معروف ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ(Sigmund Freud, (1856-1939)چیکو سلواکیہ کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تاہم اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ آسٹریا کے درالخلافے ویانا میں بسر ہوا-اُنیسوی اور بیسوی صدی کا یورپ کو پرنیکس، کیپلر، گلیلیو، دیکارت اور سر آئزک نیوٹن کے زیر اثر تھا-اُس دور میں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں بعض ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے کلیسائے روم کے متکلمانہ افکار و نظریات کا طلسم توڑ ڈالا اور انسان کی توجہ عقائد پر مبنی صداقت اور حقیقت کےتخیلی تصور سے ہٹا کر حقائق کی مادی دنیا کی طرف پلٹ دی-گو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے معاشرے کو بے پناہ سہولتیں اور آسائشیں حاصل ہوئیں تاہم محض مادیت پر حد سے زیادہ اعتماد اور انحصار کرنے کے باعث انسان کا روحانی اور مذہبی اقدار سے ربط و تعلق ختم ہو گیااور صرف عقلی و مادی توجیہات ہی افکا ر و نظریات کی واحد اساس بن کر رہ گئیں-
اِس فکری فضا کا سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پر گہرا اثر ہوا-فرائیڈ نے ذہن انسانی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اس کی تین مختلف جہات شعور،تحت الشعوراور لا شعور کا تعین کیا-اُس کا یہ خیال ہے کہ ذہن انسانی کی انہی تین جہات کی کارکردگی کی روشنی میں انسانی فکر ونظر،کردار اور رویے کے ہر پہلو کے محرکات کی تلاش کی جا سکتی ہے-یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب کی بھی انسانی ذہن سے ماورا کوئی حیثیت نہیں -
فرائیڈ کے نظریات سے یہ بات عیاں ہے کہ انسانی شخصیت کا مبدا صرف انسان ہے-ورائے انسان کوئی حقیقی روحانی یا مذہبی آدرش انسانی اعمال و افعال کا محرک نہیں-فرائیڈ کے برعکس اقبال انسان کو اپنی جبلی خواہشات کا غلام قرار نہیں دیتا-اقبال کے نزدیک انسانی اعمال و افعال کے اصل محرکات روحانی و مذہبی اور اخلاقی عوامل ہیں-یہی وہ عوامل ہیں جو جبلی خواہشات کی تہذیب اور تطہیر کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں-اقبال انسانی سرِشت کی پاکی و طہارت اور نفسی پاکیزگی پر یقین رکھتا ہے-اس کے نزدیک اس خیا ل کی کوئی گنجائش نہیں کہ انسانی ذہن کا ایک حصہ ہمہ وقت آلودہ اور پراگندہ خواشات، جنسی میلانات، تمناوں اور ایسی آرزوں سے بھرا رہتا ہے جو ہر لحظ اس تاک میں رہتی ہیں کہ جب موقع ہاتھ آئے شعورپر حملہ آور ہو کر اپنا اظہار کریں اور یوں انسانی فکر وعمل کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں-اقبال کے نزدیک انسان مادہ اور اُس کے میکانکی عمل کا غلام نہیں-انسانی طرز عمل کا اصل محرک روحانی نصب العین ہے-پروفیسر نعیم احمد اپنے مضمون’’انسانی شخصیت،فرائیڈ اور اقبال کی نظرمیں‘‘رقم طراز ہیں:
’’فرائیڈ کا انسان موروثی رجحانات اور لاشعوری اُلجھنوں کے بوجھ تلے دبا کراہتا ہوا انسان ہے جسے اس کے اعمال و افعال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا-اقبال کا انسان آزاد خود مختار انسان ہے جو ہر دم نت نئے مقاصد اور آدرش وضع کرتا ہے اور وفورِتخلیق میں توارث اور ماحول کے بندھنوں کو بھی توڑ دیتا ہے-فرائیڈ کے نزدیک آئی ڈی(id)ایک ایسا نہاں خانہ ہے جہاں حیوانی توانائی ذہنی شکل اختیار کر کے تمام عرصہ غیر مبدل انداز میں موجود رہتی ہے اور عمل کی تمام تر تحرکات یہیں سے ابھرتی ہیں-اس کے برعکس علامہ اقبال کا نفسِ بصیر حقیقتِ مطلقہ کے سیلِ رواں کے اندر زندگی بسر کرتا ہے اور یہیں سے توانائی، ہدایت اور تحریک حاصل کرتا ہے‘‘-[1]
اقبال کے نزدیک انسانی فکر وعمل کا اصل محرک مابعد الطبیعیاتی ہے-اقبال کہتے ہیں کہ اگر ہماری منتشر اور پراگندہ داعیے (Vagrant impulses)خواب رویا کی صورت میں یا پھر بے خودی کے کسی ایسے کمزور لمحے میں کہ جب ہم مکمل طور پر اپنے حواس میں نہیں ہوتے،اپنا اظہار کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواہشوں اور آرزوؤں کی صورت میں یہ اُکساہٹیں ہمہ وقت ہماری ذات (Normal self)کے پچھواڑے کسی کباڑخانے (lumber room)میں موجود رہتی ہیں-اقبال رقم طراز ہیں:
If our vagrant impulses assert themselves in our dreams or at other times we are not strictly ourselves, it does not follow that they remain imprisoned in a kind of lumber room behind the normal self.[2]
’’اگر خواب یا بعض دوسری حالتوں میں جب ہم پورے طور پر اپنے آپ میں نہ ہوں کچھ منتشر مہیجات ہم پرحاوہی ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے تحت الشعور کے کسی کباڑ خانے میں پڑے ہوئے تھے ‘‘-
اقبال کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ذہن میں کسی ایسی کالی کباڑ کوٹھڑی پر یقین نہیں رکھتا جس میں ہر لحظہ نجس خواہشات اپنے اظہار کے لئے بے چین ہوں-اقبال اس بات کا قائل ہے کہ ہر قسم کے مہیجات کے مقابل ایک خاص نوع کا ردِ عمل راسخ ہو جاتا ہے اور اُس کا ہماری ذات کے ساتھ ایسا تلازم بن جاتا ہے کہ اُسی سے ہماری ذات کی پہچان ہوتی ہے-اس ردِ عمل کو کسی ذات کا معمول کا ردِ عمل (Habitual Response)کہا جا سکتا ہے-بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب ہماری ذات کے معمول کے ردِ عمل کو ایسے محرکات اور داعیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو ہماری ذات کے معمول کے ردِ عمل کے حصار کو توڑ کر ذات کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنا چاہتی ہیں-اس صورتِ حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ذات میں راسخ معمول کا ردِ عمل ایسی شر انگیزشوں کو دبا کر انہیں ذہن و قلب سے خارج کر دیتا ہے-بایں ہمہ بعض اوقات دبی ہوئی انگیزشیں ہماری ذات پر حاوی ہو جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِ عمل میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے اور وہ وقتی طور پر معطل ہو جاتا ہے-اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ذات کے معمول کےردِعمل سے مطابقت نہ رکھنے والی انگیزشیں اس لئے ہماری ذات پر حملہ آور نہیں ہوتیں کہ وہ ہمہ وقت ہمارے ذہن کے کسی تاریک گوشے میں گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہیں بلکہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں اختلال اور اُس کا وقتی تعطل ان دبی ہوئی انگیزشوں کے عمومی ذات(normal self)پر حاوی ہونے کا باعث بنتا ہے-اقبال رقم طراز ہیں:
“The occasional invasion of these suppressed impulses on the region of our normal self tends more to show the temporary disruption of our habitual system of response rather than their perpetual presence in some dark corner of the mind”.[3]
’’اگر ہمارے یہ دبے ہوئے مہیجات تحت الشعور سےکبھی شعور میں آ جائیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ ہمارے روز مرہ نظام عمل میں قدرے تغیر واقع ہو گیا ہے-یہ نہیں کہ وہ ذہن کے کسی تاریک کونے میں مسلسل دبی پڑ یں ہیں ‘‘-
در اصل اقبال اور فرائیڈ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر صرف مادیت اور ظاہری میکانکیت تک محدود ہے جبکہ اقبال مادی ظواہر سے ماورا حقائق پر بھی یقین رکھتا ہے -اقبال کے نزدیک مابعد الطبیعیاتی حقائق کی زندگی میں حیثیت اور حیات کے حرکی پہلو میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ فرائیڈ انسانی فکر و عمل کی ہر جہت کو لا شعور کی کاروائی قراردیتا ہے-اس کے نزدیک لاشعور ہی ہمارے تمام اعمال و افعال پر حاوی ہے - چونکہ لاشعور کا تعلق دماغ سے ہے اس لئے انسانی فکر و عمل کی ہر صورت کا مبدا و سرچشمہ خود انسان ہے اور انسان سے ماورا کوئی ایسی حقیقت نہیں جو فکرو عمل کے لئے تازیانہ کا باعث ہو-فرائیڈ کے یہی نظریات ہیں جن کی بنا پر وہ مذہب کو محض وہم و خیال اور من گھڑت قرار دیتا ہے-اقبال مذہب کے بارے فرائیڈ کے تصورِ خیال کو ان الفاظ میں رقم کرتے ہیں:
“Religion, it is said, is a pure fiction, created by these repudiated impulses of mankind with a view to find a kind of fairyland for free unobstructed movement. Religious belief and dogmas, according to the theory, are no more than merely primitive theories of nature. Whereby mankind have tried to redeem reality from its elemental ugliness and to show it off as something nearer to the hearts desire than the facts of life world warrant”.[4]
’’مذہب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ محض افسانہ ہے جو نوع انسانی کی طرف سے مسترد محرکات کا پیداکردا ہے جن کا مقصد ایک طرح کے ایسے پرستا ن خیال کی تشکیل ہے جہاں بلا روک ٹوک حرکت کی جا سکے-اس نظریے کے مطابق مذہبی اعتقادات اور ایمانیات کی حیثیت کو ابتدائی آلایشوں سے پاک کر کے اس کی تشکیل اپنی امنگوں اور آرزؤں کے حوالے سے دیکھنا چاہتا ہے جس کی تصدیق زندگی کے حقائق سے نہیں ہوتی‘‘-
مذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مذہب ایک خالص جھوٹ(pure fiction) ہے- اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں-دراصل جب انسان کی دبی ہوئی یا متروک خواہشات (Repudiated impulses) بوجوہ اپنا اظہار نہ کر پائیں تو ان خواہشات نے اپنی صورت بدل کر مذہب کی شکل اختیار کر لی-مقصد یہ تھا کہ ان متروک خواہشات کو اپنے آزادانہ اظہار کے لئے مذہب کی شکل میں ایک ایسی دوسری صورت یا خیالی پرستان (Land fairy) میسر آجائے جس کے راستے میں کو ئی رکاوٹ نہ ہو چنانچہ اس نقطہ نظر کے مطابق مذہبی اعتقادات اور عقائد کی حیثیت فطرت سے متعلق انسان کے ایسے قدیم نظریات کی ہے جن کے پردے میں انسان ایک اصلاً بد نما حقیقت کو اُس کی بدنمائی سے نجات دلانے کی کو شش کرتا ہے اور اسے مذہب کے رنگ میں اپنی دلی امنگ اور آرزوکی صورت پیش کرتا ہے-تاہم زندگی کے حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے- اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کی زندگی کے حقائق سے مطابقت نہیں - دراصل مذہب کی نہاد ہی ایسے اوہام پر قائم ہے جو محض خیالی اور تصوراتی ہیں-یوں فرائیڈ کے خیال میں مذہب کی پاسداری زندگی کے حقائق سے فرار کا باعث بنتی ہے-اقبال فرائیڈ کے ان مذہبی تصورات کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“That there are religious and forms of art, which provide a kind of cowardly escape from the facts of life, I do not deny. All that I contend is that this is not true of all religions”.[5]
’’مجھے اس امر سے اختلاف نہیں کہ مذہب اور فن کی مختلف ایسی صورتیں موجود ہیں جن سے زندگی کے حقائق سے بزدلانہ فرار کی راہ ہموار ہوئی -میرا دعویٰ صرف اس قدر ہے کہ یہ بات تمام مذاہب کے بارے میں درست نہیں ہے ‘‘-
اقبال کہتے ہیں کہ فرائیڈ کا یہ کہنا کہ بعض مذاہب اور فنون کی ایسی صورتیں جو زندگی سے بزدلانہ فرار کی راہ دِکھاتی ہیں تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے تاہم تمام مذاہب کے حوالے سے یہ بات صادق نہیں آتی-اقبال مذہب کی صحیح حیثیت کا تعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
“No doubt, religious beliefs and dogmas have a metaphysical significance but it is obvious that they are not interpretations of those data of experience which are the subject of the sciences of nature. Religious is not physics or chemistry seeking an explanation of nature in terms of causation, it really aims at interpreting a totally different region of human experience religious experience the data of which can not be reduced to the data of any other science”.[6]
’’اس میں شک نہیں کہ مذہبی ایمانیات اور اعتقادات مابعد الطبیعی مفہوم بھی رکھتے ہیں-اس میں شک نہیں کہ ان کی حیثیت ان تعبیرات کی سی نہیں جو علوم فطرت سے متعلقہ تجربات کا موضوع ہیں-مذہب طبیعات یا کیمیا نہیں کہ وہ علت ومعلول کے ذریعے فطرت کی عقدہ کشائی کرے-اس کا مقصد تو انسانی تجربے کے ایک بالکل ہی مختلف میدان سے ہے-یعنی مذہبی تجربہ جسے کسی سائنسی تجربے پر محمول نہیں کیا جا سکتا ‘‘-
اقبال کہتے ہیں کہ مذہبی تصورات کو مادی مظاہر سے منسلک کرنا درست نہیں-تاریخ میں ایسے بہت سے ادوار گزرے ہیں جن میں چاند، سورج، ستاروں، درخت، زمین، پہاڑوں، آگ، پانی، جانوروں(بچھڑے اور گائے وغیرہ) اور ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بھی مذہبی تصورات منسلک رہے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی رہی ہے - اصنام پرستی اسی کی ایک صورت ہے-اقبال کے نزیک مذہب کا تصور قدرتی علوم کی حدود تک محدود مظاہر فطرت کی شرح و وضاحت سے جنم نہیں لیتا بلکہ مذہب اور مادیت سے ماورا ایک ایسی مابعد الطبیعیاتی حقیقت ہے جس کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے بقول اکبر الٰہ آبادی:
نہیں سائنس واقف کارِ دیں سے |
چنانچہ مذہب کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں اس لئے کہ مذہب اور سائنس کی حدود ایک دوسرے سے مختلف ہیں-سائنس کا دائرہ کارصرف پیکرِ محسوس تک محدود ہے اور وہی علوم سائنسی علم کا حصہ ہیں جو مظاہرِ فطرت کے کسی نہ کسی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں مثلاً فزکس ہو یا کیمسٹری یہ علوم مظاہرِفطرت کی شرح و وضاحت کرنے والے علوم ہیں جبکہ مذہب فزکس اور کیمسٹری کی طرح ایسا علم نہیں کہ جس سے کسی مظہرِ فطرت کی ایسی تعبیر ممکن ہو کہ ہم یہ کَہ سکیں کہ مذہب بھی مادیت ہی سے متبادر ایسا علم ہے جس سے مادے کے کسی ایک پہلو کی وضاحت ہوتی ہے-اگر ایسا ہوتا تو مادیت کو مذہب پر فوقیت حاصل ہوتی اور مذہب فزکس اور کیمسٹری کی مانند مادیت کے ایک خادم کی حیثیت اختیار کر لیتا -حقیقت یہ ہے کہ مذہب مادیت کی تجربے کی ایک بالکل مختلف سطح کے ساتھ ہے-یہ انسانی تعقل اور روحانیت و احساسات کی سطح ہے-انسانی تجربے کی یہی وہ سطح یا مقام ہے جو مذہبی تجربے کا محل ہے-
اقبال کی نگاہ میں تو مذہب باطنی تجربے کی ایک ایسی مخصوص نوع ہے،جس کی حقیقی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ جذبہ باطنی جذبہ واحساس کی نہ صرف باقی تمام اقسام کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کے لئے ہادی و رہبر کی حیثیت رکھتا ہے-تاہم اقبال کے برعکس فرائیڈ کی نظر میں جنسی ہیجان (Sex impulse) کو انسان کے جذبات و احساسات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے-انسان کی تمام خواہشات کا محرک جنسی جذبہ ہے یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب بھی جنسی ہیجان (Sex impulse) کی ہی بدلی ہوئی صورت ہے-
(فرائیڈ کا یہ خیال ہے کہ انسان جب اپنی جنسی خواہشات کو اپنے خارجی ماحول کے انتداب یا سماج کے خوف کے باعث مطمئن نہیں کر پاتا تو یہ جنسی خواہشات لاشعور میں دبی رہتی ہیں اور موقع ملنے پر مختلف صورتوں مثلاً علم، ہنر، اخلاق اور عبادات و مناجات کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہیں-فرائیڈ جنسی خواہشات کے یوں مذہبی و اخلاقی رنگ میں تبدیلی کے عمل کو ارتقاعِ خواہشات(Sublimation)کا نام دیتا ہے-گویا فرائیڈ کے نزدیک عبادت و ریاضت سے تعلق رکھنے والی مذہبی خواہشات انسان کی حقیقی یا اصلی خواہشات نہیں ہیں بلکہ یہ خواہشات حقیقی یا اصلی خواہشات (جنسی خواہشات) کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں)
اقبال فرائیڈ سے اختلاف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
“Nor it is possible to explain away the content of religious consciousness by attributing the whole thing working of the sex-impulse”.[8]
’’مذہبی شعور کی تشریح و تفہیم اس کے مافیہ کو جنسی تہیجات کا نتیجہ قرار دے کر بھی نہیں کی جا سکتی ‘‘-
جہاں اقبال نے یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ مذہبی تجربے کے مواد کو سائنسی یا حسی تجربے کےمواد سے کوئی مماثلت نہیں وہیں وہ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ مذہبی تجربہ ایسی مخصوص نوعیت کا حامل تجربہ ہے کہ باطنی سطح پر بھی کسی نفسی تحریک یا ہیجان کو اس تجربے کی مثل یا اساس قرار نہیں دیا جا سکتا-مذہبی تجربے کی اپنی ایک انفرادیت ہے اور اس انفرادیت کو یہ کَہ کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی شعور در اصل انسان کی جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی صورت کی کار فرمائی ہے-اقبال کہتے ہیں کہ جنسی خواہشات کو مذہبی شعور کی اساس قرار دے کر مذہبی تجربے کی تشریح و تعبیر کرنا ممکن نہیں کیونکہ:
“The two forms of consciousness, sexual and religious, are often hostile or at any rate completely different to each other in point of their character, their aim and the kind of conduct they generate”.[9]
’’شعور کی دونوں صورتیں ’’ جنسی اور مذہبی ‘‘ زیادہ تر ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہیں یا دونوں اپنے کردار ،مقاصد اور اس طرز عمل کے لحاظ سے جو ان سے مترتب ہوتا ہے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ‘‘-
اقبال کہتے ہیں کہ مذہب (religion) اور جنس (sex) شعور کی ایسی دو اقسام ہیں جن کا آپس میں تعلق اکثر معاندانہ (Hostile) ہوتا ہے اور یہ دونوں اپنے کردار، مقاصد اور خاص نوعیت کا طرزِ عمل خلق کرنے کے معاملے میں بھی ایک دوسرے سے کلیتاً مختلف ہیں- اقبال کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال فرائیڈکے اس نقطۂ نظر کے حامی نہیں کہ جنسی خواہشات مذہب کی اساس ہیں اور یہ کہ مذہب کی حیثیت محض ایک ایسے واہمہ (illusion) کی ہے، جسے تکمیلِ خواہش (wish fulfilment) کا پر تو کہا جا سکتا ہے-
“Initution and inspiration would be such if they existed but can safely be counted as illusions as fulfilments of wishes”.[10]
’’الہام اور تحرک ایسے ہی ہو ں گے اگر ان کا کوئی وجود ہے اور ان کو فریب نظری یا تکمیل خواہشات کیا جا سکتا ہے‘‘-
ایک اور جگہ اس نے لکھا:
“We call a belief an illusion”.[11]
’’ہم عقیدے کو دھوکا کہتے ہیں ‘‘-
اقبال کے نزدیک مذہب کو واہمہ (illusion) یا تکمیل خواہش کا پر تو کہنا درست نہیں کیونکہ:
“The truth that in a state of religious passion. We know a factual reality in some sense outside the narrow circuit of our personality”.[12]
’’حقیقت یہ ہے کہ جذبِ مذہبی کی حا لت میں ہم ایک ایسی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں جو ایک مفہوم میں ہماری ذات کے تنگ دائرے سے باہر موجود ہے ‘‘-
اقبال کہتے ہیں کہ صداقت یہ ہے کہ جذبِ مذہبی (religious passion) کی کیفیت میں انسان اپنی شخصیت سے ماورا واقعاتی حقیقت (factual reality) سے شناسائی حاصل کرتا ہے-شخصیت سے ماورا واقعاتی حقیقت سے شناسائی حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس شناسائی یا آگہی کے عمل میں انسانی شخصیت کا کوئی حصہ یا کردار ہوتا، چونکہ شخصیت کا تاروپود شعوری کیفیات سے بنتا ہے-چنانچہ بقول اقبال مذہبی واردہ کے دوران میں صاحبِ حال یعنی صوفی اپنی شخصیت کے تنگنائے سے باہر حقائق سے آگہی حاصل کرتا ہے تو ظاہر ہے حقائق سے آگہی کے اس عمل میں انسان کی شعوری کیفیات کی سطح یا جہت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا-یوں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مذہبی واردہ اور شعوری کیفیات ایک دوسرے سے الگ ہیں چنانچہ یہ کہنا بھی جنسی لاشعوری محرکات مذہب کی بنیاد ہیں سراسر غلط ہے-دراصل علم نفسیات کی کمزوری یہ ہے کہ اس علم کا تعلق صرف اور صرف انسان اور اس کی شعوری جہات کے ساتھ ہے- یہ علم کسی ایسے وقوف یا فہم و بصیرت کا بھی قائل نہیں جس کا تعلق انسانی شخصیت اور اس کی شعوری جہات سے ماورا ہو-گویا فرائیڈ نے تحلیل نفسی کے طریقہ کار پر مبنی جس نفسیاتی نظام کی بنیاد رکھی اس میں مابعد الطبیعیات کو ماننے کی گنجائش نہیں- چنانچہ اقبال فرائیڈ کی جدید نفسیات کے اس پہلو پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
“A purely psychological methed therefore, can not explain religious passion as a form of knowledge. It is bound to fail in the case of our never psychologists as it did fail in the case of Lock and Hume”.[13]
’’لہٰذا نرے نفسیاتی منہاج سے جذب مذہبی کو علم ثابت نہیں کیا جاسکتا-ہمارے جدید ماہرین نفسیات کے لیے ناکامی اس طرح مقدر ہے جس طرح لاک اور لارڈ ہیوم کے لیے تھی‘‘-
اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جزب کے مذہبی طریقہ کار سے حاصل ہونے والے علم کی تشریح وتوضیح کر نانفسیاتی طریقہ کار کے بس کی بات نہیں - دنیا کے دو مشہور ترین نفسیات دانوں جان لاک (1704-1632John Locke,) اور ڈیوڈ ہیوم(David Hume, 1711-1776) کو بھی اس کوشش میں ناکامی ہوئی اور جدید نفسیات کے دعوے دار بھی اگر ایسی کوشش کریں گے تو اُنہیں ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا-اقبال فرائیڈ کے برعکس اِس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مذہبی تجربہ اور اس کے وقوفی پہلو (cognitive element) کی اساس ذہن و شعور نہیں بلکہ اِس سے ورا ہے-گویا اقبال بقول غالب اس بات کا قائل ہے کہ :
’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘[14]
دراصل اقبال اور فرائیڈ میں فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر محض مادیت تک محدود ہے اور وہ اسی کو اساس بنا کر اپنے فکر نتائج کا استخراج کرتا ہے-اقبال کے ہاں گو مادیت حقیقت کے ایک پہلو کا اظہار ضرور کرتی ہے اور اسے اقبال کے نظام فکر میں ایک اہم مقام بھی حاصل ہے تاہم اقبال کے نزدیک مادیت کو فکرو نظر کے لئے حتمی اساس قرار نہیں دیا جا سکتا-
٭٭٭
[1](پروفیسر نعیم احمد: ’’انسانی شخصیت، فرائیڈ اور اقبال کی نظر میں‘‘، سہ ماہی مجلّہ اقبال،اپریل1995ء، ج:32، شمارہ:2، بزم اقبال، کلب روڈ، لاہور)
[2](Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh Muhammad Ashraf, Lahore, p.24)
[3](Ibid)
[4](Ibid, p.25)
[5](Ibid)
[6](Ibid)
[7](اکبر الہٰ آبادی: کلیات اکبر، پنجاب پبلیشرز، کراچی، س-ن، ص،42)
[8](Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.26)
[9](Ibid)
[10](Sigmund Freud. New introductory lectures on psychoanalysis)
[11](Sigmund Freud, The Future of an illusion, P.54-44)
[12](Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.26)
[13](Ibid)
[14](اسد اللہ خان غالب: دیوانِ غالب، فیروز سنز، لاہور1989ء، ص:146)