کہ تم راستے میں ہو اور بچہ ’’سورہ فتح‘‘ پڑھ رہا ہے جو کہ تمہاری فتح کی علامت ہے-
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نادر شاہ کے راستے میں جب تلاوتِ قرآن مجید کی گئی جو کہ اس کی فتح کی علامت تھی وہ جس بھی راستے سے گزرتا ہر چیز فتح کرتا جاتا تو جس دن پاکستان معرضِ وجود میں آیااسی دن محافظِ قرآن دنیا میں پیدا ہوئے، نورِقرآن، انوارِ قرآن اور برکات قرآن تقسیم فرمانے والی ہستی جلوہ فرما ہوئی تو یہ پاکستان کے لیے فتح اور قائم رہنے کی علامت ہے-پھر نادر شاہ کے واقعہ کا اگلا حصہ بھی بڑا دلچسپ ہےکہ نادر شاہ اُس بچے پہ بڑا خوش ہوا، اس نے بچے کو بلایا، عموماً بادشاہ اپنی جیبوں میں کچھ رقم نہیں رکھتے تھےبلکہ ان کے ساتھ جو خزانچی ہوتے تھے ان کے پاس پیسہ یا دولت ہو تی تھی؛ تو نادرشاہ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو سونے کا ایک سکہ نکلا- نادر شاہ نے وہ سکہ اس بچے کو دیا اور کہا یہ تمہارا انعام ہے- بچے کو نہیں پتہ یہ کیا ہے، اس بچے نے کہا مَیں یہ نہیں لیتا، میری ماں مجھ سے پوچھے گی تم یہ کہاں سے لے کے آئے ہو؟ کیاتم نے چوری کی ہے؟ یا تم نے ضرور کوئی غلط کام کیا ہے؟اب نادر شاہ سمجھ گیا، بچہ ہے گھر میں کیا ثبوت دے گا کہ مَیں کہاں سے یہ سونے کا سکہ لایا ہوں؛ تو اس نے کہا ماں کو بتانا نادرشاہ افغان گزرا تھا نادر شاہ نے مجھے یہ سکہ دیا تھا- اس بچے نے کہا اچھا تم نادر شاہ ہو لیکن نادر شاہ بات سنو! ایک سکے پہ ویسے میں کَہ دیتا تو شاید میری ماں مان ہی جاتی، جب میں اسے کہوں گا کہ یہ نادرشاہ نے دیا ہے تو وہ بالکل ہی نہیں مانے گی کہ یہ نادر شاہ نے دیا ہے کہ اتنا بڑا بادشاہ اور سخاوت کی تو ایک سکہ جو بچے کو دیا!!!- اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سخی جب سخاوت کرتا ہے تو وہ سکہ سکہ کر کے نہیں دیتا بلکہ میرے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ کے بقول :
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا |
اس واقعہ میں سخاوت کا پہلو ہے-یعنی پھر نادر شاہ نے ایک تھیلی سونے کی بچے کے حوالے کی اس لئے کیونکہ پہلے اس نے قرآن سنایا پھر اس نے یہ سبق سکھایا کہ سخاوت کرنی بھی ہو تو سکے سکے کی سخاوت نہ کرنا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق سخاوت کرنا- اللہ پاک ہم سب کو سخی کے در سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ وطن عزیز جس خاص مقصد کے لیے حاصل کیا گیا اس کا سبز ہلالی پرچم ہمارے سروں پر قائم فرمائے-
مَیں اپنی گفتگو کے اختتام سے پہلے ایک خوشخبری آپ سے شیئر کرنا چاہوں گاگو کہ یہ جو موجودہ صورتحال ہے، مجھے نہیں پتا کہ ہمارے ہاں اتنی فصاحت و بلاغت آئی ہو کہ جتنے بھی ’’تھینک ٹینکس‘‘ کی تجاویز کو وقت پر سمجھا جائے- لیکن مسلم انسٹیٹیوٹ کی جو انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس میں اہم تجاویز تھیں ان میں گورنمنٹ آف پاکستان کو یہ تجویز دی گئی تھی کہ گلوبل پولیٹکس کے جو پاور ہاؤسز ہیں جیسے برسلز، نیویارک، جنیوا ، لندن ،جدہ ، بیجنگ، ماسکو ہے؛ان ممالک میں جو پاکستان کے سفارت خانے ہیں ان میں کشمیر سیل قائم کیے جائیں-ظاہر ہے ہماری بیورکریسی کا مزاج ایسا ہے وہ ایسی کاغذ کی فائلوں کو ردی میں ڈال دیتے ہیں اور ان کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے تکلیف نہیں کرتے-اس وقت میں جو موجودہ صورتحال ہےاس میں غالباً پاکستان کے فارن منسٹر مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نےاناؤنس کیا ہے کہ وہ چیدہ چیدہ معتبر ممالک میں پاکستان کی ایمبیسی کے اندر کشمیر ڈیسک قائم کریں گے جہاں خاص طور پہ کشمیر کے اوپر کام کیا جائے گا- یہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے اور اس میں الحمداللہ! ہمارے لیے اچھی بات یہ ہے کہ گورنمنٹ آج جس لائن پہ سوچ رہی ہے ہم نے اپنے قائد و مرشد حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں آپ کے وژن سے آج سے کئی سال قبل فارن آفس کو کہی تھی کہ اگر اس تجویز کو مان لیا جائے تو اس سے مقدمۂ کشمیر پاکستان کے حق میں زیادہ مضبوط ہو گا- اگر اُس وقت یہ کام کیا جاتا تو آج یہ آواز اور بھی زیادہ موثر ہوتی- اب بہرحال تاثر یہی جا رہا ہے کہ گورنمنٹ نے اس کرنٹ پریشر میں کیا ہے- جب یہ چیزیں ریکومنڈ کی جاتیں ہیں تو اس سے ہماری ایک نیک نیتی وابستہ ہوتی ہےکہ واقعتاً اس قوم میں فکر و دانش کی بہت قدر کی جاتی ہے-
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس تقریب میں ہمیشہ ہی کشمیر کا ذکر ہو تا ہے- جب بھی یہ تقریب ہوتی ہے اور اس سے میں یہ سائن بھی لیتا ہوں کہ کشمیر پر ہمارے مرشد پاک سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی خصوصی نظر کرم ہے- جہاں عظیم ہستیوں کی نظر کرم ہوتی ہے وہاں قربانیوں کی ایسی داستانیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں- اللہ تعالیٰ شہدائے کشمیر کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں وہ دن جلد نصیب فرمائے کہ کشمیر بنیئے کے تسلط سے آزاد ہو اور وہ سامراجی اکھنڈ نظریے کا حامل ہندوستان ٹکڑوں میں تقسیم ہو اور جو لوگ وہاں پہ اپنا حق آزادی مانگتے ہیں ان کو ان کا حق آزادی ملے- اللہ تعالیٰ ہم سب کا یہاں جمع ہونا قبول فرمائے، جس طرح آج ہم سب خیر پہ جمع ہوئے ہیں مالک اسی طرح ہمیں خیر پہ جمع فرمائے اور دعوتِ الی اللہ جو کہ اس تحریک کا مشن و مقصد ہے مالک پاک سبز ہلالی پرچم کے سائے میں رہتے ہوئے روئے زمین پر پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے-
٭٭٭