سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ کی شخصیّت اور دینی و رُحانی خدمات عالمِ اِسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں - آپ مغل فرمانروا شاہجہان کے عہد 1629 ء میں شورکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ اورنگزیب کے عہد 1691 ء میں انتقال فرمایا - یوں تو آپ نے تبلیغِ دین اور راہِ ہدایت کی راہنمائی کیلئے ایک سو چالیس کتب تصنیف فرمائیں جن میں اکثر فارسی زبان میں لکھی گئیں تاہم آپ کی تصانیف میں سے زیادہ شہرت آپ کی مادری زبان میں لکھی گئی ’’ابیاتِ باھُو‘‘ کو ملی - برِّ صغیر پاک و ہند میں آپ کا خانوادہ علمی و رُوحانی خِدمات میں پیش پیش رہا اور لوگوں کو راہِ ہدایت کی طرف لانے اور اس پہ رکھنے کیلئے بہر طور سعی و کاوشِ کرتا رہا انہی مردانِ عظیم یعنی صُوفیۂ کاملین کی برکت سے کئی کوششوں کے باوجود اسپین کی طرح برِّ صغیر سے اسلام اور مسلمانوں کا وجود نہ مٹایا جا سکا - ہر عہد میں اللہ تعالیٰ ایسی شخصیّات پیدا فرماتے ہیں جو گم گشتگانِ راہ کو صراطِ مستقیم پہ گامزن کرتے ہیں اُنہی شخصیّات میں سے ایک شخصیّت حضرت سُلطان باھُو کی نویں (9th ) پُشت میں حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی آپ کو اللہ تعالیٰ بہت ہی وسیع قلب، اعلیٰ ظرف اور روشن ذہانت عطا فرمائی تھی جس کا اظہار آپ کی یومِ ولادت کی نسبت سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دین کی خاص ڈیوٹی کیلئے چن لیا تھا آپ کی ولادت اُس دِن ہوئی جس دن برِّ صغیر کے مسلمانوں کی تقدیر تبدیل ہوئی اور انہیں دوصدیوں کی غلامی سے نجات ملی یعنی جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا اُسی شب حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی - آپ کے والدِ گرامی حضرت سُلطان عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ایک صاحبِ تصرف بزرگ اور ولیٔ کامل تھے اُنہوں نے اپنے فرزند کو اپنی خاص تربیّت میں رکھّا اور علومِ ظاہری کے ساتھ ساتھ علومِ باطنی بھی سکھائے یعنی راہِ سلوک کا سفر اپنی معیّت ہی میں طے کروایا حضرت سُلطان عبد العزیز کا انتقال 1981 ء میں ہوا تو والد گرامی و مرشد کے انتقال کے بعد آپ نے مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالی اور زندگی بھر تعلُّق باللہ سے جو نظریہ اور تجربہ پایا تھا اُسے عملی سطح پہ دُنیا میں پیش کرنے کیلئے ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز فرمایا - آپ پاکستان بالخصوص اور عالمِ اسلام بالعموم میں لوگوں میں جب خُدا خوفی اور انسانیّت کا فقدان دیکھتے تو آپ سوچتے کہ یہی لوگ جو جوق در جوق حضرت سُلطان باھُو کی زیارت کو آتے ہیں کیوں نہ اِنہی کی ایسی تربیّت کردی جائے کہ یہ رسمی روایتی مرید کی بجائے ایک انقلابی و تحریکی کارکن بن جائیں اور اصلاحِ معاشرہ و دعوتِ الی اللہ کا اہم فریضہ انفرادی و تنظیمی سطح پہ ادا کریں آپ جانتے تھے کہ مروّجہ نظامِ خانقاہی میں رہتے ہوئے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی جب تک کہ اسے باقاعدہ تحریک کی شکل نہ دی جائے جیسے حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری‘‘ تو آپ نے بھی وہی رسمِ شبیری ادا کرنے کا تہیّہ فرمایا - آپ نے 1987 ء میں اِس کاوش کا آغاز فرمایا جو کہ 1989 ء میں اِصلاحی جماعت کی شکل میں ظاہر ہوئی جس کے تحت آپ نے مریدین کی تحریکی بُنیادوں پر تربیّت فرمائی اور اُنہیں دعوتِ الی اللہ کا عظیم فریضہ دے کر عامۃ النّاس میں بھیجا - اصلاحی جماعت کی تعلیمات ہر طرح کی فرقہ پرستی و نفرت سے پاک ہیں - اِس کا بُنیادی مقصد ہی لوگوں میں قرآن و سُنّت کا شعور پیدا کرنا ہے - آپ نے خود بھی مُلک بھر میں سفر فرمائے اور لوگوں کو راہِ دین کی طرف دعوت دی آپ نے جماعت کے تحت اصلاحی سطح پر شب و روز محنت فرمائی اور تیرہ برس کی محنت کے بعد جب آپ کی قائدانہ نگاہیں یہ بھانپ گئیں ان لوگوں کی بڑی تعداد مروّجہ مرید کے تصور کی بجائے تحریکی کارکن بن گئے ہیں تو آپ نے اُمتِ مُسلمہ کے مسائل کے عملی حل اور سعیٔ اتحادِ اُمت کیلئے 1999 ء میں ایک دوسرا شُعبہ ’’عالمی تنظیم العارفین‘‘ کے نام سے قائم کیا جس کے تحت آپ نے کئی شُعبی جات قائم فرمائے جِن میں ماہانہ رسالہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل اور العارفین پبلی کیشنز خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اِس کے علاوہ آپ نے دارلعلوم غوثیہ عزیزیہ کے نام سے ملک کے متعدّد شہروں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اولیائے کاملین کی تعلیمات کے فروغ کیلئے مدارس بھی قائم فرمائے -
سلسلہ سروریہ قادریہ کے مرشدِ کامل کے طور پر حضرت سُلطان محمد اصغر علی نے بے شمار طالبانِ مولیٰ کا تزکیّۂ نفس اور تصفیّۂ قلب فرمایا - آپ کی تعلیمات کے مطابق روحانیّت پر تین طرح سے لوگ چل رہے ہیں - (۱) صاحبِ کرامت (۲) صاحبِ مقامت اور (۳) صاحبِ استقامت - آپ فرماتے کہ کشف و کرامت کوئی بڑی چیز نہیں آدمی مختصر ریاضت کے بعد یہ مقام پا سکتا ہے اور بعض ملتی جلتی شعبدہ بازیاں دیگر مذاہب میں بھی پائی جاتی ہیں اِس لئے یہ ایمانِ کامل کی علامت نہیں - مقامت کے متعلق آپ فرماتے کہ اِس میں فرد کا انفرادی فائدہ تو ہو جاتا ہے لیکن معاشرہ کا اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا جسے رہبانیّت کہا گیا ہے وہ اِسی مقامت سے جنم لیتی ہے - آپ فرماتے کہ رُوحانیت در اصل ایک راہِ استقامت ہے جس کا مقصد لوگوں میں ترک ماسویٰ اللہ اور توکل علی اللہ کو پیدا کرنا ہے کہ جب آدمی کا نفس پاک اور دِل صاف ہو جاتا ہے تو وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ خلافتِ الٰہیّہ کے عظیم منصب پر فائز ہو سکے اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اُس کے عطا کئے ہوئے نظامِ زندگی کے نفاذ کی کوشش کرے اصل روحانیّت ہی یہ ہے کہ آدمی راہِ حق تعالیٰ میں ثابت قدم ہو جائے - آپ تزکیّۂ نفس کیلئے خُداوند کریم کے ذاتی اسم یعنی ’’اللہ‘‘ کا ذکر تجویز فرماتے اور آپ قرآن پاک اور اکابر صُوفیہ کے حوالے دیکر گفتگو فرماتے اور ذکر کا طریقہ بیان فرماتے عامۃ النّاس کے ساتھ ساتھ بہت جیّد علما اور دانشور بھی تزکیّہ کی غرض سے آپ کے پاس آتے اور اسم اللہ ذات حاصل کرتے -
آپ دورانِ سفر 26 دسمبر 2003 ء کو معمُولی علالت کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال فرما گئے آپ کی نمازِ جنازہ دربار حضرت سُلطان باھُو پر ہی ادا کی گئی اور وہیں آپ کو دفنایا گیا - آپ کا رُوحانی فیض اور آپ کی عظیم تحریک آپ کے فرزند و جانشین حضرت سُلطان محمد علی کی قیادت میں جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے یہ اصلاحی و رُوحانی تحریک تا ابد جاری و ساری رہے گی -
****