سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کا نامِ مبارک تاریخ میں اِس لحاظ سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ آپؒ نے تصوف کے اس فلسفہ کو حقیقت کا رنگ دیا جس میں علم کے ساتھ عمل پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس عمل کے فلسفہ میں بھی ایک نئی رُوح پھونکی- گزشتہ کئی صدیوں پر محیط مسلم دُنیا پر بے عملی کے زوال نے عام مسلمانوں کو عمل کی اصل تعریف سے بہت دور کر دیا تھا- یا تو ایسے مکاتب فکر دیکھنے کو ملتے تھے جو تصوف میں عمل سے مراد فقط انسان کے باطنی معاملات کو تشبیہہ دیتے رہے اور دوسری جانب ایسے مکاتب فکرتھے جنہوں نے باطن سے بالکل بے خبر ہو کر ظاہر کو اپنا کر اسے عمل کا نام دے دیا- ایسے میں علامہ اقبالؒ نے تصوف کے حقیقی فلسفۂ عمل کیلئے آواز بلند کی اور ان دونوں نظریات پر کاری ضرب لگاتے ہوئے عمل کو انسان کے ظاہری، باطنی، دُنیاوی، اُخروی تمام معاملات کے ساتھ نتھی کیا- اس نظریہ کی عملی شکل ہمیں تاریخ میں کئی صدیوں بعد بالآخر بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں ایک تحریک کی صورت میں نظر آئی جب سلطان الفقر ششمؒ نے عالمگیر تحریک یعنی اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی-
ابتدا سے ہی آپ ؒ نے اس جماعت کی بنیاد اِسلام کے بنیادی اُصولوں یعنی ظاہر و باطن، تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے نظام کو سر تسلیم خم کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر رکھی اور صدیوں سے سطحی مسائل میں اُلجھے مسلمانوں میں ایک نئی رُوح پھونک کر انہیں انسان کے حقیقی مقام سے آشنا کروا کر اقبال کی فکر "رِفعت میں مقاصد کو ہم دوشِ ثریا کر "کا عملی مظہر بنایا اور انہیں اس امر کا احساس دلایا کہ مصطفیٰ کریمﷺ کا مشن ہمارے آپس کے اختلافات اور صدیوں سے درپیش فروعی مسائل سے بہت بڑا اور عالمگیر ہے اور ہمیں اپنے دینی و دُنیاوی معاملات میں اپنی سوچ اور فکر کو اِسلام کے عالمگیر اُصولوں کے مطابق پروان چڑھانا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی طالبِ مولا کے حقیقی روپ میں ڈھالنا ہے- اپنے سب کچھ کا مالک اپنے خالق کو سمجھنا اور اُسی کی راہ میں آگے بڑھنے کی نِیَّت کئے رکھنا ہے کیونکہ قرآن نے حیاتِ اُخروی کا جو تصوُّر پیش کیا ہے (جِسے حضرت سُلطان باھُو ’’باغ بہاراں‘‘ کی جامع ترین اِصطلاح میں بیان فرماتے ہیں ) وہ اِسی بات کا متقاضی ہے کہ اللہ ’’کو‘‘ بھی مانا اور اللہ ’’کی‘‘ بھی مانی جائے - حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں-
ادھی لعنت دنیاں تائیں تے ساری دنیاں داراں ھُو
جیں راہ صاحب دے خرچ نہ کیتی لین غضب دیاں ماراں ھُو
پیوواں کولوں پتر کوہاوے بھٹھ دُنیا مکاراں ھُو
جنہاں ترک دنیاں دی کیتی باھُو لیسن باغ بہاراں ھُو
یعنی آپؒ نے اسی امر کا اعادہ فرمایا کہ دُنیا کی محبت انسان کیلئے کسی صورت اُس کے حقیقی مقصدِ حیات اور اللہ تعالیٰ کی چاہت کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے اور یہ دُنیا کی چاہت انسان کی نہ صرف آخرت تباہ کر دیتی ہے بلکہ دیمک کی طرح دُنیا میں بھی انسانی معاشرہ کو ہوا و ہوس کی صُورت میں چاٹ جاتی ہے اِس لئے اہل اللہ نے سبق دیا کہ زبان کو قابو میں رکھّو ایسی ’بَڑ‘ نہ مارو جو مخلُوقِ خُدا کا دِل دُکھائے ، زُبان سے کذب و رِیا کی میل کو اُتار پھینکا جائے اور صدق و صداقت کو اِختیار کیا جائے وعدوں کی پاسداری کی جائے اور آدمی زبان سے نکلی ہوئی اپنی ہر بات کا پہرہ دے ، تکبُّر ، رعونت و فرعونیت کی بجائے عجز و اِنکساری کو اپنایا جائے اور اپنے زیر دستوں پر قُوّت کا ناروا استعمال نہ کیا جائے اور اپنی زورآوری کو ثابت کرنے اور راہِ اِنتقام اختیار کرنے کی بجائے عفو و درگزر کیا جائے اور فی سبیل اللہ مُعاف کردیا جائے - حضرت سُلطان باھُو کے بقول :
سو ہزار تنہاں توں صدقے جہڑے منہ نہ بولن پھکا ھُو
لکھ ہزار تنہاں تو صدقے جہڑے گل کریندے ہکا ھُو
لکھ کروڑ تنہاں توں صدقے جہڑے نفس رکھیندے جھکا ھُو
نیل پدم تنہاں توں صدقے باھُو جہڑے ہوون سونا سڈاون سکا ھُو
یعنی طالبانِ مولیٰ کیلئے اللہ تعالیٰ کے اَخلاق سے متخلق ہونا ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو ترک کریں اور اپنے چھوٹے اور دُنیاوی معاملات کی بحث سے نکل کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام کے تابع لائیں اور اپنے نفس کی پیروی کرنے کی بجائے خالقِ کائنات کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں -ایک اور مقام پر آپؒ نے علم و عمل کو انسان کے اپنے اندر کی دُنیا کو آباد کرنے سے مشروط کرتے ہوئے فرمایا:
صفت ثنائیں مول نہ پڑھدے جو جا پہتے وچ ذاتی ھُو
علم و عمل انہاں وچ ہووے جہڑے اصلی تے اثباتی ھُو
نال محبت نفس کھٹونیں گھن رضا دی کاتی ھُو
چوداں طبق دلے دے اندر باھُو پا اندر دی جھاتی ھُو
سلطان الفقر ششمؒ کی نگاہ کے فیضان سے اٹھنے والی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی تحریک گزشتہ صدیوں میں اُٹھنے والی تحریکوں اور پروان چڑھنے والے مختلف لادینی و متناہی نظریات سے بالاتر تھی اور اس کے خمیر میں فقط مصطفیٰ کریمﷺ کے عطا کردہ اُصول اور آپﷺ کے دین کے نفاذ کیلئے جدوجہد کا جذبہ تھا-یہ راہنمائی فقط باطن میں اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق قائم کرنے تک محدود ہونے کے نظریہ کی بجائے اس کے تعلق کا دُنیا میں عملی اظہار کیلئے آگے بڑھی جو کہ اِنسان کو ظاہر و باطن میں اللہ کے نظام کا پابند بناتی ہے - یہی وجہ تھی کہ کسی شور شرابے اور بلند بانگ دعووں کی بجائے اس تحریک کو عملی طور پر آگے بڑھایا گیا اور پھر عالمی سطح پر اللہ کے کنبے کو اللہ کے راستے کی طرف راہنمائی فراہم کرنے کیلئے بعد ازاں تنظیم العارفین کی بنیاد رکھی گئی تا کہ مزید نظم و ضبط کے ساتھ اس پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جائے- اس امر کا منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ اصلاحی جماعت کے مبلغین کو سب سے پہلے باطنی تربیت دی گئی اور سلطان الفقر ششمؒ نے اپنی نگاہِ کاملہ سے ان میں طلبِ مولیٰ کا جذبہ پروان چڑھایا اور جماعت کے پلیٹ فارم سے ایسا ماحول مہیا کیا گیا کہ اِن مبلغین کو اللہ پر توکل اور ماسویٰ اللہ سے ترک کے راستہ پر چلا کر ظاہر و باطن اللہ کے نظام کے تابع چلنے کی تلقین و تربیت دی گئی پھر انہیں مخلوق کی رہنمائی اور دعوت الی اللہ کی تبلیغ کیلئے دُنیا بھر میں بھیجا گیا اور لاکھوں مریدین کی موجودگی کے باوجود اس تحریک میں انہی لوگوں کو شامل کیا گیا جنہوں نے اس فلسفہ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسے عملی طور پر اپنے لئے بھی مشعلِ راہ بنایا-
اِسلام کی آمد سے قبل دُنیا بھر میں اُس وقت دو عالمی قوتیں ایران اور روم تھیںاور اُس وقت عرب کسی طور پر بھی عالمی طاقتوں کے سامنے کسی حیثیت میں نہ تھے- عرب قبائل آپس میں صدیوں سے لڑتے جھگڑتے آ رہے تھے- جب اِسلام کی آمد ہوئی اور یہ عرب میں پروان چڑھا تو ان دونوں عالمی طاقتوںنے اس جانب توجہ نہ دی اور اسے عرب قبائل کے اتار چڑھائو کے طور پر ہی دیکھا گیا- حضورﷺ کے وصال مباک کے قریباً تیس سال بعد لکھی جانے والی یونانی کتب میں آپﷺ کا تذکرہ ملتا ہے-انگریزوں کی تاریخی کتب میں چند تاجروں کی جانب سے حضورﷺ کے متعلق مختصر معلومات ملتی ہیں- یورپ کو اِسلام کی آمد اور اس کی طاقت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب مسلمانوں نے سلطنت ایران پر فتح حاصل کی اور اُس وقت اللہ کے دین کے محافظ اور اس کے نفاذ کے علمبردار دینِ حق کا علم بلند کرتے ہوئے باطل کے عالمی ایوانوں سے جا ٹکرائے اور مشرق سے مغرب تک وسیع علاقے میں مصطفیٰ کریمﷺ کے پیغام کو پہنچا دیا گیا- اس حقیقت کا تذکرہ کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ ہم اس راز کو سمجھ سکیں کہ آج اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے دُنیا بھر میں لاکھوں کارکنان کی موجودگی کے باوجود نظامِ مصطفیٰﷺ کے ظاہر و باطن میں نفاذ کی یہ تحریک آخر انتہائی خاموشی کے ساتھ آگے کیوں بڑھ رہی ہے؟ یقیناً چودہ سو سال قبل اور آج کے حالات بہت مختلف ہیں اور اسی اعتبار سے اِسلام کے نظام کو عملی طور پر نافذ کرنے کے طریقہ کار اور اس کے تقاضے بھی مختلف ہیں مگر بنیادی بات یہ ہے کہ اِسلامی انقلاب، جو قلب کی تبدیلی سے لے کر کائنات کی رُوحانی تعبیر تک ہر چیز کو اللہ کے نظام کے تابع لاتا ہے، کے بنیادی تقاضے یہی ہیں کہ یہ انقلاب شور و غوغا کی بجائے عمل پر پروان چڑھتا ہے اور ہمارے لئے اس عمل کی آج کے دور کی بہترین مثال اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ہے جو جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے اور انسان اور اس کے خالق کے رابطہ کو پروان چڑھانے کے مشن پر گامزن ہے- آپ بانی ٔاصلاحی جماعت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اِسلام کے اس پیغام کیلئے اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کودن بدن وسعت دی جا رہی ہے جو باطنی و اخلاقی تربیت، معاشرتی بہتری، سیاسی شعور اور عالمگیر امن کے حصول کی جانب رواں دواں ہے-اختتام پر راقم مسلمانانِ عالم کیلئے اتنا ہی کہنا چاہے گا آنے والا دور مسلم اُمہ کیلئے نئی نوید لا رہا ہے بشرطیکہ ظاہر و باطن میں ہم اپنے آپ کو اسلام کے پیغام کے تابع کر دیں اوراپناجینا مرنا اللہ اور اُس کے رسول اکرمﷺکی مرضی کے تابع کر دیں- اقبالؒ نے آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اللہ تعالیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے اور ہمیں اِسلام پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
****