دُنیا کی تاریخ کا آغاز ابوالبشر سیّدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہوا اور انسانیت کو تفضیل و تکریم کا تاج عطا فرمایا جس کو قرآن حکیم اِن کریمانہ الفاظ سے بیان فرماتا ہے{انی جاعل فی الارض خلیفہ}جس پر ملائکہ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی {نحن نسبح بحمدک ونقدس لک}تو جواب میں رب ذوالجلال والاکرام نے ارشاد فرمایا
{انی اعلم مالا تعلمون}
’’ مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے- (۱)
{اتجعل فیھا من یفسد ویفسک الدماء}
ایسے کو نائب بنائے گا جو اِس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزیاں کرے گا-(۲)
{فقال انبؤنی باسماء ھؤلاء ان کنتم صدقین}
پس سب اشیاء کو ملائکہ کے سامنے پیش کر کے فرمایا،سچے ہو تو اِن کا نام تو بتائیے- (۳)
{قال یآدم انبئھم بآسمائھم ج فلما انباھم باسمآئھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السموت والارض واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمونo}
اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم علیہ السلام نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہوo(۴)
{واذ قلنا للملائکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیسطابی واستکبر وکان من الکفرینo}
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجتاً) کافروں میں سے ہوگیاo(۵)
درج بالا آیاتِ مبارکہ میں سے آیت نمبر ۳۰: البقرہ کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیرکے مترجم پیر سید محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے جلد نمبر ۱، ص:۱۲۸،۱۲۹ پر تفسیر کے ترجمہ میں جو لکھا ہے -
(۱) {وانی جاعل فی الارض خلیفہ}
یعنی اُن کے جانشین ہونے کے یکے بعد دیگرے ایک قرن کے بعد دوسری اور ایک نسل کے بعد دوسری جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وھوالذی جعلکم خلئف الارض }(۶)
{ویجعلکم خلفاء الارض}(۷)
{ولونشاء لجعلنا---- یخلفون}(۸)
{فخلف من بعدھم خلف} (۹)
قرطبی نے زید بن علی سے نقل کیا کہ خلیفہ سے مراد یہاں صرف آدم علیہ السلام نہیں -قرطبی نے اسے ابن عباس ؓ، ابن مسعودؓ اور دیگر مفسرین کی طرف منسوب کیا -(۱۰)
مندرجہ بالا آیات مبارکہ کی روشنی میں واضح فرمایا گیا کہ آدم علیہ السلام کے جانشین اور اُن کے جانشین یعنی خلفاء آتے رہیں گے جو اپنے باپ آدم علیہ السلام کی وراثت کے حامل ہوں گے اور حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد تو جو نظامِ خلافت سامنے آیا ہے وہ بھی بیّن ثبوت ہے اِس کا مطلب یہی ہے کہ یہ سلسلہ آخر تک قائم و دائم رہے گا اور جب یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوگا تو اُس کے بعد قیامت کا قیام ہوگا-
آیت مبارکہ کے دوسرے حصے کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
صحیح حدیث میں ہے کہ ملائکہ جب بندوں کے اعمال لے کر واپس جاتے ہیں اور رب قدوس کی بارگاہ سے پوچھا جاتا ہے جو رحیم و کریم ہونے کے ساتھ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اِ س کے باوجود دریافت فرماتا ہے ’’ تم نے میرے بندوں کو کس حال پر چھوڑا؟ وہ بصد عجز و نیاز عرض کرتے ہیں کہ جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ نما ز پڑھ رہے تھے ، اِس سے آگے چل کر فرماتے ہیں ایک قول کے مطابق تفصیلی حکمت جو تخلیقِ انسان میںتھی اُس کے بارے فرمایا کہ میرے مخصوص علم میں ہے یہ اُن کے اُس قول کا جواب ہے جو یہ کہتے تھے کہ ہم تیری حمد و ثناء تقدیس کے ترانے گاتے ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ اِس کا علم تو صرف مجھے ہے کہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے اسی صفحہ پر فرماتے ہیں کہ {وانی اعلم مالا تعلمون} کہ اِن کے فسادی ہونے کے باوجود جس مصلحت کی بنا پر اسے پیدا کررہا ہوں اس کا علم صرف مجھے ہے تم نہیں جانتے، مَیں اِن میں انبیاء اور رسول مبعوث فرمائوں گا ان میں صدیق، شھداء عابد، زاہد، علماء باعمل، صالحین، متقی جو اللہ تبارک وتعالیٰ ْاور اُس کے رسولوں سے محبت کرنے والے ہوں گے- (۱۱)
شیطان مردود سجدہ سے منکر ہوا {ابیٰ واستکبر وکان من الکافرین}(البقرہ:۳۴)کی زد میں آکر لعنت کا طوق ہمیشہ کیلئے گلے میں پہنا اور انسانیت کا ازلی دشمن قرار پایا پھر اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی اور قسمیں کھانی شروع کردیں کہ مَیں اولادِ آدم تمام کو اغواء کر کے اپنے قافلے میں لے جائوں گا مگر اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ {وان عبادی لیس لک علیھم سلطن}(الاسراء :۶۵)اور بیشک میرے بندوں پر تیری حکمرانی نہیں چلے گی-
آدم علیہ السلام کا دُنیا میں تشریف لانا اور یکے بعد دیگرے کم و بیش ایک لا کھ چوبیس ہزار انبیاء کی تشریف آوری ہوئی جس سے انسانیت کی رہنمائی ہوتی رہی-سلسلۂ نبوت کا اختتام محبوبِ کائنات ﷺ کی تشریف آوری کے ساتھ ہوا اور آپ نے سید الانبیاء کے ساتھ خاتم النبین کا خطاب ِ دل نواز پایا اور فرمایا
{انا خاتم النبین لا نبی بعدی }(۱۲)
مَیں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا-
وہ دانائے سُبل ،ختم الرسل،مولائے کُل
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
خزانۂ فقر آپﷺ کو پیش کیا گیا اور اس کا آغاز آپ کی ذاتِ مقدّسہ سے ہوا جس پر اعلان فرمایا :
{الفقر فخری والفقر منی}
حسن یوسف دمِ عیسیٰ ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
جملہ انبیائے کرام صفاتِ الٰہیہ کے مظہر ہیں اور سرورِ کائنات ﷺ ذات و صفاتِ الٰہی کے مظہر ہیں - آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے تعلیمات وحی یعنی قرآن مجید سے اپنے صحابہ کرامؓ کو سنوارا- قرآن و فرمانِ نبوی کے سایہ میں پرورش پانے والے صحابہ کرامؓ نے قرآنِ مجسم ہوکر عمل کر کے دکھایا اور فقرِ محمدی ؐ سے منور ہوکر صدیق و فاروق و غنی و حیدر کرارؓ جیسے القاب پائے - اُس نور کو آگے تابعین و تبع تابعین اور سلف صالحین تک پہنچا کر اُن کو درخشاں ستارے بنایا یہ تا قیامِ قیامت دن بدن نور پھیلاتا چلا جائے گا اور پھیل رہا ہے ، محبوبانِ خدا سرورِ کائنات ﷺ کی سنت کی پیروی میں اپنے وقت میں فرائض منصبی ادا کرتے رہیں گے یہ نور ِ فقر سینہ در سینہ منتقل ہوتا رہے گا - بندہ ناچیز توفیقِ الٰہی سے جس محبوب ہستی کا ذکر کرنے کی جسارت ان کی عطاکردہ توفیق سے کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے جنہو ں نے اپنی تمام تر زندگی راہِ حق کی رہنمائی کرنے میں صَرف فرمائی اور امتِ محمدی ﷺ کو یکجا اور متحد کرنے کی سعی بیکراں فرمائی جو ایک زندہ جاوید کی حیثیت سے جاری و ساری ہے -
شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایک عظیم شخصیت ، مہربان ، شفیق و خلیق ، رحمتِ الٰہی کے قلزم حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت دربارِ عالیہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ضلع جھنگ ۱۴ اگست۱۹۴۷ء بمطابق ۲۷ رمضان المبارک کو ہوئی جن کی ولادت باسعادت کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کو آزاد اِسلامی جمہوریہ پاکستان کی دولت سے سرفراز فرمایا گیا جن کی تربیت خود شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جو آپ کے والد گرامی اور مرشدِ اکمل بھی ہیں نے فرمائی - شریعت و طریقت،حقیقت و معرفت سے آپ کا سینہ منور کرنے کے بعد فقرِ محمدی کی وراثت عطا فرمائی اور شہنشاہِ فقر کے اعلیٰ مرتبے پر فائز فرمایا -
فقر:
فقرِ مومن چیست، تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں -
(۱) فقر کیا چیز ہے؟
فقر یہ ہے کہ تو طمع نہ کرے اور کوئی تجھے دے تو منع نہ کرے اور اگر تجھے کچھ ملے تو جمع نہ کرے- اے باھُو ! فقیر ہوجا اور ظاہر کو اچھے اخلاق سے سنوار!حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں {تخلقوا باخلاق اللّٰہ}اپنے اندر اللہ والے اخلاق پیدا کرو-(۱۳)
(۲)فقر کیا چیز ہے؟
فقر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا وِرثہ ہے جس کی ابتداء بھی شریعت ہے اور انتہاء بھی شریعت ہے- (۱۴)
یہ دونوں اقوال مبارک اِس بات کے مظہر ہیں کہ صاحب فقر اخلاقِ حسنہ کے اعتبار سے اُسوہ حسنہ رسول اللہ ﷺکا مکمل پیروکار اور شریعت مطہرہ کا مظہر اتمہوتا ہے اور سلطان الفقر ششم بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ کو ہر مکتبہ فکرنے اس طرح پایا اور شک و شبہ سے مبراء اور حسنِ خلق کا منبع قرار دیا -
بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ نے سُنَّتِ رسُول کے مطابق اپنی زندگی مبارکہ کے چالیس سال بعد ایک تحریک شروع فرمائی جس کا نام اصلاحی جماعت رکھا، کہ جس طرح سرورِ کائنات ﷺ اپنی حیاتِ طیبہ میں پہلے چالیس سال ملکِ عرب اور گردو نواح کے ممالک سفر فر ماکر جغرافیائی اور زمینی حقائق کا جائزہ لے رکھا تھا اور اعلانِ نبوت کے بعد مشکلات و مصائب کے انبار کے باوجود اپنے فرائض نبوت احسن طریقے سے ادا فرمائے اُس کی مثال تو نہیں ملتی مگر اُس سنت کی روشنی میں مکمل اتباع اختیار کرکے اولیاء ، صلحائِ کرام نے بھی اپنے ذِمَّہ تفویض شدہ ڈیوٹی ادا فرمائی-
بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ نے خصوصاً ظلمت و مادیت کے اندھیروں میں سعی ٔ اتحادِ امت فرمائی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عمر مبارک چالیس سال تھی اُس وقت آپ نے اِس کی بنیاد رکھی اور عرب و عجم کی دُنیا میں انسانیت اور امن و اتحاد کو عام فرمایا اوریہ سعی ہر قسم کے رنگ و نسل ، قوم و ملک، کالے اور گورے سے بے نیاز ہوکر فرمائی گئی بالخصوص عالم اسلام جو اس وقت جنگ و جدال اور تفرقہ بازی کا شکار تھا اُس کا نعم البدل تلاش فرمایا اور صدیوں سے چھپے ہوئے راز کو افشاں کرکے ہر ایک خاص و عام کو بتایا کہ اُمت مرحومہ کی زبوں حالی اور انتشار کو ختم کرنے کیلئے نسخۂ کیمیا فقط یہ ہے کہسینوں کو قُرآن سے مُنوّر کر کے عالمِ کفر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے یا انہیں بھی راہِ حق پر لایا جاسکتا ہے-
اصلاحی جماعت کیلئے مرحلۂ تربیت:
بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ نے اگرچہ اپنی خانقاہِ عالیہ سے جماعت اور تحریک تشکیل دی ہے مگر مروجہ خانقاہی نظام کے برعکس ضروری اصلاحات فرما کر مخصوص تربیت عطا فرمائی جس کو مکمل طور پر اپنی نگرانی میں رکھا اور خود ہی تربیت عطا فرمائی - شروع ہی سے نفس پرستی اور اَنا پرستی سے جماعت میں شامل افراد کو دور رہنے کی نہ صرف تلقین فرمائی بلکہ توفیق بھی عطا فرمائی -
ترک و توکل:
ترک ماسوی اللہ اور توکل علی اللہ پر بنیاد رکھی اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنی نگاہ ِ کامل سے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بھی عطا فرمائی کیونکہ کامل تلقین کا تعلق بھی توجہات سے ہے جو ایک رہبر کامل و اکمل عطا فرما سکتا ہے اور فقیر میں یہ صفت اولیٰ طریقہ سے موجود ہوتی ہے-
سُلطان الفقر:
آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف فقیرِ کامل بلکہ مرتبۂ سلطان الفقر پر فائز ہیں -سلطان الفقر کے بارے میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ آدمی اس وقت تک مراتب فقر پر نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ باطن میں سر الٰہی کی صورتِ خاص ’’سلطان الفقر‘‘ اُسے اپنے ساتھ بغل گیر کر کے زیارت اور تعلیم و تلقین سے مشرف نہیں کر لیتی چاہے کوئی ریاضت کے پتھر سے اپنا سر ہی پھوڑتا پھرے، جب تک کہ سلطان الفقر کی طرف سے اشارہ نہیں ہوگا وہ فقر کی بُو تک نہیں پہنچ سکتا کہ سلطان الفقر کی وہ باطنی صورت ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضری رہتی ہے-‘‘ (۱۵)
اوصافِ قیادت - اتباعِ رسول ﷺ :
قرآ ن و سنت کی روشنی میں چار چیزیں رہنما کیلئے لازم ہیں جن پر بانی ٔ اصلاحی جماعت نے بنیاد رکھی وہ چار چیزیں قرآن مجید کے حوالے سے بیان فرمائی گئی ہیں ، یہ چار اوصاف سنت ہیں-
(۱)یتلو علیھم ایاتہ--- میرے محبوب آپ کے سامنے آیات کی تلاوت فرماتے ہیں-
(۲)یزکیھم---تمہیں (اپنی نگاہ سے) پاک کرتے ہیں-
(۳)یعلمھم الکتاب---تمہیں پوری کتاب (قرآن)سکھاتے ہیں-
(۴) الحکمۃ---اور حکمت عطا فرماتے ہیں- (۱۶)
یہ وہ چار اوصاف ہیں جو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام میں موجود ہیں اور آج بھی اُس سنت کے تحت ہر کامل رہنما کے اندر ہونا ضروری ہیں-
ذِکر اللّٰہ :
اسم اعظم ’’ اسم اللہ ذات‘‘ عطا فرماکر ظاہر اور باطن کو پاک فرمایا -
بندہ ناچیز نے اس عنوان کے آغاز میں جس چیز کا ذکر کیا ہے کہ نوری ملائکہ کو آدم علیہ السلام کے سامنے علمِ باطن کی قوت عطا فرمائی اور مسجودِ ملائکہ ٹھہرایا جبکہ ان میں ایک ناری (ابلیس)بھی موجود تھا اُس نے انکار کیا لعنتی اور مردود ٹھہرا-اصل سوال یہ ہے کہ کیا عظمتِ انسان کو ہم نے سمجھا ہے؟ نیز اَنا ، کبر ، حسد، بغض ، کینہ اور منافقت ، نفسانیت کیسے پیداہوئی؟
بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ کا پیغام جو ہمہ گیریت اور عالمگیریت پر مبنی ہے جو بالعموم انسانیت اور بالخصوص اتحادِ امت اور ملتِ اسلامیہ کی فتح مبین کیلئے ہے تاکہ خد اکی زمین پر خدا کے نظام کا نفاذ ہو، خلافتِ الٰہیہ قائم ہو جس میں ہر ایک کی بلا امتیاز داد رَسی ہو ، عدل و انصاف مہیا کیاجائے، خاص کر اُمت فرقہ واریت سے نکل کرایک دوسرے کے حقوق و فرائض کو سمجھ سکے وہ نظام جو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ جلیلہ سے انعقاد پذیر ہوا جو آج بھی سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہی وسیلہ جلیلہ سے قائم ہوسکتا ہے -
بانی ٔ اصلاحی جماعت نے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے احباب سے رابطے فرمائے جس میں بڑی تعداد عامۃ النّاس یعنی عام غریب و مسکین مُسلمانوں کی ہے جو صدق و صفا اور وفا کا پیکر ہوتے ہیں اُس کے علاوہ مشائخِ عظام ، علمائے کرام، سیاسی ، سماجی اور مذہبی رہنمائوں نے شمولیت اختیار کی-
سب سے پہلے آپ نے جماعت کے وفود دیہی اور شہری علاقوں میں بھیجے جن کو بے پناہ پذیرائی ملی اور ہر مکتبہ ٔ فکر کے لوگوں نے شمولیت اختیار کی بعد ازاں آپ نے پورے ملک میں تبلیغی دورے فرمائے اور آپ کی شخصیت ، گفتار اور کردار کو دیکھ کر پہلے سے ہزار گنا بڑھ کر لوگوںنے فیضیاب ہونا شروع کردیا کیونکہ اتباعِ سنت کے نتائج کبھی غلط ثابت نہیں ہوسکتے - آپ نے اس مشن کو کامیاب بنانے کیلئے اصلاح و تبلیغ کیلئے ہنگامی دورے بھی فرمائے اور باقاعدہ سالانہ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے دورے کا اہتمام فرمایا جو اکثر جنوری، فروری اور مارچ کے مہینوں میں ہر سال ، ہر ضلع تحصیل اور یونٹ کی سطح پر ہوتے رہے اور سالانہ مرکزی پروگرام ہر سال ۱۲، ۱۳ اپریل آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ پر منایا جاتا ہے جو آج تک باقاعدگی سے الحمد للہ جاری و ساری ہے ، جس میں پورے ملک اور بیرون ممالک کے ہر خیال و فکر کے لوگ دلجمعی سے آتے ہیں اور اس فیضِ عام سے مستفیض ہوکر صرف خود نہیں بلکہ فیضِ نظر سے کامرانی کیساتھ واپس جاکر دوسری خلقِ خدا کو بھی سعی ٔ اتحادِ امت کیلئے پیغام پہنچاتے ہیں - آنے والا ہر بندہ خواہ وہ جس نیت کیساتھ تشریف لاتا ہے وہ فیض رسان بن کر اور پُر اطمینان ہوکر اسلام اور اتحادِ امت کیلئے جوش و لولہ کیساتھ تشریف لے جاتا ہے-
آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں جیّد اور نامور علماء کرام تشریف فرما ہوتے ، آپ کی عادت مبارک تھی کہ اکثر باوجود علالت کے اُن کا اٹھ کر استقبال فرماتے اور مہمان نوازی اور سخاوت اور گفتگو میں دلنوازی کا خوبصورت انداز اس قدر مہمانانِ گرامی کو مسحور فرما لیتا کہ جو ایک آدھ گھنٹہ کیلئے بھی بیٹھنا چاہتا وہ کئی دن اور کئی راتیں آپ کی صحبت اختیار کرنے کے بغیر نہ جاتا-
بانی ٔ اصلاحی جماعت تفرقہ بازی او رموجودہ انتشار و افتراق کی وجہ سے یہی بتاتے تھے کہ اصل تفرقہ بازی نفس امارہ ، شیطان اور دُنیا دُوں ہے ، یہ تینوں ہمارے امتحان کیلئے ہیں ، مادہ پرستی کی دَلدل میں ان کی وجہ سے پھنسی ہوئی خلقِ خدا خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اُس کی تو فیقِ خاص سے نکالنا ہمارا فرضِ اوّلین ہے ، پہلے دن تحریکی ارکان کو اسم اعظم کی تلقین فرماتے اور ارشاد ہے کہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا تصور اپنے دِلوں پر نقش کرنا فرض ہے اور جس کا ذکر بھی فرض ہے اِس کو دِل کی زبان سے پڑھنا ہمارے اندر اپنے رب کی طلب پیدا کرتا ہے-
آپ ارشاد فرماتے کہ ’’ {واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا} (آل عمران:۱۰۳) کا جو مطلب علمائے کرام بتاتے ہیں کہ اعمالِ شریعت ہیں اِس میں ذرہ بھر بھی کوئی فرق یا شک و شبہ کی گنجائش نہیں ، یہ صراحتاً درست ہے مگر اس کے ساتھ اعمالِ طریقت بھی اس سے کم نہیں بلکہ زیادہ حیثیت کے حامل ہیں جس کیلئے قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ {ومن یعتصم باللّٰہ فقد ھدی الی صراط مستقیم}(آل عمران:۱۰۱)اور جس نے اللہ کو پکڑ لیا پس تحقیق وہ صراط مستقیم کی ہدایت پاگیا ، اب اللہ کو کس طرح پکڑا جاسکتا ہے؟
فرماتے ہیں کہ اللہ کے نام اسم اللہ ذات، جب ہاتھ میں لے کر اُس کا تصور کیا جائے اور سانسوں کیساتھ اللہ کا ذکر کیا جائے جس کا قرآن حکیم دوسری جگہ حکم ہے کہ {واذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفۃ}(الاعراف:۲۰۵)اور اپنے رب کا ذکر عاجزی سے خفیہ طور پر کرو تو اس طرح جب ہر سانس کے ساتھ ذکر کیا جائے تو جب تک انسان کی زندگی ہے اس وقت تک سانسوں کا چلنا ضروری ہے ، کھڑے بیٹھے، لیٹے ہر حال سانس چل رہے ہوں گے اور جب ان کو اللہ کے ذکر میں لگا دیا جائے اور کثرت کیساتھ کیاجائے تو یکسوئی نصیب ہوتی ہے تو یہ اصل رسی ہے جس کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو تفرقے ختم ہوجائیں اور تفرقے ، نفس امارہ، شیطان(ازلی دشمن) اور دنیائِ دُوں ان تینوں دشمنوں سے جان چھوٹ جائے گی اور یہ رسمی نہیں اصلی تصوف ہے جو سلف صالحین کی اصل میراث ہے جس کا حقدار ہر بنی آدم ہے اور حقیقی اتباع رسول ﷺ ہے -
بانی ٔ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین نے فرمایا کہ دینِ حق کی پیروی اتباع سنت میں کی جانی چاہیے یہی اصلاحی جماعت کا مشن ہے جو آپ نے سعی ٔ اتحادِ امت کیلئے اختیار فرمایا - خانقاہوں سے مروجہ نظام کی اصلاحات و اصلاح کی ضرورت ہے جن کا کرنا لازم ہے اور تب جاکر حقائق و دقائق واضح کیے جائیںجن کی بنیاد پر احترامِ انسانیت، مقامِ انسانیت اور معراجِ انسانیت نصیب ہوسکتی ہے-
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سعی ٔ اتحادِ امت کیلئے اس انقلابی جدو جہد کا آغاز فرمایا اور تصوف کا حقیقی اور قرآن و حدیث سے مطابقت رکھنے والا عظیم مشن عوام الناس کو عطا فرمایا ، سارا مقصد یہ تھا کہ دراصل امتِ مرحومہ اور ملتِ اسلامیہ اس وقت کُلی طور پر بگاڑ کا شکار ہے ، جزوی بگاڑ کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جاسکتا ہے لیکن اجتماعی طور پر اس کا حل ناممکن ہے- امتِ مسلمہ آج مذہبی ، دینی ، رُوحانی و اَخلاقی ، عملی و فکری ، سیاسی و معاشی اور اقتصادی و تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے بد ترین زوال کا شکار ہے ، تباہی و بربادی کی حدوں کو چھُو چکی ہے لہٰذا ضروری تھا کہ اصلاحی اور تجدیدی کوشش کی جائے تاکہ امت مسلمہ کو زوال و پستی ، نفاق و تفرقہ بازی سے نکال کر امن و سلامتی ، اتحاد و یگانگت کی وِحدت میں ڈھالاجائے، ہمہ جہت بگاڑ کیلئے ہمہ گیری انقلابی جدو جہد کیلئے ، اصلاحی جماعت کا پلیٹ فارم دے کر سعی ٔ اتحادِ امت کو بروئے کار لایاجائے-
حضرت مولا علیؓ سے مروی ہے:
{لا یقوم بدین اللّٰہ الا من احاطہ من جمیع جوانبہٖ} (۱۷)
’’ اُس وقت تک اللہ کا دین زندہ و قائم نہیں ہوسکتا جب تک اس کے تمام جوانب و اطراف سے اپنی مکمل جدو جہد کا احاطہ نہ کیاجائے-‘‘
انہی وجوہات کے پیشِ نظر اصلاحی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں قرآنی آداب و فلسفہ کی روشنی میں انسانیت کی تعمیر و تکمیل کیلئے اعلیٰ معیار کیساتھ اس تصوف کو عام فرمایا گیا جو عین قرآن و سنت کے مطابق شریعت و طریقت کا کامل ترین راستہ ہے- آخر پر عرض کردوں کہ بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی اِس بیکراں سعی ٔاتحادِ امت کے کردار کو کماحقہٗ بیان کرنا صرف مشکل نہیں بلکہ قطعاً ناممکن ہے - البتہ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب ہیں جن کو یہ ذمہ داری سپرد فرمائی گئی وہ اس کو وسیع سے وسیع تر بناتے چلے جارہے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُن کا بابرکت و رحمت کا سایۂ التفات مجھ ناچیز سمیت اُمت مسلمہ کو صدا نصیب رہے ،اٰمین
فقر چوں عریاں شود زیرِ سپہر
از نہیبِِ اُو بلرزد ماہ و مہر
’’ فقر جب آسمان کے نیچے اپنا آپ ظاہر کرتا ہے تو اُس کی ہیبت سے سورج اور چاند لرزتے ہیں-‘‘(۱۸)
****
_________________________________________________________________________________________________
حوالہ جات:
(۱)(البقرہ:۳۰) (۲)(البقرہ:۳۰)
(۳)(البقرہ:۳۱) (۴)(البقرہ:۳۳)
(۵)(البقرہ:۳۴) (۶)(الانعام:۱۶۵)
(۷)(نمل:۶۲) (۸)(الزخرف:۶۰)
(۹)(الاعراف:۱۶۰)
(۱۰)(ترجمہ تفسیر ابن کثیر جلد اوّل ص ۱۲۸)
(۱۱)(تفسیر ابن کثیر ، ترجمہ پیر کرم شاہ الازہری ،جلد۱ ص ۱۲۹)
(۱۲)(جامع ترمذی، کتاب الفتن )
(۱۳)(عین الفقر:۳۰۷)
(۱۴)(عین الفقر:۳۱۵)
(۱۵)(محک الفقر، حضرت سلطان باھُو: ص،۲۶۷)
(۱۶)(اٰل عمران:۱۶۴)
(۱۷)کنز العمال جلد ۳ ص ۱۷۱)
(۱۸)(پس چہ باید کرد)