حضرت سلطان محمداصغرعلیؒ : ایک عہدسازشخصیت

حضرت سلطان محمداصغرعلیؒ : ایک عہدسازشخصیت

حضرت سلطان محمداصغرعلیؒ : ایک عہدسازشخصیت

مصنف: لشکر علی اعوان دسمبر 2020

موضع حضرت سلطان باھوؒ ضلع جھنگ کو سینٹر پنجاب کا مدینۃ الاولیا اور بستی علم و عرفاں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا- اس بستی بے مثال کی مٹی میں بے شمار ایسے اولیاء کرام مدفون ہیں جنہوں نے زہد و تقوی، تصوّف اور مسلسل ریاضت سے وہ مقام حاصل کیا کہ آج بھی وہ رشکِ مہرتاباں اور فخرِ ماہِ درخشاں ہے- انہی کاملین و صالحین میں سے ایک شخصیت سلطان الفقر سلطان محمد اصغر علیؒ  کی ہے- آپ امانتِ باھُو کے امین اور فقرِ مصطفوی (ﷺ) کے حامل تھے- آپ ایک پاکباز ، راست گو اور نگاہِ باتاثیر کی حامل شخصیت تھے -

حضور سلطان الفقرؒ 14 اگست 1947ء کو صبح کے وقت دربار حضرت سلطان باھوؒ پر پیدا ہوئے- آپ نے ابتدائی تعلیم دربارشریف پر ہی حاصل کی- ابتدائی تعلیم سے فراغت کے بعد میٹرک ہائی اسکول نوشہرہ، وادئ سون سکیسر، ضلع خوشاب سےکی- دینی تعلیم اور تربیتِ سلک و سلوک آپ نے اپنے والدِ گرامی شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیزؒ کی خدمت میں حاصل کی- آپ کے والدِ گرامی مادر زاد ولی اللہ (پیدائشی ولی اللہ) تھے جن کی بشارتیں ان کی ولادت سے کئی عشرے قبل حضرت سلطان العارفین سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے فرما ئی تھی ، جو کہ خانوادہ شریف میں معروفِ عام تھیں -

سلطان الفقر بانیٔ اصلاحی جماعتؒ زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے-آپؒ شریعتِ مطہرہ پہ نہایت محبت و تمنا سے عمل فرماتے اور فرائض و واجبات پر سختی سے عمل کرنے والے تھے؛ تاہم زاہدِ خشک نہ تھے، خوش مزاجی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھی اور طریقت و معرفت میں کامل تھے - آپ اپنے عظیم خانوادے کے عظیم بزرگوں کی شاندار و تابناک روایات پر کامل طریقے سے عمل فرماتے-  وظائف (اسمِ اللہ ذات) کا کثرت سے اہتمام کرتے- تصوّف آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا-

آپ اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز، وسیع دسترخان کے حامل، جو بھی آپ کی درگاہ پر حاضر ہوتا اس کی مہمان نوازی کیے بغیر واپس نہ جانے دیتے- گفتگو میں انتہائی حلیم الطبع تھے- دھیمے لہجے اور پست آواز میں گفتگو کرتے، آپ سادہ مگر دیدہ زیب لباس زیبِ تن فرماتے، اکثر اوقات تہبند جبکہ شکار کے دوران شلوار استعمال فرماتے، برصغیر کی معروف روایت لنگی بھی اکثر استعمال فرماتے-اکثر اوقات واسکٹ پہنتے، سردیوں میں اونی جرسی بھی استعمال ہوتی -سرِ مبارک پہ سندھی ٹوپی پہنتے جبکہ سردیوں میں اونی ٹوپی ، خاندانی روایات کے مطابق سفید دستار، شملہ  کے ساتھ باندھتے اکثر اوقات پختون مُشدّی بھی باندھتے-چہرہ مبارک پہ سنہری فریم والا چشمہ بھی استعمال ہوتا تھا -

حضور سلطان الفقرؒ گوشہ نشین ہونے کی بجائے مردِ میدان بن کے رہنا زیادہ پسند کرتے ، اکثر اوقات سفر میں رہتے جب کبھی دربار حضرت سلطان باھُوؒ پہ بھی ہوتے تو بھی تشنگانِ فیض و تلقین کا تانتا بندھا رہتا-آپ نے زائرین و مریدین کی تربیت کیلئے نوری مسجد حق باھُو میں ہر نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن پاک لازم فرمایا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے، بعد از نماز عشا حضرت سلطان باھُو ؒ کی تصانیف مبارکہ کا درس بھی آپ ہی کی خانقاہ کا خاصہ ہے- آپ کی درگاہ پر ہر ماہ گیارہویں شریف اور سالانہ میلاد مصطفےٰ (ﷺ)  کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے - لنگر کا حسبِ مقدور انتظام ہوتاہے - آپ کے دسترخوان پر اپنے پرائے کی کوئی قید نہ تھی نہ ہے - آپ اکثر ارشاد فرماتے کہ:

’’یہ لنگر میرے حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ)کا ہے اور اس دسترخوان پر سب برابر ہیں‘‘-

آپؒ کو حضور غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی اور حضور پیر سید بہادر علی شاہؒ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی- کسی بھی محفل میں حضور عبد القادر جیلانی اور حضور پیر سید بہادر علی شاہ صاحبؒ کا ذکر ہوتا تو آپ پر خاص کیفیت طاری ہو جاتی - آپ پیر بہادرعلی شاہ صاحبؒ کے مزار پر نوراتا، اکیس راتا، اکتالیس راتا کیا کرتے تھے-

آپ محبتِ رسول کے جذبے سے سرشار تھے اور اپنے مریدین کو بھی اطاعتِ رسول اور ادب و محبتِ رسول (ﷺ) کا حکم دیتے- آپ صرف ربیع الاول میں ہی نہیں بلکہ پورے سال پاکستان بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں میلاد مصطفےٰ (ﷺ) کی محافل کا انعقاد کرواتے بالخصوص جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے چار مہینوں میں بہت بڑی بڑی محافل کا انعقاد کرواتے اورنفس بہ نفیس  شرکت کرتے؛ اور اس چار ماہ کے سلسلہ میلاد مصطفےٰ (ﷺ)  کوہرسال 12،13 اپریل کو دو روزہ محفلِ میلاد دربار شریف پر منعقد کرواکراختتام کرتے-یہ سلسلہ آج بھی آپ کے جانشین سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں جاری و ساری ہے- آپ کا نظریہ تھا کہ سید الانبیا خاتم المرسلین (ﷺ)  اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتِ عظمیٰ و کبریٰ ہیں ایسی نعمت کی خوشی منانے کیلئے دِن کی کوئی قید نہیں، اللہ پاک جب توفیق دے تو مسلمان کو حسبِ استطاعت ذکرِ مصطفےٰ (ﷺ) کی محفل سجانی چاہئے-

آپ کے سفر کے دوران کوئی ارادت مند اپنے گھر میں چھوٹی سی محفل کا بھی اہتمام کرتا تو اس میں شرکت فرماتے آپ بڑی نوعیت کے اجتماعات میں معتبر و مستند علمائے اہلسنت کو مدعو کرتے-مریدین کو بھی تلقین فرماتے کہ علمائے کرام کی قدر بھی کرو اور ادب بھی کیونکہ علما کا اٹھا لیا جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگا، اِس لئے آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت سلطان محمد معظم علی صاحب، اپنے شہزادگان اور بھتیجوں کو علمِ دین کی طرف رغبت دلائی اور اس کے عملی حصول کیلئے جیّد علمائے کرام کی خدمت میں بھیجا  - پورا سال آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہتا- اپنے بزرگوں کی قائم کردہ روایات کے مطابق اپنے مریدین کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور ان کی تربیت فرماتے،اُن کے گھروں میں ذکر و نصیحت کی محافل کا اہتمام کرنے کا بھی حکم فرماتے- آپ دورانِ سفر جہاں بھی قیام فرماتے، وہیں محفلِ ذکر اور نعت خوانی ہوتی- سفر کے رفقاء میں علما بھی ہوتے ، ترجمہ کنز الایمان، تفسیرِ نعیمی اور حضور سلطان العارفین کی کتب عین الفقر اور نور الہدیٰ کا درس ہوتا جس کے آخر میں آپؒ تلقین ارشاد فرماتے اوردعا فرماتے- لوگ بڑی تعداد میں آپ کے دستِ فیض رسان پہ بیعت اختیار کرتے، بیعت کے وقت آپ لوگوں کو اجتماعی توبہ کی تلقین کرتے ، نماز، روزہ، شریعتِ مطہرہ کی پابندی اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر کا حکم فرماتے -

آپ علم و عمل اور دین و دنیا کا حسین امتزاج تھے، آپ تصوّف کی تعلیم سے بھی آراستہ تھے، معاشرتی فہم و فراست سے بھی مالامال تھے- ہر آدمی سے خصوصی شفقت فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے-

آپ نے وصال سے آٹھ ماہ پہلے سلطان محمد علی صاحب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ، حضرت سلطان محمد علی صاحب نے اپنے والدِ گرامی کے دستِ فیض رسان پہ بیعت کی اور انہی سے خرقہ خلافت حاصل کیا -

حضرت بانیٔ اصلاحی جماعتؒ  26 دسمبر 2003ء بروز جمعۃ المبارک، دورانِ سفر ڈیرہ اسماعیل خان میں واصل الحق ہوئے- آپ کو آپ کے والدِ محترم حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیزؒ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا- آپ کے وصال سے پیدا ہونے والا خلا اگرچہ پُر نہیں ہو سکتا تاہم آپ کا خاندان اب بھی  آپ کے جانشین سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں رشد و ہدایت کا مینار نور ثابت ہو رہا ہے- حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب نمایاں شخصیت ہیں جو لوگوں کے دلوں میں عشقِ مصطفے ٰ کی شمع فروزاں کر رہے ہیں- حضور سلطان الفقر ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے اپنے کردار کی بدولت تاریخ کا دھارا موڑ کے رکھ دیا- ان کے کارہائے نمایاں سے نہ صرف پاکستان، بلکہ پورا عالم اسلام مستفید ہو رہا ہے- آپ نے 56 سال عالم اسلام کو اپنے نور سے مستفید کیا-

آپ عالم اسلام کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے بیک وقت کئی شعبوں میں کام کیا- آپ کا شمار معاصر دنیا کے صفِ اوّل کے صوفیا کرام میں ہوتا ہے-اِس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پھول اپنے رنگ اور خوشبو سے پہچانا جاتا ہے- پھل کا تعارف اُس کی بناوٹ اور ذائقہ ہے- باد بہاری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے دامن میں گلشن کی حیاتِ نو کی نوید جاں فضا رکھتی ہے، چاند کی چاندنی ہی اس کا عنوان جلی ہے- سورج کی ہلکی سی نمود بھی زمانے کو اس کے بارے میں خبر دیتی ہے- دودھ کی نفع بخشی اور اس کی رنگت کی نفاست ہی اس کی پہچان ہے، اسی طرح کسی انسان کا تشخص اس کی صلاحیت، علمی ذوق، عمل، جذبہ خدمت، صبر و ثبات، استقامت اور فکری بلندی ہے- جتنا کسی شخص کا اولین مقصد آفاقی اور عالم گیر ہوگا اس کا جذبہ عمل، متاعِ لازوال سے مالا مال ہو گااتنا ہی وہ کسی معاشرے کے لیے مفید اور موجب فخر ہو گا- سلطان الفقرؒ کو خالقِ عالم نے ان صلاحیتوں سے کلی طور پر مالا مال فرمایا ہے- آپ کی ذات بالا شان جامع الصفات اور ہمہ گیر ہے- آپ کی شخصیت خدماتِ جلیلہ کے باعث ممتاز نظر آتی ہے- جہد مسلسل، یقین محکم اور عمل پیہم آپ کا طرہ امتیاز ہے- آپ فرزندانِ توحید کی سربلندی کے آرزو مند اور اتحادِ ملت کے نقیب تھے- آپ اُمت مسلمہ کو اغیار کی وریوزہ گری سے نکالنے کیلیے ہمیشہ کوشاں رہے- معروف مصنف طارق اسماعیل ساگر صاحب نے آپ کو اقبال کے مردِ مومن کے تصور کی حقیقی تصویر لکھا ہے ، بلکہ آپ کی سیرت و سوانح پہ مرتب کردہ اپنی کتاب کا نام بھی اقبال کے اسی تصور پہ قائم کرتے ہوئے ’’صاحبِ لولاک‘‘ رکھا -

عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، یہ فتنوں کا دور ہے- ابلیسی قوتیں پوری ہوشیاری کے ساتھ دینی اقدار کو روندنا چاہتی ہیں- اس طوفان بلاخیز کا چہرہ بھی ایک نہیں کہ بندہ کسی ایک محاذپر ڈٹ جائے اور اس کا مقابلہ کرے، بلکہ اس کے ہزار چہرے ہیں- جب صورتحال ایسی ہو تو اہل حق کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں-آستانہ عالیہ حضرت سلطان العارفین سلطان باھوؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کے اس کے مسند نشین ہر دور میں ایسے صاحب بصیرت رجال کار آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف عالم اسلام کے مسائل کو سمجھا ہے بلکہ ان کو حل کرنے کی بساط بھر کوشش بھی کی ہے- سلطان الفقر سلطان محمد اصغرعلی صاحبؒ نے اپنے دور میں لوگوں کو شراب معرفت الٰہی پلا کر جادہ حق پر ایسا گامزن کیا کہ فیض یافتگان کی دیوانگی پر اہلِ خرد کی فرزانگی رشک کرنے لگی-

٭٭٭ؒ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر