علم،سے عمل کا قفل وا ہوتا ہے- علم نور ہے، روشنی ہے، ثبات ہے،مداوائےِ ظلمت ہے، شعور ہے، آگہی ہے، علم نبی پاک (ﷺ) کی دعا ہے،علم فضل ہے، علم فضیلت ہے،(بھلا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں) علم ترقی کا زینہ ہے، علم ترقی کو قائم رکھنے کا جوہر ہے، علم وہ خزانہ ہے جو چوری نہیں ہو سکتا، علم نعمت ِعظیم ہے - علم بحیثیت اسم اتنا وسیع اور مکمل ہے کہ اسے تعریف کی حاجت نہیں، جبکہ علم بحیثیت ’’فعل‘‘ بجز عمل کے کچھ بھی نہیں- علم جتنا زیادہ ہو گا عمل اتنا پختہ اور کثیر- نبیِ محترم و محتشم (ﷺ) نے اپنی ذاتِ مقدسہ کو مدینۃ العلم قرار دیا اور اپنے عمل سے اپنے اس اعلان سے پہلے ہی ثابت کر دکھایا کہ عمل ہی حسن ہے، آپ(ﷺ) کے عمل کی گواہی ہر دیکھنے اور جاننے والے نے دی، خواہ وہ حجر اسود کو نصب کرنے کا معاملہ ہو یا یہ اعلان کہ ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج کھڑی ہے تو مان جاؤ گے؟ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم پہاڑی کے پیچھے جھانک کے دیکھ لیتے ہیں پتہ چل جائے گا بلکہ سب نے کہا کہ جی ہاں ہم مان جائیں گے کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، آپ صادق ہیں ، امین ہیں ‘‘-یہ عمل کی طاقت تھی جس سے حاضرین و سامعین کا فرار ممکن نہ تھا-اس کے بعد حضور(ﷺ) کے پیغام کو رد کرنے میں ان کی جہالت کا عمل دخل، ضد اور معاشی فوائد کے ساتھ معاشرتی جاہ و نسب کی لالچ تھی لیکن کبھی آپ (ﷺ)کے کسی عمل کی بنیاد پر کردار کشی نہیں کی گئی- علم الٰہی و حکم الٰہی بذریعہ وحی آپ(ﷺ) تک پہنچا، 23 سال عملِ مسلسل میں گزر گئے، ایک دن پھر پوچھ لیا ، کیا مَیں نے وہ پیغامِ عظیم جو تم تک پہنچانے کا فرض مجھے سونپا گیا تھا پہنچا دیا؟ ذرا غور کریں کہ کیا یہ عمل پر گواہی نہیں لی جا رہی؟ بابِ نبوت اپنی آب و تاب و روشنی کو قائم دائم رکھے ہوئے ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا لیکن ایسے کہ بقول شاعر :
روشنی غارِ حرا کی |
یعنی نبوت کی روشنی ، چمک آج بھی ایسے ہی موجود ہے جو تا قیامت، بلکہ بعد از قیامت بھی ماند نہ پڑے گی (ساقیِ کوثر (ﷺ) سے حوضِ کوثر کے کنارے ملنے کا وعدہ موجود ہے) آپ (ﷺ) کا علم و عمل بے مثل و بے مثال، بے نظیر و و یکتا ہے، جو نہ آپ(ﷺ) سے پہلے اور نہ آپ(ﷺ) کی ظاہری حیات مبارکہ کے بعد ملے گا، نہ مل سکتا ہے - بابِ نبوت بند ہوا اور ساتھ ہی بابِ فقر و ولایت وا ہوا تاکہ انسانیت کی بھلائی اور فلاح کے لئے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری رہے اور آپ کے علم و حکمت اور حسن ِ عمل کی عملی تفسیر کی جھلک کا عکس نظر آتا رہے- ’’یومنون بالغیب‘‘ کی طرح ’’کیف تحیی الموت‘‘ ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ پاک کی بارگاہ میں سوال کرنا اور ربِ ارنی کے تقاضائے حضرت موسی علیہ السلام کا فطری تقاضا پورا ہو اور اور سالکانِ راہ اور طالبان مولیٰ اپنی تشنگی کو بجھا سکیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رہنمائی پا سکیں- اس روزن فقر و ولایت سے برآمد ہونے والے فیض و انوار سے ہزارہا اولیائے کاملین تابندہ و درخشاں ہیں جو علم میں اپنی مثال آپ اور عمل میں یکتا ہیں، انہی میں ایک مینارہ نور، فقر کے آسمان کا آفتاب سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ) ہیں- سنتِ نبوی شریعت محمدی (ﷺ) کو رہنما و مرکزِ ہدایت مان کر آپؒ نے اپنی زندگی مبارک علم و عمل کے حسین امتزاج سے گزاری کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے- آپؒ خوش لباسی، خوش اخلاقی کا مرقع تھے جو آج بھی آپؒ کے شہزادگان اپنے روحانی ورثہ اور مادی میراث کے طور پر لے کے چل رہے ہیں- وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کو شاید آج کے دور میں اہم ہی نہیں سمجھا جاتا آپؒ ان پر بھی خاص دھیان دیتے اور قضاء نہ ہونے دیتے اور یہ آپؒ کا معمول تھا -
اشارہ کنایہ میں یہ بات کرتا چلوں کہ اگر کسی صاحب سے پوچھا جائے کہ جناب آپ کی تعلیم کتنی ہے؟ اور وہ صاحب جواب میں بتائیں کہ میں نے فلاں مضمون میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، میں ڈاکٹر ہوں - تو اس کا مطلب انتہائی سادہ اور عام فہم ہے کہ انہوں نے بنیادی تعلیم کے بعد ماسٹرز وغیرہ کیا اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کی- یعنی آپؒ کی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد ہی یہ بتانا ہے کہ بنیادی اعمال جیسے نماز روزہ، زکوۃ، حج اور دیگر ضروری اعمال جیسے نوافل و صدقات و خیرات وغیرہ کا اہتمام آپؒ کی زندگی کا لازمی جز تھا کیونکہ فرمانِ حضرت سلطان باھوؒ ہے کہ :
ہر مراتب از شریعت یافتم |
ایک تو شرع محمدی کی پیروی اور دوسرا، سلسلہ طریقت دونوں میں شرع کی پیروی لازمی تھی - قرآن و حدیث سے خصوصی شغف تھا اور آپؒ درسِ قرآن دینے کے ساتھ ساتھ مایہ ناز قرأ حضرات سےقرآن مجید کی تلاوت باقاعدگی سے سنتے اور احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ تعلیماتِ اولیائے کاملین کے عالم اور عامل تھے- ایسے عالم و کامل کہ سالکانِ راہِ سلوک اور طالبانِ مولیٰ کیلئے تعلیماتِ اولیائے کاملین کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مرتب فرما دیا تاکہ جو ان سالکانِ راہ کو دیکھے تو انہیں اللہ کی راہ نصیب آ جائے-گو کہ آپؒ نے باضابطہ تقریر کی نہ ہی کوئی کتاب تحریر کی لیکن ایک عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی اور اسے عالمی سطح پر اپنی حیات ِ مبارکہ میں پھیلا بھی دیا-لیکن اس وقت میں لکھنے والے، نصاب کو مرتب کرنے والے اور مترجمین جانتے ہیں اور کئی گواہ ابھی بھی موجود ہیں جن کو یہ ادراک ہے کہ ان کی تحریر و تالیف میں اصل کردار کس کی نگاہِ فیض کا ہے اور کس طرح باریک سے باریک نقطے پر آپؒ نے رہنمائی عطا فرمائی اور یہ بھی آپؒ کا ہی اعجاز اور منفرد مقام ہے جس کو کوئی اور نہ پا سکے گا- آپؒ نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لئے جو کچھ فرمایا وہ سب عملی طور پر کر کے دکھایا آپؒ کا انداز مبارک عالمانہ نہیں بلکہ فقیرانہ تھا- میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ آپؒ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خاص دھیان رکھتے تھے اور یہ آپؒ کے وسیع علم اور عمدہ عمل کی نشانی ہے-آپؒ کی یاد میں ہر سال ’’سلطان الفقر ؒ سیمینار‘‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں آپؒ کے دیرینہ ساتھی آپؒ سے وابستہ باتیں اور یادیں ان لوگوں سے شئیر کرتے ہیں جو اس وقت یا اس مقام پر موجود نہیں تھے- اسی طرح ایک سیمینار جو کہ 14 اگست 2015ء کو منعقد ہوا اس میں اوچھالی کی ایک معروف شخصیت ملک اکبر حیات اعوان صاحب نے ایک بات اس طرح سنائی :
’’میرے والد اور مَیں بہت مرتبہ شکار میں آپؒ کے ساتھ رہے، حضور شکار کیلئے جھنگ میں گئے ہوئے تھے اورہم سردیوں میں سرگودھا میں مقیم رہتے ہیں تو ہمیں حضورکی جانب سے حکم آیا کہ بیٹا شکار پہ آنا ہے اور آپ آج ہی پہنچو، مَیں چند شکاریوں کو ساتھ لے کر پہنچ گیا،رات کو بستی اسلام آباد جھنگ میں حاضرہوئے،دوسرے دن شکار کی جگہ پہ ساٹھ ستر کلومیڑ فاصلہ طے کر کے جانا تھا،ہم گاڑیوں میں شکار کی جگہ حضورسے کچھ دیر پہلے پہنچ گئے، اچانک ایک ہائی لکس ٹائپ گاڑی آئی اور اس گاڑی پرایک گدھا لدا ہوا تھا کیونکہ شکار والی جگہ خالی ہوتی ہے، وہاں ڈیرہ وغیرہ تو ہوتانہیں ہے، ہم نے اندازا لگایا کہ گاڑی والا بھول گیاہے،یہ گاڑی والا اس جگہ گدھا کیوں اُتار رہا ہے؟ ہم تجسس کاشکار ہوگئے کہ یہ گدھے والا ادھر کدھر آگیا، جب گدھا اُتارا گیا تو اُس پر کپڑا وغیرہ ایسے باندھا ہوا تھا جیسے اُس کو سواری کیلئے تیار کیا گیا ہو- تھوڑی دیر کے بعدحضرت صاحب بھی تشریف لے آئے اور آپ کے پیچھے وین سے ایک نہایت ہی بوڑھا شخص آیا اور وہ اُس گدھے پر سوار ہو گیا،مَیں اُس شخص کو پہچانتا تھا،وہ ہمارے سرگودھا کی مسلم شیخ برادری کاآدمی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ مسلم شیخ برادری کو معاشرے میں برابری کاسٹیٹس نہیں دیا جاتا اور اس طرح ان کا خیال نہیں رکھّا جاتا لیکن وہاں تو اُس بوڑھے کیلئے وہ گدھا آیا تھا- ( یعنی شہر سے دور، شکار کے مقام پر پورے اہتمام کے ساتھ وہاں پہنچانا اس پر یقیناً اخراجات بھی آئے ہوں گے اور اس کے لئے جو کاوش کی گئی ہو گی وہ الگ ) اس پورے اہتمام کی وجہ یہ تھی کہ وہ بوڑھاشخص حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہٗ کے والدگرامی شہبازِ عارفاں سلطان محمدعبدالعزیز قدس اللہ سرّہٗ کا شکاری تھا وہ چونکہ اب نہایت بوڑھا ہو چکا تھا اس لیے حضر ت صاحب فرماتے تھے کہ اس شخص کے دل میں یہ بات نہ آجائے کہ چونکہ اب مَیں بوڑھا ہو گیا ہوں اس لیے حضرت صاحب مجھے ساتھ نہیں لے جاتے اور آپ یقین کریں شکارکے دوران اس بوڑھے شخص کی نہایت عزت و احترام تو کیا ہی جاتا اُس کی رائے کو بھی معتبر گنا جاتا- مَیں حیران تھا کہ وہ بظاہر ایک بیکار بوڑھا تھا مگر آپ کس قدر اُس سے لجپالی فرماتے تھے جو کہ صرف یہی تھی کہ وہ آپؒ کے والد و مرشد کا شکاری رہا تھا‘‘-
ملک صاحب نے اس بات کو آپؒ کا شخصی وصف قرار دیا جو کہ یقیناً ہے بھی- لیکن مَیں آپؒ کے اس عمل کو حضور نبی پاک (ﷺ) کی ان سنت مبارکہ کی ادائیگی کی صورت میں دیکھ رہا ہوں کہ جب حضور اکرم (ﷺ) بکری ذبح فرماتے تو گوشت کا بہترین حصہ حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی سہیلیوں کو بھجواتے کہ ان سے حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کا ساتھ رہا ، تو آپؒ اپنے مرشد و والدِ گرامی کے دیرینہ ساتھی سے محبت و الفت کا عمل کر کے اس سنت مبارکہ کی پیروی فرماتے جس طرح حضور (ﷺ) بکری کا گوشت بھیج کر اپنی الفت کا اظہار فرماتے- شکار کے دوران اس بوڑھے شخص کی نہایت عزت واحترام تو کیا ہی جاتا، تو اسلام میں جہاں بزرگوں کے احترام کا حکم ہے اس پر عمل کر کے دکھایا جاتا یہ عمل ساتھ موجود ساتھیوں کے لئے مشعل راہ بھی ہے اور رہنمائی بھی جس سے آج بھی ہم سبق سیکھ رہے ہیں- اسی طرح جب ملک صاحب بیان فرما رہے تھے کہ اس بوڑھے شخص کی رائے کو معتبر بھی گنا جاتا تو محسوس ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی جب بالوں و داڑھی میں چاندی اتر آئے تو اس کا حیاء فرماتے ہیں ، تو اس حیاء فرمانے کے عمل کو’’ تخلقو با اخلاق اللہ‘‘ کے تحت باور کروانا اور بتلانا مقصود ہوتا ہو گا - اسی طرح اسی مذکورہ پروگرام میں ایک واقعہ مزید بیان فرماتے ہوئے کہنے لگے کہ :
’’مَیں آپ کے اُن شخصی پہلوؤں پہ بات کر رہا ہوں جو ہر عام آدمی کی سمجھ کے لئے قابل ِقبول ہے، البتہ مَیں آپ کی دینی خدمات پہ بات کرنے سے خودکو قاصر سمجھتا ہوں، آپ کی دینی خدمات پہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے عالمِ دین بات کریں تو بہتر ہوگا-مَیں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ ان شخصی خواص کے بھی درجے ہوتے ہیں اور حضور مرشد کریم کی بات کروں تو آپ کی ہر خاصیت انتہا درجے پہ تھی، اگر سخاوت پہ بات کروں تو آپ جیسا سخی نہیں دیکھا، آپ کی شرافت اور حیاء کی بات کروں توشرافت اور حیاء میں آپ سے بڑھ کر کوئی اور نہیں دیکھا-آپؒ کی اُصول پسندی پہ مَیں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ اوچھالی میں جب آپؒ نے رقبہ خریدا تو ایک عام ساآدمی آیا اور عرض کرنے لگا کہ حضورآپ کے رقبے میں مجھے لگتاہے کہ میری زمین کا کچھ حصہ بھی شامل ہو گیا ہے، مَیں زمین کی حدبراری کروانا چاہتا ہوں چونکہ میرے بزرگ ذیل دار بھی تھے اس لئے مجھے فرمایا کہ بیٹے!آپ بھی ان کے ساتھ حدبراری کروائیں اورخاص طور پہ مجھے فرمایا بیٹا! اگرتھوڑی سی ہماری جگہ اس کے رقبے میں شامل ہو جائے تو کوئی بات نہیں لیکن بیٹا اس غریب کی ایک ٹَسو برابر جگہ بھی ہمارے رقبے میں ہرگز شامل نہ ہونے پائے یہ خاص خیال رکھنا-آپ کے انصاف اوراصول پسندی ملاحظہ ہو وگرنہ ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے بھائی کہ آپ ادھر کیسے آ گئے ہو؟ لیکن حضرت صاحب نے ہمیں خاص ہدایت فرمائی کہ جہاں یہ آدمی راضی وہاں پہ حدبرار ی کروادیں‘‘-
کسی کا حق نہ مارنے کا عمل ، ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنے کا عمل، غریبوں سے، لاچاروں سے بے کسوں سے محبت اور دلجوئی کرنے کا (مولفتہ القلوب) عمل ، کسی کی حق تلفی نہ کرنے کا عمل، یہ تمام وہ اعمال ہیں جو قران اور حدیث کی روشنی میں آپؒ سر انجام دے رہے ہیں اس ایک بات میں ولی کامل کا کوئی بھی کام سنت و شریعت سے باہر نہیں ہوتا بس اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر دیکھیں تو آپؒ تبلیغ اپنے عمل سے بھی کر کے دکھا رہے ہیں -ایسے بے شمار واقعات بھرے پڑے ہیں جن سے آپؒ کی علمی وسعت اور عملی پختگی کا پتہ چلتا ہے ان کو کسی ایک کتاب میں بھی سمونا ممکن نہیں چہ جائیکہ ایک مضمون میں، آخری بات آپؒ کی خوش لباسی کے حوالے سے کر کے اجازت چاہوں گا کہ :
آپؒ سادہ لباسی میں خوش لباس تھے ، کیسے بیان کروں کہ الفاظ نہیں، عموماً اور زیادہ سفید لباس اور تہبند کو ترجیح دیتے، جو ہمیشہ صاف ستھرا، طیب و طاہر ہوتا، ساتھ میں دستار مبارک بمعہ شملہ، بعض اوقات پختون مُشدّی، کیونکہ ننگے سر نہ رہتے تو اس لئے دستار جب نہ باندھتے تو سندھی ٹوپی اور سردیوں میں گرم اونی ٹوپی سے سر ڈھانپ کے رکھتے ، کیونکہ سر ڈھانپ کے رکھنا بھی سنت مبارکہ ہے-
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْاط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ‘‘[1]
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘-
قرآن پاک کے اسی حکم کے تحت خوش پوشاک تھے عمدہ لیکن سادہ لباس زیبِ تن فرماتے بلکہ یہ ہی نہیں قرآن و حدیث کے احکام کے تحت ہر ساعت اور ہر لمحہ یادِ الٰہی میں مشغول رہتے ’’جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ فرمایا ھو‘‘ کے تحت سانسوں والا قلبی ذکر فرماتے جو کہ حدیث مبارکہ ’’اَلْاَنْفَاسُ مَعْدُوْدَۃٌ وَّ کُلُّ نَفْسٍ یَّخْرُجُ بِغَیْرِ ذِکْرِاللہِ تَعَالٰی فَھُوَ مَیِّتٌ‘‘کی تشریح ہے، کو ذہن میں رکھ کر اس عمل کی سر انجام دہی میں مشغول رہتے -
آپؒ کی شخصیت علم و عمل کا خزانہ ہے- ایسے کئی ہزار واقعات موجود ہیں سخاوت کے، قول سدید کے، صلہ رحمی اور شفقت کے، تصادم سے گریز اور برداشت کے، جن کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بین السطور قرآن و حدیث کے احکامات موجود ہوں گے آپ کے یہ اعمالِ سعید آپ کے علم و عمل کا منہ بولتا ثبوت ہیں- آپؒ ایک ایسی شخصیت ہیں جو اہل اسلام و اہل پاکستان کے لئے انعامِ خداوندی ہیں، آپؒ اُمت کے لئے ایک مفکر ہیں اور بھی ایسے جو اپنی فکر کو عملی جامہ پہناتا ہے-اصلاحی جماعت کا پلیٹ فارم اصحابِ صفہ کی سنت کا عمل، آقا پاک (ﷺ) نے بادشاہوں کو خطوط لکھے اس سفارت کاری کی سنت کو سر انجام دینے اور پیغام کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لئے عالمی تنظیم العارفین کا قیام،دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوار ِ حق باھوؒ کے نام سے مدارس کا قیام، مرآۃ العارفین انٹرنیشنل کے عنوان سے ماہنامہ مجلہ،تبلیغِ دین کی سنت کا عمل، وقت کی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کتبِ اولیائے کاملین کا ترجمہ، قرآن پاک کی تدوین کی سنت کی پیروی، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن، امتِ مسلمہ کے مسائل کے حل کے لئے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جسے آپؒ کے جانشین اور قائدِ ولولہ انگیز حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب نے پایہ تکمیل کو پہنچایا- الغرض! ہر عمل کی بنیاد میں قرآن و سنت سے رہنمائی- آپؒ علم و عمل کا حسین امتزاج ہیں-
دعا ہے کہ آپؒ کی چلائی گئی تحریک اور مشن سے تا دمِ آخر خلوصِ دل سے منسلک رہنے کی توفیق نصیب ہو -
٭٭٭
[1](الاعراف:31)