حریت اور اقبال کی شاعری یہ دو متماثل چیزیں ہیں اور اگر کوئی ایسی قوم جو حریت کے جذبے سے سرشار ہو تو اس قوم کا تذکرہ اقبال کی شاعری میں لازم ٹھہرتا ہے-شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں بیشتر مرتبہ افغانستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیات کا تذکرہ کیا ہے-جیسا کہ محمود غزنوی، حکیم سنائی، بابر ، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی خوشحال خان خٹک، سید جمال الدین افغانی-علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور تقاریر میں بار ہا مقام پہ افغانستان، افغانستان کے مسلم فاتحین اور صوفیاء کا تذ کرہ فرمایا ہے-آپ نے افغان قوم کی سامراج کے خلاف جدوجہد کو ہمیشہ سراہا-آپ افغان قوم کے جذبہ حریت اور قابض افواج کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہنے کے جذبے سے بہت متاثر تھے-آپ ’’زبور عجم‘‘ میں فرماتے ہیں:
فکر رنگينم کند نذر تہی دستان شرق |
|
پارهٔ لعلے که دارم از بدخشان شما |
’’تمہارے بدخشاں سے جو لعل کا ٹکرا میرے پاس ہے اُسے میری رنگین فکر مشرق کے تہی دست لوگوں کو نذر کر رہی ہے‘‘-
حلقه گرد من زنيد ای پيکران آب و گِل |
|
آتشی در سينه دارم از نياکان شما[1] |
’’اے آب و گل کے بنے ہوئے لوگو!آؤ میرے گرد حلقہ بناؤ، میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے لی ہے‘‘-
افغانستان اقبال کے دور میں بھی ایک اہم مسئلہ رہا ہے-افغانستان تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد آزادی حاصل کر چکا تھا-اس وقت ایشیا اور افریقہ پر یورپ بالخصوص برطانیہ کا نوآبادیاتی سامراج مسلط ہوچکا تھا لیکن افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے غیور و جری مسلم پشتون قبائل مشرق کی آزادی اور آبرو کا تحفظ اپنی سرحدوں پر کر رہے تھے- دوسری طرف سے روس کی جابر شہنشاہتیں مل کر بھی اس چھوٹے سے اور دنیوی و مادی لحاظ سے کمزور و مفلس علاقے پر قابو پانے سے عاجز آچکی تھیں-افغانستان اس وقت ہندستان اور پورے ایشیاء کی آزادی کی تحریکوں کے لیے امید کا مینار تھا- مغربی سامراج کی سازشیں پورے مشرق کے ساتھ افغانستان میں بھی زوروں پر تھیں اور وہاں طرح طرح کے فتنے اُٹھائے جارہے تھے، جن کا واحد نشانہ یہ تھا کہ معاشرے پر دینِ اسلام کی گرفت ڈھیلی کردی جائے- اس لیے کہ یورپ کے مدبّرین اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ دراصل مذہب کی قوت ہے، جو مشرق کی کمزور قوموں کو مغرب کی طاقت کے مقابلے میں مدافعت و مزاحمت کے لیے اور حُریت و آزادی کے حصول کے لیے اُکساتی ہے- اقبال نے اسلام کے خلاف اس مغربی سازش کو بھانپ لیا- چونکہ یہ دین حق کے خلاف تھی گویا یہ ایک ابلیسی سازش تھی چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم ’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ میں اس سازش کا پول اس فکرانگیز انداز میں کھولا:
لاکر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں |
|
زُنّاریوں کو دیرِ کُہن سے نکال دو |
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اقبال کے سارے فکری نظام میں مُلائیت اور ملاں منفیت کا استعارہ رہے ہیں یہ وہ واحد مقام ہے جہاں اقبال نے ملاں کی تائید کی ہے - کیونکہ بقیّہ ہر جگہ جسے اقبال ملائیت کہتے ہیں وہاں اُن کی مُراد ایسے ملوکیت پرست و فرقہ پرست ملاں ہوتے ہیں جو دین پہ اپنے فرقہ کو ترجیح دیتے ہیں - مگر افغانستان کی بابت اقبال نے ملاں کی تائید کی کیونکہ یہاں ملاں کانگریسی مفادات کا پاپڑ پیل ہونے کی بجائے حریتِ ملی کا محافظ اور آزادی کا متوالا و دلدادہ ہے - اِسی نظم پہ تبصرہ کرتے ہوئے معروف اقبال شناس پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں :
’’یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اقبال کی ساری کی ساری شاعری میں صرف یہی ایک مقام ہے جہاں ملاں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے-یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اقبال مُلا اور ملائیت کے بہت بڑے دُشمن ہیں-وہ مُلائیت کو اسلام کی اصل پاکیزگی کی بازیافت اور اسلام کی وسیع النظر انسان دوست اور حریت نواز حقیقی شکل کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں -وہ علمائے حق کے فیضان کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں-مگرمُلائیت کو حقیقی اسلام کیلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں- اُن کے کلام میں لفظِ مُلا اسمِ تحقیر ہے-مُلا اُن کے ہاں وِلن کے رُوپ میں نَظر آتاہے-مگر درج بالا نظم میں افغان مُلا اُن کا محبوب اور شیطان کا معتوب بن کر نمودار ہوتا ہے-افغان مُلا سے اقبال کی اس عقیدت کی وجُوہات افغانستان کی تاریخ سے بر آمد ہوتی ہیں-مردِ کُہستانی اور پھر افغان مُلا کے تاریخی کردار پہ نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مُلا افغانوں میں دینی غیرت کا نگہبان ہے - اُس نے اپنی گفتار اور اپنے کردار ، ہر دو سے ، برطانوی سامراج کو ہمیشہ شکست دِی - رزم میں بھی اور بزم میں بھی‘‘- [3]
افغان مُلاں کی تعبیر کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال افغانستان کی جُغرافیائی اہمیت کو اِس طرح واضح کرتے ہیں کہ افغانستان کے حالات پورے ایشیا پہ اثر انداز ہونگے ، یہاں امن کی سُفیدی ہوگی یا خون کی لالی ہوگی اُس کا بہاؤ پورے ایشیا میں ہوگا-عشروں قبل شاعر مشرق نے ایشیاءمیں قیام امن کے لیے افغانستان کی اہمیت کو جس طرح اجاگر کیا وہ حرف بہ حرف آج بھی صادق ہے:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است |
|
ملت افغان در آن پیکر دل است |
’’ایشیاء ایک مٹی اور پانی کا مجسمہ ہے افغانستان اس مجسمے کا دل ہے-اس (افغانستان) کا فساد پورے ایشیاء کا فساد ہےاور اس (افغانستان) کا امن پورے ایشیاء کا امن ہے‘‘-
آج کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال اس بات کی گواہ ہے کہ پورے ایشیاء کے امن کا دارومدار افغانستان کے امن سے مشروط ہے-علامہ اقبال ؒ کی تعلیمات کو سمجھ کہ ہم ایشیاء میں امن قائم کر سکتے ہیں-جیسا کہ آپ مزید فرماتے ہیں کہ:
تا دل آزاد است آزاد است تن |
|
ورنه کاہے در ره باد است تن![5] |
’’جب تک دل آزاد ہے جسم بھی آزاد رہے گا ورنہ جسم کی حیثیت اس تنکے کی سی ہے جو ہوا کے راستے میں پڑا ہو (ہوا اسے اڑا کر لے جاتی ہے)‘‘-
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کی انقلابی شاعری نے متعدد اقوام میں آزادی کی روح پھونکی-اسی طرح اقبال نے ’’ضربِ کلیم‘‘ کے آخر میں’’محراب گل افغان کے افکار‘‘، کے ذریعے افغانیوں کو پیغامِ انقلاب دیا:
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندستان! |
|
تو بھی اے فرزند کہستاں!اپنی خودی پہچان! جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان! اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان! عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان! |
اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے دور کے ایک المیہ کو اجاگر کیا کہ کس طرح کچھ علماء برطانوی سامراج کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں لیکن افغانیوں نے کسی طور بھی غلامی کا طوق قبول نہ کیا-دوسری طرف وہ افغان قوم کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ جہالت کو دور کر کے اپنی ہستی اور اس کے عظیم امکانات کو پہچانیں اور اپنی اندرونی قوتوں کو پوری طرح بروے کار لاکر حالات کا نقشہ بدل دیں-جبکہ دوسری نظم میں اس انقلاب کا نعرہ اور نصب العین یوں دیا گیا ہے -
افغان باقی! کُہسار باقی! |
|
الحکم للہ، الملُک للہ![7] |
علامہ اقبال افغانی قبائل کو تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ ہونے کے شدید خواہاں تھے کیونکہ یہ افغانیوں کی بڑی کمزوری تھی-1933ء آپ والیٔ افغانستان محمد نادر شاہ کی دعوت پر وہاں کا نظامِ تعلیم مرتب کرنے کے لیے افغانستان تشریف لے گئے- آپ نےکابل میں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی-آپ نے فرمایا:
’’ایک تعلیم یافتہ افغانستان انڈیا کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے- کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اور انڈیا کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کالج کو یونورسٹی میں تبدیل کر نا، تیز فہم افغان قبائل (جو ہماری اور افغان سرحدوں کے درمیان آباد ہیں) کی بہبود کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوگا‘‘-
“An educated Afghanistan will be the best friend of India. The building of a new University at Kabul and the development of the Peshawar Islamia College into another University on the western border of India will very much help in the uplift of the shrewd Afghan tribes who inhabit the country that lies between our frontier and the Afghan frontier”.
علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے افغانستان دورے میں مشاہیر عالم بزرگوں کے مزارات پر بھی حاضر ہوئے-محمود غزنوی،ظہیرالدین بابر، حکیم سنائی اور احمدشاہ ابدالی جیسی شخصیتوں کے متعلق اظہارخیال کرکے اقبال نے افغانیوں کے سامنے ان کی تاریخ کے زریں اوراق رکھ دیے تاکہ وہ اپنی عظمت ِ رفتہ سے روشنی حاصل کر کے موجودہ تاریکیوں کو دُور کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا کریں اور آنے والے دور کے لیے خود ایک روشنی بن جائیں-خطاب بہ اقوامِ سرحد میں بھی آپ افغان قوم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
بندهٔ حق وارث پیغمبران |
|
او نگنجد در جہان دیگران |
’’اللہ تعالیٰ کا بندہ انبیاء(علیھم السلام)کا وارث ہے،وہ دوسروں کے جہان میں نہیں سماتا-چونکہ وہ نیا جہاں پیدا کرتا ہے، اس لیے پہلے اس پرانے جہان کو درہم برہم کردیتا ہے - اس کی فطرت جہات میں رہتے ہوئے بھی جہات سے آزاد ہوتی ہے- وہ حریم ہے جس کے گرد کائنات چکر کاٹتی ہے‘‘-
فطرت او را گشاد از ملت است |
|
چشم او روشن سواد از ملت است |
’’اس کی فطرت کو ملت ہی سے وسعت حاصل ہوتی ہے-اس کی آنکھ کی روشنی ملّت ہی سے بڑھتی ہے- ذرا قرآن و سنت کے اندر گم ہوجا، پھر اے نادان اپنی طرف نگاہ ڈال -تو جہان میں آوارہ اور بے چارا ہے، اپنی وحدت گم کرکے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے- تیرے پیروں میں غیراللہ کی زنجیر پڑی ہے- تیری پیشانی پر غیراللہ کی غلامی کا جو داغ ہے، اس سے میرا دل داغ داغ ہے‘‘-
میر خیل! از مکر پنهانی بترس |
|
از ضیاع روح افغانی بترس |
’’اے قوم کے سردار تو اس بات سے ڈر کہ کہیں روح افغانی جاتی نہ رہے‘‘-
اقبال نے افغانیوں کے جذبہ حریت، دینی جوش و خروش اور اپنی روایات پر قائم رہنے کو سراہا لیکن وہ افغانیوں کی سب سے بڑی کمزوری سے بھی واقف تھے جو کے محتلف قبائل میں بٹ کر تقسیم ہو جانا ہے-آپ افغانیوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کے وہ مختلف قبائل کے تفرقوں سے آزاد ہو کر ایک ملت کی وحدت میں گم ہو جائیں-وہ اپنی نظر کو اسلام پہ مرکوز رکھیں اور اس میں موجود ہمیشہ حیات بخش تصور سے فیض حاصل کر کے اپنی منتشر قوتوں کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے اپنے آپ کو تباہی سے بچا لیں تاکہ آنے والے سخت تر حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں-آپ محراب گل افغان کی زبانی افغانیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
یہ نکتہ خوب کہا شیرشاہ سوری نے |
|
کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری! |
علامہ اقبال ()نے ملّی اتفاق و یگانگت کا یہ پیغام افغانیوں کو پشتو شاعر خوش حال خاں خٹک کی زبانی بھی دیا-
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم |
|
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند[9] |
حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کا پیغام آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہے جس طرح صدی پہلے تھا-اقبال کی ’’آہ و فغاں‘‘ پہ عمل پیرا ہو کر غیور افغان قوم آج بھی اپنا مستقبل تابناک بنا سکتی ہے-جس طرح علامہ اقبال افغانیوں اور ملت اسلامیہ کے ذہنی وعملی انحطاط اور زوال کو دور کرنے کیلئے آتش زیرپا تھے آج ہماری بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اقبال کے پیغام کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر اس پہ عمل پیرا ہوا جائے-
٭٭٭
[1](زبورِ عجم)
[2](ضربِ کلیم)
[3](اقبال فراموشی ، ص :10)
[4](جاوید نامہ)
[5](ایضاً)
[6](ضربِ کلیم)
[7](ایضاً)
[8](ضربِ کلیم)
[9](بالِ جبریل)
حریت اور اقبال کی شاعری یہ دو متماثل چیزیں ہیں اور اگر کوئی ایسی قوم جو حریت کے جذبے سے سرشار ہو تو اس قوم کا تذکرہ اقبال کی شاعری میں لازم ٹھہرتا ہے-شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال ()نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں بیشتر مرتبہ افغانستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیات کا تذکرہ کیا ہے-جیسا کہ محمود غزنوی، حکیم سنائی، بابر ، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی خوشحال خان خٹک، سید جمال الدین افغانی-علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور تقاریر میں بار ہا مقام پہ افغانستان، افغانستان کے مسلم فاتحین اور صوفیاء کا تذ کرہ فرمایا ہے-آپ نے افغان قوم کی سامراج کے خلاف جدوجہد کو ہمیشہ سراہا-آپ افغان قوم کے جذبہ حریت اور قابض افواج کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہنے کے جذبے سے بہت متاثر تھے-آپ ’’زبور عجم‘‘ میں فرماتے ہیں:
فکر رنگينم کند نذر تہی دستان شرق |
|
پارهٔ لعلے که دارم از بدخشان شما |
’’تمہارے بدخشاں سے جو لعل کا ٹکرا میرے پاس ہے اُسے میری رنگین فکر مشرق کے تہی دست لوگوں کو نذر کر رہی ہے‘‘-
حلقه گرد من زنيد ای پيکران آب و گِل |
|
آتشی در سينه دارم از نياکان شما[1] |
’’اے آب و گل کے بنے ہوئے لوگو!آؤ میرے گرد حلقہ بناؤ، میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے لی ہے‘‘-
افغانستان اقبال کے دور میں بھی ایک اہم مسئلہ رہا ہے-افغانستان تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد آزادی حاصل کر چکا تھا-اس وقت ایشیا اور افریقہ پر یورپ بالخصوص برطانیہ کا نوآبادیاتی سامراج مسلط ہوچکا تھا لیکن افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے غیور و جری مسلم پشتون قبائل مشرق کی آزادی اور آبرو کا تحفظ اپنی سرحدوں پر کر رہے تھے- دوسری طرف سے روس کی جابر شہنشاہتیں مل کر بھی اس چھوٹے سے اور دنیوی و مادی لحاظ سے کمزور و مفلس علاقے پر قابو پانے سے عاجز آچکی تھیں-افغانستان اس وقت ہندستان اور پورے ایشیاء کی آزادی کی تحریکوں کے لیے امید کا مینار تھا- مغربی سامراج کی سازشیں پورے مشرق کے ساتھ افغانستان میں بھی زوروں پر تھیں اور وہاں طرح طرح کے فتنے اُٹھائے جارہے تھے، جن کا واحد نشانہ یہ تھا کہ معاشرے پر دینِ اسلام کی گرفت ڈھیلی کردی جائے- اس لیے کہ یورپ کے مدبّرین اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ دراصل مذہب کی قوت ہے، جو مشرق کی کمزور قوموں کو مغرب کی طاقت کے مقابلے میں مدافعت و مزاحمت کے لیے اور حُریت و آزادی کے حصول کے لیے اُکساتی ہے- اقبال نے اسلام کے خلاف اس مغربی سازش کو بھانپ لیا- چونکہ یہ دین حق کے خلاف تھی گویا یہ ایک ابلیسی سازش تھی چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم ’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘ میں اس سازش کا پول اس فکرانگیز انداز میں کھولا:
لاکر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں |
|
زُنّاریوں کو دیرِ کُہن سے نکال دو |
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اقبال کے سارے فکری نظام میں مُلائیت اور ملاں منفیت کا استعارہ رہے ہیں یہ وہ واحد مقام ہے جہاں اقبال نے ملاں کی تائید کی ہے - کیونکہ بقیّہ ہر جگہ جسے اقبال ملائیت کہتے ہیں وہاں اُن کی مُراد ایسے ملوکیت پرست و فرقہ پرست ملاں ہوتے ہیں جو دین پہ اپنے فرقہ کو ترجیح دیتے ہیں - مگر افغانستان کی بابت اقبال نے ملاں کی تائید کی کیونکہ یہاں ملاں کانگریسی مفادات کا پاپڑ پیل ہونے کی بجائے حریتِ ملی کا محافظ اور آزادی کا متوالا و دلدادہ ہے - اِسی نظم پہ تبصرہ کرتے ہوئے معروف اقبال شناس پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں :
’’یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اقبال کی ساری کی ساری شاعری میں صرف یہی ایک مقام ہے جہاں ملاں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے-یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اقبال مُلا اور ملائیت کے بہت بڑے دُشمن ہیں-وہ مُلائیت کو اسلام کی اصل پاکیزگی کی بازیافت اور اسلام کی وسیع النظر انسان دوست اور حریت نواز حقیقی شکل کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے ہیں -وہ علمائے حق کے فیضان کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں-مگرمُلائیت کو حقیقی اسلام کیلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں- اُن کے کلام میں لفظِ مُلا اسمِ تحقیر ہے-مُلا اُن کے ہاں وِلن کے رُوپ میں نَظر آتاہے-مگر درج بالا نظم میں افغان مُلا اُن کا محبوب اور شیطان کا معتوب بن کر نمودار ہوتا ہے-افغان مُلا سے اقبال کی اس عقیدت کی وجُوہات افغانستان کی تاریخ سے بر آمد ہوتی ہیں-مردِ کُہستانی اور پھر افغان مُلا کے تاریخی کردار پہ نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مُلا افغانوں میں دینی غیرت کا نگہبان ہے - اُس نے اپنی گفتار اور اپنے کردار ، ہر دو سے ، برطانوی سامراج کو ہمیشہ شکست دِی - رزم میں بھی اور بزم میں بھی‘‘- [3]
افغان مُلاں کی تعبیر کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال افغانستان کی جُغرافیائی اہمیت کو اِس طرح واضح کرتے ہیں کہ افغانستان کے حالات پورے ایشیا پہ اثر انداز ہونگے ، یہاں امن کی سُفیدی ہوگی یا خون کی لالی ہوگی اُس کا بہاؤ پورے ایشیا میں ہوگا-عشروں قبل شاعر مشرق نے ایشیاءمیں قیام امن کے لیے افغانستان کی اہمیت کو جس طرح اجاگر کیا وہ حرف بہ حرف آج بھی صادق ہے:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است |
|
ملت افغان در آن پیکر دل است |
’’ایشیاء ایک مٹی اور پانی کا مجسمہ ہے افغانستان اس مجسمے کا دل ہے-اس (افغانستان) کا فساد پورے ایشیاء کا فساد ہےاور اس (افغانستان) کا امن پورے ایشیاء کا امن ہے‘‘-
آج کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال اس بات کی گواہ ہے کہ پورے ایشیاء کے امن کا دارومدار افغانستان کے امن سے مشروط ہے-علامہ اقبال ()کی تعلیمات کو سمجھ کہ ہم ایشیاء میں امن قائم کر سکتے ہیں-جیسا کہ آپ مزید فرماتے ہیں کہ:
تا دل آزاد است آزاد است تن |
|
ورنه کاہے در ره باد است تن![5] |
’’جب تک دل آزاد ہے جسم بھی آزاد رہے گا ورنہ جسم کی حیثیت اس تنکے کی سی ہے جو ہوا کے راستے میں پڑا ہو (ہوا اسے اڑا کر لے جاتی ہے)‘‘-
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ()کی انقلابی شاعری نے متعدد اقوام میں آزادی کی روح پھونکی-اسی طرح اقبال نے ’’ضربِ کلیم‘‘ کے آخر میں’’محراب گل افغان کے افکار‘‘، کے ذریعے افغانیوں کو پیغامِ انقلاب دیا:
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندستان! |
|
تو بھی اے فرزند کہستاں!اپنی خودی پہچان! جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان! اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان! عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان! |
اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے دور کے ایک المیہ کو اجاگر کیا کہ کس طرح کچھ علماء برطانوی سامراج کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں لیکن افغانیوں نے کسی طور بھی غلامی کا طوق قبول نہ کیا-دوسری طرف وہ افغان قوم کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ جہالت کو دور کر کے اپنی ہستی اور اس کے عظیم امکانات کو پہچانیں اور اپنی اندرونی قوتوں کو پوری طرح بروے کار لاکر حالات کا نقشہ بدل دیں-جبکہ دوسری نظم میں اس انقلاب کا نعرہ اور نصب العین یوں دیا گیا ہے -
افغان باقی! کُہسار باقی! |
|
الحکم للہ، الملُک للہ![7] |
علامہ اقبال افغانی قبائل کو تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ ہونے کے شدید خواہاں تھے کیونکہ یہ افغانیوں کی بڑی کمزوری تھی-1933ء آپ والیٔ افغانستان محمد نادر شاہ کی دعوت پر وہاں کا نظامِ تعلیم مرتب کرنے کے لیے افغانستان تشریف لے گئے- آپ نےکابل میں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی-آپ نے فرمایا:
’’ایک تعلیم یافتہ افغانستان انڈیا کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے- کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اور انڈیا کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کالج کو یونورسٹی میں تبدیل کر نا، تیز فہم افغان قبائل (جو ہماری اور افغان سرحدوں کے درمیان آباد ہیں) کی بہبود کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوگا‘‘-
“An educated Afghanistan will be the best friend of India. The building of a new University at Kabul and the development of the Peshawar Islamia College into another University on the western border of India will very much help in the uplift of the shrewd Afghan tribes who inhabit the country that lies between our frontier and the Afghan frontier”.
علامہ محمد اقبال ()نے اپنے افغانستان دورے میں مشاہیر عالم بزرگوں کے مزارات پر بھی حاضر ہوئے-محمود غزنوی،ظہیرالدین بابر، حکیم سنائی اور احمدشاہ ابدالی جیسی شخصیتوں کے متعلق اظہارخیال کرکے اقبال نے افغانیوں کے سامنے ان کی تاریخ کے زریں اوراق رکھ دیے تاکہ وہ اپنی عظمت ِ رفتہ سے روشنی حاصل کر کے موجودہ تاریکیوں کو دُور کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا کریں اور آنے والے دور کے لیے خود ایک روشنی بن جائیں-خطاب بہ اقوامِ سرحد میں بھی آپ افغان قوم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
بندهٔ حق وارث پیغمبران |
|
او نگنجد در جہان دیگران |
’’اللہ تعالیٰ کا بندہ انبیاء()کا وارث ہے،وہ دوسروں کے جہان میں نہیں سماتا-چونکہ وہ نیا جہاں پیدا کرتا ہے، اس لیے پہلے اس پرانے جہان کو درہم برہم کردیتا ہے - اس کی فطرت جہات میں رہتے ہوئے بھی جہات سے آزاد ہوتی ہے- وہ حریم ہے جس کے گرد کائنات چکر کاٹتی ہے‘‘-
فطرت او را گشاد از ملت است |
|
چشم او روشن سواد از ملت است |
’’اس کی فطرت کو ملت ہی سے وسعت حاصل ہوتی ہے-اس کی آنکھ کی روشنی ملّت ہی سے بڑھتی ہے- ذرا قرآن و سنت کے اندر گم ہوجا، پھر اے نادان اپنی طرف نگاہ ڈال -تو جہان میں آوارہ اور بے چارا ہے، اپنی وحدت گم کرکے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے- تیرے پیروں میں غیراللہ کی زنجیر پڑی ہے- تیری پیشانی پر غیراللہ کی غلامی کا جو داغ ہے، اس سے میرا دل داغ داغ ہے‘‘-
میر خیل! از مکر پنهانی بترس |
|
از ضیاع روح افغانی بترس |
’’اے قوم کے سردار تو اس بات سے ڈر کہ کہیں روح افغانی جاتی نہ رہے‘‘-
اقبال نے افغانیوں کے جذبہ حریت، دینی جوش و خروش اور اپنی روایات پر قائم رہنے کو سراہا لیکن وہ افغانیوں کی سب سے بڑی کمزوری سے بھی واقف تھے جو کے محتلف قبائل میں بٹ کر تقسیم ہو جانا ہے-آپ افغانیوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کے وہ مختلف قبائل کے تفرقوں سے آزاد ہو کر ایک ملت کی وحدت میں گم ہو جائیں-وہ اپنی نظر کو اسلام پہ مرکوز رکھیں اور اس میں موجود ہمیشہ حیات بخش تصور سے فیض حاصل کر کے اپنی منتشر قوتوں کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے اپنے آپ کو تباہی سے بچا لیں تاکہ آنے والے سخت تر حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں-آپ محراب گل افغان کی زبانی افغانیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
یہ نکتہ خوب کہا شیرشاہ سوری نے |
|
کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری! |
علامہ اقبال ()نے ملّی اتفاق و یگانگت کا یہ پیغام افغانیوں کو پشتو شاعر خوش حال خاں خٹک کی زبانی بھی دیا-
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم |
|
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند[9] |
حضرت علامہ محمد اقبال ()کا پیغام آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہے جس طرح صدی پہلے تھا-اقبال کی ’’آہ و فغاں‘‘ پہ عمل پیرا ہو کر غیور افغان قوم آج بھی اپنا مستقبل تابناک بنا سکتی ہے-جس طرح علامہ اقبال افغانیوں اور ملت اسلامیہ کے ذہنی وعملی انحطاط اور زوال کو دور کرنے کیلئے آتش زیرپا تھے آج ہماری بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اقبال کے پیغام کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر اس پہ عمل پیرا ہوا جائے-
٭٭٭