روس اور پاکستان کے سماجی و ثقافتی تعلقات میں محمداقبالؒ کا کردار

روس اور پاکستان کے سماجی و ثقافتی تعلقات میں محمداقبالؒ کا کردار

روس اور پاکستان کے سماجی و ثقافتی تعلقات میں محمداقبالؒ کا کردار

مصنف: ڈاکٹرارینااین سرینکو نومبر 2018

(یہ مضمون مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام منعقدہ تین روزہ انٹرنیشنل علامہ محمداقبال کانفرنس اسلام آباد 2017 ءمیں پیش کیا گیا)

محمد اقبالؒ کی میراث ایک روشن ستارے کی مانند ہے جو کہ نہ صرف پاکستان اور مسلمانوں بلکہ دنیا میں بسنے والی کل انسانیت کے لئے ہے- ان کی شاعری اور  فلسفہ، آج دنیا کی ہر ثقافت کا اہم حصہ ہے- امن، محبت اور بھائی چارے سے بھر پور کلام نے مشرق اور مغرب کو آپس میں جوڑا ہے-اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے، محمد اقبال ؒصرف پاکستان کے روحانی بانی ہی نہیں، بلکہ روس اور پاکستان کے سماجی و ثقافتی تعلقات کے حامی ہیں- اگلے سال دونوں ممالک، اپنے تعلقات کے 70سال مکمل کریں گے، جس کے دوران کافی اتار چڑھاؤ آئے، لیکن موجودہ حالات میں ایک مستحکم انداز میں فروغ پا رہے ہیں-

70سال قبل جب علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر ہوئی اور پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ظاہر ہوا، ان کی عظیم شخصیت اور میراث سویت یونین کو اس نئے ملک سے جوڑنے لگی- 1950ء کی دہائی میں ماسکو، دوشنبے، سمر قند اور دوسرے اوریئنٹل سنٹرز کے سکالرز نے اقبال کے فلسفے اور شاعری کو پڑھنا شروع کیا- لیکن روس میں اقبال کا ذکر ایک مشہور اوریئنٹلسٹ و سکالر اے کرمسکی (1871ء-1912ء)نے کیا، جنہوں نے 1912ء میں’’The Development of Metaphysics in Persia‘‘کی بہت تعریف کی اور اس کے مصنف کو کچھ ان الفاظ میں سراہا:

’’یورپی تعلیم یافتہ مسلمان اور میونخ یونیورسٹی میں فلاسفی کے ڈاکٹر[1] ‘‘

اس کے بعد 1930ءکی دہائی میں سویت محقق باراننکو (1890ء-1952ء)، ہیڈ آف انسٹیٹیوٹ آف اوریئنٹل سٹڈیز، سویت یونین اکیڈمی آف سائنس (1938ء-1941ء) جوکہ مشرقی فلسفہ کے ماہر تھے، جنہوں نے اس انسٹیٹیوٹ میں ہندی اور اردو کورسز کا آغاز کیا، انہوں نے بھی جدید ہندی لٹریچر میں اقبال کا تذکرہ کیا‘‘-[2]

بعد میں آنے والے کئی روسی سکالرز جیسا کہ این-انیکیو (N. Anikeyev)، ایل-گورڈن پولونسکایہ(L. Gordon-Polonskaya)، وائے- گینکووسکی(Y. Gankovsky)، این-گلیبوو(N. Glebov این-پریگاریانہ (N. Prigarina وائے- چیلشیو (Y. Chelyshev)، ایف-روزوسکی(F. Rozovskyاے لنوا (A. Ionova ایم-سٹیفنیانتس (M. Stepaniants)، ایل-واسیلئوا(L. Vasilyeva)، ایس-شکرو(S. Shukurov اے-سووروا(A. Suvorova اے-سکھوتچیو(A Sukhotchev)، اے-گافاروو (A. Gafarov)اور بہت سے دانشوروں نے پاکستان کے قومی شاعر اور فلاسفر کے بارے میں لکھا ہے  اور اقبال کے ورثے کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرتے ہوئے انہوں نے روسی عوام کو اقبالؒ کے عظیم کلام سے روشناس کروایا اور دونوں ممالک کی عوام کو سماجی و ثقافتی طور پر قریب لائے‘‘-[3]

اقبالؒ کے اردو، فارسی اور انگریزی کلام کے روسی زبان میں ترجمے پر خاصی توجہ دی گئی اور اس کا آغاز اقبال ؒکی پہلی 43 نظموں کا ترجمہ تھا جو کہ 1956ءمیں شائع ہونے والی کتاب ’’ہندوستان کے شعرا‘‘ اور پھر 1964ء میں ’’بانگ درا‘‘ اور ابھی حال میں اقبالؒ کے مشہور لیکچرز ’’The reconstruction of religious thought in Islam‘‘ کا ترجمہ 2002ء میں شائع ہوا-یہ تمام تراجم، فلسفہ اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے افراد کے لئے بہترین مجموعہ ہے اور یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ روس میں دو کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں-[4]

آپ کو اقبال ؒ سے متعلق یہ تمام کتب ’’انسٹیٹیوٹ آف اوریئنٹل سٹیڈیز رشین اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی پر محقق لائبریری میں ملیں گی، جہاں 6لاکھ سے زائد کتابیں، 3 لاکھ اوریئنٹل پبلیکیشن، جوکہ مختلف مغربی اور اوریئنٹل زبانوں جس میں عربی، بنگالی، گجراتی، ڈاری، کشمیری، پنجابی، فارسی، پشتو، سندھی، اردو، ہندی اور دیگر زبانیں شامل ہیں- یہاں پہ 1000 مستقل پڑھنے والے افراد، جن میں سے 500 ماسکو انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرن کنٹریز، سٹیٹ لومونسیو یونیورسٹی اور 100 سے زائد پوسٹ گریجوٹ طلباء اور 150 طلباء ایسے بھی ہیں جو کہ روس کے دوسرے اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں اور یہاں لائبریری میں موجود کتب منگوا سکتے ہیں-[5]

اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک میموریل لائبریری ہے جو کہ پروفیسر یوری وی گینکوسکی کی یاد میں بنائی گئی، جو کہ روس میں مطالعہ پاکستان کے بانی ہیں- آپ روس پاکستان سوسائٹی کے نائب صدر اور پھر صدر بھی رہے جو کہ 1966ءمیں بنائی گئی- 1966ء-1970ء پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا دور تھا، جوکہ ایک پاکستانی نژاد امریکی سکالر حفیظ ملک کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان حقیقی تعلقات کا دور تھا-[6] ولانوا یونیورسٹی (Villanova University)کے ایک پروفیسر، یوری وی گینکوسکی(Y. Gankovsky) کے بہت اچھے دوست تھے اور وہ 1997ءمیں حفیظ ملک کے دورہ ماسکو کے دوران ہمارے دوست بنے- حفیظ کے مطابق یہ دونوں ایک ہی وقت میں یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھےجوپہلے بہت اچھے دوست اورپھر آپس میں بھائی بن گئے- [7]ان کے زندگی بھر کے اس مضبوط تعلق کے نتیجے میں 2006ء میں ایک کتاب ’’انسائکلو پیڈیا آف پاکستان‘‘ شائع ہوئی، جس پہ وہ 1981ء سے کام کر رہے تھے- اس سے پہلے انگریزی ایڈیشن کی تیاری میں قریباً 20 پاکستانی (ایم-آئی-علی، این- فرخ، اے فاروقی، آر-حسین، ایم-آر-کاظمی، ایس-ٹی- قریشی، کے-کے-ممتاز، ٹی-کے-نعیم، ئی -پراچا) اور 70 روسی سکالرز (V.Y Belokreintsky, S.N- Kamenev, M.Y. Morozova, V.N. Moskalenko, R.M. Mukimjanova, O.V. Pleshov, I.V. Jhmuida) نے اپنی خدمات پیش کیں- بلا شبہ اس کتاب میں علامہ اقبالؒ اور ان کے خاندان کے بارے میں تفصیلات درج ہیں، خصوصی طور پر آپ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال کے بارے میں، جو کہ دونوں مصنفین کے مشترکہ دوست ہیں-[8]

یہاں پہ میں اس چیز کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ اس عظیم شاعر اور مشرق کے مفسر کا ذکر :

The Big Soviet Encyclopedia”, ‘‘The Big Russian Encyclopedia”, “The Philosophical Encyclopedia”, “The Concise Literary Encyclopedia

کے مختلف ایڈیشنز میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ

“The World Urdu and Persian Literature”, “The World Philosophy”, “The Social Sciences

کے یونیورسٹی کورسز اور روسی محققین کی لکھی ہوئی کئی اردو کی کتب میں بھی اقبالؒ کا تذکرہ ہے- [9]

حفیظ ملک ایک اور بہت ہی یادگار کتاب ’’اقبال-شاعر، فلاسفر آف پاکستان‘‘ کے مصنف ہیں- 1971ءمیں لکھی گئی اس کتاب میں 1 7سکالرز نے اس عظیم فلاسفر کی زندگی کے بارے میں لکھا، ان کا تعلق سویت یونین، پاکستان، چیک سولو واکیہ، جرمنی، بھارت اور امریکہ سے ہے- حفیظ ملک نے یہ کتاب اپنے دوست یوری کو یکم دسمبر 1971ءکو پیش کی-

یہ بات بڑی قابلِ فہم ہے کہ اس کتاب میں درج تمام آرٹیکلز میں سے سب سے منفرد اور بہترین ڈاکٹر جاوید اقبال کی اپنے والد کے ساتھ گزرے یادگار لمحے ہیں- خصوصی طور پر دل کو چھو لینے والی وہ نظم ’’والد کی دعا‘‘ جو کہ اقبال نے صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ کل عالم کیلئے انسانیت کا پیغام ہے:

’’انسانیت میں انسان کا احترام ہے-

اس کی آگاہی ضروری ہے کہ فطرت کی منصوبہ بندی میں انسان کی جگہ کیا ہے-

انسانیت، انسان کو بھائی چارے میں باندھتی ہے-

لہٰذا!تم اپنے پاؤں کو ایمانداری کے راستے پہ رکھو‘‘[10]

اس طرح کی کئی اور نظمیں اور اقبال کا اپنا سحر انگیز کلام آپ کو پروفیسر وائے- گرینکوسکی کی جمع شدہ کتابوں میں ملے گا، جن میں زیادہ تر کتابیں انہیں ان کے پاکستانی دوستوں نے بطور تحفہ دیں- ان سب سے نہ صرف ہمیں لائبریری کے مالک کی سائنسی تحقیقات اور سوانح عمری کے بارے میں پتا چلتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی اور ثقافتی میدان میں تعاون کا بھی ادراک ہوتا ہے-

اقبال کے شاندار ورثے کی بدولت آج بھی پاکستان اور روس کے باہمی تعلقت کو فروغ مل رہا ہے- روس اور پاکستان کی مشترکہ سوسائٹی ’’اردو ان ماسکو‘‘ کا قیام 2008ءمیں عمل میں آیا اور یہ ’’پاکستان سوسائٹی اِن ماسکو‘‘ کی ادبی شاخ ہے جو کہ 2005ء سے کام کر رہی ہے اور اسے چلانے میں پاکستانی کمیونٹی اور جنوبی ایشیا پہ مہارت رکھنے والے روسی ماہر شامل ہیں جن میں اوریئنٹل سٹڈیز کے L.A Vasilyeva اور N.I Prigarina بھی شامل ہیں-اس کا مقصد پاکستان اور روس کے ما بین ثقافتی روایات کو اجاگر کرنا، برصغیر کے ادب کو روس میں متعارف کروانا جس میں اقبال کا کلام شامل ہے اور روسی کتب کا اردو میں ترجمہ اور پاکستانی کتابوں کا روسی زبان میں ترجمہ کرنا ہے-

13نومبر 2016ء کو روس میں مشترکہ طور پر اقبال ڈے منایا گیاجس کے منتظمین میں روس میں موجود پاکستانی سفارتخانہ، ’’Interregional Public Organization “Community of Pakistanis پاکستان روس بزنس کونسل، ایسوسی ایشن آف پاکستان گریجویٹس آف رشیا، کلچرل ڈیپارٹمنٹ آف ماسکو گورنمنٹ، غیر سرکاری ادارہ ’’یونین آف رشین رائٹرز، انسٹیٹیوٹ آف اوریئنٹل سٹڈیز، ماسکو اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف ریلیشنز/یونیورسٹی آف فارن افیئرز آف رشیا اور دونوں ملکوں کے دیگر بہت سے سرکاری و نیم سرکاری ادارے شامل تھے- اس پروگرام کو پاکستانی نیوز چینل سچ ٹی وی نے کوریج دی تھی- اس پروگرام کی تفصیلات انسٹیٹیوٹ آف فلاسفی رشین اکیڈمی آف سائنسز کی ویب سائٹ پہ بھی شائع کی گئی-[11]

یہ سال علامہ اقبالؒ کی 140ویں سالگرہ کا سال ہے اور اس سال بھی یہ دن روس میں ایک کتاب کی رونمائی سے منایا جائے گا- کتاب کا نام ’’ایک شاعر-ایک پاک نگاہ‘‘ ہے اور اس کی مصنفہ ’’Lyudmila Avdeeva “ ہیں، جو کہ روسی اور سویت شاعرہ ہیں، URWکی ممبر ہیں اورانہوں نے ایک بڑا عرصہ (1993ء-1997ء) کراچی میں روسی کلچر سنٹر میں اپنے شوہر Gennady Avdeev کے ساتھ اس پر کام کیا-وہ اس دور میں پاکستانی طلباء کی روسی استاد تھی- مصنفہ نے اپنی اس کتاب کو ’’پاکستان کے روحانی باپ‘‘ ایک شاعر اور انسان دوست محمد اقبالؒ کے نام کیا- ادبی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس مصنفہ نے اقبال کی زندگی، میراث اور شخصیت کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا- مصنفہ نے دوسرے شعرا جیسا کہ مرزا غالب (1797ء-1869ء)، مولانہ حالی (1837ء-1914ء)، فیض احمد فیض (1911ء-1984ء) اور مشرق کے دوسرے مصنفوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا- مصنفہ اپنی اس کتاب میں اقبال کی زندگی کو ایک شاعرانہ سفر نامے کی صورت بیان کرتی ہیں اور ان شہروں کا تذکرہ کرتی ہیں، جو کہ اقبال کی زندگی سے جڑے ہیں- اس کتاب میں یہ نظمیں درج ہیں:

’’شاعری کا ستارہ‘‘، ’’اقبال سے مکالمہ‘‘، ’’شاعروں کا نکشتر‘‘، ’’کشمیر کی شاندار دھرتی اقبال کی زبانی‘‘، ’’کائنات اور انسان‘‘، ’’ہماری صدی پرانی صدی سے بہتر نہیں‘‘ ، ’’نئے نغموں کی پکار‘‘-

کتاب کے غیر معمولی حصہ میں ایک نظم ’شاعری کی بہار‘ میں مصنفہ نے اقبال کی شاعری کو بنیاد بنا یا ہے، جو کہ فلسفہ اور روحانیت سے بھر پور ہے، جس میں ’’عشق کے سمندر میں ڈوبا ہوا دل‘‘، ’’اپنی روح کے آیئنے میں جھانکنا‘‘، ’’حقیقت کی جانب سفر‘‘ شامل ہیں- مصنفہ اقبال کو اپنی اس نظم کے ذریعے بیان کرتی ہیں:

’’آپ کی منزل جیسے سورج کی روشنی، مستقبل کی راہ-اقبال آپ ایک سچے اور حقیقی شاعر ہیں- خدا اور اس کے رسول کے ترجمان‘‘-[12]

بلاشبہ یہ کتاب نہ صرف روس اور پاکستان کے سماجی و ثقافتی تعلق کو مضبوط کرے گی بلکہ، ریاستی تعلقات کو بھی دوام بخشے گی-اس کتاب کی تقریب رونمائی 9نومبر 2017ءکو ہوئی، جس میں روس اور پاکستان دونوں سے مقررین نےشرکت کی- روسی محققین، مصنفین، طلبا اور پاکستانی سفارتخانے کی کوششوں کی وجہ سے اب ہر سال روس میں اقبال ڈے منایا جاتا ہے- ان تمام سرکاری اور عوامی تقریبات کی بدولت دونوں ممالک میں باہمی ہم آہنگی، دوستی، کثیر جہتی تعاون، عوامی اعتماد و رابطہ، اپنی تاریخ سے آگاہی، ثقافت اور دونوں اطراف کے رہن سہن کو سمجھنے کا موقع ملے گا-

اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے، ماسکو میں 5-6 اکتوبر 2017ء کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ’’اسلامی تاریخ و سوچ میں جہد اور انقلاب‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف فلاسفی رشین اکیڈمی آف سائنسز اور فنڈ آف دی اسلامک کلچر ریسرچ نے مشرکہ طور پر کیا- اس کانفرنس میں اقبال پر گفتگو کرنے والے درج ذیل مشہور روسی سکالرز  شامل ہیں جو کہ سب اقبال کے خاندان کے دوست ہیں:

M.T. Stepanyants (“Revolution, Traditionalism, Reformism in creative work of Muhammad Iqbal”), L.A. Vasilyeva  and  N.I. Prigarina (Revolution in Pholsophy and Poetry of Muhammad Iqbal: Experience of Cognitive-Discursive Analysis)[13]

میری خوش قسمتی کہ میرا اقبال کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال سے میل جول رہا، جو کہ دو سال قبل 2015ءمیں انتقال کر گئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اقبال کے پوتے ولید اقبال سے بھی میل جول رہا جن کا انسٹیٹیوٹ آف اوریئنٹل سٹیڈیز کے زیرِ انتظام منعقدہ کانفرسز میں شرکت کے لئے روس آنا جانا رہا-[14]

اس وقت سے لے کر ہم اچھے دوست بن گئے-اس سے مجھے ایک ممتاز شاعر اور متحرک سیاسی رہنما علامہ محمد اقبال کی عظیم شخصیت کو اچھی طرح سے جاننے کا موقع ملااور اسی دوران مجھے علامہ محمد اقبال کو بحیثیت ایک بڑے کنبہ کے سربراہ ایک والد اور ’’پاکستان کے روحانی باپ‘‘[15]کے طور پر جاننے کا بھی موقع ملا اور آپ نے ایک علیحدہ آزاد اور پرامن وطن کی تشکیل کے خواب کو جو اقبال نے دیکھا تھا کو شرمندہ تعبیر بنانے کی بھر پور کاوش کی- اس میں مزید اضافہ کرتا چلوں کہ میں آپ کے پوتے ولید اقبال کا انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے میری تحقیق کو بعنوان پاکستان کا تعلیمی نظام کے حوالے سے نہ صرف سراہا بلکہ ایک تدریسی کتاب کی نادر کاپی بھی عنایت کی جس میں اقبال کا مضمون بعنوان اقبال کا تعلیمی فلسفہ(1987ء) چھپا تھا جس میں اقبال کے تعلیمی ورثہ کا تذکرہ تھا جس کے بارے میں تدریسی دانشور اور عام رہنما گزشتہ عرصے میں عملی طور پر نا واقف تھے-[16]اس اہم مواد اور اس کے علاوہ علامہ اقبال کا شاہکار ’’اسلام میں مذہبی تصور کی تشکیل نو‘‘ نے مجھے میری دو کتب پاکستان میں تعلیمی نظام پر تحریر کرنے کے حوالے سے حددرجہ مدد فراہم کی-[17]اقبال کا یہ تصور کہ مسلم اُمہ کو جدید مغربی اور یورپین ثقافت، سائنسی اور تحقیق یعنی علم سے فائدہ اٹھانا چاہیے جس سے اسلامی ثقافت کے کچھ پہلوؤں میں نہ صرف بہتری آئے گی بلکہ اس سے شعبہ تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور مربوط کرنے کا بھی سنہری موقع ملے گا-[18]

چنانچہ بغیر کسی تضادی خوف کے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے جدید تعلیمی تصورات اور اس کے علاوہ مسلم مصلح سید احمد خاں(1817ء-1898ء) جس کا دوسویں پیدائش کا دن اس سال منایا گیا کے نظریات نے بابائے قوم محمد علی جناح (1876ء-1948ء) کو پاکستان میں تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر راغب کیا جو قائداعظم کے اس قول کے حوالے سے مطابقت رکھتا ہے کہ:

’’ان خطوط پر جو ہماری تاریخ ثقافت اور جدید حالات اور دنیا بھر میں ہونے والی وسیع تر سائنسی اور علمی ترقی سے مطابقت رکھتے ہوں‘‘-[19]

مزید برآں ہم کَہ سکتے ہیں کہ اقبال کا تصورِ اخوت، انسانیت اور امن جو جدید تعلیمی نظریہ کے عالمی شہرت کے تصور، عالمی امن، برداشت، انسانی ترقی اور طویل تر اور دیر پا ترقی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے- جس کا تذکرہ انچیان ڈیکلیریشن اور 481 ینیسکوUNESCO ممبر ریاستوں کے 2030 ڈھانچہ برائے علم جو4نومبر2015ء میں پیرس میں اختیار کیا گیا -[20]

یہ تعلیم کی عالمی حکمت عملی سماجی انصاف اور مساوات، ثقافتی تنوع اور برداشت، مشترکہ ذمہ داری اور محاسبہ کے اہم انسانی اصولوں پر مبنی ہے-یہ عالمی حکمت عملی اقبال کی جامع تعلیمی فلسفہ اور تجربہ کی عکاسی کرتی ہے جس کا مزید تجزیہ کرنے اور عملی اطلاق کی ضرورت ہے-یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اقبال کی شہنشاہ محمد نادر شاہ کو پیش کردہ تعلیمی اصلاحات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے- 10اکتوبر1933ء کو اپنے جاری کردہ بیان میں علامہ اقبال نے اس بات کا پرزور اظہار کیا کہ تعلیم یافتہ افغانستان ہندو پاک کا بہترین دوست ثابت ہو گا-ہندوستان جو اس وقت برطانوی سامراج کے قبضے میں تھا اور قومی تحریک آزادی اس وقت برصغیر میں اپنے پورے جوش و خروش سے جاری و ساری تھی-[21]علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیاء کا دِل قرار دیا اور اس ملک کے استحکام کو سارے ایشیائی خطے کیلئے لازم و ملزوم ٹھہرایا-اس لیے اس علاقہ میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ برداشت، رواداری،مشترکہ ذمہ داری اور محاسبہ کے ذریعے علاقائی شہریت کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے علاقائی عناصر کو ایک مشترکہ اور اعلیٰ مقصد کے لیے یکجا جانیئے تاکہ وسطی اور جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک بشمول روس میں امن، استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنایا جائے اور اقبال کے تعلیمی نظریات اس مد میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں-

ان تمام نکات کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اقبال کے فلسفیانہ کام کو ان کی شاعری سے قطعاً جدا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی شاعری دقیق اور پیچیدہ، دانشورانہ، فلسفیانہ نظریات کو بہترین فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کا ذریعہ ہے- دنیا کے لوگوں کو جذباتیت کی غیر معمولی اور اکسیر طاقت سے اثر انداز کرنے کے لیے شاعری آپ کا بہترین ہتھیار ہے اور اس کا جدید دنیاجو ایک گلوبل ویلج یا عالمی گاؤں کا روپ دھار چکی ہے سے بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ آپ کے اشعار میں آزادی، امن، سماجی انصاف اور انسانیت کے لیے لڑائی کا بھرپور جذبہ اور لگن پیدا کرتی ہے-[22]

اس میں کوئی ایسے اچھنبے کی بات نہیں کہ اقبال کا عملی و تعلیمی ورثہ پاکستان اور روس کے درمیان سماجی و ثقافتی تعلقات کی مضبوط بنیادیں کھڑی کرنے میں ایک مؤثر آلہ ثابت ہوا جو عصر حاضر میں بھی دونوں ممالک کے درمیان عالمی و علاقائی شہریت کے تناظر میں باہمی کثیر الجہتی روابط و تعاون کے حوالے سے بھی خطوط استوار کرتے ہوئے نظر آتا ہے-تمام حقائق کی روشنی میں اس کا اظہار انیسویں نوجوانوں اور طالب علموں کے عالمی فیسٹیول2017ء کے دوران بمقام سوچی (15تا22اکتوبر 2017ء) روس میں کیا گیا جس میں دنیا بھر کے 180ممالک بشمول پاکستان کے شرکاء و وفود نے اس میگا ایونٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا-اس میں دنیا بھر میں امن،آزادی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اعادہ کیا اور اپنے جذبات و احساسات کا مظاہرہ کیا-یہ کسی حد تک بڑا علامتی نظر آتا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں اور طالب علموں کے عالمی فیسٹیول2017ء(جس کی میزبانی روس نے کی)دونوں نے اس سال(2017ء)سترہویں سالگرہ منائی-اس کا انعقاد اس بنیادی سلوگن کے تحت تھا اس استحکام اور سماجی انصاف کے لئے ہم ملوکیت کیخلاف آواز اٹھائیں گے اور عملی اقدامات کریں گے-تابناک ماضی پہ ہم روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں گے-حقیقی طور پر تو شاید سنائی نہیں دیتا لیکن یہ بات کانوں میں گونجتی ہے کہ یہ اقبال کی اس نظریہ کی عکاسی کرتی ہے جس میں وہ نوجوان نسل اور انسانیت سے یہی اپیل کرتے نظر آئے ہیں کہ ’’محبت فاتح عالم‘‘- آج ہم علامہ اقبال کو خراج تحسین دینے کے حوالے سے مسلم انسٹیٹیوٹ کی میزبانی میں عالمی کانفرنس میں جو اکٹھے ہوئے ہیں وہ بھی عالمی شہریت کے پلیٹ فارم پر ایک اور میگا ایونٹ میں ہمارے اتحاد و یگانگت کی عکاسی کرتی ہے-چنانچہ بین الاقوامی و ریاستی تعلقات و روابط کو مزید فروغ اور مستحکم کرنے کے حوالے اس بات کا اصرار کیا جاتا ہے کہ انسانی ذرائع و سفارتکاری سے پوری طرح لیس ایسے مشترکہ تعلیمی، سائنسی، علمی، ثقافتی تبادلہ اور منصوبہ جات کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اقبال کے انسانیت پرور نظریات کی روشنی میں ماضی کے تعصبات اور منفی رجحانات کا خاتمہ کیا جا سکے اور ہم اپنے مستقبل کو روشن بنا سکے-

٭٭٭


[1](Krymsky A. E. The History 0f Persia, Its Literature and Its Dervish Theosophy. M., 1912. Vol.2, p. 111.)

[2](A.P. Barannikov is the author and the editor of numerous books, vocabularies, articles on Oriental Philology, such as: Hindustani: Urdu and Hindi. Leningrad, 1934; Indian Philology. Literature Study. Moscow, 1959. Beskrovny V.M., Krasnodembski V.E. Urdu-Russian Vocabulary. Ed. by Barannikov A.P. M., 1951; etc.)

[3](Among numerous books devoted to Iqbal`s poetry and philosophy it is worth mentioning the following works of the Soviet and Russian scholars: Anikeyev N. P. The Outstanding Thinker and Poet Muhammad Iqbal. M. 1959, The Doctrine of Personality. //Iqbal: Poet-Philosopher of Pakistan. Ed. by Hafeez Malik. New York and London: Columbia University Press, 1971, pp. 264-284 ; Gankovsky Y. V., Gordon-Polonskaya L.R. The History of Pakistan. Moscow, 1961. /Published in English – Washington, 1966; Lahore, 1972; published in Pushto – Kabul, 1987; Gordon-Polonskaya L.R. Muslim trends in Indian and Pakistani Social Thought. A Critical Study of Muslim Nationalism. M., 1963; Glebov N.V. Iqbal M. //Encyclopedia of Pakistan. Ed. by Gankovsky Y. V. Moscow, 1998, pp. 506-509; Stepaniants M.T. Philosophy and Sociology in Pakistan. Moscow, 1967; Pakistan: Philosophy and Sociology. Moscow, 1971/Published in English – Lahore, 1972; Iqbal  the Great. /Oriental College Magazine. Muhammad Iqbal Centenary Number. Lahore, 1977, pp. 219-226; The Philosophical Aspects of Sufism. New Delhi, 1989; Islamic Philosophy and Social Thought (XIX-XX Centuries). Lahore, 1989; Prigarina N.I. Ghalib and Iqbal. A Comparative Study of Styles. //Soviet Review 16. Vol. YI. New Delhi, 1969, pp. 41-50; The Poetry of Muhammad Iqbal. 1900-1924. Moscow, 1972; Perfect Man - Sign of Revolution. //Viewpoint. Lahore, 1978. Vol. III, N 39, p. 24; The ‘Perfect Man’ in Iqbal`s Poetry and Muslim Tradition. //Proceedings of Thirty First International Congress of Human Sciences in Asia and North Africa. Tokyo-Kyoto, 1983. Vol. I. Tokyo, 1984, p. 556; The Problems of Interpreting Iqbal`s Poetry at the End of the 20th Century. //Iqbal and Modern Era. Proceedings of an International Symposium. Gent, Belgium, 18-19 November, 1997. Ed. by Muhammad Suheyl Umar. Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2006, pp. 91-101; The Creative Work of Muhammad Iqbal. A Collection of Articles. //Ed. by Prigarina N.I. Moscow, 1982; The Work of Muhammad Iqbal. A Collection of Articles by Soviet Scholars. //Ed. by Abdur Rauf Malik. Lahore: People`s Publishing House, 1983, etc.)

[4](The Poetry of Indian poets. M., 1956; The Sound of Caravan`s Bell. Moscow, 1964. Muhammad Iqbal. The Reconstruction of Religious Thought in Islam. //Preface, translation and comments by Stepaniants M.T. Moscow, 2002.)

[5](For more details see: Victor Nemchinov. Orientalist and the Book: Reflections on Changing Role of Libraries in the Information Field of the 21st Century. Eastern Analytics. Issue 2, 2016. Moscow: IVRAN RU, 2017, pp. 7-17. 556)

[6](Hafeez Malik. Pakistan’s Troubled Relations with the Soviet Union. //Domestic Determinants of Soviet Foreign Policy towards South Asia and the Middle East. London, 1990, p. 170.)

[7](Hafeez Malik. The Soviet Union, Russia: Yuri and I. A memoir. //Journal of South Asian and Middle Eastern Studies. Vol. XXXV, No. 3. Spring 2012, pp. 56-75. Professor Hafeez Malik also remembered his friend and academic colleague while paying tribute to Professor Gankovsky`s great contribution to the world knowledge about Pakistan and Afghanistan during the International Memorial Conference held in Moscow in 2010. For more details about it see: Kamenev S.N. International Memorial Conference (April 2010), Dedicated to the 90th Anniversary of Late Professor Yuri V. Gankovsky. //Op. cit., pp. 47-55.)

[8](The Encyclopedia of Pakistan”. Ed. by Yuri V. Gankovsky  and Hafeez Malik. Karachi , 2006.)

[9](The latest ones, for example: The New Philosophical Encyclopedia.4 volumes. Moscow, 2010. With on-line version: https://iphlib.ru/greenstone3/library/collection/newphilenc/page/about; Melekhina N.V. Urdu for Regional Studies Experts. Textbook for the Second and Third Years of Study. Moscow: MGIMO, 2014.)

[10](Javid Iqbal. Iqbal: My Father //Poet-Philosopher of Pakistan. Ed. by Hafeez Malik. New York and London: Columbia University Press, 1971, pp.56-65.)

[11](http://bsv.ivran.ru/novosti?artid=5820; http://www.suchtv.pk/videos/item/45823-event-organised-for-tribute-to-alama-iqbal-in-moscow.html)

[12](Avdeeva L. The Poet – the All-Seeing Eye. Moscow, 2017.)

[13](For more information see this conference on-line: https://iphras.ru/revolutionevolution.htm; https://iphras.ru/page20973280.htm)

[14](For more information about it see: Iqbal W. Pakistan-Russian Relations //Pakistan, the States of South Asia and Middle East: History and Present. Collection of Articles in Memoriam of Prof. Yuri V. Gankovsky. Moscow, 2004, pp. 87-97; Creation of Pakistan. Op. cit., pp. 147-149.)

[15](Douglas W.O. Foreword. //Poet-Philosopher of Pakistan. Ed. by Hafeez Malik. New York and London: Columbia University Press, 1971, p. IX.)

[16](Saiyidain K.G. Iqbal`s Educational Philosophy. Lahore: Shama Publications, 1987.)

[17](Serenko I.N. Education System in the Islamic Republic of Pakistan. Moscow, 2006; Formation and Development of Women Education in the Islamic Republic of Pakistan (Education Policy and Public Reaction). Moscow, 2016.)

[18](Muhammad Iqbal. The Reconstruction of Religious Thought in Islam. //Preface, translation and comments by Stepaniants M.T. Moscow, 2002, p. 30.)

[19](Quaid-i- Azam Mohammad Ali Jinnah. Speeches as Governer-General of Pakistan 1947-1948. Karachi, 1962. P. 36.)

[20]( Incheon Declaration Education 2030: Towards inclusive and equitable quality education and lifelong learning for all// http://www.unesco.org/world-education-forums-2015/incheon-declaration)

[21](Hafeez Malik and Linda P. Malik. The Life of the Poet-Philosopher //Poet-Philosopher of Pakistan. Ed. by Hafeez Malik. New York and London: Columbia University Press, 1971, p.32.)

[22](Anikeyev P. N. The Doctrine of Personality. // Iqbal: Poet-Philosopher of Pakistan. Ed. by Hafeez Malik. New York and London: Columbia University Press, 1971, p. 284.)

محمد اقبالؒ کی میراث ایک روشن ستارے کی مانند ہے جو کہ نہ صرف پاکستان اور مسلمانوں بلکہ دنیا میں بسنے والی کل انسانیت کے لئے ہے- ان کی شاعری اور  فلسفہ، آج دنیا کی ہر ثقافت کا اہم حصہ ہے- امن، محبت اور بھائی چارے سے بھر پور کلام نے مشرق اور مغرب کو آپس میں جوڑا ہے-اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے، محمد اقبال ؒصرف پاکستان کے روحانی بانی ہی نہیں، بلکہ روس اور پاکستان کے سماجی و ثقافتی تعلقات کے حامی ہیں- اگلے سال دونوں ممالک، اپنے تعلقات کے 70سال مکمل کریں گے، جس کے دوران کافی اتار چڑھاؤ آئے، لیکن موجودہ حالات میں ایک مستحکم انداز میں فروغ پا رہے ہیں-

(یہ مضمون مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام منعقدہ تین روزہ انٹرنیشنل علامہ محمداقبال کانفرنس اسلام آباد 2017 ءمیں پیش کیا گیا)

70سال قبل جب علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر ہوئی اور پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ظاہر ہوا، ان کی عظیم شخصیت اور میراث سویت یونین کو اس نئے ملک سے جوڑنے لگی- 1950ء کی دہائی میں ماسکو، دوشنبے، سمر قند اور دوسرے اوریئنٹل سنٹرز کے سکالرز نے اقبال کے فلسفے اور شاعری کو پڑھنا شروع کیا- لیکن روس میں اقبال کا ذکر ایک مشہور اوریئنٹلسٹ و سکالر اے کرمسکی (1871ء-1912ء)نے کیا، جنہوں نے 1912ء میں’’The Development of Metaphysics in Persia‘‘کی بہت تعریف کی اور اس کے مصنف کو کچھ ان الفاظ میں سراہا:

’’یورپی تعلیم یافتہ مسلمان اور میونخ یونیورسٹی میں فلاسفی کے ڈاکٹر[1] ‘‘

اس کے بعد 1930ءکی دہائی میں سویت محقق باراننکو (1890ء-1952ء)، ہیڈ آف انسٹیٹیوٹ آف اوریئنٹل سٹڈیز، سویت یونین اکیڈمی آف سائنس (1938ء-1941ء) جوکہ مشرقی فلسفہ کے ماہر تھے، جنہوں نے اس انسٹیٹیوٹ میں ہندی اور اردو کورسز کا آغاز کیا، انہوں نے بھی جدید ہندی لٹریچر میں اقبال کا تذکرہ کیا‘‘-[2]

بعد میں آنے والے کئی روسی سکالرز جیسا کہ این-انیکیو (N. Anikeyev)، ایل-گورڈن پولونسکایہ(L. Gordon-Polonskaya)، وائے- گینکووسکی(Y. Gankovsky)، این-گلیبوو(N. Glebov این-پریگاریانہ (N. Prigarina وائے- چیلشیو (Y. Chelyshev)، ایف-روزوسکی(F. Rozovskyاے لنوا (A. Ionova ایم-سٹیفنیانتس (M. Stepaniants)، ایل-واسیلئوا(L. Vasilyeva)، ایس-شکرو(S. Shukurov اے-سووروا(A. Suvorova اے-سکھوتچیو(A Sukhotchev)، اے-گافاروو (A. Gafarov)اور بہت سے دانشوروں نے پاکستان کے قومی شاعر اور فلاسفر کے بارے میں لکھا ہے  اور اقبال کے ورثے کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرتے ہوئے انہوں نے روسی عوام کو اقبالؒ کے عظیم کلام سے روشناس کروایا اور دونوں ممالک کی عوام کو سماجی و ثقافتی طور پر قریب لائے‘‘-[3]

اقبالؒ کے اردو، فارسی اور انگریزی کلام کے روسی زبان میں ترجمے پر خاصی توجہ دی گئی اور اس کا آغاز اقبال ؒکی پہلی 43 نظموں کا ترجمہ تھا جو کہ 1956ءمیں شائع ہونے والی کتاب ’’ہندوستان کے شعرا‘‘ اور پھر 1964ء میں ’’بانگ درا‘‘ اور ابھی حال میں اقبالؒ کے مشہور لیکچرز ’’The reconstruction of religious thought in Islam‘‘ کا ترجمہ 2002ء میں شائع ہوا-یہ تمام تراجم، فلسفہ اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے افراد کے لئے بہترین مجموعہ ہے اور یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ روس میں دو کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں-[4]

آپ کو اقبال ؒ سے متعلق یہ تمام کتب ’’انسٹیٹیوٹ آف اوریئنٹل سٹیڈیز رشین اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی پر محقق لائبریری میں ملیں گی، جہاں 6لاکھ سے زائد کتابیں، 3 لاکھ اوریئنٹل پبلیکیشن، جوکہ مختلف مغربی اور اوریئنٹل زبانوں جس میں عربی، بنگالی، گجراتی، ڈاری، کشمیری، پنجابی، فارسی، پشتو، سندھی، اردو، ہندی اور دیگر زبانیں شامل ہیں- یہاں پہ 1000 مستقل پڑھنے والے افراد، جن میں سے 500 ماسکو انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرن کنٹریز، سٹیٹ لومونسیو یونیورسٹی اور 100 سے زائد پوسٹ گریجوٹ طلباء اور 150 طلباء ایسے بھی ہیں جو کہ روس کے دوسرے اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں اور یہاں لائبریری میں موجود کتب منگوا سکتے ہیں-[5]

اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک میموریل لائبریری ہے جو کہ پروفیسر یوری وی گینکوسکی کی یاد میں بنائی گئی، جو کہ روس میں مطالعہ پاکستان کے بانی ہیں- آپ روس پاکستان سوسائٹی کے نائب صدر اور پھر صدر بھی رہے جو کہ 1966ءمیں بنائی گئی- 1966ء-1970ء پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا دور تھا، جوکہ ایک پاکستانی نژاد امریکی سکالر حفیظ ملک کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان حقیقی تعلقات کا دور تھا-[6] ولانوا یونیورسٹی (Villanova University)کے ایک پروفیسر، یوری وی گینکوسکی(Y. Gankovsky) کے بہت اچھے دوست تھے اور وہ 1997ءمیں حفیظ ملک کے دورہ ماسکو کے دوران ہمارے دوست بنے- حفیظ کے مطابق یہ دونوں ایک ہی وقت میں یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھےجوپہلے بہت اچھے دوست اورپھر آپس میں بھائی بن گئے- [7]ان کے زندگی بھر کے اس مضبوط تعلق کے نتیجے میں 2006ء میں ایک کتاب ’’انسائکلو پیڈیا آف پاکستان‘‘ شائع ہوئی، جس پہ وہ 1981ء سے کام کر رہے تھے- اس سے پہلے انگریزی ایڈیشن کی تیاری میں قریباً 20 پاکستانی (ایم-آئی-علی، این- فرخ، اے فاروقی، آر-حسین، ایم-آر-کاظمی، ایس-ٹی- قریشی، کے-کے-ممتاز، ٹی-کے-نعیم، ئی -پراچا) اور 70 روسی سکالرز (V.Y Belokreintsky, S.N- Kamenev, M.Y. Morozova, V.N. Moskalenko, R.M. Mukimjanova, O.V. Pleshov, I.V. Jhmuida) نے اپنی خدمات پیش کیں- بلا شبہ اس کتاب میں علامہ اقبالؒ اور ان کے خاندان کے بارے میں تفصیلات درج ہیں، خصوصی طور پر آپ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال کے بارے میں، جو کہ دونوں مصنفین کے مشترکہ دوست ہیں-[8]

یہاں پہ میں اس چیز کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ اس عظیم شاعر اور مشرق کے مفسر کا ذکر :

The Big Soviet Encyclopedia”, ‘‘The Big Russian Encyclopedia”, “The Philosophical Encyclopedia”, “The Concise Literary Encyclopedia

کے مختلف ایڈیشنز میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ

“The World Urdu and Persian Literature”, “The World Philosophy”, “The Social Sciences

کے یونیورسٹی کورسز اور روسی محققین کی لکھی ہوئی کئی اردو کی کتب میں بھی اقبالؒ کا تذکرہ ہے- [9]

حفیظ ملک ایک اور بہت ہی یادگار کتاب ’’اقبال-شاعر، فلاسفر آف پاکستان‘‘ کے مصنف ہیں- 1971ءمیں لکھی گئی اس کتاب میں 1 7سکالرز نے اس عظیم فلاسفر کی زندگی کے بارے میں لکھا، ان کا تعلق سویت یونین، پاکستان، چیک سولو واکیہ، جرمنی، بھارت اور امریکہ سے ہے- حفیظ ملک نے یہ کتاب اپنے دوست یوری کو یکم دسمبر 1971ءکو پیش کی-

یہ بات بڑی قابلِ فہم ہے کہ اس کتاب میں درج تمام آرٹیکلز میں سے سب سے منفرد اور بہترین ڈاکٹر جاوید اقبال کی اپنے والد کے ساتھ گزرے یادگار لمحے ہیں- خصوصی طور پر دل کو چھو لینے والی وہ نظم ’’والد کی دعا‘‘ جو کہ اقبال نے صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ کل عالم کیلئے انسانیت کا پیغام ہے:

’’انسانیت میں انسان کا احترام ہے-

اس کی آگاہی ضروری ہے کہ فطرت کی منصوبہ بندی میں انسان کی جگہ کیا ہے-

انسانیت، انسان کو بھائی چارے میں باندھتی ہے-

لہٰذا!تم اپنے پاؤں کو ایمانداری کے راستے پہ رکھو‘‘

واپس اوپر