’’آج جمعہ 27اکتوبر 1933ءہے، درجہ حرارت اگرچہ نقطہ انجماد سے اوپر ہے لیکن کابل کے فضا میں یخ بستگی سے بھر پور زمستان اپنی آمد کا اعلان کر رہا ہے ابھی ابھی یہاں کابل کے جامع مسجد پل خشتی میں مشرق و مغرب کے علوم کے ماہر اور عظیم مفکر حضرت علامہ محمد اقبال نے نماز جمعہ ادا کی-ان کے دائیں جانب اسلامی علوم کے ممتاز ماہر سید سلیمان ندوی اور بائیں جانب مغربی علوم کے ماہر،علی گڑھ کے وائس چانسلر،ریاست بھوپال کے وزیر تعلیم،سرسید احمد خان کے پوتے اور علامہ اقبال کے دیرینہ رفیق سر راس مسعود ہیں-
شاہ افغانستان اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ نے ان علمی زعما کو کابل یونیورسٹی کی نصاب اور افغانستان میں ایک مربوط تعلیمی نظام کی مشاورت کے سلسلے میں دعوت دی ہے-ابھی کل شام ہی یعنی جمعرات 26 اکتوبرکو کابل کے قصر دلکشا میں حضرت علامہ کی اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ سے ملاقات ہوئی تھی‘‘[1]-
اسلامی اُمہ کے اس مفکر نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے فرمانروا کو ملاقات میں قرآنِ کریم کا ایک نسخہ پیش کیا اور کہا کہ مَیں سوچتا رہا کہ ایک مسلماں بادشاہ کو کیا پیش کیا جائے جو اس کا شایان شان ہو تب اس نتیجے پر پہنچا کہ کائنات کے بادشاہ کا بنی نوع انسان کے نام اپنے آخری پیغام سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ نہیں ہو سکتا- اہلِ حق کی یہی دولت و ثروت ہے ا س کی بدولت باطن میں حیات مطلق کے چشمے بہتے ہیں-یہ ہر ابتداء کی انتہاء اور ہر آغاز کی تکمیل ہے،اسی کی بدولت مومن خیبر شکن بنتا ہے میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوز و گداز سب اسی کا فیضان ہے-
’’در حضورِ آں مسلمانِ کریم |
’’میں نے اس معزز مسلمان کی خدمت میں قرآن کریم کا ہدیہ پیش کیا-میں نے کہا کہ یہ کتاب اہل حق کا سرمایہ ہے حیات مطلق (اسباب و وسائل سے بے نیاز) اسی میں ہے-اس کے اندر ہر ابتداء کی انتہاء ہے حیدر کرار(رضی اللہ عنہ) اسی کی بدولت فاتحِ خیبر ہوئے‘‘-
اس نسخے کی عطائیگی پر جنرل نادر خان نے علامہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ:
’’جب میں جلا وطن تھااور کوہ و صحرا میں غم زدہ وقت کاٹ رہا تھا، جب میرے پاس زندگی کے وسائل کی کمی تھی اور مادی طاقت کا فقدان تھا، جب کوئی ساتھی اور غم خوار نہ تھا تو یہی کتاب میری رفیق اور رہنما اور ہمدرد و غمگسار تھی- [3]
کوہ و دشت از اضطرابم بے خبر |
’’پہاڑ و جنگل میرے اضطراب و غم بے حساب سے بے خبر تھے-میں نے اپنی فریاد کو بانگِ ہزار اور اپنے اشکوں کو جوئے بہار سے آمیختہ کیا-سوائے قرآن پاک کے میرا کوئی غمگسار نہ تھا پھر اس کی قوت سے مجھ پر کامیابی کا ہر دروازہ کھل گیا‘‘-
اس ملاقات میں نماز کے موقع پر نادر شاہ نے اقبال سے امامت کی درخواست کی- اقبال نے کہا نادر! میں نے اپنی عمر کسی شاہِ عادل کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی تمنا میں گزار دی ہے- اب جب کہ خدا نے فقیر کی اس مراد کو پورا کرنے کے اسباب مہیا کر دیئے ہیں تو کیا تو مجھے اس نعمت سے محروم کرنا چاہتا ہے! آج میں تیری اقتدا میں نماز پڑھوں گا- امامت تجھ کو کرنی ہوگی‘‘-[5]
وقتِ عصر آمد صدائے الصلوٰت |
’’عصر کا وقت ہوا اور آذان کی آواز آئی-نماز وہ چیز ہے جو انسان کو جہات کی حدود سے بلند تر کردیتی ہے-عشق کی انتہاء سوز و گداز ہے-میں نے اس کے پیچھے نماز ادا کی‘‘-
شاہ افغانستان شہر کی مختلف مسجدوں میں باری باری جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے-آج شہر کی سب سے بڑی مسجد ’’پل خشتی‘‘ میں نماز پڑھنے والے تھے-علامہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز ادا کرنے مسجد پل خشتی گئے- مسجد میں بادشاہ کے لئے مقصورہ بنا ہوا تھا- مہمانوں کو بھی مقصورہ میں جگہ دی گئی[7] اور اس دن چینی ترکستان کے وفد نے علامہ سے ملاقات بھی کی-
معزز قارئین! ذرا متوجہ ہو اقبال کے وژن کا ایک پرتو، آج یعنی نومبر 2018ء سےٹھیک 85سال قبل اقبال کی بصیرت افروز پیش بینی جو آج کے حالات و واقعات کا مکمل آئینہ وار ہے-نماز ِ جمعہ سے واپسی پر علامہ اور سید صاحب کے ساتھ ایک ذمہ دار شخص بھی تھے- ان سے چینی ترکستان کے واقعات کی نسبت گفتگو ہوتی رہی - علامہ نے دوران گفتگو فرمایا:
’’یورپ نے اپنی اس نئی ترقی میں سارا زور بحری طاقت پر صرف کیا ہر قسم کی تجارتی آمد و رفت اور سیر و سیاحت کے راستے دریائی رکھے اور اپنے انہی جہازوں کے ذریعے سے مشرق کو مغرب سے ملا دیا-لیکن اب یہ نظر آرہا ہے کہ ان بحری راستوں کی یہ حیثیت جلد فنا ہوجائے گی اور آئندہ مشرق و سطیٰ کا راستہ مشرق و مغرب کو ملائے گا اور تری کی بجائے خشکی کا راستہ اہمیت حاصل کرے گا- تجارتی قافلے اب موٹروں، لاریوں، ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے-چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہوکر گزرے گا اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی انقلاب رونما ہوگا‘‘-[8]
اس وقت علامہ کے سفر کے ہمرکاب سید سلیمان ندویؔ حضرت علامہ کے اس نظریے کو بالکل درست تسلیم کرتے ہوئے اس کی تشریح کے دوران ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں:
’’پشاور سے کابل کو،چمن سے قندھار کو،کابل سے مزار شریف اور ہرات کو،قندھار سے ہرات کو موٹریں اور لاریاں چل رہی ہیں- اُدھر راستہ یا بخارا ہوکر یا ایران ہوکر طے کیجئے- پہلے مشرق وسطیٰ کے لوگ خشکی کی راہ سے حج کو جاتے تھے، اکبر کے زمانہ سے ہندوستان کی بندرگاہوں سے جانے لگے اور انگریزوں کے عہد میں افغانستان اور ترکستان بلکہ اکثر مشرقی ملکوں کے مسلمان ہندوستان ہوکر بحری راستہ سے مکہ معظمہ جانے لگے-اگر خشکی کا راستہ ذرا درست ہوجائے تو یقین کیجئے کہ ان حاجیوں کو پھر بدستور سابق خشکی کا راستہ پسند آنے لگے گا اور پھر افغانستان یا بلوچستان ہوکر ایران، ایران سے عراق، عراق سے نجد اور نجد سے حجاز کا راستہ کھل جائے گا- یہی وہ راستہ تھا جو خلفاء اور شاہانِ اسلام کے زمانے میں مستعمل تھا‘‘-[9]
جس وقت علامہ یہ نظریہ پیش کر رہے تھےاس وقت دنیا کا سیاسی اور جغرافیائی منظر نامہ کیا تھا؛ ذرا دیکھئے! دنیا پہلی جنگ عظیم کے سانحے جس میں تقریباً ایک کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے، سے نڈھال ہے جرمنی شکست کھا چکا ہے، برلن سیاسی انتقام کا نشانہ بن چکا ہے، شہر کے عین وسط میں دیوار کھینچی گئی ہے، عظیم خلافت عثمانیہ اتحادیوں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے مگر مصطفی کمال اتاترک کے فراست اور ہمت سے استنبول برلن کی طرح انتقام سے بچ سکا ہے- برصغیر پاک وہند پر فرنگی راج ہے مگر یہاں بھی تحریک آزادی زوروں پر ہے-برطانیہ مسلسل تین افغان انگلیس جنگوں میں شکست کے باعث خطے میں اپنے وجودکو برقرار رکھنے کے لمحۂ فکریہ سے دوچار ہے -برصغیر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے گول میز کانفرنسز کا انعقاد ہوا ہے جس میں حضرت علامہ بھی شرکت کر چکے ہیں-عرب انتشار کے شکار ہیں، عجم فرنگی استعمار کے شکنجے سے نکلنے میں مصروف ہیں، روس اپنے شکست کی جانب رواں دواں ہے، اقوام متحدہ معرض وجود میں نہیں آیا ہے، چین نے آزادی حاصل نہیں کی ہے، پاکستان ابھی دنیا کے نقشے پر نہیں بنا ہے، امریکہ ابھی دنیا کے واحد سپر پاور بننے کے راستے پر گامزن ہے اور حکیم الامت وقت کی نبض پر ہاتھ رکھے اسلامی اُمہ کے درخشاں ماضی ابتر حال اور روشن مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں -
اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے حالات دگر گوں ہیں علامہ کا وہ تصور شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے کہ؛’’آئندہ مشرق و سطیٰ کا راستہ مشرق و مغرب کو ملائے گا اور تری کی بجائے خشکی کا راستہ اہمیت حاصل کرے گا- تجارتی قافلے اب موٹروں، لاریوں، ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے- چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہوکر گزرے گا اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی انقلاب رونما ہوگا‘‘- بلا شبہ اسلامی ممالک سیاسی اقتصادی انقلابات سے دوچار ہیں لیکن اب ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے |
چینی بیدار ہونے لگے ہیں، روس کی سقوط کے بعد دنیا کی نظریں چین پر پڑی ہیں کہ شاید وہ موجودہ دنیا کے سیاسی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کریں- اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اپنے جغرافیائی اور سٹریٹیجک موقعیت کی بنیاد پر خطے میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے-
اگر چہ مشرق ایک بار پھر انحطاط، آشفتگی اور دربدری سے دوچار ہے- اسلامی اُمہ سیاسی، اقتصادی،تعلیمی اور معاشی لحاظ سے بدترین بحران کا شکار ہے-پچھلی صدی کے اختتام پر دنیا کے ایک سپر پاور روس کے زوال کے بعد دنیا کے انتظام و انصرام کے زمام امریکہ کے ہاتھ آگئے ہیں اور اب دنیا کا یہ واحد سپر پاور اپنی گھمنڈ اور غرور سے اتنا مخمور ہے کہ فطرت کے فطری اصولوں کے برخلاف اپنے زیر اثر ایک نئی دنیا کی تشکیل پر تُلا ہوا ہے- اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے راستے میں پیش آنے والی ہر روکارٹ کو بے دردی سے ختم کیے جارہا ہے- ابھی کابل، قندہار بغداد، بصرہ و کوفہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں خاموش نہیں ہواتھا کہ چشم فلک کو دمشق و حلب کی بربادی کا جان فساں نظارہ دیکھنے کو ملا -
حضرت علامہ نے اپنی خداداد بصیرت کی بنیاد پر آج سے ایک صدی قبل ان حالات کا نہ صرف ادراک کیا تھا بلکہ اس المیے سے نکلنے کے تصورات بھی پیش کیے تھے-مشرق کو نہ صرف پیام مشرق کے ذریعے جھنجھوڑنے کی کوشش کی بلکہ ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے ذریعے اس بحران سے نکلنے کے راستے بھی بتائے اور مغرب کی توجہ کو اس تلخ حقیقت کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی کہ انسانیت مشرق و مغرب کے درمیان جاری اس شدید ترین تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتی-مذہب انسانیت کے کارواں کو کامرانی کی جادہ پیمائی کے منزل کی طرف پہنچاتا ہے- دنیائے عالم کے مذاہب دنیا کی اقوام کی ترقی امن اور سلامتی کے لیے ہیں نہ کہ تعصب، جہالت ، دربدری اور زوال کے باعث ہیں-[11]
چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کا معاہدہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے خطے کے دیگر ممالک کسی نہ کسی حوالے سے اس کا حصہ بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں- سی پیک کے اس عظیم الشان منصوبے میں بلوچستان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور اس منصوبے کے اثرات دنیا کے آنے والے حالات پر زبردست سیاسی و اقتصادی نقوش ثبت کریں گے- اگرچہ اس میں حسب سابق گوادر کے بحری ساحل سے کام لیا گیا ہے لیکن علامہ کی وژن کی روشنی میں ہمیں اپنے بری راستوں کی انتہائی اہمیت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے- یہ بحری و بری راستے پروردگار کی وہ عنایات ہیں جس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا- میں سی پیک کو اقبال کے وسیع وبلند وژن کی ایک جزوی کڑی سمجھتا ہوں ابھی تو دنیا کو ہر حوالے سے ہمارے بری اور بحری راستوں کی ضرورت ہے کیونکہ مغرب کو مشرق سے ملانے کا یہی راستہ ہے-بحیثیت قوم ان راستوں کا استعمال ہماری بصیرت، صلاحیت اور فراست کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ ہم کس طرح دنیا کے ساتھ اپنی بالادستی اور حقِ ملکیت برقرار رکھتے ہوئے اپنے مفادات، سالمیت اور ترقی کو آگے بڑھا سکتے ہیں -
اپنے اس نظرئیے کے پیش کرنے کےچوتھے روز حضرت علامہ چمن کے راستے جمعرات دو نومبر 1933ءکو کوئٹہ پہنچتے ہیں-[12] کوئٹہ کے ڈاک بنگلہ میں رات بسر کرتے ہیں، یخ بستہ رات کو آتش دان میں لگی آگ کی حرارت سے محظوظ ہوتے ہیں اور3 نومبر کو بذریعہ ٹرین لاہور کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں-یہاں سے گزرتے ہوئے بلوچستان کے بے آب و گیاہ دشت و صحرا کے نظاروں سے نظر کو خیرہ کرتے ہیں، یہاں کے سنگلاخ کوہ و جبل کے نظاروں کو دیکھتے ہیں- جی ہاں انہی پہاڑوں میں چاغی کے پہاڑ کو پورے اسلامی اُمہ کے واحد اسلامی مملکت کے ایٹمی طاقت کے تجربہ گاہ کا اعزاز ملا- حضرت علامہ یہاں سے گزرتے ہوئے بلوچستان کی اہمیت، یہاں کی روایات، تاریخ اور روشن مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل بلوچستان کو؛ اپنی نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سِمْت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے مِلّت کے مُقدّر کا ستارا
محروم رہا دولت دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو ہے پامردیٔ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کے مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کَہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے!
’شاہان چہ عجب گر بنوازد گدارا‘![13]
٭٭٭
[1]( رفیقی عبدالروف ڈاکٹر، افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت (مقالہ پی ایچ ڈی ) شعبہ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد 2003، ص:85)
[2]( محمداقبال علامہ،مثنوی پس چہ باید کرد ای اقوام شرق ،مع مثنوی مسافر،مشمولہ کلیات اقبال فارسی ،شیخ غلام علی اینڈ سنز اشاعت ششم فروری 1990،ص :62)
[3](سعيد راشد (پروفيسر ) مکالماتِ اقبال ،بك شوروم كارنر جہلم 2013، ص :165)
[4](مثنوی مسافر، ص:63)
[5](اقبال ریویو، اقبال اکادمی آف پاکستان لاہور جنوری 1976، ص 39-40)
[6](مثنوی مسافر، ص:63)
[7](سلیمان ندوی سید، سیرِ افغانستان ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، سن ندارد، ص :8)
[8](اقبال ریویو،جنوری 1976، ص:42)
[9](سیرِ افغانستان، ص :9)
[10](محمد اقبال علامہ ،بال جبریل،مشمولہ کلیات اقبال،(اردو) اقبال اکادمی پاکستان لاہور 2018ء، ص:451)
[11]( رفیقی عبدالروف ڈاکٹر ،مشرق کا مقدمہ اور اقبال کا وژن (مقالہ ، غیر مطبوعہ)پیش کردہ قومی اقبال کانفرنس اقبال اکادمی پاکستان لاہور اپریل 2018، ص :1)
[12](سیرِ افغانستان ، ص :51)
[13](محمد اقبال علامہ، ارمغان حجاز،مشمولہ کلیات اقبال،(اردو) اقبال اکادمی پاکستان لاہور 2018ء، ص:713)
’’آج جمعہ 27اکتوبر 1933ءہے، درجہ حرارت اگرچہ نقطہ انجماد سے اوپر ہے لیکن کابل کے فضا میں یخ بستگی سے بھر پور زمستان اپنی آمد کا اعلان کر رہا ہے ابھی ابھی یہاں کابل کے جامع مسجد پل خشتی میں مشرق و مغرب کے علوم کے ماہر اور عظیم مفکر حضرت علامہ محمد اقبال نے نماز جمعہ ادا کی-ان کے دائیں جانب اسلامی علوم کے ممتاز ماہر سید سلیمان ندوی اور بائیں جانب مغربی علوم کے ماہر،علی گڑھ کے وائس چانسلر،ریاست بھوپال کے وزیر تعلیم،سرسید احمد خان کے پوتے اور علامہ اقبال کے دیرینہ رفیق سر راس مسعود ہیں-
شاہ افغانستان اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ نے ان علمی زعما کو کابل یونیورسٹی کی نصاب اور افغانستان میں ایک مربوط تعلیمی نظام کی مشاورت کے سلسلے میں دعوت دی ہے-ابھی کل شام ہی یعنی جمعرات 26 اکتوبرکو کابل کے قصر دلکشا میں حضرت علامہ کی اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ سے ملاقات ہوئی تھی‘‘[1]-
اسلامی اُمہ کے اس مفکر نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے فرمانروا کو ملاقات میں قرآنِ کریم کا ایک نسخہ پیش کیا اور کہا کہ مَیں سوچتا رہا کہ ایک مسلماں بادشاہ کو کیا پیش کیا جائے جو اس کا شایان شان ہو تب اس نتیجے پر پہنچا کہ کائنات کے بادشاہ کا بنی نوع انسان کے نام اپنے آخری پیغام سے بڑھ کر کوئی اور تحفہ نہیں ہو سکتا- اہلِ حق کی یہی دولت و ثروت ہے ا س کی بدولت باطن میں حیات مطلق کے چشمے بہتے ہیں-یہ ہر ابتداء کی انتہاء اور ہر آغاز کی تکمیل ہے،اسی کی بدولت مومن خیبر شکن بنتا ہے میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوز و گداز سب اسی کا فیضان ہے-
’’در حضورِ آں مسلمانِ کریم |
’’میں نے اس معزز مسلمان کی خدمت میں قرآن کریم کا ہدیہ پیش کیا-میں نے کہا کہ یہ کتاب اہل حق کا سرمایہ ہے حیات مطلق (اسباب و وسائل سے بے نیاز) اسی میں ہے-اس کے اندر ہر ابتداء کی انتہاء ہے حیدر کرار() اسی کی بدولت فاتحِ خیبر ہوئے‘‘-
اس نسخے کی عطائیگی پر جنرل نادر خان نے علامہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ:
’’جب میں جلا وطن تھااور کوہ و صحرا میں غم زدہ وقت کاٹ رہا تھا، جب میرے پاس زندگی کے وسائل کی کمی تھی اور مادی طاقت کا فقدان تھا، جب کوئی ساتھی اور غم خوار نہ تھا تو یہی کتاب میری رفیق اور رہنما اور ہمدرد و غمگسار تھی- [3]
کوہ و دشت از اضطرابم بے خبر |
’’پہاڑ و جنگل میرے اضطراب و غم بے حساب سے بے خبر تھے-میں نے اپنی فریاد کو بانگِ ہزار اور اپنے اشکوں کو جوئے بہار سے آمیختہ کیا-سوائے قرآن پاک کے میرا کوئی غمگسار نہ تھا پھر اس کی قوت سے مجھ پر کامیابی کا ہر دروازہ کھل گیا‘‘-
اس ملاقات میں نماز کے موقع پر نادر شاہ نے اقبال سے امامت کی درخواست کی- اقبال نے کہا نادر! میں نے اپنی عمر کسی شاہِ عادل کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی تمنا میں گزار دی ہے- اب جب کہ خدا نے فقیر کی اس مراد کو پورا کرنے کے اسباب مہیا کر دیئے ہیں تو کیا تو مجھے اس نعمت سے محروم کرنا چاہتا ہے! آج میں تیری اقتدا میں نماز پڑھوں گا- امامت تجھ کو کرنی ہوگی‘‘-[5]
وقتِ عصر آمد صدائے الصلوٰت |
’’عصر کا وقت ہوا اور آذان کی آواز آئی-نماز وہ چیز ہے جو انسان کو جہات کی حدود سے بلند تر کردیتی ہے-عشق کی انتہاء سوز و گداز ہے-میں نے اس کے پیچھے نماز ادا کی‘‘-
شاہ افغانستان شہر کی مختلف مسجدوں میں باری باری جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے-آج شہر کی سب سے بڑی مسجد ’’پل خشتی‘‘ میں نماز پڑھنے والے تھے-علامہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز ادا کرنے مسجد پل خشتی گئے- مسجد میں بادشاہ کے لئے مقصورہ بنا ہوا تھا- مہمانوں کو بھی مقصورہ میں جگہ دی گئی[7] اور اس دن چینی ترکستان کے وفد نے علامہ سے ملاقات بھی کی-
معزز قارئین! ذرا متوجہ ہو اقبال کے وژن کا ایک پرتو، آج یعنی نومبر 2018ء سےٹھیک 85سال قبل اقبال کی بصیرت افروز پیش بینی جو آج کے حالات و واقعات کا مکمل آئینہ وار ہے-نماز ِ جمعہ سے واپسی پر علامہ اور سید صاحب کے ساتھ ایک ذمہ دار شخص بھی تھے- ان سے چینی ترکستان کے واقعات کی نسبت گفتگو ہوتی رہی - علامہ نے دوران گفتگو فرمایا:
’’یورپ نے اپنی اس نئی ترقی میں سارا زور بحری طاقت پر صرف کیا ہر قسم کی تجارتی آمد و رفت اور سیر و سیاحت کے راستے دریائی رکھے اور اپنے انہی جہازوں کے ذریعے سے مشرق کو مغرب سے ملا دیا-لیکن اب یہ نظر آرہا ہے کہ ان بحری راستوں کی یہ حیثیت جلد فنا ہوجائے گی اور آئندہ مشرق و سطیٰ کا راستہ مشرق و مغرب کو ملائے گا اور تری کی بجائے خشکی کا راستہ اہمیت حاصل کرے گا- تجارتی قافلے اب موٹروں، لاریوں، ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے-چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہوکر گزرے گا اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی انقلاب رونما ہوگا‘‘-[8]
اس وقت علامہ کے سفر کے ہمرکاب سید سلیمان ندویؔ حضرت علامہ کے اس نظریے کو بالکل درست تسلیم کرتے ہوئے اس کی تشریح کے دوران ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں:
’’پشاور سے کابل کو،چمن سے قندھار کو،کابل سے مزار شریف اور ہرات کو،قندھار سے ہرات کو موٹریں اور لاریاں چل رہی ہیں- اُدھر راستہ یا بخارا ہوکر یا ایران ہوکر طے کیجئے- پہلے مشرق وسطیٰ کے لوگ خشکی کی راہ سے حج کو جاتے تھے، اکبر کے زمانہ سے ہندوستان کی بندرگاہوں سے جانے لگے اور انگریزوں کے عہد میں افغانستان اور ترکستان بلکہ اکثر مشرقی ملکوں کے مسلمان ہندوستان ہوکر بحری راستہ سے مکہ معظمہ جانے لگے-اگر خشکی کا راستہ ذرا درست ہوجائے تو یقین کیجئے کہ ان حاجیوں کو پھر بدستور سابق خشکی کا راستہ پسند آنے لگے گا اور پھر افغانستان یا بلوچستان ہوکر ایران، ایران سے عراق، عراق سے نجد اور نجد سے حجاز کا راستہ کھل جائے گا- یہی وہ راستہ تھا جو خلفاء اور شاہانِ اسلام کے زمانے میں مستعمل تھا‘‘-[9]
جس وقت علامہ یہ نظریہ پیش کر رہے تھےاس وقت دنیا کا سیاسی اور جغرافیائی منظر نامہ کیا تھا؛ ذرا دیکھئے! دنیا پہلی جنگ عظیم کے سانحے جس میں تقریباً ایک کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے، سے نڈھال ہے جرمنی شکست کھا چکا ہے، برلن سیاسی انتقام کا نشانہ بن چکا ہے، شہر کے عین وسط میں دیوار کھینچی گئی ہے، عظیم خلافت عثمانیہ اتحادیوں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے مگر مصطفی کمال اتاترک کے فراست اور ہمت سے استنبول برلن کی طرح انتقام سے بچ سکا ہے- برصغیر پاک وہند پر فرنگی راج ہے مگر یہاں بھی تحریک آزادی زوروں پر ہے-برطانیہ مسلسل تین افغان انگلیس جنگوں میں شکست کے باعث خطے میں اپنے وجودکو برقرار رکھنے کے لمحۂ فکریہ سے دوچار ہے -برصغیر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے گول میز کانفرنسز کا انعقاد ہوا ہے جس میں حضرت علامہ بھی شرکت کر چکے ہیں-عرب انتشار کے شکار ہیں، عجم فرنگی استعمار کے شکنجے سے نکلنے میں مصروف ہیں، روس اپنے شکست کی جانب رواں دواں ہے، اقوام متحدہ معرض وجود میں نہیں آیا ہے، چین نے آزادی حاصل نہیں کی ہے، پاکستان ابھی دنیا کے نقشے پر نہیں بنا ہے، امریکہ ابھی دنیا کے واحد سپر پاور بننے کے راستے پر گامزن ہے اور حکیم الامت وقت کی نبض پر ہاتھ رکھے اسلامی اُمہ کے درخشاں ماضی ابتر حال اور روشن مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں -
اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے حالات دگر گوں ہیں علامہ کا وہ تصور شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے کہ؛’’آئندہ مشرق و سطیٰ کا راستہ مشرق و مغرب کو ملائے گا اور تری کی بجائے خشکی کا راستہ اہمیت حاصل کرے گا- تجارتی قافلے اب موٹروں، لاریوں، ہوائی جہازوں اور ریلوں کے ذریعے مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے- چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہوکر گزرے گا اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی انقلاب رونما ہوگا‘‘- بلا شبہ اسلامی ممالک سیاسی اقتصادی انقلابات سے دوچار ہیں لیکن اب ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے |
چینی بیدار ہونے لگے ہیں، روس کی سقوط کے بعد دنیا کی نظریں چین پر پڑی ہیں کہ شاید وہ موجودہ دنیا کے سیاسی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کریں- اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اپنے جغرافیائی اور سٹریٹیجک موقعیت کی بنیاد پر خطے میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے-
اگر چہ مشرق ایک بار پھر انحطاط، آشفتگی اور دربدری سے دوچار ہے- اسلامی اُمہ سیاسی، اقتصادی،تعلیمی اور معاشی لحاظ سے بدترین بحران کا شکار ہے-پچھلی صدی کے اختتام پر دنیا کے ایک سپر پاور روس کے زوال کے بعد دنیا کے انتظام و انصرام کے زمام امریکہ کے ہاتھ آگئے ہیں اور اب دنیا کا یہ واحد سپر پاور اپنی گھمنڈ اور غرور سے اتنا مخمور ہے کہ فطرت کے فطری اصولوں کے برخلاف اپنے زیر اثر ایک نئی دنیا کی تشکیل پر تُلا ہوا ہے- اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے راستے میں پیش آنے والی ہر روکارٹ کو بے دردی سے ختم کیے جارہا ہے- ابھی کابل، قندہار بغداد، بصرہ و کوفہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں خاموش نہیں ہواتھا کہ چشم فلک کو دمشق و حلب کی بربادی کا جان فساں نظارہ دیکھنے کو ملا -
حضرت علامہ نے اپنی خداداد بصیرت کی بنیاد پر آج سے ایک صدی قبل ان حالات کا نہ صرف ادراک کیا تھا بلکہ اس المیے سے نکلنے کے تصورات بھی پیش کیے تھے-مشرق کو نہ صرف پیام مشرق کے ذریعے جھنجھوڑنے کی کوشش کی بلکہ ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے ذریعے اس بحران سے نکلنے کے راستے بھی بتائے اور مغرب کی توجہ کو اس تلخ حقیقت کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی کہ انسانیت مشرق و مغرب کے درمیان جاری اس شدید ترین تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتی-مذہب انسانیت کے کارواں کو کامرانی کی جادہ پیمائی کے منزل کی طرف پہنچاتا ہے- دنیائے عالم کے مذاہب دنیا کی اقوام کی ترقی امن اور سلامتی کے لیے ہیں نہ کہ تعصب، جہالت ، دربدری اور زوال کے باعث ہیں-[11]
چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کا معاہدہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے خطے کے دیگر ممالک کسی نہ کسی حوالے سے اس کا حصہ بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں- سی پیک کے اس عظیم الشان منصوبے میں بلوچستان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور اس منصوبے کے اثرات دنیا کے آنے والے حالات پر زبردست سیاسی و اقتصادی نقوش ثبت کریں گے- اگرچہ اس میں حسب سابق گوادر کے بحری ساحل سے کام لیا گیا ہے لیکن علامہ کی وژن کی روشنی میں ہمیں اپنے بری راستوں کی انتہائی اہمیت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے- یہ بحری و بری راستے پروردگار کی وہ عنایات ہیں جس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا- میں سی پیک کو اقبال کے وسیع وبلند وژن کی ایک جزوی کڑی سمجھتا ہوں ابھی تو دنیا کو ہر حوالے سے ہمارے بری اور بحری راستوں کی ضرورت ہے کیونکہ مغرب کو مشرق سے ملانے کا یہی راستہ ہے-بحیثیت قوم ان راستوں کا استعمال ہماری بصیرت، صلاحیت اور فراست کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ ہم کس طرح دنیا کے ساتھ اپنی بالادستی اور حقِ ملکیت برقرار رکھتے ہوئے اپنے مفادات، سالمیت اور ترقی کو آگے بڑھا سکتے ہیں -
اپنے اس نظرئیے کے پیش کرنے کےچوتھے روز حضرت علامہ چمن کے راستے جمعرات دو نومبر 1933ءکو کوئٹہ پہنچتے ہیں-[12] کوئٹہ کے ڈاک بنگلہ میں رات بسر کرتے ہیں، یخ بستہ رات کو آتش دان میں لگی آگ کی حرارت سے محظوظ ہوتے ہیں اور3 نومبر کو بذریعہ ٹرین لاہور کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں-یہاں سے گزرتے ہوئے بلوچستان کے بے آب و گیاہ دشت و صحرا کے نظاروں سے نظر کو خیرہ کرتے ہیں، یہاں کے سنگلاخ کوہ و جبل کے نظاروں کو دیکھتے ہیں- جی ہاں انہی پہاڑوں میں چاغی کے پہاڑ کو پورے اسلامی اُمہ کے واحد اسلامی مملکت کے ایٹمی طاقت کے تجربہ گاہ کا اعزاز ملا- حضرت علامہ یہاں سے گزرتے ہوئے بلوچستان کی اہمیت، یہاں کی روایات، تاریخ اور روشن مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل بلوچستان کو؛ اپنی نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا |
٭٭٭
[1]( رفیقی عبدالروف ڈاکٹر، افغانستان میں اقبال شناسی کی روایت (مقالہ پی ایچ ڈی ) شعبہ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد 2003، ص:85)
[2]( محمداقبال علامہ،مثنوی پس چہ باید کرد ای اقوام شرق ،مع مثنوی مسافر،مشمولہ کلیات اقبال فارسی ،شیخ غلام علی اینڈ سنز اشاعت ششم فروری 1990،ص :62)
[3](سعيد راشد (پروفيسر ) مکالماتِ اقبال ،بك شوروم كارنر جہلم 2013، ص :165)
[4](مثنوی مسافر، ص:63)
[5](اقبال ریویو، اقبال اکادمی آف پاکستان لاہور جنوری 1976، ص 39-40)
[6](مثنوی مسافر، ص:63)
[7](سلیمان ندوی سید، سیرِ افغانستان ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، سن ندارد، ص :8)
[8](اقبال ریویو،جنوری 1976، ص:42)
[9](سیرِ افغانستان، ص :9)
[10](محمد اقبال علامہ ،بال جبریل،مشمولہ کلیات اقبال،(اردو) اقبال اکادمی پاکستان لاہور 2018ء، ص:451)
[11]( رفیقی عبدالروف ڈاکٹر ،مشرق کا مقدمہ اور اقبال کا وژن (مقالہ ، غیر مطبوعہ)پیش کردہ قومی اقبال کانفرنس اقبال اکادمی پاکستان لاہور اپریل 2018، ص :1)
[12](سیرِ افغانستان ، ص :51)
[13](محمد اقبال علامہ، ارمغان حجاز،مشمولہ کلیات اقبال،(اردو) اقبال اکادمی پاکستان لاہور 2018ء، ص:713)