علامہ اقبالؒ کے ایک خطبہ کا عنوان ہے ’’علم اور مذہبی تجربہ‘‘اس خطبے میں اُنہوں نے بتایا ہے کہ علم کے تین ذرائع ہیں-اولاً: وحی الٰہی اور الہام ثانیاً:مشاہدہ فطرت اور ثالثاً:مطالعہ تاریخ ۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وحی پر مشتمل آخری کتا ب ہے جس میں سابق انبیاء پر نازل کی گئیں کتابوں کا خلاصہ اور اُن کے قصص بھی ہیں-تمام کتب آسمانی میں ایک ہی پیغام ہے اور وہ اسلام کا پیغام ہے البتہ وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں کے پیش نظر شریعتیں مختلف رہیں ہیں-علامہ اقبال ؒ نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ علم کا سب سے بڑا سر چشمہ قرآن حکیم ہے اور قرآن حکیم نے ہی علم کے دوسرے دو (2)ذرائع یعنی مشاہد ہ فطرت اور مطالعہ تاریخ کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے-علامہ اقبالؒ نے قرآن ِحکیم کے ابدی اور عمیق و وسیع سر چشمے سے اکتساب فیض کیا-ان کی فکر اور ان کی شاعری کا یہی اصل منبع ہےاسی باعث اُن کے افکار اور اُن کا شاعرانہ تخیل قرآنی فکر کی طرح تازہ اور آفاقی ہے- اقبال کے خادم خاص علی بخش کا بیان ہے:
’’جن دنوں ہم بھاٹی دروازے میں رہتے تھے ایک دفعہ پورے دو مہینے بڑی باقاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھتے رہے-اُن دنوں اُن کا عجب حال تھا- قرآن اس خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ جی چاہتا تھاکہ سارے کام کاج چھوڑ کر اُنہی کے پاس بیٹھا رہوں-اُس زمانے میں کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا صرف شام کو تھوڑا سا دودھ پی لیا کرتے تھے خدا جانے اس میں کیا رمز تھی‘‘[1]-
اقبال کو قرآن حکیم کی تلاوت سے خاص شغف تھا،وہ عربی زبان بھی بخوبی جانتے تھے ان کی عربی سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب اُن کے استاد پروفیسر آرنلڈ چھ(۶)ماہ کی چھٹی پر گئے تو اُن کی جگہ لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے رہے- اُن کا سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ اور فقہ کا بھی وسیع مطالعہ تھا-قرآن حکیم کی تلاوت کے وقت قرآن حکیم کے مطالب اور رموز میں غوطہ زن ہو جاتے تھے-جب اشعار کی آمد ہوتی تو علی بخش سے قرآن حکیم دن میں کئی بار منگواتے اس لئے اُن کی شاعری قرآن سے وابستہ ہے-اُن کا قرآنی آیات پر غور وفکرکا انداز بھی منفرد تھا جو اُن کے والد گرامی کی تربیت اور اُن کی خصوصی نصیحت کا مرہون منت تھا-ایک دفعہ انہوں نے خود فرمایا :
’’میرے والد نے ایک دن مجھ سے کہا کہ بیٹا-قرآن حکیم اُن کی سمجھ میں آ سکتا ہے جس پر یہ نازل ہوتا ہے-میں حیران تھا کہ قرآن کریم حضور ِانور (ﷺ)کے بعدبھی کسی پر نازل ہوتاہے؟ تو فرمایاانسانیت کو جس معراج پر پہنچانا فطرت کا مقصود ہے اس کا نمونہ ہمارے سامنے محمد مصطفےٰ (ﷺ)کی صورت میں پیش کر دیا گیا ہے-حضرت آدم ؑسے لیکرحضرت عیسیٰؑ تک ہر نبی میں محمد مصطفےٰ (ﷺ)کے مختلف مدارج تھے وہ سلسلے گویا ’’Muhammad In the Making‘‘ (تکمیلِ محمد(ﷺ)کی منازل تھے-بنیادی اصول ہر جگہ ایک تھا البتہ شعور انسانی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ فروعات کی تکمیل ہوتی جاتی تھی حتیٰ کہ’’محمد (ﷺ)‘‘ مکمل ہو گیا اور باب نبوت بندہو گیا-انسانیت اپنے معراج کبریٰ تک پہنچ گئی-اب ہر انسان کے سامنےمعراجِ انسانیت کانمونہ محمد مصطفےٰ (ﷺ) موجودہیں کوئی انسان جتنا محمدیت کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اتنا ہی قرآن اُس پر نازل ہوتا ہے یہ مفہوم تھا میرے کہنے کا کہ قرآن کریم اُس کی سمجھ میں آسکتا ہے جس پر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے‘‘[2]-
علامہ اقبالؒ کی فکر کا اصل موضوع انسان تھا اور وہ ہمیشہ اس سوچ میں غلطاں رہے کہ انسان کاخدا اور کائنات سےکیا تعلق ہے اور انسان صحیح معنوں میں نیابت الٰہیہ کے فرائض کس طرح سر انجام دے سکتا ہے-اس تناظر میں وہ تمام بنی نوع انسان کے مسائل میں دلچسپی لیتے تھے لیکن وہ امت مسلمہ کے مسائل اور مشکلات کے لئے خصوصی طور پر فکر مند رہتے تھے-اُن کے عہد میں مسلم ممالک کی اکثریت استعماری طاقتوں کی محکوم تھی اور امت مسلمہ طرح طرح کے مسائل میں گِھری ہوئی تھی-اگرچہ اب تک تمام مسلم ممالک اغیار کی غلامی سے نجات حاصل کرچکے ہیں لیکن امت مسلمہ آج بھی مجموعی لحاظ سے معاشی طور پر غریب سیاسی لحاظ سے کمزور اور نہایت پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے ۔ قومی آزادی حاصل کرنے کے بعد اگر مسلم ممالک جدید تعلیم و تحقیق پر توجہ دیتے، اپنے وسائل کا معاشی ترجیحات کے مطابق استعمال کرتے اور نان ایشوز کی بجائے اصل مسائل کو ایڈریس کرتے تو آج ان کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا- قرآنی بصیرت اور فکراقبال کی روشنی میں امت مسلمہ کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی مسئلہ عملی پسماندگی ہے امت مسلمہ کو درپیش دیگر مسائل مثلاً غربت، عدم برداشت، ریاستی آئین و قوانین کا عدم احترام اور مسلم ممالک میں یکجہتی کا فقدان اصل اور بنیادی سبب عملی پسماندگی ہی ہے-
قرآن حکیم نے تفکر اور تدبر پر بہت زور دیا ہے اور اس مقصد کے لئے تحصیل علم بہت ضروری ہے کیونکہ عالم ہی عالم انفس اور عالم آفاق میں غور و فکر کر سکتا ہے-قرآن حکیم کے تبتع میں علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر میں تعلیم و تر بیت کی اہمیت اور فضیلت کو مختلف پیراؤں میں بیان کیا ہے- انہوں نے اپنے خطبات میں وضاحت کی ہے کہ آدم علیہ السلام کو اُن کی استعدادِ علمی کی بدولت خلافت کی امانت سونپی گئی جب فرشتوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ خلافت سے سرفراز انسان زمین میں فساد برپا کرے گا اور خون ریزی کرے گا اللہ پاک نے جواباً فر مایا کہ’’ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ‘‘مزید فرمایا کہ ’’سکھا دئیے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے ‘‘آدم علیہ السلام کو اسمائے کُل کا علم عطا کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ نائب خدا کیونکہ با اختیار ہے اس لیے وہ اپنے علم کی بدولت فساد اور خون ریزی پر قابو پا سکتا ہے وہ علم کے مطابق عمل کرتے ہوئے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے-فطرت کو مسخر کر کے توانائی کو بہبود ِ انسان اور بہبودِ فطرت کےلئے استعمال کر کے ایک دلکش ،سرسبز اور پرامن جہاں تعمیر کر سکتا ہے اور علم کے تقاضوں سے منہ موڑ کر اس دنیا میں قیامت بھی بپا کر سکتا ہے-علم طاقت کا ذریعہ ہے علم سے ہی خدا شناسی ، خُود شناسی اور کائنات کےقوانین سے آگہی حاصل ہوتی ہے-
علامہ اقبالؒ تربیت خودی کا آخری مرحلہ نیابت ِالٰہیہ کو قرار دیتے ہیں نائب خدا علم کے بغیر نیابت کے فرائض سر انجام نہیں دے سکتا- قرآنی تعلیمات کی روشنی میں علامہ اقبال ؒنے مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی کو اُجاگر کیا ہے-انہوں نے وضاحت کی ہے کہ قرآن حکیم نے بنی نوع انسان کی توجہ استقرائی دانش کی طرف مبذول کرائی-قرآن حکیم صرف انسان پر بحث نہیں کرتا و ہ رات دن کے اختلاف آسمانوں کی بلندیوں اور پہاڑوں کی صلابت، پرندوں کی اُڑان ،شہد کی مکھیوں کے موثر نظام ،اطلاعات کو بھی بیان کرتاہے کہ مچھر اور مکھی کی مثال دینے سے بھی نہیں شرماتا-علامہ اقبالؒ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ قرآن کا اثر تھا جس کی بدولت مسلمان استقرائی دانش’’Inductive Intellect ‘‘کے ’’Pioneer‘‘بن گئے-اقبال نے طبعیات اور سائنس کی دیگر شاخوں اور شعبوں میں ریسرچ کرنے کو بھی قرب الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے-وہ فطرت کے مظاہر کو انوار الٰہیہ سے تعبیر کرتے ہیں اپنے ایک لیکچر میں کہتے ہیں:
’’فطرت کا سائنسی مشاہدہ ہمیں حقیقت کے کردار سے قرب عطا کرتا ہے اور یوں ہمارے اندرونی ادراک کو اس کے گہرے وقوف کے لئے تیز کرتا ہے --- سچائی تو یہ ہے کہ علم کی تلاش کی تمام صورتیں دعا ہی کی مختلف اشکال ہیں -فطرت کا سائنسی مشاہدہ کرنے والا بھی ایک طرح کا صوفی ہے جو دعا میں مشغول ہے‘‘[3]
علامہ اقبالؒ نے طبعیات کو بھی تقدس کا درجہ دیا اور سائنسی علوم کی تحصیل کو عبادت قراد دیا- وہ جانتے تھے کہ جب مسلمان سماجی اور سائنسی علوم میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے تو وہ طاقتور تھے اور دنیا کی امامت کرنے کے اہل تھے ۔ لیکن گذشتہ تین چار صدیوں میں اہل اسلام نے علوم کی ریسرچ میں کوئی قابل ذکر کا رنامہ سرانجام نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کے محکوم رہےاور آج بھی اُن کے زیرِ اثر ہیں اور اُن کے محتاج ہیں- مسلم ممالک تمام علوم میں بالخصوص سائنسی علوم میں نہایت پسماندہ ہیں-ہماری یونیورسٹیوں کا معیار مغرب اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے بہت پست ہے ہمارے تحقیقی ادارے اُن کی تحقیقات کی راہ دیکھتے ہیں-اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے علاوہ عام تعلیم اور خواندگی کے تناسب دیکھتے ہیں-اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے علاوہ عام تعلیم اور خواندگی کے تناسب میں بھی امت مسلمہ بہت پیچھے ہے-
ہماری درآمدات کی مالیت برآمدات سے بہت زیادہ ہے-امت مسلمہ کی غربت کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہم اپنا کثیر زرِ مبادلہ جہاز کا روں، جراحی کا سامان ادویات اور دیگر جدید مصنوعات کی درآمد پر خرچ کرتے ہیں-یہ درست ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور کرپشن بھی مسلم ممالک کا اہم مسئلہ ہے اور اس وجہ سے بھی آبادی کی کثیر تعداد بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں لیکن امت مسلمہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام مسلم ممالک کی مجموعی لحاظ سے شرح نمو ترقی یافتہ ملکوں سے بہت کم ہے اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ تعلیم و تحقیق کی کمی ہے اور معاشی ترجیحات کا غلط تعین ہے-
کئی مسلم ممالک کے معاشروں میں عدم برداشت کا مرض بڑھتا جارہا ہے-اس کے اور اسباب بھی ہیں لیکن بنیادی وجہ تعلیم کی کمی اور تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی کا فقدان ہے-بے روزگاری اور غربت سے آج بھی طبیعت بگڑ جاتی ہے اور چڑچڑا پن پیدا ہو جاتاہے- سائنسی طرز فکر سے انسان میں رواداری، نفاست اور دوسروں کی آراء کا احترام پیدا ہوتا ہے-ہم نے دیکھا ہے کہ سائنس دانوں میں فرقہ واریت نہیں ہوتی اگر مسلم ممالک میں سائنسی طرز فکر کو فروغ دیا جائے تو ڈگمٹزم کم ہوسکتی ہے-عہد حاضر میں مسلم ممالک میں فرقہ واریت نے عمیق فساد کی صورت اختیار کر لی ہے مسلکی اختلافات پر قتل و غارت کا بازار گرم ہے-قرآن حکیم کے حکم ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو‘‘کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے علامہ اقبالؒ نے فرقہ واریت کو ترقی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا -
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک |
|
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک |
آج ہم عجمی،عربی،تورانی، افغانی ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مسلکی تنوع جو حسن اور وسعتِ خیال کا باعث ہو سکتاہے ہماری صفوں میں افتراق پیدا کر رہا ہے ہم مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں-علامہ اقبالؒ نے توحید،رسالت اور قرآن و کعبہ کی بنیاد پر اتحاد کا درس دیا-
کیونکہ ان کے بارے میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان متفق ہیں-مسلم ممالک میں کئی عسکری تنظیمیں فساد کا باعث ہیں ان میں سے اکثر وہ جماعتیں ہیں جو مذہب کا غلط استعمال کرتی ہیں-یہ انتہاء پسند تنظیمیں اور گروپ ریاستی آئین، جمہوریت اور قوانین کو نہیں مانتے- وہ کھلم کھُلا ریاست کے خلاف بغاوت بپا کئے ہوئے ہیں-بے گناہ انسانوں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں اُن کو خودکش حملوں سے موت کے گھاٹ اُتارا جارہاہے علامہ اقبال ؒ نے رموز بے خودی میں یہ پیغام دیا ہے کہ فرد اپنی خودی کو معاشرے اور ریاست کےمفاد میں قربان کردے-ریاست اور معاشرے کے ڈسپلن اور قوانین و روایات سے فرد کی آزادی محفوظ رہتی ہے اُس کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں اور اسے ترقی کرنے کے مواقع ملتے ہیں-بے قدغن آزادی کا تصور ہی کیا جاسکتا ہےوہ آزادی نہیں بلکہ تراجیت ہوتی ہے اقبال ؒ کہتے ہیں-
دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے |
|
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں[5] |
علامہ اقبال ؒ کامشہور شعر زبان زدِ عام ہے :
فرد قائم ربط ملت سے ہے اور تنہا کچھ نہیں |
|
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں[6] |
عہد حاضر میں امت مسلمہ کو جو مسائل درپیش ہیں اُن کا حل قرآنی تعلیمات ہی سے کیاجاسکتا ہے- فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر ایک نئے ملاقاتی نے علامہ سے یہ سوال کیا کہ:آپ نے مذہب،اقتصادیات ،سیاسیات ،تاریخ اور فلسفہ وغیرہ پر علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں اُن میں سب سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کونسی گزری ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جو اب میں کرسی سے اُٹھے اور نو وارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں-یہ کَہ کروہ اندر چلے گئے-دو تین منٹ میں واپس آئے تو اُن کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی-اس کتاب کو اُنہوں نے اُس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا :’’ قرآن کریم‘‘[7]-
علامہ اقبالؒ نے اپنے سات خطبات جو انگریزی زبان میں تھے- جب وہ کتابی صورت میں چھپے تو دیباچہ کا آغاز ان الفاظ سے کیا -قرآن پاک کا رحجان زیادہ تر اِس طرف ہے کہ فکر کی بجائے عمل پر زور دیا جائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر غلا م مصطفےٰ خان لکھتے ہیں-
’’قرآن پاک میں تفکر کے لئے کم وبیش انتیس(۲۹) آیتیں ہیں-تدبر کےلئے آٹھ (۸)،تفقہ کے لئے بیس(۲۰)،شعور کے لئے انتیس(۲۹)،تعقل کےلئے اُنچاس(۴۹) اور تبصر کے لئے چھیانوے (۹۶) (مجموعہ ۲۲۱) لیکن عمل صالح کے لئے تین سو چھپن(۳۵۶) آیتیں ہیں ‘‘[8]-
صد افسوس !کہ امت مسلمہ کی کثیر آبادی فقہی موشگافیوں ، کلامی جدل و بحث اور فروعی اختلافات میں اُلجھ کے رہ گئی قرآنی محکمات و اخلاقیات اور مجسم مکارم اخلاق کی سیرت طیبہ روشن نمونوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے-مسلم ممالک کی جماعتیں اور تنظیمیں خود پرستی کی حفرہ النار میں گر گئیں- اتحاد امت کا خواب بکھر گیا،امت فرقوں ،گروپوں اور ریاستی مادی مفادات میں بٹ گئی لیکن قرآن کی فکر آج بھی تازہ ہے-
حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی شاعری آج بھی قرآن حکیم کی تعلیمات کی طرف دعوت دے رہی ہے -
عہد حاضر میں ارکان امت مسلمہ کو صرف ظاہری شریعت پر چلنا کافی نہیں بلکہ احسان تصوف کی راہ پر گامزن ہونا بھی ضروری ہے-نماز پڑھنےکا تعلق شریعت سے ہے لیکن خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے کا تعلق دل سے ہے جس کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا - جانور کی قربانی کرنا شریعت کا تقاضا ہے لیکن تقویٰ کا تعلق دل سے ہے- اللہ تعالیٰ کو ذبیحوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے- عہد حاضر میں شرعی احکام پر تو بہت اصرار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخلاص نیت ، اخلاقیات اور روحانیت پر کماحقہ زور نہیں دیا جاتا - اقبال ؒ کہتے ہیں کہ علم و دانش ادب اور تزکیہ کے بغیر کسی کام کا نہیں :
نہ دارم نہ مسلماں زادہ را دوست |
|
کہ در دانش فزود و در ادب کاست[9] |
علامہ اقبال ؒ مولانا جلال الدین رومی ؒ سے پوچھتے ہیں:
علم و حکمت کا ملے کیونکر سراغ؟ |
|
کس طرح ہاتھ آئے سوز ودرد و داغ[10] |
اس پر مولانارومی ؒ جواب دیتے ہیں :
علم و حکمت زاید از نانِ حلال |
|
عشق و رقت آید از نانِ حلال[11] |
٭٭٭
[1]( چراغ حسن حسرت مرتب ، اقبال نامہ ، ص :۱۸)
[2]( فکر و نظر مجلہ اسلام آباد ، اگست ، ۱۹۷۶ء ص :۱۱۹)
[3]( ڈاکٹرعلامہ اقبال ‘‘ تجدید فکریات اسلام ’’ انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ)
[4](بانگِ درا)
[5](ایضاً)
[6](ایضاً)
[7]( وحید الدین سید ، روزگا فقیر ، ص: 92-93)
[8]( غلام مصطفےٰ خان ڈاکٹر ، اقبال اور قرآن ، ص :1033)
[9](ارمغانِ حجاز)
[10](بالِ جبریل)
[11](ایضاً)
علامہ اقبال() کے ایک خطبہ کا عنوان ہے ’’علم اور مذہبی تجربہ‘‘اس خطبے میں اُنہوں نے بتایا ہے کہ علم کے تین ذرائع ہیں-اولاً: وحی الٰہی اور الہام ثانیاً:مشاہدہ فطرت اور ثالثاً:مطالعہ تاریخ ۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وحی پر مشتمل آخری کتا ب ہے جس میں سابق انبیاء پر نازل کی گئیں کتابوں کا خلاصہ اور اُن کے قصص بھی ہیں-تمام کتب آسمانی میں ایک ہی پیغام ہے اور وہ اسلام کا پیغام ہے البتہ وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں کے پیش نظر شریعتیں مختلف رہیں ہیں-علامہ اقبال ()نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ علم کا سب سے بڑا سر چشمہ قرآن حکیم ہے اور قرآن حکیم نے ہی علم کے دوسرے دو (2)ذرائع یعنی مشاہد ہ فطرت اور مطالعہ تاریخ کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے-علامہ اقبال()نے قرآن ِحکیم کے ابدی اور عمیق و وسیع سر چشمے سے اکتساب فیض کیا-ان کی فکر اور ان کی شاعری کا یہی اصل منبع ہےاسی باعث اُن کے افکار اور اُن کا شاعرانہ تخیل قرآنی فکر کی طرح تازہ اور آفاقی ہے- اقبال کے خادم خاص علی بخش کا بیان ہے:
’’جن دنوں ہم بھاٹی دروازے میں رہتے تھے ایک دفعہ پورے دو مہینے بڑی باقاعدگی سے تہجد کی نماز پڑھتے رہے-اُن دنوں اُن کا عجب حال تھا- قرآن اس خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ جی چاہتا تھاکہ سارے کام کاج چھوڑ کر اُنہی کے پاس بیٹھا رہوں-اُس زمانے میں کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا صرف شام کو تھوڑا سا دودھ پی لیا کرتے تھے خدا جانے اس میں کیا رمز تھی‘‘[1]-
اقبال کو قرآن حکیم کی تلاوت سے خاص شغف تھا،وہ عربی زبان بھی بخوبی جانتے تھے ان کی عربی سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب اُن کے استاد پروفیسر آرنلڈ چھ(۶)ماہ کی چھٹی پر گئے تو اُن کی جگہ لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھاتے رہے- اُن کا سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ اور فقہ کا بھی وسیع مطالعہ تھا-قرآن حکیم کی تلاوت کے وقت قرآن حکیم کے مطالب اور رموز میں غوطہ زن ہو جاتے تھے-جب اشعار کی آمد ہوتی تو علی بخش سے قرآن حکیم دن میں کئی بار منگواتے اس لئے اُن کی شاعری قرآن سے وابستہ ہے-اُن کا قرآنی آیات پر غور وفکرکا انداز بھی منفرد تھا جو اُن کے والد گرامی کی تربیت اور اُن کی خصوصی نصیحت کا مرہون منت تھا-ایک دفعہ انہوں نے خود فرمایا :
’’میرے والد نے ایک دن مجھ سے کہا کہ بیٹا-قرآن حکیم اُن کی سمجھ میں آ سکتا ہے جس پر یہ نازل ہوتا ہے-میں حیران تھا کہ قرآن کریم حضور ِانور (ﷺ)کے بعدبھی کسی پر نازل ہوتاہے؟ تو فرمایاانسانیت کو جس معراج پر پہنچانا فطرت کا مقصود ہے اس کا نمونہ ہمارے سامنے محمد مصطفےٰ (ﷺ)کی صورت میں پیش کر دیا گیا ہے-حضرت آدم ؑسے لیکرحضرت عیسیٰؑ تک ہر نبی میں محمد مصطفےٰ (ﷺ)کے مختلف مدارج تھے وہ سلسلے گویا ’’Muhammad In the Making‘‘ (تکمیلِ محمد(ﷺ)کی منازل تھے-بنیادی اصول ہر جگہ ایک تھا البتہ شعور انسانی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ فروعات کی تکمیل ہوتی جاتی تھی حتیٰ کہ’’محمد (ﷺ)‘‘ مکمل ہو گیا اور باب نبوت بندہو گیا-انسانیت اپنے معراج کبریٰ تک پہنچ گئی-اب ہر انسان کے سامنےمعراجِ انسانیت کانمونہ محمد مصطفےٰ (ﷺ) موجودہیں کوئی انسان جتنا محمدیت کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اتنا ہی قرآن اُس پر نازل ہوتا ہے یہ مفہوم تھا میرے کہنے کا کہ قرآن کریم اُس کی سمجھ میں آسکتا ہے جس پر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے‘‘[2]-
علامہ اقبال()کی فکر کا اصل موضوع انسان تھا اور وہ ہمیشہ اس سوچ میں غلطاں رہے کہ انسان کاخدا اور کائنات سےکیا تعلق ہے اور انسان صحیح معنوں میں نیابت الٰہیہ کے فرائض کس طرح سر انجام دے سکتا ہے-اس تناظر میں وہ تمام بنی نوع انسان کے مسائل میں دلچسپی لیتے تھے لیکن وہ امت مسلمہ کے مسائل اور مشکلات کے لئے خصوصی طور پر فکر مند رہتے تھے-اُن کے عہد میں مسلم ممالک کی اکثریت استعماری طاقتوں کی محکوم تھی اور امت مسلمہ طرح طرح کے مسائل میں گِھری ہوئی تھی-اگرچہ اب تک تمام مسلم ممالک اغیار کی غلامی سے نجات حاصل کرچکے ہیں لیکن امت مسلمہ آج بھی مجموعی لحاظ سے معاشی طور پر غریب سیاسی لحاظ سے کمزور اور نہایت پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے ۔ قومی آزادی حاصل کرنے کے بعد اگر مسلم ممالک جدید تعلیم و تحقیق پر توجہ دیتے، اپنے وسائل کا معاشی ترجیحات کے مطابق استعمال کرتے اور نان ایشوز کی بجائے اصل مسائل کو ایڈریس کرتے تو آج ان کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا- قرآنی بصیرت اور فکراقبال کی روشنی میں امت مسلمہ کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی مسئلہ عملی پسماندگی ہے امت مسلمہ کو درپیش دیگر مسائل مثلاً غربت، عدم برداشت، ریاستی آئین و قوانین کا عدم احترام اور مسلم ممالک میں یکجہتی کا فقدان اصل اور بنیادی سبب عملی پسماندگی ہی ہے-
قرآن حکیم نے تفکر اور تدبر پر بہت زور دیا ہے اور اس مقصد کے لئے تحصیل علم بہت ضروری ہے کیونکہ عالم ہی عالم انفس اور عالم آفاق میں غور و فکر کر سکتا ہے-قرآن حکیم کے تبتع میں علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر میں تعلیم و تر بیت کی اہمیت اور فضیلت کو مختلف پیراؤں میں بیان کیا ہے- انہوں نے اپنے خطبات میں وضاحت کی ہے کہ آدم علیہ السلام کو اُن کی استعدادِ علمی کی بدولت خلافت کی امانت سونپی گئی جب فرشتوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ خلافت سے سرفراز انسان زمین میں فساد برپا کرے گا اور خون ریزی کرے گا اللہ پاک نے جواباً فر مایا کہ’’ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ‘‘مزید فرمایا کہ ’’سکھا دئیے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے ‘‘آدم علیہ السلام کو اسمائے کُل کا علم عطا کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ نائب خدا کیونکہ با اختیار ہے اس لیے وہ اپنے علم کی بدولت فساد اور خون ریزی پر قابو پا سکتا ہے وہ علم کے مطابق عمل کرتے ہوئے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے-فطرت کو مسخر کر کے توانائی کو بہبود ِ انسان اور بہبودِ فطرت کےلئے استعمال کر کے ایک دلکش ،سرسبز اور پرامن جہاں تعمیر کر سکتا ہے اور علم کے تقاضوں سے منہ موڑ کر اس دنیا میں قیامت بھی بپا کر سکتا ہے-علم طاقت کا ذریعہ ہے علم سے ہی خدا شناسی ، خُود شناسی اور کائنات کےقوانین سے آگہی حاصل ہوتی ہے-
علامہ اقبال() تربیت خودی کا آخری مرحلہ نیابت ِالٰہیہ کو قرار دیتے ہیں نائب خدا علم کے بغیر نیابت کے فرائض سر انجام نہیں دے سکتا- قرآنی تعلیمات کی روشنی میں علامہ اقبال ()نے مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی کو اُجاگر کیا ہے-انہوں نے وضاحت کی ہے کہ قرآن حکیم نے بنی نوع انسان کی توجہ استقرائی دانش کی طرف مبذول کرائی-قرآن حکیم صرف انسان پر بحث نہیں کرتا و ہ رات دن کے اختلاف آسمانوں کی بلندیوں اور پہاڑوں کی صلابت، پرندوں کی اُڑان ،شہد کی مکھیوں کے موثر نظام ،اطلاعات کو بھی بیان کرتاہے کہ مچھر اور مکھی کی مثال دینے سے بھی نہیں شرماتا-علامہ اقبال() نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ قرآن کا اثر تھا جس کی بدولت مسلمان استقرائی دانش’’Inductive Intellect ‘‘کے ’’Pioneer‘‘بن گئے-اقبال نے طبعیات اور سائنس کی دیگر شاخوں اور شعبوں میں ریسرچ کرنے کو بھی قرب الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے-وہ فطرت کے مظاہر کو انوار الٰہیہ سے تعبیر کرتے ہیں اپنے ایک لیکچر میں کہتے ہیں:
’’فطرت کا سائنسی مشاہدہ ہمیں حقیقت کے کردار سے قرب عطا کرتا ہے اور یوں ہمارے اندرونی ادراک کو اس کے گہرے وقوف کے لئے تیز کرتا ہے --- سچائی تو یہ ہے کہ علم کی تلاش کی تمام صورتیں دعا ہی کی مختلف اشکال ہیں -فطرت کا سائنسی مشاہدہ کرنے والا بھی ایک طرح کا صوفی ہے جو دعا میں مشغول ہے‘‘[3]
علامہ اقبال()نے طبعیات کو بھی تقدس کا درجہ دیا اور سائنسی علوم کی تحصیل کو عبادت قراد دیا- وہ جانتے تھے کہ جب مسلمان سماجی اور سائنسی علوم میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے تو وہ طاقتور تھے اور دنیا کی امامت کرنے کے اہل تھے ۔ لیکن گذشتہ تین چار صدیوں میں اہل اسلام نے علوم کی ریسرچ میں کوئی قابل ذکر کا رنامہ سرانجام نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کے محکوم رہےاور آج بھی اُن کے زیرِ اثر ہیں اور اُن کے محتاج ہیں- مسلم ممالک تمام علوم میں بالخصوص سائنسی علوم میں نہایت پسماندہ ہیں-ہماری یونیورسٹیوں کا معیار مغرب اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے بہت پست ہے ہمارے تحقیقی ادارے اُن کی تحقیقات کی راہ دیکھتے ہیں-اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے علاوہ عام تعلیم اور خواندگی کے تناسب دیکھتے ہیں-اعلیٰ تعلیم وتحقیق کے علاوہ عام تعلیم اور خواندگی کے تناسب میں بھی امت مسلمہ بہت پیچھے ہے-
ہماری درآمدات کی مالیت برآمدات سے بہت زیادہ ہے-امت مسلمہ کی غربت کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہم اپنا کثیر زرِ مبادلہ جہاز کا روں، جراحی کا سامان ادویات اور دیگر جدید مصنوعات کی درآمد پر خرچ کرتے ہیں-یہ درست ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور کرپشن بھی مسلم ممالک کا اہم مسئلہ ہے اور اس وجہ سے بھی آبادی کی کثیر تعداد بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں لیکن امت مسلمہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو تمام مسلم ممالک کی مجموعی لحاظ سے شرح نمو ترقی یافتہ ملکوں سے بہت کم ہے اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ تعلیم و تحقیق کی کمی ہے اور معاشی ترجیحات کا غلط تعین ہے-
کئی مسلم ممالک کے معاشروں میں عدم برداشت کا مرض بڑھتا جارہا ہے-اس کے اور اسباب بھی ہیں لیکن بنیادی وجہ تعلیم کی کمی اور تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی کا فقدان ہے-بے روزگاری اور غربت سے آج بھی طبیعت بگڑ جاتی ہے اور چڑچڑا پن پیدا ہو جاتاہے- سائنسی طرز فکر سے انسان میں رواداری، نفاست اور دوسروں کی آراء کا احترام پیدا ہوتا ہے-ہم نے دیکھا ہے کہ سائنس دانوں میں فرقہ واریت نہیں ہوتی اگر مسلم ممالک میں سائنسی طرز فکر کو فروغ دیا جائے تو ڈگمٹزم کم ہوسکتی ہے-عہد حاضر میں مسلم ممالک میں فرقہ واریت نے عمیق فساد کی صورت اختیار کر لی ہے مسلکی اختلافات پر قتل و غارت کا بازار گرم ہے-قرآن حکیم کے حکم ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو‘‘کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے علامہ اقبال()نے فرقہ واریت کو ترقی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا -
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک |
|
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک |
آج ہم عجمی،عربی،تورانی، افغانی ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مسلکی تنوع جو حسن اور وسعتِ خیال کا باعث ہو سکتاہے ہماری صفوں میں افتراق پیدا کر رہا ہے ہم مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں-علامہ اقبال() نے توحید،رسالت اور قرآن و کعبہ کی بنیاد پر اتحاد کا درس دیا-
کیونکہ ان کے بارے میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان متفق ہیں-مسلم ممالک میں کئی عسکری تنظیمیں فساد کا باعث ہیں ان میں سے اکثر وہ جماعتیں ہیں جو مذہب کا غلط استعمال کرتی ہیں-یہ انتہاء پسند تنظیمیں اور گروپ ریاستی آئین، جمہوریت اور قوانین کو نہیں مانتے- وہ کھلم کھُلا ریاست کے خلاف بغاوت بپا کئے ہوئے ہیں-بے گناہ انسانوں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں اُن کو خودکش حملوں سے موت کے گھاٹ اُتارا جارہاہے علامہ اقبال ()نے رموز بے خودی میں یہ پیغام دیا ہے کہ فرد اپنی خودی کو معاشرے اور ریاست کےمفاد میں قربان کردے-ریاست اور معاشرے کے ڈسپلن اور قوانین و روایات سے فرد کی آزادی محفوظ رہتی ہے اُس کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں اور اسے ترقی کرنے کے مواقع ملتے ہیں-بے قدغن آزادی کا تصور ہی کیا جاسکتا ہےوہ آزادی نہیں بلکہ تراجیت ہوتی ہے اقبال ()کہتے ہیں-
دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے |
|
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں[5] |
علامہ اقبال ()کامشہور شعر زبان زدِ عام ہے :
فرد قائم ربط ملت سے ہے اور تنہا کچھ نہیں |
|
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں[6] |
عہد حاضر میں امت مسلمہ کو جو مسائل درپیش ہیں اُن کا حل قرآنی تعلیمات ہی سے کیاجاسکتا ہے- فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر ایک نئے ملاقاتی نے علامہ سے یہ سوال کیا کہ:آپ نے مذہب،اقتصادیات ،سیاسیات ،تاریخ اور فلسفہ وغیرہ پر علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں اُن میں سب سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کونسی گزری ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جو اب میں کرسی سے اُٹھے اور نو وارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں-یہ کَہ کروہ اندر چلے گئے-دو تین منٹ میں واپس آئے تو اُن کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی-اس کتاب کو اُنہوں نے اُس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا :’’ قرآن کریم‘‘[7]-
علامہ اقبال()نے اپنے سات خطبات جو انگریزی زبان میں تھے- جب وہ کتابی صورت میں چھپے تو دیباچہ کا آغاز ان الفاظ سے کیا -قرآن پاک کا رحجان زیادہ تر اِس طرف ہے کہ فکر کی بجائے عمل پر زور دیا جائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر غلا م مصطفےٰ خان لکھتے ہیں-
’’قرآن پاک میں تفکر کے لئے کم وبیش انتیس(۲۹) آیتیں ہیں-تدبر کےلئے آٹھ (۸)،تفقہ کے لئے بیس(۲۰)،شعور کے لئے انتیس(۲۹)،تعقل کےلئے اُنچاس(۴۹) اور تبصر کے لئے چھیانوے (۹۶) (مجموعہ ۲۲۱) لیکن عمل صالح کے لئے تین سو چھپن(۳۵۶) آیتیں ہیں ‘‘[8]-
صد افسوس !کہ امت مسلمہ کی کثیر آبادی فقہی موشگافیوں ، کلامی جدل و بحث اور فروعی اختلافات میں اُلجھ کے رہ گئی قرآنی محکمات و اخلاقیات اور مجسم مکارم اخلاق کی سیرت طیبہ روشن نمونوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے-مسلم ممالک کی جماعتیں اور تنظیمیں خود پرستی کی حفرہ النار میں گر گئیں- اتحاد امت کا خواب بکھر گیا،امت فرقوں ،گروپوں اور ریاستی مادی مفادات میں بٹ گئی لیکن قرآن کی فکر آج بھی تازہ ہے-
حکیم الامت علامہ اقبال() کی شاعری آج بھی قرآن حکیم کی تعلیمات کی طرف دعوت دے رہی ہے -
عہد حاضر میں ارکان امت مسلمہ کو صرف ظاہری شریعت پر چلنا کافی نہیں بلکہ احسان تصوف کی راہ پر گامزن ہونا بھی ضروری ہے-نماز پڑھنےکا تعلق شریعت سے ہے لیکن خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے کا تعلق دل سے ہے جس کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا - جانور کی قربانی کرنا شریعت کا تقاضا ہے لیکن تقویٰ کا تعلق دل سے ہے- اللہ تعالیٰ کو ذبیحوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے- عہد حاضر میں شرعی احکام پر تو بہت اصرار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخلاص نیت ، اخلاقیات اور روحانیت پر کماحقہ زور نہیں دیا جاتا - اقبال ()کہتے ہیں کہ علم و دانش ادب اور تزکیہ کے بغیر کسی کام کا نہیں :
نہ دارم نہ مسلماں زادہ را دوست |
|
کہ در دانش فزود و در ادب کاست[9] |
علامہ اقبال ()مولانا جلال الدین رومی() سے پوچھتے ہیں:
علم و حکمت کا ملے کیونکر سراغ؟ |
|
کس طرح ہاتھ آئے سوز ودرد و داغ[10] |
اس پر مولانارومی ()جواب دیتے ہیں :
علم و حکمت زاید از نانِ حلال |
|
عشق و رقت آید از نانِ حلال[11] |
٭٭٭
[1]( چراغ حسن حسرت مرتب ، اقبال نامہ ، ص :۱۸)
[2]( فکر و نظر مجلہ اسلام آباد ، اگست ، ۱۹۷۶ء ص :۱۱۹)
[3]( ڈاکٹرعلامہ اقبال ‘‘ تجدید فکریات اسلام ’’ انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ)
[4](بانگِ درا)
[5](ایضاً)
[6](ایضاً)
[7]( وحید الدین سید ، روزگا فقیر ، ص: 92-93)
[8]( غلام مصطفےٰ خان ڈاکٹر ، اقبال اور قرآن ، ص :1033)
[9](ارمغانِ حجاز)
[10](بالِ جبریل)
[11](ایضاً)