اقبال کا تصورِعقل وعشق

اقبال کا تصورِعقل وعشق

اقبال کا تصورِعقل وعشق

مصنف: ڈاکٹر این میری شمل نومبر 2017

پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل(ولادت-1923ء) کوئی 40برس تک ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں برصغیر کی زبانوں اور ثفاقت نیز اقبالیات کی تدریس کرنے کے بعد مئی 1992ءکو ریٹائر ہوئی ہیں-علامہ اقبال کے بارے میں انہوں نے جرمن اور انگریزی زبانوں میں کئی کتابیں لکھیں اور علامہ مرحوم کی کئی کتب کے ترجمے بھی پیش کئے-ذیل کا مختصرت اقتباس ان کی جرمن کتاب’’محمد اقبال فلسفی اور صاحبِ پیغام شاعر‘‘ سے موسوم ہے-(مترجم)

علامہ محمد اقبال کا تعلق تین معنوی قلمروؤں سے ہے اور انہیں تین قلمروؤں سے ان کی قابل قدر تصانیف بھی مربوط ہیں-ایک قلمرو برصغیرکی ہے، دوسری دینِ اسلام کی روحانی قلمرو ہےاور تیسری مغربی فلسفے کی سرحد ہے-اقبال برصغیر میں پیدا ہوئے انہوں نے قرآن مجید کے زیرِ سایہ تربیت حاصل کی وہ مغرب میں دانتے اور مشرق میں ایران اور عرب کے عرفان کے شناسا تھے- مغربی فلسفے کی پیچیدگیوں، نیٹشے اور برگساں سے وہ پورے طور پر آشنا تھے وہ اپنی فکر کی بلندیاں دکھاتے ہوئے عالم انسانی کو اپنی معنوی قلمرو اسلام کی طرف کھینچتے نظر آتےہیں-

اقبال کی تصانیف میں مولانا روم کی تصانیف کی طرح عشق و عقل کے مقابلے میں سرگرم عمل اور فعال نظر آتا ہے-اقبال کے نقطہ نظر سے عقل بھی صرف سلبی کیفیت نہیں رکھتی کیونکہ دنیا کے نظم و نسق کو باقی رکھنے کے لئےاس کا وجود نہایت ضروری ہے عقل ایک باریک بیں استاد کی طرح ہے وہ بھی بڑی سرگرم قوت ہے-مگر باطن کے حرم میں وہ داخل نہیں ہوسکتی، عقل آہستہ آہستہ نہایت احتیاط سے اور شک و گمان کے ساتھ قدم اٹھاتی ہے لیکن مجبور ہے کہ محبوبوں کے سلطان کے دربار میں رک جائے، وہ گذشتہ حوادث پر نظر رکھتی ہے پرانے امور کی تحقیق کرتی ہے اور علم و دانش کی سوہان روح بننے والی سرگرمیوں کی طرح اپنے آغاز کار کے کاموں پر توجہ دیتی ہے اور یقین و اعتماد کی جستجو کرتی ہے عشق کا معاملہ اس کے برعکس ہے اس کا تعلقِ جاذبہ جمال کےساتھ ہے اور وہ محبوب ازل کی آگ میں نہایت بے باکی سے کود پڑتا ہے اقبال نے کہا ہے:

حیراں ہے بو علی کہ مَیں آیا کہاں سے ہوں

 

رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو مَیں[1]

اقبال کے ہاں عقل کی مثال کئی جگہ بوعلی سینا کی سی دی گئی ہے، وہ رضائے الٰہی سے دور جاپڑتا ہے اور شیطان کی خوخصلت پیدا کرتا ہے، شیطان کو بھی تو آدم کے وجود خاکی میں نورِ الٰہی کی پہچان نہ ہوسکی تھی اس نے صرف مادہ دیکھا اور اس میں ایسا گم ہوا کہ بصیرتِ درُون سے محروم رہا ظاہر ہےکہ جس قسم کی عقل وہ ہے جو اپنی اصل سے جدا ہوجائے اور دنیا کو ویران کرتی جائے اقبال نے اس مناسبت سے یہ مصرع کہا ہے-

عشق تمام مصطفےٰؐ ،عقل تمام بو لہب[2]

یہ شیطان عقل ہے اور اقبال ہمیشہ دنیائے مغرب کو ایسی عقل اپنانے پر سرزنش کرتا ہے- وہ دنیا جس میں حقیقی سارا یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ذات کی عظمت پر توجہ نہ ہو وہ شیطان کے پر تو میں ہے، اس کے علم و دانش شیطانی وسوسے میں ہیں، پہلے مرحلے میں اس کے سائنسی علوم پر نظر پڑتی ہےجو اپنی اور دنیا کی تباہی کا سوچتے ہیں-اس کے مقابلے میں اگر عقل کا عشق کے ساتھ سود مند امتزاج ہوجائے تو اس میں معرفت اور عاشقانہ جذبات نمودار ہوتے ہیں اور وہ دنیا کو ایک بہشت بنانے پر قادر ہونے لگتی ہے-ان معنی کے بیان کرنے کے لئےاقبال نے علم اورعشق کی ایک بحث اپنی کتاب’’پیامِ مشرق‘‘ میں پیش کی ہے-

علم

نگاہم راز دادِ ہفت و چار است
جہاں بینم بایں سو باز کردند
چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم

 

گرفتارِ کمندم روزگار است
مرآبا نسوئے گردوں چہ کار است
ببازار افگنم رازے کہ دارم

’’میری نگاہ ہفت آسمان اور چار سو کو محیط ہے،زمانہ میری کمند میں اسیر ہے-میرے سپرد اس دنیا کو دیکھنا کیا گیا ہے، آسمان کے اس طرف سے مجھے کیا واسطہ-میرے ساز سے سینکڑوں نغمے پھوٹتے ہیں، جو راز مجھے معلوم ہوتا ہے میں عام کردیتا ہوں‘‘-

عشق

زِ اَفسونِ تو دریا شعلہ زار است
چو بامن یار بودی، نور بودی
بخلولت خانہ لاہوت زادی

 

ہوا آتش گذار و زھردار است
بریدی از من و نورِ تو نار است
و لیکن در نخ شیطان فتادی

’’تیرے افسوں سے دریا کے پانی میں شعلہ پیدا ہوجاتا ہے، ہوا آتش اور مسموم ہوجاتی ہے-تومیرے ساتھ دوستی رکھتا تھا تو نور تھا، مجھ سے الگ ہوا تو تیرا نور نار بن گیا-تیری پیدائش عالمِ لاہوت میں ہوئی، لیکن تو شیطان کے پھندے میں گرفتار ہوگیا‘‘-

بیا ایں خاکداں را گلستان ساز
بیا یک ذرہ از دردِ دلم گیر
ز رود آفرینش ہمدم استیم

 

جہانِ پیر را دیگر جواں ساز
تہِ گردوں بہشت جاوداں ساز
ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم[3

’’آ، اس دنیا کو گلستان بنا، اس بوڑھے جہان کو پھر سے جوان بنادے-آ،میرے دردِ دل سے ایک ذرّہ لے، اور آسمان کے نیچے خلدِ بریں بنادے-ہم روزِ ازل سے ساتھی ہیں اور ایک ہی نغمے کے زیر وبم ہیں‘‘-

شاید بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ اقبال کا سا عالم استاد اور دانشور فلسفی علم اور عقل کی کیونکر مخالفت کرتا ہے- اس سلسلے میں اقبال کی کتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘دیکھیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے فلسفے سے پورے طور پر آگاہ تھا اس کتاب میں انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ دوسرے مسلمان بھی ممکن حد تک مغربی فلسفے کی اداؤں سے آگاہ ہوں مگر اقبال کی مخالفت عقل سے متعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ فلسفیوں پر مسلمان مفکر اعتراض کرتے آرہے ہیں-مثلاً ہم کئی راست عقیدہ کے مسلمانوں کودیکھتے ہیں کہ وہ یونان کے فلسفے سے متاثر بھی تھے لیکن اس پر معترض بھی تھے ان کے اعتراض کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ یونانی دنیا کو حادث نہیں بلکہ قدیم جانتے تھے-

فلسفے پر یعنی اقبال کی اصطلاح میں علم و عقل پر معترض مسلمان علماء میں سے امام محمد غزالی(م-505ھ)کا نام لے سکتے ہیں، جن کی کتاب ’’نہافتہ الفلاسفہ‘‘ مشہور ہے-اس کتاب نے دیگرناقدان فلسفہ مثلاً حکیم سنائی غزنوی(و-545ھ) یا مولانا روم(و-672ھ) اور کئی دوسروں کے لئے ایک ماخذ کا کام دیا-اس کے مقابلے میں بوعلی سینا کے سے فلسفہ دوست بھی تھے-اسے کسی نے خواب میں کہا تھا کہ تم نبوت کی اہمیت جانے بغیر بھی خدا تک پہنچ سکتے ہو-اس قسم کے فلسفی عشق کی متاع سے خالی ہیں اور سوچتے ہیں کہ عقل کی مدد سے اسرارعالم جان لیں گے-اقبال عقل، اجزا شناسی اور عشقِ عارفانہ کا موازنہ بار بار کرتا رہا-اس کے نزدیک عشقِ حقیقی کی دلآویزی اسی کا نصیب بنے گی جو عارف وصوفی ہو اور جسے القاء اور الہام کی برکات سے بہرہ مند کیا گیا ہو-

خدا، کائنات اور انسان کے روابط کے بارے میں اقبال نے بڑی جرأت افزا باتیں کی ہیں لیکن صاحبان علم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ سب قرآن مجید سے ہی ماخوذ ہیں یا کہیں کہیں انہیں اقبال کی جدت آمیز تفسیر کہا جا سکتا ہے-مثلاً کتاب، ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کا آغاز(خطبہ اول) دیکھ لیں کہ اس میں خلق جدید، فطرت پر غلبہ اور معراج انسانی کی کس قدر جرأت آموز گفتگو ہے-اقبال جو کہتا تھا، قرآن مجید کی تعلیمات کے پیش نظر کہتا تھا-اس کے خادم علی بخش(و-1969ء) نے کہا ہے کہ اقبال شعر کہتے وقت اسے بار بار کہتے تھےقرآن حکیم کو لائے-وہ ہرروز مطالب قرآنیہ پر غور کرتے اور دوسروں سے تبادلہ خیال کیا کرتے تھے - سید ابو الاعلی مودودی(1979ء) نے لکھا ہے کہ اقبال آخری عمر میں بالخصوص قرآن مجید کو پیش نظر رکھ کر ہی سوچتے اور لکھتے تھے-وہ لکھتے ہیں کہ انہیں اقبال کا سا کوئی دوسرا پروفیسر، ڈاکٹر، عالم ، فلسفی یا قانون دان نظر نہ آیا جو اس قدر شافی القرآن ہو-اقبال دین و دنیا کے سب علوم کا سرچشمہ قرآن کو ہی مانتے ہیں(۲)-افغانستان کے ایک سابق بادشاہ کو انہوں نے علم و عقل کے مقابلے میں اس عشق کی تلقین کی اور اپنے پیغام کی قرآن مابی بھی واضح کی ہے-

برگ و سازِ ما کتاب و حکمت است

 

ایں دو قوت اعتبارِ ملت است

’’کتاب و حکمت ہی ہمارا سرمایہ ہے-انہی دو قوتوں پر ملت کا دارومدار ہے‘‘-

آں فتوحاتِ جہانِ ذوق و شوق

 

ایں فتوحاتِ جہانِ تحت و فوق

’’ایک سے جہان ذوق و شوق (روحانیت) کے انعامات ہیں دوسری سے مادی دنیا کی تسخیر ہے‘‘-

ہر دو انعامِ خدائے لایزال

 

مومناں را آں جمال است، ایں جلال!

’’دونوں خدائے لایزال کے انعامات ہیں-مومنوں کے لئے ایک جمال ہے دوسرا جلال!‘‘-

حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست

 

اصلِ او جُز لذّتِ ایجاد نیست

’’اشیاء کی ماہیت جاننے کا آغاز فرنگیوں سے نہیں ہوا-اس کی بنیاد صرف نئی دریافت کی لذت ہے‘‘-

نیک اگر بینی مسلماں زادہ است

 

ایں گہر از دستِ ما افتادہ است

’’اگر تو غور سے دیکھے تو یہ چیز مسلمانوں کی پیدا کردہ ہے یہ وہ موتی ہے جو ہمارے ہاتھ سے گرا‘‘-

چوں عرب اندر اروپا پر کشاد

 

علم و حکمت را بنا دیگر نہاد

’’جب عربوں نے یورپ کے اندر کشور کشائی کی تو انہوں نے وہاں نئے انداز سے علم و حکمت کی بنیاد رکھی‘‘-

گوہر دریائے قرآں سفتہ ام

 

شرح رمز صبغۃ اللہ گفتہ ام

’’میں نے قرآن پاک کے سمندر سے موتی نکال کر انہیں (اپنے کلام) میں پرویا ہے میں نے اللہ تعالیٰ کے رنگ کے راز کی شرح بیان کی ہے‘‘-

با مسلمانان غمے بخشیدہ ام

 

کہنہ شاخے رانمے بخشیدہ ام

’’میں نے مسلمانوں کو نیا احساس دیاہے، میں نے اس پرانی شاخ کو نمی دی ہے‘‘-

عشقِ من از زندگی دارد سراغ

 

عقل از صہبائے من روشن ایاغ

’’میرا عشق زندگی کے معانی بیان کرتا ہے میری شراب سے عقل کا جام روشن ہے‘‘-

نکتہ ہائے خاطر افروزے کہ گفت؟

 

با مسلماں حرف پر سوزے کہ گفت؟

’’دلوں کو روشن کردینے والے نکات کس نے بیان کیے؟ مسلمان سے پرسوز بات کس نے کہی!‘‘-

ہمچو نے نالیدم اندر کوہ و دشت

 

تا مقامِ خویش برمن فاش گشت

’’میں بانسری کی طرح پہاڑوں اور جنگلوں میں روتا رہا ہوں تب کہیں جا کر مجھ پر میرا مقام واضح ہوا‘‘-

حرف شوق آموختم و آسوختم

 

آتشِ افسردہ باز افروختم

’’میں نے مسلمانوں کو شوق(محبت) کی بات سکھائی اور انہیں سوزِ عشق سے گرمایا-میں نے عشق کی بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ روشن کردیا‘‘-

بامن آہِ صبحگاہے دادہ اند

 

سطوت کو ہے بکا ہے دادہ اند

’’مجھے آہِ سحرگاہی عطا ہوئی ہے اس ’’کاہ، کو، کوہ‘‘، کی سطوت دی گئی ہے‘‘-

دارم اندر سینہ نور لا الہ

 

در شرابِ من سرور لا الٰہ[4

’’میں اپنے سینے میں لا الٰہ کا نور رکھتا ہوں، میری شاعری کی شراب میں لا الٰہ کا سرور ہے‘‘-

توضیحات:

Muhammad Iqbal Ditcher and Philosopher

اصل مقالہ پہلی بار ماہنامہ جوہر علی گڑھ کے اقبال نمبر میں شائع ہوا-یہاں لفظی ترجمہ نہیں-

ماہنامہ کلک تہران اپریل مئی1992ء ص:68تا 72-

(بشکریہ سہ ماہی ادبیات1992ء، اکادمی ادبیات پاکستان)

٭٭٭


[1](بالِ جبریل)

[2](ایضاً)

[3](پیامِ مشرق)

[4](پس چہ باید کرد)

پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل(ولادت-1923ء) کوئی 40برس تک ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں برصغیر کی زبانوں اور ثفاقت نیز اقبالیات کی تدریس کرنے کے بعد مئی 1992ءکو ریٹائر ہوئی ہیں-علامہ اقبال کے بارے میں انہوں نے جرمن اور انگریزی زبانوں میں کئی کتابیں لکھیں اور علامہ مرحوم کی کئی کتب کے ترجمے بھی پیش کئے-ذیل کا مختصرت اقتباس ان کی جرمن کتاب’’محمد اقبال فلسفی اور صاحبِ پیغام شاعر‘‘ سے موسوم ہے-(مترجم)

علامہ محمد اقبال کا تعلق تین معنوی قلمروؤں سے ہے اور انہیں تین قلمروؤں سے ان کی قابل قدر تصانیف بھی مربوط ہیں-ایک قلمرو برصغیرکی ہے، دوسری دینِ اسلام کی روحانی قلمرو ہےاور تیسری مغربی فلسفے کی سرحد ہے-اقبال برصغیر میں پیدا ہوئے انہوں نے قرآن مجید کے زیرِ سایہ تربیت حاصل کی وہ مغرب میں دانتے اور مشرق میں ایران اور عرب کے عرفان کے شناسا تھے- مغربی فلسفے کی پیچیدگیوں، نیٹشے اور برگساں سے وہ پورے طور پر آشنا تھے وہ اپنی فکر کی بلندیاں دکھاتے ہوئے عالم انسانی کو اپنی معنوی قلمرو اسلام کی طرف کھینچتے نظر آتےہیں-

اقبال کی تصانیف میں مولانا روم کی تصانیف کی طرح عشق و عقل کے مقابلے میں سرگرم عمل اور فعال نظر آتا ہے-اقبال کے نقطہ نظر سے عقل بھی صرف سلبی کیفیت نہیں رکھتی کیونکہ دنیا کے نظم و نسق کو باقی رکھنے کے لئےاس کا وجود نہایت ضروری ہے عقل ایک باریک بیں استاد کی طرح ہے وہ بھی بڑی سرگرم قوت ہے-مگر باطن کے حرم میں وہ داخل نہیں ہوسکتی، عقل آہستہ آہستہ نہایت احتیاط سے اور شک و گمان کے ساتھ قدم اٹھاتی ہے لیکن مجبور ہے کہ محبوبوں کے سلطان کے دربار میں رک جائے، وہ گذشتہ حوادث پر نظر رکھتی ہے پرانے امور کی تحقیق کرتی ہے اور علم و دانش کی سوہان روح بننے والی سرگرمیوں کی طرح اپنے آغاز کار کے کاموں پر توجہ دیتی ہے اور یقین و اعتماد کی جستجو کرتی ہے عشق کا معاملہ اس کے برعکس ہے اس کا تعلقِ جاذبہ جمال کےساتھ ہے اور وہ محبوب ازل کی آگ میں نہایت بے باکی سے کود پڑتا ہے اقبال نے کہا ہے:

حیراں ہے بو علی کہ مَیں آیا کہاں سے ہوں

 

رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو مَیں[1]

اقبال کے ہاں عقل کی مثال کئی جگہ بوعلی سینا کی سی دی گئی ہے، وہ رضائے الٰہی سے دور جاپڑتا ہے اور شیطان کی خوخصلت پیدا کرتا ہے، شیطان کو بھی تو آدم کے وجود خاکی میں نورِ الٰہی کی پہچان نہ ہوسکی تھی اس نے صرف مادہ دیکھا اور اس میں ایسا گم ہوا کہ بصیرتِ درُون سے محروم رہا ظاہر ہےکہ جس قسم کی عقل وہ ہے جو اپنی اصل سے جدا ہوجائے اور دنیا کو ویران کرتی جائے اقبال نے اس مناسبت سے یہ مصرع کہا ہے-

عشق تمام مصطفےٰؐ ،عقل تمام بو لہب[2]

یہ شیطان عقل ہے اور اقبال ہمیشہ دنیائے مغرب کو ایسی عقل اپنانے پر سرزنش کرتا ہے- وہ دنیا جس میں حقیقی سارا یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ذات کی عظمت پر توجہ نہ ہو وہ شیطان کے پر تو میں ہے، اس کے علم و دانش شیطانی وسوسے میں ہیں، پہلے مرحلے میں اس کے سائنسی علوم پر نظر پڑتی ہےجو اپنی اور دنیا کی تباہی کا سوچتے ہیں-اس کے مقابلے میں اگر عقل کا عشق کے ساتھ سود مند امتزاج ہوجائے تو اس میں معرفت اور عاشقانہ جذبات نمودار ہوتے ہیں اور وہ دنیا کو ایک بہشت بنانے پر قادر ہونے لگتی ہے-ان معنی کے بیان کرنے کے لئےاقبال نے علم اورعشق کی ایک بحث اپنی کتاب’’پیامِ مشرق‘‘ میں پیش کی ہے-

علم

نگاہم راز دادِ ہفت و چار است
جہاں بینم بایں سو باز کردند
چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم

 

گرفتارِ کمندم روزگار است
مرآبا نسوئے گردوں چہ کار است
ببازار افگنم رازے کہ دارم

’’میری نگاہ ہفت آسمان اور چار سو کو محیط ہے،زمانہ میری کمند میں اسیر ہے-میرے سپرد اس دنیا کو دیکھنا کیا گیا ہے، آسمان کے اس طرف سے مجھے کیا واسطہ-میرے ساز سے سینکڑوں نغمے پھوٹتے ہیں، جو راز مجھے معلوم ہوتا ہے میں عام کردیتا ہوں‘‘-

عشق

زِ اَفسونِ تو دریا شعلہ زار است
چو بامن یار بودی، نور بودی
بخلولت خانہ لاہوت زادی

 

ہوا آتش گذار و زھردار است
بریدی از من و نورِ تو نار است
و لیکن در نخ شیطان فتادی

’’تیرے افسوں سے دریا کے پانی میں شعلہ پیدا ہوجاتا ہے، ہوا آتش اور مسموم ہوجاتی ہے-تومیرے ساتھ دوستی رکھتا تھا تو نور تھا، مجھ سے الگ ہوا تو تیرا نور نار بن گیا-تیری پیدائش عالمِ لاہوت میں ہوئی، لیکن تو شیطان کے پھندے میں گرفتار ہوگیا‘‘-

بیا ایں خاکداں را گلستان ساز
بیا یک ذرہ از دردِ دلم گیر
ز رود آفرینش ہمدم استیم

 

جہانِ پیر را دیگر جواں ساز
تہِ گردوں بہشت جاوداں ساز
ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم[3]

’’آ، اس دنیا کو گلستان بنا، اس بوڑھے جہان کو پھر سے جوان بنادے-آ،میرے دردِ دل سے ایک ذرّہ لے، اور آسمان کے نیچے خلدِ بریں بنادے-ہم روزِ ازل سے ساتھی ہیں اور ایک ہی نغمے کے زیر وبم ہیں‘‘-

شاید بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ اقبال کا سا عالم استاد اور دانشور فلسفی علم اور عقل کی کیونکر مخالفت کرتا ہے- اس سلسلے میں اقبال کی کتاب ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘دیکھیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے فلسفے سے پورے طور پر آگاہ تھا اس کتاب میں انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ دوسرے مسلمان بھی ممکن حد تک مغربی فلسفے کی اداؤں سے آگاہ ہوں مگر اقبال کی مخالفت عقل سے متعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ فلسفیوں پر مسلمان مفکر اعتراض کرتے آرہے ہیں-مثلاً ہم کئی راست عقیدہ کے مسلمانوں کودیکھتے ہیں کہ وہ یونان کے فلسفے سے متاثر بھی تھے لیکن اس پر معترض بھی تھے ان کے اعتراض کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ یونانی دنیا کو حادث نہیں بلکہ قدیم جانتے تھے-

فلسفے پر یعنی اقبال کی اصطلاح میں علم و عقل پر معترض مسلمان علماء میں سے امام محمد غزالی(م-505ھ)کا نام لے سکتے ہیں، جن کی کتاب ’’نہافتہ الفلاسفہ‘‘ مشہور ہے-اس کتاب نے دیگرناقدان فلسفہ مثلاً حکیم سنائی غزنوی(و-545ھ) یا مولانا روم(و-672ھ) اور کئی دوسروں کے لئے ایک ماخذ کا کام دیا-اس کے مقابلے میں بوعلی سینا کے سے فلسفہ دوست بھی تھے-اسے کسی نے خواب میں کہا تھا کہ تم نبوت کی اہمیت جانے بغیر بھی خدا تک پہنچ سکتے ہو-اس قسم کے فلسفی عشق کی متاع سے خالی ہیں اور سوچتے ہیں کہ عقل کی مدد سے اسرارعالم جان لیں گے-اقبال عقل، اجزا شناسی اور عشقِ عارفانہ کا موازنہ بار بار کرتا رہا-اس کے نزدیک عشقِ حقیقی کی دلآویزی اسی کا نصیب بنے گی جو عارف وصوفی ہو اور جسے القاء اور الہام کی برکات سے بہرہ مند کیا گیا ہو-

خدا، کائنات اور انسان کے روابط کے بارے میں اقبال نے بڑی جرأت افزا باتیں کی ہیں لیکن صاحبان علم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ سب قرآن مجید سے ہی ماخوذ ہیں یا کہیں کہیں انہیں اقبال کی جدت آمیز تفسیر کہا جا سکتا ہے-مثلاً کتاب، ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کا آغاز(خطبہ اول) دیکھ لیں کہ اس میں خلق جدید، فطرت پر غلبہ اور معراج انسانی کی کس قدر جرأت آموز گفتگو ہے-اقبال جو کہتا تھا، قرآن مجید کی تعلیمات کے پیش نظر کہتا تھا-اس کے خادم علی بخش(و-1969ء) نے کہا ہے کہ اقبال شعر کہتے وقت اسے بار بار کہتے تھےقرآن حکیم کو لائے-وہ ہرروز مطالب قرآنیہ پر غور کرتے اور دوسروں سے تبادلہ خیال کیا کرتے تھے - سید ابو الاعلی مودودی(1979ء) نے لکھا ہے کہ اقبال آخری عمر میں بالخصوص قرآن مجید کو پیش نظر رکھ کر ہی سوچتے اور لکھتے تھے-وہ لکھتے ہیں کہ انہیں اقبال کا سا کوئی دوسرا پروفیسر، ڈاکٹر، عالم ، فلسفی یا قانون دان نظر نہ آیا جو اس قدر شافی القرآن ہو-اقبال دین و دنیا کے سب علوم کا سرچشمہ قرآن کو ہی مانتے ہیں(۲)-افغانستان کے ایک سابق بادشاہ کو انہوں نے علم و عقل کے مقابلے میں اس عشق کی تلقین کی اور اپنے پیغام کی قرآن مابی بھی واضح کی ہے-

برگ و سازِ ما کتاب و حکمت است

 

ایں دو قوت اعتبارِ ملت است

’’کتاب و حکمت ہی ہمارا سرمایہ ہے-انہی دو قوتوں پر ملت کا دارومدار ہے‘‘-

آں فتوحاتِ جہانِ ذوق و شوق

 

ایں فتوحاتِ جہانِ تحت و فوق

’’ایک سے جہان ذوق و شوق (روحانیت) کے انعامات ہیں دوسری سے مادی دنیا کی تسخیر ہے‘‘-

ہر دو انعامِ خدائے لایزال

 

مومناں را آں جمال است، ایں جلال!

’’دونوں خدائے لایزال کے انعامات ہیں-مومنوں کے لئے ایک جمال ہے دوسرا جلال!‘‘-

حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست

 

اصلِ او جُز لذّتِ ایجاد نیست

’’اشیاء کی ماہیت جاننے کا آغاز فرنگیوں سے نہیں ہوا-اس کی بنیاد صرف نئی دریافت کی لذت ہے‘‘-

نیک اگر بینی مسلماں زادہ است

 

ایں گہر از دستِ ما افتادہ است

’’اگر تو غور سے دیکھے تو یہ چیز مسلمانوں کی پیدا کردہ ہے یہ وہ موتی ہے جو ہمارے ہاتھ سے گرا‘‘-

چوں عرب اندر اروپا پر کشاد

 

علم و حکمت را بنا دیگر نہاد

’’جب عربوں نے یورپ کے اندر کشور کشائی کی تو انہوں نے وہاں نئے انداز سے علم و حکمت کی بنیاد رکھی‘‘-

گوہر دریائے قرآں سفتہ ام

 

شرح رمز صبغۃ اللہ گفتہ ام

’’میں نے قرآن پاک کے سمندر سے موتی نکال کر انہیں (اپنے کلام) میں پرویا ہے میں نے اللہ تعالیٰ کے رنگ کے راز کی شرح بیان کی ہے‘‘-

با مسلمانان غمے بخشیدہ ام

 

کہنہ شاخے رانمے بخشیدہ ام

’’میں نے مسلمانوں کو نیا احساس دیاہے، میں نے اس پرانی شاخ کو نمی دی ہے‘‘-

عشقِ من از زندگی دارد سراغ

 

عقل از صہبائے من روشن ایاغ

’’میرا عشق زندگی کے معانی بیان کرتا ہے میری شراب سے عقل کا جام روشن ہے‘‘-

نکتہ ہائے خاطر افروزے کہ گفت؟

 

با مسلماں حرف پر سوزے کہ گفت؟

’’دلوں کو روشن کردینے والے نکات کس نے بیان کیے؟ مسلمان سے پرسوز بات کس نے کہی!‘‘-

ہمچو نے نالیدم اندر کوہ و دشت

 

تا مقامِ خویش برمن فاش گشت

’’میں بانسری کی طرح پہاڑوں اور جنگلوں میں روتا رہا ہوں تب کہیں جا کر مجھ پر میرا مقام واضح ہوا‘‘-

حرف شوق آموختم و آسوختم

 

آتشِ افسردہ باز افروختم!

’’میں نے مسلمانوں کو شوق(محبت) کی بات سکھائی اور انہیں سوزِ عشق سے گرمایا-میں نے عشق کی بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ روشن کردیا‘‘-

بامن آہِ صبحگاہے دادہ اند

 

سطوت کو ہے بکا ہے دادہ اند

’’مجھے آہِ سحرگاہی عطا ہوئی ہے اس ’’کاہ، کو، کوہ‘‘، کی سطوت دی گئی ہے‘‘-

دارم اندر سینہ نور لا الہ

 

در شرابِ من سرور لا الٰہ[4]

’’میں اپنے سینے میں لا الٰہ کا نور رکھتا ہوں، میری شاعری کی شراب میں لا الٰہ کا سرور ہے‘‘-

توضیحات:

Muhammad Iqbal Ditcher and Philosopher

اصل مقالہ پہلی بار ماہنامہ جوہر علی گڑھ کے اقبال نمبر میں شائع ہوا-یہاں لفظی ترجمہ نہیں-

ماہنامہ کلک تہران اپریل مئی1992ء ص:68تا 72-

(بشکریہ سہ ماہی ادبیات1992ء، اکادمی ادبیات پاکستان)

٭٭٭



[1](بالِ جبریل)

[2](ایضاً)

[3](پیامِ مشرق)

[4](پس چہ باید کرد)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر