عرصہ دراز سے جس کا انتظا ر خلقِ خدا کو رہا ، ظلمت کے اس دور میں سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے خلقِ خدا کی رہنمائی فرماتے ہوئے وہ راز عیاں کردیا جس سے ہر خاص و عام مستفیض ہوئے اور چشمِ فلک نے ایک ایسا نظارہ کیا جو نظارہ صدیوں سے ظاہر کے اعتبار سے خاموش تھا یہ خزانہ فقرِ محمدی کا خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام اسمِ اعظم { اَللّٰہُ}ہے یہ ازل سے ہر انسان کے دل میں بطورِ امانت رکھا گیا ہے اس رازِ حق کو پانے کیلئے جو احکامات قرآن اور احادیث کی روشنی میں خلقِ خدا کو سمجھایا گیا بلکہ خلقِ خدا کو عطا بھی فرمایا گیا وہ ذکراللہ ہے جو فرض ہے اُس سے پوری اُمت غافل ہورہی تھی اس کا طریقہ سلطان الفقر ششم نے واضح طور پر سمجھا دیا اور اس منظم جماعت کی صورت میں دُنیا کے بہت سے حصوں پر پھیلایا گیا کیونکہ ذکراللہ اتنا اہم فرض ہے کہ تمام فرائض ذکراللہ قائم کرنے کیلئے ہیں -قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بار بار تاکید فرمائی گئی ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{فاعبد نی واقم الصلوٰۃ لذکری}(طہٰ :۱۴)
پس میری بندگی کرو اور نماز قائم کرو میرے ذکر کیلئے -
بلکہ مزید ارشاد فرمایا :
{فاذا قضیتم الصلوٰۃ فاذکراللّٰہ قیام وقعودا وعلی جنوبکم}(النسا:۱۰۳)
جب نماز ادا کر چکو تو کھڑے بھی ، بیٹھے بھی اور لیٹے بھی یعنی کروٹ کے بَل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو-
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
{واذکراللّٰہ کثیرالعلکم تفلحون}(جمعہ:۱۰)
اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم کامیاب ہوجائو -
فلاح کس چیز سے حاصل کرنی ہے؟ ہمارے ازلی دشمن نفس، شیطان اور دنیا مردود ہیں یعنی مادہ پرستی کے موجودہ دور میں یہ سب سے خطرناک دشمن ہیں- ذکراللہ سے اِن دشمنوں سے خلاصی حاصل ہوجاتی ہے اور بندہ صحیح طور پر طلبِ مولیٰ اختیار کر لیتا ہے جس کے بعد دل پر مرشدِ کامل توجہ فرماتا ہے اور دل کو زندگی نصیب ہوتی ہے -بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر اپنا ذکر فرض فرمادیا :
{یایھالذین امنو اذکراللّٰہ ذکرا کثیرا وسبحوہ بکرۃ واصیلا}(الاحزاب:۴۱)
اے ایمان والو اللہ کا ذکر کثرت سے کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو-
{واذکرسم ربک بکرۃ واصیلا} (الدھر:۲۵)
اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر صبح و شام کرو یعنی اسم اللہ ذات کا ذکر کرو-
مزید فرمایا:
{واذکرسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا }
اپنے رب کے نام کا (یعنی اسم اللہ ذات) کا ذکر کرو ہر چیز سے لا تعلق ہوکر-
حدیث قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اذا ذکرتنی شکرتنی اذا نسیتنی کفرتنی }
جس نے میرا ذکر کیا اس نے میرا شکر کیا جس نے مجھے بھلا دیا اس نے کفر کیا-
مفسرین کرام فرماتے ہیں :
صبح سے لے کر شا م تک اور شا م سے لے کر صبح تک ذکر کرو آخر وہ کونسا طریقہ ہے کہ اللہ پاک کا ذکر کرنا ہے؟ طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمادیا:
{واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ ودون الجھر من القول بالغدو والاصال ولتکن من الغفلین}(الاعراف:۴۵)
اور ذکر کرو اپنے رب کا ، اپنے جی میں ، سانسوں کے ساتھ ، عاجزی سے اور خفیہ طریقے سے بغیر آواز نکالے صبح و شام ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو-
حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں :
جنہاں عشق حقیقی پایا موہوں نہ کجھ اَلاوَن ھُو
ذکر فکر وچ رہن ہمیشاں دم نوں قید لگاون ھُو
نفسی، قلبی، روحی، سری، خفی اخفیٰ ذکر کماون ھُو
میں قربان تنہاں توں باھُو جیہڑے اکس نگاہ جواون ھُو
محبت کے جو قیدی ہیں وہ کب فریا د کرتے ہیں
لبوں پہ مُہر خاموشی دلوںمیں یاد کرتے ہیں
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے ہیں جو سچے عاشق ہوتے ہیں وہ اپنی سانسوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکرمیں قید کر لیتے ہیں ان کا کوئی بھی سانس اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر نہیں آتا جاتا- حضور کا فرمان مبارک ہے:
{الانفاس معددۃ وکل نفس یخرج بغیر ذکراللّٰہ تعالیٰ فھو میت}
سانس گنتی کے ہیں جو سانس بغیر ذکراللہ کے نکلا وہ مردہ ہے-
حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں :
جو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھُو
سنیا سخن گیاں کھل اکھیں اساں چِت مولا ول لایا ھُو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو
مرن توں اگے مرگئے باھُوؒ تاں مطلب نوں پایا ھُو
آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبار ک ہے :
{خیر الذکر ذکر الخفی}
سب سے بہتر ذکر خفی ذکر ہے -
جو لوگ اللہ پاک کا ذکرسانسوں کے ساتھ دل میں کرتے ہیں وہ مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں یعنی{ موتوا قبل ان تموتو ا}کا مصداق بن جاتے ہیں مرنے سے پہلے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ نفس مرجاتا ہے اور دل زندہ ہوجاتا ہے کیونکہ
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
اقبال فرماتے ہیں:
دلِ بیدار فاروقی، دل بیدار کراری
مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
دل بیدار پیدا کر ! کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری
اللہ رب العزت نے بندے سے قرآ ن پاک میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ
{فاذکرونی اذکرکم }
اے بندے تو میرا ذکر کر ، مَیں تیرا ذکر کروںگا-
حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ تو ذکر کرنے سے پاک ہے وہ کیسے ذکر فرمائے گا آپ فرماتے ہیں :
شریعت مطہرہ کا مسئلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کی ڈیوٹی انسان کے وجود میں لگائی ہے اور ایک فرشتہ کی ڈیوٹی انسان کے وجود کے باہر ہے جب انسان کی سانس اندر جاتی ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے الٰہی بندے کی زندگی باقی ہے تو سانس کو باہر آنے دوں ورنہ روک لوں ،حکم ہوتا ہے باہر آنے دو، جب سانس باہر آتی ہے تو باہر والا فرشتہ عرض کرتا ہے کہ سانس کو واپس اندر جانے دوں یا روک لوں تو حکم ہوتا ہے کہ مَیں نے بندہ سے وعدہ کیا ہے اے بندے تو میرا ذکر کر مَیں تیرا ذکر کروں گا-اے فرشتے سانس کو میری بارگاہ میں پیش کر جب سانس کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے تو جو سانس ذکراللہ میں پُر ہوکر یعنی اسم اللہ ذات میں لپٹی ہوئی ہو اس سانس کو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے پکڑ کر اپنے نور میں پیار ، اُلفت اورمحبت مہربانی میں لپیٹ کر فرشتے کے حوالے فرماتے ہیں کہ بندے نے اپنی اوقات و بساط کے مطابق میرا ذکر کیا ،مَیں نے اپنی شان کے مطابق اس کا ذکر کیا ہے اور اس سانس کے بدلے اُس بندے کے اعمال نامہ میں ایک نوری موتی جمع کردیا جاتا ہے جو بڑے بادشاہوں کی شاہی سے زیادہ قیمتی ہے اور سانس جو اللہ تعالیٰ کے نور میں لپٹی ہوئی فرشتہ واپس انسان کے وجود میں داخل کرتا ہے جس سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور ظلمت گھٹتی ہے ، نفس امارہ پر کاری ضرب لگتی ہے ، جس خوش نصیب کی ہر سانس قلبی ذکر تصورِ اسم اللہ ذات میں آ جا رہی ہو تو ایک گھنٹہ میں ایک ہزار سانس نصیب ہوتی ہے اُس دل کی کیا پوزیشن ہوگی اور نفس کے ساتھ کیا بِیت رہی ہوگی ؟ اقبال نے بڑے پیارے اندارز میں اس کا نقشہ کھینچا:
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
عارفِ لاہوری کے اِس شعر کی تشریح میری ناقص رائے میں یہ ہے کہ انسان کا تصورِ اسم اللہ ذات میں محو ہو کر سانس کا اندر کی طرف ’’جھپٹنا‘‘ اور پھر اُسی محویت کے عالم میں سانس کا وجودِ آدمی میں واپس ’’پلٹنا‘‘ - اور اِسی طرح یادِ الٰہی میں سانس کا پلٹ کر پھر اندر کو جھپٹنا یہ انسان کے وجود میں اِس کے لہُو کو عشقِ الٰہی کی گرمی و حرارت عطا کرتا ہے -
جو سانس ذکراللہ کے بغیر نکلتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو حکم فرماتا ہے کہ یہ سانس غافل اور ناپاک ہے اورمیری بارگاہ پاک ہے لہٰذااِسے پھینک دو ، جب سانس پھینکی جاتی ہے تو شیطان جھپٹ لیتا ہے اور شیطانیت میں بھر کر غافل کے وجود میں داخل کردیتا ہے جیسے حضرت سلطان باھُو نے فرمایا :
جو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھُو
سنیا سخن گیاں کھل اکھیں اساں چِت مولا ول لایا ھُو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو
مرن توں اگے مرگئے باھُوؒ تاں مطلب نوں پایا ھُو
تصوّر اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر سے دل پاک اور روشن ہوجاتا ہے ، رُوح کو جِلا نصیب ہوجاتی ہے ، انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے ، انسان اپنے مقصدِ حیات کو پالیتا ہے-
بانی ٔاصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین سلطان الفقر ششم ، حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس سرہٗ العزیز آپ نے اُمت مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا ، فقر کا وہ خزانہ جس پر آقا علیہ السلام نے فخر فرمایا ہے اور فرمایا ’’ فقر میرے اندر کا نور ہے‘‘ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فقر کے خزانے کو عام کردیا جو کہ اسم اعظم ،اسم اللہ ذات کی صورت میں ہے - سلطان الفقر ششم کی امتیازی شان ہے کہ آپ کی بارگاہ میں جو بھی آتا چاہے دُنیاوی غرض سے ہی کیوں نہ ہو، آپ اس کی دُنیاوی مشکل بھی حل فرماتے اور ساتھ ہی ارشاد فرماتے کہ ہماری طرف سے یہ تحفہ جو خزانہ فقر محمدی ؐ ہے یعنی اسم اللہ ذات عطا فرماتے ، آپ جہاں بھی سفر فرماتے چاہے شکار کے سلسلے میں جو کہ آپ خرگوش کے شکار کیلئے سالانہ دورہ فرماتے جو تقریبا ۲ ماہ کا ہوتا تھا آپ کی بارگاہ میںجو بھی حاضر ہوتا آپ بلا امتیازِ سلاسل ہر ایک کو خزانۂ فقر محمدی اسم{ اَللّٰہُ }عطا فرماتے-
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہزاروں کی تعداد میں سونے کے پانی والے اسم { اَللّٰہُ }کا اہتمام فرمایا تھا ، لا تعداد خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں آپ نے سونے کے پانی والی اسم { اَللّٰہُ } عطا فرمائے اور ساتھ ہی اسم یاھُو کے ذکر کی اجازت بھی فرماتے او ر مشقِ وجودیہ کا طریقہ بھی سمجھا تے اور شریعتِ مطہرہ کی پابندی کی تاکید فرماتے ، اکثر اوقات ایسا موقع بنتا کہ یہ عاجز بھی محفل پاک میں حاضر ہوتا آپ آنے والے لوگوں کو اسم{ اَللّٰہُ } کاطریقہ ارشاد فرما رہے ہوتے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ اِس عاجز کو مخاطب ہو کر فرماتے ’’صوفی صاحب حدیث مبارک سنائیں‘‘ - تو مَیں عرض کرتا
{اسم اللّٰہ شیٔ طاہر لا یستقر الا بمکان طاہر}
اسم اللہ وہ پاک شے ہے بغیر پاک مکان کے قرار نہیں پکڑتی-
سلطان الفقر ششم فرماتے:
شریعت مطہرہ کی پابندی سے ظاہری وجود پاک ہوگا تب اسم اللہ ذات قرار پکڑے گا - آپ جلسہ کمیٹی ، گھڑ دوڑ ، نیزہ بازی کیلئے تشریف لے جاتے کیونکہ آپ ایک شہسوار نیزہ باز بھی تھے ،تو زیارت کیلئے آپ کی خدمت میں جو حاضر ہوتے ، آپ ملنے والے لوگوں کو خزانہ فقر اسم { اَللّٰہُ } عطا فرماتے اور اکثر قرآن پاک کی یہ آیت مبارک تلاوت فرماتے:
{یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللّٰہ بقلب سلیم}
کل قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں بلکہ قلب سلیم کام آئے گا-
آپ ارشاد فرماتے :
قلب سلیم وہ دل ہے جس پر اسم اللہ نقش ہوجائے -اور حضرت سلطان باھُو کا یہ جملہ مبارک ارشاد فرماتے :
؎ گر یک بار مرقوم تا قیامت جد ا نہ شود
جس خوش نصیب نے ایک مرتبہ تصوّر کے ذریعے اپنے دل پر اسم اللہ نقش کرلیا قیام قیامت تک جد ا نہ ہوگا-
اسی طرح جماعت پاک کا سالانہ مرکزی ٹور کاسفر فرماتے جو میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے سلسلہ میں پاکستان کے ہر شہر میں پروگرام ہوتے وہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اسم اللہ ذات عطا فرماتے بالخصوص سونے کے پانی والے اسم{ اَللّٰہُ } جو کہ فقر کا خزانہ ہے - حضرت سلطان باھُو کی اولاد پاک میں اکثر شہزادگان کو وہی اسم اللہ ذات عطا فرمائے یعنی سونے کے پانی والے- اور اسم یاھُو کی اجازت بھی فرمائی اور ساتھ ہی مشقِ وجودیہ کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیتے اور حضرت سلطان باھُو کی کتب بھی عطا فرمائیں ، میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا مرکزی پروگرام جو ۱۲ ، ۱۳ اپریل کو ہر سال دربار پاک پر ہوتا ہے ، علمائے کرام تشریف لاتے یا سالانہ ٹو ر پروگرا م میں ہمسفر علمائے کرام کو سونے کے پانی والے اسم اللہ ذات اور سلطان العارفین کی کتب عطا فرماتے -
مختصر بات یہ ہے کہ
جدھر جدھر بھی گئے کرم ہی کرتے گئے
کسی نے مانگا نہ مانگا خالی دامن بھرتے گئے
۲۰۰۳ء سالانہ مرکزی میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا پروگرام جو کہ دربارِ عالیہ پر منعقد ہوا ،اختتام پذیر ہوا اگلے روز ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ ء کو آپ رحمۃ اللہ علیہ بمعہ اپنے شہزادگان اور اصلاحی جماعت کے صدور صاحبان اور تنظیمی کارکنان کو ساتھ لے کر حضرت سلطان باھُو کے مزار پر حاضری کیلئے تشریف لے گئے حاضری سے فارغ ہوتے ہی اپنے بڑے شہزادے حضرت سلطان محمد علی صاحب کو حضرت سلطان باھُو کے مزار مبارک کی پائیتی کی طرف بٹھا کر مزار مبارک پر ہاتھ رکھوا کر اور اپنا ہاتھ مبارک اوپر رکھ کر بیعت فرمایا پھر اپنے سرِ اقدس پر دستار باندھ کر حضرت سلطان محمد علی صاحب کے سَر مبارک پر رکھ کر ہم سب کی طرف مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا جو فقر کی دستار آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میرے مرشد پاک تک آئی اور میرے مرشد پاک نے مجھے عطا فرمائی اور وہی فقر کی دستار مَیں نے حضرت سلطان محمد علی صاحب کے سَر مبارک پر سجا دی ہے، اور جو فقر کا خزانہ سینہ بہ سینہ مجھ تک پہنچا ہے مَیں نے حضرت سلطان محمد علی صاحب کو عطا فرما دیا ہے- با اعتبار ِظاہر کے یہ بات خوش آئند تھی اور تمام ساتھی خوشی سے جھوم رہے تھے لیکن اس میں ایک راز مخفی تھا جو کہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ ء بروز جمعۃ المبارک صبح صادق کے وقت ظاہر ہوا جب آپ نے اس دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف تیاری فرما لی -اب تمام سلسلہ اور خزانہ فقر کی تقسیم جو آپ نے فرمائی تھی بدرجہ اولیٰ جانشین سلطان الفقر ششم ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب اسی ترتیب سے ہر خاص و عا م میں عطا فرما رہے ہیں -
وما تو فیقی الا بااللّٰہ
٭٭٭٭