علامہ اقبال اور زمینی حقائق

علامہ اقبال اور زمینی حقائق

علامہ اقبال اور زمینی حقائق

مصنف: پروفیسرفتح محمد ملک نومبر 2017

ہماری قومی تاریخ میں زمینی حقائق سےکامیاب پنجہ آزمائی کی مثالیں بھی موجود ہیں اور شرمناک پسپائی کی مثالیں بھی-آج علامہ اقبال کی برسی پر مجھے زمینی حقائق سےپنجہ آزمائی کی وہ زندہ اور منور مثال یاد آتی ہے جو مفکرِ پاکستان نے اپنی مختصر زندگی کے دورِآخر میں قائم کی اور جس کے فیضانِ مسلسل سے پاکستان آج تک قائم ہے-1930ء میں علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جس وقت اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا اس وقت برصغیر کی مسلمان قیادت لندن کی گول میز کانفرنس میں زمینی حقائق کے سامنے پسپائی اختیار کرچکی تھی-اس وقت زمینی حقائق یہ تھے کہ برطانوی حکومت اور کل ہند کا نگرس ہر دو ایک متحدہ ہندوستان میں ایک متحدہ قو م کے تصور پر ’’آمناو صدقنا‘‘ کہ چکی تھی-مسلمان قیادت برطانوی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ایک متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی مستقل بالادستی کے قیام کو زمینی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے مسلمان اقلیت کے جداگانہ انتخابات تک کے مطالبے سےدستبردار ہوچکی تھی - اسلام کو اجتماعی اور سیاسی زندگی سے بے دخل کر کے مسلمانوں کا نجی معاملہ قرار دے چکی تھی-ایسے میں اقبالؒ نےا جلاس کے شرکاء کو یاد دلایا تھا کہ:

“To address this session of the All-Indian Muslim League you have selected a man who is not despaired of Islam as a living force who believes that religion is a power of the living force who believes that religion is a power of the utmost importance in the life or individuals as well as States, and finally who believes that Islam is itself Destiny and will not suffer a destiny. Such a man cannot but look at matters from his own point of view”.

’’جس شخص کو آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے نوازا، وہ اب بھی اسلام کو ایک طاقت سمجھتا ہے - جو یہ یقین رکھتا ہے کہ مذہب ایک زندہ قوت ہے، جو یہ یقین رکھتا ہے مذہب افراد کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی زندگی میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پھر  یہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام خود ایک تقدیر ہے اور کسی تقدیر کا محتاج نہیں-ایسا انسان  نہ چاہتے ہوئے بھی معاملات کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے‘‘-

درج بالا سطروں میں اقبال نے تین باتیں بڑی قطعیت کےساتھ کہی ہیں-اول یہ کہ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جو اسلام کے اجتماعی مقدر سے مایوس ہیں-اس کے برعکس وہ اسلام کو ایک زندہ اورسرگرم کار قوت تسلیم کرتے ہیں-دوم یہ کہ مذہب فرد کی زندگی میں بھی انتہائی اہم  ہےا ور ریاست کی زندگی میں بھی-گویا مسلمانوں کی ریاست کی اہم ترین پہچان اسلام ہے-سوم یہ کہ اسلام اپنا مقدر آپ ہے-اس لئے اسلام کا اجتماعی مسلک کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جاسکتا-چہارم یہ کہ میں اپنے اس خطبہ میں کسی اور (برطانوی حکومت یا انڈین نیشنل کانگرس یا گانگرسی علماء) کا مسلک پیش کرنے کی بجائے خود اپنا نقطۂ نظرپیش کروں گا-چنانچہ اقبال حاضرین کو اپنے تصورات کی دور رس عملی معنویت کی جانب متوجہ کرتے ہیں:

“Do not think that the problem I am indicating is a purely theoretical one. It is very living and practical problem calculated to affect the very fabric of Islam as a system of life and conduct. On a proper solution of it alone depends your future as a distinict cultural unit in India. Never in our history has Islam had to stand a greater trial than the one which confronts it today”.

’’یہ خیال نہ کیجئے گا کہ جن مسائل کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ صرف نظریاتی ہیں-یہ بہت ہی زندہ اور عملی مسائل ہیں جو اسلام پر اس کی  نظامِ حیات و اخلاقیات کے تناظر میں اثر کرتے ہیں-انڈیا میں ہمارے ایک منفرد ثقافتی یونٹ  کی حیثیت میں مستقبل فقط اس ایک مسئلہ کے منا سب حل سے  جڑا ہے -تاریخ میں اسلام کو اس سے زیادہ کھٹن مرحلے کا سامنا آج سے پہلے نہیں ہوا‘‘-

سطور بالا میں اقبال خبردار کرتے ہیں کہ جس نظریاتی سوال کو وہ آج چھیڑ رہے ہیں اس کی اہمیت فقط علمی ہرگز نہیں بلکہ وہ سراسرعملی اہمیت کی حامل ہے-یہ ایک ایسا زندہ اورعملی معنویت کا حامل سوال ہے جس کے جواب پراسلامیانِ ہند کی اجتماعی ہستی کی بقاء کا دار و مدار ہے-اس سوال کے غلط جواب سےاسلامیانِ ہند کے قومی وجود کا شیرازہ منتشر ہوسکتا ہے-اس کے درست جواب پر ہی اسلامیانِ ہند کی منفرد تہذیبی اکائی کے مستقبل کا انحصار ہے-یہ گھڑی اسلام کی سنگین آزمائش کی گھڑی ہے-آزمائش کی اس گھڑی کو نجات کی گھڑی میں تبدیل کرنے کی خاطر اقبال بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے زمینی حقائق سے پنجہ آزمائی کی راہ دکھاتے ہیں-یہ راہ جداگانہ مسلمان قومیت کی راہ ہے جس پرگامزن ہوکر اسلامیان ہند نے پاکستان کے نام سے ایک جداگانہ، آزاد اور خود مختار مسلمان مملکت قائم کردکھائی-جس وقت اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا اس وقت برصغیر کی مسلمان قیادت اس تصور کو زمینی حقائق کے منافی تصور کرتی تھی-چنانچہ برطانوی حکومت اور انڈین کانگرس ہر دو سے اقلیت کے آئینی حقوق کے حصول میں کوشاں تھی-اقبال اکثریت اور اقلیت کی اس سیاست کو فکری تنگدستی سے تعبیر کرتے تھے - چنانچہ انہوں نے اپنے خطبہ الٰہ آباد کی اختتامی سطروں میں اسلامیانِ ہند کو اکثریت اور اقلیت کی سیاست کی اندھی گلی سے نکل کر اپنی جداگانہ قومی زندگی کی وسیع و عریض رزم گاہ میں اترنے کی تلقین کی:

“I cannot conceal from you the feeling that in the near future our community may be called upon to adopt an independent line of action to cope with the present crisis. Is it possible for you to achieve the organic wholeness of a unified will? Yes, it is. Rise above sectional interests and private ambitions, and learn to determine the value of your individual and collective action, however directed on material ends, in the light of the ideal which you are supposed to represent”.

’’ میں آپ سے اس احساس کو نہیں چھپا سکتا کہ موجودہ مسائل کے حل سے نبرد آزما ہونے کے لئے عنقریب اس قوم کو آزادنہ اقدامات اٹھانے ہونگے-کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کا ایک نظریے پر مکمل اتفاق ہو جائے؟ہاں یہ ہوسکتا ہے-گروہی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو جائیں اور خاص مقاصد کے حصول کے لئے ان مثالی نظریات کی روشنی میں جن کی آپ کو نمائندگی کرنی ہے، اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں، چاہے آپ کو جس طرح کے حالات کا بھی سامنا ہو ‘‘-

اوپر کے پیراگراف میں اقبال سامعین کو اپنےا س احساس میں شریک کرتے ہیں کہ اسلامیانِ ہند کو مستقبل قریب میں زمینی حقائق کے ساتھ سمجھوتہ بازی کی روِش کو ترک کرکے ایک آزاد راہِ عمل اختیار کرنا پڑے گی-یہ راہ عمل طے کرنے کے لئے قوم کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا-زمینی حقائق کو اپنے آئیڈیل کی قوت سے تسخیر کرنا ہوگا-یہ آئیڈیل اسلام سے عبارت ہے-اسی پیراگراف کے چند اگلے جملوں میں وہ ہماری قومی زندگی میں اسلام سے وفا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں-

“One lesson I have learned from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa. If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity and thereby saving yourself from total destruction”.

’’ایک سبق میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھا ہے-مشکل ترین حالات میں اسلام نےہی مسلمانوں کو نجات عطاکی، نہ کہ اس کے بر عکس-اگر آج آپ اپنی نظر  اسلام پہ مرکوز رکھیں اور اس میں موجود حیات بخش تصور سے فیض حاصل کریں  گے تو آپ اپنی منتشر قوتوں کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کر لیں گے اور اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے‘‘-

یہاں اقبال دو ٹوک اور قطعی انداز میں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں پر جب بھی کڑوا وقت آیا ہے ہمیشہ اسلام ہی نے مسلمانوں کو بچایا ہے-آج بھی مسلمانوں کو انتہائی کڑی آزمائش کا سامنا ہے-آزمائش کی اس گھڑی میں اسلام سے مکمل اور اٹوٹ وابستگی ہی اسلامیاِن ہند کو اس تباہی سے نجات دلاسکتی ہے جو مسلم انڈیا کے دروازے پر دستک دے رہی ہے-نجات کی ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے آئیڈیل(اسلام) کی قوت سے زمینی حقائق کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرکے شاہراہِ پاکستان تعمیر کریں-تاریخ شاہد ہے کہ اسلامیان ِ ہند نے اقبال کی دکھائی ہوئی راہِ عمل پر برق رفتاری کے ساتھ گامزن ہوکر پاکستان قائم کردکھایا-

ستم بالائے ستم! یہ کہ آج ہمارے بالادست طبقات اس خیال کی طاقت سے نا آشنائےمحض ہوکر رہ گئے ہیں جس سے اگست 1947ء میں پاکستان کا جغرافیائی و جود پیدا ہوا تھا-یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ عظیم خیال ہماری عملی زندگی سے غائب ہوچکاہے-نتیجہ یہ کہ ہم نے زمینی حقائق سے پنجہ آزمائی کی بجائے پسپائی کا چلن اپنا لیا ہے - خواب کا رشتہ حقیقت سے کٹ چکا ہے اور مرزا غالب کی فریاد کراں تا کراں گونج رہی ہے:

کوئی نہیں ہے اب ایسا جہاں میں غالب
جو جاگنے کو ملا دیوے آکے خواب کے ساتھ

غالب کی یہ فریاد پہلے پہل  جس دلّی میں  گونجی تھی اس کے لال قلعے میں اورنگزیب کا آخری نا اہل جانشین اور اس کا زمانہ جاگنے کو خواب سے ملادینے یعنی خواب و خیال کی طاقت سے زمینی حقائق کو موم بناکر رکھ دینے کے ہنر سے محروم ہو چکا تھا-یہ خیال کی طاقت اور خواب کے فسوں سے اسی محرومی کا شاخسانہ تھا کہ بادشاہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے آقاؤں کےدروازوں پر بار بار دستک دیتا تھا کہ وہ اس کی تنخواہ بڑھا دیں-انہوں نے تنخواہ نہیں بڑھائی پھر بھی آخری مغل تاجدار ایسٹ انڈیا کمپنی کی اسی تنخواہ پر نوکری کرتا رہا-غالب کو آنے والی تباہی کا جیتا جاگتا احساس تھا اس لئے وہ کبھی تو جاگنے کو خواب سے ملادینے والے یعنی آئیڈیل کی روشنی میں حقیقت کو منقلب کردینے والےکی آمد کی تمنا کرتا اور کبھی خونی انقلاب کی-

زمینی حقائق سے پسپائی کی راہ پر سرپٹ دوڑتے دوڑتے ہم غلامی کی تاریک رات میں آپہنچے-جب یہ تاریک رات ختم ہونے کو آئی تو ایک بار پھر زمینی حقائق سے شرمناک سمجھوتے کی سیاست گرم ہوئی-یہ سیاست جب اپنے عروج کو پہنچی تو علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد کے آغازمیں سامعین کو بتایا کہ:

“I lead no party; I follow no leader”.

’’میں کسی پارٹی کی قیادت نہیں کرتا  اورکسی لیڈر کی تقلید نہیں کرتا‘‘-

یوں تمام سیاسی لیڈروں اور تمام سیاسی پارٹیوں کی حکمت اور حکمت عملی پر تین حرف کَہ کر انہوں نے جداگانہ مسلمان قومیت کی آئیڈیالوجی پیش کی-اسی آئیڈیالوجی کےفیضان نے تحریک پاکستان کو جنم دیا، پروان چڑھایا اور اسلامیانِ ہند کو اپنا قائد اعظم دیا جس کی قیادت نے ہمیں پاکستان دیا-المیہ یہ ہے کہ آج ہم خیال کی اس طاقت سے، آئیڈیالوجی کی اس قوت سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں - ہمارے ہاں حرف اور معنی کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے-ایسے میں اقبال ہمیں پکار پکار کر صدا دے رہے ہیں:

یقین پیدا کر اے غافل کے مغلوبِ گماں تو ہے

اور

ثباتِ زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں

اقبال نے بے یقینی کو غلامی سے بدتر قراردیا ہے-شاید اس لئے کہ بے یقینی غلامی کی پہلی منزل ہے-

آج ہماری نجات اقبال کی اس صدائے دردناک پر کان دھرنے اور عمل کرنے میں پوشیدہ ہے-اقبال کی اسلامی انقلابی فکر سے پھوٹنے والی آئیڈیالوجی پر یقینِ محکم اور ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہ کر ہی ہم اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرسکتے ہیں-

آج جب نظریاتی اسقامت کو انتہا پسندی کا نام دیا جاتا ہے تو مجھے ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کا وہ خراجِ تحسین یاد آتا ہے جو اس مؤقر روزنامہ نے قائد اعظم کو پیش کیا تھا-بابائے قوم کی رحلت پر ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے لکھا تھا کہ اُن میں ایسی قوتِ ارادی تھی جو ان کی راہ میں حائل ٹھوس حقائق کو توڑ پھوڑ کر خوابوں کو جیتے جاگتے حقائق میں منتقل کر سکتی تھی-آج جب مانگے تانگے کی دانش ہمیں یہ سمجھانے میں مصروف ہے کہ ’’چلو تم ُادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ تو مجھے اقبال یاد آتے ہیں جنہیں اس حقیقت  کاعرفان حاصل تھا  کہ ہوا کا کچھ بھروسہ نہیں، یہ کمبخت تو کسی وقت بھی اپنا رخ بدل سکتی ہے-چنانچہ وہ اپنے خیال کی قوت سے زمینی حقائق(Ground Realities)کو بدل کر رکھ دینے پر قادر ہے:

ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ[1]

اقبال کا تصورِ پاکستان ہوا کی تُندی وتیزی کے مقابلے میں صراطِ مستقیم پر استقامت کی بہترین مثال ہے-1930ء کے خطبہ الٰہ آباد کے اختتامی پیرا گراف میں اقبال نے اسلامیانِ ہند کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اسلام سے اٹوٹ وابستگی قائم رکھیں-اس راہ کی مشکلات کو خاطر میں نہ لائیں-یہ مشکلات بظاہر جتنی سنگین نظر آتی ہیں واقعتاً اتنی سنگین نہیں ہیں-یہ مشکلات بہت جلد آسان ہوجائیں گی - لندن کی دوسری گول میز کانفرنس کے دوران جب انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات سے یہ جان لیا کہ مسلمان مندوبین نے قومی شاہراہ کو چھوڑ کر ہواکے راستے پہ سرپٹ دوڑنا شروع کردیا تو وہ احتجاجاً کانفرنس سے بائیکاٹ کرگئے تھے-1930ء کے خطبہ الٰہ آبادمیں وہ متحدہ ہندوستانی فیڈریشن کے تصور کو رد کرکے جداگانہ خود مختار مسلمان مملکتوں کا تصور پیش کرچکے تھے-گول میز کانفرنس میں وہ اپنے اسی تصور پر قائم رہے-دیگر مسلمان مندوبین حکومتِ برطانیہ کے دباؤ میں آکر نہ صرف اقبال کے تصورِ پاکستان سے گریزاں رہے بلکہ متحدہ ہندوستانی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے مسلمان اقلیت کے لئے حقوق اور تحفظات پر سودا بازی میں مصروف رہے - اقبال نے دباؤ میں آکر جداگانہ مسلمان قومیت کی آئیڈیالوجی ترک کرنے کی بجائے کانفرنس کا بائیکاٹ مناسب جانا-اُس وقت اقبال تنہا ہوکر رہ گئے تھے-جب میں اُن کی اس کڑی تنہائی کا خیال کرتا ہوں تو مجھے ان ہی کا یہ شعر یاد آتاہے:

بے خبر مرداں ز رزمِ کفر و دیں
جانِ من تنہا چو زیں العابدی

’’لوگ کفر و دین کی اس جنگ سے بے خبر ہیں، میری جان حضرت زین العابدین(رضی اللہ عنہ) کی مانند تنہا(اسے دیکھ رہی) ہے‘‘-

مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے اس فکری جہاد میں کربلا کا نقشہ ہمیشہ اقبال کےسامنے رہا-اپنی صورتِ حال کو وہ حضرت زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کی صورتِ حال کے مماثل سمجھتے رہے-کانفرنس کے بائیکاٹ کے فوراً بعد کی شاعری کا مطالعہ کریں تو کُھلتا ہے کہ انہیں اپنے خیالات کی طاقت اور اپنے ایمان کی صداقت کے سوا اگر اور کسی پر بھروسہ تھا تو وہ فقط اللہ تعالیٰ کی ذات تھی-چنانچہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنے اس ’’ساقی‘‘

 کو پکارتے رہے:

شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جامِ گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر[2]

انہوں نے اپنے تجربات سے یہ راز پالیا تھا کہ ان کے زمانے کے بزرگوں کی عقل غلام ہے-وہ اعتماد کے لائق نہیں ہیں-چنانچہ جب سر عبد اللہ ہارون نے یہ جاننے کے لئے خط لکھا کہ دوسری گول میز کانفرنس کے بائیکاٹ کے بعد اب وہ صورتِ حال کو کس نظر سےدیکھ رہے ہیں تو انہوں نے اڑھائی فقروں کے خط میں جواب دیا کہ تازہ تجربات نے انہیں یہ شعور بخشا ہے کہ وہ سیاستدانوں پر اعتماد نہ کریں-انہیں سیاسی صورتِ حال کے بارے میں جو کچھ کہنا ہے وہ چندماہ بعد لاہور میں منعقد ہونے والی کل ہند مسلم کانفرنس کےسالانہ اجلاس میں اپنے خطبۂ صدارت میں کَہ دیں گے-اقبال 1932ء کے اس خطبۂ لاہور کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ ’’جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر‘‘ - اب انہوں نے بزرگ نسل سے مایوس ہوکر جوانوں پر اعتماد کی ٹھانی-’’ساقی نامہ‘‘ میں وہ اپنے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کا ساراسوز و ساز نوجوانوں کے دلوں پر منتقل کردے:

مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری
امیدیں مری جستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزاالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں مَیں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے[3]

زمینی حقائق سے مغلوب ہوکر اپنی آئیڈیالوجی سے دستبرداری کا طرزِ عمل اپنانے والوں کو میں درجِ بالااَ شعار میں سے فقط اس شعر پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں:

مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات

یہ دل کیا ہے کہ کربلا کا میدان ہے جس میں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے-یقین کے مقابلے میں گمانوں کے لشکر ہتھیار پھینکتے چلے جا رہے ہیں - اقبال نے زمینی حقائق کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا-وہ ہمیشہ ان حقائق کو خاطر میں لاتے رہے ہیں مگر اس شعور کے ساتھ کہ’’ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر‘‘-ہمیں بھی انہوں نے یہی طررِ عمل اپنانے کا مشورہ دیا ہے:

ہو کوہ و بیاں سے ہم آغوش و لیکن
ہاتھوں سے ترے دامنِ افلاک نہ چھوٹے!

اقبال نے 1932ء کے خطبۂ لاہورمیں بزرگ نسل کی بجائے نوجوانوں کو یوں پکارا تھا:

“Let the fire of youth mingle with the fire of faith in order to enhance the glow of life and to create a new world of actions for our future generations”.

’’ اپنی زندگیوں کو نکھارنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے نیا ضا بطہ عمل تعمیر کرنے کیلئے جوانی کی قوتوں کو اپنے ایمان کی طاقت کے ساتھ یکجا کر یں‘‘-

تاریخ شاہد ہے کہ نوجوانوں نے شباب کی آگ کو ایمان کی آگ میں یوں حل کیا کہ وہ واقعتاً پیروں کے استاد بن گئے-اقبال نےاسی خطبہ لاہورمیں بزرگ نسل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے-وہ اس نسل کی کم نظری اور کوتاہ اندیشی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ موجودہ مشکلات کو ناقابلِ عبور سمجھ کر حالات سے بزدلانہ سمجھوتہ کرنے پر تیار بیٹھے ہیں-اقبال کو اس نسل میں فقط ایک ہی شخصیت نظر آتی ہے جس کی عقل غلامی سے آزاد ہے اور وہ ہے قائد اعظم کی ذاتِ والا صفات-چانچہ اقبال ذاتی راز و نیاز میں بھی اور خفیہ خط و کتابت میں بھی انہیں مسلمان قوم کی قیادت کا منصب سنبھالنے پر تیار کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں:

نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی[4]

جب قائد اعظم بالآخر ہندی مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ ادا کرنے پر آمادہ ہوکر لندن کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کَہ دیتے ہیں تو اقبال کی سیاسی اورفکری تنہائی ٹوٹنے لگتی ہے-

’’یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں‘‘

اب اقبال قائد اعظم کے ایک’’ادنیٰ سپاہی‘‘ کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں-قائد اعظم جان لیتے ہیں کہ اس سپاہی کے جلو میں نوجوانوں کی فوج ظفر موج دادِ شجاعت دینے کو تیار ہے-وہ اسی فوج سے کام لیتے ہیں اور’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے لفظوں میں زمینی حقائق کو توڑ پھوڑ کر اقبال کے خواب کو پاکستان کی حقیقت بنادیتے ہیں-

(ماخوذ از :اقبال کے سیاسی تصورات/ تالیف: پروفیسر فتح محمد ملک / مطبوعہ: دوست پبلی کیشنز)

٭٭٭


[1](بالِ جبریل)

[2](بالِ جبریل)

[3](ایضاً)

[4](بالِ جبریل)

ہماری قومی تاریخ میں زمینی حقائق سےکامیاب پنجہ آزمائی کی مثالیں بھی موجود ہیں اور شرمناک پسپائی کی مثالیں بھی-آج علامہ اقبال کی برسی پر مجھے زمینی حقائق سےپنجہ آزمائی کی وہ زندہ اور منور مثال یاد آتی ہے جو مفکرِ پاکستان نے اپنی مختصر زندگی کے دورِآخر میں قائم کی اور جس کے فیضانِ مسلسل سے پاکستان آج تک قائم ہے-1930ء میں علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جس وقت اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا اس وقت برصغیر کی مسلمان قیادت لندن کی گول میز کانفرنس میں زمینی حقائق کے سامنے پسپائی اختیار کرچکی تھی-اس وقت زمینی حقائق یہ تھے کہ برطانوی حکومت اور کل ہند کا نگرس ہر دو ایک متحدہ ہندوستان میں ایک متحدہ قو م کے تصور پر ’’آمناو صدقنا‘‘ کہ چکی تھی-مسلمان قیادت برطانوی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ایک متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی مستقل بالادستی کے قیام کو زمینی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے مسلمان اقلیت کے جداگانہ انتخابات تک کے مطالبے سےدستبردار ہوچکی تھی - اسلام کو اجتماعی اور سیاسی زندگی سے بے دخل کر کے مسلمانوں کا نجی معاملہ قرار دے چکی تھی-ایسے میں اقبال(﷫)نےا جلاس کے شرکاء کو یاد دلایا تھا کہ:

“To address this session of the All-Indian Muslim League you have selected a man who is not despaired of Islam as a living force who believes that religion is a power of the living force who believes that religion is a power of the utmost importance in the life or individuals as well as States, and finally who believes that Islam is itself Destiny and will not suffer a destiny. Such a man cannot but look at matters from his own point of view”.

’’جس شخص کو آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے اعزاز سے نوازا، وہ اب بھی اسلام کو ایک طاقت سمجھتا ہے - جو یہ یقین رکھتا ہے کہ مذہب ایک زندہ قوت ہے، جو یہ یقین رکھتا ہے مذہب افراد کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی زندگی میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پھر  یہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام خود ایک تقدیر ہے اور کسی تقدیر کا محتاج نہیں-ایسا انسان  نہ چاہتے ہوئے بھی معاملات کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے‘‘-

درج بالا سطروں میں اقبال نے تین باتیں بڑی قطعیت کےساتھ کہی ہیں-اول یہ کہ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جو اسلام کے اجتماعی مقدر سے مایوس ہیں-اس کے برعکس وہ اسلام کو ایک زندہ اورسرگرم کار قوت تسلیم کرتے ہیں-دوم یہ کہ مذہب فرد کی زندگی میں بھی انتہائی اہم  ہےا ور ریاست کی زندگی میں بھی-گویا مسلمانوں کی ریاست کی اہم ترین پہچان اسلام ہے-سوم یہ کہ اسلام اپنا مقدر آپ ہے-اس لئے اسلام کا اجتماعی مسلک کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جاسکتا-چہارم یہ کہ میں اپنے اس خطبہ میں کسی اور (برطانوی حکومت یا انڈین نیشنل کانگرس یا گانگرسی علماء) کا مسلک پیش کرنے کی بجائے خود اپنا نقطۂ نظرپیش کروں گا-چنانچہ اقبال حاضرین کو اپنے تصورات کی دور رس عملی معنویت کی جانب متوجہ کرتے ہیں:

“Do not think that the problem I am indicating is a purely theoretical one. It is very living and practical problem calculated to affect the very fabric of Islam as a system of life and conduct. On a proper solution of it alone depends your future as a distinict cultural unit in India. Never in our history has Islam had to stand a greater trial than the one which confronts it today”.

’’یہ خیال نہ کیجئے گا کہ جن مسائل کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ صرف نظریاتی ہیں-یہ بہت ہی زندہ اور عملی مسائل ہیں جو اسلام پر اس کی  نظامِ حیات و اخلاقیات کے تناظر میں اثر کرتے ہیں-انڈیا میں ہمارے ایک منفرد ثقافتی یونٹ  کی حیثیت میں مستقبل فقط اس ایک مسئلہ کے منا سب حل سے  جڑا ہے -تاریخ میں اسلام کو اس سے زیادہ کھٹن مرحلے کا سامنا آج سے پہلے نہیں ہوا‘‘-

سطور بالا میں اقبال خبردار کرتے ہیں کہ جس نظریاتی سوال کو وہ آج چھیڑ رہے ہیں اس کی اہمیت فقط علمی ہرگز نہیں بلکہ وہ سراسرعملی اہمیت کی حامل ہے-یہ ایک ایسا زندہ اورعملی معنویت کا حامل سوال ہے جس کے جواب پراسلامیانِ ہند کی اجتماعی ہستی کی بقاء کا دار و مدار ہے-اس سوال کے غلط جواب سےاسلامیانِ ہند کے قومی وجود کا شیرازہ منتشر ہوسکتا ہے-اس کے درست جواب پر ہی اسلامیانِ ہند کی منفرد تہذیبی اکائی کے مستقبل کا انحصار ہے-یہ گھڑی اسلام کی سنگین آزمائش کی گھڑی ہے-آزمائش کی اس گھڑی کو نجات کی گھڑی میں تبدیل کرنے کی خاطر اقبال بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے زمینی حقائق سے پنجہ آزمائی کی راہ دکھاتے ہیں-یہ راہ جداگانہ مسلمان قومیت کی راہ ہے جس پرگامزن ہوکر اسلامیان ہند نے پاکستان کے نام سے ایک جداگانہ، آزاد اور خود مختار مسلمان مملکت قائم کردکھائی-جس وقت اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا اس وقت برصغیر کی مسلمان قیادت اس تصور کو زمینی حقائق کے منافی تصور کرتی تھی-چنانچہ برطانوی حکومت اور انڈین کانگرس ہر دو سے اقلیت کے آئینی حقوق کے حصول میں کوشاں تھی-اقبال اکثریت اور اقلیت کی اس سیاست کو فکری تنگدستی سے تعبیر کرتے تھے - چنانچہ انہوں نے اپنے خطبہ الٰہ آباد کی اختتامی سطروں میں اسلامیانِ ہند کو اکثریت اور اقلیت کی سیاست کی اندھی گلی سے نکل کر اپنی جداگانہ قومی زندگی کی وسیع و عریض رزم گاہ میں اترنے کی تلقین کی:

“I cannot conceal from you the feeling that in the near future our community may be called upon to adopt an independent line of action to cope with the present crisis. Is it possible for you to achieve the organic wholeness of a unified will? Yes, it is. Rise above sectional interests and private ambitions, and learn to determine the value of your individual and collective action, however directed on material ends, in the light of the ideal which you are supposed to represent”.

’’ میں آپ سے اس احساس کو نہیں چھپا سکتا کہ موجودہ مسائل کے حل سے نبرد آزما ہونے کے لئے عنقریب اس قوم کو آزادنہ اقدامات اٹھانے ہونگے-کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کا ایک نظریے پر مکمل اتفاق ہو جائے؟ہاں یہ ہوسکتا ہے-گروہی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو جائیں اور خاص مقاصد کے حصول کے لئے ان مثالی نظریات کی روشنی میں جن کی آپ کو نمائندگی کرنی ہے، اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں، چاہے آپ کو جس طرح کے حالات کا بھی سامنا ہو ‘‘-

اوپر کے پیراگراف میں اقبال سامعین کو اپنےا س احساس میں شریک کرتے ہیں کہ اسلامیانِ ہند کو مستقبل قریب میں زمینی حقائق کے ساتھ سمجھوتہ بازی کی روِش کو ترک کرکے ایک آزاد راہِ عمل اختیار کرنا پڑے گی-یہ راہ عمل طے کرنے کے لئے قوم کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا-زمینی حقائق کو اپنے آئیڈیل کی قوت سے تسخیر کرنا ہوگا-یہ آئیڈیل اسلام سے عبارت ہے-اسی پیراگراف کے چند اگلے جملوں میں وہ ہماری قومی زندگی میں اسلام سے وفا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں-

“One lesson I have learned from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa. If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity and thereby saving yourself from total destruction”.

’’ایک سبق میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھا ہے-مشکل ترین حالات میں اسلام نےہی مسلمانوں کو نجات عطاکی، نہ کہ اس کے بر عکس-اگر آج آپ اپنی نظر  اسلام پہ مرکوز رکھیں اور اس میں موجود حیات بخش تصور سے فیض حاصل کریں  گے تو آپ اپنی منتشر قوتوں کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کر لیں گے اور اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے‘‘-

یہاں اقبال دو ٹوک اور قطعی انداز میں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں پر جب بھی کڑوا وقت آیا ہے ہمیشہ اسلام ہی نے مسلمانوں کو بچایا ہے-آج بھی مسلمانوں کو انتہائی کڑی آزمائش کا سامنا ہے-آزمائش کی اس گھڑی میں اسلام سے مکمل اور اٹوٹ وابستگی ہی اسلامیاِن ہند کو اس تباہی سے نجات دلاسکتی ہے جو مسلم انڈیا کے دروازے پر دستک دے رہی ہے-نجات کی ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے آئیڈیل(اسلام) کی قوت سے زمینی حقائق کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرکے شاہراہِ پاکستان تعمیر کریں-تاریخ شاہد ہے کہ اسلامیان ِ ہند نے اقبال کی دکھائی ہوئی راہِ عمل پر برق رفتاری کے ساتھ گامزن ہوکر پاکستان قائم کردکھایا-

ستم بالائے ستم! یہ کہ آج ہمارے بالادست طبقات اس خیال کی طاقت سے نا آشنائےمحض ہوکر رہ گئے ہیں جس سے اگست 1947ء میں پاکستان کا جغرافیائی و جود پیدا ہوا تھا-یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ عظیم خیال ہماری عملی زندگی سے غائب ہوچکاہے-نتیجہ یہ کہ ہم نے زمینی حقائق سے پنجہ آزمائی کی بجائے پسپائی کا چلن اپنا لیا ہے - خواب کا رشتہ حقیقت سے کٹ چکا ہے اور مرزا غالب کی فریاد کراں تا کراں گونج رہی ہے:

کوئی نہیں ہے اب ایسا جہاں میں غالب
جو جاگنے کو ملا دیوے آکے خواب کے ساتھ

غالب کی یہ فریاد پہلے پہل  جس دلّی میں  گونجی تھی اس کے لال قلعے میں اورنگزیب کا آخری نا اہل جانشین اور اس کا زمانہ جاگنے کو خواب سے ملادینے یعنی خواب و خیال کی طاقت سے زمینی حقائق کو موم بناکر رکھ دینے کے ہنر سے محروم ہو چکا تھا-یہ خیال کی طاقت اور خواب کے فسوں سے اسی محرومی کا شاخسانہ تھا کہ بادشاہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے آقاؤں کےدروازوں پر بار بار دستک دیتا تھا کہ وہ اس کی تنخواہ بڑھا دیں-انہوں نے تنخواہ نہیں بڑھائی پھر بھی آخری مغل تاجدار ایسٹ انڈیا کمپنی کی اسی تنخواہ پر نوکری کرتا رہا-غالب کو آنے والی تباہی کا جیتا جاگتا احساس تھا اس لئے وہ کبھی تو جاگنے کو خواب سے ملادینے والے یعنی آئیڈیل کی روشنی میں حقیقت کو منقلب کردینے والےکی آمد کی تمنا کرتا اور کبھی خونی انقلاب کی-

زمینی حقائق سے پسپائی کی راہ پر سرپٹ دوڑتے دوڑتے ہم غلامی کی تاریک رات میں آپہنچے-جب یہ تاریک رات ختم ہونے کو آئی تو ایک بار پھر زمینی حقائق سے شرمناک سمجھوتے کی سیاست گرم ہوئی-یہ سیاست جب اپنے عروج کو پہنچی تو علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد کے آغازمیں سامعین کو بتایا کہ:

“I lead no party; I follow no leader”.

’’میں کسی پارٹی کی قیادت نہیں کرتا  اورکسی لیڈر کی تقلید نہیں کرتا‘‘-

یوں تمام سیاسی لیڈروں اور تمام سیاسی پارٹیوں کی حکمت اور حکمت عملی پر تین حرف کَہ کر انہوں نے جداگانہ مسلمان قومیت کی آئیڈیالوجی پیش کی-اسی آئیڈیالوجی کےفیضان نے تحریک پاکستان کو جنم دیا، پروان چڑھایا اور اسلامیانِ ہند کو اپنا قائد اعظم دیا جس کی قیادت نے ہمیں پاکستان دیا-المیہ یہ ہے کہ آج ہم خیال کی اس طاقت سے، آئیڈیالوجی کی اس قوت سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں - ہمارے ہاں حرف اور معنی کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے-ایسے میں اقبال ہمیں پکار پکار کر صدا دے رہے ہیں:

یقین پیدا کر اے غافل کے مغلوبِ گماں تو ہے

اور

ثباتِ زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں

اقبال نے بے یقینی کو غلامی سے بدتر قراردیا ہے-شاید اس لئے کہ بے یقینی غلامی کی پہلی منزل ہے-

آج ہماری نجات اقبال کی اس صدائے دردناک پر کان دھرنے اور عمل کرنے میں پوشیدہ ہے-اقبال کی اسلامی انقلابی فکر سے پھوٹنے والی آئیڈیالوجی پر یقینِ محکم اور ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہ کر ہی ہم اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرسکتے ہیں-

آج جب نظریاتی اسقامت کو انتہا پسندی کا نام دیا جاتا ہے تو مجھے ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کا وہ خراجِ تحسین یاد آتا ہے جو اس مؤقر روزنامہ نے قائد اعظم کو پیش کیا تھا-بابائے قوم کی رحلت پر ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے لکھا تھا کہ اُن میں ایسی قوتِ ارادی تھی جو ان کی راہ میں حائل ٹھوس حقائق کو توڑ پھوڑ کر خوابوں کو جیتے جاگتے حقائق میں منتقل کر سکتی تھی-آج جب مانگے تانگے کی دانش ہمیں یہ سمجھانے میں مصروف ہے کہ ’’چلو تم ُادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ تو مجھے اقبال یاد آتے ہیں جنہیں اس حقیقت  کاعرفان حاصل تھا  کہ ہوا کا کچھ بھروسہ نہیں، یہ کمبخت تو کسی وقت بھی اپنا رخ بدل سکتی ہے-چنانچہ وہ اپنے خیال کی قوت سے زمینی حقائق(Ground Realities)کو بدل کر رکھ دینے پر قادر ہے:

ہوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ[1]

اقبال کا تصورِ پاکستان ہوا کی تُندی وتیزی کے مقابلے میں صراطِ مستقیم پر استقامت کی بہترین مثال ہے-1930ء کے خطبہ الٰہ آباد کے اختتامی پیرا گراف میں اقبال نے اسلامیانِ ہند کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اسلام سے اٹوٹ وابستگی قائم رکھیں-اس راہ کی مشکلات کو خاطر میں نہ لائیں-یہ مشکلات بظاہر جتنی سنگین نظر آتی ہیں واقعتاً اتنی سنگین نہیں ہیں-یہ مشکلات بہت جلد آسان ہوجائیں گی - لندن کی دوسری گول میز کانفرنس کے دوران جب انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات سے یہ جان لیا کہ مسلمان مندوبین نے قومی شاہراہ کو چھوڑ کر ہواکے راستے پہ سرپٹ دوڑنا شروع کردیا تو وہ احتجاجاً کانفرنس سے بائیکاٹ کرگئے تھے-1930ء کے خطبہ الٰہ آبادمیں وہ متحدہ ہندوستانی فیڈریشن کے تصور کو رد کرکے جداگانہ خود مختار مسلمان مملکتوں کا تصور پیش کرچکے تھے-گول میز کانفرنس میں وہ اپنے اسی تصور پر قائم رہے-دیگر مسلمان مندوبین حکومتِ برطانیہ کے دباؤ میں آکر نہ صرف اقبال کے تصورِ پاکستان سے گریزاں رہے بلکہ متحدہ ہندوستانی فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے مسلمان اقلیت کے لئے حقوق اور تحفظات پر سودا بازی میں مصروف رہے - اقبال نے دباؤ میں آکر جداگانہ مسلمان قومیت کی آئیڈیالوجی ترک کرنے کی بجائے کانفرنس کا بائیکاٹ مناسب جانا-اُس وقت اقبال تنہا ہوکر رہ گئے تھے-جب میں اُن کی اس کڑی تنہائی کا خیال کرتا ہوں تو مجھے ان ہی کا یہ شعر یاد آتاہے:

بے خبر مرداں ز رزمِ کفر و دیں
جانِ من تنہا چو زیں العابدین

’’لوگ کفر و دین کی اس جنگ سے بے خبر ہیں، میری جان حضرت زین العابدین(﷜) کی مانند تنہا(اسے دیکھ رہی) ہے‘‘-

مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے اس فکری جہاد میں کربلا کا نقشہ ہمیشہ اقبال کےسامنے رہا-اپنی صورتِ حال کو وہ حضرت زین العابدین (﷜) کی صورتِ حال کے مماثل سمجھتے رہے-کانفرنس کے بائیکاٹ کے فوراً بعد کی شاعری کا مطالعہ کریں تو کُھلتا ہے کہ انہیں اپنے خیالات کی طاقت اور اپنے ایمان کی صداقت کے سوا اگر اور کسی پر بھروسہ تھا تو وہ فقط اللہ تعالیٰ کی ذات تھی-چنانچہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنے اس ’’ساقی‘‘

 کو پکارتے رہے:

شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جامِ گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر[2]

انہوں نے اپنے تجربات سے یہ راز پالیا تھا کہ ان کے زمانے کے بزرگوں کی عقل غلام ہے-وہ اعتماد کے لائق نہیں ہیں-چنانچہ جب سر عبد اللہ ہارون نے یہ جاننے کے لئے خط لکھا کہ دوسری گول میز کانفرنس کے بائیکاٹ کے بعد اب وہ صورتِ حال کو کس نظر سےدیکھ رہے ہیں تو انہوں نے اڑھائی فقروں کے خط میں جواب دیا کہ تازہ تجربات نے انہیں یہ شعور بخشا ہے کہ وہ سیاستدانوں پر اعتماد نہ کریں-انہیں سیاسی صورتِ حال کے بارے میں جو کچھ کہنا ہے وہ چندماہ بعد لاہور میں منعقد ہونے والی کل ہند مسلم کانفرنس کےسالانہ اجلاس میں اپنے خطبۂ صدارت میں کَہ دیں گے-اقبال 1932ء کے اس خطبۂ لاہور کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ ’’جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر‘‘ - اب انہوں نے بزرگ نسل سے مایوس ہوکر جوانوں پر اعتماد کی ٹھانی-’’ساقی نامہ‘‘ میں وہ اپنے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کا ساراسوز و ساز نوجوانوں کے دلوں پر منتقل کردے:

مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری
امیدیں مری جستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزاالانِ افکار کا مرغزار
مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں مَیں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے[3]

زمینی حقائق سے مغلوب ہوکر اپنی آئیڈیالوجی سے دستبرداری کا طرزِ عمل اپنانے والوں کو میں درجِ بالااَ شعار میں سے فقط اس شعر پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں:

مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات

یہ دل کیا ہے کہ کربلا کا میدان ہے جس میں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے-یقین کے مقابلے میں گمانوں کے لشکر ہتھیار پھینکتے چلے جا رہے ہیں - اقبال نے زمینی حقائق کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا-وہ ہمیشہ ان حقائق کو خاطر میں لاتے رہے ہیں مگر اس شعور کے ساتھ کہ’’ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر‘‘-ہمیں بھی انہوں نے یہی طررِ عمل اپنانے کا مشورہ دیا ہے:

ہو کوہ و بیاں سے ہم آغوش و لیکن
ہاتھوں سے ترے دامنِ افلاک نہ چھوٹے!

اقبال نے 1932ء کے خطبۂ لاہورمیں بزرگ نسل کی بجائے نوجوانوں کو یوں پکارا تھا:

“Let the fire of youth mingle with the fire of faith in order to enhance the glow of life and to create a new world of actions for our future generations”.

’’ اپنی زندگیوں کو نکھارنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے نیا ضا بطہ عمل تعمیر کرنے کیلئے جوانی کی قوتوں کو اپنے ایمان کی طاقت کے ساتھ یکجا کر یں‘‘-

تاریخ شاہد ہے کہ نوجوانوں نے شباب کی آگ کو ایمان کی آگ میں یوں حل کیا کہ وہ واقعتاً پیروں کے استاد بن گئے-اقبال نےاسی خطبہ لاہورمیں بزرگ نسل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے-وہ اس نسل کی کم نظری اور کوتاہ اندیشی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ موجودہ مشکلات کو ناقابلِ عبور سمجھ کر حالات سے بزدلانہ سمجھوتہ کرنے پر تیار بیٹھے ہیں-اقبال کو اس نسل میں فقط ایک ہی شخصیت نظر آتی ہے جس کی عقل غلامی سے آزاد ہے اور وہ ہے قائد اعظم کی ذاتِ والا صفات-چانچہ اقبال ذاتی راز و نیاز میں بھی اور خفیہ خط و کتابت میں بھی انہیں مسلمان قوم کی قیادت کا منصب سنبھالنے پر تیار کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں:

نومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی[4]

جب قائد اعظم بالآخر ہندی مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ ادا کرنے پر آمادہ ہوکر لندن کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کَہ دیتے ہیں تو اقبال کی سیاسی اورفکری تنہائی ٹوٹنے لگتی ہے-

’’یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں‘‘

اب اقبال قائد اعظم کے ایک’’ادنیٰ سپاہی‘‘ کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں-قائد اعظم جان لیتے ہیں کہ اس سپاہی کے جلو میں نوجوانوں کی فوج ظفر موج دادِ شجاعت دینے کو تیار ہے-وہ اسی فوج سے کام لیتے ہیں اور’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے لفظوں میں زمینی حقائق کو توڑ پھوڑ کر اقبال کے خواب کو پاکستان کی حقیقت بنادیتے ہیں-

(ماخوذ از :اقبال کے سیاسی تصورات/ تالیف: پروفیسر فتح محمد ملک / مطبوعہ: دوست پبلی کیشنز)

٭٭٭



[1](بالِ جبریل)

[2](بالِ جبریل)