"دانائے راز"

کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی

نفسِ ہندی، مقامِ نغمہ تازی

علامہ اقبال کے اس شعر کے تناظر میں جب اپنا گریبان جھانکتا ہوں تو ضمیر مجھے شرمندگی کا احساس دلاتا ہے کہ خود کیا ہو؟ اور کس ہستی کے متعلق حاشیہ آرائی کرنے کی جسارت کر رہے ہو-! بقولِ حکماء

؎  چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک

مَیں حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا ان ہی خیالات میں گم تھا کہ عارفِ شیراز حافظ شمس الدین شیرازیؔ میری حوصلہ افزائی کیلئے میرے کان میں سر گوشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

رُوئے خاکی و نمِ چشمِ مرا خوار مدار

چرغِ فیروزہ، طرب خانہ ازیں کَہگِل کرد

’’کہ گرد آلود چہرے کی مٹی اور آنکھوں کے آنسوئوں کو حقیر نہ سمجھ، اللہ تعالیٰ نے اسی مٹی کو ان آنسوئوں کے پانی میں گوندھ کر نیلے آسمان میں عرشِ معلی پر اپنا محل پلستر کروایا ہے-‘‘

در حقیقت حافظ صاحب یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نا اُمید نہ ہو ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری عاجزی اور انکساری کا بہت بلند مقام ہے اس لئے دل شکستہ نہ ہو، بلکہ ہمت کرو اور اللہ کے بھروسے پر اپنے دل کی بات کہہ دے-

مَیں ایک عظیم ہستی کے متعلق چند الفاظ سپردِ قلم کرنے کی جسارت کررہا ہوں مگر اس سے پہلے حضرتِ انسان کی تخلیق کا پسِ منظر اور اس کے بنیادی مقاصد کا مختصر جائزہ پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں-

اِس کائنات کے موالیدِ ثلاثہ میں جمادات سے نباتات اشرف ہیں ، نباتات سے حیوانات افضل ہیں اور حیوانات سے انسان افضل ہے کیونکہ انسان کو دین و دُنیا اور معاش و معاد کو انجام دینے کیلئے قویٰ حیوانیہ اور انسانیہ دونوں عطا فرمائے گئے اوران ہر دو کے درمیان تمیز کرنے کیلئے ایک ایسی قوت مَلکیہ عطا فرمائی گئی جس کو عقل کہا جاتا ہے - عقل اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ایک ایسی قوت ہے جس کو آفتابِ جہاں تاب کہا جائے تو بجا ہے اور اگر انسان کے تخیلات اور قیاس آرائی کے لحاظ سے اس کو غیب دانی کی دوربین کہا جائے تو بھی درست ہے مگر یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اِنسان کو اپنے خالق کی طرف رجوع کرنے کیلئے صرف عقل کافی نہیں کیونکہ عقل کسی صورت میں بھی غلطی سے محفوظ نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کیلئے جب عقل تنہا اور بے بس ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی تہذیبِ نفس کیلئے ایک انتہائی قیمتی جوہر اپنی ذاتی تحویل میں رکھا ہوا ہے جسے ’’ رحمتِ الٰہی‘‘ کہا جاتا ہے - جس طرح حق تعالیٰ نے انسان کو عقل کے ذریعہ اصلاحِ معاش میں فیضِ عام جاری کرنے کیلئے کچھ لوگ مُستثنیٰ فرما دیئے جو ایجادات پر قادر ہوکر اُستادِ زمانہ کہلائے-

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ خاص کے ذریعہ انسان کی تہذیبِ نفس کیلئے کچھ برگزیدہ لوگ مُستثنیٰ فرما دیئے جن کو دُنیا کے علوم و احوال سے آراستہ اور اخلاقِ حسنہ سے پیراستہ فرما کر انسانوں کی اِصلاح اور دارین کی فلاح کیلئے مامور فرما دیا ، اُن کو مختلف اوصاف عطا فرما دیئے-جن کو اپنی کسی صفت کے لحاظ سے نبی کہا گیا اور دروازۂ نبُوّت بند ہونے کے بعد انہیں امام یا خلیفہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور اُن میں سے تزکیۂ نفس کے علوم پر مکمل دسترس رکھنے والے مردِ کامل کہلاتے ہیں-

آج مَیں نے اِن سطور میں قارئین کی آگاہی کیلئے ایک ایسے ہی مردِ کامل اور دانائے راز کی ذات بابرکات کے تعارف کیلئے قلم اٹھایا ہے جس ہستی کی زیارت! دست بوسی ، غلامی اور قربت کا شرف اس بندہ ناچیز کو حاصل ہوا-

اُس ہستی کا نامِ نامی اسم گرامی حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ ہے آپ کا تعلق خانوادۂ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہے آپ اِس عظیم خانوادہ کی صاحبِ صفا ہستی شہبازِ عارفاں حضرت سُلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے وہ فرزندِ ارجمند ہیں جنہوں نے ’’میراثِ پدر‘‘ کو اپنی طلبِ الٰہی میں کمالِ استقامت سے حاصل کیا - آپ کی ولادت با سعادت ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوئی جو اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے ۲۷ رمضان المبارک اور جمیع اسلامیانِ ہند کی رائے میں لیلۃ القدر کی بابرکت رات تھی - حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کواللہ تعالیٰ نے فقرِ محمدی کے سُلطانِ ششّم کے رُتبے سے سرفراز فرمایا -

یہاں مَیں قارئین کرام کو یہ بات یاد دِلانا چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت کیلئے پیدا فرمایا چونکہ عبادت کا عنصر ازل سے انسان کی سرشت میں شامل تھا اس لئے ابتدائے آدم سے آج تک اِنسان عبادت کرتا چلا آرہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اِنسان اس عالمِ رنگ و بو کی رعنائیوں اور نفس اور شیطان کی دل آویزیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ عبادت کے اَصل الاصول او ر صراط مستقیم سے بھٹک کر آگ ، چاند، سورج اور بتوں کی عبادت میں مشغول ہو گیا جس کی اِصلاح کیلئے وقتا فوقتا انبیاء کرام تشریف لاتے رہے ، جب سلسلۂ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا تو لوگوں کی رُشد و ہدایت اُمتِ محمدیہ کے اولیائے کاملین کے سپرد کر دی گئی جن میں غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، محبوبِ الٰہی نظام الدین اولیاء ، حضرت داتا گنج بخش اور حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ جیسے مشائخ عظام اپنے اپنے وقت میں تشریف فرما ہوکر لوگوں کو چشمۂ ہدایت سے فیضیاب فرماتے رہے- اسی طرح جب سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کا ظہور ہوا تو اُس وقت بھی اگرچہ اِسلام کے احکامات کے مطابق ظاہری عبادات پر توجہ دی جارہی تھی اور اِسلام کے پیرو کار اللہ کے ذکر کی تسبیحات میں بھی مشغول تھے مگر اِنسان کی رُوح ویران و پریشان اور غیر مطمئن تھی حالانکہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے کہ ’’ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے-‘‘(حوالہ : 28:13)

چنانچہ حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے منصبِ امامت پر فائز ہوتے ہی میخانۂ معرفت کے دروازے کھول دیئے اور دعوتِ عام کا اعلان فرما دیا کہ جس کا جی چاہے آگے آئے او ر شرابِ طہور کے جتنے جام نوش کرنے کی ہمت رکھتا ہے اُٹھائے اور معرفتِ الٰہی کی سرمدی بہاروں کا لطف اُٹھائے- چنانچہ آپ کی دعوت پر علم و آگہی کے سمندر میں ہزاروں حکمت کے موتی جو آغوشِ صدف میں بے مصرف پڑے تھے جذبۂ اشتیاق سے انگڑائیاں لینے لگے اور اپنی رُوح کی تسکین اور قلب کے اطمینان کے لیے جوق در جوق آپ کی بارگاہ میں حاضر ہونے لگے بلکہ جمِ غفیر اُمڈ پڑا اور چشمِ فلک نے ایک بار پھر عہدِ نبوی کی سُنّت پہ عمل پیرا اُس دور کا نظارہ دیکھا جس کا ذکر حق تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا :

’’ اور لوگوں کو دیکھو ، اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں -‘‘(سورۃ نصر:۲)

سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک تصنیف ’’ امیرالکونین‘‘ میں ایک حدیث قدسی بیان فرماتے ہیں جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے-

’’ میرے وہ بندے بھی ہیں جن کی موجودگی اس دُنیا میں بارش کی مثل ہے کہ بارش جب خشک زمین پر برستی ہے تو غلہ اُگاتی ہے اور جب سمندر پر برستی ہے تو موتی پیدا کرتی ہے-‘‘

حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث قدسی کی شرح اپنے ایک مشہور شعر میں سمیٹ کر رکھ دی ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ :

نگاہ بلند، سُخن دلنواز، جان پُر سوز

یہی ہے رختِ سفر، میرِ کارواں کیلئے

مقصد یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا میرِ کارواں عشقِ الٰہی میں سوختہ جاں ہوتا ہے جب وہ گفتگو کرتے ہوئے اپنے سخن دلنواز سے خلقِ محمدی کا درس دیتا ہے تو چمن زارِ شریعت میں اعمالِ صالح کے شگوفے پھُوٹتے ہیں اور جب وہ اپنی نگاہِ عارفانہ کی بلندی سے عاشقانِ الٰہی کے دلوں پر توجہ فرماتا ہے تو اُن کے باطن کے سمندر کو معرفتِ الٰہی کے مقدس پھَل سے ثمر بار کردیتا ہے-

یقینا حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ بھی متذکرہ بالا حدیث قدسی کے مطابق اُن بندگانِ الٰہی میں سے ایک بندۂ خدا اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تصوّر کے مطابق ایک میرِ کارواں تھے جن کو حق تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے بے قرار رُوحوں کی تسکین اور بے نور قلوب کو منور کرنے کیلئے آفتابِ عالم تاب بنا کر اِنسانوں کی رُشد و ہدایت کے لئے منتخب فرمایا اور سلطان الفقر ششم کا تاج عطا فر ما کر اِس عالمِ ناسُوت میں ظاہر فرمایا-

یہاں مَیں حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں گزرے اوقات میں سے اُس گھڑی کاتذکرہ کرنا ضروری سمجھتاہوں جو میری زندگی کا ایک یادگار لمحہ ہے ، اس واقعہ میں طالبانِ مولیٰ کیلئے ایک لطیف اشارہ بھی ہے اور عام قارئین کیلئے حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منزلت کو سمجھنے میں آسانی بھی!

یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ اگرچہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے گھرانے سے بندہ ناچیز کا رشتۂ عقیدت و اِرادت کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے اور خانوادۂ سلطان العارفین کے بیشتر صاحبزادگان جن میں حضرت سلطان محمد شریف بن حضرت سُلطان فتح محمد رحمۃ اللہ علیہما ، حضرت سلطان خضر حیات رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت فیض سلطان رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سلطان غلام دستگیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اوردیگر کئی معروف شہزادوں کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات اور بے تکلفانہ ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں مگر حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہِ اقدس میں مجھے انتہائی قربت کا مقام حاصل تھا - مجھے آپ کے ساتھ اُن کے سالانہ گھوڑوں کے سفر میں شامل رہنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی غرضیکہ آپ کا دستِ شفقت ہمیشہ میرے سَر پر سایۂ فگن رہا مگر اتفاق سمجھئے کہ کسی بھی موقعہ پر میری کبھی حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کیساتھ ملاقات نہ ہوسکی، جبکہ آپ کے بڑے بھائی جناب حضرت سلطان محمد صفدر علی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کئی دفعہ شکار کھیلنے کا موقعہ ملا-

حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے وِصال کے چند سال بعد حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ اپنے خاندانی معمول کے مطابق گھوڑوں کے سفر پر ہمارے علاقے میں تشریف لائے مَیں اپنے گھر رُخصت پر آیا ہوا تھا اور آپ ہمارے گائوں سے 10/12میل دور ایک جگہ قیام فرما تھے جب مجھے آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو مَیں نے آپ کی بارگاہ میں حاضری کو ضروری سمجھا اور فوراً روانہ ہوگیا جب مَیں اُس گائوںمیں پہنچا تو گرمیوں کا موسم اور عصر کا وقت تھا اُس گائوں میں بجلی نہ تھی اس لئے آپ ایک مکان کے سایہ میں ہوادار جگہ پر ایک پلنگ پر تشریف فرما تھے ، آپ کے پاس چند لوگ چٹائی پر بیٹھے تھے وہ کھلی جگہ تھی جہاں کوئی چار دیواری وغیرہ نہ تھی - مَیں نے دور سے ہی آپ کو دیکھ کر کافی فاصلہ پر احتراماً گاڑی کھڑی کردی اور آپ کی طرف چل پڑا، آپ متواتر میری طرف دیکھ رہے تھے ، میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ جب مَیں آپ کی طرف نگاہ ڈالتا تو مجھے حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے نظر آتے اور جب دوبارہ دیکھتا تو حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نظر آتے-(ایسی کیفیت کو تصوف کی اصطلاح میں مراتب نعم البدل کہا جاتا ہے جس کے متعلق حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’’ امیرالکونین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’ اس انسانی علم کا عالم ہی اشرفِ کامل انسان ہوتاہے-‘‘)

یہ دیکھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اورمَیں روتے ہوئے آپ کے قدموں پر گر گیا ، آپ نے کمال شفقت سے مجھے اُٹھا کر گلے لیا- کافی دیر تک مَیں اُس پَر تو جمالِ حقیقی اور عشقِ الٰہی کی پُر سوز تصویرِ مجسم کے اَنوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا رہا اور آپ کی بے پایاں محبت، بے مثل خلوص اور عمیق عنایات نے میرے آزردہ دل کو جو سکون بخشا وہ ناقابلِ فراموش ہے-

یہ ایسی کیفیت ہے جس کے متعلق حافظ شیرازیؔ فرماگئے:

رازِ درونِ پردہ، ز رِندانِ مست پُرس

کہ این حال نیست، صوفی عالی مقام را

آپ نے اپنی ساری زندگی دینی اور رُوحانی خدمات کیلئے وقف فرما دی درس و تدریس ہو یا تعلیم و تلقین ، گفتار ہویا کردار ہر لحاظ سے آپ نے شریعتِ مطہرہ اور معرفتِ الٰہی کے حسین امتزاج کا عملی نمونہ پیش کیا - آپ کے فقر کا کمال جو راقم الحروف کو دیکھنے کا موقعۂ غنیمت میسر آیا وہ بڑے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’فقرِ مجمع البحرین‘‘ تھا کہ جہاں شریعت و طریقت اور ظاہر و باطن کے سمندر آ ملتے ہیں آپ کے ظاہر کو دیکھا جائے تو سُنّتِ نبوی ﷺ کی عملی تصویر اور اگر باطن میں جھانکنا نصیب ہوا تو بالفاظِ اقبال ---فقرِ جنید و بایزید کی طرح ’’اُس کا ‘‘ جمالِ بے نقاب--- آپ نے روایتی پیری و مریدی کی بجائے خانقاہ سے وابستہ عامۃ النّاس کی فکری ، روحانی و اَخلاقی اصلاح و تربیّت کیلئے اصلاحی جماعت کی بُنیاد رکھّی اور پھر عالمِ اِسلام میں اتحاد و یکجہتی کی سعی کیلئے عالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھّی - آپ نے اپنی نگاہِ کیمیا گر سے مٹی کے ہزاروں تودوں کو اکسیر بنایا اور حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان یعنی ’’تصورِ اسم اللہ ذات‘‘ سے ان کی خاک کو جِلا بخشی - جب جماعت کا آغاز کیا گیا تو اُس وقت تک عام لوگ تعلیماتِ باھُو سے بالکل نا آشنا تھے وہ تصانیفِ عالیّہ صرف چند ایک پڑھے لکھے لوگوں تک محدود تھیں آپ نے خود ضلع تحصیل اور یونت کی سطح پہ جماعت کو منظم کیا اور تربیتی مراکز قائم کئے جن میں قرآنِ پاک اور سُنتِ نبوی ﷺ کے عملی تقاضوں کے ساتھ ساتھ تصانیفِ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے درس کو مروّج فرمایا - آپ کی تاثیرِوجُود ، آپ کی دینِ اِسلام سے بے پناہ خلوص و محبت اور حاملِ فقرِ محمدی ہونے کے منصب کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے اللہ تعالیٰ نے اِس تحریک کو ایسی کامیابیاں عطا کیں جو عہدِ حاضر میں شاید کسی اور صُوفیانہ تحریک کے حصے میں نہیں آئیں - لوگ مجھ سے اکثر آپ کی کرامات و خوارق کے متعلق پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ آپ کی دیگر کرامات و خوارق میں سے سب سے بڑی کرامت آپ کے روحانی جانشین حضرت سُلطان محمد علی صاحب ہیں جو یقینا سُلطان الفقر کے فیض کے زندہ و جاوید ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہیں آپ نے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی قیادت فرماتے ہوئے نوجوان نسل کی روحانی ، فکری و اخلاقی اصلاح کا جو طریق اختیار فرمایا ہے آدمی حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ صرف بیس برس کی عمر اور اتنی بڑی ذِمّہ داری سے اس خوبی کے ساتھ عُہدہ را ہونا ، یہ یقینا آپ کے مرشد کا ہی وہ رنگ ہے جو آپ نے طلبِ الٰہی کے جذبہ میں استقامت سے حاصل کیا ہے - یہ تحریک جس کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھی چلی جا رہی ہے (الحمدللہ ) یہ مسلمانانِ عالم کی ایک بہت بڑی اُمّید بن چُکی ہے آپ کی قیادت میں جس طرح لاکھوں نوجوان ’’تعلیم ، علم اور تربیّت‘‘ پا رہے ہیں یہی مستقبل کی قیادت کریں گے اور پرچمِ اسلام کی نگہبانی کا عظیم فریضہ سر انجام دیں گے -

بندہ ناچیز کویہ شرف بھی حاصل ہے کہ جب اصلاحی جماعت کا پرچم تشکیل دیا جا رہا تھا تو اُس وقت بانیٔ اصلاحی جماعت سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خاکسار کو بھی اس تاریخی مشاورت میں شامل فرمایا جماعت کے پرچم کا پہلا ماڈل بھی ناچیز نے کلرکہار میں تیار کروا کر حضور بانیٔ اصلاحی جماعت کی خدمت میں پیش کیا - غوث الوریٰ سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کے عرس مبارک کے موقعہ پہ اوچھالی شریف (وادی سون سکیسر) میں عوامی طور پر پرچم کے تعارف میں ناچیز ہی نے ایک مضمون پیش کیا تھا جو ’’ہمارا پرچم ‘‘ کے عنوان سے معنون تھا - جسے حضور بانیٔ اصلاحی جماعت اور تمام تحریکی ساتھیوں نے سراہا بلکہ شیخ القرآن مولانا منظور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ (جنڈانوالہ) نے فرمایا تھا کہ ’’یہ پولیس والا حلیہ سے تو ایک سادہ سا جٹ زمیندار لگتا تھا باتیں بڑے کام کی کر گیا ہے‘‘ - وہ مضمون لکھتے ہوئے مجھ پہ کیا جذباتی و روحانی کیفیّات گزریں یہ تو ناقابلِ بیان ہی نہیں ناقابلِ ابلاغ بھی ہے میں اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے اِسی دوران ایک شعر مجھ پہ وارِد ہوا خود مجھے اس کے مستقبل کی حقانیّت کا یقین تو تھا مگر اُس کی عملی تفسیر معلوم نہ تھی وہ شعر کچھ یوں تھا:

جاری رہے گا فیض کا چشمہ ابد تلک

اصغر علی ولی کے ہیں جھنڈے گڑے ہوئے

مگر آج جب میںجا نشینِ سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی صورت میں ایک مُرشدِ اکمل اور ایک بے مثال قائد کو دیکھتا ہوں تو مجھے آپ کی ذاتِ گرامی اس مستقبل کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں - انشأ اللہ یہ چشمۂ فیض تا ابد دِلوں کو حیات اور جِلا بخشتا رہے گا -

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر